Tag: موت

  • ماں کا احساس بیٹے کے نام – نورین تبسم

    ماں کا احساس بیٹے کے نام – نورین تبسم

    پچیس برس کا سفرِ زندگی مکمل ہونے پر۔ ماں کا احساس بیٹے کے نام۔
    کچھ باتیں یاد رکھنے کے لیے۔

    ضرورت
    پیسہ ہر ضرورت پوری کر سکتا ہے لیکن پیسے کو کبھی ضرورت نہ بننے دو۔ پیسہ اگر ضرورت بن جائے تو یہ وہ ضرورت ہے جو کبھی بھی پوری نہیں پڑتی۔ پیسے کی عزت کرو مگر اس سے محبت نہ کرو۔

    کتاب
    انسان کی زندگی ایک کتاب کی مانند ہے، کسی بھی ادھوری کتاب کے مطالعے سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش اُلجھا کر رکھ دیتی ہے۔ ہمارے آس پاس بسنے والے انسان اور مقدر کے رشتے ہمیں ہر گھڑی کوئی نہ کوئی نیا سبق دیتے ہیں۔ ہر سبق پر دھیان دو اور اُس کی اہمیت کو تسلیم کرو۔ خاموشی سے ہر رنگ کو بس دیکھتے جاؤ، محسوس کرو۔ مکمل تصویر اسی وقت سامنے آتی ہے جب کسی کی کتاب ِزندگی بند ہو جائے۔
    ہمارے ماں باپ اپنی زندگی میں کبھی ہمارے رول ماڈل نہیں ہوتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم آج جو بھی ہیں جیسے بھی ہیں، اِن ہی کی بدولت ہیں۔ ہمارے جذبات و احساسات کی بنیادوں میں اِن کا ہی رنگ ہوتا ہے۔ بعد میں ماحول، وقت اور انسان کی اپنی انفرادی صلاحیت جو رب کی طرف سے ہر انسان کے لیے خاص ہے، اس کے بل پر شخصیت کا اصل حسن اور کردار کی بلندی و پائیداری واضح ہوتی ہے۔ زندگی کے پہلے قدم پر جو رشتے ہمارے ہمراہ ہوتے ہیں اور ہمارا ہر بڑھتا قدم اِن کی آنکھوں میں جُگنو بن کر چمکتا ہے، جب وہ بچھڑ جاتے ہیں تو ہماری زندگی کی صبح سے اُن کی زندگی کی شام تک کی روشنی ہمارے لیے آنے والی زندگی کا سب سے اہم سبق ضرور ہوتی ہے۔ اُن کی بند کتاب زندگی ہمارے لیے اپنی زندگی سنوارنے سمجھنے کا بہترین موقع ضرور دیتی ہے۔ اُن کی حیات میں بےشک اس بات کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی اور دے بھی نہیں سکتے کہ ہمارے اور اُن کی سوچ کے بیچ ایک نسل کا فرق ہوتا ہے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد اگر ہم اُن کو یک لخت فراموش کر دیں، خواب سمجھ کر بھول جائیں تو آنے والی زندگی میں ہمارا وجود ترقی اور کامیابی کے آسمانوں کو تو چھو سکتا ہے لیکن اپنے اندر کا خالی پن ایک مکمل خاندان کے ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ کی تنہائی کا اسیر بنا دیتا ہے۔

    انسان
    انسان کے ساتھ اور اُس کی ہماری زندگی میں اہمیت سے انکار نہیں لیکن اپنے شرف اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر فیصلہ کرنا چاہیے۔ عزت ہر رشتے ہر احساس میں اولیت رکھتی ہے اور محبت جیسا قیمتی اور انمول تحفہ بھی اگر عزت کے غلاف میں لپٹا ہوا نہ ہو تو بہت جلد اپنی قدروقیمت کھو دیتا ہے۔

    چراغ
    چراغ تلے ہمیشہ اندھیرا ہوتا ہے، لیکن ! چراغ اُن ہاتھوں کو ضرور رستہ دکھاتا ہے جو اُسے تھامے رہتے ہیں۔ نہ صرف اس کی زندگی بلکہ اپنے لیے راہ کی روشنی کی خاطر۔ یاد رکھو زندگی میں ”ناقدر شناسی“ سے بڑی جہالت اور سوچا جائے تو اس سے بڑا گناہ اور کوئی نہیں کہ یہ شکر سے دور کرتا ہے اور شکر سے دوری ”شرک“ ہے۔ جس کو ”گناہ عظیم“ کہا گیا ہے۔

    کرکٹ
    زندگی ایک کھیل ہی تو ہے۔ اسے ٹیسٹ کرکٹ کی طرح کھیلو لیکن ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی کے لیے بھی وقت ضرور نکالو۔ لگی بندھی رفتار اور ناپ تول کر اپنے ”شاٹ“ کھیلنے سے شاید زندگی کی پچ پر ٹھہرنے کا بہت سا وقت تو مل جاتا ہے اور نام بھی ہوتا ہے۔ مگر اس طرح نہ صرف دیکھنے والی نظریں اُکتا جاتی ہیں بلکہ انسان کے اپنے اندر بھی تھکاوٹ گھر کر لیتی ہے۔ جب بھی موقع ملے کوئی چونکا دینے والا شاٹ ضرور کھیلو۔ اس سے اپنے اندر کا جمود ٹوٹتا ہے۔ یاد رکھو پہلا شاٹ کھیلنے میں کبھی جلدی نہ کرو، دوسرے کو پہل کا موقع دینا بظاہر تو پسپائی دکھتا ہے لیکن آنے والا وقت بہتر فیصلہ کرتا ہے۔ جلد بازی کبھی بھی نہیں، پہلے شاٹ کا جواب دے کر بھی دفاعی حکمتِ عملی سے پیچھے نہ ہٹنا۔ یہ نظر کا دھوکا بھی ہوسکتا ہے۔ بال ہمیشہ دوسرے کے کورٹ میں رہنے دینا بہت سے غلط فیصلوں اور بدگمانیوں سے بچا لیتا ہے۔ پطرس بخاری کا کہنا ہے کہ ”کام کے وقت ڈٹ کر کام کرو تا کہ کام کے بعد ڈٹ کر بےقاعدگی کر سکو۔“

    موت
    زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے۔ یہ سامنے کا وہ منظر ہے جو کبھی دکھائی نہیں دیتا جب تک ہم پر وارد نہ ہو۔ یا ہماراچاہنے والا اس سفر پر روانہ نہ ہو۔ ماں باپ انسان کو دُنیا کا ہر سبق پڑھانے سمجھانے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن یہ سبق صرف وقت ہی سمجھاتا ہے۔ ہم زندگی میں بےشک اپنی مرضی سے اپنے فہم کے مطابق ہر سوچ ہر عمل کا اختیار رکھتے ہیں۔ لیکن اپنے ماں باپ کے آخری وقت اور ان کی جدائی کے لمحات میں اپنے بڑوں کے طرزِعمل کو رول ماڈل جان کر ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ یہ نہ صرف ہمارے ماں باپ کی تربیت کا امتحان ہوتا ہے بلکہ اس سے کہیں آگے اللہ سے ہمارے تعلق کی اصل کہانی کہ ہم رب کے فیصلے کو مانتے ہیں یا اپنی خواہش کو خدا مان کر رب سے لڑتے جھگڑتے ہیں۔

    زندگی
    زندگی زندہ رہنے کی خواہش کا نام ہے۔ اس خواہش کو زندہ رکھنا چاہتے ہو تو ”شُکر“ کو اپنی زندگی کا اُوڑھنا بچھونا بنائے رکھنا۔ ”شرک“ سے ایسے بچو کہ ہر سانس میں اس سے پناہ مانگو۔ اگر اس پل صراط پر چلنے میں ذراسی بھی کامیابی حاصل کر لی تو یاد رکھو صرف اپنی نظر میں دلی سکون والی ”قابل ِ رشک“ زندگی تمہارے سامنے ہوگی۔

  • ’’حاجی صاحب‘‘  –  احسان کوہاٹی

    ’’حاجی صاحب‘‘ – احسان کوہاٹی

    سیلانی نے آنکھیں ملتے ہوئے سیل فون کی روشن اسکرین پر نظر ڈالی اور ایس ایم ایس پڑھ کر بڑبڑانے لگا ’’یہ نہیں سدھریں گے۔۔۔‘‘

    سیلانی فون چارجنگ پر لگاکر غسل خانے میں گھس گیا۔ وضو کیا، نماز پڑھی اور کالم لکھنے کے لیے مسہری پر لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا، لیکن اس کا ذہن اسی ایس ایم ایس کی طرف تھا۔ اس نے لیپ ٹاپ ایک طرف کیا اور حاجی صاحب سے لڑنے کے لیے ان کا نمبر ڈائل کرنے لگا کہ یہ کیا طریقہ ہے۔ صبح سویرے کوئی اس طرح کا بیہودہ مذاق بھی کرتاہے۔۔۔

    سیلانی نے حاجی صاحب کا نمبر ڈائل کیا، دوسری طرف سیل فون کی گھنٹی بجی اور پھر خلاف توقع کسی نسوانی آواز میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
    ’’السلام علیکم حاجی صاحب سے بات کرادیں۔‘‘
    ’’حاجی صاحب کا تو انتقال ہوگیا ہے۔۔۔‘‘
    ’’کیا، یایایایایا۔۔۔ آپ کون بات کررہی ہیں؟‘‘

