Tag: اسلام آباد

  • عوام ٹھاٹھیں نہیں مار سکے-جاوید چوہدری

    عوام ٹھاٹھیں نہیں مار سکے-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    حقائق تلخ ہیں لیکن حقائق ‘ حقائق ہیں اور عمران خان کو اب یہ حقائق تسلیم کر لینے چاہئیں۔

    عمران خان نے دعویٰ کیا تھا عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دو نومبر کو اسلام آباد پہنچے گا لیکن سمندر نے ٹھاٹھیں ماریں اور نہ ہی یہ اسلام آباد پہنچا‘ بلوچستان ملک کا محروم ترین صوبہ ہے‘ یہ صوبہ 70برس سے محرومی چن رہا ہے‘بلوچ پنجابی قیادت‘ پنجابی رویوں اور پنجابی طرز عمل کے خلاف ہیں لیکن اس تمام تر نفرت اور اختلاف کے باوجود پورے بلوچستان سے کوئی قافلہ اسلام آباد نہیں آیا‘ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں کوئی بلوچی گروپ شامل نہیں ہوا‘رند قبیلہ بلوچستان‘ سندھ اور جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا قبیلہ ہے‘ لاکھوں لوگ اس قبیلے میں شامل ہیں۔

    سردار یار محمد رند اس قبیلے کے سردار ہیں‘ یہ اگر اپنے قبیلے ہی کو لے آتے تو وفاقی دارالحکومت میں تل دھرنے کی جگہ نہ بچتی لیکن یار محمد رند اکیلے دکھائی دیتے رہے‘ یہ اپنے لوگوں کو بھی باہر نہیں نکال سکے‘ اس کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا مطلب ہوا بلوچستان عمران خان کے اس پاکستان کا حصہ نہیں تھا جس نے دو نومبر کو باہر نکلنا تھا اور ٹھاٹھیں مارنی تھیں‘ سندھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے‘ سندھ سے پاکستان تحریک انصاف کے ایک ایم این اے اور تین ایم پی اے ہیں‘ عمران خان کراچی میں بہت پاپولر ہیں‘ یہ پچھلے تیس برسوں کی ہسٹری کے پہلے لیڈر ہیں جس نے کراچی میں ایم کیو ایم کے ناقابل تسخیر قلعے پر ضرب لگائی۔

    شاہ محمود قریشی ملتان کی سب سے بڑی گدی کے مالک ہیں‘ ان کے لاکھوں مریدین جنوبی پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کے متعدد اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن کراچی سے کوئی قافلہ نکلا‘ سندھ سے لوگ آئے اور نہ ہی ملتان سے کسی سمندر نے ٹھاٹھیں ماریں‘ صرف عارف علوی‘ عمران اسماعیل اور علی زیدی بنی گالا میں ٹھاٹھیں مارتے رہے‘ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ یہاں سے پی ٹی آئی کے 49 ایم پی ایز‘18 ایم این ایز اور6 سینیٹر ہیں‘ ہم اگر ایم این ایز اور ایم پی ایز کے کل ووٹ جمع کریں تو کے پی کے عوام نے 2013ء کے الیکشن میں عمران خان کو 10 لاکھ 39 ہزار 7 سو 19ووٹ دیے۔

    وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے 30 اکتوبر کو نوشہرہ میں اعلان کیا تھا میں 31 اکتوبر کو پورا صوبہ لے کر اسلام آباد جاؤں گا‘ صوبے کی روانگی کا وقت صبح دس بجے طے تھا لیکن صوبہ 31اکتوبر کی شام تک جمع نہ ہو سکا‘ پرویز خٹک شام پانچ بجے صوابی سے نکلے تھے تو پورا صوبہ صرف اڑھائی ہزار لوگوں پر مشتمل تھا۔

    پرویز خٹک  کے حلقے کے آدھے ووٹرز بھی ان کے ساتھ چل پڑتے تو صورت حال مختلف ہوجاتی لیکن وزیراعلیٰ پورا صوبہ تو دور اپنے ووٹروں کو بھی باہر نہ نکال سکے‘ اوپر سے ستم یہ ہوا کہ یہ قافلہ جب پنجاب کی سرحد پر پہنچا تو سامنے پولیس کھڑی تھی اور پورا صوبہ، پنجاب پولیس کی شیلنگ‘ کنٹینرز اور رکاوٹوں کا مقابلہ نہ کر سکا‘ قافلے نے رات برہان انٹرچینج پرگزاری اور اگلی صبح پورا صوبہ واپس چلا گیا‘ پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی مقبول ہے لیکن یہ دونوں خطے بھی ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں شامل نہیں ہوئے۔

    عوام پاکستان تحریک انصاف کے کشمیری رہنما بیرسٹر سلطان محمود کی زیارت تک سے محروم رہے‘ پیچھے رہ گیا پنجاب ‘ یہ پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ ہے لیکن آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجیے پنجاب سے بھی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر باہر نہیں آیا‘ اعجاز چوہدری 27 اکتوبر کو جانثاروں کا قافلہ لے کر نکلے‘ اس قافلے میں درجن بھر لوگ شامل تھے اور یہ بھی آہستہ آہستہ پتلی گلیوں میں گم ہوتے چلے گئے۔

    یہ درست ہے پنجاب حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف بھرپور طاقت استعمال کی‘ پکڑ دھکڑ بھی ہوئی‘ پولیس فورس بھی استعمال ہوئی اور راستے بھی بند کیے گئے مگر یہ کون سا انقلاب تھا جو پولیس فورس‘ پکڑ دھکڑ اور راستوں کی بندش کا مقابلہ نہیں کر سکا‘ جو سڑکوں کی رکاوٹیں نہیں ہٹا سکا اور آپ آخر میں راولپنڈی اور اسلام آباد آ جائیے۔

    شیخ رشید اپنی پوری پارٹی سمیت عمران خان کے اتحادی ہیں‘ شیخ صاحب نے این اے 55 سے88627 ووٹ حاصل کیے تھے‘ عمران خان این اے 56 سے قومی اسمبلی کے رکن ہیں‘ انھوں نے 2013ء میں اس حلقے سے 80577 ووٹ حاصل کیے‘ غلام سرور خان ٹیکسلا سے ایم این اے ہیں‘ انھوں نے 110593ووٹ لیے اور اسد عمر اسلام آباد سے 48073 ووٹ لے کر ایم این اے منتخب ہوئے گویا عوام نے عمران خان کو راولپنڈی اسلام آباد سے تین لاکھ 27 ہزار870 ووٹ دیے تھے لیکن پاکستان تحریک انصاف 28 اکتوبر سے 2 نومبر تک بنی گالہ میں بیٹھ کر اپنے ان ووٹرز کا راستہ دیکھتی رہی مگر یہ لوگ بھی باہر نہیں نکلے۔

    شیخ رشید نے 28 اکتوبرکو راولپنڈی میں جلسے کا اعلان کر رکھا تھا‘ یہ اس دن گلیوں میں موٹر سائیکل پر کرتب دکھاتے رہے‘ چینلزکی ڈی ایس این جیز پر سگار پینے کے مظاہرے کرتے رہے لیکن فرزند راولپنڈی خطاب کے لیے راولپنڈی سے تین سو لوگ جمع نہیں کر سکے‘ یہ بھی بنی گالہ اکیلے تشریف لے گئے‘ ان تمام حالات نے مل کرعمران خان کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے ریمارکس اور اس اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیچھے چھپنے پر مجبور کر دیا جس کے بارے میں عمران خان نے فرمایا تھا ’’اوئے جسٹس صدیقی دیکھو تمہارے آرڈر کے ساتھ کیا ہو رہا ہے‘‘ یوں عمران خان لاک ڈاؤن سے پیچھے ہٹ گئے اور ان کا دھرنا جلسے میں تبدیل ہو گیا۔

    عمران خان کو یہ حقیقت ماننا ہو گی ان کے دائیں بائیں کھڑے قائدین میں سے کوئی شخص دس لاکھ تو دور دس ہزار لوگ بھی جمع نہیں کر سکا‘ان میں سے کوئی عوام کو ٹھاٹھیں مارنے پر بھی مجبور نہیں کر سکا‘ یہ کال ناکامی تھی اور یہ ناکامی مستقبل میں پارٹی کے لیے خوفناک ثابت ہو گی۔

    آج عمران خان کوچند بڑی حقیقتیں دیوار پر لکھ لینی چاہئیں‘ خان صاحب کو لکھ لینا چاہیے یہ ملک واقعی بدل چکا ہے اور  لوگ خواہ آپ کے مرید ہوں‘ ووٹر ہوں‘ فین ہوں یا جانثار ہوں یہ اب جذباتی ہو کر باہر نہیں نکلتے‘ یہ نعروں اور دعوؤں کو حقیقت نہیں مانتے چنانچہ خان صاحب اگر آیندہ تلاشی یا استعفے کے لیے باہر نکلیں تو یہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے دعوے نہ کریں‘ یہ اپنی کشتیاں جلانے کی غلطی بھی نہ کریں۔

    عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے یہ مسلسل ٹی وی پر رہ کر عوام میں اپنی قدر کھوچکے ہیں‘ آپ جب دن میں دس دس بار میڈیا ٹاک کریں گے‘ روز انٹرویو دیں گے‘ پریس کانفرنس کریں گے‘ جلسے کریں گے‘ سوچے سمجھے بغیر بولیں گے اور اتحادیوں کو رشتوں کا طعنہ دے کر ناراض کرتے رہیں گے تو آپ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر چار پانچ ہزار لوگوں سے اوپر نہیں جائے گا چنانچہ خان صاحب کو اپنی میڈیا اسٹرٹیجی کی ناکامی بھی مان لینی چاہیے‘ خان صاحب کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے‘ آپ جب تاریخ دے کر تاریخ بدلیں گے‘ آپ جب آسمان کو چھونے کے دعوے کر کے ہواؤں کو چوم کر واپس آ جائیں گے۔

    آپ جب تخت یا تختہ کا اعلان کریں گے اور آپ جب شہادت کے دعوے کریں گے‘ خود بنی گالا کی پہاڑی پر پش اپس نکالتے رہیں گے اور عوام سڑکوں پر ڈنڈے کھاتے رہیں گے تو لوگوں میں آپ کی قدر کم ہو گی اور عمران خان کی قدر میں کمی ہوئی ہے‘ لوگ اب انھیں اتنا سیریس نہیں لے رہے جتنا یہ 2013ء کے الیکشنز اور 2014ء کے دھرنے میں لے رہے تھے‘ عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے پاکستان تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کے خوفناک عمل سے گزر رہی ہے۔

    خان صاحب کے ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں‘ ان کے ساتھیوں نے انھیں دو نومبر کے دن تنہا چھوڑ دیا تھا‘ یہ لوگ عوام کو اکٹھا کرنے کے بجائے خود بنی گالا میں بیٹھ گئے اور یوں عمران خان پوری دنیا میں مذاق بن گئے‘ خان صاحب کو اپنی پارٹی پر بھی توجہ دینا ہو گی‘ عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے لیڈر کا پہلا امتحان اس کی زبان ہوتی ہے‘ یہ اگر اپنے لفظوں کو لیڈ نہیں کر سکتا تو یہ دنیا کے کسی شخص کی قیادت نہیں کر سکتا اور خان صاحب کو اپنے لفظوں‘ اپنی زبان پر قابو نہیں۔

    عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے سڑکیں مسئلے پیدا کرتی ہیں‘یہ مسائل حل نہیں کیا کرتیں اور آپ آج تک کوئی مسئلہ سڑک پر حل نہیں کر سکے آپ کو بالآخر اداروں کو تسلیم کرنا پڑا‘ آپ آج کے بعد اداروں کو عزت دینا شروع کر دیں‘ ادارے بھی آپ کو عزت دیں گے اور آخری بات عمران خان یہ بھی لکھ لیں 70 سال کی سیاسی خواری نے عوام کو عقل مند بنا دیا ہے‘ یہ اب ٹھاٹھیں نہیں مارتے‘ یہ صرف ٹھٹھہ مارتے ہیں چنانچہ آپ اب مذاق بننا اور مذاق بنانا بند کر دیں‘ ملک کو آگے جانے دیں اور عوام کو سانس لینے دیں‘ آپ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو مزید مضبوط نہ کریں۔

  • بیرونِ دریا کچھ نہیں-ہارون الرشید

    بیرونِ دریا کچھ نہیں-ہارون الرشید

    haroon-rasheed
    حافظِ شیراز نے کہا تھا: بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم۔ بھلائی ہم آہنگی میں ہوتی ہے‘ فساد اور انتشار میں نہیں۔ ؎
    فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
    موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

