Tag: امریکی صدارتی الیکشن

  • صلیبی جنگوں کے آخری راؤنڈکی تیاری – مولانا محمد جہان یعقوب

    صلیبی جنگوں کے آخری راؤنڈکی تیاری – مولانا محمد جہان یعقوب

    محمد جہان یعقب امریکامیں صدارتی انتخابات کامرحلہ مکمل ہوچکاہے اور ”خلاف توقع“ ایک سینئرسیاست دان کو ہرا کر ایک سرمایہ کار برسر اقتدار آ چکا ہے۔ امریکی الیکشن میں دل چسپی لینے والے اہل وطن کی اکثریت ٹرمپ کی جیت کوملکی سلامتی کے لیے نیک شگون قرارنہیں دیتی، ان کاخیال ہے کہ اگر ہیلری کلنٹن کامیاب ہوجاتیں تو پاکستان کے حق میں بہتر ہوتا۔ ان کا تاثر یہ ہے کہ برا ہوا جو ٹرمپ کامیاب ہوگیا۔ حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکا جس ٹریک پر چل چکا ہے، اب وہاں کوئی بھی حکمران آئے، وہ اس سے نہیں ہٹ سکتا، امریکا کے پالیسی ساز کئی کئی برسوں کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان پالیسی سازوں کے رگ و ریشے میں پاکستان اور اسلام دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، جس کے مطابق وہ پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد بش، کلنٹن، اوباما، تمام صدور اسی پالیسی کے مطابق زمین ہموار کرنے کے لیے برسراقتدار لائے گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کواقتدار تفویض کیا جانا بھی اسی منصوبہ بندی کی ایک کڑی ہے۔ اگر وہ یہ کہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو امریکا میں داخل نہیں ہونے دے گا، پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر سخت نظر رکھے گا، بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا، تو اوبامانے کیا یہ سب کچھ نہیں کیا تھا؟ کیا ان سب اقدامات میں ہیلری اس کے ساتھ برابر کی شریک نہیں تھی؟ اب ان لوگوں کی خوش فہمی بھی دور ہوجانی چاہیے جو امریکی عوام کو کلین چٹ دیا کرتے تھے کہ امریکی عوام کھلے دل والے لوگ ہیں۔ ٹرمپ کے انتخاب سے اندازہ ہوگیا کہ وہ مسلمانوں کے لیے کیا عزائم رکھتے ہیں، ان کی جیت نے امریکی ووٹرز کے اندر کے بغض خصوصاً مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کو سب پر عیاں کر دیاہے۔

    ٹرمپ کوجس منظرنامے میں اقتدار مل رہاہے، وہ یہ ہے کہ امریکا مسلم دشمنی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور اس نے مقامی مخالفین، چاہے وہ حکمران ہوں یا اپوزیشن، کو ساتھ ملا کر مسلم ممالک میں تباہی و بربادی، قتل عام اور مسلم کشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں سب سے بڑا اتحادی اور فرنٹ مین قرار دینے کے باوجود امریکا نے ہمیشہ دھوکا دیا، افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھایا اور اب مکمل طور پر اپنا جھکاؤ بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف کر دیا۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ نہ صرف نیوکلیئر انرجی تعاون کا معاہدہ کیا بلکہ اسے نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں شامل کرنے کے لیے مہم چلائی۔ ملک کو اندرونی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی، ڈرون حملے میں گھروں کے گھر اجاڑ دیے، ڈالروں کی چکا چوند اور امداد کے موہوم سراب دکھا کر ہمارے حکمرانوں کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال کیا۔ پہلے پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا، پھر مذہبی انتہا پسندی، لسانی تعصب اور حقوق کی عدم فراہمی کے کارڈز استعمال کرکے ہمارے ہی بھائیوں کو ہمارے خلاف کھڑا کیا، پھر ان ہی کے خلاف ہمیں لڑنے کا حکم دیا، یوں وزیرستان ہو یا بلوچستان، جنوبی پنجاب ہو یا سندھ ، مقتل کا منظر پیش کرتے رہے، جس میں قاتل بھی ہم اور مقتول بھی ہم ہی تھے۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج کی دوراندیشی سے اب صورت حال کچھ بہتر ہوئی ہے، ورنہ اپنے مفادات کے اسیر سیاست دانوں نے تو عملی طور پر ملک کو امریکی باج گزاری میں دے ہی ڈالا تھا۔

    ہمیں ان کے غم میں نہیں گھلناچاہیے۔ ”بیگانی شادی“ میں ہی”دیوانے“ ہوتے رہے تو خاکم بدہن ہمارا حال اور بھی ابتر ہوجائے گا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو درست خطوط پر استوار کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان اور اسلام کے خلاف لب و لہجہ بتاتا ہے کہ اب امریکا صلیبی جنگوں کا آخری راؤنڈ کھیلنے جا رہا ہے۔ امریکا ایک حقیقت ہے، اس کی طاقت اور عالمی منظر نامے پر اس کے اثر و رسوخ کو جھٹلانا خود فریبی کے مترادف ہے، لیکن خارجہ پالیسی کی تطہیر ضروری ہے۔ ہمیں دنیا کی انصاف پسند رائےعامہ کوساتھ ملا کر اپنی پوزیشن مضبوط بنانی ہوگی، اس کے لیے ضروری ورک ناگزیر ہے۔ پاکستان نے جب کبھی بھی ایسا کوئی اسٹینڈ لیا، اس کے دل خواہ نتائج سامنے آئے۔زیادہ پرانی بات نہیں جب وطن عزیز کی طرف سے نیٹو کی سپلائی بند کی گئی تھی تو امریکی اور اتحادی منت سماجت پر اترآئے تھے کہ رسد نہ ہونے کے باعث افغانستان میں پھنسی امریکی فوج کو شدید دشواری کا سامنا ہے۔ شومیِ قسمت، ہم ہی اپنی بات پر نہ جم سکے ورنہ عالمی تجزیہ کاروں نے کہہ دیا تھا کہ یہ رسد اگرچند دن نہ کھلتی تو امریکیوں کو دن میں تارے نظر آنے تھے۔ پاکستان اسی طرح ہرمعاملے میں استقامت کے ساتھ امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے سامنے ڈٹ جاتا، تو کوئی بعید نہیں تھا کہ امریکا ہمیں اپنی کالونی بنانے کے خبط سے نکل کر برابری کی سطح پر ہم سے ڈائیلاگ کرتا۔ ہماری خارجہ پالیسی آقا اور غلام کے بجائے اتحادی ہونے کی بنیاد پر استوار ہونی چاہیے، تاکہ ہم اس سے کچھ اپنی بھی منواسکیں، ہم اس سے شکوہ بھی کرسکیں اور اس کے غلط کو غلط بھی کہہ سکیں، جس طرح ایران کا امریکا کے ساتھ معاملہ ہے۔ کاش! ہمارے حکمران ایران سے ہی ملی وملکی غیرت وحمیت مستعار لے لیں، آخر قومی ضمیر کا یہ سودا کب تک ہوتا رہے گا؟ یکطرفہ ٹریفک کا سلسلہ اب روکنا ہوگا، ورنہ ملک مزید انتشار کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ غیروں کو آلہ کار ہماری درمیان سے کیوں مل رہے ہیں؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ محرومیوں کا ازالہ اور حقوق کی فراہمی کسی بھی ملک دشمن کے عزائم ناکام بنانے کا کارگر طریقہ ہے، ہمارے مسائل کی بہت بڑی وجہ امریکی مداخلت بھی ہے، جس کا توڑ بھی اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تمام ہم وطنوں کو ان کے جائز حقوق دیں، ان کی محرومیوں کا ازالہ کریں، بےلاگ عدل اور انصاف کی فراہمی کو اپناشعار بنائیں۔