    ’’میں ان کی مسز بات کررہی ہوں۔۔۔ رات ان کی طبیعت خراب ہوئی، اسپتال لے کر گئے لیکن۔۔۔‘‘

    ’’آپ مذاق نہ کریں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
    ’’بھائی ہمیں تو خود بھی یقین نہیں آرہا۔۔۔‘‘

    سیلانی نے لائن کاٹ دی اور دوبارہ لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔ اسے پتا تھا کہ پینسٹھ برس کے شرارتی حاجی صاحب نے مسز کو بھی ساتھ ملالیا ہے۔ اس نے کالم لکھا، ’’امت‘‘ کو ای میل کرکے حاجی صاحب سے دو دو ہاتھ کرنے نکل کھڑا ہوا۔

    حاجی صاحب سیلانی کے ان خاموش قارئین میں سے تھے جو برسوں سے سیلانی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہاتھوں کے پیالوں میں اس کے لیے دعائیں لیے رکھتے ہیں، لیکن کبھی سیلانی سے نہیں ملے۔ غالبا ایک سال پیچھے حاجی طفیل صاحب ان خاموش قارئین کی صف سے نکل آئے۔ انہوں نے سیلانی کا سیل نمبر لیا اور کال کرکے پاکستان چوک آنے کی دعوت دی۔

    ’’پاکستان چوک پر دکنی مسجد معروف ہے، اس کے بالکل سامنے خاکسار کی چھوٹی سے ڈیری شاپ ہے۔ ادھر آکر کسی بسم اللہ ملک شاپ اور لال داڑھی والے حاجی صاحب کا پوچھ لیجیے گا، آپ پہنچ جائیں گے۔‘‘

    اور ایسا ہی تھا، خوش مزاج حاجی صاحب پاکستان چوک میں اپنے خالص دودھ دہی اور خوش مزاجی کی وجہ سے چھوٹوں بڑوں، سب میں مشہور تھے۔ خاص کر بچے تو ان کے گرویدہ تھے۔ شاید ہی کوئی بچہ ہو جو انہیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہاتھ نہ ہلاتا ہو۔ انہوں نے دکان میں بچوں کے لیے ٹافیوں کی بڑی سی برنی بھر رکھی تھی اور ہر وہ بچہ اس ٹافی کا حقدار تھا جن پر ان کی نظر پڑجاتی۔

    حاجی صاحب کے اخلاق نے پہلی ہی ملاقات میں سیلانی کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ وہ گوجرانوالہ کے تھے اور دیکھنے میں بھی گوجرانوالہ کے ریٹائرڈ پہلوان ہی لگتے تھے۔ سیلانی نے انہیں کھرے مزاج کاسچا بندہ پایا۔ انہوں نے سفید داڑھی ہی مہندی سے رنگی ہوئی تھی، اس کے سوا ان کی شخصیت پر ملمع کاری کا دور دور تک واسطہ نہ تھا۔

    سیلانی کی حاجی صاحب سے دوستی ہوگئی۔ عمروں کے فرق کے باوجود مزاج ایک سے تھے، اس لیے خوب دوستی ہوگئی۔ اس دوستی میں پاکستانیت اور خوش خوراکی کا بڑا عمل دخل تھا۔ سیلانی خود ہی کو بڑا خوش خوراک سمجھتا تھا، لیکن حاجی صاحب کے سامنے وہ واقعی طفل مکتب تھا۔ سیلانی ان سے سٹی کورٹ کے پیچھے کیفے حسن کی نہاری کا ذکر کرتا تو حاجی صاحب کہتے اسلم روڈ والے کی نہاری کھائی ہے؟ سیلانی ان سے جامع کلاتھ کی چنا چاٹ کی بات کرتا تو فرماتے اقبال کی چنا چاٹ کھائی ہے؟ اور پھر وہ سیلانی کو وہ چیز کھلانا فرض سمجھ لیتے۔ انہوں نے اصرار کرکے منیب الرحمان اور شیث خان کو بھی ایک دن دکان پر بلالیا اور اس کے بعد تو حاجی صاحب سیلانی کے گھر کے فرد جیسے ہی ہوگئے۔ منیب الرحمان تو اٹھتے بیٹھتے ان کے گن گاتا رہتا۔ اس کی حاجی صاحب سے ایسی دوستی ہوگئی کہ نیند سے بھی اٹھاکر حاجی صاحب کے پاس چلنے کے لیے کہا جاتا تو آنکھیں ملتا ہوا پاؤں میں چپل ڈال کر کھڑا ہوجاتا۔

    سیلانی موٹر سائیکل دوڑائے چلا جارہا تھا اور وہ تمام القابات، خطابات جمع کررہا تھا جو اس نے آج حاجی صاحب کو عطا کرنے تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک بار ایسی ہی حرکت کرچکے تھے۔ حرکتیں تو بہت سی کرتے رہتے تھے، ان کی تازہ ترین حرکت سیلانی کو اپنا پیر ومرشد قرار دینا تھی۔ وہ ان سے ملنے جاتا تو کسی مرید کی طرح کھڑے ہوجاتے۔ سیلانی بھی کسی پیر کی طرح ان کے شانے پر کرامتی ہاتھ سے تھپتھپاہٹ دے دیتا اور پھر دونوں پیر مرید مل کر قہقہہ لگاتے۔ بات پیر و مرشد ٹھہرانے تک رہتی تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ حاجی صاحب نے تو اوروں سے بھی سیلانی کا تعارف ’’میرے پیر ومرشد‘‘ کی حیثیت سے کرانا شروع کردیا تھا۔ کچھ دن پہلے دو خواتین دکان میں داخل ہوئیں۔ سیلانی کی شامت آئی ہوئی تھی کہ وہ بھی وہیں موجود تھا۔ ان خواتین کو دیکھ کر حاجی صاحب نے فورا کہا
    ’’او بسم اللہ بسم اللہ، میری بیٹیاں آئی ہیں، کوئی ٹھنڈی لسی شسی پلائے‘‘۔
    ملازم نے ان کے لیے بنچ صاف کرکے رکھ دیا۔ وہ دونوں خواتین تھکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ حاجی صاحب نے بتایا کہ یہ بچیاں پولیو ورکر ہیں۔ بڑی محنت کر تی ہیں۔ پھر ان سے خیر خیریت پوچھتے پوچھتے اچانک ہی گویا ہوئے ’’یہ میرے پیر صاحب ہیں، انہیں سلام کریں، دعائیں لیں۔‘‘

    اب جو خواتین نے کلین شیو پیر صاحب پر نظر ڈالی تو یہ بات ہضم نہ کرسکیں۔ ادھر سیلانی ان کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگا، لیکن حاجی صاحب کہاں باز آنے والے تھے۔ انہوں نے مزید کہا: ’’ان کے کلین شیو چہرے کی طرف نہ جائیں یہ اللہ والے اپنا آپ چھپاکر رکھتے ہیں‘‘۔

    بس ان کا یہ کہنا تھا کہ ایک پولیو ورکر التجائیہ لہجے میں گویا ہوئی ’’میرے لیے دعا کیجئے کہ اس بار پوری تنخواہ مل جائے، بہت محنت کر رہے ہیں‘‘
    دوسری نے کہا ’’بس دعا کریں کہ ہمارے حالات اچھے ہوجائیں، ہمیں گھر سے باہر دھکے نہ کھانا پڑیں‘‘

    حاجی صاحب نے صدق دل سے آمین کہا اور ملازم سے کہا کہ انہیں ایک ایک لسی گھر کے لیے بھی پارسل کرکے دو۔ آج میرے پیر صاحب آئے ہوئے ہیں، میرا دل بڑا ہی خوش ہے۔۔۔ وہ احسان مند لہجے میں شکریہ ادا کرکے چلی گئیں اور سیلانی نے حاجی صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے

    ’’نہ کیتا کرو حاجی صاحب، کیوں پھنسوائوگے‘‘

    ’’میں توانوں اتھے پیر صاحب مشہور نہ کردیاں تے کہنا‘‘ حاجی صاحب نے شرارتی انداز میں اپنے ارادوں کا اظہار کیا اور سیلانی نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔

    سیلانی موٹر سائیکل دوڑتا ہوا پاکستان چوک کے علاقے میں داخل ہوچکا تھا۔ وہ سوچ چکا تھا کہ حاجی صاحب کے ساتھ کیا کرنا ہے، لیکن کسی انجانے خدشے سے اس کا دل بھی دھک دھک کررہا تھا، جیسے جیسے دکان قریب آرہی تھی، اس کے دل اور تیزی سے دھڑکتا جارہا تھا۔ پھر دکان سامنے آگئی۔ دکان کھلی ہوئی تھی۔ اس کے دل کو ذرا ڈھارس سی ہوئی۔ اس نے دکان کے سامنے موٹرسائیکل کھڑی کی اور تیزی سے اترکر آگے بڑھا تو حاجی صاحب کے بیٹے انس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔ اس نے دکان میں نگاہ ڈالی، حاجی صاحب کی کرسی خالی تھی۔
    ’’حاجی صا۔۔۔صاب‘‘ سیلانی نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
    ’’رات انتقال ہوگیا جی۔‘‘ ملازم نے اداس لہجے میں بتایا۔

    ’’کب کیسے۔۔۔ ابھی تو تین دن پہلے میں ان سے مل کر گیا تھا، کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
    ’’ابو جی کی دو دن سے طبیعت خراب تھی، رات کو طبیعت پھر بگڑگئی، ایمبولینس منگوائی، اسپتال لے کر گئے لیکن ۔۔۔‘‘

