Tag: چین

  • استخارے-جاوید چوہدری

    استخارے-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    چین کی جیلوں میں اس وقت پندرہ لاکھ قیدی تھے‘ یہ لوگ ریاست پر بوجھ تھے‘ حکومت انھیں مفت رہائش‘ کھانا اور کپڑے بھی دیتی تھی اور ان کی حفاظت‘ بجلی‘ پانی اور گیس پر بھی اربوں یوآن خرچ کرتی تھی‘ گویا یہ لوگ طفیلی کیڑے تھے‘ یہ اگر رہا کر دیے جاتے تو یہ پورے ملک کو بیمار کر دیتے اور یہ اگر جیلوں میں رہتے تو ریاستی خزانے پر بوجھ بن جاتے‘ چین نے ان طفیلی کیڑوں کا دلچسپ حل نکالا‘ حکومت نے لاؤ گائی (Laogai) کے نام سے جیل ریفارمز شروع کیں‘ یہ منصوبہ ’’ریفارمز تھرو لیبر‘‘ بھی کہلاتا ہے۔

    چینی حکومت نے قیدیوں کو مختلف ہنر سکھائے اور پھر مجرموں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا‘ چھوٹے جرائم میں محبوس قیدیوں کو ملک کے اندر مختلف سرکاری ترقیاتی اسکیموں پر لگا دیا گیا‘ حکومت قیدیوں کو سائیٹس پر بیرکس‘ بستر‘ لباس اور خوراک فراہم کرتی ہے‘ یہ لوگ قید کی مدت ختم ہونے تک ان سائیٹس پر کام کرتے ہیں‘یہ قیدی جب سزا پوری کر لیتے ہیں تو حکومت انھیں رہا کر دیتی ہے‘ حکومت درمیانے جرائم میں ملوث قیدیوں کو ملک کی مختلف کمپنیوں کے حوالے کر دیتی ہے۔

    یہ کمپنیاں ان کی خوراک‘ لباس‘ رہائش اور نگرانی کی ذمے دار ہوتی ہیں‘ حکومت ان کمپنیوں کے ساتھ معاوضہ طے کرتی ہے‘ یہ معاوضہ حکومت کے اکاؤنٹ میں براہ راست جمع کرا دیا جاتا ہے‘ حکومت یہ رقم جیلوں‘ عدالتی کارروائیوں اور پولیس پر خرچ کرتی ہے اور پیچھے رہ گئے سنگین جرائم میں ملوث قیدی تو حکومت ان قیدیوں کو بیرون ملک بھجوا دیتی ہے‘ کیسے؟ ہم اس سوال کے جواب سے پہلے ذرا سی بیک گراؤنڈ میں جائیں گے۔

    چین اس وقت افریقہ‘ سری لنکا‘ مالدیپ‘ سینٹرل ایشیا‘ لاطینی امریکا‘ بھارت اور ساؤتھ پیسیفک جزائر میں بے شمار میگا پراجیکٹ کر رہا ہے‘ چینی کمپنیاں پاکستان میں بھی تین درجن منصوبوں پر کام کر رہی ہیں‘ پاک چین اقتصادی راہ داری بھی ان منصوبوں میں شامل ہے‘ پاکستان میں 45 برسوں میں 25 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی جب کہ چین یہاں 15 برسوں میں 46 ارب ڈالر خرچ کرے گا ‘ یہ چین کی ایک ملک میں سرمایہ کاری ہے‘ آپ اس سے سینٹرل ایشیا‘ افریقہ‘ سارک ممالک اور لاطینی امریکا میں چینی سرمایہ کاری کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں‘ یہ سرمایہ کاری مستقبل میں مزید بڑھے گی۔

    کیوں؟ کیونکہ چین کی اقتصادی پالیسی تیسرے فیز میں داخل ہو چکی ہے‘ چین نے پہلے فیز میں اپنے لوگوں کو ہنر مند بنایا‘ دوسرے فیز میں ملک کو فیکٹری بنا کر پوری دنیا کو مصنوعات سپلائی کرنا شروع کیں اور یہ اب تیسرے فیز میں دنیا کی اہم جغرافیائی گزر گاہوں پر کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے یوں ہنرمندی‘ صنعت کاری اور راہ داری دنیا کے تینوں بڑے شعبے چین کے ہاتھ میں چلے جائیں گے‘ چین اس کے بعد چوتھا فیز شروع کرے گا‘ یہ چوتھے فیز میں دنیا کی تمام منڈیاں‘ ہول سیلزمارکیٹیں‘ شاپنگ سینٹرز اور ریٹیلرز شاپس اپنے ہاتھ میں لے گا جس کے بعد مصنوعات کی تیاری سے لے کر فروخت تک پوری زنجیر چین کے ہاتھ میں آ جائے گی اور دنیا اس کی محتاج ہو جائے گی‘ آپ آج بھی ریسرچ کر لیں۔

    آپ کو چینی سرمایہ کار دنیا کے تمام بڑے ممالک کے بڑے شہروں کی منڈیوں پر قابض نظر آئیں گے‘ یہ قبضہ چوتھے فیز کی ابتدائی تیاریاں ہیں‘ یہ لوگ بڑی مارکیٹوں کے بعد چھوٹے ملکوں کی منڈیوں کی طرف آئیں گے اور پھر ان تمام منڈیوں کو آپس میں جوڑ کر اپنی اجارہ داری قائم کر لیں گے‘ چین 2049ء میں آزادی کی صد سالہ تقریبات منائے گا‘ یہ خود کو اس وقت دنیا کی واحد اقتصادی سپر پاور ڈکلیئر کرے گا لیکن یہ منصوبہ 2049ء تک مکمل ہوگا‘ ہم سرِدست اس 2016ء میں ہیں جس میں چین دنیا کی اہم اقتصادی راہ داریوں پر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ان اہم راہداریوں میں سے ایک راہ داری پاکستان سے بھی گزرے گی۔

    ہم اب آتے ہیں ’’کیسے‘‘ کے جواب کی طرف‘ دنیا کوچین کے ان اہم منصوبوں میں بے شمار ماہرین نظر آتے ہیں‘ ان ماہرین کا ایک حصہ ان قیدیوں پر مشتمل ہے جنھیں چینی لاؤگائی اسکیم کے تحت ٹرینڈ کر رہے ہیں‘ حکومت قیدیوں کے سفری کاغذات بناتی ہے اور انھیں دوسرے ممالک کے چینی منصوبوں میں کھپا دیتی ہے یوں یہ قیدی دوسرے ملکوں کا راشن کھاتے ہیں‘ دوسرے ملکوں کا لباس پہنتے ہیں‘ دوسرے ملکوں کی رہائش گاہوں میں رہتے ہیں‘ ہفتے میں سات دن کام کرتے ہیں اور ان کا معاوضہ چینی حکومت کے اکاؤنٹ میں چلا جاتا ہے‘ حکومت ان کی حفاظت‘ طبی معائنے اور جیل عملے کے اخراجات سے بھی بچ جاتی ہے‘ یورپ اور امریکا چین کی اس پالیسی کے مخالف ہیں۔

    امریکا نے 2016ء میں چین کی تین بڑی کمپنیوں کی مصنوعات پر پابندی لگا دی‘ یہ کمپنیاں قیدیوں سے مصنوعات تیار کرا رہی تھیں لیکن میں چین کی لاؤ گائی اسکیم کا حامی ہوں‘ میں سمجھتا ہوں یہ ظلم کے اوپر مہا ظلم ہے کہ ایک شخص جرم کے بعد ریاست کا داماد بن جائے اور ریاست اسے دس بیس سال تک مفت رہائش‘ کھانا‘ طبی سہولتیں اور لباس بھی فراہم کرے اور اس کی حفاظت پر لاکھوں روپے بھی خرچ کرے‘ یہ جیل جیل اور یہ قید قید تو نہ ہوئی‘ پکنک ہوئی چنانچہ چین کا فیصلہ درست ہے‘ یہ قیدیوں کو ٹرینڈ کرتا ہے‘ ان کو کام پر لگاتا ہے‘ اپنے قیدیوں کے اخراجات دوسرے ممالک سے وصول کرتا ہے اور معاوضہ بھی لیتا ہے اور یہ رقم بعد ازاں جیلوں‘ پولیس اور عدالتوں پر خرچ ہو جاتی ہے۔