    عمران خان کی طرف سے محاصرے کی بجائے جلسے کے اعلان سے پہلے‘ ایک دانا آدمی کا خیال یہ تھا کہ میاں محمد نواز شریف اور عمران خان سے خلقِ خدا بیزار ہو جائے گی۔ کچھ دن میں سیاسی منظر یکسر بدل جائے گا۔ اچھا ہوا کہ دونوں نے سپریم کورٹ میں سر تسلیم خم کر دیا۔ علامہ طاہرالقادری کو صدمہ ضرور پہنچا۔ موقع سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ آخری تجزیے میں ان کا جھگڑا ذاتی ہے۔ مقاصد بھی ذاتی ہیں۔ کبھی وہ اس خاندان کے ممنونِ احسان تھے۔ آج اس کی مکمل پامالی کے آرزومند ہیں۔ شریف خاندان سے اختلاف بجا۔ اس کا مطلب یہ کیسے ہوا کہ اگر وہ ایک اچھا فیصلہ کریں تو اس میں بھی کیڑے ڈالے جائیں۔ جی نہیں‘ فرمان یہ ہے: الصلّح خیر‘ بھلائی صلح صفائی میں ہوتی ہے۔

    ایجی ٹیشن‘ دس بارہ دن اگر مزید جاری رہتا تو ہر چیز ہاتھ سے نکل جاتی۔ پاکستان کو نہیں‘ اس کا فائدہ دشمن کو پہنچتا۔ امریکہ ہمارے اندر داخل ہو گیا ہے‘ اور بھارت بھی۔ بلا خوف و خطر ان کے کارندے سرگرم عمل ہیں۔ خدانخواستہ اسی آزادی سے اگر وہ بروئے کار رہے تو صورتِ حال خطرناک ہو سکتی ہے۔ عرب محاورے کے مطابق‘ جب زمین کا پیٹ‘ اس کی پیٹھ سے بہتر ہو جاتا ہے۔ اس لافانی شاعر میاں محمد بخش کی اصطلاح میں زندگی کیکر کے درختوں پر لٹکی دھجیوں جیسی ہو جاتی ہے۔

    راستہ ابھی نکلا نہیں۔ ابھی فقط امکان نے جنم لیا ہے۔ ابھی یہ طے ہونا ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کس طرح ہو گی۔ کمیشن اگر وجود پاتا ہے تو اس کا دائرہ کار اور اس کے اختیارات کیا ہوں گے۔ پیپلز پارٹی سمیت‘ اپوزیشن تحقیقات کے لیے ٹی او آرز‘ حدود اور قرینہ طے کر چکی۔ ظاہر ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی‘ ان ٹی او آرز پہ اصرار کریں گے۔ حالات سازگار ہیں کہ وہ ڈٹ جائیں۔ ہوش مندی شاید اس میں ہو گی کہ لچک پیدا کی جائے اور ایک آدھ ترمیم گوارا کر لی جائے‘ جس سے منصفانہ تحقیقات کا مقصد حاصل ہو جائے۔ نون لیگ بھی محسوس کرے کہ کوئی چیز اس پر مسلط نہیں کی گئی۔ کسی ایک فریق کی نہیں‘ عدل کی بالادستی ہونی چاہیے۔ ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں۔ سب چلے جاتے ہیں اور ملک باقی رہتا ہے۔ سیاست دان فیصلہ نہ کر سکیں تو عدالت کرے۔ قوم اس کی شکر گزار ہو گی۔
    زیادہ بڑی تصویر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ملحوظ‘ مستقبل کو رکھنا چاہیے۔ نواز شریف کل نہیں ہوں گے‘ عمران خان اور آصف علی زرداری بھی نہیں ہوں گے۔ ہم میں سے کوئی بھی نہ ہو گا۔ ملک کو باقی رہنا ہے۔ عدل اور اعتدال کے ساتھ ہی وہ شادمان اور نمو پذیر ہو سکتا ہے۔
    اللہ کے آخری رسولﷺ نے بدترین لوگوں کو معاف کر دیا تھا۔ اللہ اور رسولﷺ سے جنہوں نے دشمنی کی تھی۔ فتح مکّہ کے دن‘ کہہ دیا گیا کہ ان سے کوئی باز پرس نہ ہو گی۔ عام معافی کا نتیجہ تھا کہ چاروں طرف چراغ جل اُٹھے۔

    جب آ پہنچی اللہ کی مدد اور فتح کامل
    اور تو نے‘ فوج در فوج لوگوں کو‘ اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لیا۔
    پس اپنے رب کی حمد و تسبیح کر اور استغفار کر
    بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

    کسی کا مقصد اگر نواز شریف کو دفن کرنا ہے۔ کسی کا مقصد اگر عمران خان کو تباہ کرنا ہے تو فساد وہ جاری رکھے۔ حق کی آواز امن اور بھلائی کی آواز ہے۔ اللہ کا شکر ہمیں ادا کرنا چاہیے۔ ساری صلاحیت اس پر لگا دینی چاہیے کہ ملک دلدل سے باہر نکل سکے۔ ایسے حالات میں میڈیا کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے۔

    زندگی کا کھلا میدان جب جنگل جیسا ہو جاتا ہے تو سچائی کے ساتھ ساتھ صبر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ تحمل اگر نہ ہو‘ تنگ نظری کا اگر تہیہ کر لیا جائے تو آدم زاد وحشی جانور سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ مولانا روم نے کہا تھا: آدمی کی شخصیت فقط اس کا اندازِ فکر ہی ہوتی ہے‘ باقی تو گوشت اور ہڈیاں ہیں۔ تحریکِ انصاف کی جمعیت بکھر رہی تھی۔ عمران خان کنفیوژن کا شکار تھے۔ گھر سے وہ باہر نہ نکل سکے۔ دس لاکھ تو کیا‘ ایک لاکھ آدمی بھی اسلام آباد نہ پہنچ سکتے۔ شریف خاندان گھبراہٹ کا شکار تھا۔ محترمہ مریم نواز کچھ دن سے لاہور میں ہیں۔ جاتی عمرہ کے پڑوسیوں کا کہنا ہے‘ اتوار کو چار بار اسلام آباد سے آنے والا ہیلی کاپٹر وہاں اترا اور واپس گیا۔ قیاس یہ تھا کہ ایوان وزیر اعظم سے اہم فائلیں لاہور منتقل کی جا رہی ہیں۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کی پولیس پختون خوا میں داخل ہو گئی۔ دوسرے صوبے کے وزیر اعلیٰ پر انہوں نے اذیت پہنچانے والی آنسو گیس برسائی۔ اندر سے میاں صاحب خوف زدہ تھے۔ ایسے میں اکثر وہ غلط فیصلہ کرتے ہیں۔ پرویز خٹک کو لبھانے کے لیے انہوں نے فون کیا۔ بھول گئے کہ ان کا دل زخمی ہے۔ بھول گئے کہ ان کے وہ فیض یافتہ نہیں۔ وہ محمود اچکزئی‘ مولانا فضل الرحمن‘ فاروق ستار یا اسفند یار نہیں۔ فراموش کر دیا کہ ایسے میں پختون مزاج کا خاصہ کیا ہوتا ہے۔

    ایک بات تکرار کے ساتھ‘ ناچیز کہتا رہا۔ عدالت کا فیصلہ سبھی کو تسلیم کرنا چاہیے۔ عمران خان کو دارالحکومت کے محاصرے کا منصوبہ ختم کر دینا چاہیے۔ حکومت کو کنٹینر ہٹانے چاہئیں اور گرفتاریوں کا سلسلہ موقوف کرنا چاہیے۔ وقت بدل گیا ہے۔ حالات کے تقاضے اب مختلف ہیں۔ ایک دوسرے کو گوارا کرنا ہو گا۔ تشکیل پاتے جمہوری نظام میں ہر ایک کے حقوق ہیں‘ مگر ذمہ داریاں بھی۔ اوّل اوّل آزادی میں غیر ذمہ داری ہوتی ہے مگر تا بہ کے؟ آخرکار سبھی کو ڈسپلن قبول کرنا پڑتا ہے۔ ؎
    صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
    انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
    سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا گیا کہ تقدیر کیا ہے۔ سوال کرنے والے سے انہوں نے کہا کہ ایک ٹانگ اوپر اٹھا لو۔ ارشاد کیا‘ اب دوسری بھی۔ ”امیرالمومنین یہ تو ناممکن ہے‘‘ اس نے کہا۔ فرمایا: یہی تقدیر ہے۔

    بعض اخبارات زہر پھیلا رہے ہیں۔ اخبار نویسوں کی قابل ذکر تعداد‘ قومی مفاد کو فراموش کر چکی۔ بعض اخبار یکسر بے لگام ہیں۔ سرل المیڈا اور اس کے اخبار کا ماتم ابھی جاری تھا۔ اب ایک دوسرے انگریزی اخبار کے مضمون کا چرچا ہے۔ ایک محترمہ نے پاک فوج کی قیادت کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیا ہے۔ یہ مضمون کیسے چھپ گیا؟ کچھ لوگ شریف خاندان کی تباہی کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے کے قائل ہیں۔ اس طرح کچھ دوسرے پاک فوج کو کمزور‘ رسوا اور بے بس کرنا چاہتے ہیں۔ یہ این جی اوز والے ہیں‘ بھارت اور امریکہ کے دورے کرنے والے۔ وہ بین الاقوامی شہری ہیں۔ پاکستان ان کا وطن اور محبت نہیں۔ بہت سے ملکوں میں سے‘ وہ اسے ایک ملک سمجھتے ہیں۔ ان کی کوئی جذباتی وابستگی اس سے نہیں۔ یہ ان کا گھر نہیں۔ پاک فوج کے بارے میں وہ سی آئی اے اور افغانستان کی کسی بھی افواہ‘ کسی بھی یک طرفہ تجزیے کو قبول کر سکتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ سالانہ 100 ارب روپے ان تنظیموں پر صرف کرتے ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی تحریریں بھارت‘ اسرائیل اور امریکہ کے کام آتی ہیں۔

    فوج اور سول کی کشیدگی‘ اس خرابی کی جڑ ہے۔ فوج کو باقی رہنا ہے اور سیاستدانوں کو بھی۔ مفاہمت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ بقا اور زندگی کا یہی ایک راستہ ہے‘ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سب ہیجان کا شکار ہیں۔ ہم سب خود شکنی پر تُلے ہیں۔ ملک باقی رہے گا۔ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ ایسی سعید روحوں نے اس کی بنا استوار کی۔ تین چوتھائی ووٹروں نے ان کی تائید کی۔ خسارے میں وہ لوگ جائیں گے‘ اس سے جو بے وفائی کا ارتکاب کریں گے۔

    کیا وہ دیکھتے نہیں کہ 1971ء میں‘ پاکستان توڑنے والوں کا انجام کیا ہوا؟ کیا ہوا ان کا انجام؟
    حافظِ شیراز نے کہا تھا: بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم۔ بھلائی ہم آہنگی میں ہوتی ہے‘ فساد اور انتشار میں نہیں۔ ؎
    فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
    موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

  • لاک ڈاؤن کی سیاست کی حقیقت-(خصوصی تحریر)پروفیسر احسن اقبال

    لاک ڈاؤن کی سیاست کی حقیقت-(خصوصی تحریر)پروفیسر احسن اقبال

    na-117

    ملکی سیاسی منظرنامے میں پاکستان تحریک انصاف کا ظہور ایک مثبت انداز میں لیا گیا تھا جس نے شہری مِڈل کلاس سے اْن طبقات کو متوجہ کیا جو روائتی سیاسی جماعتوں میں جگہ نہ بناسکے، پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی بطور اسپورٹس مین سیاست میں آمد سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ ملک میں جمہوری اقدار کی مضبوطی کیلئے کچھ مثبت کر دکھائیں گے لیکن بدقسمتی سے خان صاحب نے شائستگی اور رواداری پر مبنی سیاست کی بجائے عدمِ برداشت اور متشدد سیاست کو پروان چڑھا کرنہ صرف نوجوان طبقے کو اشتعال انگیزی کی جانب مائل کیا بلکہ شہری مڈل کلاس کے ان طبقوں کو بھی مایوس کیا جو انہیں سیاست میں ہوا کا تازہ جھونکا تصورکرتے تھے ۔

    میں پی ٹی آئی کی طرف سے 2نومبر کو اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کی کال کے منفی مضمرات سے قوم کو باخبر کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہوں اور تین نکات پر قوم کی توجہ مرکوز کرانا چاہتا ہوں، اول خان صاحب کی سیاست کا محور بدقسمتی سے جمہوری نہیں بلکہ فاشزم اور انارکی کی سیاست کا فروغ ہے، دوئم دارالحکومت کو بند کرنے کا کوئی نیک مقصد نہیں بلکہ سیاسی مفاد میں ملکی معیشت کو نشانہ بنانا ہے، سوئم پی ٹی آئی سربراہ کی نظر میں جمہوری عمل اور اداروں کی کوئی توقیر نہیں اور وہ پے در پے انتخابی ناکامیوں سے مایوس ہو کر اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے جمہوریت کو داؤ پر لگانے پر تْلے ہوئے ہیں۔بیسویں صدی کے معروف مصنف و نقاد جارج ارول نے اپنے شہرہ آفاق مضمون “فسطائیت کیا ہے ؟”میں فاشزم کی تعریف وضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا رویہ جو دھونس پہ مبنی ہو ۔ خان صاحب پاکستان میں فسطائی اصولوں کے پیروکاری کی جیتی جاگتی مثال پائے جاتے ہیں جنکا مقصدِ سیاست صدیوں پرانے حکومت پر قبضے کیلئے دارالحکومت پر لشکر کشی کے نظام کا احیاء ہے جس میں سول اداروں کو تباہ کرنا اور عوامی نمائندوں کی تذلیل کرنا شامل ہے، فسطائیت کے پیروکار عمران خان ہر اْس شخص کو اپنا دشمن قرار دے دیتے ہیں جو اْن کے طرزِ سیاست سے اختلافِ رائے رکھتا ہو۔خان صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کا مقصد پانامہ پیپرز پر تحقیقات کیلئے دباؤ ڈالنا ہے، میں یہ پوچھتا ہوں کہ وہ اپنے کارکنوں کو کیوں حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنے کی جرات نہیں کرتے کہ پانامہ ایشو پر پی ٹی آئی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مختلف پٹیشنز پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہو چکی ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف بھی اِس عزم کا اعادہ کرچکے ہیں کہ وہ اور انکی فیملی اعلیٰ عدلیہ کے روبرو حقائق پیش کرکے قانون کی حکمرانی یقینی بنائیں گے، تو پھر لاک ڈاؤن کا کیا جواز ہے؟

    مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ درحقیقت اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا مقصد عدلیہ کو اپنی مرضی کا فیصلہ سنانے کیلئے غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے زیر دباؤ لانا ہے ۔خان صاحب نے اپنی سیاست کا آغاز احتساب کے خوش نما نعرے سے کیا تھاجس کا استعمال سیاسی مخالفین کے خلاف تو بھرپور انداز میں سامنے آیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خان صاحب احتساب پہ حقیقی معنوں میں یقین رکھتے ہوتے تو صوبہ خیبرپختونخواہ میں اپنی حکومت اور اپنی پارٹی میں احتساب کا مثالی نمونہ پیش کر پاتے ۔ اصلاح ہمیشہ اپنے گھر سے شروع کی جاتی ہے لیکن جب خیبرپختونخواہ احتساب کمیشن کا سربراہ کرپشن کی سرکوبی کے لئے اپنی ذمہ داریاں آزادانہ پوری نہ کرنے دیئے جانے کی بناء پر احتجاجاََ استعفیٰ دیتا ہے تو خان صاحب کی طرف سے بالکل مختلف رویے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ،

    جسٹس (ر)وجہیہ الدین انٹراپارٹی الیکشن میں بے ضابطگیوں اور کرپٹ عناصر کی دھاندلیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو عمران خان جسٹس وجہیہ کو توہین آمیز طریقے سے پارٹی سے نکال باہر کرتے ہیں ۔ کے پی میں پی ٹی آئی کے اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز وزیر اعلی کی سنگین کرپشن کی شکایت کرتے ہیں تو ان کی شکایات کی تحقیق کی بجائے ان کی سرزنش کی جاتی ہے ۔ وہی کرپٹ عناصر جن سے نام نہاد تحریکِ انصاف کو پاک ہونا چاہیے تھا ، عمران خان کے دائیں بائیں جلوہ افروز نظر آتے ہیں ۔ یہ سب کیا ہے؟ خان صاحب ؟ قوم جاننا چاہتی ہے کہ جب آپ نے قومی وطن پارٹی کے منسٹرز کو کرپشن کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے حکومت سے فارغ کیاِ تو بِنا کسی صفائی کہ انہیں حکومت خیبرپختونخواہ نے واپس کابینہ میں شامل کرلیا۔ کیا انہوں نے پہلے غلط کیا تھا یا بعد میں ؟ خان صاحب کا ایک نکاتی ایجنڈا حکومت پر قابض ہونا ہے جسکی وجہ سے وہ دوغلی پالیسی رکھنے پر مجبور ہیں، ایک طرف سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے جب چاہیں اپنے سیاسی حریفوں پر کرپشن کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنی سیاسی ضرورت کے لئے جب چاہیں جسے چاہیں ڈرائی کلین کر دیں۔ صوبہ خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی خراب کارکردگی نے بھی خان صاحب کی فریسٹریشن میں اضافہ کیا ہے، صوبائی حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام برائے17 ۔2016 کیلئے 161بلین روپے مختص کیے ہیں جو رواں برس کیلئے مختص کی گئی رقم سے 8فیصد کم ہیں،

    گزشتہ تین برسوں سے صوبائی حکومت کے پاس کوئی قابلِ ذکر ترقیاتی منصوبہ پیش کرنے کے لئے نہیں ہے۔معاشی ترقی کیلئے سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل ناگزیر ہے، اِس تناظر میں دیکھا جائے تو خان صاحب کی لاک ڈاؤن کی سیاست کا مقصد خدانخواستہ پاکستان کو معاشی طور پر سبوتا ژکرنا ہے، خان صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کی آئینی مدت پوری ہونے تک پاکستان ترقی و خوشحالی کے کتنے زینے عبور کرچکا ہوگا اور انہیں 2018 کا انتخاب ہاتھوں سے نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے ،توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے 2018 تک 11ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گِرڈ میں شامل ہوچکی ہو گی جبکہ 1947 سے لیکر2013 تک ملک میں صرف 16ہزارمیگاواٹ کی بجلی پیدا کی گئی۔گزشتہ تین برسوں میں ملکی سیکیورٹی کے محاذ پر بھی بے شمار کامیابیاں کا حصول ممکن ہوا،2013 میں پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا جارہا تھا آج دنیا پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہی ہے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے نے قومی ترقی کیلئے نئی راہیں کھول دی ہیں، آج اکنامک گروتھ ریٹ گزشتہ 8برسوں میں بلند ترین جبکہ شرح افراطِ زر کم ترین سطع پرہے، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے ،

    رواں برس کے موسمِ گرما میں پاکستانی شہریوں کی طرف سے ڈومیسٹک ٹورازم کا تاریخی مظاہرہ کیا گیا جو عوام کے بہتر حالات اور ملکی معیشت پر اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ انہیں حقائق سے خوفزدہ ہوکرمسلم لیگ (ن) کے ناقدین موجودہ سیاسی نظام کو بادشاہت قرار دیتے ہیں، ایسی تنقید یا تو حقیقی صورتحال سے لاعلمی کی بناء پر یا بدیانتی پر مبنی ہوتی ہے کیونکہ بادشاہت میں تنقید کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن موجودہ دورِ حکومت میں سیاسی حریف اور آزاد میڈیا 24گھنٹے حکومتِ وقت کو نشانہِ تنقید بناتا ہے اورجمہوریت پسند حکومت بھی تنقید برائے اصلاح کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔عوام نے حالیہ ضمنی انتخابات، لوکل باڈیز الیکشن، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات سمیت دیگر مواقعوں پر وزیراعظم نواز شریف کی پالیسیوں پر اظہارِ اعتماد کرتے ہوئے خان صاحب کی منفی سیاست کو مسترد کیا ہے۔جمہوری کلچر کا تو تقاضہ ہے کہ اب خان صاحب 2018 کے انتخابات کا انتظار اور تیاری کریں ۔ اگر انہوں نے زرداری دور کو 5 برس برداشت کیا تو آج ملک اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحکم اور بہتر ہے ۔

    لیکن خان صاحب کا مسئلہ جمہوری عمل نہیں یا ملک کی ترقی نہیں بلکہ ذاتی سیاست ہے ۔ مشہور پولیٹیکل سوشیالوجسٹ لیری ڈائمنڈ کے مطابق ڈیموکریسی ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے جس میں کسی بھی قوم کیلئے بہتر سے بہتر جمہوری ملک بننے کی گنجائش موجود ہوتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی جمہوریت تیزی سے پنپ رہی ہے۔ لیری ڈائمنڈ نے جمہوری حکومت کے طرزِ عمل بیان کیے تھے جن میں شہریوں کے پبلک دفاتر میں شمولیت کا حق، سیاسی اپوزیشن کی موجودگی اور شہری آزادی کی حفاظت سرفہرست تھے۔ سال 2008 ء سے پاکستان نے ان تین معاملات میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کی ہے اور مسلم لیگ (ن)حکومت بھی ملک میں جمہوری اقدار کو مزیدمضبوط کرنے کیلئے پرْعزم ہے،ہم ماضی کی مستردشدہ فسطائی طاقتوں جنہوں نے دو سال قبل بھی پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ کیا تھا، کے حالیہ مذموم مقاصد کو ناکام بنانا اپناقومی فریضہ سمجھتے ہیں،ہم عوام کے سونپے گئے مینڈیٹ کو امانت کا درجہ دیکر قوم کی ترقی و خوشحالی پر مبنی اپنے ایجنڈے کو کامیابی سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں،

    ہم سمجھتے ہیں کہ 2 نومبر کے دن باشعورعوام مسترد شدہ عناصر کے عزائم کوہمیشہ کیلئے خاک میں ملا دیں گے ۔میں یہ واضح کرتا چلوں کہ ہم پرامن احتجاج کو جمہوری معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن خان صاحب کا اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنا خلافِ جمہوریت اورخلافِ آئین اقدام ہے، لشکر کشی کرکے ریاست کے معاملات کو معطل کرکے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگانے کی مثال دورِ جدیدکے کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ملتی۔میں امید کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی اپنی احتجاجی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرتے ہوئے کسی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بنے گی،میں پی ٹی آئی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کو انتخابی اصلاحات ایجنڈے پر بھی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی دعوت دیتا ہوں جو خان صاحب بھول چکے ہیں۔مسلم لیگ (ن)حکومت تمام اپوزیشن جماعتوں کے اشتراک سے انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کیلئے سنجیدہ ہے تاکہ آئیندہ انتخابات میں کِسی کو بھی بے ضابطگیوں کی شکایت نہ کرنا پڑے اور ہم سب سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر مشترکہ طور پرپاکستان کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرانے میں کامیاب ہوسکیں۔

  • مت پردہ پوشی کرو سچ کی-حامد میر

    مت پردہ پوشی کرو سچ کی-حامد میر

    hamid_mir1

    پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں حالات نہیں بدلتے۔ چہرے بدل جاتے ہیں نظام نہیں بدلتا۔ غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے مزید غلطیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے جس کا خمیازہ ایک فرد، جماعت یا ادارہ نہیں بلکہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کا کوئی موازنہ نہیں لیکن آج کل نواز شریف اپنا اقتدار بچانے کے لئے وہی کچھ کر رہے ہیں جو بھٹو صاحب نے کیا تھا۔ بھٹو نے جیل میں دو کتابیں اور اپنی بیٹی کے نام ایک طویل خط تحریر کیا تھا۔ ان کی ایک کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ اور طویل خط ’’میری پیاری بیٹی‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور یہ دونوں تصانیف مارکیٹ میں آج تک موجود ہیں۔ جیل میں لکھی گئی ان کی ایک اور کتاب ’’افواہ اور حقیقت‘‘ کئی سال تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس محفوظ رہی۔ انہوں نے یہ کتاب پاکستان میں 1993ء میں شائع کرائی۔ کتاب کا آغاز قرآن مجید کی اس آیت سے کیا گیا۔۔۔ ’’اور مت پردہ پوشی کرو سچ کی جھوٹ سے، نہ چھپائو سچائی کو، جب تم جانتے ہو۔۔۔‘‘ یہ کتاب شائع ہونے کے کچھ عرصے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئیں اور انہیں یہ پیغام دیا گیا کہ اس کتاب کو دوبارہ شائع نہ کیا جائے۔ یہ کتاب دوبارہ شائع نہ کی گئی لیکن اس کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکیں اور انہیں 1996ء میں حکومت سے نکال دیا گیا۔ اس کتاب کا میں پہلے بھی ایک کالم میں ذکر کر چکا ہوں لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں اس کتاب سے ایک حوالہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ کتاب کے تیرہویں باب میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم نے بتایا کہ انہوں نے اپنی کابینہ کے دو وزیروں جے اے رحیم اور معراج محمد خان کو وزارت سے کیوں فارغ کیا؟

    جے اے رحیم ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے۔ بنگالی ہونے کے باوجود انہوں نے 1971ء کے بعد پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا اور بھٹو حکومت میں وزیر دفاعی پیداوار بنائے گئے۔ معراج محمد خان پارٹی کے نائب صدر تھے۔ انہیں محنت و افرادی قوت کی وزارت دی گئی۔ دونوں وزراء کا تعلق مڈل کلاس سے تھا اور دونوں سوشلسٹ نظریات رکھتے تھے۔ بھٹو صاحب نے لکھا ہے کہ کچھ فوجی جرنیل جے اے رحیم اور معراج محمد خان کے بہت خلاف تھے۔ جے اے رحیم کو کابینہ سے نکال کر فرانس میں پاکستان کا سفیر بنا دیا گیا۔ جنرل گل حسن اور جنرل رحیم الدین نے معراج محمد خان کو بھی کابینہ سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ جب وزیراعظم نے انکار کر دیا تو پھر آئی ایس آئی نے معراج محمد خان کے بارے میں ایسی رپورٹیں وزیراعظم کو بھجوانی شروع کر دیں جن سے غلط فہمیاں پیدا ہو سکیں۔ بھٹو صاحب کا دعویٰ ہے کہ معراج محمد خان کو اشتعال دلایا گیا اور انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ 1976ء میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل ارباب جہاں زیب نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ معراج محمد خان کو حیدر آباد سازش کیس میں گرفتار کیا جائے اور پھر معراج محمد خان کو گرفتار کر لیا گیا۔ جن دنوں پاکستان قومی اتحاد نے بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلا رکھی تھی تو جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم کو آ کر بتایا کہ معراج محمد خان آپ کو جیل میں گالیاں بکتا ہے۔ بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کے یہ الفاظ نقل کئے۔ ’’حق بات تو یہ ہے کہ جو شخص میرے وزیراعظم کو گالیاں بکتا ہے وہ حرامزادہ ہے۔‘‘ فوجی جرنیلوں کے دبائو پر بھٹو صاحب نے دو وزراء کو فارغ کیا۔ ایک کو بیرون ملک بھیج دیا دوسرے کو جیل بھیج دیا لیکن نہ اپنی حکومت بچا سکے نہ جان بچا سکے اور پاکستانی عدالتوں کے ذریعہ انہیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا جسے آج بھی جوڈیشل مرڈر کہا جاتا ہے۔

