اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت، اُس کا دل، ایک خوبصورت شہر، جس کا موسم مالک کی فیاضی کا اورجس کی دلکشی اور نکھار انسان کی تنظیمی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے، جس کے خوبصورت گھر مکینوں کی آسودگی کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں، جس کے قبرستان دیکھ کر انسان کے دل میں مٹی سے ملن کی خواہش بیدار ہو جاتی ہے، جس کے پہاڑ کا سحر انسان کو زندگی اورموت کے درمیان تارِعنکبوت بھلا دیتا ہے، جس کی بل کھاتی سڑکوں پر چمچماتی نئے سے نئے ماڈل کی گاڑیاں شاہ سواروں کی بےنیازی کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتی ہیں، جس کے پوش علاقوں کے برانڈڈ شاپنگ پلازہ مہنگائی اورغربت کے منہ پرطمانچے رسید کرتے دکھائی دیتے ہیں، جس کی مہذب سول سوسائٹی ملک وقوم کےغم میں آئے روز ”دھرنے اور واک“ کا اہتمام کرتی ہے، لبرل گھرانوں کے تعلیم یافتہ نوجون لڑکے اورلڑکیاں کندھے سے کندھا ملائے ملکی مفاد کی خاطر اپنی خواب گاہوں اور درس گاہوں سے اٹھ کر ایک مقصد( کاز) کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
اسلام آباد پاکستان کا سب سے جدید اور پوش شہر ہے۔ ڈی چوک کے آس پاس ”بلیو ایریا“ کا سب سے مہنگا تجارتی مرکز ہو یا شہر کے مختلف سکیٹر، پرتعیش طعام گاہوں اور نت نئے ماڈل کی گاڑیوں کی رونق سےمزین ہیں۔ اگرچہ غربت و افلاس چوکوں اور چوراہوں پر پیشہ ور بھکاریوں کے روپ میں نظر آتی ہے، شہر کے قرب میں سانس لیتی کچی آبادیاں آقاوغلام کے ازلی تاثر کی غمازی کرتی ہیں، سڑکوں پر جا بجا لگے ناکوں سے حالات کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے مگر راوی ہرطرف چین ہی چین لکھتا ہے۔ سی ڈی اے کے زیراہتمام ہفتے میں تین روز لگنے والے بازار نہ صرف متوسط طبقے بلکہ ہر قسم کے طبقات کے لیے ایک نعمت مترقبہ سے کم نہیں، جہاں ضروریات زندگی سے تعیشات زندگی کی ہر چیز کی خریداری ہر کوئی اپنی جیب کے مطابق کر سکتا ہے. عام شہری قاعدے قانون کی پابندی کرتے ہوئے باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں۔ بجلی پانی گیس اورصحت وصفائی جیسی بنیادی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں۔
کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہاں مشکلات اور پریشانیاں نہیں۔ جرائم اور اشرافیہ کی زیادتیاں نہیں، بلکہ یہاں تو جرائم بھی اتنے مکمل انداز میں اور دن دہاڑے ہوتے ہیں کہ لوٹنے والا نام ونشان تک نہیں چھوڑتا۔ قبضہ مافیا آبائی گھروں اور زمینوں میں رہنے والوں کو قانون کا سہارا لے کر یوں صفائی سے بےدخل کرتا ہے کہ برسوں مقدمات اپنی موجودگی کی گواہی دینے میں گزر جاتے ہیں۔ جج کے سامنے لاکھ چیخ پکار کرو کہ ایک بندہ تمہارے سامنے زندہ کھڑا ہے اس کی شہادت اہم ہے یا کسی جعلی دعوے دار کی۔ قانون اسلام آباد میں بھی اندھا ہے۔ یہاں قائم سب سے بڑی عدالت انصاف کے باوجود انصاف یہاں کوسوں دور ہے۔ یہاں کی پولیس بھی ”کارکردگی“ میں ”وقت“ پڑنے پر کسی بڑے صوبے کی پولیس سے کم نہیں۔ یہاں بھی جان مال سے لے کر ایمان تک ”سب“ بکتا ہے۔گاڑیوں کی چوری اور گھروں میں دن رات کے فرق کے بغیر ڈاکے بھی معمول کے جرائم میں شامل ہیں۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود اندھا انقلاب یا اندھی تقلید اندھے قانون سے نجات کا حل نہیں۔
بنیادی طور پر دیکھا جائے تو اسلام آباد موسم اور لوگوں کے مزاج، وسائل اور مسائل کے اعتبار سے ایک معتدل اور منظم شہر ہے۔ کاش ہمارے آج کے ”مخلص رہنما“ جو قوم کے درد میں ”خوار“ ہو رہے ہیں۔ میرے وطن کی ان زمینوں کو دھرنے اور نیا پاکستان بنانے کے لیے منتخب کرتے جہاں کے لوگ آج بھی پتھر کے زمانے میں سانس لے رہے ہیں۔ جہاں کے موسم کی سختی اور حالات کے جبر نے انسان کا انسان سے رشتہ ختم کر دیا ہے۔ جہاں بھوک وافلاس کا عفریت خونی رشتوں کو نگل رہا ہے۔ جہاں ہمارے وطن کا قانون نہیں چلتا۔ کاش کوئی وہاں کی بادشاہی کو للکارنے کی ہمت پیدا کرسکتا۔