    سیلانی انس کے گلے لگ کر رو پڑا۔ انس سیلانی کے گلے لگ کر رو رہا تھا اور سیلانی انس کو گلے لگاکر گلوگیر آواز میں جانے کیا کیا کہہ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں علی بھی آگیا۔ تدفین کا انتظام کرنا تھا۔ سچی بات ہے سیلانی کی تو سمجھ نے ہی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گیا۔ اس کا دل ہی نہیں مان رہا تھا کہ حاجی صاحب اس طرح اچانک چلے جائیں گے۔

    وہ تین دن پہلے ہی تو حاجی صاحب سے مل کر اور ہمیشہ کی طرح تڑی لگاکر گیا تھا کہ اب اگر انہوں نے یہ تکلفات کا سلسلہ بند نہ کیا تو وہ نہیں آئے گا اور یہ سچ بھی تھا۔ حاجی صاحب اس کی موٹرسائیکل کے ہینڈل پر بڑا سا تھیلا لٹکا دیتے جس میں بچوں کے لیے کبھی لسی کبھی بسکٹ اور والدہ کے لیے میٹھا دہی ہوتا۔ ان کے اس تکلف کی وجہ سے سیلانی نے ان سے ملنا کم کردیا تھا، لیکن ایسا کم ہی ہوتا کہ یہ وقفہ ہفتہ دس دن سے زیادہ رہا ہو۔ حاجی صاحب کی محبت خلوص اسے زیادہ دن پاکستان چوک سے دور رہنے نہیں دیتی تھی، لیکن اب وہ ہی دور ہو رہے تھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جارہے تھے۔

    حاجی صاحب سے سیلانی کی دوستی سال بھر کی بھی نہ تھی، لیکن اس مختصر سے عرصے میں حاجی صاحب نے سیلانی کے دل میں ہمیشہ ہمیشہ کی جگہ بنالی تھی۔ ایسی جگہ کہ شاید ہی کوئی اس کا مالک ہوسکے۔ ایسے محبت کرنے والے کھرے سچے لوگ آج کل کی مصنوعیت میں کہاں ملتے ہیں؟ حاجی صاحب کی نماز جنازہ آرام باغ کی مسجد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ کے بعد حاجی صاحب کے چہرے پر سے چادر ہٹائی گئی، ہنسنے بولنے والا حاجی طفیل خاموشی سے آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا، جیسے طویل مسافت کے بعد مسافر تھک کر سوتے ہیں۔ سیلانی کا جی چاہا کہ وہ اس تھکے ماندے مسافر کو جگادے، کہہ دے کہ کچھ دن تو ٹھہرجاؤ۔ ابھی تو علی اور انس کی دُلہن تلاش کرنی ہے۔ بیٹی کو وداع کرنا ہے۔ نادر نے تیز موٹرسائیکل چلانا نہیں چھوڑی، اس کے کان کھینچنے ہیں اور منیب الرحمان بھی تو آپ کو بہت یاد کرتا ہے، اسے کیا کہوں گا۔۔۔۔ اے کاش کسی کے جگانے سے ابدی نیند سونے والے جاگ سکتے، روکنے سے رک سکتے۔۔۔ سیلانی حاجی صاحب کے سرہانے کھڑا تھا کہ آواز آئی آگے آگے بڑھتے جائیں، بھائی اوروں کو بھی چہرہ دیکھنے دیں، تب سیلانی بوجھل قدموں سے آگے بڑھتے ہوئے نمناک آنکھوں سے حاجی صاحب کو آنکھیں موندے لیٹادیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • کینیڈا میں مرنے سے قبل، چند ضروری باتیں – فرح رضوان

    کینیڈا میں مرنے سے قبل، چند ضروری باتیں – فرح رضوان

    الحمد للہ ایک مسلمان یہ جانتا ہے کہ اسے کسی بھی دن اس کا رب واپس اپنے پاس بلا لے گا، اسی لیے وہ اپنے مقدور بھر اس کی تیاری بھی کرتا ہے ،جبکہ ایک تیاری وہ ہوتی ہے جو انسان کے مرنے سے لے کر قبر میں جانے تک اس کے لواحقین اس کے لیے کرتے ہیں.

    آپ اگر کینیڈا میں رہتے ہیں یا آپ کا قریب یا دور کا کوئی عزیز، تو براہ مہربانی اپنے لواحقین کو اس تیاری کے لیے، کچھ اہم ترین نکات کی تلقین ضرور کر دیجیے.

    انسان کی موت گھر میں ہو یا ہسپتال میں، ہرحال میں، غسل اور قبر سے پہلے میت کو ہسپتال کا visit ضرور کرنا ہوتا ہے. اور میت مسلم ہو یا غیر مسلم، مرد ہو یا خاتون، کینیڈا کے ہسپتالوں میں ایک dead body کے ساتھ ”حسن سلوک“ وہی رہتا ہے جو کسی بھی چرچ سے رخصت ہونے والے کا ہوتا ہے. میت کو بالکل برہنہ کر کے، ایک پلاسٹک بیگ میں ڈال دیا جاتا ہے، ہاتھ کراس کی شکل میں کر دیے جاتے ہیں اور کیونکہ یہ لوگ اپنی میت کو سجا کر رخصت کرتے ہیں لہٰذا حسن میں کوئی فرق نہ آجائے سوچ کر، جو لوگ ڈنچرز استعمال کر رہے ہوتے ہیں، فورا ان کے منہ میں dentures لگا دیتے ہیں، (کیونکہ منہ کھلا رہ جاتا ہے تو smile اچھی دکھتی ہے)، اور لواحقین کو دیتے وقت کبھی کبھی ان کی مدد کی خاطر کہ بیگ سے dead body نکالنے میں دقت نہ ہو، وہ رہی سہی پلاسٹک کی ستر بھی بےچاری میت سے ہٹا دی جاتی ہے.

    خدارا اپنے گھر والوں اور دوستوں کو اس بارے میں آگاہ کرنے میں بالکل دیر نہ کریں. کہ مسلم لواحقین کا فرض بنتا ہے کہ وہ ڈاکٹرز سے درخواست کریں بلکہ مصر ہو جائیں کہ یہ ایک مسلمان کی میت ہے. پہلی بات یہ کہ اس کے کپڑے تلف نہ کیے جائیں، دوسری اس کے ہاتھ سیدھے رکھیں اور پاؤں کے انگوٹھے آپس میں tie کر دیے جائیں. dentures کی اب انہیں کوئی ضرورت نہیں، لیکن منہ بند کیا جا سکے تو فوری بند کیجیے.

    ایک اور المیہ اس سے بھی بھیانک ہے کہ جب ہمارے بہت سے بھائی بہن اس بات کو اہمیت نہیں دیتے کہ جہاں وفات ہو، وہیں تدفین بھی ہو جائے، اور وہ اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہونے کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر کیونکہ کینیڈا میں تدفین کا عمل کم از کم پانچ ہزار ڈالرز میں انجام پا تا ہے، اور P.I.A میت کو مفت پاکستان لے جانے کی سہولت دیتی ہے، سو وہ فیملی کی بچت کی خاطر پاکستان بھیجنے کی وصیت کر جاتے ہیں، لیکن ! ایسی میت کے ساتھ جو کچھ ”لازمی“ ہوتا ہے، یہ بھی جان لیں کہ کیونکہ سفر لمبا ہوتا ہے اور میت کے خراب ہونے کا خدشہ، تو اس باڈی کے پیٹ میں سے تمام تر آنتیں/آرگنز نکال کر تلف کر دیے جاتے ہیں، کیمیکل لگایا جاتا ہے اور میت پر لگے کٹ کو پرانے پھٹے ہوئے لحاف کی مانند بڑے بڑے شلنگے (ٹانکے) لگا کر بند کر دیا جاتا ہے، اس لازمی آپریشن کی فیس کم از کم دو ہزار ڈالرز اور تابوت جو کہ ایک اور لازمی جز ہے، اس کے کم از کم ہزار ڈالرز کل ملا کر تین ہزار ڈالرز کی رقم تو بنتی ہی ہے. ماضی قریب میں ایسے واقعات بھی سننے میں آئے کہ بجٹ، (بلکہ ایمان) کی کمی کے باعث کسی بیٹے نے اپنے والد کی میت کی تدفین پر رقم خرچ کرنے کے بجائے ان کی چتا کو آگ لگا کر ”سستے“ میں جان چھڑا لی.

    الحمدللہ ثم الحمد للہ مسلم کمیونٹی میں اس مد میں، ضرورت مندوں کے لیے فنڈز بھی قائم ہیں. اور لوگ اس موقع پر انتہائی سخاوت اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ جس طرح شادی کے موقع پر لفافے دیے جاتے ہیں، اسی طرح نماز جنازہ میں شرکاء اپنے ہوں یا غیر اور بالکل انجان، وہ حسب استطاعت لفافوں میں رقم رکھ کر لواحقین کی امداد ضرور کرتے ہیں. اس لیے نہ تو کسی کو ایذا پہنچا کر پاکستان بھیجنے کی ضرورت ہے، اور نہ ہی کسی کو آگ کے حوالے کرنے کی.

