Tag: افغانستان

  • جس دن دونوں شریف-جاوید چوہدری

    جس دن دونوں شریف-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ماضی کی غلطیاں ٹی بی کے مرض کی طرح ہوتی ہیں، یہ جب قابل علاج ہوتی ہیں تو مریض ان کے وجود سے بے خبر ہوتے ہیں لیکن جب ان کی علامات ظاہر ہوتی ہیں تو یہ ناقابل علاج ہو چکی ہوتی ہیں اور ہمارا ماضی سیاسی غلطیوں کا بدبودار کچرا گھر ہے، ہم نے 70 برسوں میں تسلسل کے ساتھ صرف ایک کام کیا اور وہ کام ہے غلطیاں چنانچہ آج ہمارے گرد غلطیوں کی فصل لہلہا رہی ہے اور ہم جھاڑیوں میں پھنسی ہدہد کی طرح تڑپ رہے ہیں۔

    ہمیں ماننا ہو گا ہم نے 1960ء میں امریکا کے نکاح میں جا کر غلطی کی، ہمیں نیوٹرل رہنا چاہیے تھا،ہم نے امریکا کا دوست بن کر کمیونسٹ بلاک کو ناراض کر دیا اور ہم سے کمیونسٹوں نے جی بھر کر اس غلطی کا بدلہ لیا، ہمیں ماننا ہو گا ملک میں ایوب خان کا مارشل لاء غلط تھا، فوج کواقتدار میں نہیں آنا چاہیے تھا، سیاست دان خواہ لڑتے رہتے، حکومتیں خواہ گرتی، بنتی اور ٹوٹتی رہتیں لیکن فوج کو لاتعلق رہنا چاہیے تھا، یہ لڑائیاں آخر کار سیٹل ہو جاتیں، سیاست کے گندے انڈے ٹوٹ جاتے یا گھونسلے سے باہر گر جاتے اور یوں نظام پاک ہو جاتا مگر فوج نے مداخلت کر کے تطہیر کی اس قدرتی ندی کو بدبودار جوہڑ بنا دیا اور اس جوہڑ سے آج تک نالائقی، مفاد پرستی، جہالت اور فرقہ واریت کی بوکے علاوہ کچھ نہیں نکلا، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ایوب خان اگر سویلین حکمران بن رہے تھے تو ہمیں انھیں بننے دینا چاہیے تھا۔

    سیاستدان ایوب خان بہرحال فیلڈ مارشل ایوب خان سے ہزار درجے بہتر ہوتا لیکن ہمارے سیاستدانوں نے عوامی تحریکیں چلا کر اسے دوبارہ فوجی بنا دیا اور وہ جاتے جاتے ملک کو انتقاماً جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر گئے اور جنرل یحییٰ خان نے آدھا ملک شراب کے گلاس میں ڈبو دیا، ہمیں ماننا ہو گا ہم نے حمود الرحمان رپورٹ پر عمل نہ کر کے اپنے ساتھ غداری کی، ہم نے اگر سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمے داروں کو سزا دی ہوتی تو ملک میں 1973ء میں احتساب کا سسٹم بن جاتا اور یہ سسٹم اب تک ملک دشمن عناصر کو فلٹر آؤٹ کر چکا ہوتا، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ذوالفقار علی بھٹو پہلے حکمران تھے جنہوں نے افغانستان اور بلوچستان میں مداخلت کی، بھٹو صاحب نے میجر جنرل نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں افغان ٹریننگ سیل بنایا، اس سیل نے افغانستان کے پروفیسروں کو پاکستان میں عسکری ٹریننگ دی، برہان الدین ربانی اور گلبدین حکمت یار اسی سیل کی پیداوار ہیں، یہ لوگ آگے چل کر افغانستان میں ’’اسلامی انقلاب،، کی بنیاد بنے اور یوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان نفرت شروع ہو گئی۔

    بھٹو صاحب کو بلوچستان میں فوجی آپریشن بھی نہیں کرنا چاہیے تھا، انھیں صنعتوں، تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور کارپوریشنوں کو قومیانے کی غلطی بھی نہیں کرنی چاہیے تھی، یہ سول ڈکٹیٹر بھی نہ بنتے، یہ الیکشن میں دھاندلی بھی نہ کراتے اور یہ اگر سیاسی مخالفوں کے گرد گھیرا  تنگ نہ کرتے اور یہ لوگ جان بچانے کے لیے فوج کو دعوت نہ دیتے تو آج ملک کی تاریخ مختلف ہوتی، جنرل ضیاء الحق کو بھی مارشل لاء نہیں لگانا چاہیے تھا، یہ بھی سیاستدانوں کو لڑنے دیتے، سیاستدان لڑ لڑ کر تھک جاتے اور یوں نظام صاف ہو جاتا اور اگر جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا لیا تھا تو انھیں بھٹو کو پھانسی نہیں دینی چاہیے تھی، انھیں اپنے اقتدار کے لیے اسلام کا لبادہ بھی نہیں اوڑھنا چاہیے تھا، انھیں امریکا اور روس کی جنگ کو جہاد بھی ڈکلیئر نہیں کرنا چاہیے تھا اور انھیں ملک کو افغان جنگ میں بھی نہیں دھکیلنا چاہیے تھا، انھیں اپنے اقتدار کے لیے ملک میں شیعہ سنی اور مہاجر مقامی کی تقسیم بھی پیدانھیں کرنی چاہیے تھی، انھیں امریکا کے لیے ایران میں چھیڑ چھاڑ بھی نہیں کرنی چاہیے تھی اور انھیں خالصتان موومنٹ کا والد بھی نہیں بننا چاہیے تھا۔

    ہمیں ماننا ہو گا پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی لڑائیاں بھی غلطیاں تھیں، بے نظیر اور نواز شریف کو نہیں لڑنا چاہیے تھا، غلام اسحاق خان کو بار بار اسمبلیاں نہیں توڑنی چاہیے تھیں اور میاں نواز شریف کو بے نظیر بھٹو کے خلاف صدر فاروق احمد لغاری کو سپورٹ نہیں کرنا چاہیے تھا، میاں نواز شریف کو ہیوی مینڈیٹ بھی ہضم کر لینا چاہیے تھا، میں میاں نواز شریف کو 12 اکتوبر 1999ء کا ذمے دار سمجھتا ہوں، یہ اگر فوج کے ساتھ اختلافات کو حد سے نہ بڑھنے دیتے تو جنرل پرویز مشرف کبھی مارشل لاء نہ لگا پاتے، یہ میاں نواز شریف تھے جن کی غلطیوں نے فوج کو اقتدار کا راستہ دکھایا، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا فوج نے جنرل پرویز مشرف پر اعتماد کر کے غلطی کی تھی، یہ غلطی حالات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔

    جنرل مشرف کو بھی مشرقی معاشرے کو ایک رات میں مغربی بنانے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے تھی، یہ پاکستان کو امریکا کی جھولی میں گرانے سے پہلے امریکا کی دوسری کال کا انتظار کر لیتے تو شاید آج حالات مختلف ہوتے، جنرل مشرف نے کرپٹ ترین سیاستدانوں کو پاکستان مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم پر جمع کر کے بھی غلطی کی، جنرل مشرف نے طالبان اور القاعدہ کو چھیڑ کر بھی غلطی کی، یہ اپنا ایک ہاتھ امریکا اور دوسرا ہاتھ گڈ طالبان کو پکڑا کر بھی غلطی کرتے رہے، افتخار محمد چوہدری اور لال مسجد پر حملہ بھی ان کی سنگین غلطیاں تھیں، ہمیں ماننا ہو گا پاکستان تحریک طالبان نے ان غلطیوں کی کوکھ سے جنم لیا تھا اور یہ غلطیاں آج تک بچے دے رہی ہیں، میاں نواز شریف نے 2008ء میں آصف علی زرداری کے ساتھ کولیشن گورنمنٹ بنا کر غلطی کی اور وہ کولیشن چھوڑ کر اس سے بھی بڑی غلطی کی ، ہماری سیاستی جماعتوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے بھی ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا، ہم نے صوبوں کو وہ بھی دے دیا جس کی انھیں ضرورت تھی اور نہ ہی تمنا، ہم نے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ دبا کر بھی غلطی کی، ہمیں ایبٹ آباد واقعے کے ذمے داروں کا تعین کرنا چاہیے تھا۔

    میاں نواز شریف نے وزیراعظم بن کر بھی غلطی کی، یہ اگر آصف علی زرداری کی طرح کسی دوسرے کو وزیراعظم بنا دیتے، یہ خود صدر بن جاتے یا پھر پارٹی صدر کی حیثیت سے فیصلے کرتے تو آج حالات مختلف ہوتے، انھیں عمران خان کے مطالبے پر چار حلقے بھی کھول دینے چاہیے تھے اور پانامہ لیکس پر کمیشن بھی بنا دینا چاہیے تھا، عمران خان نے بھی دھرنوں کی سیاست کی شکل میں بے شمار غلطیاں کیں، یہ غلطیاں آج ان کے اپنے پیروں کی بیڑیاں بن رہی ہیں اور ملک کے دو صوبوں نے اپنے لیے غلط وزراء اعلیٰ منتخب کیے، یہ بھی غلطیاں تھیں اور یہ ان ہزاروں غلطیوں کا نتیجہ ہے آج ملک ٹی بی کا خوفناک مریض بن چکا ہے۔

    ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ہم نے آج بھی غلطیوں کا سلسلہ بند نہیں کیا، ہمیں ماننا ہو گا فوج اور حکومت کے درمیان غلط فہمیوں کی خوفناک دیوار موجود ہے، فوج میاں نواز شریف کو تشویش سے دیکھ رہی ہے اور میاں نواز شریف کو حکومت کے خلاف تمام سازشوں کی جڑیں بیرکوں میں پیوست نظر آتی ہیں، بھارت اور افغانستان ہمارے ملک میں مداخلت کر رہے ہیں، فوج اس مداخلت سے لڑ رہی ہے لیکن حکومت نریندر مودی اور اشرف غنی سے رابطے میں ہے، ہمیں ماننا ہوگا ہمارے پاس آج بھی گڈ طالبان کے لشکر موجو ہیں، اپوزیشن کو چوہدری نثار اور میاں شہباز شریف اچھے نہیں لگتے اوریہ دونوں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور خورشید شاہ کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے، ہمیں ماننا ہو گا ہم نے 1980ء سے ملک میں ’’نادرا‘‘ کے علاوہ کوئی نیا قومی ادارہ نہیں بنایا، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا پولیس سے لے کر عدلیہ تک پورا نظام بیمار ہو چکا ہے۔

    ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ملک پر عسکری اور سیاسی دونوں قسم کی ڈکٹیٹر شپ کے سائے منڈلا رہے ہیں اور ہم نے ملک کو فوجی ڈکٹیٹروں سے بھی بچانا ہے اور سویلین آمروں سے بھی، کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں ڈکٹیٹر ملک کے لیے آخری ہتھوڑا ثابت ہوں گے، ہمیں ماننا ہو گا ہماری سیاسی جماعتیں بھی انتشار کا شکار ہیں اور عوام بھی، ہمیں ماننا ہوگا ہم بری طرح سیاسی، سفارتی، معاشرتی اور مذہبی کنفیوژن کا شکار ہیں اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ہم اس وقت تک حالات کو کنٹرول نہیں کر سکیں گے جب تک ہم سب ماضی کی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے، قوم سے معافی نہیں مانگتے اور سچے دل سے کام شروع نہیں کرتے، ہمیں ادارے بھی بحال کرنا ہوں گے، بلاامتیاز احتساب کا نظام بھی بنانا ہوگا اور سول اور ملٹری کے درمیان بلند ہوتی دیواریں بھی گرانا ہوں گی اور یہ کام اس وقت صرف دو لوگ کر سکتے ہیں، میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف۔

    میں دل سے سمجھتا ہوں جس دن یہ دو شریف اکٹھے بیٹھ گئے اور جس دن ان کے درمیان موجود شک کی دیوار گر گئی یہ ملک اس دن راہ راست پر آ جائے گا، اور اگر یہ نہ ہوا تو پھر ہم کو ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے، ہمیں یہ مان لینا چاہیے، ہمیں شاید اب قبر بھی نصیب نہ ہو۔

  • سانحہ کوئٹہ اور ہمارا فکری افلاس – آصف محمود

    سانحہ کوئٹہ اور ہمارا فکری افلاس – آصف محمود

    ایک جانب کوئٹہ میں شہداء کے لاشوں کا ڈھیر ہے تو دوسری طرف ہمارے سماج کا فکری افلاس تعفن دے رہا ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی دہشت گردی کو روئیں یا اس فکری افلاس پر سر پیٹیں؟
    لہو رنگ صحن جوان لاشوں سے بھراپڑا تھا۔ یہ وہ عالم تھا کہ پتھر دل بھی پگھل کر موم ہو جائیں لیکن صاحب یہ ہماری سیاست ہے۔ ابولکلام آزاد نے کہا تھا: سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ حیرت سے آدمی سوچتا ہے: سینے میں دل بھلے نہیں ہوتا، اب سیاست کی آنکھ سے حیا بھی اٹھ گئی ہے؟

    لشکر جرار تھے جو اس حادثے کے بعد عصبیت اور نفرت کا ابلاغ کرتے رہے۔ کسی نے مریم نواز کے جعلی ٹویٹ پھیلا دیے جن میں اس سانحے کے ہنگام بھارت کی وکالت کی گئی تھی. اس کے بعد سوشل میڈیا پر مریم نواز کے خلاف مغلظات کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ ذرا سی محنت کر کے مریم کا ٹویٹر اکاؤنٹ چیک کیا جا سکتا تھا لیکن احباب نے اس کا تردد نہیں کیا اور ایک جعلی اکاؤنٹ کی بنیاد پر مریم نواز کی حب الوطنی کا آملیٹ بنا دیا گیا۔ ایسی ہی بیمار نفسیات کا شکار عمران خان کو بھی بنایا گیا۔ ان سے منسوب ایک جعلی بیان ایک فوٹو شاپ پر تیار کی گئی تصویر کے ساتھ شیئر کر دیا گیا کہ وہ بلوچستان میں شہداء کی تعزیت کرنے گئے اور وہاں بھی انہوں نے دھاندلی کا شور مچا دیا۔ ان کے مخالفین نے ایک جعل سازی کی مدد سے ایک طوفان اٹھا دیا کہ عمران خان کی ذہنی حالت ملاحظہ فرمائیے، اتنے بڑے حادثے کے بعد بھی انہیں دھاندلی کی پڑی ہوئی ہے۔

