Tag: تحریک انصاف

  • دنیا بلیک اینڈ وہائٹ نہیں ہے – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    دنیا بلیک اینڈ وہائٹ نہیں ہے – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق پچھلے کئی دنوں سے بعض سیاسی امور پر میں نے اپنی آرا کا اظہار کیا تو کئی ان دوستوں نے، جو ”علمی“ امور پر بالعموم میرے مؤقف کو پسند کرتے رہے، ان ”سیاسی“ آرا پر سخت حیرت کا، اور بعض نے صدمے کا، اظہار کیا۔ پہلے تو میرا خیال تھا کہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سارے پڑھے لکھے لوگ ہیں اور مانتے ہیں کہ ہر شخص کو رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے لیکن بعض تبصروں نے چند سطور وضاحت کے لیے لکھنے پر مجبور کردیا ہے۔

    1۔ سیاسی امور میں فوج کی آمریت کو میں قطعاً ناجائز سمجھتا ہوں اور میری خواہش، کوشش اور دعوت یہی ہے کہ فوج کو سیاسی قیادت کے ماتحت رہ کر ملک کی سلامتی اور بقا کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے۔ سیاسی امور کے علاوہ خالص فوجی امور، جیسے سوات آپریشن اور اس سے پہلے اور اس کے بعد قبائلی علاقوں میں آپریشنز ، پر بھی مجھے فوج کے مؤقف اور کردار دونوں پر سخت اعتراضات ہیں۔ ان سے بھی زیادہ سخت اعتراضات مجھے مالیاتی امور میں فوج کی دلچسپی سے ہے اور کرپشن کو میں نے کبھی صرف سیاست دانوں تک محدود فرض نہیں کیا۔ فوج کی قربانیوں کے اعتراف کے باوجود اس طرح کے معاملات پر تنقید میں ضروری سمجھتا ہوں اور کرتا آیا یوں۔

    2۔ عمران خان کی سیاست اور پی ٹی آئی کے کلچر پر مجھے سخت تحفظات ہیں لیکن میں عمران خان کو یہودی ایجنٹ یا پی ٹی آئی کو یہودی ایجنڈے پر کارفرما نہیں سمجھتا۔ نہ ہی میں جمعیت علمائے اسلام یا جماعت اسلامی یا کسی اور مذہبی سیاسی جماعت کو ”کشتیِ نوح“ مانتا ہوں۔ مذہبی سیاست کی ضرورت اور مذہبی سیاستدانوں کی بعض خوبیوں کا میں معترف ضرور ہوں لیکن ان جماعتوں کے کردار اور ان کے مؤقف پر کئی اعتراضات بھی کرتا ہوں۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کی پانچ سالہ کارکردگی کا میں نے بڑے قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ وہ کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ہے۔ اسی طرح کے تحفظات مجھے قوم پرستوں اور پیپلز پارٹی کی سیاست پر بھی ہیں۔

    3۔ موجودہ سیاسی بندوبست میں میرے نزدیک عمران خان کی حیثیت persistent objector کی ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ میاں صاحب میرے صوبے کے لیے وہ وحشیانہ طرز عمل اختیار نہیں کر پا رہے جو کبھی ان کا خاصہ رہا ہے۔ صوبہ سرحد پر (جسے اب خیبر پختونخوا کہا جاتا ہے) آٹے کی بندش صرف ایک مثال تھی جو کل ذکر کی ہے اور جس سے ان کے اتحادی قوم پرست عوامی نیشنل پارٹی کے وزرا بھی ان کو نہیں روک پائے تھے۔اگر یہ چیخنے چلانے والے نہ ہوتے تو کیا آج پٹرول 64 روپے فی لیٹر پر بک رہا ہوتا؟ دیکھیے۔ آج بھی حکومت کو سفارش کی گئی ہے کہ وہ پٹرول کی قیمت میں 6 روپے 40 پیسے کا اضافہ کردے لیکن یقین کیجیے کہ حکومت ایسا نہیں کرے گی۔ کیا اس کی وجہ وزیر برائے اپوزیشن امور جناب خورشید شاہ صاحب ہیں؟

    4۔ نواز شریف صاحب کو ان کی کرپشن، ان کے آمرانہ مزاج اور میرے صوبے کے خلاف ان کے تعصب کی بنا پر میں کسی طور بھی نہ جمہوری لیڈر مانتا ہوں اور نہ ہی قومی لیڈر۔ یہ میری سو فیصد ذاتی رائے ہے اور ڈھائی عشروں کے سوچ بچار پر مبنی ہے۔ اس مؤقف کی عمران خان یا پی ٹی آئی کے مؤقف سے مماثلت محض اتفاقی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ مؤقف رکھنے والا ہر شخص”انصافی“ ہو، خواہ میں اس مؤقف کو بالکل مبنی بر انصاف کہوں۔

    5۔ تو حضور ، آمریت کا میں سخت ترین مخالف ہوں لیکن جب میں میاں صاحب کی آمریت پر اعتراض کرتا ہوں تو آپ اسے لازماً آمریت کی، یا عمران خان کی، حمایت سمجھ لیتے ہیں۔ اسی طرح آپ جمہوریت کی حمایت، یا آمریت کی مخالفت کو نواز شریف کی حمایت کے ساتھ لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ مجھے اسی سے اختلاف ہے۔ آمریت کی مخالفت کے وجوب سے نواز شریف کی حمایت کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص نواز شریف کا مخالف ہو اور اس کے باوجود وہ عمران خان کا ساتھی نہ ہو؛ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص عمران خان کی کسی بات کی حمایت کرتا ہو لیکن وہ منصف ہو، ”انصافی“ نہ ہو۔

    دنیا بلیک اینڈ وہائٹ نہیں ہے۔ بہت سے رنگ اور بھی ہیں۔ یہ تو بش نے کہا تھا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو آپ دہشت گردوں کے ساتھ ہیں۔ ہاں! یاد آیا۔ نواز شریف صاحب کے اولین مربی نے بھی کہا تھا کہ اگر آپ اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں تو مجھے اگلے پانچ سال کے لیے صدر مان لیجیے۔ یہ تو خواہ مخواہ ہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف صاحب اپنے اولین مربی کے اثر سے نکل آئے ہیں!

  • ضدی عمران خان اور نیا پاکستان – سید حسیب شاہ

    ضدی عمران خان اور نیا پاکستان – سید حسیب شاہ

    آپ اپنی سیاسی مخالفت کی وجہ سے عمران خان کو یہودی لابی کا ایجنٹ کہیں، ڈانس کرنے والا کہیں، نشئی کہیں، ہٹ دھرم کہیں، باغی کہیں یا وزارت عظمیٰ کا لالچی،
    مگر یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ عمران خان پاکستان کا وفادار نہیں، یا عمران خان کرپٹ ہے۔

    میں مروجہ جمہوریت کو ناپسندیدہ ترین نظام سمجھنے اور پاکستانی سیاست سے سخت نفرت کے باوجود عمران خان کو پاکستان کا مقدمہ لڑنے والا ایک نڈر، بہادر اور مخلص شخص سمجھتا ہوں۔ یقیناً عمران خان کی جدوجہد خالص پاکستان کے حق میں ہے، یہ الگ بات ہے کہ کئی حضرات اپنی مخالفت کی وجہ سے بہت سوں کی اچھائیوں کو بھی برائی سمجھتے ہیں۔

    عمران خان اگر تحریکِ انصاف سے سابقہ جماعتوں کے مستعمل ٹشو رہنما نکال دے تو پاکستان کی تاریخ میں عظیم جدوجہد کرنے والے رہمناؤں میں ایک نام عمران خان ہوگا۔ تاریخ لکھی جائے گی اور تاریخ ضرور لکھے گی کہ اشرافیہ کے گھر پیدا ہونے والا ایک کرکٹ سٹار عیش و عشرت کی زندگی جینے اور پیسہ بنانے کے بجائے گلی کوچوں، چوکوں چوراہوں اور ایوانوں میں چیختا سنائی دیتا تھا۔ عمران خان کی تڑپ اور جرأت کم از کم مجھے داد دینے پر مجبور کرتی ہے۔

    تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد کوئی عمران خان پیدا ہونا محال ہے، پی ٹی آئی والے شاہ محمود قریشی، علیم خان، جہانگیر ترین، فوزیہ قصوری جیسوں کی جگہ علی محمد خان جیسے نفیس اور پڑھے لکھے لوگوں اور شاہ فیصل خان جیسے غریبوں کو ایوانوں میں لائے تو یقینا تحریک انصاف پاکستان کی واحد جماعت ہوگی جس نے وطن عزیز میں اکیسویں صدی کی ڈوبتی سیاست کو ایک نیا رخ اور نیا ولولہ دیا ہے۔

    تحریکِ انصاف کے کارکنان اور دیگر جماعتوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے رہنماؤں یا تحریک کی پالیسی اور طریق کار سے مجھے 90 فیصد اختلاف ہوسکتا ہے، ہاں مگر عمران خان کی حب الوطنی اور ملک کے لیے جدوجہد کو نظرانداز کروں تو یقینا میں نا انصافی کروں گا۔ پاکستان کی تاریح میں پہلی بار پاکستانی عوام کو ایک سچا نڈر بے باک اور عوام دوست لیڈر ملا ہے جس نے پاکستانی عوام کو ایک بے وقوف قوم سے باشعور قوم بنایا اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا سلیقہ سکھا کر ان نام نہاد حکمرانوں کی اصلیت دکھا کر ہر موڑ پر انکا راستہ روک کر ان کے ناک میں دم کررکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج سارے چور مل کر بے بنیاد جھوٹے الزامات لگا کر عمران خان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
    غدار انصاف کا نہیں بےانصافی کا نعرہ لگاتے ہیں – ایجنٹ ملک کی ترقی کی نہیں بلکہ بربادی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ایجنٹ عوام کے حقوق کا محافظ نہیں بلکہ عوام کے حقوق پہ ڈاکہ ڈال کر انکوں لوٹنے کا کام کرتے ہیں۔ ن لیگ اور پرویز رشید کے اسطرح کے الزامات صرف و صرف عوام کے آنکھوں میں دھول جھونک کر گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں، عمران خان کی جدوجہد سے عوام میں اتنا شعور تو آگیا ہے کہ سچ جھوٹ یا صحیح اور غلط میں فرق کرسکیں، اس طرح کی کوششیں اب عمران خان کا راستہ نہیں روک سکتی۔