    لیکن ایک آگ دل میں لگی ہی رہے تو بہتر ہے کہ کل کو جب ہمارے ہاتھ پاؤں زبان کچھ بھی حرکت نہ کر پائے گی، ہم سراسر دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں گے، تب بھی ہوگا تو وہی، جو اللہ چاہے گا. عین وقت پر اللہ تعالیٰ ہی تو انہیں یہ سب یاد دلانے اور سرے سے بھلا دینے پر قادر ہے، تو کیوں نہ اس قادر مطلق سے بنا کر رکھی جائے؟ قبل اس کے کہ کوئی بے رحم موت کے بعد سینے کو چاک کر کے اعضاء کو تلف کرے، کیوں نہ زندگی میں ہی اس سینے میں سے، لالچ، حرص، ناشکری، تکبر، طمع، حسد، بغض، عداوت اور کینے کو تلف کر دیا جائے. کیوں نہ ایسے کانوں سے، جو اپنے رب کے احکام کو تو سنا ان سنا کر دیتے ہیں، لیکن اپنے دشمن شیطان کے وسوسوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں، نجات حاصل کر لی جائے؟

    اس وقت جبکہ ہمارے ہاتھ قلم کی ایک جنبش سے کسی کی جائیداد پر قابض ہو جانے پر قادر ہیں، کسی پر انگلی اٹھانے، کسی کا گریبان چاک کر دینے، کسی کو ایذا دینے، حق روک لینے پر مکمل اختیار رکھتے ہیں. یہ زبان، جو چغلی، غیبت اور بہتان سے کسی کی عصمت دری پر، پردہ دری پر، کسی کے سینے میں نیزے کی طرح گھپ جانے پر بلا کا عبور رکھتی ہے. کیوں نہ ہم مرنے سے پہلے ہی ان تمام فتنوں کو خود مار ڈالیں.

    کاش! نماز کے لیے اللہ اکبر کہتے جب خالی ہاتھ اٹھیں تو دوسرے کی حق تلفی سے پاک ہوں؟ یااللہ رب العزت! ہماری زبان پر تیرا ذکر جاری ہے. یہ شکوے، طعنے، غیبت، جھوٹ اور فحش سے عاری ہو. یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک (آمین )

  • جنازے، چیخیں اور دو لکھاری – حافظ یوسف سراج

    جنازے، چیخیں اور دو لکھاری – حافظ یوسف سراج

    یوسف سراج کالم بھیجا تھا۔ سارا دن بیت گیا کوئی خبر نہیں آئی۔ یوں تو نہیں ہوتا تھا۔ ہاں گاہے تاخیر ہو جاتی تھی۔ دراصل سب کے اپنے وسائل اور مسائل ہوتے ہیں۔ انگلش محاورے کے مطابق جوتا پہننے والا ہی جان سکتا ہے کہ جوتا کہاں کہاں سے کاٹ رہا ہے۔ سو دلیل ہو یا کوئی بھی ویب سائٹ یا اخبار، سب کے اپنے اپنے مسائل اور وسائل ہوتے ہیں۔ سو دلیل جس طرح چل رہی ہے، یہ ایک جہاد ہے اور ہر جگہ کی طرح یہاں بھی کچھ مسائل ہو سکتے ہیں۔ بہرحال جس جذبِ دروں سے خاکوانی صاحب اپنے ساتھیوں کے سنگ دلیل کو توانا کرنے کے خواب بنتے ہیں، عین واضح ہے کہ بہت جلد مزید آسانیاں اور فراوانیاں مہیا ہو جائیں گی۔ تو بہرحال ایسے ہی دلیل کو کھول لیا کہ شاید وہاں کالم نہ لگنے کی وجہ بھی لکھی ہوگی۔ نظر پڑی تو بڑا عجیب سا عنوان تھا خاکوانی صاحب کے بلاگ کا ’’ ٹوٹی ہوئی قبریں اور یادوں کے دیے۔‘‘ ایسے اسرار میں ڈوبے رومانوی سے نام سے بھلا آدمی کیسے گزر جائے۔ یہ بلاگ بھی جناب نے اختر عباس صاحب کے قلب پر گزری حیرت اثر اور عبرت انگیز واردات سے انسپائر ہو کے لکھا تھا۔ دوپہر کے حقیقت کی طرح واشگاف اور عیاں لمحوں میں مسلم سجاد صاحب کی قبر ڈھونڈتے جن کا رہوار ِفکر کسی اور طرف مڑ گیا تھا۔ وہی دراصل صوفیا اور واعظین کا بنیادی نکتہ دنیا کی بے ثباتی۔

    ٹوٹی قبروں پر لگے ایسے نامیوں کے کتبے کہ جن کے نام ہی کبھی مجلسوں کی کامیابی کی دلیل اور امنڈتے ہجوم کا نشاں ہوتے تھے، اب قبرستان میں اگی گھاس نے ان ناموروں کی قبروں کی کم مائیگی اور تنہائی اپنے دامن میں چھپا رکھی تھی۔ اختر عباس صاحب گئی رات تک اس انقلابِ زمانہ کے اثر میں بھیگی چیخوں میں گم سم رہے۔ یہاں سے اک نوحہ تخلیق ہوا، جسے خاکوانی صاحب نے مزید راہ دکھائی۔ جنازے اور حیات مابعدالممات دراصل ہمیشہ ہی انسانوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ جنازے بھی باقاعدہ اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔ مثلاً ابن حنبل رحمہ اللہ تین عباسی خلفا سے جرم بےگناہی کی سزا ہنس کے سہتے رہے۔ ہم کسی ایک سلطان کا عتاب نہیں سہہ سکتے، انھوں نے تین سہار لیے۔ آج کی مصلحت گزیدہ دانش کو دیکھا جائے تو بات بھی کچھ بڑی نہ تھی۔ خلیفہ یونانی فلسفے سے متاثر ہوگیا تھا، جو تازہ تازہ عربی میں ترجمہ ہوکے آیا تھا۔ اب اس کی زد اس مسئلے پر پڑ گئی تھی کہ آیا قرآن بھی اللہ کی مخلوق ہے یا نہیں۔ چونکہ خلیفہ کو یہ موقف خوش آیا تھا، چنانچہ علماء اس کے جواز پر دلائل مہیا کرنے لگے تھے۔ کوئی ایک بھی نہ بچا تھا جو ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہہ سکتا کہ نہیں مخلوق نہیں، قرآن رب کا کلام اور اس کی صفت ہے۔ مخلوق ماننے کا مطلب یہ تھا کہ ہر مخلوق کی طرح پھر اسے بھی فنا کے گھاٹ اترنا ہوگا۔ تو کوئی نہیں تھا مگر ایک ابن حنبل۔ علما ء نے انھیں سمجھایا، مصلحت وقت، عتاب سلطان اور دین میں خوف کے مقابل رخصت کے دلائل ذکر کیے۔ ابن ِ حنبل نے صرف دو باتیں کیں۔ ایک علما کے لیے اور ایک اس مسئلے کے لہے۔ کہا، اس موقف پر سلطان کی نہیں، انبیا کے سلطان کے دو لفظ دلیل میں لے آؤ یا اسی قرآن میں بات کرنے والے سے کوئی دلیل لے آؤ۔ اور علما سے یہ کہا کہ ذرا اس حجرے کے باہر دیکھ کے بتاؤ، وہاں کیا ہے؟ انھوں نے کہا اک ہجوم ہے جو ہاتھ میں کاغذ اور قلم لیے کھڑا ہے تاکہ ابنِ حنبل کا موقف لے سکے۔ فرمایا، اتنے لوگ جب دین کے کسی معاملے میں میری طرف دیکھ رہے ہوں توپھر یہ رخصت نہیں عزیمت کا وقت ہونا چاہیے۔ اللہ اکبر!

    تاریخ میں ایسے بھی لمحے آتے ہیں کہ صرف ایک ہی شخص مبنی برحق موقف کا پرچم تھامے کھڑا ہوتا ہے، مثلاً وفاتِ رسولﷺ کے غم انگیز موقع پر موقع پرستوں نے زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی شوکت و قوت کی سرخیل ہستی جا چکی اور اب کچھ بھی کیا جاسکتاہے۔ میں ہمیشہ حیرت کرتا ہوں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسا رقیق القلب آدمی کس طرح اس موقع پر ڈٹ گیا تھا، کہا زکوۃ تو خیر نصاب کے تحت ہے ، میں تو اس سے بھی لڑ جاؤں گا جو حیاتِ رسول میں بکری کی ایک رسی دیتا تھا اور اب انکار کرتا ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ سمیت سبھی اس وقت اس جہاد کے حق میں نہیں تھے۔ دراصل خطرات بھی بہت تھے۔ یہ سانحہ ایسا نہ تھا کہ جسے مدینہ کے دشمن برتنا بھول جاتے۔ کچھ مرتد ہوگئے تھے، کچھ نے زکوۃ کا انکار کر دیا تھا اور کچھ سرحدوں کے ادھر حملے کی تیاریاں پکڑ رہے تھے۔ بہرحال سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ڈٹ گئے، اکیلے ہی ڈٹ گئے۔ بہت بعد میں سب نے مانا کہ گو صدیق اس وقت اپنے موقف میں اکیلے تھے، مگر وہی ٹھیک تھے۔ یہاں آج ابنِ حنبل اکیلے تھے، مگر صدیق کے پیروکار بھی تھے۔ اکیلے ہی ڈٹ جانے پر انھیں سزا بھی کم نہ دی گئی۔ ابوالکلام کے بقول جو کوڑا، دنیا کا سب سے بڑا حدیث کا انسائیکلو پیڈیا مرتب کرنے والے اس محدث کے ضعیف تن پر برسا، کسی گرانڈیل ہاتھی پر برستا تو وہ پاگل ہو کے جنگلوں کا رخ کرتا۔ خیر پھر یہ ہوا کہ ابنِ حنبل کو جسم کی اس اذیت سے نجات مل گئی۔ جنازہ پڑھنے پر خلیفہ نے کچھ قدغن لگا دی تھی۔ خیر پھر وقت بیتا اور پابندی لگانے والا حکمران بھی چل بسا۔ اب عجیب منظر تھا۔ لوگ خلیفہ کے جنازے کے بجائے امام کے جنازے پر امنڈ آئے تھے۔ امام نے زندگی میں کہہ رکھا تھا کہ ہمارا اور تمھارا فرق جنازوں پر آشکار ہوگا۔