    بات مگر صرف سوشل میڈیا کی ناتراشیدہ روحوں تک محدود نہ رہی۔ ہمارے دوست اور تحریک انصاف کے علی محمد خان نے گرہ لگائی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے جب بھی ہم حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلاتے ہیں دہشت گردی کی کوئی واردات ہو جاتی ہے۔ وہ بین السطور گویا اس حادثے کا ذمہ دار وزیر اعظم کو قرار دے رہے تھے۔ ہمارے بزرگ قبلہ احمد رضا قصوری نے تو بین السطور کے اس تکلف میں پڑنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی اور واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ یہ حادثہ نواز شریف نے کروایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حادثہ نواز شریف نے را کی مدد سے کرایا ہے اور اس کا مقصد عمران خان کی تحریک احتساب کو روکنا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس ملک میں منتخب وزیر اعظم کو غداری کا طعنہ دینا کتنا آسان ہے۔ نواز شریف صاحب کی پالیسیوں سے کسی کو سو اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن جس شخص کو عوام الناس نے تیسری دفعہ وزیر اعظم بنایا ہو، اس کو را کا ایجنٹ قرار دینا کیا ایک قابل تحسین عمل قرار دیا جا سکتا ہے؟

    اس ابتدائی چاند ماری کے بعد جو کسر باقی تھی وہ معزز اراکین پارلیمان نے پوری کر دی۔ جناب محترم محمد خان شیرانی، مولانا فضل الرحمان اور جناب محمود خان اچکزئی نے اپنی ہی فوج کو سینگوں پر لے لیا۔ ساتھ ہی ان کے مداحین نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے شروع کر دیے کہ دیکھا آپ نے امام سیاست شیرانی صاحب کو؟ ہے کوئی ان جیسا جو اس ادا سے کلمہ حق کہے؟ ہے کوئی محمود اچکزئی جیسا اکل کھرا اور بے باک انسان؟ دکھ اور افسوس کے ساتھ آدمی سوچتا ہے کہ یہ کیسی حق گوئی اور بے باکی ہے جو اپنے سپاہی کو اس وقت گالی دے رہی ہے جب وہ محاذ پر کھڑا ہے۔ سوال اٹھانا اچھی بات ہے لیکن سوال انصاف کے ساتھ اٹھانا چاہیے۔ اس میں دیانت اور خیر خواہی کا عنصر ہونا چاہیے، بغض اور نفرت کا نہیں۔

    مولانا شیرانی نے گڈ اور بیڈ طالبان کا سوال اٹھایا۔ بہت خوب۔ لیکن کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ پاکستان میں طالبان کا سب سے بڑا سرپرست اور ہمدرد کون تھا؟ کیا وہ طالبان کے لیے جے یو آئی کی وارفتگیاں بھول گئے؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ قوم کی یادداشت اتنی ہی کمزور ہے کہ اسے یہ بھی یاد نہیں ہو گا کہ وہ کون سی جماعت تھی جس کے جلسوں میں یہ نعرہ گونجا کرتا تھا: اسلام کا ہیرو نمبر ون، میرا شیر اسامہ بن لادن؟ فوج کو گڈ اور بیڈ طالبان کا طعنہ دینے کے بعد اب مولانا شیرانی خود بھی غور فرما لیں اور ذرا قبلہ حضرت فضل الرحمن سے بھی پوچھ لیں کہ ملا محمد عمر اور ملا منصور کا شمار وہ کس طبقے میں کرتے ہیں؟ گڈ طالبان میں یا بیڈ طالبان میں؟ یا دونوں میں نہیں؟ فوج کو طعنہ دینے والے بزرگ بتائیں کہ سماج کو آگ لگانے والوں میں کس کس کا نام آتا ہے؟ کس نے یہ بیان دیا تھا کہ اسامہ بن لادن پر حملہ ہوا تو امریکی بحری بیڑے کو بحر الکاہل میں غرق کر دوں گا؟

    مولانا فضل الرحمان سوال کرتے ہیں کہ اگر یہ کام را ہی کر رہی ہے تو اس کو کس نے روکنا ہے؟ فوج نے یا ہم نے؟ تو جناب اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں نے روکنا ہے۔ فوج نے اپنے حصے کا کام کرنا ہے اور آپ سیاستدانوں نے اپنے حصے کا۔ محاذ پر فوج، دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں فوج، کراچی میں رینجرز، مروجہ عدالتی نظام کارکردگی نہ دکھا سکا تو فوجی عدالتیں بنا کر یہ ذمہ داری بھی فوج کے حوالے، زلزلہ آئے تو فوج، سیلاب آئے تو فوج، چھوٹو گینگ سے لڑنا ہو تو فوج۔ قبلہ جان کی امان پاؤں تو پوچھوں کہ آپ لوگوں نے کیا کام کیا؟ ہر حکومت کا آپ حصہ رہے، آپ کی کیا کارکردگی ہے؟ کیا دہشت گردی کے خلاف ہر جگہ لڑنا صرف فوج کا کام ہے؟ کیا ہسپتالوں کی سیکیورٹی بھی اب فوج کرے؟ آپ حضرات نے پولیس کے نظام میں آج تک کیا بہتری کی؟ فوج علاقے کو دہشت گردوں سے صاف کر سکتی ہے، اس کے بعد معمول کا نظام تو سول اداروں نے چلانا ہے۔ اس باب میں آپ کی کیا کارکردگی ہے؟ کیا آپ سیاست دانوں کا کام تہتر کے آئین نے تناظر میں صرف لمبی لمبی بحثیں کرنا ہے؟

    اچکزئی صاحب را کے دفاع میں یوں بولے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ وارفتگیاں۔۔اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے۔ اچکزئی صاحب ذرا یہ بھی بتا دیں کہ یہ وزارت داخلہ کے خط کا کیا معاملہ ہے جومبینہ طور پر وزارت خارجہ کو بھیجا گیا۔ یہ افغان انٹلی جنس کا رمضان نورزئی کون ہے۔اور یہ دس لاکھ ڈالر کا کیا قصہ ہے؟

    فوج کے خلاف زہر اگلنا اس وقت سکہ رائج الوقت بن چکا ہے۔ کبھی اسے گڈ اور بیڈ طالبان کا طعنہ دیاجاتا ہے تو کبھی سٹریٹیجک ڈیپتھ کے تصور کی بھد اڑائی جاتی ہے۔ فوج پر وہاں تنقید ضرور کیجیے جہاں بنتی ہو لیکن بلاوجہ فیشن کے طور پر اسے سینگوں پر لیے رکھنا کوئی معقول طرز عمل نہیں ہے۔ سٹریٹیجک ڈیپتھ کا تصور یہ نہیں تھا جو اس وقت ناقدین طنزا بیان کرتے ہیں۔ تصور یہ تھا کہ ایک دوستانہ افغانستان ہو۔ آج تنقید کرنا آسان ہے، اس وقت کو ذہن میں رکھیے جب درجن بھر قوم پرست رہنما افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان توڑنے اور پختونستان بنانے پر تلے بیٹھے تھے۔ بعض قوم پرست رہنمااس تکلیف سے ابھی باہر نہیں آ پا رہے۔