    یہاں ہم ایک دوسری بات کی طرف بھی توجہ مبذو ل کرناچاہتے ہیں، کہ گورنر سندھ کی برطرفی کی ایک اہم وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ وہ ایم کیوایم کو پرویزمشرف کو تھالی میں رکھ کر پیش کرنا چاہتے تھے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ دبئی بھی اسی مقصد سے گئے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو مستقبل میں کہیں ایک بار پھر یہ بزدل کمانڈو، جو ایک فون کال پر ڈھیر ہوگیا تھا، ہماری ملکی تقدیر کا مالک نہ بن جائے۔ پالیسی ساز ادارے یقیناً باخبر ہیں اور ان سے یہی اپیل اور توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اس ”طالع آزما“ کا راستہ روکیں گے، جس نے امریکی ایما پر ڈرون اور خودکش حملوں کی دلدل میں وطن عزیز کو دھکیلا۔

  • تارکینِ وطن اور ٹرمپ – راؤ‌ کامران علی

    تارکینِ وطن اور ٹرمپ – راؤ‌ کامران علی

    راؤ کے علی ڈونلڈ ٹرمپ نے معذوروں کی نقل اُتاری، خواتین کی بےحُرمتی کی، کالوں کا تمسخر بنایا، ہسپانیوں اور میکسیکن کو ”ریپسٹ“ اور چور کہا اور ان کے لیے دیوار بنانے کا اعادہ کیا، مسلمانوں کو دہشت گرد اور فساد کی جڑ قرار دیا، لیکن گوروں کی تعریف کی اور انھیں سُہانے خواب دکھائے، جس کے باعث گوروں نے اُسے صدر چُن لیا۔ اس صورتحال میں دیکھا جائے تو گورے، انتہائی خود غرض، مطلب پرست، جاہل اور عورت کی حُکمرانی کو حقیر ماننے والے لوگ ہیں۔

    چلیں اب ایک منٹ کے لیے فرض کرتے ہیں کہ
    یہی ٹرمپ معذروں کی نقل اُتارتا ہے، خواتین کی بےحُرمتی کرتا ہی، کالوں کا تمسخر بناتا ہے، ہسپانیوں اور میکسیکن کو ریپسٹ اور چور کہتا ہے اور ان کے لیے دیوار بنانے کا اعادہ کرتا ہے، لیکن اس بار وہ مسلمانوں اور گوروں، دونوں کی تعریف کرتا ہے اور انھیں سُہانے خواب دکھاتا ہے، تو کیا مسلمان اُسے صدر چُنیں گے؟ جی یقیناً چُنیں گے۔ تو کیا اب مسلمان بھی گوروں کی طرح انتہائی خود غرض، مطلب پرست، جاہل اور عورت کی حُکمرانی کو حقیر ماننے والے لوگ کہلائیں گے؟ ظاہری سی بات ہے کہ اس کا جواب ہے”نہیں“۔ یہ اپنے اپنے مفادات کی جنگ ہے جو کہ دُنیا کے ہر مُلک اور خطے میں لڑی جاتی ہے۔ گوروں نے اپنا مفاد دیکھا اور ”رنگ داروں“ نے اپنا۔

    یاد رہے کہ راقم بھی دیگر مسلمانوں کی طرح ہیلری کلنٹن کی حمایت میں آگے آگے تھا اور وجہ وہی ہے جو اوپر بتائی گئی ہے کہ ٹرمپ نے ہمیں مُنہ نہیں لگایا۔ بظاہر لگتا تھا کہ ٹرمپ بےوقوف اور مشتعل مزاج انسان ہے لیکن اس نے بڑی چالاکی سے %0.9 مسلمانوں، %13 کالوں اور %16 ہسپانیوں کو امریکہ کی ترقی اور برائے نام عظمت کی زوال پذیری کا باعث قرار دے کر %70 سے زائد سفید فام ووٹرز اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ %58 گوروں نے اسے ووٹ تو دیے ہی مگر%30 ایشین اور %30 ہسپانوی ووٹ بھی لے اُڑا (اصل ”پٹواری“ تو ہسپانوی ہوئے، اتنی بے عزتی کے بعد بھی تیس فیصد لوگ ٹرمپ کے ساتھ)۔ یاد رہے کہ ہندوستانی بھی ٹرمپ کے حق میں تھے۔

    ہم امریکہ میں تارکینِ وطن ہیں اور رہیں گے، جب تک ہم اپنے بچوں کی گوروں سے شادیاں کرکے ایک نئی کارٹون نما نسل پیدا نہ کرلیں، اور یہ کارٹون نما نسل بھی کوئی ایک دو نسلوں کے بعد ”اصلی امریکی“ کہلائے گی، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ہاں کئی ”اصلی شاہ“ بنتے ہیں اور چونکہ ہمارے سامنے بنتے ہیں، اس لیے ہم ان کے ”اصلی“ ہونے کی گواہی دے سکتے ہیں۔ کارٹون نما نسل کیسی ہوتی ہے:؟ اس کا نمونہ ٹی وی پر ”انکل الطاف“ یا ”چاچا عمران“ کہتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔

    تارکینِ وطن کو زمینی حقائق کے مطابق زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ تارکینِ وطن کا بھٹو زندہ رہتا ہے نہ ہی لوہار ہمیشہ کے لیےگلے کا ہار بن سکتا ہے۔ تارکینِ وطن نہ تو ٹرمپ کے گھر کے سامنے دھرنا دے سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا لیڈر ایسا مجمع اکھٹا کرکے ”بچہ پیدا کرنے کے طریقے“ بیان کرسکتا ہےجس میں خود بچے بھی سُن رہے ہوں۔ حکومت کی پالیسیوں پر ہر حال میں عمل کرنا پڑتا ہے تاہم آزادی اظہار کے طور پر اپنی آواز مُناسب طریقے سے بُلند کی جا سکتی ہے۔

    مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں نے اس الیکشن جس اتحاد اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا، ان کی اثر اندازی اور ان کے علاقوں میں ہیلری کے ووٹوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مُشکل نہیں کہ اگلے الیکشن میں کم از کم دس سیٹوں پر پاکستانی ایوانِ زیریں (House of Representative) کا الیکشن لڑ سکتے ہیں۔

    اب وقت ہے کہ آنے والی ری پبلکن حکومت کی جیت کا کھُلے دل سے خیر مقدم کرکے اس کے ساتھ بہترین تعلقات بنائے جائیں اور بہتر تعلقات کے لیے بہترین پلیٹ فارم استعمال کیے جائیں۔ زندہ قومیں زندہ فیصلوں سے زندہ رہتی ہیں۔ بیدار مغزی ، سمجھداری اور مُلک و قوم کی بہتری جذباتی وابستگیوں سے بڑھ کر ہے۔ خدا ہمیں مناسب وقت پر مناسب فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین

    (راؤ کامران علی امریکہ میں مقیم ہیں)

  • قصرِابیض میں ٹرمپ کی آمد – محمد عمار احمد

    قصرِابیض میں ٹرمپ کی آمد – محمد عمار احمد

    عمار احمد کئی ماہ سے جاری مباحثوں، تجزیوں اورانتخابی مہم کے بعد9 نومبر2016ء کو امریکی عوام نے اپنے صدر کا انتخاب کر لیا۔ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں میں امریکی عوام نے بالخصوص اپنی اور بالعموم پوری دنیا کی تقدیر تھما دی۔ دنیا بھر میں اس وقت اہم موضوع ٹرمپ کی بطور امریکی صدر کامیابی ہے۔ عالمی میڈیا اور خود امریکی ذرائع ابلاغ ٹرمپ کے متشدد رویے اور متنازعہ شخصیت ہونے اور سیاسی ناتجربہ کاری کے سبب قریباََ پُریقین تھے کہ وہ انتخاب ہارجائیں گے۔ ہیلری کلنٹن نرم خو، سنجیدہ، بطور وزیرِخارجہ خدمات سرانجام دینے کے سبب تجربہ کار اور بہتر امیدوار تھیں، مگر کیا کیجیے کہ جمہوریت میں ایسی شکست کسی کو بھی ہوسکتی ہے، چاہے اس کی پشت پر باراک اوباما ہی کیوں نہ ہو۔