    یہ عین عقل مندی ہے‘ ہم جیسے ملکوں کو بھی اس عقل مندی سے سیکھنا چاہیے‘ آپ کسی دن پاکستان کی پولیس‘ عدالت اور جیلوں کا تجزیہ کر لیں آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے‘پاکستان میں ٹوٹل 3000 تھانے ہیں‘ ملک میں روزانہ اوسطاً 20 ہزار ایف آئی آرز اور شکایات درج ہوتی ہیں‘ عدالتوں میں 17 لاکھ کیس زیر التواء ہیں‘ ملک میں 87 جیلیں ہیں‘ ان جیلوں میں ڈیڑھ لاکھ قیدی بند ہیں‘ حکومت کو ہر سال جیلوں‘ عدالتی کارروائیوں اور تھانوں پر اربوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں‘ آپ قیدیوں کو دیکھیں‘یہ کتنے مزے میں ہیں؟ یہ جرم کرتے ہیں اور دس پندرہ سال کے لیے سرکار کے مہمان بن جاتے ہیں‘ حکومت انھیں گرم اور ٹھنڈا پانی بھی دیتی ہے‘ انھیں ہیٹر اور پنکھا بھی فراہم کرتی ہے۔

    تین وقت مفت کھانا بھی دیتی ہے اور ان کے لباس‘ بستر اور ادویات کا بندوبست بھی کرتی ہے‘ملک میں یہ سہولتیں آزاد شہریوں کو دستیاب نہیں ہیں‘ کیا یہ پاکستان جیسے غریب ملک سے زیادتی نہیں؟ہماری حکومت قیدیوں کو چین کی طرح کام کیوں نہیں سکھاتی؟ یہ انھیں کام سکھائے اور سڑکوں‘ نہروں اور ڈیمز کی کھدائی پر لگا دے‘ ان سے ریلوے کی پٹڑیاں بچھوائے‘ ان سے مصنوعات کی پیکنگ کروائے اور ان سے چولستان اور تھر کے صحراؤں کو قابل کاشت بنوائے‘ یہ انھیں ایل او سی کی حفاظت اور مورچوں کی کھدائی پر ہی لگا دے‘ یہ ان سے افغانستان کی سرحد پر باڑ ہی لگوا لے۔

    آپ ان کے بازوؤں پر ٹریکر لگائیں اور انھیں کام پر لگا دیں‘ یہ ملک کا اثاثہ بن جائیں گے‘ گلف کی ریاستوں کو بھی اونٹ‘ گائے اور مرغی کے فارمز میں ورکرز کی ضرورت ہوتی ہے‘ آپ گلف کے ممالک کے ساتھ ایگریمنٹ کریں‘ فارمز کے ٹھیکے لیں اور قیدیوں کو فارمز پر لگا دیں اور دنیا کو تیل اور گیس کی تلاش کے لیے بھی ورکرز کی ضرورت ہے‘ آپ قیدیوں کو آئل اینڈ گیس ایکسپلوریشن کی ٹریننگ دیں اور انھیں ملک اور بیرون ملک کھپا دیں‘ آپ بھی چین کی طرح ان سرکاری دامادوں سے اربوں ڈالر کما لیں گے۔

    ہماری حکومتوں کو یہ کام کرنے چاہئیں لیکن یہ نئے آرمی چیف کے لیے استخارے کروا رہی ہیں‘حکومت 18 اکتوبر تک نئے آرمی چیف کا اعلان کرنا چاہتی تھی لیکن استخارہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ نہ ہو سکا جس کے بعد حکومت نئے مخمصے کا شکار ہو گئی‘ سپریم کورٹ آج سے پانامہ لیکس کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع کر رہی ہے‘ عمران خان کے وکلاء سپریم کورٹ سے استدعا کر سکتے ہیں‘ وزیراعظم میاں نواز شریف پر کرپشن کے الزامات ہیں چنانچہ عدالت انھیں فیصلے تک اہم تقرریوں سے روک دے۔

    سپریم کورٹ کے پاس اختیارات موجود ہیں‘ یہ سٹے آرڈر جاری کر سکتی ہے جس کے بعد وزیراعظم آرمی چیف سمیت کوئی اہم تقرری نہیں کر سکیں گے یوں حکومت کی بند گلی مزید تنگ ہو جائے گی‘ حکومت کوشش کے باوجود سرل المیڈا کے بحران سے بھی نہیں نکل پا رہی‘ یہ بحران بھی کسی نہ کسی کو لے کر ڈوبے گا‘ کراچی میں بھی گورنر عشرت العباد اور مصطفی کمال میں لڑائی شروع ہوچکی ہے۔

    یہ لڑائی ایک ادارے کے دوشعبوں کی جنگ ہے اور یہ جنگ بھی حکومت کو نقصان پہنچائے گی چنانچہ میاں نواز شریف لاؤ گائی جیسی اسکیمیں بنانے کے بجائے ڈگڈگیوں اور ان ڈگڈگیوں پر ناچنے والے ریچھوں سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہیں‘ ان کی ساری توانائیاں پانامہ پر خرچ ہو رہی ہیں جب کہ عوام حیرت سے دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں اصل کام کون کرے گا‘ ملک کون چلائے گا؟ عوام کو ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟ حکومت کو ان جوابات کے لیے بھی جلد ہی استخارے کی ضرورت پڑ جائے گی۔

  • کیا پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوگیا؟ عبید اللہ عابد

    کیا پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوگیا؟ عبید اللہ عابد

    عبید اللہ عابد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیں گے، پھر چند روز بعد پاکستان میں سیکولر اور لبرل طبقے نے دعویٰ کردیا کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہوگیا۔ گزشتہ چند ہفتوں‌کے دوران شائع ہونے والی چند خبروں کا مطالعہ کرلیں، پھر فیصلہ کرلیں کہ سیکولرطبقہ کا دعویٰ درست ہے یا غلط۔
    یہ کیسی تنہائی ہے کہ
    افغانستان پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
    یہ کیسی تنہائی ہے کہ
    ایران بھی پاک چائنا راہداری کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
    یہ کیسی تنہائی ہے کہ
    سعودی عرب بھی اپنے آپ کو سی پیک کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے، پاکستان، چین اور سعودی عرب کے درمیان معاملات طے پا چکے ہیں۔
    یہ کیسی تنہائی ہے کہ
    ترکی بھی سی پیک کے ساتھ اپنے آپ کو متعلق کرنے لگا ہے، اس منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے۔
    یہ کیسی تنہائی ہے کہ
    دیگر خلیجی ریاستیں بھی اپنے آپ کو سی پیک کے ساتھ جوڑ رہی ہیں۔ اور وسط ایشیائی ریاستوں بھی سی پیک سے فائدہ اٹھانے کے لیے بے چین ہیں۔
    یہ کیسی عالمی تنہائی ہے کہ
    روس پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ بھارت کے اعتراضات کے باوجود روس نے پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کیں۔

    اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ لفظوں کی حد تک کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا ساتھ دیتی تھی، اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتی تھی لیکن کیا کوئی دیکھ سکتا ہے کہ ترکی نے مقبوضہ کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ترکی جو کہتا ہے، اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ کیا اس قدر بڑی پیش رفت اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو ملی؟ جب فیکٹ فائنڈنگ کمیشن مقبوضہ کشمیر کی طرف عازم سفر ہوگا تو دنیا بھارت کی تنہائی دیکھے گی۔ بہت جلد یہ دن بھی آنے والا ہے۔

    پاکستان کا سیکولر طبقہ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا ہی پڑھ لے جو لکھتا ہے کہ بھارت ہی میں ہونے والے برکس اجلاس میں روس نے پاکستان کے خلاف بھارتی مؤقف مسترد کر دیا جس پر مودی سرکار کافی پریشان ہے۔ اخبار کے مطابق چین کے بجائے روس نے بھارت کو سب سے زیادہ مایوس کیا ہے۔ یاد رہے کہ برکس اجلاس میں بھارت روس سے پاکستان کے خلاف بیان بازی کرانا چاہتا تھا۔

    حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے دعوے کرنے والا بھارت خود عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کا سیکولر طبقہ قوم کو یہ کہہ کر مایوس کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔

    اس سے پہلے چین نے بھی پاکستان کے خلاف بھارتی کوششوں کو یہ کہہ کر ناکامی سے دوچار کردیا کہ وہ دہشت گردی کو کسی مخصوص ملک یا مذہب سے جوڑنے کے سخت خلاف ہے۔ چین نے اعلان کیا کہ وہ ہرحال میں پاکستان کے ساتھ ہے اور دنیا دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قربانیاں تسلیم کرے۔ چین نے برکس اعلامیہ سے جیش محمد اور لشکرطیبہ کا ذکر بھی نکلوا دیا، یہاں تک کہ بھارت اوڑی حملہ کو بھی اعلامیہ میں شامل نہ کروا سکا۔ عالمی تنہائی کا شکار بھارت ہو رہا ہے، جبکہ سیکولرز پاکستانی قوم کو مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ کیا اس سے قبل دنیا میں پاکستان کو اس قدرحمایت حاصل تھی؟ یقینا نہیں، مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستانی مؤقف کی دنیا میں پذیرائی بڑھ رہی ہے۔ اس کے باوجود سیکولر طبقہ کہتا ہے کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہے۔

