Tag: مذہب

  • دو قومی نظریہ اور وطنیت: کیا قومیں وطن سے بنتی ہیں؟ محمد زاہد صدیق مغل

    دو قومی نظریہ اور وطنیت: کیا قومیں وطن سے بنتی ہیں؟ محمد زاہد صدیق مغل

    زاہد مغل ایک بھائی نے بھارت اور پاکستان کی حالیہ کشیدگی میں دونوں طرف کے مسلمانوں کا اپنے اپنے دیش کے حق میں دوسرے کے خلاف بیان بازی کرنے سے دو قومی نظرئیے پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہوئے دو قومی نظریے کے مقابلے میں دی جانے والی اس تاریخی رائے کو وزنی قرار دیا ہے کہ ”قومیں وطن سے بنتی ہیں نہ کہ مذہب سے۔“ مگر یہ نتیجہ کچھ مزید غور و خوض کا متقاضی ہے۔

    دو قومی نظریے میں اصولا جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا طرز زندگی الگ ہے اور اس بنا پر انہیں یہ حق ہے کہ اپنی مرضی کا طرز زندگی اختیار کرنے کا بندوبست کریں۔ برصغیر کے مخصوص حالات کے تناظر میں یہ رائے رکھنے والوں کا خیال تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد جمہوری اصولوں کے مطابق یہاں ہندو نہ صرف مستقل اکثریت بن جائیں گے بلکہ مسلمانوں کی تاریخ کے پیش نظر مسلمانوں کے ساتھ انکے اچھے رویے کی امید بھی کم تھی جس کے کچھ مظاہرے تقسیم بنگال اور بہت سے دیگر معاملات میں سامنے آچکے تھے۔ لہذا انہوں نے یہ کہا کہ جہاں جہاں مسلم اکثریتی علاقے ہیں وہاں مسلمانوں کی الگ ریاست قائم کردی جائے۔

    اب رہی یہ بات کہ قومیں تو بنتی ہی وطن سے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر جنگ میں دو ریاستوں کے مسلمان باسیوں کے آپس میں ایک دوسرے سے لڑنے کو پیش کیا جائے تو یہ بات ان معنی میں درست نہیں کہ اس طرح تو پہلے بھی ایک مسلم بادشاہ کے مسلم فوجی دوسرے بادشاہ کے مسلم فوجیوں سے لڑا کرتے تھے، تو کیا اب یہ کہا جائے کہ قومیں بادشاہوں سے بنتی ہیں؟ فرد کس چیز کو اپنی بنیادی شناخت قرار دے کر یا کسی مفاد سے مغلوب ہوکر لڑنا شروع کردے گا، ظاہر ہے عملی دنیا میں اس پر بہت سے عناصر کارفرما ہوسکتے ہیں جس میں سے کچھ غلط اور کچھ درست ہوسکتے ہیں۔ جہاں وطن کو سب سے اعلی ترین خیر بتانے والا ڈسکورس کار فرما ہو وہاں فرد یقینا اس سے متاثر ہوکر غلط ترجیحات اختیار کرسکتا ہے۔

    پھر جن حضرات کا یہ دعوی ہے کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں انہیں اس سوال کا جواب بھی دینا چاہیے کہ وطن کس چیز سے بنتے ہیں؟ یعنی یہ کس عقلی اصول سے طے ہوتا ہے کہ انسانوں کا یہ ایک خاص مجموعہ جو چند فرضی جغرافیائی لکیروں میں مقید ہے یہ ایک وطن کے باسی ہوں گے اور ایسا ہونا ہی حق ہے؟ آخر اس بات کی کیا دلیل ہے کہ برصغیر میں متعدد زبانیں بولنے والے، مختلف عادات و اطوار و ثقافت رکھنے والے، مختلف رنگ و نسل والے سب لوگ ایک قوم بن کر ایک وطنیت کی بنیاد قائم کرتے ہیں؟ پرسوں تک افریقا ایک وطن تھا تو وہ ایک قوم تھے، کل وہ جنوبی اور شمالی میں تقسیم ہوگئے تو بعینہ ایک ہی تاریخ کے لوگ اچانک دو قومیں کس بنیاد پر بن گئے؟ آخر شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں سوائے ایک نظریاتی فرق کے ایسی کون سی چیز حائل ہے جو انہیں ایک قوم بن کر ایک وطن نہیں بننے دیتی، حالانکہ رنگ، نسل اور تاریخ دونوں کی ایک ہے؟ آپ غور کرتے جائیں، دنیا کے ہر حصے میں قوم کی کوئی ایک بنیاد نہیں ملے گی، ہر جگہ بس ایک فرضی جغرافیائی لکیر ملے گی، تو جب جدید وطنوں کے قیام کی کوئی ایسی عقلی بنیاد ہے ہی نہیں جو سب کے لیے قابل توجیہ ہو تو نظریہ پاکستان (مذہب) کی بنیاد پر اگر ایک عدد وطن دنیا میں وجود میں آگیا تو اس سے منطق کا کون سا اصول ٹوٹ گیا اور کس اٹل سماجی حقیقت کا انکار ہوگیا؟ دنیا بھر میں یورپی استعمار کی بندر بانٹ سے کھینچی جانے والی جغرافیائی لکیروں کی آخر کون سی عقلی توجیہ موجود ہے کہ دو قومی نظریے پر قائم ہونے والے وطن کی بنیاد عقلا غلط دکھائی دیتی ہے؟

  • ڈارون کا نظریہ ارتقا، ایک مسلمہ حقیقت – تیمور حسن

    ڈارون کا نظریہ ارتقا، ایک مسلمہ حقیقت – تیمور حسن

    تیمور حسن علمی ذوق رکھنے والے احباب نے یقینا ڈارون کے نظریہ ارتقا کے بارے میں سن رکھا ہو گا. نظریہ ارتقا دراصل ڈارون نہیں بلکہ جین بیپٹسٹ لمارک کا مرہون منّت ہے جو اس نے انیسویں صدی کے اوائل میں پیش کیا. ڈارون نے اس نظریہ کو اپنی تھیوری آف نیچرل سلیکشن کے ذریعے جلا بخشی اور وہ میکانزم بتایا جس کے نتیجے میں جاندار ارتقائی منازل طے کر کے مختلف انواع میں ظاہر ہوتے ہیں. مغربی ممالک میں اس نظریے کو سائنسدانوں اور عوام میں عمومی قبولیت کا درجہ حاصل ہے، ان ممالک میں ستر فیصد سے زیادہ عوام اس کی صحت کی قائل ہے. اس کے برعکس وہ ممالک جہاں روزمرّہ کی زندگی میں مذہبی رنگ آج بھی غالب ہے، اسے جھوٹ کا پلندہ سمجھا جاتا ہے، جو لوگوں کو مذہب سے دور کرنے اور انھیں ملحد بنانے کے لیے استمعال ہوتا ہے. میں یہاں اس نظریہ کی تفصیل میں جائے بغیر اس سائنسی اپروچ کی بات کروں گا جسے اپنا کر یہ نظریہ بآسانی سمجھا جا سکتا ہے.