    ایک جنازہ ابو ذر غفاریؓ کا بھی یاد آتا ہے۔ دولت جمع نہ کرنے کا، ان کا اپنا ایک موقف تھا اور رعایا اس سے انتشار کا شکار ہوتی تھی۔ سو انھیں ربذہ نامی جگہ بھیج دیا گیا۔ وہ اپنا موقف بھی رکھتے تھے اور اطاعتِ امیرکا داعیہ بھی۔ ویرانے میں جب ان پر وقت اخیر آیا تو بکری ذبح کروا کے پکوائی کہ رسولِ رحمت ﷺ کی بشارت تھی کہ مسلمانوں کی ایک جماعت جنازہ پڑھے گی۔ ویرانے میں بھی اپنے حبیب اور صادق المصدوق ﷺ کی بات پر یقین اتنا تھا کہ مہمان نوازی کا اہتمام مہمانوں کی آمد سے پہلے کروا لیا تھا۔ صحابہ کی ایک جماعت پہنچی اور جنازہ ہوا۔

    ایک جنازہ ایک درزی کاب ھی یاد آتاہے۔ سنا ہے ہندوستان کا یہ درزی میت کا جو بھی اعلان سنتا، دکان کا دروازہ بند کر کے جنازے میں شریک ہو جاتا۔ یہ کہتا تھا کہ میں اپنے جنازے کی تیاری کر رہا ہوں۔ غریب اور گمنام آدمی ہوں۔ سو چاہتا ہوں کہ میں کسی کا جنازہ نہ چھوڑوں تاکہ میرے جنازے میں بھی لوگ جمع ہو جائیں۔ پھر یوں ہوا کہ کسی بڑے غالبا اشرف علی تھانوی کا جنازہ تھا اور علماء و مشائخ کا جم غفیر امڈ آیا تھا۔ جنازہ ہو چکا تو ایک اور جنازہ جنازگاہ میں آگیا۔ اعلان ہوا ایک مسلمان کا جنازہ ہے، پڑھ لیجیے، جو پچھلے جنازے سے لیٹ تھے، وہ بھی شریک ہوگئے۔ یہ جنازہ پہلے جنازے سے بھی بڑا ہو گیا، یہ اسی درزی کا جنازہ تھا۔

    یہ جنازے بھی معمولی نہیں ہوتے۔ پیغمبر نے فرما رکھاہے کہ جس کے جنازے میں ستر اہل ِتوحید سفارشی ہوگئے وہ بخش دیا جائےگا۔ ظاہر ہے اس کی تیاری زندگی میں ہی کی جاتی ہے۔ آپ کن سے تعلق بناتے اور کن سے یاری گانٹھتے ہیں۔ جن سے آپ زندگی میں غیرضروری اور فضول سمجھ کے کنارہ کش رہتے ہیں وہ آپ کے جنازے میں کیوں آئیں گے۔ لوگوں نے کتنا تعجب کیا تھا کہ جب قندیل بلوچ کے جنازے میں انگلیوں پر گنے جا نے والے لوگوں نے شرکت کی۔ یعنی جس کے فیس بک پر فالوورز اور جس کے زندہ جسم کے تمنائی ہزاروں لاکھوں میں تھے، جان نکلی تو قندیل ان کی زندگی ہی سے نکل گئی۔

    ہم مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔ پنج سالہ اور پچاس سالہ منصوبے بناتے ہیں۔ کیا ہماری زندگی میں جنازے اور قبرکی رونق کے کسی منصوبے کو بھی کوئی دخل ہے؟ ہارون الرشید کا وزیراعظم بڑا دانا شخص تھا۔ یہ ساتھ تھا، ہارون الرشید جنگل میں شکار کے لیے گئے اور بھٹک کے ساتھیوں سے الگ ہو گئے۔ پیاس نے خلیفہ کو ستایا توپانی مانگا۔ پانی دیتے دیتے وزیراعظم نے ہاتھ روک لیا۔ عرض کی اگر پانی کا یہ ایک گلاس خریدنا پڑے اور پانی نہ ملے تو کتنی قیمت تک خرید فرمائیں گے ۔کہا، آدھی سلطنت کے عوض۔ وقت بیتا اور پھر خلیفہ کو واش روم کی حاجت ہوئی۔ وزیر نے پھر پوچھا، اگر اخراج رک جائے اور علاج کروانا پڑے تو کیا قیمت دیں گے؟ کہا، آدھی سلطنت۔ وزیر نے کہا، بادشاہ سلامت! سلطنت کی حیثیت تو بس پانی کی چند بوندیں پینے اور نکالنے جتنی ہے، پھر یہ غرہ اور غرور کیسا۔ ابراہیم ادھم ایک بادشاہ تھے۔ ان کی غیرموجودگی میں خادمہ کے دل میں خواہش آئی کہ شاہی بستر پر لیٹ کر تو دیکھوں۔ لیٹی تو نیند آگئی۔ ابن ادھم نے دیکھا تو کوڑا پکڑ لیا۔ خادمہ کوڑے کھاتی اور قہقہے لگاتی جاتی تھی۔ پوچھا یہ کیوں؟ کہنے لگی، ہنستی اس بات پر ہوں کہ چند منٹ اس بستر پر سونے کی سزا اگر اتنے کوڑے ہیں تو تمھارا کیا حشر ہوگا کہ جس نے ساری زندگی اسی پر سو کے گزار دی ہے۔ بن ادھم نے کوڑا پھینکا اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔ آخرت کی فکر پال لی اور اللہ سے لو لگالی، یہاں تک کہ ولی کہلائے۔

    بادشاہ رات کو رعایاکے احوال سے آگاہی کے لیے نکلا۔ ٹھٹھرتی سردی میں ایک فقیر کو بغیر لحاف و کمبل کے چوک میں سکڑتے سمٹتے پایا۔ کہا اسے صبح دربار میں حاضر کیا جائے۔ صبح اس سے پوچھا، رات کیسی گزری؟ کہا آدھی تو تمھاری طرح اور آدھی تم سے بھی بہتر۔ پوچھا وہ کیسے؟ کہا جب سو گیا تو ہم تم برابر ہوئے۔ آدمی فرش پر سوئے یا عرش پر نیند آئی تو ایک برابر۔ پوچھا آدھی بہتر کس طرح؟ کہا، جب سردی نے سونے نہ دیا تواللہ کا ذکر کرتا رہا، یوں ایک سوئے ہوئے آدمی سے اللہ کا ذکر کرنے والا بہتر ہوا۔

    دین رہبانیت نہیں سکھاتا، دنیا اور دین دونوں توازن سے ساتھ لے کر چلنے کی ہدایت کرتا ہے، آدمی دو چیزوں سے مرکب ہے، جسم اور روح، جسم کی خوراک زمیں سے اگتی ہے تو روح کی آسمان سے برستی ہے، دونوں کے لیے تگ و دو کرنے والوں کی دنیا ہی نہیں جنازے بھی بہتر ہوتے ہیں اور قبر بھی۔ کاش ہم سمجھیں!

  • گور کی گود – نورین تبسم

    گور کی گود – نورین تبسم

    انسان خواہ عمر کے کسی حصے میں ہو زندہ رہنے کی چاہ کبھی کم نہیں ہوتی۔ عمر بڑھنے کے ساتھ جسمانی کارکردگی مدھم پڑنے لگتی ہے لیکن زندگی کی خواہش اول روز کی طرح ویسے ہی شور مچاتی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ واپسی کے سفر کو حق جان کر بھی زندہ رہنا چاہتا ہے، اسی لیے اولاد کا خواہش مند ہوتا ہے جو کم ازکم اس کی نام لیوا ہو۔ اس خواہش کا اگر سائنسی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پیدا ہونے والا بچہ ماں باپ کے وجود کا حصہ، اُن کے جینز کا شراکت دار ہوتا ہے، سو انسان کی یہ خواہش لاشعوری طور پر اپنے جینز کی منتقلی اور بقا کی ہے۔ اس میں بھی بیٹے اور بیٹی میں فرق روا رکھا جاتا ہے۔ یہی معاشرے کا المیہ ہے کہ وراثت چاہے مال و دولت کی شکل میں ہو یا علم وآگہی کی صورت، بیٹے کی ضرورت اور خلش ہمیشہ آڑے آتی ہے۔ معاشرے کی اس عمومی سوچ سے سمجھوتہ کرنا یا اس کے برعکس سوچنا بڑے دل گردے اور ہمت کا کام ہے۔ بہت کم ہی کوئی اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ بیٹے کے نہ ہونے کی کسک کا ایک عام انداز یہ بھی ہے کہ کوئی بازو نہیں اور جنازے کو کاندھا دینے والا بھی کوئی نہیں۔ زندگی اسی ناآسودگی اور بےاعتباری میں گزر جاتی ہے اورباقی صرف وقت رہ جاتا ہے جو بتاتا ہے کہ کس کو کیا ملتا ہے؟ اور کون رہتا ہے؟ لیکن اس وقت سمجھنے والا جا چکا ہوتا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ جانے والے کا ربط نہ صرف دُنیا کی ہر چیز سے ختم ہو جاتا ہے بلکہ وہ مرنے کے بعد دُنیا میں اپنے آخری مقام کے دنیاوی جسمانی احساس سے بھی بےپروا ہو جاتا ہے اور اُس کی اصل کیفیت صرف اللہ جانتا ہے۔