    آپ کو یاد ہوگا کہ اوڑی حملہ پر بھارت نے پاکستان کے خلاف امریکہ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، امریکہ نے نہ صرف پاکستان کے خلاف بھارتی مقدمہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اسے پاکستان کے خلاف جنگی عزائم سے باز رہنے کو کہا۔۔اس کے باوجود سیکولرز کہتے ہیں کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوچکا ہے۔

    پاکستان اور چین ایشیائی ممالک کے اقتصادی بلاک پر کام کر رہے ہیں، چین پاکستان کے ذریعے ترکی اور یورپی ممالک تک پہچنے کےلیے ”فاسٹ ایشیا ٹرین“ چلانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ اس کے باوجود سیکولرز کہتے ہیں کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔

    سیکولر لابی کو سوچنا چاہیے کہ کیا نریندرمودی کے کہنے سے پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوگیا؟

  • چلتے ہو تو چین کو چلیے – طارق حبیب

    چلتے ہو تو چین کو چلیے – طارق حبیب

    14721631_10211494276341254_6500045881934128022_n ہم بھی خنجراب پر کھڑے کھڑے اکتا گئے تھے۔ تو سوچا جب چل ہی پڑے ہیں تو چین تک تو جانا چاہیے۔ بس پھر کیا تھا، ہم نے اپنے باوردی میزبانوں کو اپنی ننھی سے خواہش بتادی اور انھیں یاد بھی دلایا۔
    ۔
    سمندروں سے گہری، آسمانوں سے بلند، شہد سے میٹھی، وغیرہ وغیرہ
    ۔
    بس پھر ہمارے میزبانوں نے سامنے کھڑے باوردی چینیوں کو سمجھایا، چنگپنگبنگینگڈنگ۔
    مطلب وہی، گہری، بلند، میٹھی وغیرہ۔
    ۔
    14680590_10211494272421156_5478947706868302412_n انھیں بھی سمجھ آگئی اور انھوں نے بیرئیر ہٹا دیا۔ اس میں کمال صرف دونوں جانب کی وردیوں اور مونوگرام والی ڈبل کیبن گاڑیوں کا تھا۔
    ۔
    چینی حدود میں داخل ہوئے ہی تھے کہ بتایا گیا کہ صرف پہلے پڑائو تک جا سکتے ہیں۔ بغیر پاسپورٹ و ویزہ اتنا بھی غنیمت تھا۔ یہ اعزاز کیا کم تھا کہ قدم سنکیانگ کی جانب اٹھ چکے تھے۔ راستے میں لگے سائن بورڈز آویزاں تھے جن پر تحریر کے نام پر ننھے بچوں سے شرارتیں کروائی گئی تھیں۔
    ۔
    چینی حدود میں داخل ہوتے ہی ننھی منی سول سسٹم گاڑیاں نظر آئی۔ جو چینی جوان سرحد پر گشت کے لیے استعمال کررہے تھے۔ چین کی سرحد پار کرتے ہی چینی چینی محسوس کرنے لگے۔ آکسیجن ویسے ہی نہیں تھی، سب کچھ چپٹا چپٹا نظر آرہا تھا۔ اچانک احساس ہوا کہ شاید ڈرائیور نیند میں ہے۔ اسے بتایا بھائی تم رانگ سائیڈ جارہے ہو تو اس نے تصحیح کی کہ جناب یہاں یہ رائٹ سائیڈ ہے۔ اطراف میں کوئی تبدیلی نہیں تھی۔ وہی برف سے ڈھکے پہاڑ، برف کی تہہ میں ٹھہرا پانی۔
    ۔
    14639856_10211494273461182_458997950158732122_n چیک پوسٹ پر نظر پڑی تو حیران رہ گئے، جدید چیک پوسٹ، سردی سے بچائو اور آکسیجن کی کمی پوری کرنے کے لیے بہترین مشینری کا استعمال۔ ہر طرح کے لوازمات سے مزین بہترین کچن، طبی سامان، موبائل سروس پرفیکٹ، سرحد کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ بذریعہ سیٹلائٹ بیجنگ میں دیکھی جارہی تھی۔
    ۔
    مجھے پیچھے رہ جانے والی پاکستانی پوسٹ یاد آگئی۔ پوسٹ پر چار کاکے سپاہی کھڑے تھے۔ کنٹینر کے بنے دو کمرے اور کمروں میں چارپائیاں اور کمبل۔ ایک کمرے میں کوئلے پڑے تھے جو چوکی کے رہائشیوں نے بتایا کہ چینی برادرز انھیں دیتے ہیں۔ کوئلے پکانے کے کام بھی آتے تھے اور یخ پانی استعمال کرنے کے بعد سیکنے کے بھی۔
    ۔
    14680566_10211494272101148_912639611116284059_n انھی الجھنوں کے دوران پہلا پڑائو آگیا۔ باوردی چینیوں سے ملاقات کی۔ ان کے افسران بالا سے بات چیت ہوئی۔ اقتصادی راہداری کے حوالے سے بہت پرجوش تھے۔ ہماری پنجابی انگریجی اور ان کی چینی انگریجی۔ ایک دوسرے کو جتنا سمجھ سکتے تھے سمجھے۔ پاکستانی مہمانوں کو قہوہ پیش کیا گیا اور چائے مین 9 چمچ چینی پینے والے کو نہ صرف پھیکا قہوہ پینا پڑا۔ بلکہ تعریف بھی کرنی پڑی کہ قہوہ بہت زبردست تھا۔
    ۔
    کچھ لوگوں سے ملاقات رہی، اچھی بات چیت، مسکراہٹوں کے تبادلے، اور برادر برادر کرکے مخاطب کرنا، یہ سب چلتا رہا اور اور پھر پاکستان واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔

  • سی پیک، عمران خان اور پرویز خٹک-سلیم صافی

    سی پیک، عمران خان اور پرویز خٹک-سلیم صافی

    saleem safi

    23 مئی 2013ء کو جب آصف علی زرداری ملک کے صدر تھے، چینی وزیراعظم کے دورہ پاکستان کے موقع پر چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کے ایم او یو پر دستخط ہوئے۔ جون 2013میں وزیراعظم میاں نوازشریف چین کے دورے پر گئے اور سی پیک کے منصوبے کو اپنے نام کرنے اور اسے اپنے سیاسی ، ذاتی اور علاقائی مفاد کی طرف موڑنے کے لئے چینی قیادت کے ساتھ مزید تفصیلات طے کیں ۔اگست2014ء میں جب پی ٹی آئی کی قیادت کنٹینر پر محورقص تھی تو سی پیک کے حوالے سے فیصلہ ساز فورم یعنی جے سی سی کی چار میٹنگز ہوچکی تھیں اور ان منصوبوں کی تفصیلات طے پاچکی تھیں جن پر دستخط کے لئے چینی صدر پاکستان تشریف لارہے تھے لیکن سوا سال کے اس عرصے میں عمران خان صاحب نے سی پیک کا کبھی ذکر کیا اور نہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اس حوالے سے وفاقی حکومت سے صوبے کے حصے یا پھر مغربی روٹ کے حوالے سے کوئی خط و کتابت کی ۔

    ان دنوں کالم لکھنے کے علاوہ میں نے سی پیک اور مغربی روٹ کے حوالے سے جیو نیوز پر پروگرام بھی کئے لیکن بے تحاشہ کوششوں کے باوجود عمران خان صاحب یا پرویز خٹک کی زبان پر سی پیک کا لفظ نہیں لاسکا۔ پی ٹی آئی کے وہ رہنما جو اس وقت میرے ساتھ رابطے میں تھے کو میں نے درجنوں بار بریفنگ دیں اور ان سے درخواست کرتا رہا کہ وہ خان صاحب سے درخواست کریں کہ کنٹینر پر کبھی سی پیک اور روٹ کی تبدیلی کا بھی ذکر کریں لیکن تب ان کو سی پیک سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ چینی سفیر نے چوہدری شجاعت حسین اور کئی دوسرے لوگوں سے ملاقاتیں کرکے درخواست کی کہ وہ خان صاحب اور قادری صاحب کو چینی صدر کے دورے کی خاطر کچھ دنوں کے لئے دھرنے معطل کرنے پر راضی کرلیں لیکن وہ نہ مانے اور الٹا خان صاحب نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردیا کہ چینی صدر پاکستان آہی نہیں رہے ہیں ، حالانکہ چینی وزارت خارجہ اور سفارت خانہ ان کے دورے کا اعلان بہت پہلے کرچکے تھے ۔ مجبوراً چینی صدر کو اپنا دورہ پاکستان ملتوی کرنا پڑا۔ اس دورے کا التوا پاکستان کے لئے بڑی سبکی اور چینی سفارت خانے کے لئے بڑی پریشانی کا موجب ہوا۔