    یورپ، اسلامی دنیا اور سنجیدہ طبقات ٹرمپ کی جیت پر پریشان ہیں جبکہ بھارت جیسی ریاستیں خوش ہیں کہ ٹرمپ کے ساتھ معاملات بہتر سمت میں چلیں گے۔ اسلامی دنیا کی پریشانی بجا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے خلیجی ریاستوں سے تعلقات پر کچھ معاملات میں نظرِثانی کی باتیں کیں جبکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرے انداز میں تقاریر کیں۔ یورپ اور دیگر ممالک بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ اگرٹرمپ نے مسندِ صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے متشد درویے میں تبدیلی نہ لائی تو دنیا کے حالات کس رخ پر جائیں گے۔دوسری طرف بھارت کی خوشی بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس خطہ میں ٹرمپ کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو وہ یقینا بھارت کو ہی مناسب سمجھے گا۔پاکستان کو نظرانداز کرنا بھی آسان نہیں مگر اس صورت میں بھی بھارت سے تعلقات کی اہمیت پاکستان سے زیادہ ہوگی۔ روس نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب امریکہ سے بامعنی بات چیت ہوگی۔ افغان طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرمپ امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کا اعلان کریں۔

    نومنتخب صدر نے کامیابی کے بعد تقریر میں اپنے عمومی مزاج سے ہٹ کر بلا تفریق مذہب، رنگ اور نسل کے امریکہ کی خدمت کرنے کا عزم کیا جو کہ خوش آئند ہے۔ یہ کہنا کہ قبل از وقت ہوگا کہ مزاج میں یہ تبدیلی وقتی ہے یا پھر پالیسی بناتے وقت بھی اسی مزاج سے کام کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز میں انتخابی مہم چلائی، وہ خاصی خطرناک اور نفرت انگیز تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کی کامیابی پر دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مقتدر حلقوں کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں کا موضوعِ گفتگو بھی یہی ہے کہ نجانے اب کیا ہوگا؟ امریکہ سے مسلمانوں کو بےدخل کرنے، مسلمانوں کو ویزوں کا اجرا روکنے نیز نسلی تعصب پر مبنی بیانات ٹرمپ کی انتخابی مہم کا حصہ تھے۔ ٹرمپ کی کامیابی پر کئی لوگوں کو دکھایا گیا جو دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ تجارتی محاذ بھی خاصا سرد رہا جس سے عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس قدر لوگ امریکہ سے ہجرت کرنے کے خواہش مند ہیں کہ کینیڈا کی مائیگریشن ویب سائٹ کریش کرگئی۔

    نومنتخب صدر کو امریکی عوام اور دنیا بھر کے سنجیدہ طبقات کے خدشات و تحفظات کو مدِنظر رکھ کر حکمتِ عملی مرتب کرنا ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو دنیا میں پہلے سے موجود فساد، ظلم اور نفرتیں مزید بڑھیں گی جس کی لپیٹ میں خود امریکہ بھی آئے گا۔ دنیا کے موجودہ خراب حالات کی ذمہ داری بھی امریکہ پر ہے۔ امریکہ ہی نے نائن الیون کے بعد صلیبی جنگ کی ابتدا کی اور افغانستان و عراق میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی غلط پالیسیوں کے سبب دنیا کو آج داعش جیسی تنظیموں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ لیبیا، شام اور یمن میں آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔ یورپ اور امریکہ بھی وقتاََ فوقتاََ اس آگ کا ایندھن بنتے رہتے ہیں۔ اگر ٹرمپ نے موجودہ پالیسیوں کو ہی جاری رکھا یا متشدد پالیسی اختیار کی تو اس کا نقصان جہاں دوسرے مذاہب اور خطوں کو ہوگا وہیں امریکہ و یورپ بھی اسی آگ میں جھلسیں گے۔ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک سے بہتر تعلقات لازمی ہیں۔

    صدارتی انتخاب کے روز قصرِابیض کے سامنے ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی جو یقینا مہذب دنیا کی طرف سے’’جمہوریت کے حسن‘‘ کا اظہار تھا۔ ٹرمپ بھی اپنی جیت کے واضح امکانات سے پہلے بیانات دیتے رہے کہ حالات دیکھ کر الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کروں گا۔ دنیا کو رواداری، برداشت اور جمہوریت کا سبق دینے والے اس طرح کے واقعات کی کیا تاویل پیش کریں گے؟ یہاں امریکہ و یورپ کی تہذیب، عورتوں کی برابری کی مثالیں دینے والوں کو سوچنا چاہیے کہ امریکی معاشرے کی اکثریت نے ایک عورت کو مسترد کر کے عورتوں کے خلاف غلط زبان استعمال کرنے، گالیاں دینے والے اور نفرت پھیلانے والے مَرد کو اپنا صدر کیوں بنایا؟ پاکستانی عوام کو متشدد مزاج کہنے والوں سے ایک سوال ہے کہ کیا پاکستان کی ’’تشدد پسند عوام‘‘ صدر، وزیرِاعظم تو الگ کسی ایسے شخص کو صوبائی و قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے بھی ووٹ دے گی جو یہ نعرہ لے کر سیاست میں آئے کہ میں فلاں مذہب، فلاں فرقہ کے لوگوں کو اپنے ملک سے نکال دوں گا؟

  • ویلکم مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ – انعام الحق مسعودی