کاش کوئی ”عظیم نجات دہندہ“، ”بڑا انقلابی رہنما“ ان محکوم و مجبور پسے ہوئے لوگوں کو احتجاج کے ہیوی بجٹ میں سے ایک وقت کی روٹی ہی کھلا دیتا۔ ایک روز کے لیے پینے کا صاف پانی ہی مہیا کر سکتا۔ لاکھوں چاہنے والوں اورعقیدت مندوں کی طاقت ان کے لیے راستہ بنانے پر لگا دیتا۔ یہ انقلاب کا وہ انداز ہوتا جو اس سے پہلے کسی نے دیکھا نا سنا ہوتا۔ عوام کی سطح پر آ کر بادشاہیت ختم کرنے کا وہ عہد ہوتا جو اشرافیہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دیتا۔گھنٹی سے یاد آیا کہ یہ تو
”بلی کے گلے میں گھنٹی کون ڈالے“ والا مشکل کام تھا، جس کی زد میں ”اپنے“ ہی آتے ہیں۔
ہر بار کیوں ہم عام عوام سے قربانی مانگی جاتی ہے؟ ہمیں بےوقوف بنایا جاتا ہے۔ کیا کبھی کسی بڑے نے اپنی ملکیت میں آنے والے ملک کے ایک حصے کو روشن مثال بنایا ہے؟
احتجاج کا طریقہ غلط ہے۔ اس میں صرف عوام کا نقصان ہے۔ مہذب معاشروں میں بھی اس طرح کےاحتجاج ہوتے ہیں کوئی شک نہیں کہ بےاثر بھی رہتے ہیں لیکن کبھی کوئی طریقہ اتنا کارگر بھی ہوتا ہے کہ بغیر کسی شور کےاپنی بات منوا لی جاتی ہے۔ دور نہ جائیں صرف گزشتہ 30 سالہ ملکی تاریخ کا مشاہدہ کرلیں یہ بھی زیادہ لگے تو اس صدی کے پندرہ سال دیکھ لیں۔ ہر آنے والا پہلے سے بدتر ثابت ہوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جعلی ڈگریوں والے صاحبان ِاقتدارکی طرح ہم بھی اپنی تاریخ سے ناآشنا ہیں یا جان بوجھ کر نظر چراتے ہیں۔ یہ جانے بنا کہ تاریخ اپنے آپ کو باربار دُہراتی جاتی ہے جب تک کہ اُس سے سبق نہ سیکھ لیا جائے۔
ہم عوام کے لیے حوصلے اور ہمت کی دعا ہے اور ہمارے نام نہاد قائدین جو خواہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں، ان کے لیے جوش سے بڑھ کر ہوش کی تمنا ہے، جنہوں نے ”تخت یا تختہ“ کو اپنی ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔
آخری بات
اسلام آباد گرایک الف لیلوی شہر ہے تو ”ڈی چوک“ اس کی جادو نگری جہاں جتنے جوش وخروش سے میلے لگتے ہیں۔ اُتنے ہی جوش سے کامیاب ہو کر ختم بھی ہو جاتے ہیں۔ کرتب دکھانے والا بھی خوش۔ ناچنے والا بھی خوش اور پلے سے پیسے خرچ کر کے دیکھنے والا بھی کان لپیٹ کر گھر لوٹتا ہے۔ آگے کی کہانی کس نے دیکھی؟ کس نے سنی؟ عوام پہلے بھی تماشائی تھے اور آج بھی تماشائی ہیں۔ میوزیکل چئیرز کے، انا کی موسیقی میں محو رقص بڑوں کے اس کھیل میں عام عوام کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلے جا رہے ہیں۔
اُس شہر ِبےمثال میں دوردراز کے پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو ایک نظریے کا ٹیکہ لگا کر لانا اور دنوں خوار کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی بھوکے کو فائیوسٹار ہوٹل کی سیر کرائی جائے، پھر اس کے باہر والے باغیچے میں فرش پر بٹھا کرمحرومی اور مایوسیوں کا نوحہ سنایا جائے۔ ان بھوکوں کی برداشت کا امتحان لیا جائے۔ پھر اپنا پٹارا سمیٹ کر پچھلے دروازے سے اسی ہوٹل کے آرام دہ کمرے میں نیندیں پوری کی جائیں اور عام عوام کو دبی زبان میں ”گوٹو ہیل“ کہہ دیا جائے اور وہ سچ میں اپنے اپنے جہنم میں لوٹ جائیں۔ اپنے پیارے دیس کے باسیوں سے دلی معذرت کہ ہم سب کہیں نہ کہیں گروی رکھے ہوئے ہیں۔
اللہ ہم سب کے حال پر رحم کرے اور مستقبل کے لیے وہ فیصلے کرنےکی توفیق دے جو ہمارے دین ایمان اور وطن کی سلامتی کے علم بردار ہوں۔ آمین
پاکستان زندہ باد
تبصرہ لکھیے