    ہم نے پانچ بار امیرالمومنین دوم حضرت مآب شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنایا، تین بار نوازشریف کو وزیراعظم بنایا لیکن میرے ان مرشدوں کی ذہنی بلوغت دیکھیں، آج تک ہم نے ایسا ہسپتال نہیں بنایا جہاں ان کا اپنا علاج ہوسکے. اسے کہتے ہیں سیاست. یہودی ایجنٹ عمران کیا جانے سیاست کیا ہوتی ہے.
    لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا تھا: جناح کی ضد نے پاکستان بنایا اور مجھے یقین ہے کہ اب ضدی عمران خان نیا پاکستان بنائے گا۔

  • عمران خان تم جیت گئے ہو – رضوان الرحمن رضی

    عمران خان تم جیت گئے ہو – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی عمران خان تم جیت گئے ہو، جنگ کے آغاز سے قبل ہی ’ن لیگی‘ حکومت کی تزویراتی شکست کا بگل بج رہا ہے۔ جس طرح ان کے لشکر میں افراتفری کے آثار نمایاں ہیں اور جس طرح لیگی تنخواہ یافتہ میراثی سرکاری اور بعض غیر سرکاری ٹی وی پر بیٹھے ٹامک ٹوئیاں مار کر اپنی راتب خوری کا حق ادا کر رہے ہیں تو اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ضرب بہت کاری ہے اور بس شکست کا اعتراف ہوا ہی چاہتا ہے۔ جب دلیل کم پڑتی ہے تو پھر تشدد کو راہ دیتی ہے اور تشدد کا آغاز ہوا ہی چاہتا ہے۔

    اس شکست کے آثار اس وقت سامنے آنا شروع ہو گئے تھے جب دھرنے کی تاریخ سے دس دن قبل ہی حکومتی ٹیم کے سب سے اہم اور مؤثر ممبر جناب اسحاق ڈار نے کراچی میں ’منہ سے آگ نکالنے‘ کا مظاہرہ کر ڈالا اور شاہدرہ (لاہور ) میں لڑنے والی مشہور ہمسائیوں کی طرح حزبِ اختلاف کو بے نقط طعنے دے ڈالے اور اس لڑائی میں پشاور سے کراچی تک چلنے والے ٹرکوں کے پیچھے لکھے فقرے پڑھنا شروع کر دیے ’جلنے والے کا منہ کالا‘ اور ’ محنت کر حسد نہ کر‘۔ حافظ محمد اسحاق ڈار جن کو حکومتی ٹیم میں سے سب سے نرم خو کہا جاتا ہے اور وہ حکومت کی جانب سے صلح صفائی کے پیغام لاتے رہے ہیں، انہوں نے جب منہ سے آگ نکالی تو پتہ چل گیا کہ حکومتی صفوں میں ہل چل مچ گئی ہے جس نے عمران خان کو مزید شیر کر دیا ہے۔ اب حکومت کی طرف سے رابطوں کا کام خواجہ سعد رفیق کو سونپا گیا ہے جن کی اسمبلی رکنیت اور وزارت ریلوے عدالتِ عظمیٰ کے ایک حکمِ امتناعی کی مرہونِ منت ہے۔ ظاہر ہے پی ٹی آئی ان سے مذاکرات کرنے سے تو رہی تو یوں حکومت نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے تمام امکانات معدوم کر دیے ہیں۔ دلائل سے بھاگنے کا عمل شکست کا اعلان ہی تو ہوا کرتا ہے۔

    یہ اعلان شکست ہر اس ٹی وی کے پراپیگنڈہ اشتہار کے ساتھ گونج رہا ہے اور بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے جو ہر پندرہ سیکنڈ کے بعد ہماری آنکھوں کے سامنے ٹی وی پر ظاہر ہو رہا ہے اور ہمیں باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ میاں نواز شریف نے گزشتہ ساڑھے تین سال میں ملک کے طول و عرض میں جو دودھ اور شہر کی جو نہریں بہائی ہیں، ان کے سوتے ہم تک پہنچا ہی چاہتے ہیں۔ اب تک کیوں نہیں پہنچے، یہی ہمارا سوال ہے اور اس کا ہی ان اشتہارات میں کوئی جواب نہیں۔ ہزاروں میگاواٹ کا گڈانی پاور پراجیکٹ کروڑوں روپے کے اخراجات کے بعد بغیر کوئی وجہ بتائے بند کیوں کیا گیا؟ نندی پور جس کی اس قدر ڈھول بتاشے کے ساتھ تکمیل ہوئی تھی، وہ گرمیوں میں کیوں چل نہیں پاتا جب قوم کو بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور صرف سردیوں میں ہی کیوں چلتا ہے؟ اس کا ریکارڈ جلانا کیوں ضروری خیال کیا گیا؟

    جس طرح لیگی راتب خوروں کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، لگتا یہی ہے کہ ہر سیاسی ضرب کاری اور بھاری پڑ رہی ہے۔ ن لیگ کے موجودہ طریق کار کے بانی مبانی جناب زبیر عمر صاحب جنہوں نے جب میاں نواز شریف کے کان میں کچھ پھونکا تو میاں صاحب نے باقی سب کو خود سے دور کر دیا اور خود کو زبیر عمر صاحب کے طریق کار تک محدود کر لیا، زبیر عمر کا طریق کار یہ تھا کہ وقت گزارا جائے تا آنکہ مارچ 2017ء آ جائے اور نون لیگی میاں صاحب کے آگے پیچھے دھمالیں ڈالتے مختلف منصوبوں کے پہلے مراحل کے افتتاحی فیتے کاٹنے میں مصروف ہو جائیں۔ میاں نواز شریف کے دل کا آپریشن اور پانامہ لیکس پر تحقیقاتی کمیشن کے ضابطہ کار کو طے کرنے کے لیے طویل ملاقاتیں دراصل اسی پالیسی کا حصہ تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے۔

    مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں اطراف سے مشرقی پاکستان والے جنرل غلام عمر کے صاحبزادگان، زبیر عمر اور اسد عمر، جن کو ناکام منصوبہ بندیوں کا آبائی تجربہ ہے، انہوں نے دونوں اطراف سے خاصا زور لگایا ہوا ہے۔ اس لیے عمران خان وقت کا دھارا روکنے میں مصروف ہوگئے ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ اس کام میں ن لیگ کے راتب خور کچھ عمران خان کے زیادہ ہی مددگار ثابت ہورہے ہیں۔

    حالات کی اس خرابی میں ملک کی معروف صحافتی طوائفوں کا بہت دخل ہے۔ جیسے ہی سیاسی ماحول میں تیزی آئی، ان صحافتی طوائفوں کے اداروں کے لیے قومی خزانے کے منہ کھول دیے گئے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ تو سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا پر اس آگ کو آکٹین پٹرول سے بجھائیں گے تا کہ ماحول زیادہ گرم ہو اور ان کے لیے راتب کا زیادہ سامان ہو۔ لاہور کے ایک عظیم صحافی جو اپنے ٹی وی پروگرام میں بڑی شد و مد کے ساتھ ن لیگی حمایت میں رطب اللسان نظر آتے ہیں، انہوں نے پی ٹی آئی کے بینرز کی چھپوائی کا کام بھی پکڑ لیا ہے۔ اس لیے ان صحافیوں کا پورا زور اس بات پر ہے کسی نہ کسی طور یہ لڑائی طول پکڑے اور ان کے جیبیں قومی خزانے سے لٹائے گئے اشتہارات کی رقوم سے بھر تے جائیں۔

    حکومت کی موجودہ ابلاغی پالیسی کے خالقین پر قربان جانے کو دل کرتا ہے۔ جس طرح بہادر کمانڈو پرویز مشرف صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں‘‘ اسی طرح لاہور کے ایک صاحب ، جو آج کل سرکاری ٹی وی کے مدارالمہام ہوتے ہیں، یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’میرے والدِ گرامی مولانا ۔۔۔۔ ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں جمعہ پڑھایا کرتے تھے‘‘۔ سنا ہے آج کل وہ بھی ایک شدید قسم کے ڈپریشن میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ پی ٹی وی پر قبضہ کرنے کے بعد موصوف نے کافی مشکل سے اپنے ہونہار بروا کے لیے افرادی قوت کی برآمد کے لائسنس جاری کرنے والے سرکاری ادارے میں بہت ہی زیادہ ’پیداواری‘ پوسٹ کا اہتمام کیا تھا کہ کچھ حاسدین عدالت جا پہنچے اور وزیر اعظم کے اس خصوصی حکم پر عمل درآمد رکوا دیا ہے۔ اب طبیعت میں شدید بے چینی اور ذہن دباؤ کا شکار ہے۔ تو یہ دباؤ کہیں تو نکلے گا ناں؟

    لگتا یہی ہے کہ اُدھر وفاق میں بھی’خالو بھانجا‘ میڈیا پالیسی شکست فاش سے دوچار ہونے کو ہے۔ اس وقت میاں نواز شریف کے ارد گرد اکٹھے میڈیا مینجرز نامی ذہنی بونوں کی اوسط عمر ستر سال سے زائد ہے۔ ان میں سے سب کی مشترکہ قابلیت یہ ہے کہ اس دور میں بھی یہ سمارٹ فون سے بھی صرف کال ہی سننے کا کام لیتے ہیں جب دنیا کا سارا میڈیا اس موبائل فون میں سمٹ گیا ہے۔ اگر اس قدر پست ذہنی سطح کے ساتھ یہ بونے حکومتی ابلاغی پالیسی کے خالق اور چلانے والے ہیں تو حکومت کو سرکاری خزانے سے اربوں روپے لٹانے کے باوجود بھی اتنے جوتے پڑنے کا کام عین میرٹ پر ہو رہا ہے۔

