ہوم << چلتے ہو تو چین کو چلیے - طارق حبیب

چلتے ہو تو چین کو چلیے - طارق حبیب

ہم بھی خنجراب پر کھڑے کھڑے اکتا گئے تھے۔ تو سوچا جب چل ہی پڑے ہیں تو چین تک تو جانا چاہیے۔ بس پھر کیا تھا، ہم نے اپنے باوردی میزبانوں کو اپنی ننھی سے خواہش بتادی اور انھیں یاد بھی دلایا۔
۔
سمندروں سے گہری، آسمانوں سے بلند، شہد سے میٹھی، وغیرہ وغیرہ
۔
بس پھر ہمارے میزبانوں نے سامنے کھڑے باوردی چینیوں کو سمجھایا، چنگپنگبنگینگڈنگ۔
مطلب وہی، گہری، بلند، میٹھی وغیرہ۔
۔
انھیں بھی سمجھ آگئی اور انھوں نے بیرئیر ہٹا دیا۔ اس میں کمال صرف دونوں جانب کی وردیوں اور مونوگرام والی ڈبل کیبن گاڑیوں کا تھا۔
۔
چینی حدود میں داخل ہوئے ہی تھے کہ بتایا گیا کہ صرف پہلے پڑائو تک جا سکتے ہیں۔ بغیر پاسپورٹ و ویزہ اتنا بھی غنیمت تھا۔ یہ اعزاز کیا کم تھا کہ قدم سنکیانگ کی جانب اٹھ چکے تھے۔ راستے میں لگے سائن بورڈز آویزاں تھے جن پر تحریر کے نام پر ننھے بچوں سے شرارتیں کروائی گئی تھیں۔
۔
چینی حدود میں داخل ہوتے ہی ننھی منی سول سسٹم گاڑیاں نظر آئی۔ جو چینی جوان سرحد پر گشت کے لیے استعمال کررہے تھے۔ چین کی سرحد پار کرتے ہی چینی چینی محسوس کرنے لگے۔ آکسیجن ویسے ہی نہیں تھی، سب کچھ چپٹا چپٹا نظر آرہا تھا۔ اچانک احساس ہوا کہ شاید ڈرائیور نیند میں ہے۔ اسے بتایا بھائی تم رانگ سائیڈ جارہے ہو تو اس نے تصحیح کی کہ جناب یہاں یہ رائٹ سائیڈ ہے۔ اطراف میں کوئی تبدیلی نہیں تھی۔ وہی برف سے ڈھکے پہاڑ، برف کی تہہ میں ٹھہرا پانی۔
۔
چیک پوسٹ پر نظر پڑی تو حیران رہ گئے، جدید چیک پوسٹ، سردی سے بچائو اور آکسیجن کی کمی پوری کرنے کے لیے بہترین مشینری کا استعمال۔ ہر طرح کے لوازمات سے مزین بہترین کچن، طبی سامان، موبائل سروس پرفیکٹ، سرحد کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ بذریعہ سیٹلائٹ بیجنگ میں دیکھی جارہی تھی۔
۔
مجھے پیچھے رہ جانے والی پاکستانی پوسٹ یاد آگئی۔ پوسٹ پر چار کاکے سپاہی کھڑے تھے۔ کنٹینر کے بنے دو کمرے اور کمروں میں چارپائیاں اور کمبل۔ ایک کمرے میں کوئلے پڑے تھے جو چوکی کے رہائشیوں نے بتایا کہ چینی برادرز انھیں دیتے ہیں۔ کوئلے پکانے کے کام بھی آتے تھے اور یخ پانی استعمال کرنے کے بعد سیکنے کے بھی۔
۔
انھی الجھنوں کے دوران پہلا پڑائو آگیا۔ باوردی چینیوں سے ملاقات کی۔ ان کے افسران بالا سے بات چیت ہوئی۔ اقتصادی راہداری کے حوالے سے بہت پرجوش تھے۔ ہماری پنجابی انگریجی اور ان کی چینی انگریجی۔ ایک دوسرے کو جتنا سمجھ سکتے تھے سمجھے۔ پاکستانی مہمانوں کو قہوہ پیش کیا گیا اور چائے مین 9 چمچ چینی پینے والے کو نہ صرف پھیکا قہوہ پینا پڑا۔ بلکہ تعریف بھی کرنی پڑی کہ قہوہ بہت زبردست تھا۔
۔
کچھ لوگوں سے ملاقات رہی، اچھی بات چیت، مسکراہٹوں کے تبادلے، اور برادر برادر کرکے مخاطب کرنا، یہ سب چلتا رہا اور اور پھر پاکستان واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