    گڈ اور بیڈ طالبان کا معاملہ بھی ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے تمام جنگجوؤں کو ریاست ایک لاٹھی سے کیسے ہانک سکتی ہے۔ جو ریاست سے نہیں الجھ رہے وہ گڈ کہلاتے ہیں جو ریاست سے لڑ رہے ہیں انہیں بیڈ کہا جاتا ہے۔ ریاست ان سے لڑ رہی ہے جو بیڈ ہیں۔ ریاست گڈ طالبان سے لڑ کر ایک نیا محاذ کیوں کھول لے؟ امریکہ یہ محاذ کھولنا چاہتا ہے۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کے لیے یہی اس نے شرط رکھی ہے۔ ہم کیا کرائے کے قاتل ہیں کہ امریکہ سے رقم لیں اور ان جنگجوؤں سے بھی لڑائی شروع کر دیں جو ہم سے نہیں لڑ رہے۔ ریاست اس وقت یہ محاذ نہیں کھولنا چاہتی۔ جو لوگ اس وقت گڈ اور بیڈ طالبان کا طعنہ فوج کو دیتے ہیں، وہ کس کا کھیل کھیل رہے ہیں؟

    پاکستان کا مسئلہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف افغانستان نے بیڈ طالبان کو پناہ گاہیں دی ہوئی ہیں جہاں سے وہ ہمارے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان یکطرفہ طور پر خطے میں جاری پراکسی وار کے عمل سے کیسے دستبردار ہو جائے۔ کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر اچھا بچہ نہیں بن سکتا۔ یہ کام اجتماعی طور پر ہوگا جب بھی ہوگا۔ جب سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع نہیں ہوا تھا افغان حکومتوں نے تو تب سے ہی ہمارے خلاف کام شروع کیے رکھا ہے۔ اعتماد کے اس بحران میں پاکستان یکطرفہ طور پر صوفی منش نہیں بن سکتا۔ ہمارے سیاستدان ان بیڈ طالبان کا ذکر نہیں کرتے جو افغانستان کی سرپرستی میں پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں، الٹا وہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان ایک نیا محاذ کیوں نہیں کھول رہا۔

    دہشت گردی ایک گلوبل چیلنج ہے۔ صرف فوج کو طعنہ دے کر بیمار نفسیات کا مظاہرہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس رویے کا علم کی دنیا میں کوئی اعتبار نہیں۔ عراق اور شام میں کیا پاک آرمی تھی اور اس کی غلطیاں تھیں جو وہاں آج دہشت گردی ہو رہی ہے۔ یہ گلوبل رجحان کہیں اور سے آ رہا ہے۔ اس کا طعنہ فوج کو کیوں دیا جا رہا ہے۔ کون کس کا کھیل کھیل رہا ہے۔

    یہ بھی دیکھ لیجیے کہ بعض ممالک پاکستان کے بعد دہشت گرد تنظیموں کا شکار ہوئے اور تباہ ہو گئے۔ پاکستان ان سے پہلے کا اس عفریت کا شکار ہے لیکن بطور ریاست آج بھی قائم ہے اور نہ صرف مزاحمت کر رہا ہے بلکہ بڑی حد تک اس بلا پر قابو بھی پا چکا ہے۔ فوج کے علاوہ کون ہے جس نے بچایا ہوا ہے۔ اس چومکھی لڑائی میں کبھی کامیابی ہوگی، کبھی دشمن کامیاب ہو جائے گا۔ ہوشمندی کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ وہ لوگ اس سماج اور ملک کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے جو اس موقع پر پوائنٹ سکورنگ کریں یا بغض اور تعصب سے کام لیں۔

    انصاف سے کام لیجیے۔اعتدال اور انصاف ہی راہ نجات ہے۔

  • خدارا جذباتی فیصلے نہ کریں – عامرہزاروی

    خدارا جذباتی فیصلے نہ کریں – عامرہزاروی

    عامر ہزاروی پنجاب میں بچوں کے اغواء کا معاملہ شدید ہوتا جا رہا ہے. اچھی بات یہ ہے کہ عدلیہ اور حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں. ہم پنجاب کی خبریں سن رہے تھے کہ مانسہرہ سے بھی خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ یہاں بھی بچے اغواء ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

    کل سے ایک خوف و ہراس ہے، لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، آج اپنے ادارے گیا تو بچوں کے چہروں پہ خوف کے واضح آثار تھے، بچے کہہ رہے تھے کہ افغانی بچوں کو اغوا کر رہے ہیں، ہمیں چھٹیاں دی جائیں، بچوں کو سمجھایا کہ آپ خوف نہ کھائیں اللہ بہتر کرے گا۔

    واپسی ہوئی تو گاڑی میں دیکھا کہ ایک افغانی اور ایک پاکستانی لڑ رہے تھے. پاکستانی کہہ رہا تھا کہ آپ ہمارے بچے اغوا کر رہے ہیں، افغانی کہہ رہا تھا کہ میرے سولہ بچے ہیں، میں انہیں نہیں سنبھال سکتا، آپ کے بچوں کو اغوا کر کے کیا کروں گا؟ اس افغانی نے کہا کہ ہم نے آپ کی جنگ لڑی، روسیوں کو مارا، اپنی جانیں دیں لیکن روس کو آپ تک نہیں آنے دیا، ہمارے بچے آپ کے ملازم ہیں، کیوں ہمیں الزام دیتے ہو؟ دیکھو امریکیوں سے ہم نے جنگ کی، انہیں آج تک الجھا کے رکھا ہوا ہے، میرا ملک تو جنگ میں ہے لیکن ہم نے وہ جنگ آپ پہ مسلط نہیں ہونے دی، ہم نے اس ملک کا کھایا، ہم کیوں نمک حرامی کریں گے؟

    مجھے یہ باتیں سن کے تکلیف ہوئی.