    جب غنیم کے لشکر اس قدر ہل چل ہو تو یہ اعلانِ شکست ہوا کرتا ہے۔ اس لیے عمران خان تم میدان میں اترنے سے پہلے ہی آدھی سے زیادہ جنگ جیت چکے ہو۔ اب تم دھرنا نہ بھی دو، اسلام آباد کا گھیراؤ نہ بھی کر سکو تو یاد رکھنا کہ تم نے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوچکے ہو۔

  • اسلام آباد بند کرنے سے کیا ہوگا؟ محمد تنویر اعوان

    اسلام آباد بند کرنے سے کیا ہوگا؟ محمد تنویر اعوان

    محمد تنویر اعوان تاریخ کا مطالعہ کریں تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی کسی قوم پر کڑا وقت آیا ہے تو قوم متحدہوجایاکرتی تھی قوم کے بڑے اپنے تمام اختلافات بھلاکر ایک ہوجایا کرتے تھے۔سلجوقیوں کا دورحکومت تھا سلطان محمد کی حکومت تھی ۔اپنے عہد کے بڑے مشاہیر عمرخیام ،نظام الدین اورفدائیوں کے سربراہ حسن بن صباح بھی اسی دورسے تعلق رکھتے ہیں۔سلطان کا چھوٹا بھائی سنجر جو کہ ایک بہادرجرنیل تھا اس نے کبھی میدان جنگ میں شکست نہیں دیکھی تھی جس جنگ میں گیا فتح نے اس کے قدم چومے۔اسی دور میں تاتاری اٹھے اور ان کے سامنے جو آیا اسے شکست دیتے چلے گئے تاریخ بتاتی ہے کہ سنجر ہی وہ پہلا جرنیل تھا جس نے میدان جنگ میں تاتاریوں کو پسپاہونے پر مجبورکیا۔اور پھر ایک وقت ایسابھی آتا ہے کہ سنجر خانہ بدوشوں سے شکست کھا جاتا ہے۔اصفہان شہر سے باہرخانہ بدوش رہا کرتے تھے جو سلجوقی سلطنت کو خراج دیا کرتے تھے۔لیکن پھر انہوں نے خراج دینا بندکردیا اورسلجوقی سفیرکو بے عزت کرکے واپس بھیج دیا۔اسی دوران سنجر ایک بڑی فوج لیکر تاتاریوں سے مقابلہ کرنے نکلا راستے میں خانہ بدوش بھی آتے تھے چنانچہ سنجر نے آدھی فوج اپنے ساتھ لی اور آدھا لشکر وہیں چھوڑ دیا اورخانہ بدوشوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔خانہ بدوشوں نے بڑی منتیں کی معافیاں مانگیں اور تین گنا خراج دینے کے وعدہ کیا لیکن سنجر نہ مانا اورتاریخ گواہ ہے کہ جب خانہ بدوشوں نے دیکھا کہ جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے تو وہ ایک ہوگئے انہوں نے طے کرلیا کہ اب مارنا ہے یامرنا ہے۔اورلکھنے والے لکھتے ہیں کہ سنجر جیساجرنیل اورسلجوقیوں جیسی تجربہ کار فوج ان خانہ بدوشوں سے شکست کھا گئی۔یہ اتحاد ہی تو ہے جو قوموں فتح یاب کیا کرتا ہے۔کامیاب کیا کرتا ہے۔

    یہاں اہل پاکستان کے لئے یہ واقعہ سبق آموز ہے۔پاکستان اس وقت بھارت سے نبردآزما ہے۔کشمیر میں آذادی کی تحریک چل رہی ہے بھارت کی طرف سے مظالم کئے جارہے ہیں۔بھارتی حکومت جنگ کی دھمکیاں دے چکی ہے۔بلوچستان میں “را”موساداورسی آئی اے کی سازشوں کا سامناہے۔کراچی میں را کے وسیع نیٹورک کا انکشاف ہوا ہے۔پختونخواء میں امن وامان کا مسئلہ ہے۔امریکہ ڈومورکا مطالبہ کرتا چلا جارہا ہے۔سی پیک منصوبے کو متناذعہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔غرض وہ تمام علامتیں موجود ہیں۔جو کہ کسی قوم کو متحد کردیا کرتی ہیں لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے شاید ہمارے رہنماء حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں کرپارہے ہیں۔ یہاں ضرورت اس امر کی تھی کہ قومی قیادت کو ملک کے حالات اور چیلنجز سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی جاتی اس کے بعد ان سیشن اجلاس کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔قوم سے خطاب کرکے حالات کی سنگینی کا احساس دلایا جاتا قوم کوتیار کیا جاتا لیکن ایسی صورتحال میں بھی ہمارے ملک کی اعلیٰ قیادت ملک سے باہر تھی جبکہ بھارت سرجیکل اسٹرائیک کا دعوے کررہاتھا۔

    اس وقت وطن عزیز میں سیاسی ماحول سخت کشیدہ ہوچکا ہے۔پانامہ لیکس میں نام آنے کے بعد سے تحریک انصاف وزیراعظم سے استعفے اورتحقیقات کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے۔ماضی میں بھی تحریک انصاف اسلام آباد میں تاریخ کا سب سے طویل دھرنا دے چکی ہے اوراس بار بھی تحریک انصاف نے 2نومبرکو اسلام آبادبند کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عمران خان نوجوانوں کے مقبول ترین رہنماء ہیں اور حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اسلام آباد میں عوام کو جمع کرنا تحریک انصاف کے لئے چنداں مشکل کام نہیں ہے۔تحریک انصاف ملک کے کسی بھی مقام پر لوگوں کا جم غفیر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔لیکن اسلام آباد بند کرنے سے کیا ہوگا اور اس کے نتائج کیا نکلیں گے اس کا اندازہ نہ تو خان صاحب کو ہے اور نہ ہی دوسری اپوزیشن جماعتوں کواس کی پرواہے۔صرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے نتائج بہت خطرناک نکل سکتے ہیں۔

    اس حوالے سے ملکی اورعالمی سطح پر پیشن گوئیاں جاری ہیں۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد بند کرنے سے تیسری قوت فائدہ اٹھائے گی اور جمہوریت ڈی ریل ہوجائے گی۔بعض کے نزدیک اسلام آبادبند ہونے سے سی پیک منصوبہ متاثر ہوسکتا ہے۔چین بھی موجودہ صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرچکا ہے اورچینی سفیر نے عمران خان صاحب سے ملاقات کرکے معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر ذوردیاہے۔

    تناؤ کی یہ کیفیت ایک ایسے ماحول میں پیداہوئی ہے جبکہ ایک طرف بھارت لائن آف کنٹرول پر دراندازی کررہا ہے تو دوسری طرف کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف آذادی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔ایسے میں پاکستان کے اندر سیاسی بحران کا پیدا ہونا یقیناًملک دشمن قوتوں کو فائدہ دے گا۔امریکہ اسرائیل ایران اوربھارت سمیت عرب ممالک بھی نہیں چاہتے ہیں کہ سی پیک منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے۔کیا دوست اور کیا دشمن ہر ملک اپنے مفاد کی خاطر پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔گوادرپورٹ کی تکمیل سے عرب ممالک اورایران براء راست متاثرہوں گے۔ماہرین کے مطابق سی پیک منصوبے سے 2030 تک 7 لاکھ لوگوں کو براء راست روزگار ملے گا اور ملک کی سالانہ ترقی کی شرح 2 سے ڈھائی فیصد بڑھے گی۔سی پیک کا پاکستان کی سالانہ آمدن میں 17فیصدہوگا۔اس منصوبے سے 2020تک 10ہزار400میگاواٹ یومیہ بجلی پیداکی جاسکے گی۔جس سے ملک میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔لیکن بدقسمتی سے اس وقت کسی بھی رہنماء کو اس منصوبے کی قدرومنزلت کا احساس نہیں ہے۔ہر سیاسی جماعت اپنی سیاست کی دکان چمکانے میں لگی ہوئی ہے۔

    حالیہ کچھ عرصے میں سول ملٹری تعلقات میں بھی سخت کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے۔یقیناً یہ حکومتی ناعقبت اندیشی کی مثال ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ فوج بیک وقت تین مختلف محاذ پر ملک دشمنوں کا مقابلہ کررہی ہے تو ایسے میں اپنی ہی فوج کو بدنام کرنے کی احمقانہ کوشش کرنا ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔یہ غلطی شاید حکومت کو بہت بھاری بھی پڑے گی۔باوجود اس کے کہ حکومت اس وقت شدیدپریشانی سے دوچار ہے اورحکومتی رہنماؤں کی جانب سے بجائے اپوزیشن جماعتوں کو اعتمادمیں لینے کے تندوتیز بیانات دیئے جارہے ہیں۔پیپلزپارٹی اس ساری صورتحال سے الگ تھلگ ضرورہے لیکن وقت آنے پر پیپلز پارٹی بھی سڑکوں پر آسکتی ہے۔اگر میاں صاحب دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے تو شاید ایسی صورتحال پیدا نہ ہوتی اپوزیشن کے مطالبے پرجوڈیشل کمیشن کی تشکیل معاملات کو حل کرنے کا اشارہ ہوتی لیکن شاید میاں صاحب کے قریبی مصاحبین کو اندازہ نہیں تھا کہ حالات اس قدر سنگین ہوجائیں گے۔اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ خان صاحب نے کشتیاں جلادی ہیں۔اب عمران خان کسی صورت اسلام آباد بند کرنے سے دستبردارنہیں ہوں گے۔گوکہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا نوٹس لے لیا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید بہت دیر کی مہرباں آتے آتے کے مصداق اب پانی سر سے گزرچکا ہے۔