    سائنس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ کسی طبعی مظہر کی سائنسی وضاحت کے لیے غیب کی طرف نسبت نہیں کی جا سکتی. اگر کسی شخص سے یہ سوال کیا جائے کے بارش کیسے برستی ہے اور وہ یہ کہے کہ خدا ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو بادلوں کو برسنے کا حکم دیتا ہے تو اس کا جواب مذہبی اعتبار سے تو ٹھیک ہے لیکن سائنس کے اعتبار سے اس کی وضاحتی افادیت صفر ہے. اسی طرح اگر اس بات پہ غور کیا جائے کہ زمین کے ٹھنڈا ہونے کے بعد جانداروں کی انواع مثلا شیر، بکری، مچھلیاں، مکھی، مچھر کہاں سے آئے تو یہ کہنا کہ انہیں خدا نے پیدا کیا، مذہب کے اعتبار سے تو ٹھیک ہے لیکن سائنسی اعتبار سے اس کی کوئی اہمیت نہیں. نظریہ ارتقا وہ واحد نظریہ ہے جو اس کرہ پر موجود مخلوقات کے تنوع کو طبعی قوانین کے تحت بیان کرتا ہے. اگر کسی کو اس نظریہ پر اعتراض ہے تو سو بسم اللہ! کوئی متبادل نظریہ دے جو اس تنوع کی وضاحت کر سکے، مگر در حقیقت ایسا کوئی متبادل نظریہ نہیں دیا جا سکا.

    جین بیپٹسٹ اور ڈارون کا اعجاز یہ ہے کہ انہوں نے پیچیدہ جانداروں کی انواع کے ظہور کو سمجھنے کا ایک نہایت سادہ اصول دیا اور وہ یہ کہ کم پیچیدہ جاندار طبعی قوانین کے تحت ارتقا پذیر ہو کر آگے بڑھتے ہیں جس سے ان کی پیچیدگی میں اضافہ ہوتا ہے. یہ اصول صرف جانداروں کو ہی نہیں بلکہ اس کائنات میں موجود کئی دوسرے پیچیدہ پراسیس کو سمجھنے کے لیے بھی مددگار ہے.

  • بگ بینگ کیا ہے؟ کامران امین

    بگ بینگ کیا ہے؟ کامران امین

    کامران امین 15 ستمبر 2016 کو دلیل میں مجیب الحق حقی کی بگ بینگ کے حوالے سے ایک تحریر شائع ہوئی جس میں کافی ساری غلط فہمیاں اکٹھی کی گئی تھیں اور انتہائی سادہ سائنسی حقائق کو بھی درست بیان نہیں کیا گیا۔ بگ بینگ کے بارے میں ہمارے معاشرے میں بہت سارے غلط تصورات مقبول ہیں اور تحریر میں بھی انہی تصورات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ ان کی غلطیوں پر بحث کرنے کے بجائے میں نے مناسب سمجھا کہ بگ بینگ کے حوالے سے ایک مضمون تحریر کر لیا جائے جس میں ان غلطیوں پر بھی سیر حاصل بحث ہو جائے گی۔

    مضمون شروع کرنے سے پہلے میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سائنس اور مذہب دو الگ الگ میدان ہیں۔ دونوں کی حدود، شرائط و ضوابط اور کام کرنے کا طریقہ بھی بالکل الگ ہے۔ لہذا سائنس کو مذہب سے ثابت کرنا یا مذہب کو سائنس سے ثابت کرنا دونوں نقطہ ہائے نظر میرے خیال میں غلط ہیں۔ اس کے علاوہ سائنس میں کوئی بھی بات حتمی نہیں ہوتی۔ ایسی کوئی بھی دریافت، قانون یا اصول جس پر سارے بڑے سائنس دان ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہوں، عین ممکن ہے کہ اگلے ہی لمحے کسی معمولی سے تجربے سے وہ غلط ثابت ہو جائے جبکہ مذہب میں بیان کردہ حقائق و واقعات کو صرف اللہ ہی تبدیل کر سکتا ہے، کوئی اور نہیں۔ سائنس صرف انہی چیزوں پر بحث کرتی ہے جو اپنا وجود رکھتی ہوں، جنھیں حواس خمسہ میں سے کسی ایک کی مدد سے بھی محسوس کیا جا سکے چاہے اس کے لیے کوئی سائنسی آلہ درکا ہو یا بغیر کسی آلے کا وہ چیز محسوس ہو جائے لیکن مذہب میں ان دیکھی چیزوں پر ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اور مذہب ان مظاہر پر بحث کرتا ہے جنہیں ہم تمام تر آلات کے استعمال کے باوجود محسوس کرنے سے عار ی ہیں۔ سائنس صرف حقائق تک پہنچنے کا نام ہے، ان حقائق کو آپ کیسے اور کہاں استعمال کریں، سائنس اس بات پر بالکل بھی بحث نہیں کرتی لیکن مذہب میں ہم جانتے ہیں کہ اخلاقیات پر بھی توجہ دی جاتی ہے ۔

    ان ساری باتوں سے ہٹ کر بھی آج تک ایسا کوئی بھی تجربہ نہیں کیا جا سکا جس سے یہ ثابت ہو کہ خدا ہے اور نہ ہی دہریت کے علمبردار ایسا کوئی تجربہ ایجاد کر سکے جس سے یہ ثابت ہو کہ خدا نہیں ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سائنس خدا کے وجود یا عدم وجود کی گواہی دینے سے قاصر ہے۔

    اب آتے ہیں اصل مضمون کی طرف۔ بگ بینگ دراصل ایک نظریہ ہے جو اس بات کی سائنسی وضاحت پیش کرتا ہے کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی اور ابھی ایسی حالت میں کیوں ہے جس میں وہ نظر آتی ہے۔ مختصراً یہ کہ یہ کائنات کی تشکیل اور تعمیر کو سمجھنے کے لیے پیش کیا جانے والا نظریہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں بگ بینگ کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں وابستہ ہیں جیسا کہ اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اچانک کہیں سے ایک دھماکہ ہوا اور جیسے دھماکے کے بعد عمارت کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے بکھر جاتے ہیں، ایسے ہی مادے سے یہ ستارے اور سیارے معرض وجود میں آگئے۔ محترم حقی صاحب نے کسی شعلے کا ذکر کیا، مطلب کسی نے بارود کو آگ دکھائی اور دھماکہ ہوگیا۔ یہ تصور سراسر غلط اور ناقابل فہم ہے، بگ بینگ ایسا کچھ نہیں کہتا ہے۔