    ویلکم مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ – انعام الحق مسعودی

    انعام مسعودی ولایت میں چند برس گذارنے کے دوران اپنے دوستوں کو اسلامی شریعت کی اصطلاح ”دارلکفر“ اور ”دارالاسلام“ کا فرق سمجھاتا رہا۔ ایک بڑی تعداد ”گلے گلے“ تک اس تصور میں دھنسی ہو ئی ہے کہ پاکستان سمیت اکثر ”دارالاسلاموں“ کی نسبت انصاف پسند مغربی معاشرہ ہزار گنا بہتر ہے۔ ان کے خیال میں مغربی لوگ جھوٹ نہیں بولتے، چوری بازاری اور بےایمانی ان کا شیوہ نہیں، مفافقت نہیں کرتے، بہت مہذب ہیں اور برداشت کا مادہ رکھتے ہیں، شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی بے مثال ہے، جمہوریت اور احتساب کا نظام بہترین ہے، ترقی ان کے مرہون منت ہے اور ہم تو صرف ”لینے والی“ طرف ہیں، مزید یہ کہ وہ ”دینے والی“ طرف، جبکہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اگراچھی طرح تبلیغ کی جائے تو مغرب مسلمان بن جائے گا اور صرف کلمہ پڑھنے سے وہاں اسلامی شریعت عملاً نافذ ہو جائے گی، کیونکہ ان کے باقی ”اوصاف ِحمیدہ“ تو عین مطابقِ شریعت ہیں، بس کلمہ پڑھنے کی دیر ہے، اسی لیے ہم تو بس اب ولایتی ہیں (اصل اصطلاح جس پر زور دیا جاتا ہے وہ ہے برٹش مسلم، سکاٹش مسلم، امریکن مسلم وغیرہ )۔ ویسے بھی اسلام میں وطن پرستی حرام ہے، بچے عربی سیکھ لیں، دین اور اسلام خود بخود سمجھ آجائے گا۔ اسی لیے عربی کی کلاسوں پر زور دیتے ہیں (چاہے وہاں بھی کلاسوں کا ماحول ”فُل ولایتی“ ہو )۔ ہمارا اور ہمارے بچوں کا دیس اب یہی ہے۔ پاکستان سے ہمارا کیا لینا دینا؟ پاکستان میں رکھا کیا ہے؟ رشتہ داروں کی نظر ہماری دولت پر ہوتی ہے اور وہ دھوکے اور فراڈ سے باز نہیں آتے، اسی لیے ہر رشتہ مطلبی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی خیال کے مطابق وہاں کی اکثریت اُٹھتے بیٹھتے پاکستان کو کوستی رہتی ہے۔ ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ کو ن سی بُرائی ہے جو کہ پاکستان میں نہیں ہوتی۔ جنہیں انگور کا رس چاہیے ہے وہ بھی ملتا ہے، جو کسی ناری کی مہکتی ہوئی خوشبووں کے اسیر ہیں وہ پا لیتے ہیں، پاکستان کے وزیر ، سیاستدان اور معاشرہ سب کرپٹ ہیں اس لئے ہم نے تو اب بس یہیں بسنا ہے۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ ان باتوں میں کچھ نہ کچھ وزن بھی ہے، پاکستانی معاشرہ واقعی چند خرابیوں میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اخلاقی طور پر زوال پذیر ہے۔ تاہم مغربی جمہوریت کتنی آزاد اور انصاف پسند ہے اس کا مکمل جائزہ کسی ایک نشست میں لینا ممکن نہیں۔ اگر برطانیہ اور امریکہ کے قصیدہ خوان وہاں کی ان دیکھی اسٹیبلشمنٹ اور اس کی ترجیحات کا جائزہ لینا چاہیں تو برطانیہ اور امریکہ میں ہو نے والے سابقہ الیکشنز کو قریب سے دیکھ لیں یا پھر حال ہی میں ہونے والے ”بریگزٹ“ کے معاملے کو تو ان ممالک کی اصل حکمران قوتوں کے بار ے میں اندازوں سے بڑھ کر حقائق معلوم ہو ں گے۔ امریکہ کے حالیہ الیکشنز کے معاملے میں بھی ہمارے ولایتی بھائی اور ہمارا میڈیا حقیقت پسندی کے بجائے اپنی خواہشات اور جذبات کا اسیر دکھائی دیتا ہے۔ میرے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ کا جیتنا مسلمانوں اور باالخصوص پاکستانیوں کے لیے اس لحاظ سے شاید بہتر ثابت ہو کہ برطانیہ کے مسلمانوں کی طرح ان کی آنکھیں بھی کھل جائیں۔ اس میں کو ئی دوسری رائے نہیں کہ عرصہ دراز سے مغرب میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد ایک کثیر زرمبادلہ پاکستان بھیج رہی ہے تاہم اس کے باجود یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں مقیم پاکستانی وہاں کی معیشت میں بھی ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

    ٹرمپ کے جیتنے کی صورت میں ایک قابل غور توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں سے خوفزدہ پاکستانی واپسی کے بارے میں ایک بار ضرور سوچیں گے۔ میرے کئی دوست اس پر مجھ سے اظہار خیال کر چکے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ برطانیہ میں موجود میرے کئی دوست گذشتہ تین سالوں میں ”نفرت انگیزی“ یا Hate Crimes کی وجہ سے وطن واپسی یا پھر جزوی طور پر یہاں پر بھی اپنے لیے دروازے کھلے رکھنے کےراستے پر گامزن ہیں۔ بالکل اسی طر ح ”اب کی بار – ٹرمپ سرکار“ کے آتے ہی امریکہ سے بھی پاکستانیوں کی ایک بڑ ی تعداد وطن واپسی یا پھر یہاں پر اپنے لیے قابل عزت آپشنز بنانے پر غور کرے گی۔ کیا پاکستان کی حکومت اور یہاں کے پالیسی ساز ادارے اس پر سوچ رہے ہیں کہ وہ کیسے ان پاکستانیوں کو وہ سب سہولتیں دینے کا اہتمام کریں کہ جس سے یہاں پر ایک اچھی اور مثبت معاشی سرگرمی پیدا ہو۔ لیکن کیا کہیے کہ یہاں پر حالات ایسے بالکل بھی نہیں دکھ رہے۔ بلکہ یہاں پر تو پہلے سے موجود سی پیک کی وجہ سے پیداہونے والے سرمایہ کاری کے مواقع سے اپنے مقامی سرمایہ کاروں کو اور ملک کو فائدہ پہنچانے کے لیے سرے سے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کی گئی۔ ایک دوست نےچند روز قبل لاہور میں ہونے والی ایک کنسٹرکشن کانفرنس اور اس میں بین الاقوامی اداروں کے مقابلے میں مقامی سرمایہ کاروں کے احوال سے متعلق جو صورتحال بتائی ہے اس پر الگ سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ لگتا یہ ہے کہ چین کی جانب سے ہمارے ملک میں لگائے جانے والے تنور میں ایندھن کے طور پر تو ہم جلیں گے مگر روٹیاں کوئی اور پکائے گا اور فروخت کسی اور کو ہوں گی، ہمارےحصے کی بھوک ہم ہی بھگتیں گے۔ ہمیشہ کی طرح ”ہر بحران میں سے اچھائی کے مواقع“ موجود ہونے کی صورت میں ٹرمپ کی جیت پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے جو مواقع لائی ہے، ہم اور ہمارا ملک اس کے لیے بالکل بھی تیار نہیں۔ اگر ہم تیار ہوتے تو میں بہت پُرجوش ہو کر تمام پاکستانیوں کی طرف سے بھرپور نعرہ لگا کر کہتا، ”ویلکم مسٹر ڈونلڈٹرمپ“

    (انعام الحق مسعودی ماس کمیونیکیشن میں گریجوایشن کے ساتھ برطانیہ سے مینیجمنٹ اسٹڈیز میں پوسٹ گریجوایٹ ہیں۔ گذشتہ سترہ برس سے سوشل سیکٹر، میڈیا اور ایڈورٹائزنگ انڈسٹری سے منسلک ہیں اور ایک پروڈکشن ہاؤس چلانے کے ساتھ ساتھ رفاہی اور سماجی تنظیموں کے لیے بطور فری لانس اور ٹرسٹی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔)

  • ہیلری کلنٹن کی شکست یا صنفی امتیاز – مزمل فیروزی

    ہیلری کلنٹن کی شکست یا صنفی امتیاز – مزمل فیروزی

    مزمل احمد فیروزی ہیلری کی شکست امریکہ میں بسنے والے لوگوں کی سوچ کی عکاس ہے لہذا گمان کیا جا سکتا ہے کہ یہاں کی عوام سوچ کے لحاظ سے کسی طور آزاد نہیں. ایک خاتون کو بطور حکمران قبول کرنا ان کے ہاں بھی منظور نہیں، شاید یہ لوگ اب بھی خاتون کی ماتحتی کے قائل نہیں۔ ایک شخص جس کے بیانات خواتین کے لیے انتہاپسندانہ تھے، اسے امریکی عوام نے منتخب کرلیا اور ایک خاتون امیدوار کو مسترد کردیا۔ اس تاریخی الیکشن کے فیصلے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا جس میں سے ایک سنجیدہ سوال یہ ہے کہ ایک خاتون امریکہ کی صدر کیوں نہیں بن سکتی؟

