ٹرمپ صاحب اور سیکرٹری کلنٹن کے انتخابی معرکہ اور اس کے نتائج سے میرے نزدیک سیکھنے کی بات یہ ہے کہ عوام بہرحال سمجھدار ہوتے ہیں. انہیں کوئی جتنا مرضی باور کرواتا رہے کہ آپ کا مسئلہ یہ ہے، وہ اسی کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں جو دراصل ان کا مسئلہ ہوتا ہے.
پھر جو ان کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کہہ دے کہ ہاں بھائی یہ ہے آپ اصل مسئلہ اور میں اسے حل کروں گا، تو پھر وہ آؤ تاؤ نہیں دیکھتے .... ووٹ ڈال آتے ہیں اسے.
یہ ٹھیک ہے کہ اس مشق میں ان کے بے وقوف بن جانے کا بھرپور امکان موجود رہتا ہے لیکن یہ امکان بھی تو ہوتا ہے کہ جو ان کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ کچھ نا کچھ تو کرے گا، ان کے لیے نہ سہی اپنے اقتدار کی خاطر ہی سہی . بالفرض ایسا نہ بھی ہو، پھر بھی بے وقوف بنایا جانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ بیوقوفی کا رضاکارانہ مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ووٹ ڈال آئیں جسے اندازہ ہی نہیں کہ آپ کے شب و روز کس درد کا درماں تلاش کرتے بسر ہوتے ہیں.
امریکی عوام 2007/8ء کے معاشی دھچکے سے سنبھل نہیں پائے. لاکھوں کے سر کی چھت چھن گئی، ان گنت بے روزگار ہو گئے. اُدھر ہیلری کلنٹن اس پر بھی راضی نہیں تھیں کہ ایک اوسط امریکی ورکر کی فی گھنٹہ مزدوری میں فی الفور قابل قدر اضافہ کر دیا جائے.
دوسرا، امریکہ کی عالمی جنگیں ختم ہونے میں نہیں آ رہیں اور فوجی جوانوں کی اموات اور ان کے اپاہج ہونے سے بہت سے گھرانے متاثر ہوئے ہیں. سینیٹر اور پھر فارن سیکرٹری کی حیثیت سے ان جنگوں کے آغاز و انجام سے متعلق ان کا ریکارڈ بھی کچھ ایسا شاندار نہیں تھا.
ڈونلڈ ٹرمپ کو معلوم تھا کہ مسئلہ کیا ہے، اور چونکہ وہ ایک ”آزاد“ امیدوار تھے ان پر عوام کی زبان بولنے پر کچھ پابندی نہیں تھی اس لیے انہوں نے ان نکات کو خوب اٹھایا، اور وہ بھی اس زبان و آہنگ میں جو عوام کے کانوں کو مانوس لگے. سیکریٹری کلنٹن چونکہ اسٹیبلشمنٹ اور وال اسٹریٹ کی امیدوار تھیں اس لیے ان پر کچھ آدابِ زباں بندی لاگو تھے، یہی ان کے لیے راستے کا پتھر ثابت ہوا.
جو عوام کا درد پہچاننے اور اس کو زبان دینے کی قابلیت رکھے گا، اقتدار تک پہنچنے کا در اس پر کبھی بند نہیں ہو سکتا.
بھٹو صاحب نے یہ بات جان لی تھی. اسی لیے ان کی زندگی تک پیپلز پارٹی کے معاملات میں ان کا یہ نعرہ اپنی حقیقی شکل میں موجود رہا... طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں !
تبصرہ لکھیے