    1977ء اور 2016ء میں بہت فرق ہے۔ بھٹو اور نواز شریف میں بھی بہت فرق ہے لیکن نواز شریف نے بھی بھٹو کی طرح اپنے دو وزراء کو کابینہ سے فارغ کر دیا۔ نواز شریف حکومت نے کچھ عرصہ قبل وزیر ماحولیات سینیٹر مشاہد اللہ خان کو 2014ء کے دھرنے میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے بارے میں کچھ متنازع باتیں کہنے پر فارغ کر دیا اور اب سینیٹر پرویز رشید کو انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے بارے میں کوتاہی برتنے پر فارغ کیا گیا ہے۔ یہ خبر 6؍ اکتوبر کو شائع ہوئی۔ حکومت تین ہفتوں میں اس خبر کا سورس تلاش نہیں کر پائی۔ پرویز رشید کی کوتاہی یہ ہے کہ جب خبر لکھنے والے صحافی سرل المیڈا نے 5؍ اکتوبر کو ان سے رابطہ کر کے خبر کی تصدیق کرنا چاہی تو انہوں نے خبر کی تردید کر دی لیکن خبر رکوانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اب اس سارے معاملے کی نئے سرے سے تحقیقات ہوں گی اور سرل المیڈا کا سورس تلاش کیا جائے گا۔ معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ نئے سرے سے دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ پرویز رشید کے فارغ ہونے پر عمران خان فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ نواز شریف نے پرویز رشید کو نہیں بلکہ اپنے آپ کوفارغ کر دیا ہے۔ پرویز رشید ان کی حکومت اور پارٹی دونوں کے ترجمان تھے۔ شاید پرویز رشید سے بھی زیادہ اہم کسی شخصیت کو بچانے کے لئے یہ قربانی دی گئی ہے لیکن بات ایک قربانی پر نہیں رکے گی۔ جس طرح معراج محمد خان کو غداری کے ایک مقدمے میں ملوث کیا گیا اسی طرح کچھ اہم حکومتی شخصیات کو بھی کسی ایسے ہی مقدمے میں ملوث کرنے کی کوشش ہو گی لیکن یاد رکھئے گا۔ بھولئے گا نہیں۔ حیدر آباد سازش کیس جن جرنیلوں نے بنوایا تھا انہوں نے بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے بعد اسے انجام تک نہیں پہنچایا بلکہ اسے خود ہی ختم کر دیا۔

    ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس ملک میں سیاستدانوں سے بڑی غلطیاں فوجی ڈکٹیٹروں نے کی ہیں جنہوں نے اپنے فوجی اڈے غیر ملکی طاقتوں کے حوالے کر کے قومی سلامتی کا سودا کیا لیکن جمہوریت کے نام پر سیاستدانوں کی غلطیوں اور جرائم کا دفاع کرنا بھی غلط ہے۔ آج پاکستان کو جس افراتفری اور انتشار کا سامنا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نواز شریف نے سات ماہ سے پاناما پیپرز کے معاملے کو لٹکا رکھا ہے۔ عمران خان کی طرف سے اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان غلط تھا تو حکومت کی طرف سے اسلام آباد کے راستے بند کرنا بھی غلط ہے۔ یہ راستے بند کرنے کی وجہ سے ایک فوجی افسر کی جان چلی گئی۔ تحریک انصاف نے پشاور میں دفعہ 144لگا رکھی ہے اور مسلم لیگ (ن) نے اسلام آباد میں دفعہ 144لگا دی۔ وجوہات مختلف ہیں لیکن دونوں جماعتیں برطانوی سامراج کے بنائے گئے ظالمانہ قوانین کا سہارا لے رہی ہیں۔ نواز شریف اور عمران خان کی غلطیوں پر تنقید کی آڑ میں پاکستان کو آمریت کی طرف دھکیلنا ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ نواز شریف جمہوریت کے لئے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کے لئے لڑ رہے ہیں۔ اگر وہ جمہوریت پسند ہوتے تو میمو گیٹ کے معاملے میں بھی جمہوریت کا خیال رکھتے۔ آج ان پر وہی الزام لگایا جا رہا ہے جو میمو گیٹ میں پیپلز پارٹی کی حکومت پر لگایا گیا اور پیپلز پارٹی نے حسین حقانی کو فارغ کیا تھا۔ یہ معاملہ حسین حقانی پر ختم نہیں ہوا تھا بلکہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی فارغ ہو گئے۔ اب یہ نیا معاملہ پرویز رشید پر ختم نہیں ہو گا بلکہ اور آگے بڑھے گا۔

  • فاتح کون؟-خورشید ندیم

    فاتح کون؟-خورشید ندیم

    m-bathak.com-1421245366khursheed-nadeem
    یہ پہلا حقیقی سیاسی معرکہ تھا جو عمران خان کو درپیش ہوا۔کیا وہ اس میں کامیاب ہو سکے؟
    28 اکتوبر تمام سیاسی کرداروں کے لیے یومِ حساب تھا۔ تحریک انصاف نے 28 اور 29 اکتوبر کو 2 نومبر کے آخری معرکے کے لیے عوام میں تحریک پیدا کرنا تھی۔ انہی دنوں میں یہ طے ہونا تھا کہ فیصلہ کن مرحلے پر تحریکِ انصاف کی کامیابی کا کتنا امکان ہے۔ اس نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کو متحرک کرنا تھا۔ سیاست کے مبادیات سے واقف ایک عامی بھی جانتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت جس شہر میں قوت کا مظاہرہ کرتی ہے، اس کی کامیابی کا انحصار اصلاً اس شہر کے شرکا پر ہوتا ہے۔ باہر سے نسبتاً کم لوگ آتے ہیں۔ ان دو دنوں میں یہ معلوم ہو جاتا کہ کتنے لوگ اصل معرکے میں بھی شامل ہوں گے۔ اس بار تحریکِ انصاف کو پہلی بار ریاست کی قوت کا سامنا کرنا تھا۔

    دھرنا ایک مختلف عمل تھا جس میں ریاست نے مکمل آزادی دے رکھی تھی۔ لوگ اپنے کام کاج نمٹا کر، سرِشام تیار ہوتے اور پنڈال کا رخ کرتے‘ جیسے کسی میلے میں چلے ہوں۔ نوجوانوں کے لیے بطورِ خاص اس اجتماع میں ایک کشش تھی۔ شام ڈھلتے ہی جب میڈیا کی تیز و تند روشنیوں میں رنگ برنگے پیرہن اور توانائی سے بھرپور نوجوانوں کا جوش و خروش سماں باندھ دیتا تو ابرارالحق ہی کا نہیں، سب کا عمران خان کے جلسے میں ناچنے کو جی کرتا۔ دوسری طرف عمران خان صبح جاگتے، حسبِ معمول گھنٹہ بھر ورزش کرتے، من پسند ناشتہ کرتے، جو میڈیا کے شکریے کے ساتھ لوگ براہ راست دیکھتے اور ان کے منہ میں پانی آ جاتا۔ پھر وہ تیار ہوتے اور رات کے آغاز کے ساتھ جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوتے جہاں چاہنے والوں کے نعرے ان کا استقبال کرتے۔ رات ڈھلنے لگتی تو وہ اپنی آرام گاہ کا رخ کرتے۔ میڈیا لمحہ بہ لمحہ عوام کو اس سرگرمی میں شریک رکھتا۔ اس بارصورتِ حال مختلف تھی۔ اب امکان تھا کہ پولیس کی لاٹھیاں، وفعہ144 اور بند راستے ان کا استقبال کریں گے۔ کسی سیاسی جماعت اور لیڈر کا اصل امتحان یہی ہوتا ہے کہ ایسی مخالفانہ فضا میں وہ کس حد تک اپنی سخت جانی اور عوامی تائید کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔

    حکومت کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ریاست کی انتظامی صلاحیت اُس عوامی قوت پر قابو پا سکتی ہے، جس کا دعویٰ تحریکِ انصاف کر رہی ہے۔ اسے یہ بتانا تھا کہ عمران خان اب ایسے مقبول بھی نہیں ہیں کہ ان کے کہنے پر لاکھوں لوگ پولیس کی لاٹھیاں کھانے پر تیار ہوں۔ اگر وہ 28 اکتوبر کو محض ایک شہر کی پولیس کی مدد سے ایک جلسے کو ناکام بنا سکتی ہے تو 2 نومبر کو ایک بڑی قوت کے ساتھ بڑے مظاہرے پر بھی قابو پا سکتی ہے۔ اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس معرکے کی خاموش فریق تھیں۔ انہیں یہ ثابت کرنا تھا کہ حکومت کو زچ کرنا تنہا عمران خان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا، ان کی مجبوری ہے۔

    اس ابتدائی معرکے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ راولپنڈی میں جلسہ نہیں ہو سکا۔ لوگوں کی بہت کم تعداد گھروں سے نکلی حالانکہ اس شہر کے دونوں حلقے عمران خان اور شیخ رشید نے جیتے ہیں۔ عمران خان گھر سے نکل ہی نہیں پائے۔ شیخ رشید نے ایک ڈرامائی منظر پیدا کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ انہیں گرفتار کیا جائے مگر انتظامیہ اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ سب چینلز نے دکھایا کہ انہوں نے بھرے بازار میں ناشتہ کیا‘ اور شام کو کئی ٹی وی چینلز کو انٹرویوز دیے۔ میں راولپنڈی میں رہتا ہوں۔ میرا اپنا مشاہدہ یہ ہے کہ مری روڈ کے علاوہ پورے شہر میں حسبِ معمول سرگرمیاں جاری تھیں۔ مری روڈ کے کئی متبادل فراہم کر دیے گئے تھے۔ تحریکِ انصاف شہر کی زندگی کو متاثر نہیں کر سکی حالانکہ اب سڑکوں پر اتنا رش ہوتا ہے کہ پچاس افراد یہ کام باآسانی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان نے 29 اکتوبر کا اسلام آباد شہر کا دورہ بھی منسوخ کر دیا۔ گویا 2 نومبر کے لیے ٹیمپو بنانے کا سارا عمل معطل ہو گیا۔ یوں تحریکِ انصاف پہلے ہی امتحان میں ناکام ثابت ہوئی۔

    27 اکتوبر کو اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کی جو گرفتاریاں ہوئیں، اس پر عمران خان نے جمعہ کو ملک گیر احتجاج کی اپیل کر رکھی تھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس اپیل کا کیا انجام ہوا۔ جتنا احتجاج ہوا ہے، وہ حسب توقع ہوا ہے۔ اس بات کا کون انکار کرتا ہے کہ تحریکِ انصاف ایک قابلِ ذکر بلکہ اب تو وہ ملک کی دوسری بڑی جماعت ہے؛ تاہم اس واقعے سے یہ معلوم ہو گیا کہ اس کی تنظیمی صلاحیت اور عوامی تائید اتنی نہیں ہے کہ وہ ریاست کو معطل کر دے‘ جیسا کہ اب عمران خان خیال کرنے لگے ہیں۔ اگر یہ واقعہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہوا ہوتا تو وہ اس سے کہیں موثر ملک گیر احتجاج کرتی۔

    اس معرکے میں عمران خان ذاتی طور پر بھی متاثر نہیں کر سکے۔ چند سو کارکن رات بھر بنی گالہ میں پڑے رہے۔ انہوں نے اپنے تین سو کنال کے گھر کا دروازہ ان کے لیے نہیں کھولا۔ وہ یہ بھی کر سکتے تھے کہ رات کو باہر آتے اور کہتے کہ وہ یہ رات کارکنوں کے ساتھ گزاریں گے۔ وہ شب بھر ان سے غیر متعلق رہے۔ کاش وہ خواتین ہی کو اندر آنے کی دعوت دیتے۔ میں سوچتا رہا کہ ان کی جگہ اگر کوئی پاکستانی کلچر اور روایت سے واقف آدمی ہوتا تو اس کا رویہ کیا ہوتا؟ اگر چوہدری شجاعت ہوتے؟ اگر ان کارکنوں میں سیاسی حمیت ہوتی تو وہ فیض کی زبان میں یہ شکوہ تو ضرور کرتے: ؎

    ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
    اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے

    اس واقعے کے بعد عمران خان کے بارے میں میری وہ رائے پختہ ہوئی‘ جس کا میں اظہار کرتا رہا ہوں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں اس لیے پیدا ہوا ہوں کہ لوگ مجھ سے محبت کریں‘ میں کسی کے ساتھ محبت کرنے کا پابند نہیں ہوں۔

    اس معرکہ میں حکومت کامیاب رہی اور اپوزیشن کی دوسری جماعتیں بھی۔ حکومت نے یہ ثابت کیا کہ عمران خان کی سیاسی قوت اتنی نہیں جو ریاست کے لیے چیلنج بن سکے۔ سیاسی جماعتوں نے لاتعلق رہ کر عمران خان کو پیغام دیا ہے کہ ان کی مدد کے بغیر وہ تنہا حکومت نہیں گرا سکتے۔ عوام نے بھی بتا دیا کہ وہ عمران خان کے موقف کی تائید کر سکتے ہیں‘ لیکن ان کے احتجاج کا حصہ نہیں بن سکتے۔ وہ زندگی کو مفلوج کرنے کے حق میں نہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ‘تھرڈ امپائر‘ کی مدد کے بغیر حکومتیں نہیں گرائی جا سکتیں۔

    عوام نے عمران خان کی احتجاجی سیاسی کو مسترد کر دیا ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عوام نے انہیں مسترد کیا ہے۔ وہ چاہیں تو اب بھی اپنے طرزِ سیاست کو تبدیل کرتے ہوئے عوام کا پہلا انتخاب بن سکتے ہیں۔ اس کے لیے لیکن انہیں ایک بار پھر واپسی کا راستہ چاہیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اس بار ان کی مدد کو موجود ہے۔ وہ 2 نومبر کو اسلام آباد میں جلسہ کریں‘ اور یہ کہیں کہ وہ آئین اور عدالت کے احترام میں اسلام آباد کو بند کرنے کے پروگرام سے دست بردار ہو رہے ہیں لیکن کرپشن کے خلاف جدوجہد سے کبھی دست بردار نہیں ہوں گے۔ تحریکِ انصاف کے کارکن اور رہنما اس باب میں عوامی شعور بیدار کرتے رہیں۔ یوں وہ ایک ڈیڑھ سال کی محنت سے، اسے 2018ء کے انتخابات کا مرکزی نکتہ بنا دیں۔ ساتھ وہ کے پی کو اپنی اصلاحی کوششوں کا مرکز بنائیں۔

    عمران خان کے پاس یہی ایک راستہ ہے۔ اس میں کامیابی کا امکان احتجاج سے کہیں زیادہ ہے۔ احتجاج کی سیاست ملک کے لیے تو نقصان دہ ہے ہی، ان کے لیے بھی سیاسی خود کشی ہے۔ اس کا اندازہ انہیں 28 اکتوبر کے واقعات سے ہو جانا چاہیے۔ یہ راستہ لیکن وہ اس وقت تک اختیار نہیں کر پائیں گے جب تک شیخ رشید جیسوں کی فکری راہنمائی سے باہر نہیں نکلتے۔ انہیں باشعور لوگوں کے مشورے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے اپنے ہی ہاتھوں، ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت کی بربادی ایک قومی المیہ ہو گی۔

  • پکی سڑک-ہارون الرشید

    پکی سڑک-ہارون الرشید

    haroon-rasheed
    درویش سے پوچھاگیا:فلاں ‘فلاں اور فلاں درود آپ پڑھتے ہیں؟جواب ملا : فقط ابراہیمی درود پڑھتے ہیں‘ ہم پکّی سڑک پر چلتے ہیں ۔
    کہا جاتا ہے کہ اخبار نویس کو خبر کبھی نہیں روکنی چاہیے۔ بات نکل جاتی ہے۔ تازہ تجربے سے ادراک ہوا کہ تجزیے کو بھی تھام کر نہ رکھنا چاہیے ۔

    سرحدوں پر کشیدگی کے ہنگام‘ غالباً اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں‘ ایک پیغام عمران خان کو بھیجا۔ اسد عمر سمیت تحریک انصاف کے ممتاز لیڈروں کواس کی نقل بھی۔ لفظ بہ لفظ درج ذیل:”براہِ کرم دارالحکومت کے محاصرے کا منصوبہ ملتوی کر دیجیے ۔ سرحدوں پر امن قائم ہونے تک یہ خطرناک ہو گا۔ تجارتی راہداری پر بات کرنے کے لیے چینی سفیر کو مدعو کیجیے۔ مدیران اخبارات اورکالم نگاروں سے ملاقاتیں کیجیے۔ محاصرے کے التوا کا اعلان کرنے کے بعد آپ کو پریس کانفرنس کرنی چاہیے۔ اخبارات کے لیے ایک مضمون لکھنا چاہیے‘ تین بڑے شہروں میں بھارتی عزائم پر سیمینار منعقد کرنے چاہئیں۔ خواہ آپ اپنے دفاتر میں کر یں۔ آپ کو کہنا چاہیے کہ پاکستانی عوام اور پاک فوج‘ ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نواز شریف کشمیریوں سے قطعاً مخلص نہیں۔بھارت پہ ان کی پالیسی یکسر غلط ہے۔ بھارتیوں کے ساتھ ان کے کاروباری مفادات وابستہ ہیں۔ان موضوعات پر کافی معلومات مہیا ہیں‘‘۔

    صاف صاف‘ تحریک انصاف کے لیڈروں سے عرض کیا کہ طالب علم کی رائے میں‘ ان کی حکمت عملی یکسر غلط ہے۔ 2018ء کے الیکشن سر پر کھڑے ہیں۔ پارٹی کی تنظیمی حالت ابتر ہے۔ مختلف دھڑے باہم متصادم ہیں۔ تنظیم اگر بہتر بنائی جائے ۔ اختلافات اگر نمٹا دیے جائیں۔ امیدواروں کے انتخاب کا آغاز کر دیا جائے۔ اہم ترین عنوانات … دہشت گردی‘ معیشت‘ خارجہ پالیسی‘ ریلوے‘ پی آئی اے اور سٹیل مل وغیرہ کے سدھار یا نجکاری‘ امن و امان‘ عدالتی نظام اور نوکر شاہی وغیرہ پر کمیٹیاں یا تھنک ٹینک بنا دیے جائیں۔ پاناما لیکس پر دریں اثناء دبائو جاری رکھا جائے۔

    اسد عمر نے فون کیا اور کہا کہ اسلام آباد پہنچ کر تفصیل سے وہ تبادلہ خیال کریں گے۔ دارالحکومت وہ آئے مگر محاصرے کی مہم کا ایندھن بن گئے۔
    اگست 2014ء کے دھرنے کا تجربہ ذہن میں تھا۔ جولائی2014ء میں خان نے مجھ سے کہا تھاکہ دس لاکھ مظاہرین کے ساتھ اسلام آباد پر وہ یلغار کریں گے ۔رتّی برابر مجھے شبہ نہ تھا کہ یہ ممکن نہ ہو گا۔ دس پندرہ گواہوں کی موجودگی میں‘ اپنی رائے سے انہیں آگاہ کر دیا اوروہ بھی بلند آواز میں۔

    کامیابی گمراہ کرتی ہے۔رائے ونڈ کے حیران کن جلسہ عام نے تحریک انصاف کی قیادت کو خواب دکھایا ۔ پاناما لیکس پر پیہم مذاکرات اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کی تکلیف دہ ہم سفری نے زچ کر ڈالا تھا۔ ناامیدی میں‘ امکان کی کرن یکایک پھوٹے تو جذباتی توازن بعض اوقات برقرار نہیں رہتا۔
    پیپلز پارٹی کی ”غداری‘‘پہ کپتان ناراض تھا۔اسی عالم میںخود پسند علامہ طاہر القادری کے بارے میں‘ نہایت ہی سخت جملہ کہہ دیا۔ علّامہ نے آج تک اپنے اوّلین محسن شریف خاندان کو معاف نہیں کیا‘ جن کے بل پر آسودہ زندگی کا آغازکیا۔ عمران کو کیسے کریں گے؟ شہرت‘ دولت اور اقتدارکے حریص کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی ؎

    جامۂِ احرامِ زاہد پر نہ جا
    تھا حرم میں لیک نامحرم رہا

    اقبالؔ نے کہا تھا:براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے۔ ہوس چھپ چھپ کے سینوںمیںبنا لیتی ہے تصویریں ۔ ملّا کا نہیں یہ دوسروں کا ذکر ہے۔ واعظ کے بارے میں اس نے یہ کہا تھا ؎
    میں جانتا ہوں انجام اس کا
    جس معرکے میں ملاّ ہوں غازی

    2012ء کے دھرنے میں جاوید ہاشمی اور شاہ محمود سمیت‘ تحریک کے کئی لیڈر علامہ طاہر القادری سے نامہ و پیام کے آرزومند تھے۔ خان کو قائل کرنے میں‘میں کامیاب رہا کہ ان سے دور رہے۔ بے برکت آدمی ہیں۔ دوسری بار وہ پھنس گیا۔
    پیپلز پارٹی کے سوا‘ آئندہ الیکشن میں ہر سیٹ پر جو امیدوار کھڑا کرے گی ‘ باقی اپوزیشن پارٹیاں‘ عمران خاں کی مدد سے انکار کرتی ہیں۔ وہ حصہ مانگتی ہیں۔ الیکشن2018ء کے لیے علامہ صاحب30فیصد سیٹیں چاہتے ہیں جماعت اسلامی 20فیصد سے کم پہ راضی نہ ہوگی۔ چوہدری صاحبان حقیقت پسند ہیں مگر پھر بھی!…مجموعی طور پر کم از کم چالیس فیصد تو کپتان کو چھوڑنا ہی ہوں گی۔ زیادہ تر یہ ہار دی جائیں گی۔ قاف لیگ والے شاید کچھ لے مریں۔

    یہ ایک پہلو ہے۔ اس سے زیادہ یہ کہ دہلی اور کابل افراتفری پھیلانے پر تلے ہیں۔ اللہ کرے میرا اندازہ غلط ہو۔ کوئٹہ کا سانحہ آخری نہیں لگتا۔ امریکہ بھارت کی پشت پر ہے۔ چین اور ترکی کے سوا عملاً ہمارا کوئی دوست نہیں۔ وزیر اعظم سمیت کسی ایک بھی پاکستانی سیاستدان کو صورتحال کی سنگینی کا احساس نہیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ شاکی ہیں ‘ وزیر اعظم کیا‘ایوان وزیراعظم کاعملہ بھی بات نہیں سنتا۔

    اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا۔ وزیر اعظم نے تعزیت کی لوٹ آئے۔ چن چن کر نالائق افسر کوئٹہ بھجوائے جاتے ہیں۔ تحقیقات سامنے آئیں گی تو تصدیق ہو گی کہ پولیس کالج میں ایک بھی محافظ ڈیوٹی پر نہ تھا‘ جی ہاں! ایک بھی نہیں۔ آئی جی وہاں پہنچے ضرور لیکن کوئی اقدام نہ کیا۔ فوجی افسر پہنچے تو وہ جھوٹ بولتے رہے کہ انسداد دہشت گردی پولیس کے دستے اندر مصروف عمل ہیں۔ 48پولیس افسروں میں سے دو تہائی عموماً رخصت پر ہوتے ہیں۔ صرف چار مقامی افسر مستقل موجود پائے جاتے ہیں۔ آئی جی صاحب چیف سیکرٹری کا انتخاب ہیں۔ وزیراعظم ہائوس کے پاس بلوچستان کے لیے کوئی وقت نہیں۔ چیف سیکرٹری ‘ وزیر اعظم کے پسندیدہ ہیں۔ پوری کی پوری کھیپ بدل بھی جائے تو بہت زیادہ فرق واقع نہ ہو گا۔ وزیر اعظم کو بلوچستان سے دلچسپی ہی نہیں‘ صوبائی قیادت ناتجربہ کار ہے یا پرلے درجے کی بدعنوان ‘نتیجہ معلوم ‘ ملّاہیں‘ سردار ہیں‘ لیویز ہے اور سونے پہ سہاگہ اچکزئی خاندان ۔بیشتر ارکان اسمبلی ایسے ہیں کہ بیس تیس کروڑ سالانہ سے کم میں‘ جن کا پیٹ نہیں بھرتا۔

    بھارت جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ سیرل المیڈاخود نہیں گئے ‘بھگا دیے گئے۔ بھارت سے ان کے رابطے ہیں۔ وفاق حکومت کو پروا ہے نہ اس میں عزم کہ اخبار اور رپورٹر کے باب میں پورا سچ بولے۔ فوج کے نئے سالار کاانتخاب ہونا ہے۔ترجیح اس میں یہ ہے کہ وزیر اعظم کا وفادار ہو اور فوج کے کردار کو محدود کر سکے۔ ظاہر ہے کہ اسے غیر موثر بنا کر ۔غیر موثر یعنی بے دل فوج‘ بھارتی‘ کابلی اور امریکی عزائم کا سامنا کیسے کرے گی؟ سی پیک کا کیا ہو گا؟ گوادر کا مستقبل کیا ہے؟ حتیٰ کہ ایٹمی پروگرام کا؟ خطرہ لاحق ہوا تو زرداری‘ اچکزئی‘ اسفند یار اور مولانا فضل الرحمن سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟ دودھ پینے والے مجنوئوںسے۔