    بگ بینگ تھیوری کے مطابق اگر ہم وقت کے پہیے کو پیچھے گھمائیں تو ابتدا میں ساری کائنات ایک اکائی تھی۔ کائنات کا سارہ مادہ ایک جگہ مرتکز تھا اور شروع میں یہ مرکز لامحدود گرم، لامحدود کثافت اور لامحدود پریشر کا حامل تھا۔ پھر کچھ ایسا تغیر ہوا کہ یہ مادہ پھیلنا شروع ہوگیا۔ طبیعات کے سارے قوانین اس اکائی پر جا کر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں حتی کہ وقت کا آغاز بھی بگ بینگ کے بعد ہوا، اس لیے فی الحال ہم نہیں جانتے کہ ایسا کیا ہوا جس سے وہ اکائی پھیلنا شروع ہوئی۔ اگر ہم کائنات کی تخلیق کے ایک سیکنڈ بعد کا اندازہ لگائیں تو درجہ حرارت دس بلین ڈگری سیلئیس سے بھی زیادہ تھا اور ہر طرف بنیادی ذرات الیکٹران، پروٹان، نیو ٹران وغیرہ موجود تھے۔ عناصر کی تشکیل بہت بعد میں ہوئی۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اکائی کہاں سے آئی؟ اس نے کیوں پھیلنا شروع کیا؟ عناصر کب ظہور پذیر ہوئے اور کائنات ٹھنڈی کیسے ہوئی؟ ان سارے سوالات کا جواب میں اگلی نشست میں دینے کی کوشش کروں گا. ان شاء اللہ

  • کانٹ اور انبیاء کی تحصیل وحی – ڈاکٹر محمد شہباز منج

    کانٹ اور انبیاء کی تحصیل وحی – ڈاکٹر محمد شہباز منج

    Exif_JPEG_420 کانٹ کی معروف کتاب Religion within the limits of reason alone کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس کے نزدیک مذہب کی وہی صورت قابل قبول ہے، جس میں کوئی چیز عقل سے ماورا نہ ہو۔ اس کا کہنا ہے کہ مذہب کی بنیاد عقل پر ہونی چاہیے نہ کہ وحی پر۔ وہ وحی کو ایک غیر یقینی ذریعہ علم قرار دیتاہے، جس پر معاملات کی بنیاد رکھنا گمراہی ہے۔ وحی آدمیوں کے پاس آدمیوں ہی کے ذریعے سے پہنچتی ہے، جن سے غلطی ہونا عین ممکن ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ یہ آدمی کے پاس براہ راست خدا کی طرف سے آتی ہے، تو بھی آدمی کو اس کی تعبیر میں غلطی نہ لگنے کی کیا ضمانت ہے؟ حضرت ابراہیم کا خواب میں اپنے بیٹے کو بھیڑ کی طرح قربان کرنے کا حکم اسی قبیل سے ہے۔ایسی صورت میں بندہ انتہائی درجےکے غلط کام کا خطرہ مول لیتا ہے۔ آج کل کانٹ کے اس خیال کے حوالے سے اہل علم میں بحث جاری ہے۔

    راقم الحروف نے کانٹ کے اس خیال اور آنحضور ﷺ کے حوالے سے معروف قصہ غرانیق (جو بعض بڑے بڑے مسلم مصنفین کی کتابوں میں تائیداً نقل ہوا ہے) کا جائزہ لیا تو یہ نتیجہ سامنے آیا کہ انبیاء کا وحی کو وصول کرنے اور لوگوں تک پہنچانے کے سلسلہ میں کسی قسم کی غلطیِ تعبیر یا آمیزش شیطانی سے دوچار ہونا ایک نہایت ہی مغالطہ آمیز مفروضہ ہے، جسے مخالفین وحی کی غلط اندیشی، جھوٹی روایات پر انحصار اور مستشرقین کی اسلام دشمنی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس طرح کے خیالات یا تو بد طینتی و تعصب یا پھر قدرت خداوندی و حقیقتِ نبوت سے ناواقفیت کی دلیل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر تک خدا کی وحی نہایت حفاظت و صیانت کے ساتھ پہنچائی جاتی ہے۔ پیغمبر معصوم عن الخطا ہوتا ہے اور اس کو خدا کی طرف سے عطا ہونے والی اس عصمت کا تقاضا ہے کہ وہ وحی الٰہی کو، اگر لفظی ہو تو لفظی اور معنوی ہو تو معنوی، ہر اعتبار سے صحیح صحیح الفاظ و معانی کے ساتھ بغیر کسی خطا اور غلطی تعبیر کے لوگوں تک پہنچا دے۔ خدا تعالیٰ نے اس بات کا خصوصی انتظام کر رکھا ہوتا ہے کہ پیغمبر خدا کی طرف سے ملنے والی وحی کو وصول کرنے کے سلسلہ میں کسی بھی طرح کے ابہام اور خلط معانی سے دو چار نہ ہو۔ انبیاء کو خداکی طرف سے ملنے والی ہدایت کی خصوصی حفاظت سے متعلق قرآن کا ارشاد ہے:
    [pullquote] فَانَّہ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا لِّیَعْلَمَ اَنْ قَداَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْہِمْ وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا[/pullquote]

    حضرت ابراہیم کے خواب سے متعلق ہرزہ سرائی کرنے والے اگر اس واقعہ سے متعلق قرآنی بیانات پر نگاہ ڈالیں تو ان پر حقیقت واضح ہو جائے گی کہ حالت بیداری میں نازل ہونے والی وحی تو ایک طرف، خواب میں ملنے والی وحی سے متعلق بھی نہ صرف یہ کہ پیغمبروں کچھ شک نہ ہوتا تھا بلکہ ان کے سعادت مند بیٹے بھی اس کو بغیر کسی الہام کے وحی خداوندی سمجھتے تھے۔ قرآن کے مطابق جب اسماعیل حضرت ابراہیم کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچتے ہیں تو حضرت ابراہیم اسماعیل سے کہتے ہیں:
    [pullquote] یٰبُنَیَّ اِِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی قَالَ یٰاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ اِِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ[/pullquote]

    اب اس میں غور طلب امر ہے کہ حضرت ابراہیم کے الفاظ میں کہیں وحی خداوندی کا ذکر ہے اور نہ ذبح اسماعیل سے متعلق کسی حکم خداوندی کا۔ آپ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔ سعادت مند بیٹا جھٹ سمجھ جاتا ہے کہ خواب وحی الہی ہے، اور کہتا ہے کہ آپ کو جو حکم ہوا اس میں دیر کیسی؟ تو جس نبی کا نہایت کم سن بیٹا اس درجہ صاحب بصیرت ہو، اسے وحی الہی کو سمجھنے میں کیسے غلطی لگ سکتی ہے۔

    جہاں تک حضورﷺ کی وحی میں آمیزشِ شیطانی کے واقعہ یا قصہ غرانیق کا تعلق ہے تو یہ گو بعض مسلمانوں کی تصنیفات میں مذکور ہے، مگر مسلم علماء و محققین نے اسے نہایت لغو اور موضوع روایات پر مبنی افسانہ قرار دیا ہے۔ مولانا حقانی اسے سخت جھوٹ اور ملحدوں کی بناوٹ سے تعبیر کرتے ہیں۔ مولانا مودودی کے نزدیک کوئی مومن ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں مان سکتا کہ آنحضور ﷺ پر وحی کسی ایسے مشتبہ طریقے سے آتی تھی کہ جبریل کے ساتھ شیاطین بھی آپ پر کوئی لفظ القا کر جائے اور آپ اس غلطی فہمی میں رہیں کہ یہ لفظ بھی جبریل ہی لائے ہیں۔ ڈاکٹر شیخ محمد بن محمد ابو شھبہ نے متعدد آئمہ کے اقوال نقل کر کے اس قصے سے متعلق روایات کو موضوع ثابت کیا ہے۔ علامہ محمد صادق ابراہیم عرجون نے اس قصہ کو دشمنان اسلام کا گھڑا ہوا افسانہ قرار دیتے ہوئے نہایت سختی سے رد کیا ہے۔ لہذا پیغمبر کے تحصیل و ابلاغ وحی کے سلسلہ میں القائے شیطانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انبیاء کا تو خیر مرتبہ ہی بہت بلند ہے، قرآن کی رو سے اللہ کے صاحب ایمان اور نیک و پارسا غیر نبی بندوں پر بھی شیطان کا کچھ بس نہیں چلتا:
    [pullquote] اِنَّہ لَیْسَ لَہ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْن َاٰمَنُوْا وَ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْن۔اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌ وَ کَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلًا[/pullquote]