    افسوسناک امر یہ ہے کہ دھرنوں کا ڈرامہ فلاپ ہونے کے بعد بھی لمبے عرصے تک عمران خان صاحب یا خیبر پختونخوا کی حکومت کو سی پیک یاد نہیں آیا۔ اپریل 2015میں جب چینی صدر پاکستان آئے اور سی پیک کے 46ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کئے تو اس کے بعد بھی خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے کوئی مطالبہ یا اعتراض سامنے نہیں آیا۔ جب 2015ء کے وسط میں اے این پی ، بی این پی (مینگل) اور سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی نے اس منصوبے میں حکومتی گھپلوں اور روٹ کی تبدیلی کے حوالے سے سرگرمیاں شروع کردیں تو پختونخوا حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کو بھی سی پیک یاد آگیا۔ لیکن افسوس کہ اس کے بعد بھی اپنے صوبے کا کیس صحیح طریقے سے بنا اور نہ پیش کرسکے۔

    صوبائی حکومت کے پاس کونسل آف کامن انٹرسٹ ایک بہترین فورم تھا لیکن اس ایشو پر اس نے اجلاس طلب کرنے کے لئے باقاعدہ خط بھی نہیں لکھا۔ نہ تو پنجاب اور سندھ حکومت کی طرز پر سی پیک کے لئے کوئی دفتر بنایا اور نہ صوبائی بیوروکریسی سے مناسب انداز میں کیس تیار کروایا۔ یہ کیس امسال کے وسط میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اعظم خان نے اس عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد تیار کیا لیکن وزیراعلیٰ صاحب کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تیار کردہ کیس بھی انہوں نے یا تو پڑھا نہیں یا پھر پڑھ کر سمجھا ہی نہیں۔بلکہ چینی سفیر کے بارے میں وہ جس انداز میں بات کرتے اور جو لہجہ استعمال کرتے ہیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک سفارتی آداب کو بھی نہیں سمجھتے ۔ آج سے صرف بیس روز قبل پشاور میں این ڈی یو کے الومنائی کے زیراہتمام کانفرنس میں جب میں نے یہ دعویٰ کیا کہ مغربی روٹ اب بھی سی پیک کا حصہ نہیں اور یہ کہ صوبائی حکومت اپنا حق لینے میں ناکام ہوئی ہے تو پرویز خٹک صاحب نے اپنے جوابی خطاب میں فرمایا کہ انہوںنے صوبے کے حق سے بھی زیادہ حاصل کیا ہے ۔

    یہی بات انہوں نے اگلے روز ایک پشتو ٹی وی چینل کے ساتھ انٹرویو میں بھی دہرائی لیکن جب سینیٹر تاج حیدر کی سربراہی میں سینیٹ کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ مغربی روٹ سرے سے سی پیک میں موجود ہی نہیں اور معاملہ پھر میڈیا کی توجہ حاصل کرنے لگا تو خٹک صاحب نے انتہائی غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ چینی سفیر نے ان سے کہا ہے کہ مغربی روٹ سی پیک میں موجود ہی نہیں ۔ حالانکہ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے اور اس میں چین کی حکومت یا سفارتخانے کو گھسیٹنا کسی صورت مناسب نہیں۔ چین کی حکومت نے وہی کچھ کیا ہے جو پاکستان کی وفاقی حکومت نے جے سی سی کے فورم پر اسے تجویز کیا ہے ۔ چین کی سفیر نے وزیراعلیٰ کے ساتھ ملاقات (میں نے ملاقات میں موجود پی ٹی آئی کے دیگر رہنمائوں سے تصدیق کی ہے) نے وہی بات کی تھی جو دوسری اے پی سی کے اختتام پر وفاقی حکومت نے پرویز خٹک وغیرہ کو دھوکہ دے کر اعلامیہ میں کی تھی اور اب چینی سفارتخانے کے وضاحتی بیانات میں بھی یہی بات دہرائی گئی ہے۔

    پہلے اے پی سی کے اختتام پر وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ پہلے مغربی روٹ مکمل ہوگا اور دوسری اے پی سی میں بھی زبانی وعدہ تو یہی کیا گیالیکن جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ، اس میں لکھا گیا تھا کہ ایک ہی روٹ ہوگا جس کے متفرق شاخیں ہوں گی ۔ انگریزی کے الفاظ ہیں There will be one root with multiple passages ۔ روٹ کے ساتھ مشرقی یا مغربی نہیں لکھا گیا ۔ چینیوں کو یہ بتایا گیا کہ حکومت نے سیاسی قیادت کے ساتھ کوئی نئی بات نہیں کی ہے بلکہ ایک ہی روٹ (مشرقی ) ہوگا اور اس کو مختلف سڑکوں کے ذریعے مغربی حصے سے منسلک کردیا جائے گا ۔ دوسری طرف پرویز خٹک وغیرہ سمجھتے رہے کہ روٹ سے مراد ان کا مغربی روٹ ہے۔ ڈی آئی خان وغیرہ کو جو سڑک بنے گی ، وہ روٹ نہیں بلکہ شاخ یا Passage ہے ۔ چینی سفارتخانے کے وضاحتی بیان میں بھی یہی بات کہی گئی ہے جو کہ میرے اور پرویز خٹک جیسے لوگوں کے موقف کی تائید اور وفاقی حکومت کے دعوے کی تردید ہے ۔ احسن اقبال سے لے کر وزیراعلیٰ پنجاب تک سب لوگوں کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ اورنج لائن ٹرین منصوبہ سی پیک کا حصہ نہیں لیکن چینی سفارتخانے کے وضاحتی بیان میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ وہ سی پیک کا حصہ ہے ۔

    افسوس کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا وضاحتی بیان کو سمجھ نہیں سکے اور اس کے بعد چینی سفیر سے متعلق اور بھی شدت کے ساتھ غیرسفارتی زبان استعمال کی ۔ تبھی تو میں کہتا ہوں کہ پاکستان کے محروم علاقوں کی آئندہ کی محروم نسلیں میاں نوازشریف اور احسن اقبال کے ساتھ ساتھ عمران خان اور پرویز خٹک کو بھی معاف نہیں کریں گی اور تبھی تو خورشید شاہ صاحب کو بھی یہ کہنا پڑرہا ہے کہ عمران خان ، میاں نوازشریف کے سب سے بڑے خیرخواہ ہیں۔

  • ذکر ایک مسلمِ غیور کا – احمد الیاس نعمانی

    ذکر ایک مسلمِ غیور کا – احمد الیاس نعمانی

    احمد الیاس نعمانی نام عبد الواحد تھا، حج کرلیا تھا اس لیے حاجی عبد الواحد کے نام سے مشہور تھے، ہمارے ہم وطن وہم محلہ تھے، نسلا ترک تھے اور مزاجا پٹھان؛ اب سے چند برس قبل جب انتقال ہوا تو عمر غالبا اسی کے لپیٹے میں رہی ہوگی؛ لیکن کیا مجال کہ بڑھاپا مزاج کی جوانی پر کچھ اثر انداز ہوسکے؛ موضوع گفتگو ہر وقت مسلمانوں کی فوقیت اور بہادری نیز غیر مسلموں کی تحقیر اوربزدلی رہتا؛ اور جس مجلس میں ہوتے اسے قہقہہ زار بنائے رکھتے؛ ہم وطن جاتے تو خواہش ہوتی کہ ایک نشست ان کے ساتھ ضرور ہوجائے؛ اور عام طور پر قسمت یاوری کرتی اور وہ کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے؛ اور جب مل جاتے تو بس وہ ملاقات حاصل سفر بن جاتی؛ ان کے کچھ ملفوظات حاضر خدمت ہیں:

    چین کے ساتھ ہندوستان کی جنگ کا ذکر چل رہا تھا؛ اسی اثنا میں فرمایا: امریکہ نے ہندوستان کو مشورے دینے کے لیے اپنا ایک تجربہ کار فوجی جنرل بھیجا؛ جس نے ہند چین سرحد کا فضائی جائزہ لیا؛ وہ سرحد کے قریب کا ہندوستانی علاقہ دیکھ کر حیرت میں پڑگیا؛ اس نے دیکھا کہ سارے کھیتوں میں بم ہی بم پھیلے ہوئے ہیں۔
    اتنے بم تو ہمارے پاس بھی نہیں ہیں؛ اس نے ایک ہندوستانی افسر سے کہا۔
    سر! یہ بم نہیں، کاشی پھل (کدو) ہیں۔
    کاشی پھل؟….وہ کس لیے؟
    سر! فوج کے کھانے کے لیے۔
    فوج کو کاشی پھل کھلاؤگے؟ پھر وہ خاک لڑے گی؛ ارے بڑے کے نلے کھلاؤ نلے؛ تبھی تو کچھ لڑ سکے گی۔