    اب اگر حکومت اپوزیشن کے خلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے تو ملک داخلی انتشار کا شکار ہوجائے گا ۔جب امن و امان کی صورتحال خراب ہوگی تو مجبوراًفوج کو داخلی معاملات میں مداخلت کرنے پڑے گی۔اس طرح جمہوریت ڈی ریل ہوسکتی ہے۔اگر حکومت اپوزیشن کو نہیں روکتی انہیں احتجاج کرنے دیتی ہے تو ماضی کو دیکھتے ہوئے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب مشتعل ہجوم پارلیمنٹ کی طرف مارچ کا فیصلہ کرلے۔ایسی صورت میں بھی امن وامان کی صورتحال مزید خراب ہوگی ۔نتیجہ پھر وہی نکلے گا کہ فوج کو مجبوراً مداخلت کرنے پڑے گی۔لیکن آثاراور ذرائع بتاتے ہیں کہ فوج اس وقت کسی ایسے ایڈونچر کے موڈ میں نہیں ہے۔فوج اپنا کام کرنا چاہتی ہے۔اعلیٰ عسکری اداروں کو ترجیح اس وقت لائن آف کنٹرول کی صورتحال اوردہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن ہے۔بہرحال ہونے کو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن نقصان پاکستان کو پہنچے گا سی پیک منصوبہ متاثر ہوگا سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔ملک عد استحکام کا شکارہوگا۔اس صورتحال سے بچنے کی ایک راہ یہ بھی ہے کہ میاں صاحب کمیشن بنا کر استعفیٰ دے دیں ۔اور جب تک انکوائری مکمل نہیں ہوجاتی ۔عنان حکومت کسی دوسرے کے حوالے کردیں۔ماضی میں بھی پنجاب میں دوست محمد کھوسہ وزیراعلیٰ رہے ہیں جن کے بعد شہباذشریف صاحب وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔یہاں دلچسپ صورتحال اس لحاظ سے ہے کہ میاں صاحب کسی پر اعتمادکرنے کو تیار نہیں ہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ ن لیگ پلان اے بی اور سی بناچکی ہے جو کہ وقت آنے پر سامنے لائے جائیں گے۔لیکن یہ بات طے ہے کہ ملک ایک بحران کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن اس بحران کو روکنے کوکوئی بھی تیارنہیں۔

  • ہندستانی گانوں پر رقص غیر اسلامی ہے – ظفر عمران

    ہندستانی گانوں پر رقص غیر اسلامی ہے – ظفر عمران

    ظفر عمران کسی زمانے میں یہ بحث سنا کرتے تھے، کہ رقص غیر اسلامی ہے، یا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے، یا نہیں۔ اسی طرح موسیقی کی حرمت کے بارے میں بھی مکالمے سے مناظرے تک سنے، پڑھے۔ اس دوران کبھی یہ موضوع سامنے نہیں آیا، کہ کچھ مخصوص گانوں پر جھومنا اسلامی، یا غیر اسلامی ہوسکتا ہے۔ بھلا ہو اس ذاتی حیثیت کا، کہ ہمارے علم میں آیا، ہندُستانی گانوں ”بیڑی لگئی لے“، ”منی بدنام ہوئی“، جیسے گانوں پہ تھرکنا غیر اسلامی ہے۔

    بی بی سی نے رپورٹ کیا ہے، کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ صوبائی اسمبلی خرم شیر زمان نے کچھ عرصہ قبل وزیر تعلیم کو ایک خط لکھا تھا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا، کہ چند نجی تعلیمی اداروں میں رقص کی تعلیم دی جاتی ہے، جو ان کے خیال میں مذہبِ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے، اس لیے اسے روکا جائے۔ خرم شیر زمان یاتو تحریک انصاف کے جلسوں میں شریک نہیں ہوتے، یا جھومنے کے وقت گھومنے نکل جاتے ہوں گے۔ خیر دل چسپ بات یہ ہے، کہ اس معاملے پر جب شہر کے کئی حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی کی گئی تو تحریکِ انصاف نے بحیثیتِ سیاسی جماعت خود کو اس معاملے سے یہ کَہ کر علاحدہ کرلیا، کہ ‘یہ عمل خرم شیر زمان نے اپنی ذاتی حیثیت میں اٹھایا ہے، اور یہ تحریکِ انصاف کی پالیسی نہیں ہے۔’ یہ تو بچہ بچہ جانتا ہے، کہ تحریک انصاف کی پالیسی میں سے ناچ گانا نکال دیا جائے، تو باقی بیمہ بھی نہیں بچتا۔

    تاہم تحریک انصاف نے یہ نہیں بتایا، کہ خرم شیر زمان کی اس ذاتی حیثیت کی کیا حیثیت ہے۔ کیا جماعت نے جناب خرم شیر زمان کی ذاتی حیثیت میں پارٹی کا تاثر برباد کرنے پر کوئی نوٹس لیا، یا بس اپنی طرف سے ایک بیان جاری کرنا ہی کافی سمجھا۔ دوسری جانب تحریکِ انصاف کے رکنِ سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں اس عمل سے اس لیے مایوسی ہوئی ہے، کہ یہ سارا معاملہ پہلے ہی بہت پے چیدہ بنا دیا گیا تھا۔ ادھر سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی کی تعلیم پر پابندی کی خبروں کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے، کہ یہ پابندی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔

    وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ چند انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں وہ اپنے آزاد اور ترقی پسند منشور کو کسی قیمت پر یرغمال نہیں بننےدیں گے۔ میں یہ سمجھا ہوں، کہ اگر ترقی پسندی رقص کرنا ہے، تو وزیرِ اعلا کا یوں کہنا بہ جا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘موسیقی اور رقص کسی بھی آزاد معاشرے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اور وہ ایسی سرگرمیوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔’ وزیرِ اعلا سندھ نے کا کہنا ہے تھا کہ اسکولوں میں رقص پرپابندی سے متعلق جاری ہونے والے اعلامیے کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے۔

    خرم شیر زمان نے کہا کہ ’’میرے پاس بہت سے بچوں کے والدین شکایت لے کر آئے تھے، اور میں نے ان کی شکایات وزیرِ تعلیم کو بھجوا دی تھیں۔’ خرم شیر زمان یہ نہیں سمجھے کہ یہ شکایات تحریک انصاف کے جلسوں میں ناچ گانے کے خلاف تھیں۔ الٹا انھوں نے وزیر تعلیم سندھ کو خط لکھ دیا۔ انھوں نے واضح کیا، کہ اس کام کے لیے انھوں نے اپنا ذاتی لیٹر ہیڈ استعمال کیا تھا، نہ کہ تحریکِ انصاف کا۔ ایک رکن صوبائی اسمبلی کی ذاتی حیثیت کیا ہے، یہ کیسے واضح ہو؟ بھئی آپ اپنی جماعت، اپنے حلقے کے عوام کی نمایندگی کرتے ہیں، اور اگر کوئی شکایت لے کر آیا، تو اپنے نمایندے کے پاس۔ پھر یہ ذاتی حیثیت کیا ہے؟ رکنِ سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے اس کے بعد جو وضاحت پیش کی وہ تو کمال ہے۔ کہتے ہیں، ‘وہ اس ڈانس کے خلاف ہیں جو اسکولوں میں انڈین اور انگلش گانوں پر سکھایا جاتا ہے۔ ثقافتی رقص کے وہ خلاف نہیں ہیں، اور ان کا مقصد صرف شیلا کی جوانی جیسے گانوں پر ہونے والے ڈانس کو روکنا تھا۔’ ہم عمران خان صاحب سے گزارش کرتے ہیں، کہ وہ اپنے جلسوں میں ‘شیلا کی جوانی’ پہ رقص مت کروائیں۔ یہ ‘نچ پنجابن نچ’ جیسے گانوں، اور اس کے گلوکار کی توہین ہے۔

    سید مراد علی جو بھی کہیں،انھی کے کابینہ سے وزیرِ تعلیم جام مہتاب ڈہر سے منسوب ایک بیان مقامی میڈیا میں شائع ہوا تھا، جس میں انھوں نے بعض نجی تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی کی تعلیم پر پابندی کی حمایت کی تھی۔ اس سے پیش تر نجی تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹر جنرل منسوب حسین صدیقی نے جمعہ کو ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں تمام نجی تعلیمی اداروں سے کہا گیا تھا، کہ کچھ اسکولوں نے رقص سکھانے کے نام پر استاد بھرتی کیے ہیں، اور وہ بچوں کو ‘فحش رقص’ کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اس اعلامیے میں ایسے تمام اسکولوں کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔

    اس ساری کہانی میں سمجھنے کی بات یہ ہے، کہ ہم میں سے کئی مذہب کی تشریح اپنی ذاتی حیثیت میں کرتے ہیں۔ کاش خرم شیر زمان اپنے دین کو اپنی ‘ذاتی حیثیت’ تک رہنے دیتے، اور دوسروں کی ذاتی حیثیت میں مداخلت سے پرہیز کرتے۔ یا کاش عوام ان ‘ذاتی حیثیت’ والوں کے چنگل سے نکل کر، اجتماعی حیثیت والوں کو رہ نما کریں۔ جب تک کسی سیاسی جماعت کے لیٹر ہیڈ کو استعمال میں نہیں لایا جاتا، عوام کو اپنے اپنے رہ نما کے پیچھے رقص کی کھلی آزادی ہے، اور میری’ذاتی حیثیت’ میں یہ رائے ہے، کہ اپنے اپنے قائد کے نعروں پہ جھومنا، عین اسلامی ہے۔ تو آئیے رقص کریں۔ جب کہ دھرنے کی آمد آمد ہے۔ بھلا بنا رقص کے بھی کوئی دھرنا، دھرنا ہے!