    سو جب ایمان، خلوص اور توکل کی صفات سے متصف غیر نبی بندگان خدا کا شیطان کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو ان نفوس قدسیہ پر کیسے غلبہ پا سکتا ہے، جو دنیا میں آتے ہی خلق خدا کو شیطان کے شر سے بچا کر دربار خداوندِ قدوس میں حاضر کرنے کے لیے ہیں۔

  • قوم کیا ہے؟ اسلام کا نظریہ قومیت کیا؟ معظم معین

    قوم کیا ہے؟ اسلام کا نظریہ قومیت کیا؟ معظم معین

    معظم معین ا اکثر یہ موضوع زیر بحث رہتا ہے کہ قوم کی بنیاد کس چیز پر ہوتی ہے؟ قوم کسی خطے میں رہنے والے افراد سے مل کر بنتی ہے یا ایک زبان بولنے والے مل کر ایک قوم بناتے ہیں؟ ایک رنگ کے لوگ ایک قوم ہوتے ہیں یا مشترک مفاد کے حامل لوگ ایک قوم کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں؟ بھانت بھانت کا فلسفہ سننے کو ملتا ہے۔ لبرل اور سیکولر خواتین و حضرات مصر ہیں کہ ایک خطے میں رہنے والے اور مشترک تاریخ و تمدن رکھنے والے لوگ ایک قوم ہوتے ہیں۔ پھر قوم، ملت اور امت کے الفاظ کی بھی تشریح کی جاتی ہے اور ان میں فرق بیان کیے جاتے ہیں۔

    سیکولر طعنہ دیتے ہیں کہ ایشیا میں پیدا ہو کر عربوں کی تاریخ کو کس منہ سے اپنا قرار دیتے ہو؟ جو عروج و زوال عربوں کی تاریخ میں وقوع پذیر ہوئے اس کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ عربوں کو جاتا ہے، تم کیوں لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہوتے ہو؟ عرب تو تمہیں لفٹ تک نہیں کراتے تم کس امت اور کس قوم کے بات کرتے ہو؟ جس تاریخ کو تم مسلمانوں کی تاریخ گردانتے ہو وہ دراصل عربوں کی تاریخ ہے ایشیا اور خصوصا جنوبی ایشیا میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کا اس سے کیا لینا دینا؟

    اسلام کا نظریہ قومیت بڑا واضح ہے. وہ مذہب یا عقیدے کو اس کی بنیاد بتاتا ہے جسے ایمان بھی کہا جاتا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، اور نہ صرف اس دنیا میں بلکہ اگلے جہاں میں بھی قوم کی بنیاد انبیا و رسل ہی بتائے گئے ہیں یعنی ایک نبی کے ماننے والے اور ایک عقیدہ رکھنے والے لوگ ایک قوم ہیں۔ جو کسی نبی کا انکار کر دے وہ اس قوم سے نکل گیا۔ قیامت کے دن بھی تمام انسان اپنے اپنے انبیاء کی قیادت میں اکٹھے ہوں گے۔ کوئی نبی صرف ایک امتی کے ساتھ آئے گا کسی کے ساتھ ذیادہ امتی ہوں گے۔ آپ صلی
    اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کی تعداد سب سے ذیادہ ہو گی جس پر آپ ﷺ فخر کریں گے۔

    ہمارے چند دانشور ایک خطے سے متعلق نسلوں کو ایک قوم گردانتے ہیں جس کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔ مذہب سے الرجک ہونے کے باعث جس تہذیب اور تاریخ کو اسلام پسند مسلمانوں کی تاریخ کہہ کر بیان کرتے ہیں وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ تو عربوں کی یا ترکوں کی تاریخ ہے تم اپنے آپ کو اس سے نتھی نہ کرو۔ مگر ہمارے ذہن میں اس سے یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ پھر تاریخ کہاں جا کر رکے گی بابا گرو نانک پر یا چانکیہ پر؟ راجہ داہر کو اپنا جد امجد قرار دیں گے یا چندرگپت موریا کو؟ پھر یہاں ہی کیوں رکیں؟ اس طرح تو سب انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں، سب کی تاریخ مشترک ہونی چاہیے۔

    اسلامی تاریخ پر غور کریں تو قوم کی تشکیل سے متعلق بڑے غیر معمولی واقعات ملتے ہیں. حضرت عمر رض نے اپنے سگے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو غزوہ بدر میں اپنے ہاتھ سے قتل کیا تھا کیونکہ وہ انہیں اپنی قوم کا فرد خیال نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے عزوہ بدر میں اپنے بیٹے کو مبارزت کے لیے طلب کیا لیکن آپ ﷺ نے اپنی طبعی رحم دلی کے باعث اجازت نہ دی۔ اس سے بڑھ کر معاملہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کا ہے جنہوں نے غزوہ
    احد میں اپنے سگے باپ جراح کو قتل کیا تھا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے جس سے صرف نظر کیا جا سکے۔ تلوار چلی تھی اور باپ کے جسم پر وار ہوا تھا، اس باپ پر جو جنم دینے کا باعث تھا اور جس نے پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ ابو عبیدہ ابن الجراح عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ اسے سے بڑھ کر کیا مثال مل سکتی ہے کہ ابتدائے اسلام کے دور میں نبی پاک ﷺ نے مسلمانوں کو قومیت سے متعلق کیا تصور دیا تھا۔

    یہ سب واقعات نسل یا وطن کی بنیاد پر قومیت کا انکار کرتے ہیں اور دین و مذہب پر قوم کی بنیاد رکھنے کا اعلان کرتے ہیں۔ اب اگر عربوں، ترکوں یا کسی دوسری قوم کا طرز عمل مختلف ہو تو وہ ہمارے لیے دلیل نہیں بن سکتا وہ غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمارے لیے دلیل تو رسول ﷺ کی مثال ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک باپ کے دو بیٹے اسلام اور کفر کی تفریق میں جدا جدا ہو جائیں اور دو بالکل اجنبی آدمی اسلام میں متحد ہونے کی وجہ سے ایک قومیت میں مشترک ہوں۔