    مذہبی معاشرتی اور روحانی حوالوں سے قبروں کی تزئین و آرائش کے جواز پر ہر مکتبہ فکر کے اختلافات اور تاویلات ہیں، عورتوں کا قبرستان جانا بھی دینی طور پر مستحن نہیں سمجھا جاتا لیکن جن گھروں میں بیٹے نہ ہوں وہاں بیٹیوں کو بہت سے ایسے کام کرنا پڑتے ہیں جو عام حالات میں صرف مردوں کے لیے ہی مخصوص سمجھے جاتے ہیں۔

    انسان کے جانے کے بعد پیچھے رہ جانے والے اُس کے پیارے رشتے، جن کے آرام و سکون کی خاطر وہ سرد راتوں اور تپتی دوپہروں میں چکی کی مشقت کرتا رہا، اُس کے دُنیا میں آخری مقام کے بارے میں بہت حساس ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ شروع کے چند روز اس طرف دھیان زیادہ رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ محض عید، شب برات یا زیادہ سے زیادہ سال بہ سال برسی کے مواقع پر رسمی طور پر حاضری دی جاتی ہے۔ بہرحال جو بھی ہو، بچھڑنے کے شروع کے ایام میں قبر سے ایک عجیب سی اُنسیت ہو جاتی ہے جیسے کہ جانے والا ہمیں محسوس کر رہا ہو اور ہم بھی اس سے دل کی بات کہہ سکیں۔ کسی نے کیا بات کہہ دی کہ ”جب کوئی اپنا چلا جائے پھر قبرستان سے ڈر نہیں لگتا۔“ لیکن یہ چاہت اور اُنسیت بھی ہر جانے والے کے نصیب میں نہیں، کچھ توساری زندگی بےنام و نشان رہتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی کبھی کوئی اُن کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے نہیں آتا۔

    اس بات سے انکار نہیں کہ زندگی میں چاہے بےمول ہی کیوں نہ بکتا رہا ہو، بعد مرنے کےمٹی کے انسان کی اصل قیمت چند گز زمین میں ملنے والی مٹی کی قربت ہے۔ یہ ”قربت“ بھی بڑے نصیب کی بات ہے جس کو نصیب ہو جائے، ورنہ ہوا، پانی اور آگ ایسے عناصر ہیں جو مٹی یوں کھا جاتے ہیں کہ نام ونشان کا احساس تو کیا ثبوت بھی کم ہی چھوڑتے ہیں۔ بےزمینی اور لامکانی کے دُکھ سے بھی بڑھ کر اگر کوئی دکھ ہے تو ایک جیتے جاگتے انسان کا لمحوں میں دنیا سے”غائب“ ہوجانا۔ آگے کی منزلوں اور سفر کا حساب کتاب تو وہ جانے لیکن اُس کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اس کے اپنے ہمیشہ شک و یقین کی سولی پر لٹکتے رہتے ہیں۔ وہ بدقسمت تو دعاؤں کے حصار سے بھی نکل جاتا ہے کہ نہ تو زندگی کی سلامتی کی دعا کی جا سکتی ہے اور نہ ہی مغفرت کی دعا۔ اگر زندہ ہوگا تو نہ جانے کس حال میں اور اگر دنیا سے جا چکا ہے تو نہ جانے کس کسمپرسی کی حالت میں گیا۔

    حرفِ آخر
    گھر زندہ انسانوں کا مسکن ہے اور قبرستان مردہ جسموں کا۔ لیکن گھر میں رہنے کا سلیقہ قبرستان سے بہتر کہیں سے نہیں سیکھا جا سکتا، جہاں سب اپنی اپنی قبر میں اپنے اپنے حساب کتاب کے عالم ِبرزخ میں تنہا ہوتے ہیں اور کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ احساس کی اگربتیاں اورعقیدت کی پتیاں کوئی انجان بھی بکھیر دے تو اپنے الاؤ بُھلا کر چاہ کی پھوار میں سوندھی مٹی کی مہک ہر سو پھیل جاتی ہے۔

  • ٹوٹی ہوئی قبریں اور یادوں‌کے دیے – محمد عامر خاکوانی

    ٹوٹی ہوئی قبریں اور یادوں‌کے دیے – محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانیا برادرم اختر عباس بلا کے قلم کار ہیں، ان کے قلم میں کاٹ بھی غضب کی ہے اور جو نکتہ وہ ڈھونڈ کر سامنے لیتے ہیں، اکثر اوقات وہ بھی کمال کا ہوتا ہے۔ ان کی ایک مختصر سی تحریر دیکھی جس نے ہلا کر رکھ دیا۔ گزشتہ روز تحریک اسلامی کے سرگرم کارکن اور ترجمان القرآن کے نائب مدیر مسلم سجاد انتقال کر گئے تھے۔ مسلم سجاد جماعت اسلامی کے ممتاز دانشور رہنما خرم مراد کے چھوٹے بھائی تھے۔ منشورات جیسا خوبصورت کتابیں شائع کرنے والا ادارہ مسلم سجاد ہی نے قائم کیا تھا۔ وہ ترجمان القرآن کے بھی روح رواں تھے۔

    اختر عباس ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے گئے اور وہاں بعض نامی گرامی شخصیات کی قبروں کی جو حالت انہوں‌نے دیکھی ، اہل دنیا نے اپنے ان بڑوں کوجس طرح بھلا دیا، اس نے اختر عباس کو شدید کرب سے دوچار کیا۔ رات گئے انہوں‌نے اپنے جذبات، محسوسات کو ایک نوحہ کی شکل دی، سچ تو یہ ہے کہ ہر صاحب دل جس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جو بات انہوں نے کی، اس نے مجھے بھی ہلا کر رکھ دیا، دل سے گویا لہو سا رسنے لگا۔ اختر عباس لکھتے ہیں:
    ’’رات کے اس پہر بھی آج دوپہر کے ان لمحوں اور پلوں کے ساتھ ہوں جو جناب مسلم سجاد کے جنازے اور پھر قبر کی تلاش میں مجھ پر بیت گئے۔ بارش تھی کہ کہے آج ہی برسنا ہے اور میں ان کی قبر ڈھونڈتا کریم بلاک کے قبرستان پہنچا۔ طارق محمود ایشیا والے بھی وہیں ملے۔ قبر پر پہنچے تو سرخ پھول اور محبت سے سرخ ہوئی آنکھوں والا ان کا بیٹا ملا۔ تعزیت میں طارق صاحب، عمران ظہور غازی اور ایوب منیر سے ہی کروں گا، دوستی ہم میں سانجھی تھی۔ یہاں سے چلا تو بارش کے قطروں سے آنکھیں کھل نہ رہی تھیں، برادر عبدالغفار عزیز نے بتایا کہ یہاں خلیل حامدی اور اسعد گیلانی کی بھی قبریں ہیں، ڈھونڈھنے لگے ناکام رہے. ایسے میں ایک قبر نے رلا دیا، یہ میاں طفیل صاحب کی تھی، لکھا تھا جانشین سید مودودی۔ بڑی بڑی گھاس تھی، جانے کوئی کب سے نہیں آیا۔گاڑی میں آ کر بیٹھا تو اکیلا تھا اور پوری گاڑی میری چیخوں سے بھری تھی، میں ایسی بےنامی موت نہیں چاہتا، کس سے کہوں کہ ایسی جگہ دفنانا جو آسانی سے مل جایا کرے، جس پر آوارہ جنگلی گھاس نہ ہو، پھول ہوں. مسلم سجاد صاحب کے تو بیٹے ہیں، فاتحہ پڑھ کر واپس دبئی چلے جائیں گے. ممکن ہے انہوں نے کسی سے وعدہ بھی لے رکھا ہو، کچھ روز تو میں بھی روز جائوں گا مگر پیارو میں کس سے کہوں کس سے وعدہ لوں؟ میرے ہاں تو اپنا کوئی بیٹا بھی نہیں۔ خدا کی قسم میں کسی ویران قبر، کسی ٹوٹی قبر کا رزق نہیں ہونا چاہتا۔ مگر میں اپنی یہ آرزو کس سے کہوں؟ رات کے اس پہر میں سونا چاہتا ہوں پر یقین کے بنا نیند بھی کب آتی ہے ۔‘‘

    سچ تو یہ ہے کہ ہم سب کا حال کم و بیش یہی ہونے جا رہا ہے۔ اس سے اگرچہ ہم بے خبر ہیں، دنیا کے لمحات ہم دوستوں کے ساتھ گزارتے، محفلیں آراستہ کرتے اور دل خوش کن ساعتوں سے رس کشید کرتے ہیں۔ ٹوٹی ہوئی قبریں، جہاں پر بڑھی ہوئی گھاس، کتبے کے مٹتے حروف اور شکستہ تعویز ہمارے پیاروں کی راہ تکتے رہیں گے، وقت کا تیز رفتار ریلا جنہیں شاید ہمیں یاد کرنے کی فرصت ہی نہ دے۔ محرم، عید پر کوئی جھانک جائے تو الگ بات ہے۔