    پھر وہ افسر نیچے اترا؛ اس نے ہندوستان کی صفوں کا جائزہ لیا؛ اگلی صف والے کا نام پوچھا؛ بتایا گیا عبد الشکور؛ سب سے پچھلی صف میں ایک فوجی کا نام پوچھا؛ تو معلوم ہوا کہ اس کا نام رام پرشاد ہے؛ فورا بولا اِسے آگے کرو اور اُسے پیچھے؛ ورنہ جب جنگ ہوگی تو عبد الشکور جام شہادت نوش کرلے گا اور یہ پیچھے سے بھاگ جائے گا۔

    بل کلنٹن کے زمانہ میں افغانستان پر حملہ ہوا تو ان دنوں وہ شمشیر بے نیام تھے؛ کسی شوخ نو عمر نے عرض کیا چچا: آج کے اخبار میں ہے کہ آج کلنٹن اور بن لادن کی کشتی ہوگی؛ بولے: اچھا صاحبزادے! اپنا والاشیر ہے شیر؛ چیر کے کھا جائے گا۔

    سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کا تذکرہ بہت کرتے؛ اور ہمیشہ یہ بات ضرور سناتے کہ روسی جہاز جب بم برساتے تو افغانی انہیں لُپک لیتے (لُپکنا بمعنی کیچ کرنا)؛ اور انہیں واپس روس پھینک دیتے؛ بس وہاں تباہی مچ جاتی۔

    اپنی نسل کے اکثر ”باحمیت“ ہندوستانی مسلمانوں کی طرح وہ بھی پاکستان سے بڑی والہانہ محبت کرتے تھے؛ ہندوستان اور پاکستان کا کرکٹ میچ ان کے لیے کسی معرکہء حق وباطل سے کم نہ ہوتا تھا؛ کسی نے ان کے سامنے پاکستان کے مشہور بلے باز جاوید میاں داد کی برائی کردی؛ سنتے ہی اکھڑ گئے؛ اور بولے میاں! ہاتھ پاؤں باندھ کر بھی ڈال دو گے تو بھی ہندوستان کے خلاف تو ففٹی بناکر ہی آئے گا۔

  • جلسے، اقتصادی راہداری اور ملکی ترقی – رضوان الرحمن رضی

    جلسے، اقتصادی راہداری اور ملکی ترقی – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی بُرا ہو اس پاکستانی صحافت کے موجودہ رحجانات کا کہ جس نے پوری قوم کو’جلسہ جلسہ‘ کے کھیل پر لگا رکھا ہے اور ’ترقیاتی خبروں‘ کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جانے دیا جا رہا۔ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک کے معاشی منظرنامے پر بہت بنیادی قسم کی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور سب سے بڑی تبدیلی تو یہ تھی کہ خطِ متارکہ جنگ (ایل او سی) پر کشیدگی کے باعث جہاں بھارت کی سٹاک ایکس چینج دھول چاٹ رہی ہے وہاں پاکستان کی سٹاک ایکس چینج روزانہ نئی بلندیوں کی طرف رو بہ پرواز ہے۔ عالمی اداروں کی طرف سے پاکستان سٹاک ایکس چینج اس سے پہلے ہی چین اور روس کی سٹاک ایکس چینجوں سے بہتر قرار دی جا چکی ہے۔ چین اور روس کے نجی اداروں کی طرف سے پاکستان کی معیشت میں نئی سرمایہ کاری کے مضبوط اشارے مل رہے ہیں اور بات چیت حتمی مراحل کی طرف رینگ رہی ہے جو پاکستانی معیشت کے مستقبل کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

    پاکستان کی طرف سے عالمی مالیاتی منڈی میں سکوک (اسلامی) بانڈ ساڑھے چھ فی صد کے بجائے ملکی تاریخ کے سب سے کمترین سطح یعنی ساڑھے پانچ فیصد پر بیچا گیا ہے۔ پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ ساڑھے چھ فیصد پر پچاس کروڑ ڈالر عالمی منڈی سے قرض لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ہم جیسے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے باعث شاید یہ وقت ایسے بانڈ کی فروخت کے لیے مناسب نہیں۔ لیکن اسحاق ڈار صاحب اپنی ضد پر ڈٹے رہے۔ اور جب صرف پچاس کروڑ روپے کے سامنے دو ارب چالیس کروڑ ڈالر کی پیش کشیں موصول ہوئیں تو اسحاق ڈار صاحب کی ’’نیت‘‘ بدل گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پچاس کروڑ کے بجائے ایک ارب ڈالر کا قرض لیں گے اور وہ بھی ایک فیصد کم شرحِ منافع یعنی ساڑھے پانچ فیصد پر، جس نے قرض دینا ہے دو، جس نے نہیں دینا نہ دو۔ دنیا کے 124 سرمایہ کاروں نے اس میں حصہ ڈالا جن میں سے نوے ایسے مالیاتی ادارے تھے جن کی کسی سودے میں شرکت میں عالمی خبر ہو جایا کرتی ہے۔ یہ ایک کھلا پیغام ہے کہ دنیا بھر کے نجی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بے چین ہیں۔

    اس کے علاوہ ہاورڈ یونیورسٹی نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں پاکستان کے لیے آئندہ دس برسوں کی اقتصادی شرحِ نمو کے 5.7 فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی ہے جبکہ موجودہ مالی سال کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کی شرح ترقی کو 5.2 فیصد اور آئی ایم ایف پانچ فیصد پر دیکھ رہا ہے۔ اور یوں پاکستان ایک دہائی کے وقفے کے بعد پانچ فیصد سے شرحِ نمو کی سطح سے اوپر لانے میں کامیاب ہوا ہے۔ معاشی محاذ پر یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

    دوسری طرف آرمی چیف راحیل شریف کا چند ماہ قبل دیا گیا وہ بیان ہے کہ وہ ہمسایہ ملک چین سے اقتصادی راہداری سے گزر کر گوادر پہنچنے والے پہلے تجارتی قافلے کو خود گوادر بندرگاہ پر خوش آمدید کہیں گے۔ یار لوگوں نے اندازہ لگایا کہ چونکہ راحیل شریف اپنے اعلان کے مطابق نومبر میں گھر جانے کا اعلان کر چکے ہیں اس لیے یہ قافلہ اسی ماہ پہنچےگا۔ اُدھر چینی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے خبروں کی فراوانی ہے کہ پاکستان کے راستے اس پہلے تجارتی قافلے کی تیاری کے حوالے سے وہاں پر جوش و خروش پایا جاتا ہے۔جبکہ ہم اس اہم قومی موقع پر اپنی سیاست کے گندے کپڑے بیچ چوراہے کی دھونے کے درپے ہیں۔ ہم نے اقتصادی راہداری کے معاہدوں پر دستخط کے لیے آنے والی چینی قیادت کے استقبال کے لیے بھی یہی رویہ اپنایا تھا۔

    لیکن ہمارے ابلاغی ادارے عوام کی نظر اس طرف جانے ہی نہیں دے رہے مبادا اس سے عوام کو امید کی کوئی کرن نظر آ جائے یا پھر اس کا مورال بحال ہو جائے۔ جبکہ اس کے برعکس اقتصادی راہداری کے مخالفین، جن میں ہمسایہ ملک ایران کے زیر اثراقلیتی گروہ پیش پیش ہے، ان منصوبوں پر تبریٰ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تازہ ترین شدنی یہ چھوڑی گئی کہ چین نے بھارتی پنجاب میں ’’ٹیکسٹائل سٹی‘‘ کا افتتاح کر بھی دیا ہے جہاں چینی اداروں نے پارچہ بافی اور پاچہ سازی میں بھاری سرمایہ کاری کر بھی دی ہے جبکہ ہمارے ہاں اس حوالے سے کسی کام کا آغاز ہی نہیں ہوا اور یوں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ گویا اس شعبے میں پاکستان آنے والی چینی سرمایہ کاری اب بھارت چلی گئی ہے۔ ایسے عناصر کو فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ مینیجمنٹ کمپنی (فیڈمک) کے زیر اہتمام بننے والے ٹیکسٹائل سٹی کی خبر بھی ملاحظہ کر لیں۔ چوں کہ ہمارے ہاں بجلی کی کمی تھی اس لیے چینی اداروں کو وہاں پر ڈیڑھ سو میگاواٹ کا بجلی گھر پہلے لگانا پڑگیا ہے اس لیے اس میں تاخیر ہوئی ہے لیکن منصوبہ جاری ہے۔