  • خان صاحب! تحریکیں کسی کے سہارے پر نہیں چلا کرتیں – پروفیسر محمد عمران ملک

    خان صاحب! تحریکیں کسی کے سہارے پر نہیں چلا کرتیں – پروفیسر محمد عمران ملک

    عمران ملک جون کے گرم دن ہیں، بے نظیر بھٹو اپنی حکومت کا آخری ثابت ہونے والا بجٹ پیش کرتی ہیں، مسٹر زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور ہیں، زبان زد عام ہے کہ آبدوزوں سے لے کر جنگلات تک کچھ بھی زرداری صاحب کی کرپشن سے نہیں بچ پا رہا، سناٹے کا عالم ہے، نواز شریف اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ہڑتال کی کال دے کر کارکنان کو استعمال کر کے منظر سے غائب رہتے ہیں۔ ایسے میں پہلی مرتبہ دھرنے کا لفظ سننے کو ملتا ہے، اس حال میں کہ جماعت اسلامی کا اسلامک فرنٹ پاکستان بھر میں شکست سے دوچار ہو چکا تھا، دھاندلی کے الزامات اس وقت بھی تھے، لیکن جس کو اپنا کام کرنا ہو وہ کرتا ہے، اٹھاون سالہ عمر رسیدہ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے کارکنان کو اسلام آباد میں دھرنے کی کال دیتا ہے، دھاندلی اور شکست کے بعد زخم کھائے کارکنان اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہیں، اور پھر دنیا منظر دیکھتی ہے کہ اس قاضی حسین احمد کو راولپنڈی پولیس مری روڈ پر تشدد کا نشانہ بناتی ہے، کارکنان قاضی حسین احمد کے آگے ڈھال بن جاتے ہیں، اٹھاون سالہ قاضی حسین احمد کارکنان سے پہلے پولیس کی لاٹھیوں کی زد میں ہے، سفید ریش بابا جی کی ٹوپی اتر چکی ہے، صوبائی اسمبلی میں جماعت سلامی کا پارلیمانی لیڈر چوہدری اصغر علی گجر سر پر گولی لگنے سے زخمی ہے، چار لوگ پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہو چکے ہیں اور پھر دنیا یہ منظر بھی دیکھتی ہے کہ وہ قاضی اکیلا اس محاذ پر ڈٹا ہوا ہے، پورے پاکستان میں وہ ایک ایک کونے میں اپنی تحریک کو پھیلا دیتا ہے، اپنی آنکھوں سے منظر دیکھا کہ وہ نواز شریف جو ہڑتال کی کال دے کر بیرون ملک چلا جاتا تھا، قاضی حسین احمد کی تحریک میں خود شمولیت کا اعلان کرتا ہے. میں نے نون لیگ کے ایم پی ایز کو قاضی حسین احمد کے گھٹنے کو ہاتھ لگاتے دیکھا، لیکن جماعت کسی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتی، اور نہ ہی کسی کو تحریک میں شامل ہونے کے لیے منتیں کرتی ہے، تحریک روز بروز شدت اختیار کر رہی ہے اور اس میدان اب بھی قاضی بابا تنہا ہے۔

    ایک اور دھرنے کی کال دی جاتی ہے، اسمبلی میں تین ممبران کی اقلیت کے باوجود جماعت سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بن کر ابھرتی ہے۔اب اکتوبر کے ٹھندے دن ہیں، اسلام آباد کا ماحول گرم ہے، کسی کے سامنے بھیک نہیں مانگی جاتی کہ ہمارے دھرنے میں شریک ہوں، کسی پارٹی کے دفتر کا طواف کوئی لیاقت بلوچ نہیں کرتے، کسی نواز شریف کے در پر منور حسن حاضری نہیں دیتے، کسی طاہر القادری کا پیچھا کرنے کے لیے اس وقت جیل سے تازہ تازہ رہا ہونے والے شیخ رشید کی منتیں نہیں کی جاتیں، قاضی حسین احمد کو سولو فلائٹ کا طعنہ دیا جاتا ہے، لیکن دھرنا کی تیاریاں جاری ہیں، اکتوبر کے یہی دن تھے جب قاضی حسین احمد ایک بار پھر اسلام آباد کے لیے نکلے تھے، لیکن اس بارحکومت کی طرف سے ملک بھر کی ٹرینیں بند کر دی گئیں تھیں، ائیر پورٹس سے فلائٹس آپریشن روک دیے گئے تھے، اور ہائی ویز پر بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر سڑکیں بلاک کر دی گئی تھیں۔ لوگوں کو ایک ہفتہ پہلے ہی اپنے اپنے شہروں میں گرفتار کر لیا جاتا ہے، جماعت اسلامی لاہور کے امیر لیاقت بلوچ کو مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں پولیس گھسیٹ کر قیدیوں کی وین میں ڈالتی ہے۔

    قاضی حسین احمد معلوم نہیں کب اسلام آباد پہنچ چکے تھے، لیکن کسی بھی مرحلے پر حکومت سے نہ ہی کسی اور سے بھیک مانگی، ان تمام پابندیوں کے باوجود اچانک قاضی صاحب تن تنہا خلاف معمول براؤن رنگ کے کپڑے اور سر پر جناح کیپ کی بجائے گول چترالی ٹوپی پہنے برآمد ہوئے، سڑکوں پر سناٹا تھا، کرفیو کا سماں تھا، لیکن قاضی صاحب کے مری روڈ پر نکلتے ہی بلاشبہ ہزاروں لوگ لیڈر کے پیچھے تھے، پولیس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اس کرفیو میں بھی لوگ اس طرح دیوانہ وار نکلیں گے، نکلتے بھی کیوں نا، لیڈر نے پہل کی تھی، آج پولیس میں بھی ہمت نہیں تھی کہ اس معمر سفید ریش ”نوجوان“ کو روک پائے، اسی اثنا میں شاہ احمد نورانی، اور کچھ ہی لمحوں بعد اعجاز الحق قاضی حسین احمد کے ساتھ ٹرک پر موجود تھے، فیض آباد پر شدید شیلنگ تھی اور شیل بھی امپورٹ کیے گئے تھے، اس شدید شیلنگ میں نوجوان اعجازالحق بےہوش ہو چکا تھا، لیکن ٹرک کی چھت پر قائد قاضی حسین احمد ڈٹ کر کھڑا تھا۔ سارا دن گزر گیا کہ کسی طرح فیض آباد پار کر کے اسلام آباد میں داخل ہو جائیں لیکن بڑے بڑے کنٹینر، خاردار تاروں اور پولیس کی بھاری موجودگی میں یہ ناممکن دکھائی دے رہا تھا، پولیس قاضی حسین احمد کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی تھی، سورج ڈھلتے ہی قاضی صاحب نے کارکنان سے کہا کہ وہ اسلام آباد میں پہنچنے کی کوشش کریں اور رات کسی بھی جگہ گزاریں، دھرنا ہوگا اور پارلیمنٹ کے سامنے ہوگا، جب تک ہم پارلیمنٹ نہیں پہنچ جاتے تب تک واپسی نہیں ہوگی، اس سخت جدوجہد کے دن بھی کسی نواز شریف، کسی شیخ رشید، کسی چوہدری شجاعت، کسی طاہر القادری کو مدد کے لیے نہیں پکارا گیا۔ بہرحال تین دن کی شیلنگ، پولیس تشدد، گرفتاریوں کے باوجود ایک بڑا قافلہ سید منور حسن کی قیادت میں 30 اکتوبر 1996ء کو پارلیمنٹ کے سامنے سجدہ ریز تھا، اور 4 نومبر 1996 کو بےنظیر بھٹو وزیراعظم نہیں تھیں۔

    یہ سب باتیں اکتوبر کے ان دنوں میں اس لیے یاد آ گئیں کہ آج بیس سال بعد ایک بار پھر اسلام آباد بند کرنے کی بات ہو رہی ہے، جو دو سال پہلے ناکام و نا مراد لوٹے تھے، آج پھر قوم کو ڈگڈگی کے گرد اکٹھا کرنا چاہ رہے ہیں۔

    حضور کیسا دھرنا؟ حضور کیسے بلاک کرنے کے دعوے؟ حالت یہ ہے کہ اپنے اوپر بھروسہ نہیں اور در در پر لوگوں سے شرکت کی اپیل، کبھی قادری صاحب سے ملنے کے لیے لندن یاترا، کبھی شیخ رشید کے در پر، کبھی پرویز الہٰی کے آگے پیچھے، کبھی جماعت اسلامی کی منتیں، کبھی پیپلز پارٹی کے سامنے سجدہ ریز۔ اور جو آپ کا ساتھ نہ دے وہ نواز شریف کا حامی کہلوائے، جناب جماعت اسلامی یہ سب کام تب کر چکی تھی جب آپ کی پارٹی ابھی جھولے میں وارد نہیں ہوئی تھی۔
    حضور والا! لیڈر شپ یہ نہیں ہوا کرتی، لیڈر تو آگے بڑھتا ہے، یہاں تولیڈر صاحب بنی گالہ یا زمان پارک سے نکلتا ہی تب ہے جب اسے یقین ہو جائے کہ لوگ سڑکوں پر آ گئے ہیں، پھر حکومت گرانے کی باتیں، پھر سے ایک بار انگلی اٹھنے کی بات۔
    کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ، مرے لہو کی بہار کب تک
    مجھے سہارا بنانے والو میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے؟

    حضور والا! ائیر کنڈیشنڈ کنٹینر پر بیٹھ کر، اور گانے کی دھن پر لوگوں کا ہجوم تو اکٹھا کیا جا سکتا ہے، لیکن اس سے کوئی با مقصد کام نہیں لیا جا سکتا، کبھی کرپٹ لوگوں کے ساتھ مل کر کرپشن ختم نہیں کی جا سکتی، کون نہیں جانتا جہانگیر ترین کی غریبی کی داستان، کون واقف نہیں شاہ محمود قریشی کے بوریا نشین ہونے سے، کون نہیں جانتا آپ کے ساتھ لگے لوگوں کے ماضی کو، جانے دیجیے، قوم پہلے بہت دھوکے کھا چکی ہے، اب اس قوم پر رحم کیجیے۔ اب اگر دھوکا ہوا تو سب کی ذمہ داری آپ پر ہوگی خان صاحب۔ مجھے خطرہ ہے کہ نوجوانوں کو امید دینے والا عمران خان کہیں اصغر خان نہ بن جائے۔