    اختر عباس کی بات پڑھ کر مجھے طاہر بھیا یاد آئے۔ آپ بھی ان کا قصہ سن لیجیے۔ طاہر بھیا داتا دربارکے قریب ایک دکان میں رہتے تھے، داتا صاحب سے بہت محبت تھی، طاہر بھیا دوسروں کو کھانا کھلا کر بہت خوش ہوتے، جو تھوڑی بہت کمائی ہوتی، اس سے گوشت خریدتے، بھنا ہوا سالن بناتے اور پھر دوستوں کی ضیافت کر ڈالتے، انہیں کھلا کر خوش ہوتے، خود دیگچی میں لگا مسالہ روٹی سے لگا کر کھا لیتے کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ کہتے ہیں کہ ان کی دو خواہشیں تھیں، ایک وہ چاہتے تھے کہ داتا دربار کے قریب ہی مدفون ہوں، دوسر انہیں اندھیرے سے ڈر لگتا تھا، خواہش تھی کہ قبر پر روشنی رہے، اجالا اور رونق رہے۔ انتقال کے بعد رب تعالیٰ نے ان کی دونوں خواہشیں پوری کر دیں۔ جس دکان میں رہتے تھے، اس کے مالک نے اسی جگہ پر ان کی قبر بنانے کی اجازت دے دی ، آج وہاں ایک چھوٹا سا مزار ہے، جس پر ہر وقت ہائی وولٹ بلب جلتے رہتے ہیں، دیگ چڑھی رہتی ہے اور دل والے وہاں دیگیں پکاتے، غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ کئی سال ہوتے ہیں، ایک صاحب کے ساتھ داتا دربار فاتحہ کے لیے گیا۔ انہوں نے مجھے یہ قصہ سنایاتھا۔ داتا صاحب کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر ہٹے تو دیکھا کہ ان صاحب کے ہاتھ میں ایک شاپر ہے، جس میں کچھ پھول ہیں۔ کہنے لگے کہ کوئی نوجوان آیا اور میرے ہاتھ میں یہ شاپر پکڑا گیا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ صاحب مزار کی طرف سے ہیں کہ ان کی جانب سے طاہر بھیا کی قبر پر چڑھا دیے جائیں۔ ایسا ہی کیا گیا۔ میں رشک سے طاہر بھیا کی قبر کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ رب تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کھانا کھلانے اور ان کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرنے کی سعی کرنے والے شخص کی دعا کی کیسی قبولیت بخشی۔

    تو بھائی اختر عباس رب تعالیٰ نے کسی کو بیٹے دیے ہیں یا نہیں، اس سے فرق نہیں‌ پڑتا۔ آج کل بیٹوں کو تو اپنا کیرئیر بنانے کا ایسا جنون سوار ہے کہ ان کے پاس تو زندہ والدین کے لیے وقت نہیں، بیٹیاں چلو کسی وقت جانے والوں کو یاد کر کے دو آنسو تو ٹپکا لیں گی۔ اصل بات یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کیا جائے کہ رب تعالیٰ مہربان ہوجائے اور پھر دنیا کی طرح مرنے کے بعد کے اندھیرے بھی دور ہوجائیں۔ ہم آپ سب کو یہی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں گے، زندگی میں بھی عزت ملے گی اور مرنے کے بعد بھی اور ان شااللہ روز حشر بھی عزت والوں میں کھڑے کیے جائیں گے، جہاں سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔

  • مریم خالد کی موت اور ناپائیدار زندگی – بشارت حمید

    مریم خالد کی موت اور ناپائیدار زندگی – بشارت حمید

    بشارت حمید میرا فیس بک کی لکھاری مریم خالد سے پہلے کوئی تعارف نہیں تھا. کل ان کی وفات کے بعد مختلف لوگوں کی تحاریر پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ ایک بہت اچھی شخصیت کی مالک تھیں. اللہ تعالٰی ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔

    ایک مومن کی وفات کے بعد اتنے سارے لوگ اس کو بہترین الفاظ میں یاد کریں تو یقیناً اللہ تعالی بھی ان سے راضی ہوں گے۔ ہمیں یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ ہم سب چاہیں یا نہ چاہیں، ایک ایک سانس اور گزرتے ہوئے ہر لمحے کے ساتھ اپنے اختتام کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں لیکن شعوری طور پر اس کا احساس کم ہی ہوتا ہے۔ دنیا کی رنگینیاں ہمیں اس حقیقت کے بارے سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتیں۔ اللہ تعالٰی نے سورہ العصر میں فرمایا کہ قسم ہے (تیزی سے گزرتے ہوئے) زمانے کی یقیناً انسان (بہت بڑے) خسارے میں ہے مگر (سوائے ان کے) جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور (ایک دوسرے کو) حق کی وصیت کرتے رہے اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

    جو اس فانی دنیا سے جا چکا وہ تو واپس نہیں آئے گا لیکن وہ ہمارے لیے ایک سبق چھوڑ گیا کہ میرا تو وقت ختم ہو چکا، اب تم اپنی فکر کر لو کہ ابھی تمہاری مہلت باقی ہے۔
    ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی کا جائزہ لیں کہ ہم خود کس مقام پر کھڑے ہیں اور کس مقصد کے لیے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم جب کبھی کسی سے حال احوال پوچھیں تو ایک فقرہ اکثر استعمال کرتے ہیں کہ زندگی اچھی ”گزر“ رہی ہے۔ اگر اس پر ہی غور کر لیں کہ انسان دنیا میں ایک مقررہ وقت گزارنے آیا ہے اور یہ وقت بہت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ جو لمحہ گزر گیا وہ دوبارہ زندگی میں کبھی واپس نہیں آئے گا۔ یہ جو ماہ و سال کی گردش ہے، یہ تو صرف وقت کا تعین کرنے کے لیے ہے ورنہ حقیقتاً جو دن گزر گیا وہ کبھی نہیں پلٹتا۔

    آئیے! ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں اور ہماری جتنی مہلت باقی ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں گزارنے کی کوشش کریں تاکہ ہمارا انجام آخرت میں نیک لوگوں کے ساتھ ہو۔ اللہ تعالٰی ہمیں ہدایت کاملہ عطا فرمائے۔ آمین

  • جس مٹی میں میں لیٹا ہوں، اُسی میں وہ دفن ہے – عمیر علی

    جس مٹی میں میں لیٹا ہوں، اُسی میں وہ دفن ہے – عمیر علی

    عمیر علی چلچلاتی دھوپ کسی کا امتیاز نہیں کرتی۔ وہ ہر حسب و نسب کے افراد کو ایک جیسی تپش دیتی ہے۔ فرق ہے تو آسائشوں کا جو ہر کسی کو میسر نہیں۔ انھی آسائشوں کی ترجمانی کرتی وہ چمچاتی ائیرکنڈیشننگ کار کالج کے سامنے نو پارکنگ میں ایسے براجمان ہو گئی جیسے وہاں موجود انتظامیہ کو للکار رہی ہو کہ ہے کوئی جو مجھے ایک انچ بھی ہلا سکے۔ اُس میں سے ڈرائیور اترا اور پیچھے کا دروازہ کھولا۔ اُس میں سے ایک حسینہ بڑے طمطراق سے برآمد ہوئی۔ سب سے پہلے اُس نے قہر برساتے سورج کو قہر آلود نگاہوں سے دیکھا، جیسے اُس نے عام بنی نوع اور اُس راجکماری میں فرق نہ کر کے کوئی عظیم گناہ کیا ہے۔ اُس کی دوسری نگاہ عتاب کا نشانہ ہماری کالج کے داخلہ دفتر کے باہر لگی قطار تھی۔ پہلے مجھے لگا کہ شاید وہ اپنی شان کو ملحوظ رکھتے ہوئے قطار میں لگنے پر سیخ پا ہے، لیکن جیسے ہی وہ قطار کی بجائے سیدھی داخلہ دفتر میں بلا روک ٹوک داخل ہوگئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہم صرف عام انسان ہونے کے جرم میں اُس کی آنکھ میں کھٹکے تھے۔

    دو گھنٹے سے قطار میں کھڑے ہو کر بدن پسینے میں ایسے شرابور تھا، جیسے ابھی نہا کر بغیر تولیہ استعمال کیے کپڑے پہن لیے ہوں۔ ابھی اپنی اس حالت پر مکمل غور بھی نہ کیا تھا کہ وہ داخلہ دفتر سے باہر آئی اور اُس کے ساتھ ایڈمن آفیسر صاحب بھی تھے۔ اور اُسے عاجزانہ لہجے میں یقین دلا رہے تھے کہ آپ فکر نہ کریں۔ اور وہ نخوت سے ایک اور نگاہ ہماری قطار پر ڈالتی ہوئی چلی گئی۔