    کپتان کو لکھا :آپ غصے میں ہیں اور غصے میں فیصلے نہیں کیے جاتے۔ شہباز شریف پر جو الزامات انہوں نے عائد کئے ہیں وہ ثابت نہ کر سکیں گے‘ حالانکہ عصر حاضر کے شیر شاہ سوری اور قائد اعظم کا دامن صاف تو ہرگز نہیں۔ قومی خزانے کے باب میں اس سفاک ہیں۔ تین ارب کوہاٹ پہ لٹا دیے۔ صوبے کا آئندہ الیکشن جیتنے کے لیے ایک ہزار ارب روپے وہ بربادکر سکتے ہیں۔

    تحریک انصاف کا دم غنیمت ہے کہ تجارت پیشہ حکمرانوں پر دبائورہے۔ کامرانی مگر موزوں تجزیے کی مرہون منت ہوتی ہے۔سیاستدان غرض کے بندے‘ میڈیا کا بڑا حصہ بکائو۔ پارٹی غیر منظم‘ لیڈر ناتجربہ کار‘ کارکن غیر تربیت یافتہ‘ تقریباً تمام حلیف شائیلاک کی طرح اپنا حصّہ مانگنے والے۔ فیصلہ کن جنگیں اس طرح کے لشکروں سے نہیں لڑی جاتیں؛ اگرچہ حکومت نے خود کو رسوا کر لیا اور کرتی چلی جائے گی۔

    2014ء کے دھرنے میں‘ جنرل راحیل شریف سے‘ کپتان کی ملاقات کے ہنگام‘ پی ٹی آئی کے لیڈروں سے درخواست کی تھی کہ ان کی پیشکش قبول کر لیں۔فوج کی ضمانت سے‘ سانحہ ماڈل ٹائون اور دھاندلی کی زیادہ بہتر تحقیقات کے علاوہ شہباز شریف کی معزولی ممکن تھی۔ انہوں نے سن کر نہ دیا۔

    اب کی بار عدالت نے راستہ کھول دیا ہے۔ تحریک انصاف شہرکا محاصرہ نہ کرے‘ حکومت کسی کو گرفتار کرے اور نہ کنٹینر لگائے۔ جلسے پر سمجھوتہ ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک تاریخی اجتماع ہو سکتا ہے۔ طوفان میں جرأت سے زیادہ حکمت درکار ہوتی ہے۔
    درویش سے پوچھا:فلاں ‘فلاں اور فلاں درود آپ پڑھتے ہیں؟جواب ملا : فقط ابراہیمی درود ہم پڑھتے ہیں‘ ہم پکّی سڑک پرچلتے ہیں ۔

  • دھرنے اور آج کا اسلام آباد – نورین تبسم

    دھرنے اور آج کا اسلام آباد – نورین تبسم

    اسلام آباد اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت، اُس کا دل، ایک خوبصورت شہر، جس کا موسم مالک کی فیاضی کا اورجس کی دلکشی اور نکھار انسان کی تنظیمی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے، جس کے خوبصورت گھر مکینوں کی آسودگی کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں، جس کے قبرستان دیکھ کر انسان کے دل میں مٹی سے ملن کی خواہش بیدار ہو جاتی ہے، جس کے پہاڑ کا سحر انسان کو زندگی اورموت کے درمیان تارِعنکبوت بھلا دیتا ہے، جس کی بل کھاتی سڑکوں پر چمچماتی نئے سے نئے ماڈل کی گاڑیاں شاہ سواروں کی بےنیازی کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتی ہیں، جس کے پوش علاقوں کے برانڈڈ شاپنگ پلازہ مہنگائی اورغربت کے منہ پرطمانچے رسید کرتے دکھائی دیتے ہیں، جس کی مہذب سول سوسائٹی ملک وقوم کےغم میں آئے روز ”دھرنے اور واک“ کا اہتمام کرتی ہے، لبرل گھرانوں کے تعلیم یافتہ نوجون لڑکے اورلڑکیاں کندھے سے کندھا ملائے ملکی مفاد کی خاطر اپنی خواب گاہوں اور درس گاہوں سے اٹھ کر ایک مقصد( کاز) کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

    اسلام آباد پاکستان کا سب سے جدید اور پوش شہر ہے۔ ڈی چوک کے آس پاس ”بلیو ایریا“ کا سب سے مہنگا تجارتی مرکز ہو یا شہر کے مختلف سکیٹر، پرتعیش طعام گاہوں اور نت نئے ماڈل کی گاڑیوں کی رونق سےمزین ہیں۔ اگرچہ غربت و افلاس چوکوں اور چوراہوں پر پیشہ ور بھکاریوں کے روپ میں نظر آتی ہے، شہر کے قرب میں سانس لیتی کچی آبادیاں آقاوغلام کے ازلی تاثر کی غمازی کرتی ہیں، سڑکوں پر جا بجا لگے ناکوں سے حالات کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے مگر راوی ہرطرف چین ہی چین لکھتا ہے۔ سی ڈی اے کے زیراہتمام ہفتے میں تین روز لگنے والے بازار نہ صرف متوسط طبقے بلکہ ہر قسم کے طبقات کے لیے ایک نعمت مترقبہ سے کم نہیں، جہاں ضروریات زندگی سے تعیشات زندگی کی ہر چیز کی خریداری ہر کوئی اپنی جیب کے مطابق کر سکتا ہے. عام شہری قاعدے قانون کی پابندی کرتے ہوئے باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں۔ بجلی پانی گیس اورصحت وصفائی جیسی بنیادی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں۔

    کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہاں مشکلات اور پریشانیاں نہیں۔ جرائم اور اشرافیہ کی زیادتیاں نہیں، بلکہ یہاں تو جرائم بھی اتنے مکمل انداز میں اور دن دہاڑے ہوتے ہیں کہ لوٹنے والا نام ونشان تک نہیں چھوڑتا۔ قبضہ مافیا آبائی گھروں اور زمینوں میں رہنے والوں کو قانون کا سہارا لے کر یوں صفائی سے بےدخل کرتا ہے کہ برسوں مقدمات اپنی موجودگی کی گواہی دینے میں گزر جاتے ہیں۔ جج کے سامنے لاکھ چیخ پکار کرو کہ ایک بندہ تمہارے سامنے زندہ کھڑا ہے اس کی شہادت اہم ہے یا کسی جعلی دعوے دار کی۔ قانون اسلام آباد میں بھی اندھا ہے۔ یہاں قائم سب سے بڑی عدالت انصاف کے باوجود انصاف یہاں کوسوں دور ہے۔ یہاں کی پولیس بھی ”کارکردگی“ میں ”وقت“ پڑنے پر کسی بڑے صوبے کی پولیس سے کم نہیں۔ یہاں بھی جان مال سے لے کر ایمان تک ”سب“ بکتا ہے۔گاڑیوں کی چوری اور گھروں میں دن رات کے فرق کے بغیر ڈاکے بھی معمول کے جرائم میں شامل ہیں۔

    لیکن ان سب باتوں کے باوجود اندھا انقلاب یا اندھی تقلید اندھے قانون سے نجات کا حل نہیں۔
    بنیادی طور پر دیکھا جائے تو اسلام آباد موسم اور لوگوں کے مزاج، وسائل اور مسائل کے اعتبار سے ایک معتدل اور منظم شہر ہے۔ کاش ہمارے آج کے ”مخلص رہنما“ جو قوم کے درد میں ”خوار“ ہو رہے ہیں۔ میرے وطن کی ان زمینوں کو دھرنے اور نیا پاکستان بنانے کے لیے منتخب کرتے جہاں کے لوگ آج بھی پتھر کے زمانے میں سانس لے رہے ہیں۔ جہاں کے موسم کی سختی اور حالات کے جبر نے انسان کا انسان سے رشتہ ختم کر دیا ہے۔ جہاں بھوک وافلاس کا عفریت خونی رشتوں کو نگل رہا ہے۔ جہاں ہمارے وطن کا قانون نہیں چلتا۔ کاش کوئی وہاں کی بادشاہی کو للکارنے کی ہمت پیدا کرسکتا۔

    کاش کوئی ”عظیم نجات دہندہ“، ”بڑا انقلابی رہنما“ ان محکوم و مجبور پسے ہوئے لوگوں کو احتجاج کے ہیوی بجٹ میں سے ایک وقت کی روٹی ہی کھلا دیتا۔ ایک روز کے لیے پینے کا صاف پانی ہی مہیا کر سکتا۔ لاکھوں چاہنے والوں اورعقیدت مندوں کی طاقت ان کے لیے راستہ بنانے پر لگا دیتا۔ یہ انقلاب کا وہ انداز ہوتا جو اس سے پہلے کسی نے دیکھا نا سنا ہوتا۔ عوام کی سطح پر آ کر بادشاہیت ختم کرنے کا وہ عہد ہوتا جو اشرافیہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دیتا۔گھنٹی سے یاد آیا کہ یہ تو
    ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون ڈالے“ والا مشکل کام تھا، جس کی زد میں ”اپنے“ ہی آتے ہیں۔

    ہر بار کیوں ہم عام عوام سے قربانی مانگی جاتی ہے؟ ہمیں بےوقوف بنایا جاتا ہے۔ کیا کبھی کسی بڑے نے اپنی ملکیت میں آنے والے ملک کے ایک حصے کو روشن مثال بنایا ہے؟

    احتجاج کا طریقہ غلط ہے۔ اس میں صرف عوام کا نقصان ہے۔ مہذب معاشروں میں بھی اس طرح کےاحتجاج ہوتے ہیں کوئی شک نہیں کہ بےاثر بھی رہتے ہیں لیکن کبھی کوئی طریقہ اتنا کارگر بھی ہوتا ہے کہ بغیر کسی شور کےاپنی بات منوا لی جاتی ہے۔ دور نہ جائیں صرف گزشتہ 30 سالہ ملکی تاریخ کا مشاہدہ کرلیں یہ بھی زیادہ لگے تو اس صدی کے پندرہ سال دیکھ لیں۔ ہر آنے والا پہلے سے بدتر ثابت ہوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جعلی ڈگریوں والے صاحبان ِاقتدارکی طرح ہم بھی اپنی تاریخ سے ناآشنا ہیں یا جان بوجھ کر نظر چراتے ہیں۔ یہ جانے بنا کہ تاریخ اپنے آپ کو باربار دُہراتی جاتی ہے جب تک کہ اُس سے سبق نہ سیکھ لیا جائے۔

    ہم عوام کے لیے حوصلے اور ہمت کی دعا ہے اور ہمارے نام نہاد قائدین جو خواہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں، ان کے لیے جوش سے بڑھ کر ہوش کی تمنا ہے، جنہوں نے ”تخت یا تختہ“ کو اپنی ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔

    آخری بات
    اسلام آباد گرایک الف لیلوی شہر ہے تو ”ڈی چوک“ اس کی جادو نگری جہاں جتنے جوش وخروش سے میلے لگتے ہیں۔ اُتنے ہی جوش سے کامیاب ہو کر ختم بھی ہو جاتے ہیں۔ کرتب دکھانے والا بھی خوش۔ ناچنے والا بھی خوش اور پلے سے پیسے خرچ کر کے دیکھنے والا بھی کان لپیٹ کر گھر لوٹتا ہے۔ آگے کی کہانی کس نے دیکھی؟ کس نے سنی؟ عوام پہلے بھی تماشائی تھے اور آج بھی تماشائی ہیں۔ میوزیکل چئیرز کے، انا کی موسیقی میں محو رقص بڑوں کے اس کھیل میں عام عوام کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلے جا رہے ہیں۔

    اُس شہر ِبےمثال میں دوردراز کے پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو ایک نظریے کا ٹیکہ لگا کر لانا اور دنوں خوار کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی بھوکے کو فائیوسٹار ہوٹل کی سیر کرائی جائے، پھر اس کے باہر والے باغیچے میں فرش پر بٹھا کرمحرومی اور مایوسیوں کا نوحہ سنایا جائے۔ ان بھوکوں کی برداشت کا امتحان لیا جائے۔ پھر اپنا پٹارا سمیٹ کر پچھلے دروازے سے اسی ہوٹل کے آرام دہ کمرے میں نیندیں پوری کی جائیں اور عام عوام کو دبی زبان میں ”گوٹو ہیل“ کہہ دیا جائے اور وہ سچ میں اپنے اپنے جہنم میں لوٹ جائیں۔ اپنے پیارے دیس کے باسیوں سے دلی معذرت کہ ہم سب کہیں نہ کہیں گروی رکھے ہوئے ہیں۔

    اللہ ہم سب کے حال پر رحم کرے اور مستقبل کے لیے وہ فیصلے کرنےکی توفیق دے جو ہمارے دین ایمان اور وطن کی سلامتی کے علم بردار ہوں۔ آمین
    پاکستان زندہ باد