  • کیا حافظ سعید تحریک انصاف کے دھرنے میں شامل ہوں گے؟ محمد عامر خاکوانی

    کیا حافظ سعید تحریک انصاف کے دھرنے میں شامل ہوں گے؟ محمد عامر خاکوانی

    پچھلے تین چار دنوں میں کئی جگہوں سے یہ بات کہی گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تقویت آتی جا رہی ہے کہ عمران خان کے دو نومبر کے دھرنے میں حافظ سعید صاحب خود تو شریک نہیں ہوں گے، مگر ان کی افرادی قوت تحریک انصاف کے ساتھ شامل ہوگی۔ یہ بات تواتر سے کہی جا رہی ہے، حالانکہ حافظ سعید نے دو دن پہلے ایک انٹرویو میں وضاحت سے کہا کہ یہ بات بالکل غلط اور غیر منطقی ہے۔ حافظ سعید کا کہنا تھا کہ اس وقت جبکہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک زوروں پر ہے، اس وقت پاکستان سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا اور پھر ایسی صورت میں میڈیا اور عوام سب کی توجہ کشمیر سے ہٹ کر دھرنے کی طرف ہوجائے گی۔ اس کے باوجود پروپیگنڈا جاری ہے، اب لال مسجد والے المشہور مولوی عبدالعزیز کی حمایت کی بات بھی ہو رہی ہے، مولانا سمیع الحق کی حمایت کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے، جامعہ حقانیہ کی کے پی کے حکومت کی جانب سے دی گئی امداد کا واوین یعی کاماز میں ذکر کرنے کے بعد۔

    سچ تو یہ ہے کہ اسے پروپیگنڈے کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تین چار دلائل ایسے ہیں جن کی بنا پر حافظ سعید اور جماعۃ الدعوہ کا اسلام آباد دھرنے میں شامل ہونا یا تحریک انصاف کا انہیں قبول کرنا ممکن نہیں۔
    1۔ حافظ صاحب کے معتقدین کوان کے مخصوص حلیوں کی وجہ سے پہچاننا کبھی مشکل نہیں رہا، اس لیے جو بھی ان کی حمایت لینا چاہتا ہے، اسے یہ معلوم ہے کہ یہ بات چھپی نہں رہ سکتی۔
    2۔ حافظ صاحب آج کل امریکہ اور مغربی دنیا کی نظروں میں جس قدر معتوب ہیں، کوئی بھی پاکستانی سیاسی جماعت ان کی حمایت کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ کون اپنے اوپر یہ ٹھپہ لگوانا چاہے گا؟ اس میں حاصل وصول کچھ نہیں ہونا اور نققصانات ایک سو ایک ہیں۔
    3۔ حافظ صاحب خود بھی یہ خودکشی والا قدم نہیں اٹھا سکتے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ نواز شریف صاحب ان کی تنظیم کی جڑیں کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔ نواز حکومت کے خلاف کسی احتجاجی مظاہرے میں شامل ہونا تو کسی بھینسے کو سرخ کپڑا دکھانے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ وہ اپنے لیے نئی مصیبت کیوں کھڑی کریں گے؟ وہ آج کل پہلے ہی خاصا لوپروفائل جا چکے ہیں، سیاسی منظر میں آنے کی غلطی کبھی مول نہیں لیں گے۔
    4۔ رہی اسٹیبلشمنٹ تو وہاں بھی بے وقوف لوگ نہیں بیٹھے ہوئے ہیں، حافظ سعید صاحب اپنی مرضی سے بھی کسی تحریک مین شامل ہوں گے تو الزام اسٹیبلشمنٹ پر آئے گا، اس لئے اسٹیبلشمنٹ ایسا کچا کام کبھی نہیں کرتی، جس کے بعد ان کے حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔
    5۔ عمران خان کا عسکریت پسندی کے حوالے سے نرم گوشہ قطعی نہیں ہے۔ وہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا حامی ضرور رہا ہے، مگر اس کی وجہ امریکہ ہے۔ عمران خان کے مطابق اینٹی امریکی جذبات کی وجہ سے جو لوگ پاکستانی ریاست کے خلاف ہوئے، ان کے خلاف آپریشن سے پہلے مذاکرات کر کے انھیں جس قدر الگ کیا جا سکتا ہے، کیا جائے۔ تاہم عسکریت پسندانہ تنظیموں کے حوالے سے عمران خان بھارتی صحافی کرن تھاپر کے انٹرویو میں پچھلے عام انتخابات سے پہلے واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ اگر وہ الیکشن جیتا تو جماعت الدعوہ وغیرہ پر پابندی لگا دے گا۔ ویسے بھی عمران خان کے جلسوں کا ماحول، ناچ گانے وغیرہ یہ حافظ صاحب کے سخت گیر قدامت پسندانہ ذہن رکھنے والے حامیوں کو بالکل ہی گوارا نہیں ہو سکتا۔

    کم وبیش یہی پوزیشن مولانا لدھیانوی کی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے، امریکہ کے خلاف مظاہرے کرنے کے لیے اکٹھے ہو کر عوامی جلسے جلوس نکالنا ایک الگ بات ہے، ان ایشوز پر ان کے حامی واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ عمران خان کی حمایت میں تحریک انصاف کے رنگا رنگ جلسوں میں شرکت کرنا یکسر دوسرا مسئلہ ہے، جس کی حمایت کرنا ان میں سے کسی کے لیے آسان نہیں ہے۔

    رہی بات مولوی عبدالعزیز کی تو ان کے پاس افرادی قوت بچی کہاں ہے؟ وہ اپنا بیان البتہ داغ سکتے ہیں، مگر اب انہیں کوئی سیریس نہیں لیتا۔ نواز شریف حکومت کے وہ مخالف ہیں تو ایسے میں نواز شریف کے خلاف اٹھنے والا ہر شخص ایسے لوگوں کو پسند ہوگا، مگر یہ ایک اور بات ہے۔

    ہاں! مولانا سمعیع الحق والا معاملہ الگ ہے۔ وہ ایک باقاعدہ سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ خیبر پختون خوا میں اگلا سیاسی اتحاد تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور سمیع الحق صاحب میں ہوسکتا ہے۔ یہ کسی حد تک قابل عمل لگتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے سمیع الحق صاحب کو ایک سائیڈ سے لگا رکھا ہے، ان کے پاس فطری آپشن تحریک انصاف ہی ہے۔ تو ان کی حمایت اگر شامل ہو تو اس کی کوئی منطق سمجھ آتی ہے۔

    عوامی تحریک بھی اگر اس میں شامل ہوتی ہے تو اس کی وجوہات بھی واضح ہیں۔ طاہر القادری صاحب کی موجودہ سیاست میں کوئی جگہ نہیں بنتی، وہ صرف احتجاجی تحریک میں شامل ہو کر ہی اپنی کچھ پوزیشن بنا سکتے ہیں۔ ورنہ تو وہ ایک بڑا سا صفر ہی لگتے ہیں، ہر ایک کو یہ بات معلوم ہے۔

    حافظ سعید کے ساتھیوں کے تحریک انصاف کے دھرنے میں شامل ہونے والی بات تو صرف عمران خان کو سیاسی نقصان پہنچانے کا حربہ نظر آ رہا ہے کہ اسے متنازع بنایا جائے اور عالمی سطح پر بھی اس کے خلاف سخت ناگوار میسج جائے۔ اس کے سوا مجھے تو اور کچھ نظر نہیں آ رہا۔ مسلم لیگ ن کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اس سے اور اس کے حامیوں سے کسی بھی طرح کے جھوٹے پروپیگنڈے کی توقع رکھی جا سکتی ہے.

  • بند گلی کے مکین – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    بند گلی کے مکین – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش مقام …. بند گلی.
    مکین….
    حکومت /مسلم لیگ (ن)
    پاکستان تحریک انصاف
    اسٹیبلشمنٹ
    یہاں تک کیسے پہنچے ..

    مسلم لیگ ن:
    1. پانامہ پیپرز کے ہنگام وقت گزاری کو شفا پر محمول کر لیا، یہ اندازہ ہی نہیں کر سکے کہ مخالف کا عزم کتنا قوی ہے. بجائے اس کے کہ اتنا وقت گزر جانے پر یہ معاملہ بھلا دیا جاتا، اب یہ ایک پریشر ککر بن گیا ہے. ہر گزرتا دن اس پریشر ککر کے پھٹ جانے کے امکانات میں اضافہ کر رہا ہے.
    2. ڈان نیوز والے واقعہ نے فوج کے ساتھ بھی معاملات خراب کر دیے. بار بار اس بات کا اعادہ کہ حافظ سعید یا مولانا سمیع الحق کے جماعتی کارکن تحریک انصاف کے دھرنا میں شامل ہوں گے فوج کے ساتھ معاملات کو بگاڑ سکتا ہے کیونکہ بظاہر یہ سب دہراتے رہنے کا مقصد یہی ہے کہ اس کے پیچھے فوج کا ہاتھ تلاش کیا جائے.

    تحریک انصاف:
    1. حکومت کو قبل از وقت ہٹانے کا ایک اور موقع. خانصاحب کے پچھلے اور آئندہ دھرنے میں ایشو مختلف ہو سکتا ہے لیکن تقاضا ایک ہی ہے، نواز شریف مستعفی (یا برطرف) ہو جائیں.
    2. اسے اپنی سیاسی زندگی کا اہم ترین پوائنٹ قرار دے دیا. یعنی Stakes کو انتہائی درجہ تک بلند کر دیا. اب پیچھے ہٹنا سیاسی موت کے مترادف ہے.

    3. اسٹبلیشمنٹ :
    1. بظاہر یہ کہ وزیراعظم کو ذرا اور ٹائیٹ کیا جائے.
    2. بالخصوص سی پیک کے حوالہ سے یہ باور کروانا کہ اس ملک میں دراصل تسلسل کی علامت وہ ہیں، سیاسی انتظام نہیں.