    مغرب ہمیشہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کااستحصال کیا جاتا ہے اور انہیں یہاں آزادانہ نقل و حرکت میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں ساٹھ کی دہائی میں ایک خاتون صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئی تھی اور پھر 80 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو وطن عزیز کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں جبکہ امریکی عوام نے خاتون امیدوار کو مسترد کر دیا۔ امریکہ میں جہاں خواتین کے مساوی حقوق کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، وہاں 1920ٰء تک خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق تک حاصل نہیں تھا، 1920ء کے بعد سے اب تک کوئی خاتون صدر کے الیکشن تک نہیں پہنچ سکی تھی، اب جبکہ ایک صدی بعد ایک خاتون اس مقام تک پہنچی تو امریکی عوام نے اسے مسترد کر کے یہ بات ثابت کردی کہ کہ امریکیوں کے ہاں بھی عورت حکمرانی کے قابل نہیں۔ امریکہ میں صنف نازک تا حال مسائل کا شکار ہے اور آج بھی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ نام نہاد آزادی اور حقوق نسواں کا علمبردار امریکہ نسل پرستی اور صنفی امتیاز میں کسی طور پیچھے نہیں ہے۔ یہ فرق اور ظلم وستم کسی رنگ، نسل معاشرے یا نظریے تک محدود نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک جو ساری دنیا کو انسانیت، تہذیب اور برابری کا درس دیتے ہیں، ان کے ہاں خواتین پر ظلم و ستم کی شرح باقی دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

    امریکہ میں عورتوں کی حالت زار کے متعلق نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے، ان میں سے ایک تہائی خواتین کو زیادتی کے دوران تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتاہے، اس رپورٹ کے مطابق ہر سال 13لاکھ امریکی خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں، ان میں سے 12فیصد لڑکیوں کو اس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب ان کی عمر 10سال سے بھی کم ہوتی ہے. ایک سروے کے مطابق گزشتہ سال کالج جانے والی ہر چار میں سے ایک لڑکی پر جنسی حملہ کیا گیا جبکہ 27 فیصد کالج خواتین کو ہراساں کیا گیا، اور ایک سروے کے مطابق ہر 16میں سے 15 زیادتی کے نشانے بنانے والے مجرم آزادانہ گھوم رہے ہیں۔گزشتہ 15 سالوں میں امریکہ کی 13 ہزار سے زائد خواتین کو ان کے موجودہ یا سابقہ (شوہر کہنا غلط ہوگا کیونکہ یہ لوگ تو بغیر شادی کے ساتھ رہتے ہیں) پارٹنر کے ہاتھوں قتل ہونا پڑا، اسی ترقی یافتہ دیس میں ہی تقریبا 5 کروڑ خواتین ہر سال اپنے پارٹنر کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہیں جبکہ ہر 3 میں سے ایک امریکی عورت کو اس کا شوہر تشدد کا نشانہ بناتا ہے جبکہ ہر روز خواتین کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سچی کہانی پر مبنی ایک فلم The General’s Daughter دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس فلم میں جس طرح ایک امریکی فوجی خاتون کے حقوق پامال ہوتے دکھائےگئے اور کس طرح اس کے باپ نے عہدے کی خاطر اپنے آپ کو خاموش رکھا، اس کا اندازہ آپ کو فلم دیکھنے کے بعد ہی ہوگا۔ عورتوں اور مردوں کے مساوی حقوق کا راگ الاپنے والے امریکہ میں اس وقت کام کرنے والی خواتین کا معاوضہ مردوں سے کم ہے، یہاں تک کہ دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہالی وڈ میں کام کرنے والی اداکاراؤں کا معاوضہ بھی مرد اداکاروں سے بہت کم ہے۔

    آج خاتون امریکی امیدوار کی شکست پر مہم میں شامل خواتین ہی آنسو بہاتی نظر آتی ہیں جبکہ مرد حضرات جشن مناتے نظر آ رہے ہیں، دوسری جانب امریکی کانگریس میں بھی خواتین کی نمائندگی مردوں کی نسبت کم ہے۔ امریکن خواتین بہت پر امید تھیں کہ اس بار ان کی نمائندگی تسلیم کی جائے گی مگر افسوس کہ امریکن ایوان صدر میں ان کے اندر کے احساسات اور جذبات نتائج آنے کے بعد ان کے آنسوؤں میں یکسر دُھل گئے ہیں۔ اگرچہ امریکی سیاست میں امریکی خواتین ہمیشہ سے متحرک رہی ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی خواتین کو کلیدی عہدوں سے آج تک دانستہ دور رکھا گیا ہے، جس کی زندہ مثال حالیہ الیکشن میں بین الاقوامی شہرت کی حامل ایک متحرک خاتون کی شکست ہے۔

  • ٹرمپ کی صدارت میں ایک نئی رکاوٹ – عمران عمر جانباز

    ٹرمپ کی صدارت میں ایک نئی رکاوٹ – عمران عمر جانباز

    20160828_122458 جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہیلری کلنٹن نے پاپولر ووٹ ٹرمپ سے زیادہ حاصل کیے ہیں لیکن چونکہ امریکہ میں صدر کا انتخاب پاپولر ووٹ کی بجائے الیکٹورل کالج پر بیس کرتا ہے اور ٹرمپ کے زیادہ نمائندے الیکٹورل کالج کے لیے منتخب ہوئے ہیں، اس لیے اس کے صدر بننے کے چانس زیادہ ہیں. میں نے جان بوجھ کر چانس کا لفظ استعمال کیا ہے. یوں سمجھیے کہ امریکہ میں عوام ڈائریکٹ صدر اور نائب صدر کو منتخب نہیں کرتے بلکہ ایک باڈی کو منتخب کرتے ہیں جسے الیکٹورل کالج کہتے ہیں. امریکہ کے عوام ہر اسٹیٹ سے اپنے اپنے نمائندہ اس باڈی کے لیے چنتے ہیں جو صدارتی امیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں. الیکٹورل کالج کے ٹوٹل 538 ممبرز ہوتے ہیں جن میں 435 سٹیٹس سے منتخب ہوکر آتے ہیں جبکہ کولمبیا اسٹیٹ کے تین اضافی ممبر ہوتے ہیں. اس کے علاوہ سینٹ کے 100 ممبرز بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں.

    اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہیلری نے (%47.7) اور ٹرمپ نے (%47.4) پاپولر ووٹ حاصل کیے ہیں یعنی ہیلری نے ٹوٹل ووٹ زیادہ حاصل کیے ہیں لیکن اصل فیصلہ الیکٹورل کالج کے نمائندوں نے کرنا ہے جہاں ٹرمپ کے حمایتی 290 اور ہیلری کے 228 جیتے ہیں. اگرچہ 290 نمائندے ٹرمپ کی کمپین اور حمایت کے نتیجے میں جیتے ہیں لیکن کیا ان کے لیے ٹرمپ کی حمایت میں صدارت کا ووٹ ڈالنا لازم ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لازم نہیں ہے. یہ نمائندے اگر چاہیں تو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہیلری کو بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں.

    19 دسمبر کو الیکٹورل کالج کے نمائندوں نے صدارتی امیدواوں کو ووٹ ڈالنا ہے. یہ امیدوار اگر اسی نمونے پر چلیں جس پر ان کی سٹیٹ کے لوگوں نے ووٹ ڈالا ہے تو ٹرمپ جیت جائےگا لیکن اس وقت امریکہ میں کچھ لوگ یہ تحریک چلا رہے ہیں کہ یہ نمائندے ٹرمپ سے بغاوت کر کے ہیلری کو ووٹ ڈالیں. یہ تحریک کامیاب ہوگی یا نہیں، اس کا حتمی نتیجہ تو 19 دسمبر کو سامنے آئے گا لیکن بہرحال امریکہ کے انٹلیکچولز اور سڑکوں پر احتجاج کرتے مظاہرین کے لیے امید کا ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ضرور ہے.