    قائد اعظم کا اس بارے میں کیا موقف تھا وہ ان کے ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے
    The difference between the Hindus and Muslims is deep-rooted and ineradicable, we are a nation with our own distinctive culture and civilization, language and literature, art and architecture, names and nomenclature, sense of value and proportion, legal laws and moral codes, customs and calendar, history and traditions, aptitude and ambitions, in short we have our own distinctive outlook on life and of life. By any canons of international law we are a nation.
    [Interview to Preston Crom of Associated Press of America, Bombay, July 1, 1942, K.A.K Yusufi, edit, “Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam”, Lahore, Bazm-e-Iqbal, 1996, Vol III, P. 1578]

    ”مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین اختلافات بہت وسیع اور گہرے ہیں۔ ہم ایک الگ قوم ہیں۔ ہماری اپنی تہذیب و تمدن ہے۔ زبان، ادب، رسوم و رواج، رکھ رکھاؤ، اخلاقیات، قوانین، تاریخ، تہوار، نام، مقاصد اور نظریات سب میں ہم ایک الگ اور نمایاں قوم ہیں۔ مختصرا یہ کہ ہم ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ کسی بھی بین الاقوامی قانون کے مطابق ہم ایک الگ قوم ہیں۔“

    اقبال کا نظریہ بھی اس بارے میں نہایت واضح اور دو ٹوک ہے۔ فرماتے ہیں

    قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
    جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
    بازو ترا توحید کی قوت کے قوی ہے
    اسلام ترا دیس ہے تو مصطفی ہے

    اقبال نے تو رنگ نسل زمین کا انکار کر کے خاص طور پر مذہب پر قومیت کی بنیاد رکھی ہے

    بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
    نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

    اور دوسری جگہ کہا کہ

    اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
    خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
    ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
    قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

    اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم زبوں حالی کا شکار ہوتی ہے تو اس میں ایسے کم حوصلہ افراد کا پیدا ہو جانا بالکل فطری امر ہے جو اس قوم سے اپنی وابستگی پر شرمندگی کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن ماں اگر غریب یا بد صورت ہو تو اس سے قطع تعلق نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمان اگر پسماندگی اور انتشار کا شکار ہیں تو یہ ہمارا مسئلہ ہے اسے ہم نے ہی حل کرنا ہے۔ اس سے پریشان ہو کر قومیت سے ہی انکاری ہو جانا کوئی بہادری کی علامت نہیں۔ ہم سب ایک نبی کے ماننے والے ہیں اور اس نبی کی نام پر ہی اکٹھے ہو سکتے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی چیز ہمیں اکٹھے کرنے والی نہیں ہے۔

    اسلام قبائل کو محض تعارف کا سبب قرار دیتا ہے نہ کہ اس کی بنیاد پر قومیت الگ کرنے کا۔ جہاں تک موجودہ جدید ریاستوں کا تعلق ہے تو ان میں رہ کر بھی متحد رہا جا سکتا ہے۔ اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ یہ آج کے مسلمان کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اگرچہ یہ منزل ایک طویل سفر کی متقاضی ہے مگر مقصود و مطلوب یہی ہے.
    یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
    اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی

  • جب کلچر بدل جاتا ہے – محمد عامر خاکوانی

    جب کلچر بدل جاتا ہے – محمد عامر خاکوانی

    زمانہ جاہلیت میں عربوں میں عکاظ کا میلہ بڑا مشہور تھا۔ دیگر ثقافتی سرگرمیوں کے علاوہ شاعری کے مقابلے بھی اس کی وجہ شہرت تھے۔ عرب شاعر دور دراز کے علاقوں سے سفر کر کے عکاظ کے سالانہ میلے میں شریک ہوتے اور اپنے اشعار سناتے۔ اس زمانے کی عربی شاعری قصیدے کی شکل میں تھی۔ اول انعام حاصل کرنے والے قصیدے کی شہرت چند ہی دنوں میں پورے عرب میں پھیل جاتی تھی کہ اس زمانے میں ابلاغ کے دو ہی طریقے تھے، شاعری اور عرب خطیوں کے فصیح و بلیغ خطبے۔ عکاظ کے ان میلوں میں اول انعام پانے والے سات شاہکار قصیدوں کو سونے کے پانی سے لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا، جو بعد میں’’سبع معلقات‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کی تحقیق کے مطابق ان سات شاعروں میں امراؤ القیس، طرفہ العبد، زہیر بن ابی سلمہ، لبید بن ربیعہ، عمروبن کلثوم (اردو میں اسے امر پڑھنا چاہیے)، حارث بن حلزہ اور عنترہ بن شداد شامل ہیں۔ امراؤ القیس جاہلی شاعری کا امام کہا جاسکتا ہے۔ اس کا دور حضور اکرم ﷺ سے کوئی ایک سو سال پہلے تھا۔ وہ پہلاشاعر تھا، جس نے عربی قصائد کا رخ متعین کیا اور ایک ایسی روایت ڈالی، جس کی صدیوں تک پیروی ہوتی رہی۔ امراؤ القیس اپنی شاعری میں ان کھنڈروں کا ذکر کرتا اور وہاں کھڑے ہو کر گریہ کناں ہوتا۔ اس کا ایک مشہور شعر ہے،
    دوستو، ذرا بس دن پرانے اس کھنڈر پر رک جانا کہ ہم اس اجڑے دیار پر آنسو بہا لیں. یہ روایت ایسی مقبول ہوئی کہ ہر عرب شاعر اپنے قصیدے میں اپنی گم گشتہ محبوبائوں کی یاد میں آنسو ضرور بہاتا۔ ہارون الرشید کے زمانے کے مشہورشاعر ابونواس نے اسی رویے پر طنزا یہ شعر کہا
    ’’وہ شاعر جو ایک ویرانے کے سامنے ’’کھڑا ہو کر‘‘ روتا آیا ہے، اس سے کہو کیا مضائقہ تھا کہ وہ کبھی بیٹھ بھی جاتا.‘‘