    خیر سے وزیر منصوبہ بندی چوہدری احسن اقبال اپنے ایک اور دورہ چین سے لوٹے ہیں اور انہوں نے یہ خبر سنائی ہے کہ چین نے پاکستان ریلوے کی مکمل بحالی کے لیے ساڑھے پانچ ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبے کے تحت کراچی سے لاہور اور پشاور (طورخم) تک دوہری پٹڑی کی تعمیر، پہلے سے موجود کی بحالی اور اس کو سگنلنگ کے جدید نظام سے مزین کرنا شامل ہے۔ جس سے ریلوے ٹرینوں کی اوسط سپیڈ ڈیڑھ سو کلومیٹر تک بڑھانے میں آسانی ہو جائے گی۔ کیا اس روٹ پر دوڑنے والی ٹرینوں کو کم لاگت میں چلنے والے ماحول دوست بجلی سے چلنے والے انجن کھینچیں گے، اس بارے میں ابھی تفصیلات کا انتظار ہے کیونکہ امریکہ کے علاوہ جہاں بھی ریلوے کو ڈیزل انجن سے چلایا جاتا ہے وہاں پر ریلوے کے منافع کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ چوہدری احسن اقبال نے مزید کہا کہ یوں اب اقتصادی راہداری کے تحت پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری 46 ارب ڈالر سے بڑھ کر ساڑے اکیاون ارب ڈالر ہو گئی ہے۔ لیکن یہ کہانی بھی ہمارے میڈیا میں نیچے دب گئی۔

    چین کی کمپنی شنگھائی الیکٹرک اس وقت کراچی میں بجلی کی ترسیل کے ذمہ دار ادارے ’کے الیکٹرک‘ کے انتظامی اختیارات سنبھالنے کے لیے متحدہ عرب امارات کی موجودہ انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے اور بات آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ جبکہ اس کے متوازی متحدہ عرب امارات کی ہی ایک کمپنی اتصالات سے بھی چین ہی کی ایک کمپنی کے مذاکرات پی ٹی سی ایل خریدنے کے حوالے سے ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے ٹیلی کام کے شعبے کا ستر فیصد سے زائد پہلے ہی روس نے خرید لیا ہے۔ موبی لنک کے بعد اب وارد کے اکثریتی حصص بھی روسی اداروں نے خرید لیے ہیں۔ اس کے علاوہ گوادر سے کوئٹہ تک مکمل ہونے والی ہائی وے اس سال دسمبر میں کام مکمل کر لے گی جس سے بہت سے منہ بند ہو جائیں گے۔
    ایسے میں اندرونِ ملک چھوٹے صوبوں کا خیال ہے کہ وہ اقتصادی راہداری منصوبہ میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کر لیں جس طرح وہ ملکی تاریخ میں بڑے بڑے دیگر منصوبوں کے وقت کر جاتے رہے ہیں۔ لہٰذا کے پی کے کو ایک مرتبہ پھر شدت سے یاد آ گیا ہے کہ اس کے ہاں تو اقتصادی راہداری کا کوئی منصوبہ شروع ہی نہیں ہوا اور اس بات پر قوم پرست کیا اور پی ٹی آئی کیا سب یک زبان ہو گئے ہیں۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ نے اپنی خاندانی سیاسی روایات کے برعکس صوبائی حکومت سے استعفیٰ دینے کی بات بھی کر دی ہے۔ انہوں نے بات اس قدر بڑھائی کہ اس موقع پر اسلام آباد کے چینی سفارت خانے نے بھی وضاحت جاری کی ہے جس میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت کرنے کے بجائے یہ بتایا گیا ہے کہ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں کتنے منصوبے اقتصادی راہداری کے تحت مکمل ہوں گے لیکن ان بے چارے چینیوں کو کیا پتہ، ہم من حیث القوم قومی اہمیت کے منصوبوں پر بھی گھٹیا سیاست کرنے پر ایمان رکھتے ہیں، اور جاہل ایسے ہیں کہ اپنے ہی کیے گئے جھوٹے پروپیگنڈے پر خود ہی ایمان بھی لے آتے ہیں۔ نہیں یقین تو کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو ہی دیکھ لیں۔

    ذاتی طور پر خاکسار کو امر کی بہت خوشی ہوتی ہے جب وفاق کے مختلف حصے اپنے مفادات کے لیے سرگرم ہوتے ہیں اور وفاق پر تنقید کرتے ہیں، لیکن عرض صرف اتنی ہے کہ تنقید کو محض تنقید ہی رہنے دیا جائے تو مناسب ہوگا، جب بات طعنوں اور گالم گلوچ تک پہنچ جاتی ہے تو پھر وہاں سے واپسی مشکل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ دوسرے کو فائدہ پہنچانے والا تربیلا تو بن جاتا ہے لیکن پنجاب کو فائدہ پہنچانے والے کالا باغ پر پھڈا ہوجاتا ہے۔ چونکہ پنجاب پورے ملک کا انجن آف گروتھ ہے اور یہ پورے وفاق کو لے کر چلتا ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب پنجاب میں ترقی کی شرح متاثر ہوتی ہے، ویسے ہی پورے ملک میں ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن کے پاس پہلے کچھ نہیں وہ مزید افلاس میں گھر جاتے ہیں۔ اس وقت پنجاب کے وزیر اعظم ملک کی سربراہی کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ان کی ذمہ داری کئی گنا زیادہ ہے۔

  • سی پیک میں شمولیت کی ایرانی خواہش، کیا یہ ممکن ہے؟ اوصاف شیخ

    سی پیک میں شمولیت کی ایرانی خواہش، کیا یہ ممکن ہے؟ اوصاف شیخ

    اوصاف شیخ پاکستان کو کمزور سمجھنے، خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے اور سُپر پاور بننے کے خواہشمند پا کستانی طاقت سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود فطری حسد کی وجہ سے اسے کوئی نہ کوئی نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں. وزیراعظم میاں نوازشریف کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت اور خطاب کے بعد وہاں قیام کے دوران بہت سے ممالک کے سربراہوں سے ملاقات ہوئی۔ ایرانی صدر نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی اور دنیا کے بڑے اور اہم معاشی منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا اور اس کے صلے میں سرحد پار یعنی ایرانی علاقہ میں پاکستان کی بجلی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے پاور پلانٹ لگانے کی پیشکش بھی کی. اقتصادی راہداری منصوبے سے نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ دنیا کی 3 ارب سے زائد آبادی کو فائدہ پہنچےگا، اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ ایشیائی اور افریقی ممالک کے لیے اہم اور فائدہ مند منصوبہ ہے۔

    چین روزانہ 60 لاکھ بیرل تیل باہر سے لیتا ہے جس کے لیے اُسے بارہ ہزار کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے، گوادر پورٹ اور اقتصادی راہداری کے ذریعے یہ سفر کم ہو کر تقریباً 3ہزار کلومیٹر رہ جائےگا، اس سے چین کو ایک محتاط اندازے کے مطابق 20 بلین ڈالر کی سالانہ بچت ہوگی، پاکستان کو راہداری کی مد میں اربوں ڈالر سالانہ ملیں گے. اس راہداری پر روزانہ ہزاروں ٹرک، ٹریلر اور کنٹینر گزریں گے جو ٹول ٹیکس کی مد میں اربوں روپے دیں گے. راہداری پر ہوٹل، پٹرول پمپ، سی این جی پمپ، ٹائر، پنکچر کی دکانیں، اسٹور، ڈسپنسریاں، چائے خانے اور دیگر سٹور سینکڑوں کی تعداد میں بنیں گے، صنعتی زون بنیں گے، نئے شہر وجود میں آئیں گے جس سے پاکستانیوں کو بڑے پیمانے پر روزگار ملےگا. اس شاہراہ کا سلسلہ بہت سے ایشیائی اور افریقی مما لک سے ملے گا، اسی تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ دنیا کی نصف سے زائد آبادی مستفید ہوگی. روس بھی اس منصوبے میں دلچسپی رکھتا ہے، اس کی افادیت اور روس کے لیے اس کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے۔

    امریکہ اور بھارت اپنے مذموم عزائم کے ساتھ پاکستان کے خلاف برسر پیکار ہیں. امریکہ روس اور چین کو نیچا دکھانا چاہتا ہے جبکہ بھارت کا ہدف پاکستان اور چین ہیں، اس وقت بھارت حسد میں مبتلا ہے اور معاہدے کے خلاف اور پاکستان کو کمزور کرنے کی ناپاک سازشوں میں مصروف ہے۔ بھارت روس کا پرانا دوست رہا ہے، متعدد مرتبہ روس نے بھارت کا ساتھ دیا، ایک مرتبہ اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے پاکستانی قرارداد کو بھی بھارت کے حق میں ویٹو کر چکا ہے، مگر ہندو بنیا ازل سے ہی بےوفا اور مفاد پرست ہے، اسی فطرت کے تحت جب دنیا میں طاقت کا توازن امریکہ کے حق میں دیکھا تو اس سے پینگیں بڑھانا شروع کر دیں۔