    امریکی انٹلیکچولز ٹرمپ کی صدارت سے اتنا خوف زدہ کیوں ہیں؟ اور عوام سڑکوں پر پرتشدد احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟ اس کی وجہ صاف واضح ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ٹرمپ نے امریکی معاشرے کو انتہائی حد تک تقسیم کر دیا ہے اور اس کی پالیسیز تیزی سے زوال پذیر سپر پاور کی طاقت کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنیں گی.

    (عمران عمر جانباز ایک شاعر اور قلم کار ہیں جن کی زندگی کا کا بڑا حصہ پاکستان اور آسٹریلیا میں مختلف خیراتی اور اسلامی اداروں کی تعمیر و تشکیل میں گزرا ہے. اپنے حالیہ قیام پاکستان کے دوران بھی یتیم بچوں کی نگہداشت کے ایک ادارے سے رضاکارانہ طور پر منسلک ہیں.)

  • امریکہ میں صدارتی الیکشن کے بعد ہنگامے کیوں ہوئے؟ ابومحمد مصعب

    امریکہ میں صدارتی الیکشن کے بعد ہنگامے کیوں ہوئے؟ ابومحمد مصعب

    ابومصعب اگر آپ یہاں واشنگٹن پوسٹ کے دیے گئے لنک پر کلک کریں گے تو بالکل حیران نہیں ہوں گے کیوں کہ ویڈیو میں جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہ ہم اور آپ بارہا اپنے ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور وغیرہ میں دیکھ چکے ہیں۔ دوکانوں کے شیشے لاٹھیوں سے توڑے جا رہے ہیں، سڑک کے درمیان چیزوں کو رکھ کر نذرآتش کیا جا رہا ہے، ایک شخص کو آپ درخت کو آگ لگاتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مظاہرین کا بس ایک ہی نعرہ ہے:
    Not my President
    یعنی ٹرمپ ہمارا صدر نہیں ہے۔

    امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج سے لوگ اتنے اپ سیٹ ہیں کہ کئی لوگوں کو اپنے ٹی وی سیٹ توڑتے، لیپ ٹاپس کے اوپر ڈنڈے برساتے اور دھاڑیں مار مار کر روتے دکھایا گیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کو صدر ٹرمپ بھی بڑی حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور جیت کی خوشی میں ان کی کھلی باچھیں ابھی اپنی جگہ پر بھی نہ آئی تھیں کہ ہنگاموں کے پھوٹنے پر حیران و پریشان ہیں۔ لوگ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ٹرمپ کے خلاف نہ صرف مظاہرے کر رہے ہیں بلکہ غم و غصہ میں بھرے لوگ ہنگامے بھی کر رہے ہیں۔ ٹرمپ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اور کئی ریاستوں میں ان کی فلک بوس عمارتیں ہیں۔ لوگوں نے ان عمارتوں کے باہر جمع ہو کر بھی اپنی نفرت اور غصہ کا اظہار کیا ہے۔ اسی لیے نو منتخب صدر ٹرمپ نے تازہ ٹوئٹ کیا ہے کہ اس قدر واضح جیت کے باوجود جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نہایت افسوسناک ہے، وہ میڈیا کے مقرر کردہ لوگوں کی ایما پر ہو رہا ہے۔ مسٹر ٹرمپ کے الفاظ:
    Just had a very open and successful presidential election. Now professional protesters, incited by the media, are protesting. Very unfair!

    یہ سب کیوں ہوا؟ جمہوری ملک میں جمہوری مزاج رکھنے والے عوام کو آخر ٹرمپ کی جیت کیوں ہضم نہیں ہوئی؟ جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ امریکہ میں چاہے صدر جو بھی آئے، بادشاہ گروں کی طرف سے اس کے پیچھے ایک لمبی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ لابنگ کرنے والی فرموں کو اپنا اپنا گھوڑا جتوانے کے لیے ہائر کیا جاتا ہے، مہمات لانچ کی جاتی ہیں اور میڈیا کے ذریعہ ملک کے اندر ایک عمومی فضا بنا دی جاتی ہے کہ فلاں تو آیا ہی آیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر میڈیا ٹاکس، صحافیوں کے تجزیے اور سروے، مس کلنٹن کی جیت کی خوشخبری سنا رہے تھے، مگر الیکشن کے رزلٹ نے عوام کو حیران و پریشان کر دیا، اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ آج سے بارہ تیرہ سال قبل کسی فلم میں یا ویڈیو گیم میں مسٹر ٹرمپ کو امریکی صدارتی دوڑ میں شامل دکھایا گیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اویں ای تھا؟

    آخر میں یہ بات کہ امریکی عوام کی اکثریت نے مس کلنٹن پر ڈونلڈ ٹرمپ کو کیوں ترجیح دی؟ اس کا جواب ہے کہ امریکی عوام کے ساتھ جارج بش کے بعد اوبامہ کی صورت میں ہاتھ ہو چکا ہے۔ لوگ جارج بش کی امریکی فارن پالیسی سے خوش نہیں تھے جبکہ وہ قوتیں جو اسی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتی تھیں، جانتی تھیں کہ اگر کوئی ایسا شخص امریکہ کا صدر بن گیا جس پر ان کا ہاتھ نہ ہو تو کھیل کا پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے عوام کو ایک تبدیلی دکھانے کے لیے اوبامہ کو میدان میں اتارا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ ملک جس میں کالوں کے ساتھ ہر سطح پر تھوڑا بہت امتیاز برتا جاتا ہے، وہاں کیا کوئی گورا میسر نہیں تھا جو مسٹر اوبامہ کو آگے لایا گیا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ ’’تبدیلی‘‘ کے لفظ کو مزید اجاگر کرنے کے لیے یہ محض ایک چال تھی۔ گوری چمڑی کے بجائے جب لوگ کالی چمڑی کو دیکھیں گے تو پچاس فیصد تو نفسیاتی طور پر ویسے ہی ’’تبدیلی‘‘ آنے کا ذہن بنا لیں گے۔ مگر ثابت ہوا کہ یہ سب دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اور عوام نے دیکھ لیا کہ امریکی فارن پالیسی سے لے کر گوانتانامو بے تک، اوبامہ نے جتنے وعدے کیے تھے، وہ سب سراب ثابت ہوئے، اور پالیسیاں جوں کی توں چلتی رہیں۔

    اب کی بار اسی شکاری نے ایک بار پھر ’’تبدیلی‘‘ کا تاثر دینے کے لیے جنس کا انتخاب کیا اور کسی مرد کے بجائے عورت کو آگے کیا، تاکہ لوگ ’’تبدیلی‘‘ کو نفسیاتی طور پر محسوس کریں۔ مگر اس بار عوام نے جان لیا کہ انہیں ایک بار پھر ماموں بنایا جا رہا ہے، اور مس کلنٹن کٹھ پتلی سے بڑھ کر کچھ نہیں، جو اسی فارن پالیسی کو جاری رکھیں گی جو پچھلے سولہ سالوں سے چل رہی ہے، لہٰذا انہوں نے اپنے تئیں ایک مختلف پروگرام رکھنے والے شخص کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نومنتخب صدر اپنے وہ وعدے پورے کر سکیں گے جو انہوں نے امریکی عوام سے الیکشن مہم کے دوران کیے تھے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا ان کے لیے ناممکن نہیں تو آسان بھی نہ ہوگا۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں ان کو کئی قانونی پیچیدگیوں اور ’’بادشاہ گروں‘‘ کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نتیجہ یہ کہ کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے اصل ’’بادشاہ گروں‘‘ کی قوت کو بھی خوب جانتے ہیں۔ کیا انہیں چار امریکی صدور کا علم نہ ہوگا جن کو ان کی حکومت ہی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ہیں: ابراہام لنکن، جیمس اے گارفیلڈ، ولیم مکین لی اور صدر جان ایف کینیڈی۔ یوں اب تک امریکہ کے 44 صدور میں سے چار کو مار کر جان چھڑائی گئی ہے۔
    ٹرمپ کے خلاف احتجاج کی ویڈیو

    https://www.youtube.com/watch?v=mEF-ruKn_fs

    خبریں
    https://www.washingtonpost.com/news/post-politics/wp/2016/11/10/not-my-president-thousand-protest-trump-in-rallies-across-the-u-s/

    http://www.dailymail.co.uk/news/article-3922098/The-backlash-begins-Disgruntled-anti-Trump-protesters-refuse-accept-election-result-gather-New-York-cities-country.html

