Tag: چین

  • گلوبل پاپولیشن، ون چائلڈ چائنا پالیسی اور پاکستان – عمران ساجد

    گلوبل پاپولیشن، ون چائلڈ چائنا پالیسی اور پاکستان – عمران ساجد

    صنعتی انقلاب کے بعد سے آج تک عالمی آبادی میں جتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی. لیکن ہم زیادہ پرانی تاریخ کی چھان پھٹک نہیں کریں گے. سنہ 1960ء میں آبادی کا مجموعہ تین ارب تھا، جس میں چودہ سال بعد ایک ارب نئے افراد کا اضافہ ہوا، پھر اگلے تیرہ برس بعد یعنی سنہ 1987ء میں یہ عدد پانچ ارب پر پہنچ گیا. اگلے بارہ برس بعد مزید ایک ارب افراد اس مجموعے کا حصہ بن گئے اور 11 اکتوبر 2011ء کو اعلان کیا گیا کہ آج اس دنیا میں زندہ 7 ارب افراد موجود ہیں. آج اس اعلان کے پانچ برس بعد اس دنیا میں 7 ارب 40 کروڑ افراد کی موجودگی کی نوید مختلف فورمز کے ذریعے سنائی دیتی ہے. ایک پیچیدہ اور محتاط تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2024ء میں یہی عدد 8 ارب کے حدف کو بآسانی عبور کر لے گا. اور 2050ء میں مجموعی آبادی شاید 11 ارب ہو جائے.

    آبادی میں اضافہ کے اس خطرناک رجحان پر امریکی ماہر فلکیات اور سائنسدان نیل ٹائسن کا ماننا ہے کہ اگلے پانچ سو سال بعد اگر حالات میں بہتری نہیں آتی تو اس دنیا میں اتنے افراد موجود ہوں گے کہ اگر ان سب کو ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا بھی کر دیا جائے تو یہ خشکی کا علاقہ کم پڑ جائے گا. اتنی آبادی کو مینج کرنے کے اول یا تو کوئی اور سیارہ انسان کو رہائش کے لیے آباد کرنا پڑے گا. دوم اس زمین پر ورٹیکل بلڈنگ اور بیسمنٹ ہاؤسز پر اکتفا کرنا پڑے گا. سوئم بہتر ہے کہ حالات کو اس نہج پر پہنچنے سے پہلے ہی کنٹرول کیا جائے جو مقابلتاً کم پیچیدہ اور کم خرچ بھی ہے.

    اب آبادی کے فیگرز کو تھوڑا ٹریکل ڈاؤن کر کے کونٹینٹل لیول پر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ایشیاء میں پوری دنیا کی آبادی کا 60 فیصد بلک موجود ہے. کینوس کو مزید نیرو کر کے دیکھیں تو دو ملک آبادی کے مجموعے پر ریڈ سگنل کی طرح نظر آتے ہیں. اول چین اور دوم بھارت. چین کی موجودہ آبادی لگ بھگ ارب اڑتیس کروڑ ہے اور بھارت کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ ہے. ان دونوں ملکوں میں پوری دنیا کی کل آبادی کا 37 فیصد حصہ آباد ہے. ابھی بھارت دوسرے نمبر پر نظر آ رہا ہے لیکن تعلیم اور آبادی میں اضافہ کی آگاہی کی کمی جیسے مسائل کی وجہ سے اس کی آبادی 2030ء میں ڈیڑھ ارب ہو جائے گی. یوں بھارت زیادہ آبادی والے ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر آ جائے گا. دنیا کے متعدد ممالک میں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے. خصوصاً وہ ممالک جہاں تعلیم اور ترقی کا معیار بہتر ہے. اس میں چین جو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے. جس نے سنہ 1978ء میں اگلی دہائیوں میں پانی اور دیگر وسائل کی شدید کمی جیسے مسائل کی نشاندہی کی اور اس سے نمٹنے کے لیے ایک سو سال کا لائحہ عمل تیار کیا. تاکہ سنہ 2080ء تک آبادی کے عدد کم 700 ملین افراد تک محدود کیا جائے. اس پلاننگ میں ایک پالیسی ”ون چائلڈ پالیسی“ کے نام سے موسوم ہے. جو سنہ جنوری 1980 سے اگلی تقریباً ساڑھے تین دہائیوں تک لاگو رہی. چونکہ اس پالیسی کو ایک انسٹرومنٹ کے طور پر ایک جنریشن کے لیے ہی بنایا گیا تھا اس لیے اس پالیسی کو سرکاری طور پر سنہ 2015ء کے آخر میں سرکاری طور پر ختم کر دیا گیا. اور جنوری 2016ء سے نئی ”ٹو چائلڈ پالیسی“ کا اطلاق کر دیا گیا ہے.

    بنیادی طور پر ون چایلئیڈ پالیسی چین کے آبادی کنٹرول کرنے کے صد سالہ پروگرام کے منصوبے کا ایک انسٹرومنٹ تھا جسے ایک جنریشن کے لیے ہی طے کیا گیا تھا. اس پالیسی کے تحت تمام ریاستوں خصوصاً گنجان آباد علاقوں میں شادی شدہ جوڑوں کو ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی. اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نیشنل پیپلز کانگریس کی ایک قائمہ کمیٹی نے ایک کمیشن بنایا جس کے ذمے لوگوں کو اس گھمبیر مسئلے پر بنیادی آگاہی فراہم کرنا، پیدا ہونے والے بچوں کی رجسٹریشن کرنا اور انسپیکشن کرنا شامل تھا. ماؤ زی دونگ کی رہنمائی میں اس منصوبے کے تحت فرٹیلیٹی ریٹ (ایک عورت کے ہاں اوسطاً زندہ بچوں کی پیدائش) کو جو سنہ 1979ء میں 2.8 تک کم کر کے 1.4
    پر لایا گیا. اس منصوبے کے تحت حکومتی دعوی ہے کہ 400 ملین بچوں کی ممکنہ پیدائش کو دانستہ طور پر روکا گیا ہے. (گو کہ محقق اس دعوے سے اختلاف کرتے ہیں. کیونکہ اسی وقت میں چین کے پڑوسی ملک تھائی لینڈ اور بھارتی ریاست کیرالہ میں اسی بنا کسی ون چایلئیڈ پالیسی کے فرٹیلیٹی ریٹ اس حد تک کم ہوا ہے جس کا ذکر دھوم سے کیا جاتا ہے. اگر کوئی جوڑا اس پالیسی کے برخلاف زیادہ بچوں کی پیدائش کا مرتکب ہوتا تھا تو دونوں مرد اور عورت کو حکومتی سطح پر جرمانہ عائد کیا جاتا تھا. جو مرتکب جوڑے کی جگہ، آمدنی اور حالات کے مطابق طے کیا جاتا تھا. مزید یہ کہ ایک ملک گیر سروے سنہ 2008 میں کیا گیا جس کے نتائج میں بتایا گیا 70 فیصد لوگ اس پالیسی کو سپورٹ کرتے ہیں. لیکن اس پالیسی کو بیرونی دنیا میں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا.

    اس پالیسی میں کئی ایسے راستے تھے جن کے ذریعے شادی شدہ جوڑے قانونی طور پر دوسرے بچے کی پیدائش کے لیے اہل قرار پاتے تھے.
    اول. اگر کسی کے ہاں پہلے بیٹی کی پیدائش ہو تو نرینہ اولاد کی خاطر ریاستی سطح پر دوسرے بچے کی پیدائش کا حق دیا جاتا تھا.
    دوم. اگر پہلا بچہ معذور یا ذہنی طور پر مکمل تندرست نہیں ہے تو تین سے چار سال کے وقفے کے بعد دوسرے بچے کی پیدائش کا حق دیا جاتا تھا.
    سوم. تبتی لوگوں اور اقلیتوں کو بھی عمومی چھوٹ دی جاتی تھی. دور دراز دیہاتی علاقوں میں بھی اس معاملے پر نرمی برتی جاتی تھی.
    چہارم. اس کے علاوہ اگر کسی جوڑے کے ہاں پہلا بچہ چین کی مین لینڈ کے باہر ہوتی تھی تو اس چینی جوڑے کو بھی چھوٹ دی جاتی تھی.

    سیچوان صوبے میں 2008 کے تباہ کن زلزلے کے باعث وہ لوگ جن کے بچے اس آفت میں ان سے جدا ہو گئے انہیں بھی اس چھوٹ کا اہل قرار دیا گیا. لیکن اس وسیع البنیاد منصوبے میں کئی جگہوں پر لوپ ہولز مجود تھے جن کی وجہ سے لوگ حکومت کو چکما دے جاتے تھے. مثلاً ہانگ کانگ کیونکہ مین لینڈ چائنہ کا حصہ نہیں اس لئے پالیسی کا عملی طور نفاذ وہاں اس طرح نہیں ہوتا تھا اس لیے لوگ بچوں کی پیدائش کے وقت ہانگ کانگ کا رخ کرتے تھے. لوگوں میں ملک سے باہر برتھ ٹؤرزم کا رجحان بڑھنے لگا. اور کچھ لوگ اپنے ہاں بیٹی کی پیدائش کا ذکر ہی نہیں کرتے تھے یا پھر اس بیٹی کو کسی دوسرے شخص کو لے پالک کے طور پر دے دیتے تھے. یا اس بیٹی کی پیدائش کے بعد رجسٹریشن میں جان بوجھ کر تاخیر کرتے تھے.

    جہاں حکومتی مشینری اس پالیسی کی کامیابی اور بہتر نتائج کا دعوٰی کرتی ہے وہیں کچھ مسائل نے بھی اس معاشرے کو شدید مشکلات کا شکار کیا ہے. اول یہ کہ نرینہ اولاد کی چاہت اور پالیسی رسٹریکشن کے باعث مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں 30 ملین زیادہ ہو گئی. اس صنفی عدم توازن کی وجہ سے بہت سے مرد شادی کے لیے جنس مخالف کی تلاش میں نیم بوڑھے ہو جاتے تھے. چونکہ عورتیں اس معاشرے میں کم ہیں اس لیے شادی کے معاملے میں ان قدر بہت زیادہ ہوتی ہے. تقریباً ہر لڑکی شادی سے قبل اپنے ہونے والے شوہر سے ذاتی کاروبار یا اچھی نوکری کے علاوہ ذاتی گھر اور گاڑی کی بھی آس لگاتی ہے. یوں ایک اوسط چینی مرد شادی کے یہ لوازمات پورے کرنے کے بعد شادی کے وقت کم از کم تیس سال کی عمر تک پہنچ جاتا ہے. اور شادی پر اوسطاً 35 لاکھ پاکستانی روپے کے برابر رقم خرچ کرتا ہے.

    ایک چینی باشندے کی اوسط عمر میں جو کہ سنہ 1976ء میں 66 سال تھی آج وہی اوسط عمر 76 برس تک پہنچ گئی ہے. اس اوسط عمر میں اضافے کو جہاں صحت کے شعبے کی ترقی کہا جاتا وہیں یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ اس وقت ہر پانچ میں سے ایک فرد ریٹائرڈ کی حیثیت سے اس معاشرے میں موجود ہے. سنہ 2050 تک کم از کم اس آبادی کا ایک تہائی حصہ 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد پر مشتمل ہو گا. جو عموماً پروڈکٹیو نہیں ہوتے. اور ملکی معیشت پر ایک بھاری بوجھ ثابت ہوں گے. سنہ 2030 تک چین اس پالیسی کی وجہ سے اپنے 67 ملین مزدوروں سے محروم ہو جائے گا. آزاد تحقیقی رپورٹس کے مطابق کم از کم 100 ملین بچیاں مسنگ ہیں. جنہیں کسی حد تک حکومت بھی درد سر کے طور پر دیکھ رہی ہے.

    اس پالیسی کے تحت 36 فی صد لوگوں کو ایک بچے کی پیدائش تک محدود رکھا گیا. اور قریب 53 فیصد لوگوں کو انکی درخواست پر دوسرے بچے کی پیدائش کی اجازت دی گئی. پالیسی میں تمام تر خوبیوں، خامیوں اور وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے یکم جنوری سنہ 2016ء سے ”ٹو چائلڈ پالیسی“ عملی نفاذ کیا گیا ہے تاکہ معاشی اور معاشرتی لیول پر مطلوبہ توازن کو برقرار کیا جائے. جس کے تحت 31 میں سے 29 صوبوں میں اس نئی پالیسی کا عملی نفاذ کر دیا گیا ہے.

    اس وقت ہمارے ملک کی آبادی تقریباً 20 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے. جس میں بچوں کی سالانہ پیدائش کا حجم 35 لاکھ ہے. ایک تخمینہ لگایا گیا ہے کہ سنہ 2030ء میں اس ملک کی آبادی لگ بھگ 25 کروڑ تک پہنچ جائے گی، اسی سال شہری اور دیہی آبادی کا تناسب برابر ہو جائے گا جو فی الحال 36 فیصد شہری اور 54 فیصد دیہاتی آبادی پر مشتمل ہے. دنیا میں آبادی کے بے ربط اور بےلگام اضافہ کو روکنے کے لیے مختلف لیولز پر کام ہو رہا ہے. لیکن ایک میڈیم کامن ہے. اور وہ ہے تعلیم. میں یہ جاننا ہوں کہ اس ملک عظیم جس کی شرح خواندگی 60 فیصد ہونے کا دعوٰی کیا جاتا ہے اس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 10 فیصد سے کم یونیورسٹی گریجویٹ ہیں. شاید کم از کم گریجویٹ لیول پر ہی آپ ایسی سیر حاصل گفتگو کر سکتے ہیں جو آبادی کے کنٹرول کے متعلق ہو. لیکن ان کے مجموعی تناسب کو ضرور ذہن نشین رکھیں.

  • پاک چین سفارتی تعلقات کے65سال- محمد شاہد محمود

    پاک چین سفارتی تعلقات کے65سال- محمد شاہد محمود

    محمد شاہد محمود چین کے پاکستان میں سفیر سن وی ڈونگ نے کہا ہے کہ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ دونوں ممالک کے لیے مفید ہے، یہ منصوبہ پاکستان کے ایشین ٹائیگر بننے کے خواب کی تعبیر ثابت ہوگا۔ سی پیک کے منصوبوں کو تیزی سے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے، توانائی، انفرااسٹرکچر، گوادر پورٹ اور صنعتی تعاون سی پیک کے اہم حصے ہیں جن پر موثر انداز میں عمل درآمد ہورہا ہے، آئندہ برسوں میں اس منصوبے کے تحت اور کامیابیاں بھی حاصل ہوں گی۔ سی پیک کے تحت شمسی، کوئلہ اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس لگائے جارہے ہیں جو پاکستان میں توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے مدد گار ہوں گے۔ قراقرم ہائی وے پر تھاکوٹ تا حویلیاں روڈ کی اپ گریڈیشن، ملتان سے سکھر موٹروے جو کراچی تالاہور موٹر وے کا حصہ ہے کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان بہتر ٹیلی کمیونیکشن کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے خنجراب سے راولپنڈی تک فائبر آپٹک بچھائی جارہی ہے جس کا مقصد سائبر اور ڈیٹا راہداریاں بنانا ہے۔

    گوادر بند گاہ کو چین کے حوالے کرنے کے بعد وہاں پر متعدد سرگرمیوں بشمول قومی و بین الاقوامی ایئرپورٹ کی تعمیر، ایکسپریس وے کی تعیمر اور شہر میں ٹرانسپورٹ و تجارت سے منسلک لوگوں کو سہولتوں کی فراہمی پر تیزی سے کام جاری ہے۔ صنعتی ماہرین کی موجودگی میں صنعتی تعاون کے ذریعے دونوں ممالک کی گروتھ میں اضافہ ہو گا۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت 18.9ارب ڈالر ہے، 46ارب ڈالر سے سی پیک کا فری ورک بن رہا ہے، چین جنوبی ایشیا میں پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے، باہمی صنعتی اشتراک سے دونوں ممالک اس قابل ہوجائیں گے کہ اپنی مصنوعات دیگر ممالک کی مارکیٹ تک بھجوا سکیں۔ ہمارا تعاون صرف معاشی تعلقات تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ عوام سے عوام کے رابطے، ثقافتی تبادلے، صحت اور تعلیم کے شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ گزشتہ سال چین نے 6.9 فیصد جی ڈی پی گروتھ ریٹ حاصل کی اور اس سال بھی مقررہ ہدف کے مطابق ترقی حاصل کی، چین دنیا میں تیز ترقی کرنے والی معشیت ہے اور عالمی رینکنگ میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان بھی اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے اپنے عوام کو بہتر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے، اگرچہ پاکستان کی معاشی ترقی تسلی بخش ہے لیکن سی پیک اور دوسرے منصوبوں کے ساتھ یہ دیرپا معاشی ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

    پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کو 65سال مکمل ہونے کے موقع پرمنعقدہ چین پاکستان اقتصادی راہداری میڈیا فورم نے کہاہے کہ سی پیک کی کامیابی بنیادی اہمیت کی حامل ہے، سماجی میڈیا سے بھی سی پیک کے بارے میں معلومات اور شعور کی آگاہی کے لئے استفادہ کیا جانا چاہیے،پاکستان اور چین نے ہر قسم کے حالات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ، میڈیا اور تھنک ٹینکس کی اہمیت سی پیک کی وجہ سے کئی گنا بڑھ گئی ہے، سی پیک سے نا خوش قوتیں اسے سبوتاڑ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔سی پیک بارے معلومات اور آگاہی کے لئے دونوں ممالک کے صحافیوں کے لئے ایک وی چیٹ گروپ قائم جبکہ سی پیک کے لئے پہلی ویب سائیٹ کے اجراء کا بھی اعلان کیاگیاہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کی فلیگ شپ کے پیش نظر سی پیک کی کامیابی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ میڈیا تعاون میں اضافہ کرنا سی پیک کے لئے پلیٹ فارم کا قیام کرنا فورم کا موضوع تھا۔پاکستان میں چین کے سفارتخانے نے ریسرچ وڈولپمنٹ انٹرنیشنل ،آل چائنہ جرنلسٹس ایسوسی ایشن (اے سی جے اے) ،چائنہ اکنامک نیٹ ، پاکستان چین انسٹیٹیوٹ اور تھری گارجز کارپوریشن کے اشتراک سے اس فورم کا اہتمام کیا۔اس موقع پر خطاب کرنے والوں میں عوامی جمہوریہ چین (پی آرسی)کی قومی عوامی کانگریس(این پی سی) کی خارجہ امور کمیٹی کے وائس چیئرمین ڑاؤ بائیگی ،چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین مشاہدحسین سید، چین میں پاکستان کے سفیر مسعود خالد ،تسنگ ہوا انٹرنیشنل سینٹر برائے کمیونیکیشن کے ڈائریکٹر لی ڑی گوانگ ،اے سی جے اے کے نائب صدر ڑاہی ہوئی شنگ ، پاکستان ریسرچ سینٹر پیکنگ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ٹانگ مینگ شینگ ،سی پی ای سی میڈیا فورم کے صدر حافظ طاہر خلیل ، سابق ڈائریکٹر جنرل پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن غلام مرتضیٰ سولنگی اور ڈائریکٹر چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ڑاؤ چیاؤ شامل تھے۔ مقررین نے یہ رائے تھی کہ وی چیٹ ، فیس بک، اور ٹوئٹر جیسے سماجی میڈیا سے بھی سی پیک کے بارے میں معلومات اور شعور کی آگاہی کے لئے استفادہ کیا جانا چاہیے۔اس مقصد کے لئے دونوں ممالک کے صحافیوں کے لئے ایک وی چیٹ گروپ قائم کیا گیا ہے۔

    پاک چین اقتصادی راہداری پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان اور چین نے ہر قسم کے حالات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ میڈیا اور تھنک ٹینکس کی اہمیت سی پیک کی وجہ سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ آج کی جنگ ٹینکوں کی نہیں بلکہ پراپیگنڈے کی جنگ ہے۔ سی پیک سے نا خوش قوتیں اس سبوتاڑ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔بعض مغربی اخبارات میں چین کے خلاف خبریں بھی دیکھی ہیں۔پاکستانی سفیر مسعود خالد نے بین الاقوامی تعلقات میں معلومات اور کلچر کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے دونوں ممالک ، پورے خطے اور بالاخردنیا بھر کی معیشت کے لئے سی پیک کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ڑاؤ بائیگی نے کہا کہ یہ بی اینڈ آر منصوبے کا پہلا اور انتہائی اہم منصوبہ ہے۔ اگر سی پیک کو اس کی کامیابی میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو دوسرے منصوبوں پر منفی اثر پڑے گا۔ دفتر خارجہ ترجمان نفیس ذکریا کا کہنا ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے خلاف بھارتی سازشوں کے ثبوت موجود ہیں اور بھارتی جاسوس، پاکستان چین اقتصادی راہداری کو سبوتاڑ کرنے کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔ ان جاسوں میں کمرشل قونصلر و ’’را‘‘ سٹیشن چیف راجیش اگنی ہوتری، فرسٹ سیکرٹری کمرشل انوراگ سنگھ، ویزا اتاشی امردیپ سنگھ بھٹی، سٹاف ممبر دھرمیندرا سوڈھی، سٹاف وجے کمار ورما، سٹاف مدھاون نندا کمار کا تعلق ’’را‘‘ جبکہ فرسٹ سیکرٹری پریس اینڈ انفارمیشن بلبیر سنگھ آئی بی کے سٹیشن چیف، اسسٹنٹ پرسونل ویلفیئر آفیسر جیابالن سنتھل کا تعلق آئی بی سے ہے۔چینی وفد نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی۔ وزیر خزانہ نے وفد کا خیز مقدم کیا جبکہ چینی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں دلچسپی کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے منصوبے پاکستان میں انفرانسٹرکچر کی ترقی سرمایہ کاری کا باعث بن رہے ہیں۔وزیر خزانہ نے پاکستان سٹاک ایکسچینج کی کارکردگی کا ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ کے ذریعے کمرشل بنیاد پر قابل عمل منصوبوں میں سرمایہ کار رہے گا۔

    وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کامیابی افراتفری پھیلانے سے نہیں بلکہ عوام کی خلوص نیت سے خدمت کرنے سے ملتی ہے – ملک کی ترقی،استحکام اور قومی مفادات کو ہر حال میں ذاتی مفادات پر ترجیح دینی چاہیے۔ عوام نے دھرنا گروپ سے لا تعلق ہو کر مسترد شدہ عناصر کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اربوں روپے کے میگا پراجیکٹس کی تکمیل سے عوام کی تقدیر بدلنے جا رہی ہے۔ سی پیک پر تیزرفتاری سے عملدرآمد سے دوست خوش اور عوام کی ترقی کے مخالفین کو تکلیف ہو رہی ہے – منفی سیاست کے علمبردار پاکستان کی ترقی اور خوشحالی نہیں چاہتے۔ ملک کے روشن مستقبل کی نوید سی پیک کو نقصان پہنچانا کسی طور پر عوام کی خیر خواہی نہیں۔ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سیاسی قوتوں کو مثبت کردار ادا کرنا ہے۔ انتشار کی سیاست پاکستان کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کیلئے زہر قاتل ہے۔ احتجاجی عناصر کے غیر جمہوری رویوں سے سی پیک کے منصوبے بھی تاخیر کا شکار ہوئے۔ باشعور عوام جان چکے ہیں کہ افراتفری کی سیاست کرنیوالے ملک میں اندھیروں کا راج چاہتے ہیں

  • سی پیک، وفاق اور صوبوں میں اعتماد کا فقدان –  بادشاہ خان

    سی پیک، وفاق اور صوبوں میں اعتماد کا فقدان – بادشاہ خان

    بادشاہ خان کئی اہم ملکی مسائل ایسے ہیں جن پر وفاقی حکومت کسی کی بات سننے کو تیار نہیں، فاٹا کا مسئلہ ہو یا پھر سی پیک کے مغربی روٹ پر صوبوں کو اعتماد میں لینے کا، مجبورا سی پیک منصوبے میں مغربی روٹ کا اسٹیٹس معلوم کرنے کے لیے اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصر اور حکمران اتحاد کے پارلیمانی لیڈروں نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کردی ہے جس کی قاضی محمد انور ایڈووکیٹ پیروی کریں گے. رٹ صوبائی اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد نمبر 882 کے تحت دائر کی گئی، تاہم قرارداد پر دستخط کرنے والی چاروں اپوزیشن جماعتیں جے یو آئی، مسلم لیگ ن، اے این پی اور پیپلزپارٹی پیچھے ہٹ گئی ہیں اور اب رٹ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کی جانب سے دائر کی گئی ہے. صوبائی کابینہ کے رکن مشتاق غنی نے کہا ہے کہ صوبے کے حصے میں ایک رابطہ سڑک کے سوا کچھ نہیں دیا گیا، نہ ہی وفاق نے معاہدے کی دستاویزات دی ہیں، اور یہ رٹ قرارداد کی بنیاد پر دائر کی گئی ہے، اب کچھ جماعتیں پیچھے ہٹ رہی ہیں تو ان کی مرضی تاہم قرارداد کی سب نے ہی حمایت کی تھی. صوبائی اکائیوں کے اقتصادی راہداری (سی پیک) پر شدید اعتراضات وشبہات ہیں، اعتراضات کرنے والے کوئی انڈین ایجنٹ نہیں بلکہ پاکستان سے محبت کرنے والا سنجیدہ محب وطن طبقہ ہے. خیبر پختونخوا کے وزیراعلی پرویز خٹک نے کئی بار کہا کہ وفاقی حکومت نے چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک تمام منصوبوں کو راہداری کے مشرقی روٹ پر منتقل کر کے کام شروع کردیا ہے، اور خیبر پختونخوا و بلوچستان کو اقتصادی راہداری کے منصوبے سے تقریبا محروم کر دیا گیا ہے، جبکہ منصوبے کا مغربی روٹ بھی ختم کر دیا گیا ہے جس کا ہم سے وفاقی حکومت نے وعدہ کیا تھا. یہ الفاظ ایک صوبے کے وزیر اعلی نے کئی بارکہے، اسی قسم کا بیان بلوچ رہنما سردار اختر جان مینگل کا سامنے آچکا ہے کہ جس میں انھوں نے گوادر پورٹ پر اپنے تحفظات کا واضح الفاط میں ذکر کیا تھا۔

    چند ماہ قبل ایک نجی چینل پر احسن اقبال کا ون ٹو ون انٹرویو سننے کا شرف حاصل ہوا، انٹرویو میں وزیر موصوف نے سی پیک کے بارے میں دلائل کے انبار پیش کیے، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ چینل حکومتی مؤقف کی ترجمانی کے لیے یہ پروگرام کروا رہا تھا، اور پروگرام میں ایسا تاثر دیا گیا کہ کام تو مغربی روٹ پر ہی جاری ہے. گودار سے سوراب تک چھ سو پچاس کلومیٹر روڈ کو مغربی روٹ قرار دیا گیا جو کہ مغربی روٹ نہیں ہے، جس نے یہ علاقہ نہیں دیکھا اسے کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ کام کہاں ہو رہا ہے؟ وہ یہی سمجھےگا کہ یہ دوسری پارٹیاں اور صوبے شاید بےوقوف ہیں کہ خطے میں گیم چینجر منصوبے کی مخالفت کر رہی ہیں، جب پاکستان کے پس ماندہ علاقوں میں تبدیلی نہیں آرہی تو پھر کیسے یقین کرلیا جائے کہ خطے میں تبدیلی کا منصوبہ ہے. خود اس وقت تک گوادر کے مقامی رہائشی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔

    بلوچستان میرا آنا جانا رہتا ہے، کوئٹہ اسی سوراب سے گذر کر جاتا ہوں. سوراب چار راستوں کے سنگم پر واقع ہے. ایک سڑک کراچی کی جانب، دوسرا راستہ خضدار سے رتوڈیرو سندھ، تیسرا راستہ کوئٹہ اور چوتھا راستہ گوادار کو جاتا ہے. اس وقت سوراب سے گودار والے روٹ پر کام جاری ہے اور یہ مغربی روٹ نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ راستہ ہے جو گودار سے لازمی یہاں تک بنے گا، اور یہی گودار سے پورے ملک کو لنک کرنے کا مختصر راستہ ہے. یہ مغربی روٹ نہیں،گوادر سے نکلنے والا مین روٹ ہے کیونکہ ساحل سمندر کے ساتھ بنائی گئی دوسری سڑک جو کہ پسنی، اور ماڑہ بوزی ٹاپ، ہنگول ندی سے ہوتے ہوئے کراچی کو لنک کرتی ہے، یہ طویل راستہ ہے، اس لیے پہلے مرحلے میں سوراب تک شارٹ ہائے وے تعمیر کی جا رہی ہے. اس سڑک اور کوری ڈور کو خضدار سے جیک آباد، رتوڈیرو سندھ سے لنک کیے جانے کی منصوبہ بندی ہے، جسے چھپایا جارہا ہے. کوری ڈور کا یہ حصہ بھی ضروری ہے کیونکہ اس سے سندھ کو فائدہ ہوگا مگر مغربی روٹ وہ ہے جو کہ سوراب، کوئٹہ سے ہوتے ہوئے برہان کو لنک کرے گا، اس روت پر خاموشی ہے. کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ دونوں روٹس پر انفراسٹرکچر یکساں ہوگا، لیکن جب اس سے زیادہ مناسب مغربی روٹ پر توانائی کے پلانٹ ہوں گے نہ کوئی صنعتی پارکس اور انفراسٹرکچر ہوگا تو پھر یہ کیسے یکساں ہوگا؟ توانائی اور دیگر پروجیکٹ کوئی چھوٹے منصوبے نہیں ہیں۔ یہ انڈسٹریل پارکس چھوٹے چھوٹے نہیں بلکہ پورے پورے شہر بنیں گے ۔ تو جب مغربی روٹ پر توانائی نہیں ہوگی، بجلی نہیں ہوگی، موٹر وے نہیں ہو گی تو کیسے یہ علاقے ترقی کریں گے۔

    ایک صوبے کے علاوہ تمام صوبے راہداری پروجیکٹ کے مخالف ہیں، کیوں؟ سوال بڑا اہم ہے اور جواب بہت سادہ کیونکہ انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اقتصادی زونز کے لیے جب پیسے ہی نہیں تو زونز کا اعلان کرکے لالی پاپ کیوں دیا جارہا ہے۔ سی پیک منصوبے کی کامیابی کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ سب سے پہلے بلوچستان کے عوام اور حکومت کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ ان کے اندر 69 سالوں سے محرومی کا احساس ختم ہو، اور ان کو بھی ترقی کے ثمرات میں پورا حصہ ملے. دلوں کو جیتنے کے لیے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی آگے آنا ہوگا اور سب سے زیادہ ضروری تو پاک فوج کا کردار ہونا چاہیے کہ جس پر پہلی بار بلوچ قوم اور نوجوان بھروسہ کر رہے ہیں. ان کو امید ہے کہ اب ان کے مسائل حل کروانے میں پاک فوج کردار ادا کرے گی. اکائیوں میں اتفاق سے قومیں تشکیل پاتی ہیں، جب صورت حال نازک ہو تو بڑے ہونے کا دعوی کرنے والوں کو چھوٹوں کو راضی کرنا پڑتا ہے ، پنجاب بڑا بھائی ہے اس لیے بڑی ذمہ داری اور قربانی بھی اسے دینا ہوگی۔ اس سے چھوٹے صوبوں میں وفاق اور پنجاب کی جانب سے خیر سگالی کا پیغام جائے گا اور چاروں صوبوں کے عوام میں محبت اور بھائی چارگی کو فروغ ملے گا، جبکہ سی پیک راہداری سے جنوبی پنجاب، سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پسماندہ علاقے کو ترقی کے مواقع ملیں گے۔

  • چائے کی تاریخ اور استعمال – عامر احمد عثمانی

    چائے کی تاریخ اور استعمال – عامر احمد عثمانی

    *چائے کی دریافت آج سے تقریبا پانچ ہزار سال قبل چینیوں کے عہد میں ہوئی۔
    *مختلف ممالک میں چائے کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سبز چائے مقبول ترین قسم شمار کی جاتی ہے۔
    *دنیا میں سبز چائے کی اتنی اقسام وانواع پائی جاتی ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔
    *یہ چائے کولیسٹرول کم کرنے، امراض قلب وجگر سے حفاظت اور ہاضمے کی درستگی کا اہم ذریعہ ہے۔

    چائے ہماری روز مرہ زندگی کا اہم جزو بن چکی ہے۔ دن کا کھانا ہو یا رات کا دسترخوان، مہمان کی خاطر مدارت کرنی ہو یا یارانِ محفل کی دلجوئی ولجمعی کا لحاظ رکھنا ہو، کوئی خوشی کی تقریب ہو یا غم کا موقع چائے پیش کرنا ایک روایت بن چکی ہے۔ ناشتہ تو چائے کے بغیر ایسا ہی لگتا ہے جیسے گاڑی ہو اور اس میں پیٹرول نہ ہو۔ یہ توچولی دامن کے ساتھی ہیں۔ امیر ہو یا غریب سب آپ کو اس روایت کی پیروی کرتے نظر آئیں گے۔ پاکستان میں اس مشروبِ گرم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گرمی ہو یا سردی چائے نوشی کا تسلسل بدستور جاری رہتا ہے اور اس کے پینے میں کوئی ناغہ ہرگز برداشت نہیں کیاجاتا۔ ایک سروے کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ مزدور طبقہ چائے کا زیادہ شوقین ہوتا ہے۔ کیوں کہ چائے میں ایسے مادے پائے جاتے ہیں جو وقتی طور چستی، پھرتی اور نشاط پیدا کرتے ہیں۔ لیکن کثرتِ استعمال کی وجہ سے ہمارے ذہن اس کے اتنے عادی بن چکے ہیں کہ اگر وقت پر چائے نہ ملے تو جسم تھکن محسوس کرنے لگتا ہے اور اعصاب ٹھوٹے پھوٹنے لگتے ہیں۔ برصغیر میں چائے کا چسکہ انگریز کی مرہونِ منت ہے۔ اس نے سب سے پہلے ہندوستانی لوگوں کو مفت چائے پلاکرانہیں اس کا عادی بنایا۔ پھر اس کی تھوڑی سی قیمت مقرر کرکے تجارت شروع کی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ قیمت بڑھتی چلی گئی اور برصغیر کے لوگو ں کی عادت بنتی چلی گئی۔

    چائے کی دریافت آج سے تقریبا پانچ ہزار سال قبل چینیوں کے عہد میں ہوئی۔ اور اس دریافت کا سہرا ایک چینی بادشاہ کے سر جاتا ہے جس نے علاج کی غرض سے جڑی بوٹیوں کے ساتھ چائے کے پودے کی بھی دریافت کی۔ چائے کا پودا ایک ایسی جھاڑی پر مشتمل ہوتا ہے جو سدا بہار ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں اس جھاڑی کے پتے کو ایک ٹکیہ کی شکل دی جاتی اور اس ٹکیہ کو پیس کرادرک اور مالٹے کے ساتھ استعمال کیا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس چورے کو نمک کے ساتھ استعمال کیا جانے لگااور پھر چین سے ہوتا ہوا یہ مشروب ترکی اور ہندوستان تک پہنچا۔ چائے میں سب سے پہلے دودھ کا استعمال چنگیز خان نے کیاجس نے چائے کو پہلی مرتبہ بطورِ پتی استعمال کیا۔

    چائے کی ایک اور قسم جسے ’’سبز چائے‘‘ کہا جاتا ہے، بعض قوموں اور قبیلوں کے نزدیک اس سبز چائے کا شمار اہم ترین مشروبات میں ہوتاہے۔ لیکن ہر قوم و قبیلہ کے قہوہ پیش کرنے کا انداز دوسرے سے مختلف اور جدا ہے۔ بعض تاریخی روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قہوہ چائے کی ابتداء حبشہ (موجودہ ایتھوپیا واقع براعظم افریقہ) کے’’ کافا‘‘ نامی علاقے سے ہوئی۔ اس کے بعد میلاد کے نویں سال قہوہ چائے رفتہ رفتہ حبشہ سے یمن کی طرف منتقل ہونے لگی۔ یمن منتقل ہونے کے بعد قہوہ چائے دھیرے دھیرے دنیا کے مشرقی ممالک میں مقبول ہوتی چلی گئی اور مشرقی ممالک میں قہوہ خانے قائم ہونا شروع ہوئے۔ یمنی شہر ’’بندقیہ‘‘ کے تاجروں نے قہوہ چائے کا کاروباروسیع کرتے ہوئے اسے جنوبی یورپ کے علاقوں میں میں بھیجنا شروع کیا اور پہلی مرتبہ سال 1615ء میں قہوہ یمن سے یورپ کی طرف منتقل ہوا ۔ چلتے چلاتے یورپ کے شمال وجنوب میں قہوہ چائے کا ڈنکا بجتا چلا گیا اور قہوہ چائے پھیلتی چلی گئی۔ یورپ کے بعد قہوہ چائے امریکا اور دوسرے ممالک میں میں بھی کاشت کی جانے لگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی پیداوار ا پوری دنیا میں پھیلتی چلی گئی اور چائے کی مختلف اور متعدد اقسام کی کاشت کا عمل شروع ہوگیا۔ آج نوبت یہاں تک پہنچی کہ البیان کی رپورٹ کے مطابق اگر پوری دنیا میں پھیلے قہوہ چائے کی اقسام اور اس کی تیاری کے مختلف طریقوں اور پیش کش کے مختلف سلیقوں کو شمار کرنے کی کوشش کی جائے تو شمار نہیں کیا جاسکتا۔

    محمد غسان جو ملک یمن کے علاقے ’’شارقہ ‘‘ کے ’’لوید‘‘ نامی مشہور قہوہ خانے میں کام کرنے والا ہے، وہ کہتا ہے: ہمارے ہاں ترکی اور مختلف عربی قسم کی قہوہ چائے بنائی جاتی ہے لیکن لوگوں کا سب سے زیادہ شوق سے عربی قہوہ پیتے ہیں۔ اس کی بہ نسبت ترکی ودیگر قہوہ جات کے کی طرف لوگ بہت کم مائل ہوپاتے ہیں۔ محمد غسان کا مزید کہنا ہے کہ عربی قہوہ کا معاملہ اب ہمارے ہاں بالکل ایسا ہی بن چکا ہے جیسا ابتداء میں سادہ قہوہ کا معاملہ ہوا کرتا تھا۔ اب ہمارے یہاںیہ ثقافت چل پڑی ہے کہ بڑے سے بڑے مہمان کے لئے اچھے سے اچھا عربی قہوہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ رواج قاہرہ، استنبول اور مختلف عرب سوسائیٹیز اور صحراوں میں رائج ہے۔براعظم افریقہ کے شمالی شہر الجزائر کی ثقافت سبز قہوہ پیش کرنے کی ہے جو مہمانوں کے سامنے تازہ تر کھجوروں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ، معمر اور بزرگ حضرات کے سامنے سب سے پہلے گرم گرم قہوہ پیش کیا جاتا ہے، جو انتہائی مقبول روایت ہے۔

    چینی سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ سبز چائے میں ایک ایسا کیمیکل ہوتا ہے جو ایل ڈی ایل یعنی برے کولیسٹرال کو کم کرتا ہے اور ایچ ڈی ایل یعنی اچھے کولیسٹرال کو بڑھاتا ہے ۔ پنگ ٹم چان اور ان کے ساتھی سائنسدانوں نے ہیمسٹرز لے کر ان کو زیادہ چکنائی والی خوراک کھلائی جب ان میں ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح بہت اونچی ہوگئی تو ان کو تین کپ سبز چائے چار پانچ ہفتے پلائی جس سے ان کی ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح نیچے آگئی ۔ جن ہیمسٹرز کو 15 کپ روزانہ پلائے گئے ان کی کولیسٹرال کی سطح ۔ کل کا تیسرا حصہ کم ہو گئی اس کے علاوہ ایپوبی پروٹین جو کہ انتہائی ضرر رساں ہے کوئی آدھی کے لگ بھگ کم ہو گئی ۔ میں نے صرف چائینیز کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے ۔

    سبز چائے میں پولی فینالز کی کافی مقدار ہوتی ہے جو نہائت طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہوتے ہیں ۔ یہ ان آزاد ریڈیکلز کو نیوٹریلائز کرتے ہیں جو الٹراوائلٹ لائٹ ۔ ریڈی ایشن ۔ سگریٹ کے دھوئیں یا ہوا کی پولیوشن کی وجہ سے خطرناک بن جاتے ہیں اور کینسر یا امراض قلب کا باعث بنتے ہیں ۔ سبز چائے انسانی جسم کے مندرجہ ذیل حصّوں کے سرطان یا کینسر کو جو کہ بہت خطرناک بیماری ہے روکتی ہے:مثانہ ۔ چھاتی یا پستان ۔ بڑی آنت ۔ رگ یا شریان ۔ پھیپھڑے ۔ لبلہ ۔ غدود مثانہ یا پروسٹیٹ ۔ جِلد ۔ معدہ ۔
    سبز چائے ہاضمہ ٹھیک کرنے کا بھی عمدہ نسخہ ہے ۔ سبز چائے اتھیروسکلیروسیس ۔ انفلیمیٹری باویل ۔ السریٹڈ کولائیٹس ۔ ذیابیطس ۔ جگر کی بیماریوں میں بھی مفید ہے ۔ ریح یا ابھراؤ کو کم کرتی ہے اور بطور ڈائی یورَیٹِک استعمال ہوتی ہے ۔ بلیڈنگ کنٹرول کرنے اور زخموں کے علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ دارچینی ڈال کر بنائی جائے تو ذیابیطس کو کنٹرول کرتی ہے ۔ سبز چائے اتھروسلروسس بالخصوص کورونری آرٹری کے مرض کو روکتی ہے ۔

  • اقتصادی راہداری اور ہمارا بیانیہ – ملک محمد بلال

    اقتصادی راہداری اور ہمارا بیانیہ – ملک محمد بلال

    جب سے اقتصادی راہداری کا ڈھنڈورا میرے ملک میں پیٹا گیا ہے، میں بہت خوش ہوں کیونکہ اب کسی بھی ”واردات“ پہ میں اپنے آپ کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتا ہوں کہ چونکہ ہم اس وقت دنیا کی سب سے بڑی منڈی کا حصہ بننے جارہے ہیں اور دشمن جسے شریکے کی وجہ سے یہ سب برادشت نہیں ہو رہا، اقتصادی راہداری کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے.

    بے شک وہ مائیں جن کے بیٹے صبح روٹی کمانے نکلے تھے اور رات ان کے لاشے گھر پہنچتے ہیں، ایسے کسی بھی منصوبے کو اپنے جوتے کی نوک پہ رکھتی ہیں، میں اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیتا ہوں کہ پوری قوم اقتصادی راہداری کے توسط سے جب ترقی کے زینے چڑھنے جا رہی ہے تو کیا ہوا جو چند غریبوں کا لہو اس راہداری کے تارکول میں کام آگیا ہے،
    بلکہ صرف میرا ہی نہیں میرے ملک کا مجموعی بیانیہ ہی یہ بات بن چکی ہے.

    کراچی تا خیبر کوئی بم حملہ ہو، دہشت گردی کا واقعہ ہو، یا پھر کوئی خود کش حملہ، میڈیا کے سامنے سول و ملٹری بیوروکریسی ہو یا کوئی سیاسی شخصیت، رٹو طوطے کی طرح ایک ہی بیانیہ جاری فرمایا جاتا ہے چونکہ ہم ایک عدد سڑک بنانے جارہے ہیں، اس لیے امریکی، ایرانی اور بھارتی قوموں سے ہماری ترقی دیکھی نہیں جارہی، اس لیے وہ اوچھے ہتھکنڈوں پہ اتر آئے ہیں.

    ہمارے اس بیانیے پہ مجھے وہ غریب خاتون یاد آجاتی ہے جسے خاوند نے ساری عمر کی کمائی سے سونے کی انگوٹھی بنوا کے دی تو اس بیچاری کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا ہوگیا، وہ پہنتی تو اس کی انگوٹھی کے طرف لوگوں کا دھیان ہی نہ جاتا، اس دکھ کو صرف عورت ہی سمجھ سکتی ہے، جب کوئی اس کی ”جیولری“ کی تعریف نا کرے تو اس پہ کیا بیتتی ہے. اس خاتون نے انگوٹھی کے نمائش کا عجب حل یہ نکالا کہ اپنی واحد کُٹیا کو ہی آگ لگا دی، اب جو کوئی پرسہ دینے آتا، اسے انگوٹھی نکال کے دکھاتی کہ سب کچھ جل گیا ہے، بس یہی ایک انگوٹھی بچی ہے.

    ہم پتہ نہیں کب سمجھیں گے کہ ریاست اہم ہوتی ہے نہ کہ اس میں بننے والی سڑکیں، جب ریاست میں آگ لگی ہو تو یہ سڑکوں کا لالی پاپ پاکستانی قوم کو ہی دیا جاسکتا ہے، کسی مہذب قوم کو نہیں، کیونکہ کسی بھی ریاست کا اصل مسئلہ امن عامہ قائم رکھنا ہوتا ہے نہ کہ سڑکیں بنانا کیونکہ مسلمہ اصول ہے کہ لوگوں کو امن میسر ہوگا تو وہ کاروبار کا سوچیں گے، کاروبار چلے گا تو لوگ تعلیم کی طرف آئیں گے کیونکہ خالی پیٹ اور اعصاب پر سوار دہشت کسی ریاست کو پنپنے نہیں دیتی.

  • سب سے پہلے چین؟ آصف محمود

    سب سے پہلے چین؟ آصف محمود

    آصف محمود صحافت اور پھر اردو صحافت، اب میر انیس ہی آئیں تو کوئی مرثیہ ہو۔ جذباتیت اور سطحیت کا آسیب اوڑھے بقلم خود قسم کے علاموں نے امورِخارجہ کو بھی کارِ طفلاں بنا دیا۔اب اگر سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند دوستی کے ذکر پر فرطِ جذبات سے لوگوں کی پلکیں نم ہو جائیں اور دلوں میں اٹھتی جوانیوں کی پہلی پہلی محبتوں کی کسک اٹھنے لگے توحیرت کیسی؟ ہماری نسل کو تو نیم خواندہ علاموں اور انڈر میٹرک تجزیہ نگاروں نے بتایا ہی یہی ہے کہ ہیر رانجھا، سسی پنوں، لیلی مجنوں اور شیریں فرہاد جیسی لوک داستانوں میں نیا اضافہ پاک چین دوستی ہے۔ جب فکر کی پختگی کا عالم یہ ہو تو پھر اس بات پر بھی کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ آپ سے کسی نجی چینل کا معروف اینکر سوال کرے: یہ کیسی دوستی ہے کہ چین بھارت سے این ایس جی پر بات چیت کے امکانات کھلے رکھے ہوئے ہے۔ کل شام ایک ٹاک شو میں جب مجھ سے یہی سوال ہوا تو کم از کم مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔

    پاک چین دوستی کو ہمارے ہاں اولین محبتوں کے مبالغے سے بیان کیا جاتا ہے۔ اس مبالغے کے زیر اثر اچھے خاصے معقول آدمی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر کبھی برا وقت آیا تو چین ہم پر فدا ہو جائے گا، برسوں سے یکطرفہ ممنونیت کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ ہماری گردنیں ہر وقت چین کے احسانات تلے دبی ہیں۔ ہر علامہ دیوان لکھتا ہے کہ چین نے ہمارے لیے یہ یہ کیا اور پھر اس لوک داستان میں رنگ بھرنے کے لیے اردو صحافت کے یہ افلاطون پاکستان کی بےوفائیوں اور کم ہمتی کا مرثیہ بھی پڑھ دیتے ہیں اور پھر گلوگیر لہجے میں کہتے ہیں: دیکھیں اس سب کے باوجود چین نے ہمارے لیے اتنا کچھ کیا۔

    ان مہ و سال میں بہت سے موہوم تصورات مرحوم ہو چکے ہیں۔ جوں جوں تعلیم اور شعور آئے گا ان بقلم خود علاموں کی پھیلائی فکری آلودگی بتدریج ختم ہوتی چلی جائے گی اور نفسیاتی گرہیں کھلتی چلی جائیں گی۔ پاک چین دوستی بھی ایک ایسا موضوع ہے جسے محبت کی لوک داستان کے بجائے امور خارجہ کا ایک پہلو تصور کر کے سمجھنا چاہیے۔ قوموں کے درمیان پیار، محبت اور وفا نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ قوموں کے درمیان صرف مفادات ہوتے ہیں۔ دو ممالک کا تعلق گاؤں کی پگڈنڈی یا کالج کی سیڑھیوں پر پروان چڑھنے والی دوستی یا محبت نہیں ہوتی، یہ ایک خالصتا مفادات کے لیے استوار رشتہ ہوتا ہے جو مفادات کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ چین سے پاکستان کے بلاشبہ بہت اچھے اور مثالی ہیں مگر یہ کسی لوک داستان کا نام نہیں۔ اپنی نفسیاتی گرہیں کھول کر ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

    پہلی بات یہ ذہن نشین کرنے کی ہے کہ چین کی ترجیح معیشت ہے۔ یہ ایک تاجر قوم ہے۔ اب تجارت کی اپنی نفسیات ہے۔ تجارت میں حساب سود و زیاں بڑا معنی رکھتا ہے۔ تاجر اگر سگا بھائی بھی ہو تب بھی وہ حساب سود و زیاں سے بے نیاز نہیں ہوتا، ایک قوم کیسے اس سے بے نیاز ہو سکتی ہے؟ اس دوستی کی بنیاد یہی حساب سود و زیاں رہے گا۔ یہ لیلی مجنوں کی لوک داستان نہیں بن سکتی۔

    دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ پاک چین دوستی میں زیادہ توجہ اس نقطے پر دی گئی ہے کہ چین نے ہمیں کیا دیا۔گاہے یوں لگتا ہے کہ ہم ایک بے وفا محبوب ہیں جس کی بار بار کی بےوفائیوں کے باوجود چین ایک سچے عاشق کی طرح اس پر فدا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ چین نے ہمارے لیے بہت کچھ کیا ہوگا تو جواب میں ہم نے بھی بہت کچھ کیا ہوگا۔ تبھی تو یہ دوستی قائم ہے۔ ہم جوابی امکانات کی دنیا جب تک آباد رکھیں گے یہ دوستی قائم رہے گی۔ قوموں کے تعلقات میں یک طرفہ ٹریفک نہیں چلا کرتی۔ احترام بجا لیکن ضرورت سے زیادہ یکطرفہ ممنونیت جو احساس کمتری میں مبتلا کر دے، اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ چین نے ان حالات میں پاکستان میں ڈیویلپمنٹ کا کام کیا تو کیا یہ صرف اس نے دوستی کی لاج رکھی۔ ایسا نہیں۔ یہ محض دوستی نہیں یہ چین برازیل اور میکسیکو کی معاشی پالیسی کا ایک بنیادی نقطہ بھی ہے کہ جنگی اثرات سے متاثر ممالک میں سرمایہ کاری کی جائے۔ اس کے اپنے فوائد ہیں جن کے بیان کے لیے ایک الگ نشست چاہیے۔

    تیسری بات یہ کہ سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند دوستی ابھی تک سرکاری سطح پر ہے۔ عوام الناس میں روابط نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمیں چین کے صدر، وزیراعظم ، وزیرخارجہ، وزیرداخلہ، وزیر تعلیم، چیف جسٹس میں سے شاید ہی کسی کا نام آتا ہو۔ ہم سے کتنے ہیں جو چین کے آٹھ شہروں کا نام گنوا سکتے ہیں۔ کتنے ثقافتی وفود آتے جاتے ہیں۔ سول سوسائٹی کے روابط کا عالم کیا ہے؟ افغانستان سے ہمارے کتنے رشتے تھے، مذہب کا رشتہ تھا، ہماری ایک صوبے کی ثقافت ملتی تھی، سرحد کے آر پار رشتہ داریاں تھیں، لیکن جب ان پر برا وقت آیا تو ہم یہ کہہ کر ایک طرف کھڑے ہو گئے کہ سب سے پہلے پاکستان۔ خدانخواستہ کبھی ہم پر برا وقت آیا تو چین بھی کہہ سکتا ہے: سب سے پہلے چین۔ اپنی تعمیر بھی خود کرنا پڑتی ہے اور اپنی جنگ بھی خود لڑنا پڑتی ہے۔ کوئی کسی کی آگ میں نہیں جلتا۔

    چوتھی بات یہ ہے کہ ہم کسی دوست کو بھلے وہ سمندروں سے گہرا اور ہمالہ سے اونچا ہی کیوں نہ ہو یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم سے دوستی رکھنی ہے تو بھارت کو چھوڑ دو۔ بھارت کی کنزیومر مارکیٹ کو نہ چین نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ ہی ہمارا کوئی اور دوست ملک۔ ہر ملک اپنے مفادات کو دیکھے گا۔ یہ گاؤں کی دوستی نہیں ہوتی جہاں ایک کی محبت میں لوگ دوسرے سے تعلقات خراب کر لیتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک طویل عرصہ ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے دونوں ملکوں میں گونجتے تھے اور تارا پور کے بھارتی ایٹمی ری ایکٹر کو ایندھن ایک عرصے سے چین فراہم کر رہا ہے۔ بےشک ان کے میزائلوں کا تعارف یہ ہو کہ یہ بیجنگ اور دلی تک مار کرتے ہیں، ان کی تجارت کا حجم کئی گنا بڑھ چکا ہے۔

    پانچویں بات یہ کہ امریکہ سے ہماری بےزاری اپنی جگہ لیکن عسکری اعتبار سے چین ہمارے لیے اس کا متبادل نہیں بن سکتا۔ یاد رہے کہ امریکہ کے صرف پینٹاگون کا بجٹ چین کے کل دفاعی بجٹ سے تین گنا زیادہ ہے۔

    چھٹا اور آخری نقطہ یہ کہ اگر کبھی چین دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا جیسے آج امریکہ ہے تو اس کا رویہ کیسا ہوگا۔ یاد رہے کہ چین اس خطے میں سب سے پہلا ملک تھا جس نے اسلامی دہشت گردی کے خلاف ’ شنگھائی فائیو‘ بنائی۔ اس کے مقاصد میں لکھا ہے کہ اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ۔ (اصطلاح قابلِ توجہ ہے)۔

    ان نقاط کے اٹھانے کا مطلب چین کی دوستی پر انگلی اٹھانا ہرگز نہیں ہے۔ بلاشبہ چین ایک بہترین دوست ہے اور اس سے دوستی میں امکانات کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔ ان گزارشات کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم امورِ خارجہ کو سنجیدگی سے سمجھیں۔ جس طرح جنگ صرف جرنیلوں پر نہیں چھوڑی جا سکتی اسی طرح امورِ خارجہ ’ معروف تجزیہ نگاروں‘ پر نہیں چھوڑے جا سکتے۔ دودھ کے دانت اب گر جانے چاہییں۔

  • قبلائی خان – سجاد حیدر

    قبلائی خان – سجاد حیدر

    سجاد حیدر بوڑھا خان بستر مرگ پر تھا. اردگرد بیٹوں, پوتوں، حکومتی زعماء اور مذہبی رہنماؤں کا گھیرا تھا. بوڑھا شامان خان کے سرہانے کھڑا منہ ہی منہ میں بدبدا رہا تھا اور آسمانی روحوں سے خان کی سلامتی مانگ رہا تھا. سب لوگ اس فکر میں غلطاں تھے کہ بوڑھے خاقان کے مرنے کے بعد اس عظیم سلطنت کا کیا بنے گا جس کی بنیاد خاقان اعظم نے صحرائے گوبی کے وحشی اور خونخوار قبائل کو متحد کر کے رکھی تھی. یہ سلطنت اب ایک طرف چین تو دوسری طرف یورپ تک پھیل چکی تھی. کیا ایران اور کیا ہندوستان سب جگہیں منگولوں کے گھوڑوں کے سموں تلے پامال ہو چکی تھیں. معلوم دنیا کا غالب حصہ اس عظیم فاتح کے زیر نگیں آ چکا تھا، اور اگر چند سال مزید مہلت مل جاتی تو باقی دنیا بھی تاتاری سلطنت کا حصہ ہوتی. کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خاقان مر بھی سکتا ہے، یقین تو خود خاقان کو بھی نہیں آ رہا تھا، ساری زندگی دوسروں کی زندگیوں کا فیصلہ کرنے والے نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن موت اس کے خیمے میں بھی داخل ہو سکے گی. خان کی نظریں خیمے میں موجود تمام افراد کا فردا فردا جائزہ لے رہی تھی. خاقان اعظم کے چاروں بیٹے، گیارہ پوتے، داماد، سرداران سلطنت، شاہان سب خیمے میں دم بخود کھڑے تھے. اچانک خاقان کی نظریں ایک گیارہ سالہ لڑکے پر جم گئیں، شامان خاقان کی نظروں کا اشارہ سمجھ گیا اور لڑکے کو قریب بلایا. خاقان نے انگلی کے اشارے سے بچے کی طرف اشارہ کر کے کہا، میرا یہ پوتا مجھ سے بڑی سلطنت کا مالک ہوگا اور میرے سے زیادہ لمبی عمر پائے گا.

    پیش گوئی کرنے والا خاقان اعظم چنگیز خان تھا اور جس بچے کے بارے میں یہ الفاظ کہے گئے اسے تاریخ قبلائی خان کے نام سے جانتی ہے. چنگیز خان جب پیدا ہونے کے بعد اپنے باپ یوساکائی کی گود میں آیا تو باپ نے دیکھا کہ بچے کی ایک مٹھی بند ہے اور دوسری کھلی، بند مٹھی کو جب کھولا گیا تو اس میں گوشت کا ایک ٹکڑا سرخ پتھر کی مانند موجود تھا، بچہ اپنے ساتھ ماں کے جسم کا ایک ٹکڑا بھی نوچ لایا تھا. یوساکائی جھیل بیکال کے کنارے بسنے والے ایک چھوٹے سے منگول قبیلہ کا سردار تھا اور صحرائےگوبی میں آوارہ گردی کرتے وحشی اور خونخوار قبائل کے ساتھ جھڑپیں روزانہ کا معمول تھا. باپ نے بیٹے کی فطرت کا اندازہ لگاتے ہوئے اس کا نام تموچن رکھا. یہی تموچن باپ کے مرنے بعد صحرائے گوبی کے منگولین قبائل کو جمع کر کے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوا اور 1206 عیسوی میں اپنی سلطنت کے تمام قابل ذکر سرداروں کو جمع کر ان کے سامنے چنگیز خان کا لقب اختیار کیا. چنگیز خان کے چار بیٹے جوجی خان، چغتائی خان، تولی خان، اوگدائی خان اور پانچ بیٹیاں اس کی سب سے پیاری اور پہلی بیوی بورتے خاتون کے بطن سے تھیں. شادی کے کچھ ہی عرصے بعد بورتے خاتون کو ایک مخالف قبیلے کے سردار نے اغوا کر لیا تب تک تموچن ابھی چنگیز خان نہیں بنا تھا. تموچن ایک لمبے عرصے اور کئی خونخوار معرکوں کے بعد بورتے خاتون کو واپس لانے میں کامیاب ہو گیا لیکن تب تک بورتے خاتون حاملہ ہو چکی تھی. اس حادثے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کو بورتے خاتون کی محبت میں چنگیز خان نے تو قبول کر لیا لیکن دوسرے منگولوں نے اسے قبول نہیں کیا اور جوجی یعنی باہر والا کے نام سے پکارتے رہے. اور یہی اس کا نام پڑ گیا. جوجی خان یعنی باہر والا.

    چنگیز خان خان کی فطرت کا یہ ایک عجیب پہلو ہے، ایسا وحشی کہ جب ہرات کو فتح کیا تو اپنے گورنر کی موت کا بدلہ لینے کے لیے 1600000 افراد کا ایک ہفتہ میں قتل کروا دیا اور دوسری طرف اپنی بیوی کی محبت میں اپنے دشمن کے خون کو بھی گلے سے لگا کر رکھا اور اپنا نام اور مرتبہ بھی عطا کیا. چنگیز خان کے مرنے کے بعد چغتائی خان نے حکومت سنبھالی، کچھ ہی عرصے بعد چغتائی خان کے مرنے کے بعد تولی خان کا بڑا بیٹا منگو خان اس سلطنت کا وارث بنا. منگولوں نے لڑ کر اتنی فتح حاصل نہیں کی، جتنا خوف پھیلا کر حاصل کی. بہت سے شہر منگولوں کا نام سنتے ہی ہتھیار ڈال دیا کرتے تھے. یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ منگول میدان جنگ میں جتنے خونخوار اور وحشی تھے، معاملات حکومت میں اتنے ہی عقل مند اور وسیع الظرف تھے. بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو لوگ چنگیز خان اور اس کے لشکریوں کی تلوار سے بچ گئے. وہ کئی جہتوں سے خوش نصیب کہلائے. منگول سلطنت میں جو امن اور خوشحالی تھی. وہ اس سے پہلے عوام کو کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی. منگول سلطنت میں مکمل مذہبی آزادی تھی. منگولوں نے نہ تو کسی کو اپنا قدیم مذہب اختیار کرنے کے لیے کہا بلکہ ہر شخص کو مکمل آزادی تھی کہ اپنے مذہب کی عبادت گاہ تعمیر کرے اور مکمل آزادی سے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو. یہ بات اس دور کے لحاظ سے ایک عجیب بات تھی. ایشیا کے تمام راستے مکمل طور پر محفوظ اور خطرات سے پاک تھے. جن پر تجارتی قافلے بلا خوف و خطر سفر کر سکتے تھے. چنگیز خان کی سلطنت بحر اسود سے لے کر بحرالکاہل تک پھیلی ہوئی تھی اور جنوب میں ہمالیہ تک کا علاقہ اس کے زیر نگیں تھا.

    قبلائی خانچنگیز خان کی وفات کے تیس سال بعد اس کی پیش گوئی پوری ہوئی اور منگو خان کے بعد قبلائی خان اس وسیع سلطنت کا حکمران بنا. اس سے پہلے منگو خان کے دور میں سقوط بغداد کا سانحہ ہوا، آخری عباسی خلیفہ قتل ہوا اور ایک اندازے کے مطابق 800000 افراد لقمہ اجل بنے. پورا چین فتح ہو، کچھ تواریخ کے مطابق تقریبا پونے دو کروڑ چینی مارے گئے. 1259 عیسوی میں ہو چو کے مقام پر ایک جنگ میں منگو خان مارا گیا اور قبلائی خان خاقان اعظم مقرر ہوا. مختلف تہذیبوں کے اختلاط اور علوم و فنون کے نابغہ روزگار افراد کے منگول سلطنت میں جمع ہونے کی وجہ سے منگول بھی اپنی فطرت بدلنے پر مجبور ہوگئے تھے. یہ اثر قبلائی خان نے بھی قبول کیا تھا. حکومت کرنے بارے اس کے نظریات اپنے دادا اور چچا سے مختلف تھے وہ منگولوں کی اس شہرت کو ناپسند کرتا تھا جس کا مطلب صرف خون بہانا اور بستیوں کو اجاڑنا تھا.

    اپنے بھائی کے دور حکومت میں معاملات کو حل کرنے کے لیے وہ خون بہانے کے بجائے سفارتی ذرائع اختیار کرنا پسند کرتا تھا. یہی وجہ تھی کہ وہ کبھی بھی منگو خان کے پسندیدہ افراد کی فہرست میں جگہ نہ پا سکا. اکثر اوقات اسے منگو خان کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن جب وہ خود خاقان بنا تو اسے اپنے طریقے سے حکومت کرنے کا پورا موقع ملا اور اپنی امن پسند طبیعت کی بنا پر جلد ہی وہ وسیع منگول سلطنت میں مقبولیت حاصل کر گیا. اس کی شہرت اپنے دادا چچا اور بھائی سے بالکل مختلف تھی. قبلائی خان کے طویل دور حکومت نے منگولوں کی وسیع سلطنت کو ایک پرامن اور مضبوط معیشت والے ایسے ملک میں بدل دیا، جس کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے ہزاروں میل کا دشوار گزار سفر کر کے تجار اور کاروباری حضرات چین میں آتے اور چین کے اشیاء سے بھرے بازار، مال تجارت کو ذخیرہ کرنے کے لیے تعمیر وسیع و عریض گوداموں اور دنیا کی مختلف اقوام کے لوگوں کو گلیوں میں چلتے پھرتے دیکھ کر ورطہ حیرت میں پڑ جاتے. قبلائی خان کے دور میں منگول سلطنت, جسکا مرکز منگولیا سے چین میں منتقل ہو چکا تھا, کو جو عظمت, امن اور استحکام نصیب ہوا. چین نے اس کا تجربہ پہلے نہیں کیا تھا. اس دور میں چین کے اندر یہ ایک معجزے سے کم نہیں تھا.

    مغرب سے آنے والے تاجروں کے لیے بھی یہ ایک انوکھا تجربہ تھا. یہاں سے سونا، چاندی اور ریشمی کپڑا خریدنے کے لیے ایشیا کے دوردراز.علاقوں سے تجارتی قافلے چین کا رخ کرتے. مال تجارت سے بھرے گودام نہروں اور دریاؤں کے کنارے واقع تھے تاکہ سامان کی ترسیل میں آسانی ہو. نہروں اور دریاؤں کو مضبوط پلوں کے ذریعے ملایا گیا تھا. سونے اور چاندی کی تاروں سے آراستہ لباس تیار کرنے والے کارخانے تھے. مال تجارت میں ایک بڑا حصہ ریشمی کپڑے کا تھا جو چین کا خاصا سمجھا جاتا تھا. تاجر دوردراز سے یہی کپڑا خریدنے چین کا رخ کرتے. 1340 عیسوی میں تاجروں کی رہنمائی کے لیے اٹلی سے شائع شدہ ایک کتاب کے مطابق چین جانے والے راستے انتہائی محفوظ اور پرامن ہیں جہاں دن رات کے کسی بھی حصہ میں بلا خوف و خطر سفر کیا جا سکتا ہے. اس بات کا یورپ میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا. جس وقت یورپ لٹیروں اور ڈاکوؤں کی آماجگاہ تھی، اس وقت ایشیا تجارت کے لیے ایک پر امن جگہ سمجھی جاتی تھی. پیرس میں آج بھی قبلائی خان کی مہر کےساتھ وہ خطوط محفوظ ہیں جو تبریز سے فرانس بھیجے گئے تھے. قبلائی خان یورپی اقوام کے فہم و تدبر کا بہت قائل تھا. وہ چاہتا تھا کہ یورپین آ کر ملکی انتظام و انصرام کا حصہ بنیں. وجہ یہ تھی کہ منگول ان صلاحیتوں سے بہرہ مند نہیں تھے جو ایک وسیع و عریض اور جدید سلطنت کے انتظامات کے لیے ضروری تھیں. چینی لوگوں پر اعتماد کرنے کے لیے وہ تیار نہیں تھا کہ کہیں وہ اس کی سلطنت کو عدم استحکام سے دوچار نہ کر دیں. یہی وجہ تھی کہ وہ ساری دنیا سے جوہر قابل کو اپنے دربار میں دیکھنا چاہتا تھا. اور اس مقصد کے لیے ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا. پیکنگ میں قبلائی خان کے دربار میں دنیا کے ہر ملک کا سفیر حاضر ہوتا تھا. وہ علم اور عالموں کا قدردان تھا. قبلائی خان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ وہ منگولوں کو جدید علوم سیکھنے کی طرف مائل کر سکے. صحرائی علاقوں کے رہنے والوں کی فطرت کے مطابق منگول خود بھی جفاکش اور بہت جلد سیکھنے والے لوگ تھے.

    قبلائی خان کا محل بیک وقت ایک ہزار سواروں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا تھا. اس محل کے گردا گرد ایک دیوار تھی جس کا محیط 16 میل یا 25 کلومیٹر تھا. اس محل کے مین ہال میں سولہ ہزار کرسیوں کی گنجائش تھی. یہ ہال سونے چاندی اور قیمتی کپڑے سے مزین کرسیوں سے سجا تھا. قبلائی خان کی ذاتی رہائش گاہ کے گرداگرد دنیا کے نایاب اور خوبصورت پیڑ، پودوں سے سجے باغات تھے جن کے پھولوں کے منفرد رنگوں اور خوشبوؤں پر جنت کا گماں ہوتا تھا. جب قبلائی خان کھانا کھاتا تھا تو اس کی خدمت پر معمور خادمائیں اپنے منہ کو ریشمی رومال سے ڈھانپ کر رکھتی تھیں کہ کہیں ان کی سانسیں خاقان کے کھانوں کو متاثر نہ کر دیں. خاقان کی موجودگی میں کسی کو بھی بولنے کی اجازت نہ تھی، خواہ وہ کتنے بڑے عہدے کا مالک ہی کیوں نہ ہو. دربار شاہی سے آدھے میل تک کسی بھی قسم کے شور و غل کی اجازت نہ تھی. اس کے دربار میں حاضر ہونے والے ہر شخص کو سفید چمڑے سے بنے جوتے پہننے پڑتے تھے تاکہ سونے اور چاندی کی تاروں سے مزین قیمتی قالین خراب نہ ہوں. ہر شخص اہنے ہاتھ میں ایک اگالدان رکھتا تھا کہ کہیں غلطی سے بھی تھوک قالینوں کو گندہ نہ کر دے. مارکو پولو کے مطابق خاقان اعظم کی چار بیویاں تھیں لیکن یہ قانونی تھیں. ان کے علاوہ وسیع تعداد میں باندیاں اور لونڈیاں بھی موجود تھیں، جن کے دم قدم سے حرم شاہی آباد تھا. ان باندیوں کا انتخاب ایک قدیم منگول روایت کے تحت کیا جاتا تھا. ہر دو سال بعد خاقان کے آدمی تاتاری صوبے انگوت جاتے تھے جہاں کی عورتیں اپنی رنگت اور خوبصورتی میں یکتا تھیں. وہاں سے بڑی چھان پھٹک کے بعد سیکڑوں خواتین کا چناؤ کیا جاتا تھا. ان کی خوبصورتی کو قیمتی پتھروں کی طرح قیراط میں ماپا جاتا تھا. ہر پہلو سے دیکھ بھال کر انکو رنگت، چہرے کے نقوش، خدوخال، چال ڈھال اور جسمانی نشیب و فراز کے حساب سے نمبر دیے جاتے تھے. جو لڑکی بیس یا اکیس قیراط کی حد کو چھو لیتی تو اسے دارالحکومت میں لایا جاتا. اگلے مرحلے میں ان لڑکیوں کو کسی امیر یا درباری کی بیوی کے حوالے کیا جاتا جو اس لڑکی کی مزید چھان پھٹک کرتی کہ کہیں وہ کسی اندرونی خرابی کا شکار تو نہیں، یہ عورت اس لڑکی کو اپنے ساتھ سلاتی کہ کہیں لڑکی خراٹے تو نہیں لیتی، رات کے مختلف اوقات میں اس کی سانس کی بو کا معائنہ کیا جاتا، دیکھا جاتا کہ کہیں وہ زیادہ کروٹیں تو نہیں بدلتی، یا اس کے جسم سے ناگوار بو تو نہیں آتی. ان تمام مراحل کے بعد کامیاب لڑکیوں کو اس قابل سمجھا جاتا تھا کہ وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضری دینے کے قابل ہیں اور ہر طرح سے بادشاہ کی خدمت کر سکتی ہیں. پانچ لڑکیوں کی ایک ٹولی تین دن اور تین راتیں خاقان کی خدمت میں گزارتیں، اس کے بعد نئی ٹولی اس خدمت پر معمور ہو جاتی. قبلائی خان کے پورے دور حکومت میں منتخب دوشیزاؤں کی فوج ظفر موج اس انتظار میں رہتی کہ کب ان کی باری آئے اور انہیں خاقان کی خدمت کا موقع مل سکے. خاقان کے بیٹے بیٹیوں کی تعداد 47 بتائی جاتی ہے. اکثر جنگوں میں افواج کی قیادت اس کے اپنے بیٹے کرتے.

    1265ء میں جب اطالوی تاجر نکولو پولو اور میفیو پولو قبلائی خان کے دربار میں حاضر ہوئے تو وہ اس دربار میں پہنچنے والے پہلے یورپین تھے. چونکہ وہ تاتاری زبان سیکھ چکے تھے لہذا فورا ہی قبلائی خان کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے. ان کے پاس خان کو بیچنے کے لیے کچھ نہیں تھا سوائے مذہب کے. تو دونوں بھائیوں کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح خان کو عیسائیت کی طرف مائل کر سکیں. قبلائی خان کو یسوع مسیح کی کہانی میں بڑی دلچسپی تھی لیکن وہ آخر تک یہ نہ سمجھ سکا کہ آخر یسوع انتہائی کسمپرسی کی حالت میں صلیب پر کیوں لٹک گیا. ہاں پوپ کی مجرد زندگی کے ذکر نے اسے بہت متاثر کیا کہ اتنی طاقت اور دولت کا مالک ہونے کے باوجود تجرد کی زندگی گزارتا ہے جس کا خان تصور بھی نہیں کر سکتا تھا. قبلائی خان نے دونوں بھائیوں کو واپس بھیجا کہ کہ پوپ سے درخواست کی جائے اور کم از کم سو آدمی بھیجے جائیں جو منگولوں کو مختلف علوم سکھا سکیں. جب پولوز واپس آئے تو ان کے ساتھ نکولو پولو کے چھوٹے بیٹے مارکو پولو کے علاوہ کوئی نہیں تھا. پوپ کے بھیجے باقی آدمی ابتدائے سفر میں ہی راستے کی صعوبتوں سے گھبرا کر واپس چلے گئے تھے. پولوز اگرچہ قبلائی خان کو عیسائی تو نہ بنا سکے لیکن عیسائی تاجروں کے لیے بہت سی مراعات حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے. عیسائی دنیا کی بزدلی سے مایوس ہو کر قبلائی خان تبت کے مذہب بدھ مت کی طرف مائل ہو گیا اور تبت کا قدیم مذہب کو اختیار کر لیا. قبلائی خان نے اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کچھ خاص کامیابی حاصل نہ کر سکا. جاپان کو فتح کرنے کی دو کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں، اسی طرح کوچین چین یعنی ویت نام کو فتح کرنے کی کوشش بھی ناکام ہوئی. البتہ برما میں منگولوں کا یاک کی نو دموں والا جھنڈا لہرانے میں ضرور کامیاب ہوا اور برما اس کی سلطنت کا حصہ بن گیا. 1294ء میں بیاسی سال کی عمر میں یہ عظیم خاقان اپنی زندگی کی جنگ ہار گیا. اس کی تمام بیویوں کو زندہ اس کے ساتھ دفن کر دیا گیا. اور کئی خدمتگاروں کو بھی ساتھ ہی دفنا دیا گیا کہ جاؤ اور دوسری دنیا میں اپنے ولی نعمت کی خدمت کرو. قبلائی خان نے مشرق اور مغرب کو اس وقت اکٹھا کرنے کی کوشش کی جب وہ ایک دوسرے کے وجود سے بھی بے خبر تھے. قبلائی خان کے بعد اس کی عظیم سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور جہالت کے اندھیروں نے ایک بار پھر ایشیاء کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.

  • بند گلی کے مکین – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    بند گلی کے مکین – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش مقام …. بند گلی.
    مکین….
    حکومت /مسلم لیگ (ن)
    پاکستان تحریک انصاف
    اسٹیبلشمنٹ
    یہاں تک کیسے پہنچے ..

    مسلم لیگ ن:
    1. پانامہ پیپرز کے ہنگام وقت گزاری کو شفا پر محمول کر لیا، یہ اندازہ ہی نہیں کر سکے کہ مخالف کا عزم کتنا قوی ہے. بجائے اس کے کہ اتنا وقت گزر جانے پر یہ معاملہ بھلا دیا جاتا، اب یہ ایک پریشر ککر بن گیا ہے. ہر گزرتا دن اس پریشر ککر کے پھٹ جانے کے امکانات میں اضافہ کر رہا ہے.
    2. ڈان نیوز والے واقعہ نے فوج کے ساتھ بھی معاملات خراب کر دیے. بار بار اس بات کا اعادہ کہ حافظ سعید یا مولانا سمیع الحق کے جماعتی کارکن تحریک انصاف کے دھرنا میں شامل ہوں گے فوج کے ساتھ معاملات کو بگاڑ سکتا ہے کیونکہ بظاہر یہ سب دہراتے رہنے کا مقصد یہی ہے کہ اس کے پیچھے فوج کا ہاتھ تلاش کیا جائے.

    تحریک انصاف:
    1. حکومت کو قبل از وقت ہٹانے کا ایک اور موقع. خانصاحب کے پچھلے اور آئندہ دھرنے میں ایشو مختلف ہو سکتا ہے لیکن تقاضا ایک ہی ہے، نواز شریف مستعفی (یا برطرف) ہو جائیں.
    2. اسے اپنی سیاسی زندگی کا اہم ترین پوائنٹ قرار دے دیا. یعنی Stakes کو انتہائی درجہ تک بلند کر دیا. اب پیچھے ہٹنا سیاسی موت کے مترادف ہے.

    3. اسٹبلیشمنٹ :
    1. بظاہر یہ کہ وزیراعظم کو ذرا اور ٹائیٹ کیا جائے.
    2. بالخصوص سی پیک کے حوالہ سے یہ باور کروانا کہ اس ملک میں دراصل تسلسل کی علامت وہ ہیں، سیاسی انتظام نہیں.

    اندازوں کی ممکنہ غلطی.
    ن لیگ:
    کچھ وقت عدالت سے پہلے ضائع کردیا اب باقی ڈیڑھ سال سپریم کورٹ کی پیشیوں میں نکل جائے گا.
    عمران خان پر کرپشن کے جوابی الزامات لگا کر اپنے لیے سپیس لی جا سکتی ہے، بہت بڑی غلط فہمی ہے. خانصاحب نے کچھ غلط کیا ہے تو ان. پر گفت کی جائے، لیکن اس کو حکومت اپنے پر لگے الزام کے دفاع کے لیے کیونکر استعمال کر سکتی ہے.
    تحریک انصاف:
    نواز شریف صاحب/حکومت کی برطرفی سے پنجاب میں ان کے لیے راستہ کھل جائے گا. چونکہ پنجاب میں زیادہ سیٹیں مرکزی حکومت کا فیصلہ کرتی ہیں اس لیے لامحالہ تحریک انصاف کے لیے “سم سم” کا دروازہ کھل جائے گا. اگر سسٹم ٹوٹا تو اگلے ہی دن دوبارہ روبہ عمل نہیں ہو جائے گا. ماضی پر نظر ڈال کر تحریک انصاف دیکھ سکتی ہے کہ 2018 زیادہ قریب ہے یا 2026.
    اسٹیبلشمنٹ:
    وزیراعظم نواز شریف کے رہنے یا نہ رہنے سے سی پیک پر کچھ اثر نہیں پڑے گا. اگر یہ بات سچ ہوتی کہ محض فوج کے دبدبے سے کام نکلنے لگتے ہیں تو کالاباغ ڈیم کب کا بن چکا ہوتا.
    چین کی یہ پلاننگ ہے کہ نجی شعبہ کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر متوجہ کیا جائے. اگر اسلام آباد میں کوئی حادثاتی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے تو اس بات کو بہت زک پہنچے گی کیونکہ سیاسی استحکام کا سب تاثر جاتا رہے گا. یہ ایک بڑا نقصان ہو گا.
    عمران خان صاحب اس دفعہ اپنے آزادانہ فیصلے کرنے کی راہ پر جا کر سب کو سر پرائز دے سکتے ہیں.

    مسئلہ کا حل
    1. باعزت :
    سپریم کورٹ اس بات کو یقینی بنائے کہ انصاف کے تقاضے ہر طرح سے مکمل کیے جائیں. حکومت یہ یقینی بنائے کہ اس کی جانب سے تاخیری اور انتظامی حربے استعمال نہ ہوں. تحریک انصاف بھی اپنا احتجاج کچھ مؤخر کرے اور سپریم کورٹ سے استدعا کرے کہ سماعت کو جلد از جلد مکمل کیا جائے.
    2. خجالت آمیز:
    چین کردار ادا کرے اور سب پارٹیوں کو سمجھائے بھی اور ان کا گارنٹر بھی بنے کیونکہ وہ سی پیک کا بنیادی اسٹیک ہولڈر ہے. لیکن یہ بحیثیت قوم ہم سب کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہو گا.

    02 نومبر کے ممکنہ سائیڈ ایفیکٹس.
    1. دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ.
    2. بھارت کی جانب سے سچ میں سرجیکل اسٹرائک یا دیگر کارروائی.

    اس میں اہم بات یہ ہوگی کہ ایسی کسی واقعہ کے بعد ہم نے آپس میں ہی لڑنا اور الزام تراشیاں کرنا ہے یا بھارت کو ایک متحد جواب دینے کی صلاحیت کا اظہار کرنا ہے.

    اختتامی بات.
    ہمیں یہ سیکھنا ہو گا کہ کس درجہ کا احتجاج آخری درجہ ہو گا. اس کے بات ہر دو اطراف کو سنجیدہ اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ بات اس سے آگے نہ بڑھے.
    بات اب اسلام آباد بند کیے جانے تک تو آ گئی ہے جبکہ ایسا تو کسی جنگ کے دوران بھی نہیں ہؤا. اس سے آگے کیا ہوگا، یہ سوچنا ہی محال ہے. پھر بھی سوچنا چاہیں تو اٹھارہ اور انیسویں صدی کے دہلی کو دیکھ لیجیے.

  • خود شکنی – ہارون الرشید

    خود شکنی – ہارون الرشید

    ہارون الرشید تجارتی راہداری پہ اتفاق رائے آخر کیوں ممکن نہیں؟ پاناما لیکس پر تحقیقات کے لئے اتفاق کیوں ممکن نہیں؟ خود شکنی سے گریز کیوں ممکن نہیں؟
    کیا تجارتی راہداری کے باب میں ایسا کوئی فارمولا سامنے آنے والا ہے‘ جو تند و تلخ بحث کا خاتمہ کر دے؟

    بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ پر‘ چینی سفیر سن دی ڈونگ کے ساتھ کپتان کی ملاقات کے بعد‘ کچھ امید تو کی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی صورت بھی چین اس منصوبے سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ 46 ارب ڈالر میں سے چودہ ارب ڈالر پہلے ہی خرچ ہو چکے ہیں‘ ان منصوبوں پر جن کے بل پر توانائی کا بحران ختم ہونے کا یقین ہے۔
    چین کے جنوب میں واقع ان جزیروں کا تنازع‘ پاکستان میں کچھ زیادہ زیر بحث نہیں آیا‘ مستقبل میں جو ایک بڑے عالمی تنازعے کا باعث بن سکتا ہے۔ چین اور اس کے پڑوسی ممالک میں اس پر کشمکش مدت سے چلی آتی ہے۔ امریکہ اس میں اب فریق ہے۔ چند ماہ قبل عالمی عدالتِ انصاف نے بیجنگ کے خلاف فیصلہ صادر کیا۔ اس فیصلے کو چین نے مسترد کر دیا۔ اس کا احساس یہ ہے کہ یہ فیصلہ عدل نہیں‘ رسوخ کی بنیاد پہ صادر ہوا۔

    صدر ڈیگال نے کہا تھا: امریکہ دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے۔ 1992ء میں افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی اور فوراً بعد اس کے انہدام پر‘ صدر بش سینئر نے نئے عالمی نظام (New World Order) کا نعرہ بلند کیا تھا۔ برطانیہ کو تو خیر امریکی ”پوڈل‘‘ کہا جاتا ہے‘ یورپی یونین بھی اس کے زیر اثر ہے۔ ریاست ہائے متحدہ‘ دنیا کی سب سے بڑی فوج رکھتا ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ 671 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں اس کے مسلح دستے موجود ہیں۔ جہاں وہ موجود نہیں‘ وہاں سمندروں میں اس کے وسیع و عریض جنگی جہاز حکمران ہیں۔ اس کرّہ خاک پر بسنے والے سات ارب انسانوں کو وہ اپنی رعایا سمجھتا ہے۔

    کچھ ممالک اس کے زیر اثر ہیں اور کچھ کو وہ حریف سمجھتا ہے۔ ہنری کسنجر نے‘ جنہیں تاریخ کا سب سے زیادہ موثر وزیر خارجہ کہا جاتا ہے‘ ایک بار کہا تھا: امریکہ کی دوستی‘ اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے‘ جو اس کے دوست تھے۔ ایسا دوست امریکہ جو ہمارا پیر تسمہ پا ہے۔ چھٹکارے کی کوئی صورت بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔

    اسلامی جمہوریہ پاکستان سے امریکیوں کو شکایت کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں‘ اگر اسلام آباد اور راولپنڈی‘ سول اور ملٹری لیڈرشپ‘ اس کے سامنے سرنگوں ہو جائے۔ امریکی ترجیحات کیا ہیں؟ اس خطہ ارض میں چین کے کردار کو محدود کرنا۔ تین عشروں میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی چینی معیشت گیارہ ہزار ارب ڈالر کو جا پہنچی ہے۔ اسی اثنا میں امریکی اقتصادیات میں شرح نمو نسبتاً کم رہی۔ موجودہ صورتحال اگر باقی و برقرار رہتی ہے تو ممکن ہے کہ پندرہ بیس برس میں چین‘ امریکہ کے برابر آ جائے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟

    اپنی ترجیحات میں امریکہ بہادر بہت سنجیدہ ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے یہ اس کے عالمی غلبے کا سوال ہے‘ جس کے خیرہ کُن دور کا آغاز ربع صدی پہلے ہوا تھا۔ سرخ فوج کو افغانستان سے جب بے نیل و مرام واپس لوٹنا پڑا‘ امریکی رعونت نے تب شکست خوردہ روس ہی کو محدود کرنے کا ارادہ نہ کیا تھا بلکہ پاکستان کو بھی‘ جس کے بغیر ساڑھے تین سو سال سے فروغ پذیر روس کی واپسی کا وہ تصور بھی نہ کر سکتا ۔

    جنرل محمد ضیاء الحق کا قتل اسی کا شاخسانہ تھا۔ 17 اگست 1988ء کو پاکستانی جنرلوں کے قتل سے پہلے پے در پے امریکی وفود پاکستان کا دورہ کرتے رہے‘ جنرل کو ہموار کرنے کے لیے اور اگر وہ نہیں تو وزیر اعظم جونیجو کو شیشے میں اتارنے کی خاطر۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے ایک اجلاس کے بعد‘ جسے ”انٹیلی جنس کمیونٹی‘‘ کہا جاتا ہے‘ صدر بش نے آئی ایس آئی کے پر کاٹنے کا حکم دیا تھا۔ کیا اس عمل میں اسرائیل بھی شامل تھا؟ دو واقعات موجود ہیں۔ ایک یہ کہ 17 اگست سے پہلے بھی جنرل کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان ایئرفورس کا ایک سابق پائلٹ اکرم اعوان زہریلی گیس کی ایک ڈبیا لے کر پاکستان پہنچا‘ اسرائیل میں جسے ایف 15 اڑانے کی تربیت دی گئی تھی۔ اسے یہ ڈبیا جنرل کی کار یا جہاز میں نصب کرنا تھی۔ وہ مگر گرفتار کر لیا گیا۔

    پوری کہانی میجر عامر بیان کر سکتے ہیں‘ جنہوں نے اے این پی کے ایک پاکستان دشمن حامی اور تاجر کا بہروپ بھر کر اسے گرفتار کیا تھا۔ ایسا کائیاں تھا کہ آئی ایس آئی کی عارضی حوالات سے محافظ کو چکمہ دے کر وہ بھاگ نکلا۔ اس وقت وہ دوبارہ گرفتار کر لیا گیا‘ جب وہ اسلام آباد کے بھارتی سفارت خانے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سے قبل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کی نیت سے‘ دو بار اسرائیلی طیارے بھارت پہنچے۔ خوش قسمتی سے دونوں بار سراغ مل گیا۔ دونوں بار صہیونی ریاست کو متنبہ کیا گیا‘ وگرنہ اسلام آباد کا نواح‘ اسرائیلی بموں سے گونج اٹھتا اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا ہوتا۔ اسلام آباد کے ایٹمی پروگرام سے اسرائیل خوف زدہ ہے۔

    اسرائیل کے 100 ایٹمی میزائلوں نے عالم اسلام کے شہروں کو تاک رکھا ہے۔ ان میں دو پاکستانی شہر بھی شامل ہیں۔ صہیونیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان، دوسری بار حملے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکہ بہادر کا یہ کہ اسرائیل اسے اپنی اولاد کی طرح عزیز ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی بالادستی کا انحصار اسی پر ہے۔ اب وہ افغانستان میں براجمان ہے، وسطی چین کے علاوہ جہاں سے وہ وسطی ایشیا کی ریاستوں پہ نگران ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ نائن الیون کا سانحہ رونما نہ ہوتا‘ تب بھی امریکی افغان سرزمین پر اتر آتے۔ پاکستان سے ملحق ایران کے چھوٹے سے ٹکڑے‘ پاکستان اور افغانستان کی خاک میں پوشیدہ کھرب ہا ڈالر کی معدنیات پر اس کی نظر ہے۔ بھارت کے ساتھ گہرے امریکی مراسم اور ایران کے ساتھ امریکی مفاہمت کے ایک سے زیادہ پہلو ہیں۔

    دوستی کا دم بھرنے کے باوجود‘ امریکی حکومت پاکستان سے کس قدر ناراض ہے‘ 2012ء میں سلالہ کی فوجی چوکی پر امریکی حملے سے کسی قدر اس کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ اس حملے کے سات ماہ بعد تک‘ افغانستان کے لیے امریکی رسد کی فراہمی پاکستان نے بند کیے رکھی۔

    پاکستان کے باب میں افغانی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے عزائم سے کیا امریکی واقف نہیں؟ بلوچستانی دہشت گرد‘ افغانستان میں کیوں کر پناہ لیتے ہیں؟ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے قتل عام پر واشنگٹن کی خاموشی اس قدر گہری کیوں ہے؟ امریکی فوجی قیادت جنرل اشفاق پرویز کیانی سے اس قدر ناراض کیوں تھی؟ ان سوالوں پر غور کرنے کی فرصت کسی کو نہیں۔ مغرب کی مالی مدد سے متحرک این جی اوز پاکستانی میڈیا میں دخیل ہیں۔ ہمیشہ اور ہر وقت ہم ”را‘‘ کے صدر دفتر میں تراشی جانے والی افواہوں پر ایمان لے آتے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کی تقریبات میں وہ دانشور ہمیشہ دکھائی دیتے ہیں جو پاکستان کے وجود پر یقین نہیں رکھتے۔ رہی پاکستان کی سیاسی قیادت تو اس طرح وہ ایک دوسرے کو تباہ کرنے پر تلے رہتے ہیں‘ گویا یہ ایک مقدس مذہبی فریضہ ہو۔

    ظاہر ہے کہ تجارتی راہداری پہ امریکی ناخوش ہیں جیسا کہ جنرل راحیل شریف نے کہا تھا: یوں اس خطے کی صورتحال ہی بدل جائے گی۔ امریکہ بہادر اس تغیر کو کیوں گوارا کرے؟ تزویراتی اعتبار سے دنیا کے اہم ترین ملک کو وہ رہا کیسے کر دے‘ اس کے پنجوں میں جو تڑپ رہا ہے۔

    تجارت اقتصادی نمو میں ہے‘ معاشی آزادی میں۔ فرد یا اجتماع‘ اپنی ترجیحات طے نہیں کر سکتے‘ اگر وہ کشکول بردار ہوں۔ تجارتی راہداری اگرچہ واحد کلید نہیں مگر غیر معمولی نتائج وہ جنم دے سکتی ہے۔ اسی لیے بھارت نے اعلان کیا تھا کہ ہرگز وہ اسے مکمل کرنے کی اجازت نہ دے گا۔

    قوموں کی بقا‘ ان کی بیداری اور ایک کم از کم اتفاق رائے میں ہوتی ہے۔ رواداری اور وسعتِ ظرف کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ میاں محمد نواز شریف سے اس کی امید کی جا سکتی ہے اور نہ کپتان سے‘ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے بہترین کوشش کی ناکامی کے بعد برہمی جن پر سوار ہے۔

    غور کرنے والوں کو غور کرنا چاہیے۔ اس بے مقصد اور بے سود رزم آرائی کو تمام ہونا چاہیے‘ قومی سلامتی کے لیے جو خطرہ بن گئی ہے۔ تجارتی راہداری پہ اتفاق رائے کے لیے غیر جانبدار لوگ آگے آئیں اور عسکری قیادت مددگار ہو۔

    پاکستان ایک گھر ہے‘ جسے دشمن منہدم کرنے پر تلا ہے اور گھر کے مکین باہم نبرد آزما ہیں۔ اللہ ان پہ رحم کرے۔

    تجارتی راہداری پہ اتفاق رائے آخر کیوں ممکن نہیں؟ پاناما لیکس پر تحقیقات کے لئے اتفاق کیوں ممکن نہیں؟ خود شکنی سے گریز کیوں ممکن نہیں؟۔

  • پاکستانی ریاست کے سٹیک ہولڈر – رضوان الرحمن رضی

    پاکستانی ریاست کے سٹیک ہولڈر – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی پاکستان میں متعین چین کے سفیر نے گذشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان سے ان کی رہائش گاہ پر جا کر ملاقات کی اور انہیں ’پاک چین اقتصادی راہداری‘ کے ثمرات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جس پر خان صاحب کو کہنا پڑا کہ وہ اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی رکاوٹ ڈالیں گے بلکہ وہ تو ملک میں موجودہ حکمران طبقے (پنجاب اور وفاق اور سندھ) کی طرف سے ہونے والی عمومی بدعنوانی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ چلیں اچھا ہوا، کم از کم یہ بات تو یقینی ہو گئی کہ اس مرتبہ کنٹینر پر سے اقتصادی راہداری کے جعلی یا جھوٹ ہونے یا پھر بھاری سود کے عوض لیے گئے قرضوں پر شروع ہونے والے منصوبے کہہ کر ان کی ایسی تیسی نہیں کی جائے گی۔

    اس ملاقات کی ایک تصویر تو یہ تھی جو اخبارات کی زینت بنی اور جس سے بظاہر وہ پیغام مل رہا تھا جو ہم نے یہاں بیان کیا اور یہ ہر کسی کو سمجھ میں آگیا۔ لیکن اس تصویر کا ایک پوشیدہ پیغام بھی تھا اور وہ یہ کہ اب پاکستان کی حکومتی فیصلہ سازی کے عمل میں بہت سے دیگر ممالک کے علاوہ چین بھی دخیل ہو گیا ہے۔ گذشتہ کم از کم ساڑھے تین دہائیوں سے ہم یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں صرف امریکہ بہادر یا پھر اس کی منظوری یا اشارہ ابرو کے بعد برطانیہ بہادر کے سفارت کار دخل اندازی کیا کرتے تھے۔ لیکن اب چین بھی ایک نیا ’سٹیک ہولڈر‘ بن گیا ہے اور روس بس دروازے کے ساتھ لگا کھڑا ہے کہ امریکہ میں تربیت یافتہ سول اور وردی والی بیوروکریسی اس کو اجازت دے اور وہ بھی ہمارے ملکی معاملات میں داخل ہوجائے؟

    یادش بخیر جب ضیاء الحق صاحب نے افغانستان میں روس کے خلاف یورپ اور امریکہ کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تو کم از کم اتنا بھرم تو رکھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو براہِ راست مقامی افغانوں (اور پاکستانیوں) سے لین دین نہ کرنے دیا اور یہ پالیسی طے کروائی کہ اس حوالے سے ان کے ادارے کی خدمات کو استعمال کیا جائے گا۔ یوں روس کے خلاف افغان جہاد کے نتیجے میں ہم نے درجنوں جرنیلوں کو ارب پتی ہوتے دیکھا۔ محلے میں ہماری چوہدراہٹ بھی قائم ہو گئی۔ لیکن اپنا جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کرنے والا بہادر کمانڈو جناب پرویز مشرف صاحب جب اپنے اقتدار کے جواز میں دنیا میں منمناتا پھرتا تھا تو نیو ورلڈ آرڈر کے تحت اس سے ایک معاہدے پر اس صدی کی ابتدا میں دستخط کروا لیے گئے، اس کے بعد تو ساری شرم ہی اتار دی گئی۔ اب امریکیوں کو براہِ راست افغانیوں (اور پاکستانیوں) سے لین دین کرنے کی اجازت دے دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان ممالک نے افغانستان اور اسے ملحقہ پاکستانی آزاد قبائلی علاقوں میں میں ڈالر کے بھوکے وار لارڈز کا ایک بہت طبقہ پیدا ہو گیا بلکہ ہمارے ملک کے شہری علاقوں میں بھی (این جی اوز کی صورت میں) راتب خوروں کا ایک ’فرقہ‘ پیدا ہوگیااور یوں اب ہمارے ملک کے ہر کونے سے ایسی ایسی مخلوق برآمد ہو رہی ہے کہ اللہ کی پناہ! اب امریکی خال خال ہی ہمارے ملک کے دورے پر تشریف لاتے ہیں اور جو کچھ کہنا ہو وہ یہ این جی اوز کرتی کراتی ہیں یا پھر امریکہ اپنے پالتو کتورے (پوڈل) برطانیہ کو حکم دیتا ہے اور اس کی فوجی یا سول قیادت ہمیں آ کر بتا دیتی ہے کہ امریکہ بہادر کی کیا مرضی ہے؟ حال ہی میں برطانوی چیف آف جنرل سٹاف کا دورہ پاکستان بھی انہی پیغامات کے سلسلے کی ایک کڑی تھی، جس کے نتیجے میں ہمارے اداروں نے اپنے اچھا بچہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ لینے کے لیے ان کو وزیرستان میں ’موقع واردات‘ پر لے جا کر مشاہدہ اور یقین دہانی کروانا ضروری خیال کیا کہ ہم حکم کے عین مطابق عمل پیرا ہیں۔

    لیکن اس معاہدے کو دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ عدالت سے سزایافتہ ایک مجرم کو جیل کی کوٹھڑی میں سے نکال کر عدالتی احکامات کا منہ چڑاتے ہوئے خاندان کے بچوں سمیت جہاز پر سوار کروا دیا گیا۔ اس پورے معاہدے کا ایک اہم’’ عملی جزو‘‘ (سٹیک ہولڈر) میاں صاحب بھی تھے۔ لہٰذا میاں نواز شریف صاحب نے ملک میں واپسی کے باوجود سال 2012ء تک عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا اور معاہدے کے تحت سیاست سے دس سال دور رہنے کے معاہدے پر اس کی ’روح‘ کے مطابق عمل کیا۔ اس دوران بےنظیر بھٹو صاحبہ بھی اس معاہدے کا عملی جزو بننے کے لیے امریکیوں سے ملیں اور نوازشریف کو اعتماد میں لے کر اس میں کود پڑیں۔ لیکن ان کا پاؤں سرخ لکیر پر آ گیا جس کے بعد ان کو اس کھیل سے ہی نہیں بلکہ دنیا سے ہی ’فارغ‘ کر دیا گیا۔ ان کے سیاسی ورثاء نے ناک رگڑ کر پورا کھیل نہ بگاڑنے کی یقین دہانیاں کروائیں تو ان کو اس کھیل کا حصہ بنا لیا گیا۔ اس کھیل کا قدرتی انجام تو یہ ہونا چاہیے تھاکہ جب جمہوریت بحال ہوئی تھی تو پاکستان کی حاکمیت بحال ہو جاتی اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخیل عناصر کو نکال باہر کیا جاتا لیکن اس سارے معاہدے کی یقین دہانی اس ادارے نے کروا رکھی ہے جس نے قوم کو یہ بیانیہ دن رات رٹا دیا ہے کہ ’’ادارہ توبس ایک ہی بچا ہے‘‘۔

    اہم قصہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم آج کل امریکیوں اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات سے باہر ہیں جبکہ کچھ ہفتے پہلے امریکی اور ان کے کابل میں مسلط ایجنٹ ہم سے مطالبہ کرتے پائے جاتے تھے کہ ہم افغان طالبان کو گھیر گھار کر مذاکرات کی میز پر ان کے حوالے کریں اور دوسری طرف بھارت کو ہلہ شیری دے کر راجھستان کی سرحد پر بھی بجلی والی خاردار تاریں لگوا کر اسے بند کروانے کی دھمکی دے دی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس پر بھی عمل درآمد کروا دیا جاتا جس طرح بھارتی پنجاب اور حتیٰ کہ کشمیر میں خطِ متارکہ جنگ پر یہ کام مکمل کروایا گیا تھا لیکن ادھر دفترِ خارجہ نے اس معاملے میں بھی چین کو ملوث کر کے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور معاملات وہیں پر روکنا پڑ گئے۔

    میاں نواز شریف کی جمہوریت ایک اور کھیل کھیلنے میں بھی مصروف ہے۔ میاں صاحب کا خیال ہے کہ اگر عامل جزو کی تعداد و مقدار بڑھا لی جائے تو اس میں پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کی کچھ بچت ہوجائے گی، یہی وجہ ہے کہ وہ چین کو اپنے گھر کے اندر نہیں بلکہ پچھلے سٹور تک لانے میں کوئی تامل محسوس نہیں کر رہے۔ جبکہ دوسری طرف گارنٹر ادارہ یہ یقین دہانی کروانے میں مصروف ہے کہ طے شدہ معاہدے پر پوری روح کے ساتھ عملدرآمد جاری ہے اور جاری رہے گا اور معاملات ویسے ہی طے ہوں گے جیسے آپ چاہیں گے۔

    یہ جو آپ کوبہت سے ملکی معاملات میں سول اور فوجی کشمکش نظر آتی ہے ناں؟ یہ اسی معاہدے پر عملدرآمد کرنے میں ہونے والی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ اور ہاں یہ جو مشرف کے وزرا اور مشرا جو پہلے مشرف صاحب، پھر زرداری حکومت اور آج کل میاں نواز شریف کی حکومت کا حصہ ہیں ناں تو یہ وہ ’مقدم‘ ہیں جو امریکیوں نے سارے معاملات پر نظر رکھنے کے لیے متعین کر رکھے ہیں۔ آپ کو مصدق ملک، زاہد حامد اور نجم سیٹھی کی ہر حکومت میں بمعہ اہل و عیال موجودگی کا جواز تو سمجھ میں آ گیا ہوگا؟

    چینی سفیر اور عمران خان کی اس ملاقات کا ایک اور پیغام یہ بھی ہے کہ اس معاہدے میں، سیاسی قوتوں میں سے پی ٹی آئی، جو اس پورے عمل سے باہر تھی یا رکھی گئی تھی، کو بھی شریک کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں آئندہ کچھ دنوں میں آپ کو اس کے سیاسی نکتہ نظرمیں کچھ نرمی محسوس ہوگی۔ آپ بس معاملات پر نظر رکھیے گا۔