ہوم << مایوسی سے امید کا سفر - ریاض علی خٹک

مایوسی سے امید کا سفر - ریاض علی خٹک

ریاض خٹک وہ پریشان تھا، غصہ تھا، احساس بے بسی تھا، آفس میں نئے پراجیکٹ پر باس سے تلخی پر یہ نوبت آگئی کہ ان آفیشل استعفیٰ دے دیا، کہہ دیا کہ میں اس ٹیم کا مزید حصہ نہیں. گھر پر آیا تو بیوی سے ایک گھریلو مسئلہ پر نوبت یہاں تک آئی کہ وہ ماں کے گھر جانے پر تیار ہوگئی. بچے الگ سہمے ہوئے.
گھٹن سی ہونے لگی، گھر سے بنا سوچے سمجھے نکل آیا، نیم تاریک گلیوں میں چلتے چلتے دور نکل آیا، کیا ہوگا؟ کیریئر ہاتھ سے نکلتا محسوس ہو رہا ہے. گھر میں ناچاقی نکل آئی. بچوں کی تعلیم، ماحول، دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا.
ایک نیم تاریک سڑک پر موڑتے کسی نے آواز دی. ”سنو پتر جی.“ دیکھا تو ایک بڑی بی اور بڑے میاں سامان کا ایک بڑا بیگ اٹھائے کھڑے تھے. اُس نے پوچھا جی فرمائیں. بی بی نے ایک کاغذ کا ٹکڑا دیتے کہا پتر اس جگہ جانا تھا، دوسرے شہر سے آئے ہیں، رکشہ والا اتار گیا، اب گھوم رہے ہیں، کوئی پتہ نہیں چل رہا.
اُس نے پرچی روشنی کی طرف کر کے پتہ دیکھا، یہ ہمنام علاقوں کا مسئلہ تھا، وہ ساتھ والی بستی تھی.
اُس نے انھیں تسلی دی اور کہا چلیں میں آپ کے ساتھ جاتا ہوں. اچانک دل میں آیا کہ بلاوجہ خوار ہونے سے بہتر ہے کہ ان بزرگوں کو ہی منزل پر پہنچا دوں. بڑے میاں کے نہ نہ کرتے بھی اُس نے بیگ اٹھا کر کندھے پر ڈالا، اور گلیوں گلیوں اس دوسری بستی لے گیا، یہ گنجان علاقہ ہے، مگر پوچھتے وہ اس گھر کی دہلیز پر پہنچ گئے.
وہاں انھیں ملوا کر وہ چلنے لگا تو بڑے میاں نے گلے لگایا، اور بڑی بی نے ڈھیر ساری دعائیں دی. اُسے لگا جیسے اُس کے سینے میں ٹھنڈک اتر رہی ہو. کچھ دیر پہلے کا غصہ، بے بسی، لاچاری اور مسقبل کا خوف کچھ بھی نہ تھا. بس ایک سرور سا اترتا محسوس ہوا. واپس آتے اچانک فون کی گھنٹی بجی. سکرین دیکھی تو باس تھے، کال ریسیو کرتے اُس نے بہت اعتماد محسوس کرتے یہی سوچا کہ زیادہ کیا کہہ سکتے ہیں. یہی کہ کل استعفیٰ لیتے آنا. پر وہاں سے معذرت آئی. انہوں نے کہا کہ ابھی گھر پر سارے معاملے پر دوبارہ سوچا، مجھے احساس ہوا کہ تم اس پراجیکٹ پر درست رائے رکھتے ہو. میری غلطی تھی تو برادر معذرت کہ میں کچھ زیادہ بول گیا تھا. اب یہ تیرا پراجیکٹ ہے.
وہ حیرت سے سُن رہا تھا، جوابی معذرت و شکریہ ادا کر کے بیگم کو فون کیا کہ چلیں اب وہ وہاں معذرت کرلے اور لے آئے. مگر پتہ چلا کہ وہاں کھانے پر انتظار ہو رہا ہے. کبھی کبھی اچانک موسم بدلتا ہے. حالات بدل جاتے ہیں. تب کہیں آس پاس اس سے بچنے کی چھتری بھی ہوتی ہے. بس اس چھتری کو فوری لپک کر تھام لیں.

Comments

Click here to post a comment