  • ہلیری کلنٹن کی بھی سنیے- عمیرمحمود

    ہلیری کلنٹن کی بھی سنیے- عمیرمحمود

    عمیر محمود امریکا کے صدارتی انتخابات سے قبل خوب سیاست ہوئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہلیری کلنٹن کو جیل میں ڈالنے کی دھمکی دی، ہلیری نے ٹرمپ کو روس کی کٹھ پتلی قرار دیا۔ ایک دوسرے کی ریلیوں پر حملے بھی ہوئے۔ اب ٹرمپ صدر منتخب ہو چکے ہیں تو امریکا میں ان کے خلاف مظاہرے ہوئے۔

    سیاسی طور پر بوجھل اس فضا میں ہلیری کلنٹن نے اپنی شکست جس نفاست اور شائستگی سے قبول کی وہ دیکھنے اور سننے کی چیز ہے۔ ہلیری کس قدر دل برداشتہ تھیں وہ ان کے چہرے پر صاف لکھا تھا، یوں لگا وہ رو دیں گی۔ لیکن شکست قبول کرتے ہوئے انہوں نے جو نپی تلی گفتگو کی۔۔۔ عاجز نے اس کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے گا انہوں نے شکست کے غم میں امید کے دیے کیسے جلائے ہیں، اور ہار قبول کرتے ہوئے کیا باوقار موقف اپنایا۔ ہلیری کا کہنا تھا کہ میں نے امریکی صدر بننے پر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دی ہے اور امید کرتی ہوں کہ وہ تمام امریکیوں کے لیے کامیاب صدر ثابت ہوں گے۔ مجھے اعتراف ہے کہ الیکشن کے نتائج ہماری خواہش اور کوشش کے مطابق نہیں آئے۔ مجھے علم ہے کہ آپ کتنے افسردہ ہیں کیوں کہ میں بھی افسردہ ہوں۔ اور ہماری طرح وہ لاکھوں امریکی بھی جنہوں نے اپنے خواب اور امیدیں ہم سے وابستہ کیں۔ یہ تکلیف دہ ہے، اور اس کا درد دیر تک محسوس ہو گا۔ لیکن میں چاہتی ہوں آپ یہ سب یاد رکھیں۔

    ہماری مہم کسی ایک شخص کے بارے میں نہیں تھی، کسی ایک الیکشن کے بارے میں بھی نہیں تھی، یہ ایسا ملک بنانے کے بارے میں تھی جو پر امید ہے، اور بڑے دل والا ہے۔ ہم پر واضح ہوا کہ ہماری قوم اندازوں سے زیادہ تقسیم ہے۔ لیکن مجھے پھر بھی امریکا پر یقین ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ہمیں ان نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے مستقبل کی طرف دیکھنا ہو گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے صدر ہوں گے۔ ہمیں چاہیے کہ کھلے ذہن کے ساتھ انہیں تسلیم کریں اور رہنمائی کا موقع دیں۔ حقوق اور عزت میں برابری، عبادت اور اظہار کی آزادی ہمارے اصول ہیں۔ ہم ان اصولوں کی عزت کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کریں گے۔

    یہاں موجود تمام افراد، خاص طور پر نوجوانوں کو کہنا چاہوں گی۔۔۔ میں نے تمام عمر اس چیز کے لیے جدو جہد کی ہے جسے میں نے درست سمجھا۔ مجھے کامیابیاں بھی ملی ہیں اور شدید دکھ دینے والی ناکامیاں بھی۔ آپ میں سے اکثر ابھی اپنی پیشہ وارانہ، عوامی یا سیاسی ذمہ داریاں شروع کر رہے ہیں۔ آپ کو بھی کامیابیاں ملیں گی، اور ناکامیاں بھی۔ ناکامی دکھ دیتی ہے۔ لیکن یقین رکھیں آپ جسے درست سمجھیں اس کے لیے کوشش جاری رکھیں۔ جدوجہد جاری رکھیں۔ آپ کا یقین آپ کی کوشش کا مستحق ہے۔
    مجھے امید ہے اگر ہم مل کر کھڑے ہوں، آپس میں اختلافات کم کرنے کے لیے کام کریں تو اچھے دن ضرور آئیں گے۔ میں جانتی ہوں اتحاد ہی ہماری طاقت ہے، یہ طاقت ہی ہمیں آگے لے جائے گی، اتحاد کے لیے کوشش کرنے سے کبھی نہ گھبرائیں۔ دل چھوٹا نہ کریں۔ اچھا موسم بھی آئے گا، تب تک کےلیے ہمیں مزید کام کرنا ہوگا۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت اور مستقبل کے امکانات – عمران عمر

    ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت اور مستقبل کے امکانات – عمران عمر

    ہمارے ہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے حوالے سے خاصی فکر مندی کا اظہار کیا جا رہا ہے. ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کا صدر بننا پاکستان اور امت مسلمہ کے حوالے سے سود مند جبکہ امریکہ کے لیے کافی حد تک نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ وہاں کا سمجھدار طبقہ اس نئی صورتحال میں خاصا پریشان ہے.

    پاکستان کی ترقی میں دو چیزیں ہمیشہ حائل رہی ہیں. ایک قوم کے اندر تفریق اور دوسرے نااہل حکمران. ہم ایک قوم کے طور پر کبھی بھی متحد نہیں رہے ہیں. پاکستانیت سے بڑھ کر لسانیت ہماری پہچان ہے. ایم کیو ایم اور قوم پرست جماعتیں عوام کی ایک بڑی تعداد سے ووٹ لیکر اقتدار کے زینوں تک پہنچتی ہیں اور تقسیم در تقسیم کے عمل کو مزید فروغ دیتی ہیں. دوسری طرف مذہبی فرقے ہمیشہ باہم دست و گریباں رہے ہیں. پاکستان میں مذہب اتحاد کی بجاے تقسیم کا باعث رہا ہے. آج ہمارے سیاستدانوں نے جتنی نفرت اور تفریق عوام بالخصوص نوجوانوں کے اندر پیدا کر دی ہے، آج سے قبل ایسی صورتحال کبھی نہ تھی.
    فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
    کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