    اندازوں کی ممکنہ غلطی.
    ن لیگ:
    کچھ وقت عدالت سے پہلے ضائع کردیا اب باقی ڈیڑھ سال سپریم کورٹ کی پیشیوں میں نکل جائے گا.
    عمران خان پر کرپشن کے جوابی الزامات لگا کر اپنے لیے سپیس لی جا سکتی ہے، بہت بڑی غلط فہمی ہے. خانصاحب نے کچھ غلط کیا ہے تو ان. پر گفت کی جائے، لیکن اس کو حکومت اپنے پر لگے الزام کے دفاع کے لیے کیونکر استعمال کر سکتی ہے.
    تحریک انصاف:
    نواز شریف صاحب/حکومت کی برطرفی سے پنجاب میں ان کے لیے راستہ کھل جائے گا. چونکہ پنجاب میں زیادہ سیٹیں مرکزی حکومت کا فیصلہ کرتی ہیں اس لیے لامحالہ تحریک انصاف کے لیے “سم سم” کا دروازہ کھل جائے گا. اگر سسٹم ٹوٹا تو اگلے ہی دن دوبارہ روبہ عمل نہیں ہو جائے گا. ماضی پر نظر ڈال کر تحریک انصاف دیکھ سکتی ہے کہ 2018 زیادہ قریب ہے یا 2026.
    اسٹیبلشمنٹ:
    وزیراعظم نواز شریف کے رہنے یا نہ رہنے سے سی پیک پر کچھ اثر نہیں پڑے گا. اگر یہ بات سچ ہوتی کہ محض فوج کے دبدبے سے کام نکلنے لگتے ہیں تو کالاباغ ڈیم کب کا بن چکا ہوتا.
    چین کی یہ پلاننگ ہے کہ نجی شعبہ کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر متوجہ کیا جائے. اگر اسلام آباد میں کوئی حادثاتی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے تو اس بات کو بہت زک پہنچے گی کیونکہ سیاسی استحکام کا سب تاثر جاتا رہے گا. یہ ایک بڑا نقصان ہو گا.
    عمران خان صاحب اس دفعہ اپنے آزادانہ فیصلے کرنے کی راہ پر جا کر سب کو سر پرائز دے سکتے ہیں.

    مسئلہ کا حل
    1. باعزت :
    سپریم کورٹ اس بات کو یقینی بنائے کہ انصاف کے تقاضے ہر طرح سے مکمل کیے جائیں. حکومت یہ یقینی بنائے کہ اس کی جانب سے تاخیری اور انتظامی حربے استعمال نہ ہوں. تحریک انصاف بھی اپنا احتجاج کچھ مؤخر کرے اور سپریم کورٹ سے استدعا کرے کہ سماعت کو جلد از جلد مکمل کیا جائے.
    2. خجالت آمیز:
    چین کردار ادا کرے اور سب پارٹیوں کو سمجھائے بھی اور ان کا گارنٹر بھی بنے کیونکہ وہ سی پیک کا بنیادی اسٹیک ہولڈر ہے. لیکن یہ بحیثیت قوم ہم سب کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہو گا.

    02 نومبر کے ممکنہ سائیڈ ایفیکٹس.
    1. دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ.
    2. بھارت کی جانب سے سچ میں سرجیکل اسٹرائک یا دیگر کارروائی.

    اس میں اہم بات یہ ہوگی کہ ایسی کسی واقعہ کے بعد ہم نے آپس میں ہی لڑنا اور الزام تراشیاں کرنا ہے یا بھارت کو ایک متحد جواب دینے کی صلاحیت کا اظہار کرنا ہے.

    اختتامی بات.
    ہمیں یہ سیکھنا ہو گا کہ کس درجہ کا احتجاج آخری درجہ ہو گا. اس کے بات ہر دو اطراف کو سنجیدہ اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ بات اس سے آگے نہ بڑھے.
    بات اب اسلام آباد بند کیے جانے تک تو آ گئی ہے جبکہ ایسا تو کسی جنگ کے دوران بھی نہیں ہؤا. اس سے آگے کیا ہوگا، یہ سوچنا ہی محال ہے. پھر بھی سوچنا چاہیں تو اٹھارہ اور انیسویں صدی کے دہلی کو دیکھ لیجیے.

  • عمران خان کے پاس کیا آپشنزموجود ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    عمران خان کے پاس کیا آپشنزموجود ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    سب سے پہلے یہ اعتراف کرنا چاہوں گا کہ اصولی طور پر مجھے عمران خان کی طرف سے دو نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج اور شہر بند کرنے کی دھمکی پر تشویش ہے۔ اس بات سے متفق ہوں کہ کسی بھی شخص کو اس حد تک احتجاجی سیاست کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ یہ بالکل بھی درست نہیں کہ وفاقی دارالحکومت کا محاصرہ کر کے کاروبار زندگی معطل کر دیا جائے، شہریوں کی زندگی اجیرن اور حکومت مفلوج ہو کر رہ جائے۔ اسی طرح کسی وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے اور حکومت ختم کرنے کی کوئی روایت قائم نہیں ہونی چاہیے۔ ایک بار اگر ایسا ہو گیا تو پھر بار بار ہوتا رہےگا۔ کل کو عمران خان اقتدار میں آ گیا تو پھر اس کے ساتھ بھی اپوزیشن ایسا کر سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مسلم لیگ (ن) کے حامی لکھاری اور تجزیہ نگار مسلسل یہ دلائل دہرا رہے ہیں، ان سے مجھے اصولی طور پر اتفاق ہے۔ درست بات ہے کہ سیاسی نظام ڈی ریل نہیں ہونا چاہیے، کسی طالع آزما کو آنے کا موقع نہ دیا جائے۔ یہ سب باتیں بجا ہیں، درست ہیں، ان سے ہر عقل و ہوش رکھنے والا شخص اتفاق کرنے پر مجبور ہوگا۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ پھر عمران خان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس کے پاس کیا آپشنز بچی ہیں؟

    عمران کے پاس احتجاج کے سوا اور کون سا راستہ کھلا ہے؟ اس سوال کا جواب اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت یا ان کے میڈیا سیل سے مانگا جائے، حکمران جماعت کے اتحادی مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، محمود اچکزئی، ڈاکٹر مالک بلوچ، شیرپائو وغیرہ سے رائے لی جائے یا پھر ہمارے پیارے ملک کو فرینڈلی اپوزیشن کی اصطلاح کا تحفہ دینے والی پیپلزپارٹی اور حکومتی وزیر برائے اپوزیشن امور کا عوامی خطاب پانے والے قائد حزب اختلاف جناب خورشید شاہ کی طرف رجوع کیا جائے تو یہ سب متفقہ طور پر یہی فرمائیں گے کہ عمران خان کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں، وہ پاناما لیکس والا معاملہ پارلیمنٹ میں لے جائے، جہاں( محتاط اندازے کے مطابق ) اگلے ڈیڑھ دو برسوں میں ٹی او آرز طے ہوجائیں گے، تب تک نیا الیکشن سر پر آپہنچے گا تو قوم کے عظیم مفاد میں اس مسئلے کو اگلی پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جائے گا۔ عمران خان تب تک اپنی کے پی کے حکومت کی طرف رجوع فرمائیں یا آرام سے بنی گالہ میں رہیں اور ٹی وی پر جناب وزیراعظم کے ملک و قوم کے مفاد میں کیے جانے والے عظیم الشان ترقیاتی پروگرام دیکھ کر محظوظ ہوں، دل چاہے تو تالیاں بھی بجا لیں۔ اگلے الیکشن کے بعد، جس میں2013ء والے نتائج کا ری پلے ہی دیکھنے کے نوے فیصد سے زیادہ امکانات ہیں، اس کے بعد عمران خان چاہے تو ایک بار پھر دھاندلی کا نعرہ لگا سکتا ہے، جس کے بعد پورا حکومتی میڈیا اور اس کے حمایتی قلم کار و تجزیہ کار طنز کے نت نئے اسلوب تراشتے ہوئے خان کا مضحکہ اڑائیں گے، اسے دھاندلی خان کہہ کر نکو بنائیں گے۔ تب خان صاحب چاہیں تواپنے بیٹوں کی تربیت کے لیے انگلستان تشریف لے جا سکتے ہیں، کرکٹ کمنٹری کی آپشن ان کے پاس ہمیشہ کھلی ہے یا پھر دوبارہ سے سوشل ورک شروع کر دیں۔ غرض یہ کہ جو مرضی کریں، مگر پیارے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف کچھ نہ بولیں۔ اس طرح اور اس سے ملتی جلتی باتیں ہیں جو شریف خاندان، ان کے سیاسی اتحادی اور ان سے وابستہ میڈیا والے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر کہتے اور سمجھاتے ہیں۔

    سچ تو یہ ہے کہ میرے جیسے لوگ عمران خان کی آل آؤٹ وارکے حامی نہیں ہیں، احتجاجی تحریک کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جانے کو قطعی سپورٹ نہیں کرنا چاہتے۔ دو سال پہلے اسلام آباد کے دھرنے کی میں نے مخالفت کی تھی۔ آج بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ شہر بند کر دینا انتہا پسندی ہے۔ سیاسی عمل میں اس شدت تک نہیں جانا چاہیے۔ مجھے نہیں پتا کہ عمران خان کے اس ایڈونچر کا کیا انجام ہوگا؟ وہ لوگ اکٹھے کر پائے گا یا نہیں؟ اس کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن ہوجائے گا،گرفتاریاں، نظربندی یا کچھ اور؟ یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ دو نومبر کے فائنل شو میں ابھی نو دس دن پڑے ہیں، امید کرنی چاہیے کہ معاملہ سنبھال لیا جائے گا۔ سوال تو مگر یہ ہے کہ کس سے امید کی جائے؟ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ادارے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ہمارے اس گلے سڑے سسٹم میں اتنی قوت، سکت اور مزاحمت موجود نہیں جو اپنی من مانی پر تلے ہوئے حکمرانوں کو راہ راست پر لا سکے اور جس سے اپوزیشن کو انصاف پانے کی امید ہو۔ میرا اصل دکھ اور المیہ ہمارے سسٹم کی یہی ناکامی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے پاس کوئی ایسی ٹھوس دلیل موجود نہیں جس کے ذریعے میں عمران خان یا تحریک انصاف کو آل آؤٹ وار سے روک سکوں، انہیں قائل کر سکوں کہ آپ اسلام آباد کا محاصرہ نہ کریں، شہر بند نہ کریں، آپ کوہمارا سسٹم انصاف مہیا کرے گا۔ سردست میرے پاس صرف اقوال زریں ہیں، اخلاقی حوالے ہیں، اصولی کتابی باتیں ہیں جو اس کالم کے پہلے پیرے میں سب دہرا دی ہیں، مگر بدقسمتی سے مجھے خود وہ الفاظ کھوکھلے، بے معنی اور کمزور لگ رہے ہیں۔