    بھائی آپ افغانیوں کو نکالیں میں آپ کے ساتھ ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ان کو بدظن کر کے کیوں نکال رہے ہیں؟ تیس سال تک آپ نے انہیں سنبھالے رکھا، اب احترام سے انہیں رخصت کریں۔ ان پہ الزام کیوں لگا رہے ہیں کہ یہ بچوں کو اغوا کر رہے ہیں ؟ کیا یہ ضروری ہے کہ عوام کو ان کے ساتھ لڑایا جائے؟ کیا خون کی لکیر کھینچنا ضروری ہے ؟ کیا ایک نئی جنگ لڑنا ضروری ہے؟ کیوں بھارت کے ہاتھ مضبوط کیے جارہے ہیں؟ یاد رکھیں جہاں خون بہتا ہے وہاں نفرتیں بڑھتی رہتی ہیں. بھارت کی مثال لے لیں، بھارت سے آج تک نفرت کم نہیں ہوئی، بنگلہ دیش کی مثال لیں، بنگالیوں کا آج بھی غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا، وہ ہمارے سفید داڑھی والوں کو لٹکا کے جشن مناتے ہیں۔

    مجھے معلوم ہے کہ ریاست جب ایک فیصلہ کرتی ہے تو عوام کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے نفرت کے بیج بوتی ہے، آج ایک بار پھر نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں. جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ ملک کے ساتھ محبت نہیں کر رہے. میں آنے والے حالات کا تجزیہ کرتا ہوں تو جھرجھری سی آجاتی ہے اور جسم کپکپا اٹھتا ہے. خود کو عقل کل سمجھنے والے لوگ یہ کیسے فیصلے کر رہے ہیں؟
    دیکھیں
    بھارت ہمارا دشمن، ایران ہمارا دشمن، روس ہمارا دشمن، دبئی ہمارا دشمن، افغانستان ہمارا دشمن، بنگلہ دیش ہمارا دشمن، اب امریکہ بھی دشمن بن گیا ہے، اس نے بھی فنڈز روک لیے ہیں۔ بتایا جائے کہ ہمارا دوست کون ہے؟

    یہ وقت جذبات کا نہیں ٹھنڈے دماغ سے کام لینے کا ہے. خدا کے لیے اپنے پاؤں پہ کلہاڑیاں مت ماریں. عوام کو عوام سے نہ لڑائیں. حکومتیں مل بیٹھ کے ایک فیصلہ کریں. ہم مزید تباہی سے دوچار ہونا نہیں چاہتے۔

  • افغان طالبان کا دورہ چین اور امن – سجاد سلیم

    افغان طالبان کا دورہ چین اور امن – سجاد سلیم

    میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق افغان طالبان کے قطر آفس کے سربراہ عباس ستنکزئی کی قیادت میں طالبان کے وفد نے 18 سے 22 جولائی کے دوران چین کا دورہ کیا، جو کہ طالبان کے مطابق چینی حکومت کی دعوت پر کیا گیا۔ طالبان ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے دنیا میں بہت سے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور چین ان میں سے ایک ہے۔ طالبان کے مطابق چینی حکومت کو افغانستان پر بیرونی قبضے اور قابض فورسز کی جانب سے عوام پر کی گئی زیادتیوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا، اور ان ایشوز کو عالمی فورمز پر اٹھانے میں چین سے مدد کی درخواست کی گئی ۔

    افغان طالبان کے دوسر ے ممالک کے ساتھ تعلقات کوئی نئی بات نہیں، اس سے پہلے پاکستان اور ایران پر طالبان کے ساتھ تعلقات کے الزامات لگتے رہے ہیں، حال ہی میں روس سے تعلقات کی استواری کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں اور بعض نے تو یہ بھی دعوی کیا کہ بھارت بھی ان سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے. بعض یورپی اور دوسری کمپنیز بھی افغانستان میں اپنا کام مکمل کرنے کے لیے طالبان کو پیسے دیتی رہی ہیں، لیکن چین کے ساتھ طالبان کے تعلقات پہلی بار منظر عام پر آئے ہیں جو کہ خطے کے لیے بڑ ی اہمیت رکھتے ہیں، کیونکہ چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے، اور اس وقت امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، اور اگلے چند برسوں میں امریکہ کو پچھاڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ طالبان کے اس دورہ چین کو افغانستان میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

    سال کے آغاز میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لیے بننے والے چار ملکی گروپ میں افغانستان، امریکہ اور پاکستان کے علاوہ چین بھی شامل تھا۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کے مطابق، طالبان کابل کو جنگ سے آزاد علاقہ قرار دینے پر رضا مند ہو چکے تھے مگر مئی 2016 میں طالبان سربراہ پر امریکی ڈرون حملے کے بعد یہ چار ملکی گروپ عملا غیر مئوثر ہوگیا، اور طالبان کی جانب سے ملا منصور کی موت کا بدلہ لینے کے لیے کاروائیوں میں اضافے کے اعلان کی وجہ سے مذاکرات کا دروازہ تقریبا بند ہوگیاتھا، لیکن اس دورے سے مذاکرات کے امکانات دوبارہ روشن ہو گئے ہیں۔ دورے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ چین نہ صرف افغانستان میں امریکی کردار سے غیر مطمئن ہے بلکہ خطے کے مسائل کے حل کے حوالے سے اپنے کردار میں میں اضافے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، کیونکہ خطے میں بدامنی، چین کے معاشی مفادات کےلیے سے نقصان دہ ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ سی پیک جیسے بڑے منصوبوں کی کامیابی کے لیے خطے میں امن کا ہونا ضروری ہے۔

    سی پیک، افغانستان کے لیے بھی ایک نعمت سے کم نہیں،اس وقت کابل کا سمندر کے ساتھ سب سے مختصر اور سستا ترین روٹ بذریعہ کراچی ہی ہے اور گوادر کے آپریشنل ہونے کے بعد، گوادر روٹ اور بھی سستا ہو جائےگا، کیونکہ اس کے ذریعے سمندری فاصلہ اور بھی کم ہو جائے گا، لیکن بدقسمتی سے بھارت کے زیراثر افغان حکومت، سی پیک کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کر رہی۔ نریندر مودی چند چھوٹے منصوبوں کو سی پیک کے متبادل کے طور پیش کر نے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں. اس کے مقابلے میں سی پیک کا بجٹ اور اثر بہت بڑا ہے جس کا خطے میں کسی بھی دوسرے معاشی منصوبے کے ساتھ مقابلہ و موازنہ ناممکن ہے۔ اس صورتحال کا سراسر نقصان افغان عوام کو برداشت کرنا پڑےگا۔ چین یہ چاہتا ہے کہ افغانستان بھی سی پیک سے فائدہ اٹھائے، جس سے یقینا افغانستان میں خوشحالی کے ساتھ امن و استحکام آئے گا۔

    چین کے ساتھ تعلقات افغان طالبان کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے لیے اپنی سنجیدگی کا اظہار کریں اور دنیا کے سامنے افغانستان میں مستقل امن کے لیے اپنا لائحہ عمل پیش کریں، جو قابل عمل اور تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ چین طالبان کو، اپنے شدت پسندی سے متاثر، مغربی علاقے زن جیانگ کے حوالے سے بڑا خطرہ تصور کرتا رہا ہے، اور اس دورے میں چینی حکومت نے یقینا اپنے تحفظات طالبان وفد کے سامنے پیش کیے ہوں گے، اور ہو سکتا ہے کہ ان تحفظات کو دور کروانے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہو۔ اگر چین کے تحفظات دور ہو جاتے ہیں، تو وہ عالمی برادری کو افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا اور بعد میں پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے قائل کر سکتا ہے۔ اس دورے سے خطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

  • افغانستان کی صورت حال اور پاکستان کو درپیش خطرات – حسان رانا

    افغانستان کی صورت حال اور پاکستان کو درپیش خطرات – حسان رانا

    افغان طالبان کی سوچ کے کچھ فرقہ وارانہ پہلو اور ان کے ماضی کی طرز حکومت کے بہت سارے پہلوؤں سے اختلاف باوجود زمینی حقائق اور پاکستان کے مفادات کے مطابق سوچا جائے تو افغان طالبان اور ان کی مرکزی کمانڈ کا کمزور ہونا پاکستان کے مفاد میں نہیں. ان کے کمزور ہونے سے داعش اور ٹی ٹی پی افغانستان میں مضبوط ہوں گے یا ان دونوں کو سی آئی اے اور را کی جانب سے درپردہ طور پر مضبوط کیا جائے گا، اور اس سے خطے میں ایک اور خطرناک کھیل شروع ہو جائےگا.