    ایرانی صدر کی وزیراعظم سے ملاقات میں اقتصادی راہ داری میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار اور اس میں شریک کرنے پر پاکستان کو بجلی بنا کر دینے کی پیشکش مثبت ہے، کسی بھی ملک کے اس معاشی و اقتصادی منصوبہ میں شامل ہونے پر اعتراض نہیں، بات نیت کی ہے، کیا ایران نیک نیتی سے یہ سب کچھ کر رہا ہے؟ گزشتہ کچھ عرصہ سے ایران کا رویہ پاکستان کے حوالے سے مناسب نہیں ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے اور گوادر پورٹ کو ناکام بنانے کے لیے بھارتی اشیرباد سے چاہ بہار بندرہ گاہ کا منصوبہ شروع کیا گیا، اور پھر بھارت، افغانستان اور ایران نے مل کر ایک لحاظ سے پاکستان کے خلاف محاذ بنانے کی کوشش کی. نیک نیتی کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ بھی بننی چاہیے لیکن اس کے تانے بانے گوادر بندرگاہ کی بھارتی مخالفت سے ملتے ہیں. چاہ بہار کی اوسط گہرائی 11 میٹر جبکہ گوادر دنیا کی تیسری گہری بندرگاہ ہے۔گوادر اور چاہ بہار کا درمیانی فاصلہ تقریباً 250 کلومیٹر ہے. بھارت چاہ بہار میں بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے، ساری توجہ اور زور لگار ہا ہے. ایک اہم بھارتی جاسوس جو ایران سے پاکستان داخل ہوتے ہوئے پکڑا گیا، کلبھوشن یادیو، عرصہ سے چاہ بہار میں ہی ایک تاجر کی حیثیت سے مقیم تھا اور وہاں سے اقتصادی منصوبے اور گوادر بندرگاہ کے خلاف سازشیں کر رہا تھا اور بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کا مرتکب ہو رہا تھا۔

    ان حالات میں شکوک و شبہات دور کیے بغیر پاک چائنا اقتصادی راہداری میں شمولیت کی خواہش کا اظہار درست ہے نہ اس کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت کی معاونت اور کلبھوشن یادیو جیسے ایجنٹوں کی آمد و تخریب کاری کے حوالے سے تحفظات دور کرنے ہوں گے۔ بھارت کا ہم نشین ہوتے ہوئے ان اہم منصوبوں میں شمولیت کیسے ممکن ہے۔

  • پانی کی جنگ – مسعود احمد علوی

    پانی کی جنگ – مسعود احمد علوی

    مسعود احمد علوی بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری تھا لیکن کشمیر کی موجودہ صورحال کے بعد اس کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی بار 1948ء میں اس وقت پانی کا تنازع کھڑا ہوا جب ہندوستان نے دریائے ستلج اور راوی کا پانی روکنا شروع کر دیا۔ یہ دونوں دریا بھارت کے علاقے سے پاکستان داخل ہو رہے تھے اور ان دونوں دریاؤں کے ہیڈ ورکس بھارت میں تھے، دریائے راوی پر مادھوپور جبکہ ستلج پر فیروزپور ہیڈ ورکس قائم تھا۔ چنانچہ بھارت کے اس طرح پانی روکنے سے پاکستان کے نہری علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ پاکستان نے غلام محمد کی قیادت میں ایک وفد بھارت بھیجا لیکن بھارت کے ساتھ بات چیت میں وہ کوئی سہولت پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ بجائے اس کے کہ وہ پاکستان کو اس کے آبی حقوق دلواتے، وہ پاکستان کے ان حقوق کو بھی بھارت کے حوالے کر آئے جو اسے دریا کے زیریں علاقے کی مملکت کے طور پر حاصل تھے۔ انہوں نے بات چیت کے بعد جس بیان پر دستخط کیے اس کی رو سے تین مشرقی دریاؤں پر بھارت کا حق تسلیم کر لیا گیا اور پاکستان کو ان نہروں کے ذریعے فراہم کیے جانے والے پانی کی قیمت ادا کرنے کی ذمہ داری عائد کی گئی۔ ستم تو یہ کہ اتنے ظلم پر بھی بھارت کی تشفی نہیں ہوئی بلکہ قدم قدم پر اس نے پاکستانی معیشت کو مفلوج کرنے کے لیے مسائل کھڑے کرنے شروع کر دیے۔ اب تک بھارت کی جانب سے پانی کے معاملے میں پاکستان کے ساتھ سلوک یہ رہا کہ نہروں کے پانی کو ضرورت کے دنوں میں روک لیا جاتا اور سیلاب کے دنوں میں کھول دیا جاتا جس سے علاقے میں سیلابوں کی صورتحال اور زیادہ سنگینی اختیار کر جاتی۔ یوں ہلاکتوں اور نقصان کے خطرے میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا۔

    پانی کا یہ مسئلہ خود سے حل کرنے کے سلسلے میں جب یہ دونوں ممالک ناکام ہوئے اور معاملات زیادہ بڑھنا شروع ہوئے تو دونوں ممالک نے عالمی بینک کو اپنا ثالث تسلیم کیا اور یوں 1960ء میں عالمی بینک کی ثالثی میں مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی پہلی باقاعدہ کوشش کی گئی۔ اس موقع پر جو معاہدہ ہوا وہ سندھ طاس معاہدہ کہلایا۔ جس پر پاکستان کی جانب سے اس وقت کے صدر ایوب خان اور بھارت کی جانب سے اس کے وزیرِاعظم جواہرلال نہرو نے دستخط کیے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھارت کو مکمل حق دیا گیا جبکہ مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ معاہدے میں ہندوستان کو مغربی دریاؤں کے پانی سے محدود پیمانے پر بجلی بنانے کی اجازت بھی حاصل ہوئی جبکہ بھارت کے ہائیڈروپلانٹس بنانے کی صورت میں اس بات کی وضاحت بھی کی گئی کہ اگر بھارت ہائیڈرو پاور پلانٹس بنائےگا تو اس کا نقشہ کیا ہوگا؟ اسی معاہدے کے آرٹیکل نمبر 9 کے تحت دوبارہ کبھی تنازع کھڑا ہونے کی صورت میں گفت و شنید کی گنجائش رکھی گئی۔

    موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پانی کے معاملات پر دونوں ممالک کے ایک دوسرے سے تحفظات ایک بار پھر زوروں پر ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ ہفتے سندھ طاس معاہدے کے ایجنڈے پر ایک طویل دورانیے کی میٹنگ کی۔ جس میں ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول، سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر، سیکرٹری آبی ذخائر سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداران شریک تھے۔ مبینہ طور پراس میٹنگ میں بھارت نے معاہدے کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    اگر بھارت اپنے اس فیصلے پر قائم رہتا ہے اور آبی جارحیت جاری رکھتا ہے تو مستقبل میں اس کے کیا نتائج سامنے آئیں گے، یہ تو بہت بعد کی بات ہے، تازہ اطلاع یہ ہے کہ چین نے دریائے برہم پترا پر تبت کے مقام پر ہائیڈرو پراجیکٹ کی تعمیر شروع کردی ہے جس سے بھارت کی پانچ بڑی ریاستوں کو پانی کی فراہمی متاثر ہوگی۔ چین نے سب سے بڑا آبی منصوبہ شروع کردیا ہے جسے لال ہو پروجیکٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے پر 4.5 پانچ بلین یوآن لاگت آئے گی اور یہ 2019ء میں مکمل ہوگا۔ اس منصوبے کی تعمیر سے دریائے برہم پترا کے پانی میں 36 فیصد کمی واقع ہوگی جبکہ بھارت کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کو بھی پانی کی فراہمی متاثر ہوگی۔ چینی حکام کے مطابق بھارت کے ساتھ پانی کے معاملے پر کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہے اس لیے ہم اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔
    اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ خطے میں پانی کے مسئلے پر جنگیں ہو سکتی ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی.