    اُس سے دوسری ملاقات اُس وقت ہوئی جب میں ایم اے کرنے کے بعد ہر جگہ نوکریوں کے لیے در بدر بھٹک کر گزارے کے لیے ایک شاپنگ مال کی دوکان میں سیلز مین کے لیے پہلے دن آیا تھا۔ پہلے ہی کی طرح شاہانہ انداز میں وہ دکان میں داخل ہوئی اور چاروں طرف نگاہ دوڑا کر اچانک میری طرف دیکھا، میں حیران تو ہوا کہ شاید اس نے بھی مجھے پہچان لیا لیکن فورا وہ دکان مالک کے سامنے رکھے صوفے پر براجمان ہوتے ہوئے سامان پسند کرنی لگی۔ مالک نے مجھے اُس کی مطلوبہ چیزیں لانے میں دوسرے سیلز مین کی مدد کرنے کو کہا۔ جوتوں کے کچھ ڈیزائن لاتے ہوئے میرے ہاتھ سے جوتے کا ڈبہ گر کر اُس کے پائوں پر گرا۔ اچانک لگا جیسے قیامت برپا ہو گئی ہو۔ چنگھاڑتے ہوئے وہ اُٹھی اور ایک زناٹے دار تھپڑ میرے منہ پر ایسا جڑا کہ اُس کے غرور اور فتح کا نشان میرے چہرے پر چھپ سا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مغلظات کا ایک طوفان آیا، اور مجھے میری اوقات اور میرے والدین کی اوقات یاد کروانے کے بعد، وہ چلی گئی، وہ میرا اُس دکان پر نوکری کا پہلا اور آخری دن تھا، کیوں کہ مالک کے لیے اُس کا اچھا گاہک قیمتی تھا۔ اُس دن مجھے اپنے غریب ماں باپ کے گھر میں پیدا ہونے پر افسوس ہوا کہ انسان تو میں بھی دوسروں جیسا ہوں، قصور تو اُن کا ہے۔

    آج تیس سال بعد جب وہ میری بغل میں لیٹی تو مجھے خدا کے خدائی سمجھ میں آئی کہ یہ امیر غریب، کالا گورا، یہ طبقہ، یہ فرقہ، یہ قومیت یہ شان و شوکت، سب فانی ہے۔ جس مٹی کی قبر میں میں لیٹا ہوں، اُسی مٹی میں آج وہ دفن ہوگئی۔ اور وہ اُتنی ہی بے بس ہے جتنا کہ کوئی بھی انسان بغیر روح کے ہوتا ہے۔ آج کوئی دولت، کوئی افسر،کوئی انسان اُس کو کسی سے افضل نہیں کر سکتا۔
    جس مٹی میں میں لیٹا ہوں، اُسی میں وہ دفن ہے

  • ایک ہچکی – ریاض علی خٹک

    ایک ہچکی – ریاض علی خٹک

    ریاض خٹک عزیز و اقارب، دوستوں اور ڈاکٹروں کے درمیان لیٹا مریض، جانکنی میں مبتلا اس انسان کے آس پاس محتلف سوچیں محو پرواز تھیں. کوئی گھڑی دیکھ کر اگلی اپائٹمنٹ کے ٹائم کا حساب لگارہا تھا، کوئی جنازے اور اس کے لوازمات کا، کوئی وصیت میں اپنے حصے کا، کوئی ’’عیادت کو کون کون آیا‘‘ کا حساب لگا رہا تھا. کوئی قبرستان میں پہلے سے دفن عزیزوں کے ساتھ دستیاب قبر کا اندازہ کررہا تھا. تو کوئی اس مریض سے منسلک تلخ و شیریں لمحات سوچ رہا تھا.

    مگر یہ بسترِ مرگ پر لیٹا آخری ہچکی کا مسافر کیا سوچ رہا تھا. اس کی کمزور نظریں کیا کھوج رہی ہیں؟

    ایک آخری نظر، اس دنیا پر جہاں اس نے زندگی کے نام سے ماہ و سال گزارے، جہاں یہ روتا ہوا بند مٹھیاں آیا تھا، جہاں یہ بڑا ہوا، رشتے سمجھے، جینا سیکھا، رشتے بنائے، زندگی میں حاصل کی دوڑ پر بےتاب دوڑنے کی مشقت کی. جہاں اس سراب سرائے میں اُس نے اپنی مشقت کی دیواریں بنائیں. پر آج وہ مقام آیا، زندگی کا ابدی سچ. موت

    ایک ہچکی ایک ٹوٹی پھوٹی سانس اس بدن کی آخری ڈور جو کھبی صحتمند تھا، جو کبھی مغرور تھا، دنیا کو اپنی ٹھوکر پر رکھتا تھا، انا کا بھاری بھرکم بوجھ اس کے کاندھوں پر ہر وقت لدا رہتا تھا.

    اس ایک ہچکی میں دستیاب لمحۂ حیات میں اس کے سامنے پوری زندگی پلک جھپکتے نگاہ کے سامنے گزر گئی. ادراک ہوا، فہم ملا کہ بس یہ تو پلک جھپکنے جتنا عرصہ ہی تھا.
    کیا زندگی کیسی زندگی؟ بس یہ پلک جھپکنے کا لمحہ ہی زندگی تھا؟

    اس ہچکی کے دوران زندگی کا میزان آنکھوں کے سامنے آگیا. کیا پایا؟ کچھ نہیں کہ ہاتھ خالی ہیں. وہ دولت جس کی طلب میں صبح شام ایک کیے. یہاں رہ گئی. وہ طاقت جس کے حصول کےلیے مشقت اٹھائی، یہاں رہ گئی. وہ رشتے جن کے کےلیے یہ سب کیا، یہاں رہ گئے، وہ بدن جس کے اطمینان کےلیے یہ دکان سجائی، لاغر کمزور بستر مرگ پر آخری ہچکی کا ہچکولا کھا رہا ہے.
    تو کیا پایا، کیا حاصل کیا. جواب کچھ نہیں، اور آخری ہچکی میں مٹھیاں کھل گئیں. پھیلی ہوئی ہھتیلیاں، خالی ہاتھ سوالی بن گئے.
    یہ بندہ خالی ہاتھ جارہا ہے. سوالی جا رہا ہے. اس اعمال کے بھروسے جو پہلے بھیج چکا. حاصل چھوڑ کر جا رہا ہے.

    آخری ہچکی نے منظر دھندلا دیا. بندہ اپنے رب کے روبرو ہونے چل پڑا. یہ ادراک ہوا کہ یہ سب سراب ہے، سرائے ہے، اپنا نام بھی یہاں چھوڑ گیا. نام تو ہمھاری پہچان کے لیے تھا. ورنہ اس آخری ہچکی کے بعد وہ بدن نام نہیں میت کہلاتی ہے.

  • مرن والے مر گئے، سانوں کی – عظمی طور

    مرن والے مر گئے، سانوں کی – عظمی طور

    یہاں جنازہ اُٹھا نہیں اور دیگیں کھڑکنے لگتی ہیں، آنسوؤں کی جگہ مُرغی کی ٹانگ دکھائی دینے لگتی ہے، باآوازِ بلند کُھسر پُھسر ہونے لگتی ہے، قرض اُٹھا کر مُرغِ مسلم پکانے والا اِسی کُھسر پُھسر سے بچنے کے لیے جنازے کی مٹی کاندھوں سے جھاڑ بس ’’پوری پڑ جائے‘‘ کی فکر میں رہتا ہے. دوپٹوں کے پلوؤں سے قمیض کے دامن سے ہاتھ پونچھنے والے ڈکاریں مار کر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دل ہی دل میں چالیسویں اور اس کے درمیان آنے والی’’رسومات‘‘ میں اچھا کھانا پکنے کے یقین کے ساتھ ساتھ حوصلے کی تلیقین کرتے اپنی اپنی دُنیا میں نکل جاتے ہیں. کیا ہی اچھا ہو کہ مُرغی اُڑانے والوں کو اِس بات کا احساس ہو جائے کہ وہ مُرغی نہیں بلکہ اُس قرض اُٹھا کر ’’پوری‘‘ کرنے والے کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں.

    ہم کس زمانے میں زندہ ہیں؟ ( یہاں زندہ لکھنے کے لیے لکھنے والے کو بڑے حوصلے سے کام لینا پڑا) کس وقت کا ہاتھ تھام کر چل رہے ہیں؟ یوں تو ہم ترقی کی تعلیم کی بات کرتے ہیں لیکن بہت سے ایسے لوگ اب بھی اِس دور میں بھی ان سب چیزوں کو معیوب نہیں گردانتے، سب چُپ چاپ منہ تکے جاتے ہیں، کوئی نہ تو انسان کے گھمنڈ میں آ کر بنائے گئے اِس نظام کو غلط کہتا ہے نہ ہی اس سے بائیکاٹ کرنا چاہتا ہے.

    ہم کیوں نہیں سوچتے کہ یہ روایت جو مرنے والوں کے ساتھ مر جانے والوں کےلیے اذیت ناک ہے، اسے روکا جائے، کیوں قرض لے کوئی، کیوں کوئی کُھسر پُھسر سے پچنے کی خاطر خود کو قبرستان میں چھوڑ آئے، کیوں ہم بغیر کھائے پیے میت والے گھر سے نہیں اُٹھ سکتے ( اور یہاں تو ہمیں شادی پر سلامی دینے کے بعد پیسے پورے کرنے کی’’روایت کی پابندی‘‘ بھی نہیں کرنا ہوتی ) کیوں ایسا کرنا ہمیں ممکن نہیں لگتا؟ کیوں اِس معاملے میں ہم راویات کی پاسداری اتنی سختی سے کرتے ہیں؟؟ کیوں ؟؟ کیوں؟؟
    مانگی تھی ایک بار دُعا ہم نے موت کی
    شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم

    اَلّٰلُھُمَ اَعِنّیْ عَلٰی غَمَرٰتِ اْمَوْتِ وَسَکَرَاتِ الْمَوْت
    ’’اے اللہ ! موت کی سختیوں اور بے ہوشیوں میں میری مدد فرما. آمین‘‘