    افغان حکومت پہلے ہی انڈیا کے کیمپ میں جا چکی ہے اور وہاں سے مستقبل قریب میں ممکنہ طور پر ایک بڑا معاشی خطرہ دریائے کابل کے پانی کی بندش کی صورت میں منڈلا رہا ہے، جس کا براہ راست اثر وسطی اور جنوبی خیبر پختونخوا، جنوب مغربی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے صوبوں پر اور بلاواسطہ اثر پورے پاکستان پر پڑے گا، کیونکہ انڈیا وہاں افغان حکومت کے ساتھ مل کر ڈیمز بنا رہا ہے. جب چناب، توی، جہلم، نیلم کے پانی پر اور دریائے سندھ کے لداخ سے نکلنے والے ایک تیز ترین معاون دریا پر قبضہ ہو رہا تھا تو ہماری حکمران اشرافیہ سست ہو کر بیٹھی رہی. اس سے پہلے راوی، بیاس اور ستلج کو انڈیا کے حوالے کرنے کی سنگین غلطی کی گئی اور اس پر دوبارہ سوچا تک نہیں. اس کا نتیجہ پاکستان کو زرعی و صنعتی معیشیت کی تباہی، پانی کی شدید کمی، زیر زمین پانی کی خرابی و کمیابی اور ماحولیاتی نظام کی بربادی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے، اور حکمران اشرافیہ کو ابھی بھی کچھ کرنے کی توفیق نہیں ہو رہی.

    اس کے ساتھ بھارت کی پاکستان میں نہ رکنے والی مداخلت کا سلسلہ بھی جاری ہے. مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم، کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے اور ان کی زمینوں کو ہتھیا کر ڈیموگرافک تبدیلی کی بھارتی کوششیں بھی زور و شور سے جاری ہیں. پاکستانی ریاست و عوام کو درپیش ان سارے مسائل اور خطرات سے نجات دلانے کے لیے حکمران اشرافیہ کو ہر صورت میں بہادری، حکمت اور ثابت قدمی سے قوم کو ساتھ ملا کر ہر جگہ پاکستان کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ستلج اور راوی سمیت باقی پاکستانی دریاؤں کے پانی کو بھی واپس حاصل کرنے اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کروانے کے لیے عالمی و علاقائی سطح پر ہر طرح کی مؤثر خفیہ و اعلانیہ سیاسی، عسکری اور سفارتی کوششیں تیز کرنا ہوں گی. اسی حکمت عملی میں پاکستان کی بقا اور مستقبل پوشیدہ ہے.

  • کابل میں ہزاہ کمیونٹی پر ظالمانہ حملہ – فیض اللہ خان

    کابل میں ہزاہ کمیونٹی پر ظالمانہ حملہ – فیض اللہ خان

    فیض اللہ خان کابل میں ہزارہ کمیونٹی پہ ظالمانہ حملے کرکے دولت اسلامیہ نے پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کا مقصد آسان اہداف کو نشانہ بناکر عالمی دنیا کی توجہ حاصل کرنا ہے. اس کام میں مغربی میڈیا ان کی بھرپور مدد کر رہا ہے، دولت اسلامیہ کی فکری دہشت گردی کا یہ عالم ہے کہ اس کے ہمنوا طالبان و القاعدہ تک کی تکفیر کرتے ہیں، دیو بندی بریلوی اہل حدیث و شیعہ تو بہت دور کا قصہ ہیں. دولت اسلامیہ عالمی جہاد کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنا چاہتی ہے اور اس کام میں کسی نا کسی درجے کی رکاوٹ القائدہ و طالبان ہیں.

    افغانستان میں اس قسم کے دہشت گرد حملوں کا مقصد طالبان کو پس منظر میں دھکیلنے کی کوشش ہے. فطری بات ہے کہ لشکر جھنگوی و پاکستانی طالبان ان حملوں کو پسند کرتے ہیں اور شاید اس کا ہدف یہ بھی ہو کہ ان کی ہمدردی سمیٹی جائے. یہ بات پیش نظر رہے کہ جب عراق میں ابو مصعب الزرقاوی نے اہل تشیع پہ منظم حملے کیے تو اسامہ بن لادن نے اس پہ سخت گرفت کی اور اسے جہاد کو ڈی ٹریک کرنے کی کوشش قرار دیا لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی. القاعدہ کے بطن سے نکلنے والی دولت اسلامیہ نے اپنے لیے راستہ تبھی منتخب اور الگ کرلیا تھا. شیعہ سنی فساد کا کہیں فائدہ نہیں ہوا تقسیم و اختلافات کی خلیج ہی گہری ہوئی ہے. یہ سلسلہ شام و عراق کی صورتحال کی وجہ سے مزید گھمبیر ہوچکا، اور فی الحال اس کا کوئی ٹھوس تدارک نظر نہیں آرہا.
    اسلام کسی بھی بے گناہ پر حملوں کی اجازت نہیں دیتا، لیکن ہر فریق کے مسلح دہشت گرد گروہوں نے یہ تفریق ختم کردی ہے اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے. عراق و شام میں داعش، حزب اللہ اور الحشد الشعبی بھی یہی کچھ کر رہے ہیں. اسلامی ممالک اگر پرخلوص ہوں تو اس کا سدباب مہنیوں کی بات ہے، ورنہ خون بہتا رہے گا اور ہم مذمتیں کرتے رہیں گے