  • امریکہ بھارت عسکری معاہدہ، کیا ہم دباؤ میں ہیں؟ محمود شفیع بھٹی

    امریکہ بھارت عسکری معاہدہ، کیا ہم دباؤ میں ہیں؟ محمود شفیع بھٹی

    %d9%85%d8%ad%d9%85%d9%88%d8%af-%d8%b4%d9%81%db%8c%d8%b9 گزشتہ دنوں امریکہ اور بھارت کے درمیان ایک عسکری معاہدہ ہوا جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسر ے کے بری، بحری اور فضائی اڈے استعمال کر سکیں گے۔اس تناظر میں اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا انڈیا اتنا بڑا ہوگیا ہے کہ وہ امریکہ کے اڈوں کا استعمال کرکے شمالی امریکہ یا پھر کینیڈا پر حملہ کرے گا؟ اس کا جواب نہ میں آتا ہے۔ امریکہ کا بھارت کے ساتھ معاہدہ کرنا دراصل خطے میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینا ہے اور چین کے بڑھتے ہوۓ اثر و رسوخ کو روکنا ہے۔ بھارت تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ کی جھولی جا گرا تھا، وقت کے ساتھ اس نے اپنی ترجیحات بدلیں ، اور امریکہ کے بڑے اتحادی کے طور پر سامنے آیا۔ بھارت چائنا سے لڑائی کا خطرہ مول نہیں لے سکتا لیکن بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتا ہے۔ بھارت کے امریکہ کے ساتھ معاہدات دراصل پاکستان پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دبائو ڈالنے اور چین کا علاقہ میں موجود اثر و رسوخ کم کرنے کےلیے ہے۔

    روس کا اپنی معیشت کو دوبارہ مستحکم کرنا اور چین کی اس کے ساتھ قربتیں بڑھنا امریکہ اور انڈیا دونوں کے لیے نیک شگون نہیں ہے، کیونکہ امریکی جانتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر جتنا استعمال کرنا تھا کرلیا اور پاکستان کا خطے میں چین کی جانب جھکاؤ اسے روسی اتحاد کی جانب لے جائے گا جس سے امریکہ کی خطے میں بالادستی پر کاری ضرب لگے گی۔ اسی طرح انڈین ماہرین کا خیال ہے کہ خطے میں امریکی اثر کم ہونے سے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغانستان میں افغان حکومت کا کمزور ہونا اور چینی سرمایہ کاری کا بڑھنا بھی ان کے لیےتشویش کا باعث ہے۔

    امریکہ نے مغربی پانیوں پر کافی روڑے اٹکائے تاکہ چین مزید مارکیٹوں تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔ پاک چین اقتصادی راہداری دراصل چین کی پوری دنیا کی تجارتی منڈی پر قبضے اور اثر و رسوخ کا باعث بنے گا جوامریکہ اور بھارت کو کبھی بھی منظور نہیں ہوگا۔ اس لیے مختلف سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں۔امریکہ اور بھارت کی قربتیں اسی تناظر میں ہیں. ہاورڈ ڈاکٹرائن کا استعمال کیا جارہا ہے جس کا مقصد کمیونزم کا پھیلاؤ روکنا تھا۔ آج وہی ڈاکٹرائن نئے انداز سے سامنے آ رہی ہے، مقصد پاکستان کو مستحکم ہونے اور چین کو گوادر تک رسائی سے روکنا ہے۔

    پاکستان کو آگے بڑھتے ہوئے روس سے معاہدے کرنے چاہییں تاکہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رہے۔ ساتھ ہی اس گریٹ گیم میں ترکی اور سعودی عرب کو بھی شامل کرلینا چاہئیے۔ اگر ممکن ہوسکے تو سری لنکا کو بھی کیونکہ اس سے جغرافیائی اور معاہداتی دباؤ انڈیا پر ہوگا اور امریکہ خطے میں یکطرفہ طاقت کو دیکھ کر اپنی دوغلی پالیسی سے وقتی طور سہی مگر باز آ جائے گا۔

  • سی پیک اور ہمارے رویے – احمد سلیم سلیمی

    سی پیک اور ہمارے رویے – احمد سلیم سلیمی

    دنیا بہت تیز ہو گئی ہے۔ اس کی ہر کروٹ نئے انقلابات کو جنم دے رہی ہے۔ نئے نئے امکانات سامنے آرہے ہیں۔ اسی طرح نئے نئے تقاضے چیلنج بن کر راستہ روکے کھڑے ہیں۔
    پہلے زمانوں میں دوسرے ملکوں پہ چڑھائی کی جاتی تھی، حکومتوں کو تاراج کر کے خزانے لوٹے جاتے تھے، اپنا زیر نگیں بنا کے خراج وصول کر کیا جاتا تھا، کشتوں کے پشتے لگا کر فاتح عالم کہلایا جاتا تھا اور طاقت کے زور پر حاصل ہوئی دولت سے اپنی سلطنت چلائی جاتی تھی۔

    اب دنیا کا چلن بدل گیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے فتح و شکست، عروج و زوال کا انداز بدل دیا ہے۔ اب دوسرے ملکوں پر براہ راست حملہ نہیں کیا جاتا۔ ویسے تو ہزار ہزار میل سے زیادہ تک ضرب لگانے والے میزائل بھی ہیں، آواز سے تیز جنگی جہاز بھی ہیں، اور ایٹم بم بھی، مگر یہ سب ہاتھی دانت کی طرح ہیں۔ اس مجسمے (ہوا) کی طرح ہیں جسے کھیت میں پرندوں کو ڈرانے کے لیے بانس کے ایک ڈنڈے پر چڑھایا جاتا ہے تاکہ اس کے خوف سے پرندے قریب نہ آئیں اور ان کا اناج محفوظ رہے۔ یہ اسلحے کے انبار اور نیوکلیائی ہتھیار بھی ایسے ہی ہیں۔ اب دوسروں پر قابو پانے کے لیے انہیں اندر سے کمزور کیا جاتا ہے۔ ان کی اجتماعیت کو اس طرح کھوکھلا کیا جاتا ہے کہ بظاہر ٹانگوں پہ کھڑی ہوتی ہے مگر ایک ہلکی مار سے زمین بوس ہو جاتی ہے۔

    اپنے مقاصد کے حصول کے لیے قوم کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ کبھی مسلک کے نام پر، کبھی ذات پات اور زبان کے نام پر، کبھی حقوق اور مفادات کے نام پر ڈگڈگی بجائی جاتی ہے اور ناچتے ناچتے قوم ایسی پاگل ہوتی ہے کہ انجام بھول جاتی ہے۔ کیا ہم بحیثیت پاکستانی بھی اور گلگت بلتستانی بھی اپنا انجام بھول گئے ہیں؟ امید ہے نہیں بھولے ہوں گے۔

    پچھلے کچھ عرصے سے ہر طرف سی پیک کا غلغلہ ہے۔ دنیا کی سیاست میں یہ محض پاک چائنا اقتصادی منصوبہ نہیں بلکہ کئی ملکوں کے لیے براہ راست ایک چیلنج ہے۔ ان کے مفادات پر ایک کاری وار ہے۔ ان ملکوں میں انڈیا کے علاوہ بھی طاقتیں ہیں، اس خطے کی بھی، سات سمندر پار کی بھی۔ پہلے تو صرف پاکستان کی مخالف طاقتوں سے اندیشہ رہتا تھا، اب تو چائنا کے دشمن بھی اس پروجیکٹ کی وجہ سے مخالفوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایسے میں دشمن کے مقابلے کے لیے پہلے سے زیادہ چوکنا اور پرعزم ہونا ہے۔

    اب دشمن طاقتیں سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے جنگ نہیں چھیڑیں گی، میزائل نہیں چلائیں گی بلکہ ہماری قومی جڑوں میں اتر کر بنیادوں سے ہلانے کی کوشش کریں گی۔ماضی میں جس طرح کے زہریلے رویے پنپتے رہے ہیں، بدامنی اور خوف کے جو بادل چھائے رہے ہیں، خاکم بدہن کہیں پھر سے دشمن اس کو ٹارگٹ نہ کرے، اور اس راکھ میں دبی چنگاری کو پھر سے ہوا نہ دے۔ اور پھر ایک ہی علاقہ، ایک ہی گلی محلہ، ایک ہی بازار، ایک ہی تعلیمی ادارہ اور ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے ہم لوگ اس آگ میں جل کر راکھ نہ بن جائیں۔ بس اس کے لیے احساس زندہ رکھنا ہے۔ میڈیا کی ہر خبر درست بھی نہیں ہوتی ہے، سیاست دانوں کی ہر بات قابل قبول بھی نہیں ہوتی ہے، اسی طرح تجزیہ کاروں کی ہر رائے معقول بھی نہیں ہوتی۔

    عوام کے لیے ضروری ہے کہ ہر خبر، ہر تجزیے اور رائے کو آخری نہ سمجھیں، ہر پہلو سے اسے پرکھیں۔ تبھی ایک سنجیدہ اور با وقار قوم بن کر سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ورنہ کالا باغ اور دیامر بھاشا ڈیمز کی طرح یہ منصوبہ بھی کچھ عرصہ ڈھول بجا بجا کر خاموش ہو جائے گا، اور ملک اور قوم پھر سے ترقی معکوس کے کانٹوں میں الجھ کر رہ جائیں گے۔