  • اگر دھرنا ناکام ہو گیا-جاوید چوہدری

    اگر دھرنا ناکام ہو گیا-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ہم اب فرض کرتے ہیں عمران خان کا دھرنا کامیاب نہیں ہوتا‘ یہ عوام کا سمندر اسلام آباد لانے میں ناکام ہوجاتے ہیں‘ شہر بند نہیں ہوتا‘ اسکول‘ کالج‘ یونیورسٹیاں‘ سرکاری دفتر‘ پرائیویٹ آفسز‘ مارکیٹیں‘ شاپنگ سینٹرز اور دکانیں کھلی رہتی ہیں‘ میڈیا دھرنے کو سپورٹ نہیں کرتا اور ایم کیو ایم میئر وسیم اختر کی رہائی کے بدلے سینیٹ اور اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہوتی‘ پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں تقسیم ہو جاتی ہے۔

    وزیراعلیٰ پرویزخٹک گورنر اقبال ظفر جھگڑا کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دیتے ہیں اور یہ پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کے ساتھ پریس کانفرنس بلا لیتے ہیں اور فارورڈ بلاک میڈیا کے سامنے چیف منسٹر کی ایڈوائس واپس بھجوانے کی درخواست کر دیتا ہے‘ مسئلہ آئینی اور قانونی بن کر عدالتوں میں پہنچ جاتا ہے‘ مولانا فضل الرحمن آگے بڑھتے ہیں‘ اپوزیشن جماعتوں‘ جماعت اسلامی‘ شیرپاؤ گروپ اور پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کو ساتھ ملاتے ہیں اور وزیراعلیٰ بدل دیتے ہیں۔

    یہ اسپیکر اسد قیصر کو وزیراعلیٰ بنا دیتے ہیں یا پھر جماعت اسلامی کو وزارت اعلیٰ دے دیتے ہیں اور یوں صوبائی اسمبلی بھی بچ جاتی ہے‘ کے پی کے بھی عمران خان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور ان کی توجہ اسلام آباد سے بھی ہٹ جاتی ہے‘ سپریم کورٹ بھی روزانہ کی بنیاد پر کیس نہیں سنتی‘ یہ پٹیشنز کو قانونی رفتار سے چلنے دیتی ہے ‘ سپریم کورٹ عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کا حکم دے دیتی ہے یا پھر حکومت کریک ڈاؤن کے ذریعے کارکنوں کو گرفتار کر لیتی ہے۔

    یہ قائدین کو نظر بند کر دیتی ہے اور بلاول بھٹو ‘ خورشید شاہ اور چوہدری اعتزاز احسن ان کی رہائی کے لیے پریس کانفرنسیں شروع کر دیتے ہیں جنھیں یہ چور‘ ڈاکو اور مک مکا قرار دیتے رہے تھے اور سردی بھی بڑھ جاتی ہے اور بارشیں بھی شروع ہو جاتی ہیں اور یہ سارے معاملات آگے چل کر دھرنے کی ناکامی کا باعث بن جاتے ہیں تو کیا ہو گا؟ فائنل شٹ ڈاؤن اور لاک ڈاؤن کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ یہ سوال دلدل ہے اور ملک‘ عمران خان اور جمہوریت تینوں اس دلدل کی خشک سطح پر کھڑے ہیں‘ بس ایک کروٹ لینے کی دیر ہے اور یہ تینوں دلدل کا رزق بن جائیں گے۔

    عمران خان کے دھرنے کی ناکامی کا پہلا نقصان جمہوریت کو ہوگا‘ ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں سلطنتیں ہیں اور ان کے قائدین بادشاہ ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے 37سال بعد بھی زندہ ہیں‘ زندہ بھٹو کی روح کبھی آصف علی زرداری میں حلول کر جاتی ہے اور یہ کبھی بلاول زرداری کو بلاول بھٹو بنا دیتی ہے‘ یہ پارٹی سیاسی جماعت کم اور تخت زیادہ ہے اور اس تخت کا وارث بہرحال کوئی نہ کوئی بھٹو ہی ہو گا جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن بنی ہی میاں نواز شریف کے نام پر تھی لہٰذا پارٹی کے تمام جملہ حقوق ان کے پاس ہیں۔

    پارٹی کے تمام فیصلے صرف اور صرف یہ کرتے ہیں اور یہ میاں صاحب کا فیصلہ ہے ملک اور پارٹی کے تمام کلیدی عہدے شریف فیملی‘ خواجگان‘ بٹ صاحبان‘ کشمیریوں اور پنجابیوں کے پاس ہوں گے‘ یہ کیونکہ پنجاب کو اپنا سیاسی کعبہ سمجھتے ہیں چنانچہ سیاسی کعبے کی کنجی شریف فیملی کے پاس رہے گی‘ پارٹی ان کی جاگیر ہے چنانچہ یہ جاگیر حمزہ شہباز چلائیں گے اور پیچھے رہ گئے ملک کے اعلیٰ عہدے تو ان کے فیصلے بھی میاں نواز شریف کریں گے‘ یہ بادشاہ کی طرح جس سے خوش ہوں گے یہ اسے کسی بڑے شہر کا میئر بنا کر کوئی نہ کوئی ریاست سونپ دیں گے۔

    پارٹی کے ایم پی ایز‘ ایم این ایز‘ سینیٹرز‘ وزراء‘گورنرز‘ وزراء اعلیٰ اور صدر کھمبے ہیں‘ میاں صاحب جس کھمبے پر جو پرچم باندھ دیں گے وہ کھمبا وہ بن جائے گا اور یہ جس عہدیدار سے جو پرچم اتار لیں گے‘ وہ عہدیدار دوبارہ کھمبا بن جائے گا‘ عمران خان حبس کے اس موسم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھے‘ ان کی وجہ سے سیاست کے بتوں میں لکیریں آنے لگی تھیں‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف دونوں اپنے ساتھیوں کو عزت دینے لگے تھے‘ میاں نواز شریف نے دھرنے کی وجہ سے ساڑھے تین سال بعد پارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا۔

    یہ پارٹی کے اندر الیکشن پر بھی مجبور ہو گئے‘ یہ کابینہ کے اجلاس بھی بلانے لگے‘ یہ پارلیمنٹ میں بھی آنے جانے لگے اور انھیں اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت بھی نظر آنے لگی‘یہ ساری تبدیلی عمران خان کی مہربانی تھی‘ عمران خان کا یہ دباؤ اسی طرح جاری رہتا تو مجھے یقین تھا یہ دونوں پارٹیز حقیقی سیاسی جماعتیں بن جاتیں‘ یہ شریف اور بھٹوز سے باہر آنے پر بھی مجبور ہو جاتیں اور یہ بٹ اور سائیں سے بھی باہر نکل آتیں لیکن عمران خان جلدی کر بیٹھے اور یہ اگر اب ناکام ہو جاتے ہیں تو یہ دونوں پارٹیاں مزید مضبوط ہو جائیں گی۔

    میاں نواز شریف کا نخرہ غرور بن جائے گا اور آصف علی زرداری کا تیر تلوار اور اس کا نقصان جمہوریت کو ہوگا‘ پاکستانی جمہوریت بدترین سیاسی آمریت بن جائے گی اور یہ لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے ’’اگر عمران خان اپنے ایمپائر کے ساتھ مل کر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا تو کوئی اور کیا بگاڑ لے گا‘‘ اور یہ طعنہ اور یہ سوچ ملک کو خوفناک جمہوری آمریت کا شکار بنا دے گی۔

    دو نومبر کے دھرنے کی ناکامی کے دوسرے شہید خود عمران خان ہوں گے‘ یہ ناکامی انھیں ’’بڑھ بولا‘‘ ثابت کر دے گی‘ عوام اس کے بعد ان کی تقریر‘ جلسے اور دھرنے پر یقین نہیں کریں گے‘ لوگ آج بھی انھیں سیریس نہیں لے رہے‘ دھرنے کی ناکامی کے بعد یہ تھوڑا بہت بھرم بھی ختم ہو جائے گا اور یوں یہ پشاور میں بھی جلسہ نہیں کر سکیں گے‘ پارٹی کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ بھی بڑھ جائے گی‘ موسمی پرندے اڑان بھر جائیں گے‘ چوہدری سرور واپس لندن چلے جائیں گے‘ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین بھی نئے امکانات پر غورشروع کردیں گے۔

    کے پی کے میں فارورڈ بلاک بن جائے گا اور یہ بلاک صوبے کے تمام فیصلے بنی گالا کے بجائے پشاور میں کرائے گا‘ ایمپائر بھی عمران خان سے مایوس ہو جائیں گے‘ عمران خان کے عزیز ترین اینکر بھی غائب ہو جائیں گے اور یوں عمران خان اصغر خان بن کر تاریخ کے کھردرے صفحات میں گم ہوتے چلے جائیں گے اور دھرنے کی ناکامی کا تیسرا ’’وکٹم‘‘ پاکستان ہو گا‘ ملک میں بڑی مشکل سے سماجی اور سیاسی تبدیلیاں آئی تھیں۔

    نوجوان طبقہ طویل بے حسی اور لاتعلقی کے بعد عملی میدان میں آیا تھا‘ یہ ووٹ کے لیے پولنگ اسٹیشن گئے تھے‘ یہ جلسوں اور دھرنوں میں شریک ہوئے تھے اور ملک میں لوگ پہلی مرتبہ کرپشن‘ اقرباء پروری‘ نظام کی خرابی اور سیاسی جماعتوں کی بادشاہت کے خلاف بولنے لگے تھے‘ یہ بہت اچھی شروعات تھیں‘ یہ اگر اسی طرح جاری رہتیں اور عمران خان الیکشن ریفارمز کرا لیتے‘ یہ نئی ووٹر لسٹیں بنوا لیتے‘ یہ ملک میں مردم شماری کرا لیتے‘ الیکشن میں بائیو میٹرک سسٹم آ جاتا‘ یہ الیکشن کمیشن کو ٹائیٹ کرا لیتے اور یہ عدلیہ کو جلد فیصلوں پر مجبور کر دیتے تو ملک میں حقیقی تبدیلی آ جاتی۔

    عمران خان اگر خیبر پختونخوا پر توجہ دیتے‘ یہ اپنی اور اپنی پارٹی کی ساری توانائیاں وہاں صرف کرتے تو ان کا صوبہ پوری دنیا کے لیے آئیڈیل بن جاتا‘ دوسرے صوبوں کو تحریک ملتی‘یہ بھی ان کی تقلید کرتے اور پورا ملک بدل جاتا۔

    یہ اگر اسی طرح پارٹی کی تنظیم سازی پر توجہ دیتے‘ یہ ملک کے تمام شہروں‘ قصبوں اور دیہات میں پارٹی دفاتر بناتے‘ نوجوانوں کی باڈیز بناتے‘ پارٹی کے سیاسی اسکول اور کالج بناتے‘ اپنے تمام ورکروں کو سوشل میڈیا کے ذریعے آپس میں جوڑ دیتے اوریہ اپنی ووٹر لسٹیں بناتے اور حلقوں کے لیے بہتر امیدوار تلاش کرتے تو یہ ملک میں 2018ء تک قائد انقلاب اور ان کی جماعت انقلابی پارٹی بن چکی ہوتی لیکن عمران خان سیدھے راستے کے بجائے اس راستے پر چل پڑے جس پر چل کر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری اقتدار تک پہنچے تھے۔

    آپ آج پاکستان تحریک انصاف کا ملک کی دونوں پرانی جماعتوں کے ساتھ تقابل کر لیں‘ آپ تینوں کو ایک جیسا پائیں گے‘ آپ کو تینوں کے نام‘ چہرے اور بیانات تک ایک ملیں گے‘ مخدوم اُدھر بھی ہیں اور مخدوم اِدھر بھی ہیں‘ اے ٹی ایم اُدھر بھی ہیں اور اے ٹی ایم اِدھر بھی ہیں اور جینوئن کارکن اُدھر بھی ذلیل ہو رہے ہیں اور یہ اِدھر بھی خاک چاٹ رہے ہیں چنانچہ پھر فرق کہاں ہے؟

    آپ کسی دن کوئی اخبار اٹھائیے اور تینوں پارٹیوں کے رہنماؤں کے بیانات کی سرخیوں میں نام تبدیل کر دیجیے‘ عمران خان کے بیان کے اوپر بلاول بھٹو کا نام لکھ دیجیے‘ بلاول بھٹو کے بیان پر عمران خان کا نام لگا دیجیے اور آپ میاں نواز شریف کے بیان پر آصف علی زرداری لکھ دیجیے‘ آپ کو کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا‘ یہ کیا ہے؟

    یہ وہ مقام افسوس ہے جس کا ماتم پوری قوم کر رہی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو تبدیلی کا شاندار موقع دیا تھا لیکن ان کی جلد بازی نے یہ موقع ضایع کر دیا‘ رہی سہی کسر دھرنے کی ناکامی پر پوری ہو جائے گی‘ آپ بدقسمتی دیکھئے عمران خان کی غلطیوں نے سیاست کو خربوزہ بنا دیا ہے‘ یہ اب چھری کے اوپر ہو یا نیچے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ قوم نے بس یہ تخمینہ لگانا ہے ملک کو دھرنے کی کامیابی سے زیادہ نقصان ہو گا یا ناکامی سے! نقصان بہرحال اب ہمارا مقدر ہے۔