    ہر شخص یہ تسلیم کرے گا کہ کسی بھی قوم میں انتہا پسندی اور تقسیم کا عمل اسکی ترقی کے لیے بہت بڑی رکاوٹ ہے. امریکی سکالرز کے لیے موجودہ الیکشن کے نتیجے میں انتہائی حد تک تقسیم کا عمل بہت پریشان کن ہے.ڈونلڈ ٹرمپ نےاپنی الیکشن کمپین میں وعدہ کیا کہ میکسیکن امیگرنٹس کو ڈیپورٹ کرے گا اور مسلمانوں کی امیگریشن کو بند کر دے گا. عربوں کو ایسا سبق سکھاۓ گا کہ یاد رکھیں گے. ٹرمپ نے اپنے جلسوں کے میں موجود مخالفین کو نکل جانے کا حکم دیا. رپورٹس کے مطابق لوگوں کے لوگوں کے باہمی تعلقات الیکشن کے گرما گرم ماحول اور بحثوں سے متاثر ہوے ہیں. نہ صرف امیگرنٹس اور مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھی ہے بلکہ اب گورے بھی ایک دوسرے کی نفرت کا شکار ہورہے ہیں. ہیلری اور ٹرمپ کے حمایتیوں کی آپس میں کی بار مار کٹائی ہوئی ہے. ایسی ویڈیوز موجود ہیں کہ جن میں کئی لوگ ٹی وی پر ٹرمپ کی شکل دیکھ کر ایسے اشتعال میں آے کہ ڈنڈے مار مار کر ٹی وی کے پرخچے اڑا دیے. جیسے ہی ٹرمپ کی جیت کا اعلان ہوا، ملک کے مختلف حصوں میں لوگوں نے شدید احتجاج کیا، ڈونلڈ ٹرمپ کو گلیاں دین اور امریکی پرچم کو جلایا گیا. اس طرح کا عام انتہا پسندانہ رویے نے امریکی معاشرے کا ایک نیا رخ آشکار کیا ہے. یہ امید کی جاتی ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے دوران تقسیم کا یہ عمل امریکی معاشرے میں مزید گہرا ہوگا اور گرتی ہوئی دیواروں کی شکست و ریخت میں تیزی پیدا کرے گا.

    یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ امریکہ میں ان کے ادارے بہت زیادہ مضبوط ہیں. لہذا ملک کا کوئی بھی صدر ہو، پالیسیوں میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آتی. یہ تو امید کی جاسکتی ہے کہ ٹرمپ اندروں ملک شاید کچھ بڑی تبدیلیان کرنے میں کامیاب ہوجاۓ لیکن خارجہ امور میں تبدیلیوں کا اختیار CIA اپنے ایجنڈے کے مطابق ہی کرے گی. بلفرض CIA اور ٹرمپ ملکر کسی نۓ شیطانی منصوبے کا آغاز کرتے بھی ہیں تو بہرحال وہ ہمارے دوست نہیں ہیں. ہمیں ہر قسم کی صورتحال کے لئے تیار رہنا چاہیے.

    اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات جوں کے توں رکھتے ہوے روس کے ساتھ باہمی تعاون بڑھا رہا ہے. سعودی عرب اور امریکیوں میں میں خلیج گہری ہوتی جارہی ہے. سعودی چین کیساتھ ڈالر کی بجاے باہمی کرنسی میں تجارت کے معاہدے کر رہا ہے. امت مسلمہ کی ایک ابھرتی ہوئی طاقت ترکی ہے جو کسی وقت امریکہ کی ایک طفیلی ریاست تھا لیکن اب وہ بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے ایجنڈے کو دنیا میں آگے بڑھا رہا ہے.

    ڈونلڈ ٹرمپ اسلامی ممالک کے خلاف اگر کسی اور مہم جوئی کی ابتدا کرتا ہے تو یہ اسلامی ممالک کے اتحاد کی طرف پیش رفت کا باعث ہو سکتا ہے جسکا احساس امت کے اندر بتدریج بڑھتا جارہا ہے.

    آج کی دنیا امکانات کی دنیا ہے. ان امکانات کی تھوڑی منصوبہ بندی کرلی جاۓ تو حالات کی تشکیل اپنے ایجنڈے کے مطابق کی جاسکتی ہے. ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکی معاشرے میں تقسیم کے عمل کو تیز کیا جاۓ اور کسی بھی نئی امریکی مہم جوئی کے نتیجے میں دوست ممالک کا ایک مشترکہ محاذ پریشر گروپ کی صورت میں سامنے لایا جائے. امریکا پر انحصار کے بجائے خود کفالت کی طرف بڑھتے ہوئے دیگر آپشنز پر توجہ مرکوز کی جائے.

  • ٹرمپ کی جیت سے کیا سیکھیں؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    ٹرمپ کی جیت سے کیا سیکھیں؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    ڈاکٹر عاصم اللہ بخش ٹرمپ صاحب اور سیکرٹری کلنٹن کے انتخابی معرکہ اور اس کے نتائج سے میرے نزدیک سیکھنے کی بات یہ ہے کہ عوام بہرحال سمجھدار ہوتے ہیں. انہیں کوئی جتنا مرضی باور کرواتا رہے کہ آپ کا مسئلہ یہ ہے، وہ اسی کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں جو دراصل ان کا مسئلہ ہوتا ہے.
    پھر جو ان کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کہہ دے کہ ہاں بھائی یہ ہے آپ اصل مسئلہ اور میں اسے حل کروں گا، تو پھر وہ آؤ تاؤ نہیں دیکھتے …. ووٹ ڈال آتے ہیں اسے.
    یہ ٹھیک ہے کہ اس مشق میں ان کے بے وقوف بن جانے کا بھرپور امکان موجود رہتا ہے لیکن یہ امکان بھی تو ہوتا ہے کہ جو ان کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ کچھ نا کچھ تو کرے گا، ان کے لیے نہ سہی اپنے اقتدار کی خاطر ہی سہی . بالفرض ایسا نہ بھی ہو، پھر بھی بے وقوف بنایا جانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ بیوقوفی کا رضاکارانہ مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ووٹ ڈال آئیں جسے اندازہ ہی نہیں کہ آپ کے شب و روز کس درد کا درماں تلاش کرتے بسر ہوتے ہیں.
    امریکی عوام 2007/8ء کے معاشی دھچکے سے سنبھل نہیں پائے. لاکھوں کے سر کی چھت چھن گئی، ان گنت بے روزگار ہو گئے. اُدھر ہیلری کلنٹن اس پر بھی راضی نہیں تھیں کہ ایک اوسط امریکی ورکر کی فی گھنٹہ مزدوری میں فی الفور قابل قدر اضافہ کر دیا جائے.
    دوسرا، امریکہ کی عالمی جنگیں ختم ہونے میں نہیں آ رہیں اور فوجی جوانوں کی اموات اور ان کے اپاہج ہونے سے بہت سے گھرانے متاثر ہوئے ہیں. سینیٹر اور پھر فارن سیکرٹری کی حیثیت سے ان جنگوں کے آغاز و انجام سے متعلق ان کا ریکارڈ بھی کچھ ایسا شاندار نہیں تھا.
    ڈونلڈ ٹرمپ کو معلوم تھا کہ مسئلہ کیا ہے، اور چونکہ وہ ایک ”آزاد“ امیدوار تھے ان پر عوام کی زبان بولنے پر کچھ پابندی نہیں تھی اس لیے انہوں نے ان نکات کو خوب اٹھایا، اور وہ بھی اس زبان و آہنگ میں جو عوام کے کانوں کو مانوس لگے. سیکریٹری کلنٹن چونکہ اسٹیبلشمنٹ اور وال اسٹریٹ کی امیدوار تھیں اس لیے ان پر کچھ آدابِ زباں بندی لاگو تھے، یہی ان کے لیے راستے کا پتھر ثابت ہوا.
    جو عوام کا درد پہچاننے اور اس کو زبان دینے کی قابلیت رکھے گا، اقتدار تک پہنچنے کا در اس پر کبھی بند نہیں ہو سکتا.
    بھٹو صاحب نے یہ بات جان لی تھی. اسی لیے ان کی زندگی تک پیپلز پارٹی کے معاملات میں ان کا یہ نعرہ اپنی حقیقی شکل میں موجود رہا… طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں !