۔
سمندروں سے گہری، آسمانوں سے بلند، شہد سے میٹھی، وغیرہ وغیرہ
۔
بس پھر ہمارے میزبانوں نے سامنے کھڑے باوردی چینیوں کو سمجھایا، چنگپنگبنگینگڈنگ۔
مطلب وہی، گہری، بلند، میٹھی وغیرہ۔
۔
۔
چینی حدود میں داخل ہوئے ہی تھے کہ بتایا گیا کہ صرف پہلے پڑائو تک جا سکتے ہیں۔ بغیر پاسپورٹ و ویزہ اتنا بھی غنیمت تھا۔ یہ اعزاز کیا کم تھا کہ قدم سنکیانگ کی جانب اٹھ چکے تھے۔ راستے میں لگے سائن بورڈز آویزاں تھے جن پر تحریر کے نام پر ننھے بچوں سے شرارتیں کروائی گئی تھیں۔
۔
چینی حدود میں داخل ہوتے ہی ننھی منی سول سسٹم گاڑیاں نظر آئی۔ جو چینی جوان سرحد پر گشت کے لیے استعمال کررہے تھے۔ چین کی سرحد پار کرتے ہی چینی چینی محسوس کرنے لگے۔ آکسیجن ویسے ہی نہیں تھی، سب کچھ چپٹا چپٹا نظر آرہا تھا۔ اچانک احساس ہوا کہ شاید ڈرائیور نیند میں ہے۔ اسے بتایا بھائی تم رانگ سائیڈ جارہے ہو تو اس نے تصحیح کی کہ جناب یہاں یہ رائٹ سائیڈ ہے۔ اطراف میں کوئی تبدیلی نہیں تھی۔ وہی برف سے ڈھکے پہاڑ، برف کی تہہ میں ٹھہرا پانی۔
۔
۔
مجھے پیچھے رہ جانے والی پاکستانی پوسٹ یاد آگئی۔ پوسٹ پر چار کاکے سپاہی کھڑے تھے۔ کنٹینر کے بنے دو کمرے اور کمروں میں چارپائیاں اور کمبل۔ ایک کمرے میں کوئلے پڑے تھے جو چوکی کے رہائشیوں نے بتایا کہ چینی برادرز انھیں دیتے ہیں۔ کوئلے پکانے کے کام بھی آتے تھے اور یخ پانی استعمال کرنے کے بعد سیکنے کے بھی۔
۔
۔
کچھ لوگوں سے ملاقات رہی، اچھی بات چیت، مسکراہٹوں کے تبادلے، اور برادر برادر کرکے مخاطب کرنا، یہ سب چلتا رہا اور اور پھر پاکستان واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔
چلتے ہو تو چین کو چلیے - طارق حبیب

تبصرہ لکھیے