    اگر دھرنا کامیاب ہوگیا، پہلی قسط ملاحظہ فرمائیں

  • امید بمقابلہ مایوسی-احسن اقبال

    امید بمقابلہ مایوسی-احسن اقبال

    na-117

    حالیہ دنوں میں ملک کے اِن قابل نوجوانوں سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا جوپاکستان کی ترقی و خوشحالی میں نت نئے بزنس آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے میں مصروفِ عمل ہیں،بلاشبہ دورِ جدید میں جِدت ہی کسی بھی معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار اداکررہی ہے اور خداداد صلاحیتوں کے حامل نوجوان بزنس مین نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری میں ملک کا مثبت امیج اجاگرکرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ کسی بھی نئے کاروبار کی کامیابی کا دارومدار خود اعتمادی اور مثبت سوچ پر ہوتا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب گلاس کو آدھا بھرا یا آدھا خالی دیکھنے کے حوالے سے سوچ واضح ہو، ازل سے قانونِ فطرت ہے کہ آدھا گلاس خالی دیکھنے والے چاہے جتنے بھی وسائل سے مالامال ہوں ، مایوسی اور ناامیدی کے گہرے کنویں میں گِرکر ناکامی اپنا مقدر بنالیتے ہیں، ناکامی کا خوف انہیں کوئی بھی نیا رِسک لینے سے باز رکھتا ہے جس کی بناء پر مقاصد کا حصول سراسر اپنی ہی منفی اپروچ کی وجہ سے ناممکن ہوجاتا ہے جبکہ آدھا گلاس بھرا دیکھنے والے مثبت سوچ کے حامل افراد درپیش چیلنجز کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں، وسائل کی کمی کا رونا رونے کی بجائے مسائل کا پائیدار حل تلاش کرتے ہیں اور ہمتِ مرداں مددِ خدا کے مصداق کامیابی سے ہمکنار ہوجایا کرتے ہیں۔

    یہی صورت حال عالمی منظرنامے میں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے جہاں تمام ممالک اپنے مثبت امیج کو اجاگرکرنے کیلئے سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان کو ان عناصر کا سامنا ہے جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے صرف اور صرف “ستیاناس” اور “بیڑاغرق” ہی کا راگ الاپ کر ملک و قوم کی بدنامی میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عالمی سیاست میں کسی بھی قوم کی پُرامیدی اور مثبت سوچ پر مبنی لائحہ عمل ہی کامیابی کا ضامن ہواکرتا ہے،اِس امر پر اختلاف نہیں کہ پاکستان کو مختلف چیلنجزکا سامنا ہے لیکن گزشتہ تین برسوں میں وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں مختلف شعبوں میں بیش بہا کامیابیوں کی داستانیں بھی رقم کی گئی ہیں۔پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی پر تمام پاکستانیوں کو فخر ہونا چاہیے، ماضی قریب میں عالمی طاقتوں کے ایماء پرایک آمرنے آئین کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی، غیرملکی اشاروں پر ڈالرزکے عوض ملکی مفاد کا سودا کیا گیا،ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم کیاگیا، جمہوری معاشرے کی جان عوام کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کی مقبول قیادت کو قومی دھارے سے باہر کرنے کی غیرآئینی کوششوں کے باوجود عوام نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے جمہوریت، انصاف، مساوات، اور قانون کی حکمرانی کیلئے اپنی پُرامن جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا، آج پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور دیگر طبقات کا فیڈریشن کو مضبوط بنانے کیلئے اتفاق ہے۔

    اگر آج کے پاکستان کا موازنہ 2013ء کے پاکستان سے کیا جائے تو واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آج کا پاکستان 2013ء سے کہیں مختلف ہے جب ملک دہشت گردی کے عفریت کا شکار تھا، ریاست کی رِٹ روزبروز کمزور ہوتی جارہی تھی، روزانہ کی بنیادوں پر معصوم عوام کا خون بہایا جا رہا تھا لیکن بہادر قوم نے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جس کی بدولت آج کے پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت آخری سانسیں لے رہا ہے، کامیابی سے دہشت گردوں کا صفایا کیا جا رہا ہے جس کی تازہ مثال اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حکومتی اداروں کی چوکسی کی بناء پرحالیہ محرم کا خیروعافیت سے گزرنا ہے۔مجھے یہ بتانے میں فخر محسوس ہورہا ہے کہ موجودہ حکومت کی کامیاب پالیسیوں کا اعتراف عالمی میڈیا بھی کررہا ہے جو 2013ء میں اپنے تبصروں ، نیوز رپورٹس میں پاکستان کو روئے زمین پر خطرناک ترین ملک کہتا تھا اور آج پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی بناء پر پاکستان کوتیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت اورعالمی سرمایہ کاری کیلئے پرکشش ترین ملک قرار دیتا ہے،

    ملکی معیشت جو چند برس پیشتر تباہی کا شکار تھی آج خطے کی ابھرتی ہوئی معیشت سمجھی جارہی ہے،2013ء کے پاکستان کے گروتھ ریٹ کا گزشتہ آٹھ برسوں سے موازنہ کیا جائے توآج 4اعشاریہ 8فیصد کی بلند ترین سطع پر پہنچ چکا ہے،پاکستان فارن ایکسچینج ریزرو 23بلین ڈالرز کی تاریخی بلندی کی بدولت آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوچکا ہے،حکومت اس کامیابی کے مثبت اثرات سے معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی کو مستفید کروانے کیلئے مصروفِ عمل ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ عناصر کی جانب سے ایسا بے بنیاد دعویٰ کرکے مایوسی پھیلائی جارہی ہے کہ حکومت نے عوام کو قرضوں میں جکڑ دیا ہے، جبکہ درحقیقت حکومت کی طرف سے گزشتہ تین برسوں میں ڈیبٹ/جی ڈی پی ریشو کو برقرار رکھا گیا ہے، ملک میں شرحِ بے روزگاری 6فیصد سے کم ہوچکی ہے، 2013ء میں فِسکل ڈیفیسٹ 9فیصدتھا جو آج 5فیصد ہے، موجودہ انفلیشن ریٹ لگ بھگ 5فیصد ہے جوکہ گزشتہ 13سالوں میں کم ترین سطع پرہے ، جی ڈی پی گروتھ ریٹ میں گزشتہ تین برسوں میں اضافہ ہوا ہے،

    پاکستان سٹاک ایکسچینج تاریخ میں پہلی مرتبہ چالیس ہزار پوائنٹس عبور کرچکے ہیں،مورگن سٹانلے کیپیٹل انٹرنیشنل (ایم ایس سی آئی)سمیت عالمی ادارے پاکستان کو ایمرجنگ مارکیٹ قراردے رہے ہیں ۔ یہ وہ چشم کشا حقائق ہیں جن کی توقع 2013ء تک دور دور تک کہیں نہ تھی۔آج انرجی، انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور ہائیر ایجوکیشن کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی جارہی ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا ہے، موڈیز، اسٹینڈرڈ اینڈپورز جیسے عالمی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو پازیٹو قرار دیا ہے،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور دیگر اداروں کی غیرجانبدارانہ رپورٹس اس بات کی گواہ ہیں کہ ملک میں کرپشن میں کمی آئی ہے، گلوبل کمپیٹیٹونیس انڈکس میں پاکستان کی رینکنگ برائے 2015۔16ء بہتر ہوئی ہے، شرح خواندگی 60فیصد تک ہوچکی ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پرائم منسٹرز نیشنل ہیلتھ پروگرام کی بدولت معاشرے کے پِسے ہوئے غریب عوام کی حالت بہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں،آئی ٹی انڈسٹری میں پاکستانی نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، پاکستان کو آئی سی ٹی کے شعبے میں نئے بزنس پراجیکٹس کے حوالے سے موزوں ترین سمجھا جا رہاہے،تھری جی اور فور جی متعارف کروانے کے بعد سی پیک منصوبے کے تحت آپٹیکل فائبر سے ملک میں مزید تیز رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے ،

    پاکستان نے اپنے ہم پلہ ممالک کے گروپ میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو ماضی میں سیاسی عدمِ استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا۔ یہ وہ حقائق ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ آج کا رائزنگ پاکستان درست سمت کی جانب گامزن ہے۔ اس کی بنیادی وجہ میرا گلاس کا آدھا بھرا ہوا دیکھنا ہے۔ ایسے حالات میں جب حکومت وقت کو ناحق تنقید کا نشانہ بناجارہا ہو میری پاکستانی معاشرے میں مثبت پہلو تلاش کرنے کی عادت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اختلافِ رائے کسی بھی جمہوری معاشرے کا حسن ہے، ہمارے سیاسی مخالفین سمیت دیگر ناقدین کو تنقید کرتے وقت پاکستان کی ترقی و خوشحالی پر مبنی منصوبوں کو نشانہ بنانے کی بجائے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ معاشرے میں پرامیدی اور مثبت سوچ اجاگر کرنے کا پیغام عام کرتے ہوئے میں توقع کرتا ہوں کہ ناقدین کو تنقید کرتے ہوئے توازن رکھنا چاہیے، آدھا گلاس خالی دیکھنے کی عادتِ بد سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور پاکستان سے منسلک مثبت کامیابیوں کو اجاگر کرنے کیلئے تعاون کا ہاتھ تھامنا چاہیے ورنہ اندیشہ ہے کہ مایوسی کے سوداگر قوم کا مورال ڈاؤن کرنے کا باعث بنیں گے جوکہ کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔

  • اگر دھرنا کامیاب ہوجائے! ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    اگر دھرنا کامیاب ہوجائے! ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق جاوید چودھری صاحب کو میں نے کبھی سیریس نہیں لیا۔ رات ایک دوست نے ان کا تازہ ترین ”تجزیہ“ پڑھنے پر مجبور کیا جس میں چودھری صاحب نے عمران خان کے دھرنے کی کامیابی کے بعد کے امکانات کا تصور کیا ہے۔ جو کچھ انھوں نے بزعم خود بڑے منطقی انداز میں پیش کیا، اس کا خلاصہ یہ ہے:

    1۔ اگر سپریم کورٹ مداخلت کرے اور نواز شرف صاحب کو فیصلے تک آرام کے لیے کہہ دے تو بھی حکومت ن لیگ کی رہے گی۔
    2۔ اگر سپریم کورٹ مداخلت کے بعد نواز شریف صاحب کو ڈس کوالیفیائی کردے تو بھی نئے الیکش کے بعد وہ پھر بھاری مینڈیٹ (اس لفظ کے ساتھ میرے ذہن میں بھاری مینڈک کا تصور بنتا ہے۔ معذرت) لے کر آجائیں گے۔
    3۔ اگر سپریم کورٹ ساری شریف فیملی کو فارغ کردے تب بھی یہی ہوگا۔
    4۔ اگر شریفوں کی فراغت کے بعد ن لیگی پرندے اڑ کر عمران خان کے کیمپ میں آجائیں اور وہ وزیر اعظم بن جائیں، تب بھی احتساب نہیں ہوگا۔
    5۔ اگر حالات کی خرابی کی بنیاد پر فوج آجائے تو دس سال تک رہے گی اور تب بھی احتساب نہیں ہوگا۔

    یہ ایک ایک ”امکان“ میں پڑھ رہا تھا اور میری ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ میرے دوست کو غصہ بھی آرہا تھا۔

    سنجیدگی اختیار کرنے کے بعد میں نے اس سے کہا کہ چودھری صاحب کا مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان کی پوری قوم محض ایک مشین ہے اور نواز شریف صاحب اس کا بس ایک پرزہ ہیں؛ اس پرزے کو نکال لینے کے بعد باقی سارے پرزے اسی طرح موجود رہیں گے اور ہم صرف اس ایک پرزے کی ری پلیس منٹ کا سوچیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بزعم خود ایک سینیئر کالم نگار اس طرح کی ”بونگیاں“ کیسے مار سکتے ہیں؟ یہ انسانی معاشرہ ہے۔ ایک کردار کے آگے پیچھے ہونے سے پورا سیٹ اپ تبدیل ہوجاتا ہے؛ پورا تناسب بگڑ جاتا ہے؛ ساری پوزیشنیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔

    باقی باتیں چھوڑیں اور یہ سوچیں کہ اگر نواز شریف صاحب وزیر اعظم نہ رہے تو 1973 کے آئین کے تناظر میں مولانا فضل الرحمان صاحب کا سیاسی تجزیہ کیا ہوگا؟
    پھر ان سینیئر کالم نگار نے اس قوم کے متعلق یہ کیسے فرض کرلیا ہے کہ کسی بھی صورت ”احتساب“ تو نہیں ہوگا؟
    اور یہ کیسے فرض کرلیا کہ بہرصورت میاں صاحب بھاری مینڈک، سوری بھاری مینڈیٹ لے کر آئیں گے؟ انگریزی کا مقولہ یاد آیا:
    There is many a slip between the cup and the lip!