    میں نہیں چاہتا کہ عمران خان یا کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے احتجاج کو انتہا پر لے جائے، شہر بند کرے، حکومت الٹانے کی کوشش کرے۔ ان سب باتوں پر میں یقین نہیں رکھتا، ان کی وکالت نہیں کر سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اتنا مایوس بھی ہوں کہ ہمارا یہ سسٹم عمران خان کو انصاف دے سکتا ہے۔ نہیں، قطعی نہیں۔ غیر جانبدار ذہن رکھنے والے کسی شخص کو اس میں شک ہوگا کہ پاناما لیکس والا پورا معاملہ بڑا اہم اور حساس ہے۔ شریف خاندان پر پچھلے بیس برسوں سے یہ الزام لگ رہا تھا کہ انہوں نے منی لانڈرنگ کر کے لندن میں جائیداد خریدی۔ اس کے جواب میں شریف خاندان، مسلم لیگی رہنما اور ان کے صحافتی وکیل دھڑلے سے انکار کر دیتے تھے۔ پاناما لیکس نے اس دیرینہ الزام کو پہلی بار وزن دیا۔ جناب وزیراعظم نے اس بات کو محسوس کیا اور وہ فوراً ٹی وی پر آئے، قوم سے خطاب کیا، اپنی صفائی پیش کی اور اعلان کیا کہ اس الزام کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا۔ عملی طور پر کیا ہوا؟ حکومت نے سرتوڑ کوشش کی کہ ایسا کوئی کمیشن نہ بن سکے، شاید انہیں معلوم ہے کہ اس طرح وہ بری طرح پھنس جائیں گے۔ دانستہ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے گئے، عمران خان نے اتمام حجت کے لیے پارلیمنٹ کی آپشن استعمال کی۔ وہاں پہلے تو پارلیمانی کمیٹی ایسی بنائی گئی جس میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کی تعداد زیادہ ہو۔ پھر ٹی او آرز کا ایسا ڈرامہ رچایا گیا کہ کئی مہینے اس میں صرف ہوگئے۔ تھوڑی سی بھی معلومات رکھنے والا ہر شخص جانتا تھا کہ یہ اتفاق رائے کبھی نہیں ہوگا۔ مسلم لیگی ارکان اسمبلی نجی محافل میں مسکراتے ہوئے کہتے کہ ہم پاگل ہیں جو اتفاق رائے کر لیں گے، اپنی گردن میں رسہ کیوں ڈالا جائے گا؟ پھر ایسا ہی ہوتا رہا۔ پیپلزپارٹی نے تو سیاسی ڈرامہ بازی کی حد کر دی۔ ایک بیان حکومت کے خلاف مگر عملی طور پر حکومت کی سپورٹ۔ متحدہ اپوزیشن بنا کر ایک قدم بھی نہ اٹھایا۔ عمران نے اپنے طور پر جدوجہد شروع کی تو پھر اسے طعنے دیے گئے۔ لگتا ہے کہ جناب زرداری اور خورشید شاہ اس پوری قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں؟ افسوس کہ قوم اتنی بےوقوف کبھی نہیں تھی، اگر ہوتی تو تین صوبوں سے پیپلزپارٹی کا صفایا نہ ہوتا۔ سندھ میں بھی چونکہ دوسری آپشن نہیں تھی اس لیے وہاں وہ سلوک نہیں ہوا۔

    الیکشن کمیشن، نیب، ایف بی آر نے تو ثابت کیا ہے کہ وہ ریاست کے نہیں بلکہ حکومت کے ادارے ہیں۔ عدالتوں کا ہم احترام کرتے ہیں، ان پر کام کے دباؤ کا اندازہ ہے مگر بعض اوقات تاخیر سے انصاف مل بھی جائے تو وہ بےفائدہ ہوتا ہے، جیسے سزائے موت پا جانے والوں کو موت کے بعد بےگناہ قرار دیا جا رہا ہے یا خواجہ آصف اور سعد رفیق کے حلقوں کا فیصلہ تین سال گزرنے کے باوجود نہیں ہو سکا، کیا پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد فیصلہ ہونا چاہیے؟ پاناما کیس کا نوٹس لینے کا فیصلہ مستحسن ہے، مگر سپریم کورٹ کوئی تفتیشی ادارہ یا ٹرائل کورٹ تو ہے نہیں۔ پاناما کوئی قانونی نکتے والا کیس نہیں ہے، اس کے لیے تو جوڈیشل کمیشن ہی بننا چاہیے اور فوراً ۔ عوام اور اپوزیشن رہنمائوں کو قومی اداروں سے انصاف کی امید باقی رہے تو انتہا پر جانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے گی۔ پھر شدت پر آمادہ رہنماؤں کو قوم مسترد کر دے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو صرف اقوال زریں کے زور پر عوامی احتجاج اور سیاسی ایجی ٹیشن کو روکنا ممکن نہیں۔

  • اسلام آباد لاک ڈاؤن، حقیقی امکانات کیا ہیں؟ شاہد قبال خان

    اسلام آباد لاک ڈاؤن، حقیقی امکانات کیا ہیں؟ شاہد قبال خان

    عمران خان نے اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کے اعلان سے حکومت پر ایک سیاسی بم گرا دیا ہے مگر نشانہ خطا ہونے پر یہ بم تحریک انصاف پر بھی گر سکتا ہے۔ حکومت کا یہ خیال ہے کہ وہ تحریک انصاف کا لاک ڈاؤن ناکام بنا دےگی۔ اس سلسلے میں وہ تحریک انصاف پنجاب اور اسلام آباد کے متحرک کارکنوں کی لسٹیں بھی بنا چکے ہیں اور عین موقع پر انہیں گرفتار کر کے لاک ڈاون میں شرکت سے روک دیا جاے گا۔ مگر میرے خیال میں اس سے لاک ڈاون پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ جلسہ نہیں ہے جس کے لیے لاکھوں لوگوں کی ضرورت پڑے۔ یہ ایک ہڑتال ہے۔ اگر اسلام آباد کی دس بڑی سڑکوں پر ایک ایک ہزار لوگ بھی دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں تو شہر میں آمدورفت بند ہو جاے گی جس سے تمام ادارے اور بازار خودبخود بند ہو جایں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ زیادہ سے زیادہ ۲۰ ہزار لوگ اسلام آباد کو بند کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ تحریک انصاف تمام پابندیوں کے باوجود خیبر پختونخواہ اور راولپنڈی اسلام آباد سے ۵۰،۶۰ ہزار لوگ آسانی سے نکال لے گی۔حکومت لاک ڈاون کو ناکام کرنے کے لیے خوف کا حربہ بھی استعمال کر سکتی ہے۔ مگر میرے خیال میں یہ بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو گا کیونکہ لاک ڈاون میں تحریک انصاف کے عام ووٹر نے شرکت نہیں کرنی جو خوفزدہ ہو جاے بلکہ پارٹی کے ایکٹیوسٹ شریک ہوں گے جو ان دھمکیوں سے نہیں ڈریں گے۔ میرے خیال میں تحریک انصاف اسلام آباد کو بند کرنے میں آسانی سے کامیاب ہو جاے گی مگر اس کے بعد کیا ہو گا؟

    یہ لاک ڈاؤن پچھلے دھرنے کی طرح بہت دن نہیں چلے گا۔اس بار فیصلہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں ہو جاے گا کیونکہ ڈی چوک دھرنا ایک علامتی احتجاج تھا جس سے معمولات زندگی پر زیادہ فرق نہیں پڑا تھا مگر لاک ڈاون سے زندگی مکمل طور پر رک جاے گی ۔ ممکنہ انجام کیا ہو سکتا ہے؟

    پہلا آپشن حکومت یہ استعمال کر سکتی ہے کہ دھرنے میں موجود لوگوں کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا جاے۔ میرے خیال میں یہ آپشن قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اسلام آباد پولیس نے پچھلے دھرنے میں بھی ایسا کچھ بھی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پنجاب پولیس سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد پہلے ہی دفاعی پوزیشن لئے ہوے ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف کے کارکن ا س بار دفاعی مزاحمت کی تیاری کر کے آیں گے جس کی وجہ سے ایسی کسی بھی کارروای سے بہت بڑا خون خرابہ ہو سکتا ہے جو حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔
    دوسرا آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت پچھلی دفعہ کے پی ٹی وی واقعہ جیسا کوی ڈرامہ رچا کر تحریک انصاف کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کرے جس سے تحریک انصاف لاک ڈاون ختم کرنے پر مجبور ہو جاے۔ یہ قابل عمل تو ضرور ہے مگر یہ ایک بہت خوفناک کھیل ہے۔ ایسے کسی بھی ڈرامے کی زرہ سی بھی ناکامی حکومت کے لیے زہر قاتل ہو سکتی ہے۔ اس ک علاوہ اگر تحریک انصاف ایسے کسی واقعہ کو اوون کرنے کی بجاے اس کی زمہ داری حکومت پر ڈال کر مزید جارحانہ رویہ اختیار کر لے تو یہ بھی حکومت کے لیے مزید خطرناک ہو سکتا ہے۔

    تیسرا اور آخر آپشن مصالحت ہے۔ حکومت یا تو تحریک انصاف کے بتاے ہوے ٹی۔او۔آرز کے مطابق کمیشن بنا دے یا پھر ماینس نوازشریف پر عمل کر لے۔ مگر حکومت کے لیے وہ دونوں آپشن بھی آسان نہیں ہیں۔ میری زاتی راے یہ ہے کہ شہباز شریف اور کابینہ کے زیادہ تر لوگ نواز شریف کے استعفے کی دبے لفظوں میں سپورٹ کریں گے تاکہ حکومت بچ جاے مگر نواز شریف کی طرف سے اس کو قبول کیے جانے کے امکانات کم ہیں۔ اس صورتحال میں ہو سکتا ہے کہ نواز شریف پوری اسمبلی کو ماینس کر کے عام انتخابات کا اعلان کر دے۔