  • کیمیائی ہتھیاروں کی کہانی…طارق محمود چوہدری

    کیمیائی ہتھیاروں کی کہانی…طارق محمود چوہدری

    p12_04
    چلکوٹ رپورٹ۔ جنگ جو برطانیہ، بین الاقوامی سپر طاقتوں کے استعماری عزائم اور کمزور ملکوں پر چڑھ دوڑنے کی روش کو سند جواز فراہم کرنے والے شریک جرم، اقوام متحدہ کی بے خبری کے خلاف فرد جرم ہے۔ ایک ایسی فرد جرم جس پر کسی مجرم کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوگا نہ کسی کو سزا ملے گی۔ کیونکہ مدعی جرم ضعیفی کا سزاوار ہے لہٰذا مرگ مفاجات اس کا مقدر ہے۔ زور آوروں کی اس نام نہاد مہذب دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا کارفرما ہے۔ عراقی عوام کو کبھی انصاف نہیں ملے گا۔ ایسے ہی جیسے لیبیا، شام، یمن، افغانستان اور فلسطین کے عوام کو انصاف نہ مل سکا۔ ایسے ہی جیسے ایٹم بم کی تباہ کاریوں کا شکار جاپان۔ جس طرح ویت نام کے قبرستانوں میں ابدی نیند سوئے لاکھوں شہید بے گناہی کے باوجود محروم انصاف رہے۔
    چلکوٹ رپورٹ عراق کو تاراج کر دینے، لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دینے، ایک خودمختار ملک کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دینے کی تحقیقات کیلئے تیار نہیں کی گئی تھی۔ ایسی کوئی بات نہیں، خون مسلم عالمی طاقتوں کیلئے اتنا ارزاں ہے کہ کوئی ایسی کمیٹیاں، کمیشن بنانے کی زحمت نہیں کرتا۔ یہ رپورٹ تو ایک انکوائری کمیشن نے یہ جاننے کیلئے تیار کی کہ عراق جنگ میں برطانوی فوج کی شمولیت کے نتیجہ میں 149 برطانوی فوجی کیسے ہلاک ہو گئے؟ واضح رہے کہ عراق پر امریکہ اور برطانیہ کے مشترکہ حملے کے نتیجہ میں آزاد ذرائع کے مطابق پندرہ لاکھ عراقی شہید ہوئے۔ دس لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے۔ اربوں ڈالر کی املاک تباہ ہوئیں۔ عراق اگلے کئی عشروں کے لئے خانہ جنگی کا شکار ہو کر رہ گیا۔ بابل و نیوا کی تہذیب کا امین، انبیاء واولیاء کا گہوارہ، نسلی و لسانی و مسلکی تغاوت کی آماجگاہ بن گیا۔ اس کی جغرافیائی وحدت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی۔ لیکن برطانوی حکمران طبقہ کو دلچسپی تھی تو صرف ان 149 فوجیوں کی ہلاکت کی۔ جو ایک آزاد، خودمختار ملک کے نہتے عوام پر اپنی اندھی طاقت کا سکہ جمانے، اپنی دہشت کی دھاک بٹھانے گئے تھے۔ برطانوی رولنگ ایلیٹ یہ جاننا چاہتی تھی کہ اس کے منتخب لیڈر ٹونی بلیئر نے امریکی صدر بش کا اردلی بن کر جس جنگ میں حصہ لیا اس سے مال غنیمت میں کتنا حصہ ملا۔ وہ جھوٹ جو بین الاقوامی برادری کے سامنے دھڑلے سے بولا گیا کہ صدام دنیا کے امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ اس کے قبضہ میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ جن میں کیمیکل ویپن بھی شامل ہیں۔ عراقی عوام کی نسل کشی کے حوالے سے سرجان چلکوٹ کی سربراہی میں قائم، بااختیار کمیشن کی دلچسپی کا موضوع تھی نہ اس کے دائرہ اختیار میں یہ شامل تھی۔
    رپورٹ تیار کرنے میں سات سال کا طویل عرصہ لگا۔ اس طویل عرصہ بعد تیار و جاری ہونے والی رپورٹ پر دس ملین پاؤنڈ خرچ آیا۔ سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے علاوہ ڈیڑھ سو اہم ترین عہدیدار، فوجی سربراہان، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار اس میں پیش ہوئے۔ 26 لاکھ الفاظ اور بارہ جلدوں پر مشتمل چلکوٹ رپورٹ کی سفارشات و مندرجات نہ صرف چشم کشا ہیں بلکہ اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ عراق جنگ کا ڈرامہ ایک بے بنیاد الزام کے گرد بنا گیا۔ اس تحقیقات کے نتیجہ میں جو بنیادی نکات سامنے آئے۔ اس کے نتیجہ میں ٹونی بلیئر کو
    اس جنگ کا شریک مجرم واضح طور پر ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ میں کودنے کیلئے ٹونی بلیئر اور اس کے حاشیہ برداروں نے صدام حسین کو عالمی امن کیلئے خطرہ ظاہر کرنے کے معاملہ میں مبالغہ آرائی سے کام لیا۔ اس خطرے کو ہوا بھر کر غبارہ کی طرح پھیلایا گیا تاکہ وہ اپنے اصل سائز سے بہت بڑا نظر آئے۔ عراق کی جنگ میں کود پڑنے کی جلدبازی اور اندھی تقلید میں ایک ایسی فوج کو صحرائی جنگ میں دھکیلا گیا۔ جو پوری طرح تربیت یافتہ نہ تھی۔ وہ فوجی دستے ایسی مشکل و پیچیدہ جنگ کیلئے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ رپورٹ کے کلیدی نکات میں کہا گیا کہ مارچ 2003ء میں جب جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تو صدام حسین سے کسی قسم کا سنگین خطرہ لاحق نہ تھا۔ لہٰذا فوجی کارروائی کوئی آخری آپشن یا چارہ نہ تھا۔ ایسے بہت سے اقدامات، آپشن موجود تھے جن کے ذریعے اس خطرہ کو بہت کم یا مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا تھا۔ لیکن فیصلہ کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ جلد بازی دانستہ تھی کیونکہ ٹونی بلیئر امریکی صدر بش کے ساتھ اس جنگ میں اتحادی بن کر کود پڑنے کیلئے تیار تھے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے برطانیہ نے تخفیف اسلحہ کے پرُامن راستے اختیار نہ کئے اور وہ راستہ اختیار کیا جو غیر ضروری تھا۔ کیونکہ اس فیصلہ سے کئی ماہ قبل ہی ٹونی بلیئر صدر بش کو 28 جولائی 2002ء کو لکھے گئے سرکاری خفیہ نوٹ میں یہ یقین دہانی کرا چکے تھے کہ برطانیہ ہر قیمت پر امریکہ کا ساتھ دے گا۔ شاید ٹونی بلیئر کو بھی بش کی طرح فاتح اعظم کہلانے اور تاریخ میں زندہ رہنے کا خبط تھا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرات اور موجودگی کے متعلق شواہد پر مبنی رپورٹیں بہت کمزور تھیں۔ شواہد ناکافی اور نہ ہونے کے برابر تھے۔ زیادہ تر شواہد میڈیا رپورٹوں، زبانی دعووں سے حاصل کئے گئے۔ لیکن دانستہ طور پر ان دیگر ہتھیاروں کی موجودگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ تاکہ فیصلے کیلئے دلائل اور جواز حاصل کیا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق ٹونی بلیئر کے فیصلہ کرنے سے قبل برطانوی اٹارنی جنرل کو بتایا گیا کہ عراق نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1441 کی شدید خلاف ورزی کی ہے۔ لیکن سرکاری دستاویزات میں ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ جو اس حوالے سے دیا گیا ہو۔ رپورٹ میں حیرت انگیز انکشاف برطانوی افواج کو جنگ میں جھونک دینے کے بعد مطلوبہ سازو سامان، حربی آلات کی فراہمی کے متعلق کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مطلوبہ سازوسامان کا کوئی پیشگی تخمینہ نہیں لگایا گیا۔ مذکورہ ضروری اشیاء فراہم کرنے میں حد درجہ تاخیر کی گئی۔ عسکری قواعد و ضوابط میں یہ بھی طے نہیں تھا کہ حالت جنگ میں ایسے حربی آلات کی فراہمی کس اتھارٹی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ وزارت دفاع سڑکوں کے کنارے نصب دھماکہ خیز مواد، بارودی سرنگوں کے خطرہ کو پیشگی بھانپنے میں ناکام رہی۔ ایسے ہی دھماکوں میں مختلف واقعات میں 47 برطانوی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس کے باوجود میڈیم سائز کی موبائل بکتر بند گاڑیوں کی فراہمی تین سال بعد کی گئی۔ اس دوران برطانوی سپاہی مکمل طور پر غیر محفوظ تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ کے بعد عراق کا سناریو کیا ہوگا۔ اس حوالے سے کوئی پلاننگ موجود نہ تھی۔ اس بات کا بھی کوئی ادراک نہ کیا گیا کہ صدام حکومت کو گرانے کے بعد مختلف مقامی حریف گروپ، قبائل یا مسلکی مخالف سے کیسے نمٹا جائے گا۔ پھر یہ بھی طے نہیں کیا گیا کہ عراق میں استحکام، اس کی تنظیم نو اور تشکیل نو کا مشکل کام کون اور کب سرانجام دے گا۔ رپورٹ اعلان کرتی ہے کہ بلیئر حکومت کے پاس عراق کی تعمیر نو کا کوئی منصوبہ موجود نہ تھا۔ اس بات کا بھی کوئی فیصلہ نہ کیا گیا کہ بعدازاں جب افغانستان میں برطانوی افواج کی تعیناتی کی جائے گی تو وسائل تقسیم ہونے کے معاملہ کو کس طرح ڈیل کیا جائے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اپنی کابینہ سے مشورہ کئے بغیر جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ جنگ سے پہلے ٹونی بلیئر کو بار بار خبردار کیا گیا کہ عراق جنگ میں کودنے کے بعد برطانیہ میں دہشت گردی کی لہر آ سکتی ہے۔ بعد کے واقعات نے یہ خدشہ درست ثابت کر دیا۔ لیکن ٹونی بلیئر نے اس ایڈوائس پر کان نہ دھرے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ تو کوئی بین الاقوامی عدالت ہی کر سکتی ہے کہ اعلان جنگ جائز تھا یا ناجائز۔ البتہ شواہد بتاتے ہیں کہ جنگ کیلئے جو جواز پیش کیا گیا وہ ناجائز، ناکافی اور غیر تسلی بخش تھا۔ یہ فیصلہ نہ تو کابینہ نے کیا اور نہ ہی کسی مجاز اتھارٹی نے۔ یہ فیصلہ ٹونی بلیئر نے ذاتی طور پر کیا۔
    رپورٹ میں کہا گیا ہے عراق و افغانستان کی جنگ میں کودنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ برطانوی فوج اب کسی زمینی لڑائی میں شرکت کیلئے آمادہ نہیں۔
    برطانوی عوام اس رپورٹ کے بعد ٹونی بلیئر پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ برطانوی نظام انصاف حرکت میں آتا ہے یا اس جرم پر مصلحت کا کور چڑھا کر اسے داخل دفتر کر دیا جاتا ہے۔

  • کیا کابل میں پنجابی بستے ہیں؟ فیض اللہ خان

    کیا کابل میں پنجابی بستے ہیں؟ فیض اللہ خان

    10525943_1543930889188656_8708287563584166301_nمسئلہ یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف اچکزئی صاحب جیسے لوگ صرف اٹک و بولان تک کے علاقے کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ افغان سلاطین ہند تک حکمراں رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مودی سے کہا جائے کہ بھیا ذرا دلی ہمیں پکڑانا۔
    ظاھر ہے کہ یہ لوگ نہیں بولیں گے ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس قسم کے غیر سنجیدہ مطالبات کی حقیقت کیا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ سکندر یونانی نے بھی یہاں اقتدار قائم کیا تھا لیکن یونان کے نام پہ پوشیدہ امراض کے دواخانے تو خوب کھلے پر کسی حکیم نے ان علاقوں کو سکندراعظم کے دیس کی علمداری میں دینے کا مطالبہ نہیں کیا
    تاریخی طور پہ یہ بات بالکل درست ہے کہ افغانوں یا پشتونوں کا علاقہ اٹک تک رہا لیکن وہ ماضی تھا۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہر پشتون کی بطور قوم شناخت افغان ہی ہے لیکن جس طرح عراقی یا کویتی عرب قومی ریاستوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے، بعینہ دونوں ممالک میں بسنے والے پختون اب افغانی و پاکستانی پشتونوں کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ گزرے برسوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے اور تبدیلی کے اس فطری عمل کو پاکستانی پشتونوں کی اکثریت وفاق و اسٹیبلشمنٹ سے بہت سے معاملات میں اختلافات کے رکھتے ہوئے بھی خوش دلی سے تسلیم کرچکی ہے۔
    باوجود اس کے کہ مسلسل آپریشنز ہوئے، دربدری مقدر بنی لیکن آپ کل اس معاملے پہ ریفرنڈم کرالیں تو پشتونوں کا فیصلہ پاکستان کے ساتھ ہی رہنے کا ہوگا، اس حوالے سے ماضی میں قوم پرستوں کی جانب سے دکھائے گئے تمام خواب سراب نکلے۔
    ایک چھوٹی سی مثال خیبر و بلوچستان کے پشتون قوم پرستوں کی انتخابی کامیابی ہے۔ جب انھیں حکومتیں ملیں تو انھوں نے اقربا پروری و کرپشن کے ریکارڈز توڑ ڈالے، اور یہ بھی بتا دیا کہ قوم پرستی سے انھیں کتنا شغف ہے۔ اچکزئی صاحب جن کی میں بہت عزت کرتا ہوں ، نے اپنے پورے خاندان کو اعلی ترین عہدے دلا کر بتا دیا کہ کہ وہ کتنے اصول پسند ہیں اور پشتون قوم کو حقوق دلانے یا ڈیورنڈ لائن مٹانے کےلیے کس قدر پرعزم ہیں۔
    کام شام کرنا نہیں ہے جو ان کے اختیار میں ہے ، ہاں اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دے کر اپنے کارکنوں کو مطمئن ضرور رکھنا ہے۔
    ویسے پشتونوں کی اکثریت اب ان کے چکروں سے نکل چکی ہے اور قومی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے جارہی ہے، البتہ قبائلیوں کے ساتھ ابھی تک غیر انسانی و غیر قانونی رویوں کی وجہ سے اندر ہی اندر اشتعال پیدا ہو رہا ہے جس کا بروقت تدارک بہت زیادہ ضروری ہے۔ اسی طرح مکمل کوائف رکھنے کے باوجود طویل عرصے سے شناختی کارڈ کے حصول میں بہت سی مشکلات ہیں جنھیں رفع کرنا سرکار و متعلقہ اداروں کا کام ہے کیونکہ قوم پرست اس جیسے دیگر معاملات پر سیاست کرکے اپنی دکانیں چمکا سکتے ہیں۔
    آخری بات یہ کہ افغانستان اگر پشتونوں کا اتنا ہی بڑا گھر ہے تو یہ قوم پرست عناصر اسلام آباد، کراچی، لندن، دبئی، نیویارک اور کوالالمپور وغیرہ میں ہی کاروبار و رہائش کا انتظام کیوں کرتے ہیں ؟
    ننگرہار، لغمان، پکتیا، لوگر، فراہ، قندھار و کابل پہ نظر کرم کیوں نہیں، کیا وہاں پنجابی بستے ہیں ؟ ؟ ؟