    بات عکاظ کے میلے سے شروع ہوئی تھی۔ ان میلوں میں طویل عرصے تک عرب کا بزرگ شاعر بابغہ زبیانی منصف کے فرائض انجام دیتا تھا۔ کھلے میدان میں سرخ چمڑے کا خیمہ نصب کر دیا جاتا، جہاں نابغہ قیام پذیر ہوتا۔ نوجوان شاعر اسے اپنے قصیدے دکھاتے اور اس سے رہنمائی لیتے۔ ایسے ہی ایک میلے میں اس زمانے کا مشہور شاعر اعشیٰ، حضرت حسان بن ثابت ؓ اور عرب کی مشہور مرثیہ گو شاعرہ خنسا شریک تھے۔ بی بی خنسا نے جب اپنا کلام سنایا تو بڑے بڑے ماہرین کلام ان کے پرتاثیر شعروں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ نابغہ نے بے اختیار کہا،’’اے دختر عرب! اگر تم سے پہلے اعشیٰ اپنا کلام نہ سنا چکا ہوتا تو میں کہتا کہ جن و انس میں تم سے بڑا شاعر کوئی نہیں۔‘‘ نابغہ زبیانی جیسے باکمال شاعر کی یہ بےساختہ رائے بی بی خنسا کے کلام کی بلاغت اور تاثیر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    بی بی خنسا جو سن آٹھ ہجری میں اسلام لے آئیں اور پھر حضرت عمر ؓ کے زمانے تک زندہ رہیں، عربوں کی سب سے ممتاز مرثیہ گو شاعرہ تھیں۔ ان کے مرثیوں کے ہر زمانے کے عرب شاعر اور نقاد معترف رہے۔ جریر عربی ادب کے تین بڑے ہجوگو شاعروں میں سے ایک ہے۔ منہ پھٹ جریر ہر ایک پر اعتراض کرتا تھا، مگر کسی نے اس سے پوچھا کہ تم سے بڑا شاعر اور کون ہے، وہ اس پر جھنجھلا کر بولا کہ اگر خنسا مجھ سے پہلے نہ گزری ہوتی تو میں اپنا نام ہی لیتا۔ بی بی خنسا کے تمام مرثیے ان کے دو بھائیوں معاویہ اور صخر کی یاد میں تھے۔ معاویہ کے بارے میں وہ کہتی ہیں:
    ’’جس کو عزت ورثے میں ملی تھی اور جو اپنی سیرت میں قابلِ تعریف تھا۔ جب وہ دینے پر آتا تو بےحساب دیتا تھا اور جنگ میں اس کے حملے منہ توڑ ہوتے تھے۔‘‘
    جواں سال معاویہ کے مرنے پر بی بی خنسا نے بہت جذب کے ساتھ مرثیے کہے۔ ایک مرثیے کے آغاز میں وہ اپنی پُرنم آنکھوں کے بارے میں سوال کرتی ہیں:
    ’’یہ میری آنکھ کو کیا ہو گیا ہے؟ کیا ہو گیا ہے میری آنکھ کو کہ اس کا دامن آنسوئوں سے تربتر ہے۔‘‘
    ایک اور شعر ہے:’’معاویہ کی موت سے یوں لگتا ہے جیسے کوہسار اُوندھے گر پڑے ہوں اور زمین کو ایک زلزلے نے آ لیا ہو۔‘‘

    تاہم ان شاعری کا زیادہ حصہ صخر کی یاد میں ہے۔ ان کے یہ اشعار کلاسیک شہرت کے حامل ہیں۔ ان اشعار کے تراجم اور دیگر مواد کے لئے میں اردو کے صاحب طرز ادیب اور محقق محمد کاظم کا ممنون ہوں، جن کا بی بی خنسا پر لکھا مضمون (عربی ادب میں مطالعے از سنگ میل ،لاہور) پڑھنے کے قابل ہے۔
    ’’مجھے ہر طلوعِ آفتاب صخر کی یاد دلاتا ہے اور ہر غروبِ آفتاب کے وقت میں اسے یاد کرتی ہوں.‘‘
    ’’اور اگر میرے آس پاس اپنے بھائی بندوں پر رونے والوں کی اتنی کثرت نہ ہوتی تو میں نے اس غم میں اپنے تئیں ہلاک کر ڈالا ہوتا لیکن میں تو یہ دیکھ رہی ہوں کہ ادھر ایک بدنصیب ماں ہے جس کا نورِ نظر اس سے کمسنی میں بچھڑ گیا ہے، اور اُدھر ایک دوسری ماتم کناں ہے جو برے دن کو رو رہی ہے. یہ سب جن کا غم کر رہی ہیں اگرچہ ان میں سے کوئی بھی میرے بھائی کا مثل نہیں، لیکن ان کے غم و اندوہ کو دیکھ کر میں اپنے نفس کو دلاسہ دے لیتی ہوں۔‘‘
    ’’خدا کی قسم! جب تک جسم میں جان ہے اور جب تک میری اپنی قبر نہیں کھودی جاتی، میں تمہاری یاد سے غافل نہیں ہوں گی۔ میں نے صخر کے وداع کے دن سے زندگی کی تمام لذتوں اور دلچسپیوں سے کنارہ کر لیا ہے اور ہائے افسوس! میرے بھائی پروائے افسوس! کیا اس کی صبح بھی اور شام بھی اب قبر کے اندھیرے غار میں ہوا کرے گی؟‘‘

    سنہ آٹھ ہجری میں خنساء، سلمیٰ قبیلے کے ایک وفد کے ساتھ دربار نبویﷺ میں حاضر ہوئیں اور اسلام قبول کیا لیکن اسلام اور اس کی تعیمات بھی ان کے دل سے بھائی کا غم نہ نکال سکیں۔ رسول اللہﷺ نے اس کا کلام سنا تو بہت متاثر ہوئے۔ اس کے مرثیے سنتے تھے اور فرماتے تھے ’’ہاں تو اے خنساء! آگے کہو۔‘‘
    بی بی خنساءؓ نے صخر کی موت پر جو ایک کالی اوڑھنی سر پر ڈال لی تھی، وہ انہوں نے مرتے دم تک نہ اتاری۔ ایک دفعہ اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے انہیں اس ہیئت میں دیکھا تو سمجھانے کے لیے کہا کہ اسلام میں یہ ماتمی لباس پہنے رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ خنساؓء نے جواب دیا:
    ’’اے میری ماں! اس اوڑھنی کے پہننے کی ایک خاص وجہ ہے اور وہ یہ کہ میرا خاوند رواحہ ایک بےحد فضول خرچ اور جوئےباز شخص تھا۔ اس نے گھر کا سب مال و متاع ایک دفعہ جوئے کی نذر کر دیا تو میں اپنے بھائی صخر کے پاس امداد کے لیے گئی۔ اس نے اسی وقت اپنے مال کے دو حصے کیے اور جو بہتر حصہ تھا وہ میرے حوالے کر دیا۔ اگلے سال تک میرے خاوند نے میرے بھائی کا دیا ہوا وہ مال بھی جوئے میں اُڑا دیا اور ہم پھر قلاش ہو گئے۔ میں دوسری مرتبہ صخر کے پاس گئی۔ اس نے اپنے مال کے پھر دو حصے کیے اور جو بہتر حصہ تھا، وہ مجھے دے دیا۔ یہی واقعہ جب تیسری مرتبہ پیش آیا تو صخر کی بیوی سے آخر نہ رہا گیا۔ وہ کہنے لگی ’صخر! تمہاری بہن کا خاوند تو قمارباز ہے۔ تم کہاں تک اپنے آپ کو برباد کیے جائو گے؟ اگر انہیں کچھ دینا ہی ہے تو کم از کم اپنے مال کا وہ حصہ تو دیا کرو جو ناقص ہو۔‘ صخر نے اس کے جواب میں دو شعر کہے کہ ’’میری یہ بہن وہ ہے کہ اس نے اپنی عفت اور شرافت سے ہماری نیک نامی اور سربلندی پر کبھی آنچ نہیں آنے دی اور اس کی محبت ایسی بے پناہ ہے کہ میں اگر مر جائوں تو یہ اپنا گریبان چاک کر ڈالے اور اپنے سر سے کالی اوڑھنی کبھی جدا نہ کرے گی!‘ … چنانچہ اس کی موت کے بعد سے میں نے یہ اوڑھنی جو سر پر ڈالی ہے، اب تک نہیں اتاری۔ میں یہ کیسے گوارا کر سکتی ہوں کہ میں اپنی زندگی میں اپنے بھائی کی اس توقع کو جھٹلا دوں؟‘‘

    حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا تو بھی ان کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ آپؓ نے بلا کر فہمائش کی کہ ’’دیکھو، جو کچھ تم کرتی ہو، یہ اسلام میں معیوب چیز ہے۔ اس دنیا میں اگر کوئی انسانی ہستی ہمیشہ رہنے کے لائق تھی تو وہ رسول اللہﷺ کی ذات تھی۔ جب وہ ہی نہ رہے تو پھر کسی کی موت کا اتنا کیا غم!‘‘ اس نے جواب دیا: ’’پہلے میں اس کے بدلے کے لیے روتی تھی، اب اس کے لیے دوزخ کی آگ دیکھ کر روتی ہوں!‘‘ پھر جب اس نے اپنے مرثیے کے کچھ اشعار پڑھ کر سنائے تو حضرت عمرؓ کا سا ضبط رکھنے والا شخص بھی گداز ہو گیا۔ کہنے لگے: ’’خنساء تم پر کوئی ملامت نہیں۔ جائو ہر شخص کو اپنا غم رونے کی آزادی ہے۔‘‘

    دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب کی اس سب سے بڑی مرثیہ گو شاعرہ کا رویہ اپنے عزیز بیٹوں کی شہادت پر یکسر مختلف رہا۔ جنگ قادسیہ میں انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو جہاد کے لیے بھیجا اور کہا کہ دیکھو خدا کی راہ میں دل وجان سے لڑمرنا اور پیٹھ نہ دکھانا۔ اتفاق سے یہ چاروں جانباز جنگ میں شہید ہوگئے۔ جب یہ اطلاع بی بی خنسا تک پہنچی تو انہوں نے کمال تحمل اور برداشت سے اسے سنا اور بےساختہ کہا،’’ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ان کی شہادت کی عزت سے سرفراز کیا۔ مجھے امید ہے کہ ہم سب ایک دن ضرور اس کی رحمت کی قرارگاہ میں اکٹھے ہوں گے۔‘‘ وہ خاتون جس نے اپنے بھائی کے مرنے پر کہا تھا
    ’’اے آنکھو! بخل نہ دکھائو اور پتھر نہ بن جائو۔ کیا تمہارے اندر اس صخرِ سخا پیشہ پر بھی رونے کے لیے آنسو نہیں ہیں؟‘‘
    اسلام کے بعد ان میں اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ اپنے جگر گوشوں کی شہادت پر ایک بھی آنسو نہیں بہایا۔

    مصر کے نامور ادیب اور دانشور امیر شکیب ارسلان نے کہا تھا،’’ عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ مذہب کلچر کا ایک حصہ ہے، مگر کبھی مذہب کلچر کی پوری شکل بدل دیتا ہے، جیسے مصر میں مذہب نے مصریوں کا نہ صرف فرعون زدہ کلچر بدلا بلکہ ان کی زبان بھی بدل ڈالی۔ ہزاروں سالوں کی شاندار تہذیب رکھنے والے مصریوں نے عربی زبان، رسم ورواج، حتیٰ کہ عرب ڈشز بھی اپنا لیں۔ یہ مذہب کی قوت ہے، افسوس ہمارے بہت سے لبرل سیکولر دانشور اس کا ادراک ہی نہیں کر پائے۔‘‘

  • مسئلہ مذہب کی شناخت کا – ابومحمد مصعب

    مسئلہ مذہب کی شناخت کا – ابومحمد مصعب

    ابومصعب جب شناختی کارڈ اور پاسپورٹ فارمز میں مذہب کا خانہ بنایا گیا تھا تو اس پر کافی شور اٹھا تھا۔ ہمارے لبرل بھائیوں کا موقف تھا کہ چونکہ مذہب، فرد کا نجی معاملہ ہوتا ہے لہٰذا اس کے بارے میں ریاست کون ہوتی ہے کسی سے اس کا مذہب معلوم کرنے والی؟

    یہی بحث کچھ ماہ قبل بھی چھیڑی گئی تھی کہ کیا ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی فرد یا گروہ کے ایمان و عقیدے کا تعین کرے؟ جب کہ ایمان کا تعلق تو انسان کے باطن کے ساتھ ہوتا ہے!

    اس مختصر عرصہ میں تیسری بار یہ بحث اب پھر کسی اور انداز میں چھڑ چکی ہے جس میں محترم غامدی صاحب کے اصولِ تکفیر پر گفتگو کی جا رہی ہے۔ الحمدللہ ہمارے دوستوں نے دلیل کے ساتھ اور نہایت شائستگی سے اس موضوع پر اپنی بات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

    اس سلسلہ میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ مسئلہ رئویت ہلال سے لے کر مسئلہ جہاد تک جتنے بھی اختلافات امت کے اندر پیدا ہوئے ہیں، ان کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ ریاست نے مذہب کو ’’ڈس اون‘‘ کرکے عوام اور افراد کے ہاتھوں میں دے دیا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اس کے ساتھ کھلواڑ کریں۔ لہٰذا اب حالت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہر گروہ کے پاس اپنی بینڈ اپنا باجا ہے اور وہ دوسرے کو برداشت کرنا تو درکنار، خود سے مختلف رائے سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست نے جس جس چیز کو ’’اون‘‘ کیا وہ سنور گئی اور انتشار سے بچ گئی۔ عرب ملکوں میں ہر جگہ اذان اور نماز کے لیے اوقاف کی جانب سے وقت مقرر ہیں اور پورے سال کا کیلنڈر پہلے سے بنا دیا گیا ہے۔ مسجدوں میں مواقیت الصلوٰۃ کی جو ڈیجیٹل گھڑیاں نصب ہیں وہ براہ راست اوقاف کے ساتھ لنک ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے بالکل ایک ہی وقت میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے اور کہیں بھی ایک منٹ تک کا فرق نہیں آتا۔

    اسی طرح پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم ہی کو لے لیں۔ حکومت نے اس معاملہ کو ’’اون‘‘ کیا، اس لیے تقریباََ ہر بچے تک یہ قطرے پہنچ جاتے ہیں۔ حکومت اعلان کرتی ہے کہ ہر فرد نے اپنی فون سم کی تصدیق کروانی ہے، یہ کام ہو کر رہتا ہے۔ حکومت نے اعلان کیا کہ اب پاؤ، سیر چھٹانک نہیں بلکی اعشاری نظام چلے گا، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ جس چیز کو ریاست اور حکومت اون کرلے وہ محفوظ بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس جس چیز کو ریاست یوں ہی عوام کے اوپر چھوڑ دے، عوام اس میں کا حشر نشر کردیا کرتا ہے۔

    اس تفصیل کے بعد اب یہ بات سمجھنا کچھ آسان ہوگیا کہ لوگوں کے مذہبی معاملات سے ریاست خود کو الگ نہیں رکھ سکتی۔ یہ ریاست کا نہ صرف حق، بلکہ فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں سے ان کا مذہب پوچھے بلکہ فساد اور انتشار کی سرکوبی کے لیے، لوگوں کو ان کے عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر پہچان بھی دے۔

    یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ آج کے جدید معاشرے چند صدیاں قبل کے معاشروں سے بلکل مختلف ہیں۔ ایک معاشرے میں رہنے والے افراد کے ایک دوسرے کے ساتھ سوشل کانٹریکٹ بنتے ہیں، شادی بیاہ اور رشتہ داریاں وجود میں آتی ہیں، نسب کا تعین اور نسلوں کے آغاز کی بنیادیں ڈلتی ہیں۔ بھلا ایسے میں ایک نظریاتی ملک کس طرح افراد کی مذہبی شناخت کے تعین کی ذمہ داری سے خود کو الگ رکھ سکتا ہے؟ ہاں ان ملکوں کے لیے واقعی یہ کوئی مسئلہ نہیں جہاں بچہ کی پیدائش کے بعد قطار میں لگ کر لوگ ڈین اے ٹیسٹ کرواتے ہیں تاکہ بچہ کے نسب کا تعین ہوسکے۔

  • تم ہوسکتے ہو لیکن تم نہیں ہوسکتے-اوریا مقبول جان

    تم ہوسکتے ہو لیکن تم نہیں ہوسکتے-اوریا مقبول جان

    orya

    سیکولرازم اور لبرل ازم کا بھوت جب قوموں کے سروں پر سوار ہوا تو انھوں نے مذہب کو ریاست سے دیس نکالا دے دیا۔کبھی کہا مذہب خونریزی پیدا کرتا ہے اور کبھی ’’انسان عظیم ہے خدایا‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اب قوم کو کسی ایک جذبے کے تحت متحد رکھنا تھا سو مادر وطن، دھرتی ماتا، ہوم لینڈ اور قومیت کے جذبے کو ابھارا گیا۔ اس جذبے کو ابھارے ابھی ایک دہائی بھی نہ گزری تھی کہ نسل اور قوم کے نام پر پہلی جنگ عظیم لڑی گئی، کروڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا۔ اب اس قومی تعصب کو مستحکم کرنے کے لیے 1920ء میں پاسپورٹ کا ڈیزائن لیگ آف نیشنز میں منظور ہوا۔ ویزا ریگولیشنز وجود میں آئے اور ہر ملک کی سرحد پر بارڈر سیکیورٹی فورسز کھڑی کر دی گئیں۔

    بتا دیا گیا یہ تمہارا پنجرہ ہے، قحط، وبا، غربت یا جنگ جو بھی ہو تم نے یہیں مرنا ہے۔ غربت ہے تو ہماری اجازت سے آؤ، ہماری غلامی کرو، پھر دیکھیں گے تمہیں مستقل رہنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ تمہارے ملک میں کوئی وبا ہے تو ویکسین لگوا کر آؤ، ورنہ اپنے ملک میں ہی بیماری کی موت مر جاؤ۔ سرحدوں کا بکھیڑا ایسا ہے جیسے محلے میں گھروں کی اونچی دیواریں ہوتی ہیں۔ پڑوسی بھوک سے مر رہا ہو، اس کے گھر میں آپس کی جنگ میں لوگ قتل ہو رہے ہوں، وہ دیوار پر کھڑا ہو کر آپ کو مدد کے لیے پکار رہا ہو۔ ان تمام حالات میں آپ پہلے اپنے گھر کو دیکھتے ہیں پھر اس کی مدد کرنا چاہیں تو کریں ورنہ آپ پر عالمی قوانین کے تحت کوئی پابندی نہیں۔ آپ کے گھر خوراک وافر ہو گی، آپ اسے سمندر میں پھینک دیں گے تا کہ اس کی قیمتیں کم نہ ہوں، لیکن قحط زدہ پڑوسی ممالک کو نہیں دیں گے۔

    جدید سیکولر قومی ریاستوں نے دنیا کو خوفناک جنگوں میں مستقل الجھائے رکھا۔ پہلے دو عالمی جنگیں لڑ کر دنیا کو پندرہ کروڑ اموات کا تحفہ دیا، پھر سرد جنگ کے نام پر ویت نام سے جنوبی امریکا تک ہر خطے کا امن برباد کیا گیا۔ اس کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ نے اس دنیا کو مزید انسانی کھوپڑیوں کے مینار بخشے۔ افغانستان ایک ایسا خطہ ہے جس پر سرد جنگ کے زمانے میں قتل و غارت مسلط کی گئی۔

    سوویت روس کی افواج وہاں داخل ہوئیں اور پھر پوری مغربی دنیا مفاد کے تیر چلانے افغانوں کی مدد کے نام پر وہاں جا پہنچی۔ سرد جنگ سوویت یونین کے زوال سے ختم ہو گئی لیکن افغانوں پر دہشتگردی کے نام پر پچاس کے قریب ممالک نے یلغار کر دی۔ اس مستقل اور مسلسل جنگ اور خوف کا ایک نتیجہ افغان مہاجرین ہیں۔ دسمبر 1979ء میں روس افغانستان میں داخل ہوا اور 1980ء کے آغاز میں مہاجرین کے لٹے پٹے قافلوں نے پاکستان کی سرزمین کا رخ کیا۔ بلوچستان میں ہونے کی وجہ سے میں ان کی آمد کے سلسلوں کا اول دن سے گواہ ہوں۔

    دنیا میں جہاں کہیں بھی مہاجر گئے ہیں یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ انھوں نے اس ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ضرور ڈالا ہے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہماری معیشت پر باہر سے آئے لوگ بوجھ ہیں۔ مہاجر دنیا کی ہر معیشت کی ضرورت ہوتا ہے۔ بے آسرا، بے گھر، بے وطن، سر جھکا کر کام کرتا ہے۔ محنت سے رزق کماتا ہے۔ اپنے لیے کوئی مراعات طلب نہیں کرتا، کسی حکومتی، سیاسی اور گروہی گٹھ بندی کا حصہ نہیں بنتا، سارے محنت طلب کام وہی کرتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں 25 کروڑ لوگ کسی نہ کسی وجہ سے اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا کر آباد ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد بھارت کے لوگوں کی ہے جو ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہے۔ اس کے بعد میکسیکو کے افراد ہیں جو ایک کروڑ بیس لاکھ ہیں۔

    پاکستان سے ہجرت کر کے دیار غیر جانے والے افراد کی اس وقت معلوم تعداد نوے لاکھ کے قریب ہے۔ جن میں سب سے زیادہ تعداد متحدہ عرب امارات (16 لاکھ)، سعودی عرب (15لاکھ) اور برطانیہ میں چودہ لاکھ ساٹھ ہزار ہیں جب کہ بقیہ یورپی ممالک میں 8 لاکھ سے زیادہ پاکستانی ہجرت کر کے آباد ہیں۔ ان میں سے ہر کسی نے کسی نہ کسی طرح خود کو اس مملکت پاکستان میں غیر محفوظ، معاشی طور پر پسماندہ اور کہیں سیاسی طور پر کچلا ہوا تصور کیا اور وہ وہاں پہنچ گیا۔ ان تمام ممالک میں جانے والے پاکستانیوں کی جھوٹ سچ کہانیاں اور اس ملک میں آباد ہونے کی سرتوڑ کوششیں رکھنا شروع کی جائیں تو کتابوں کی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن چونکہ مہاجر ہر معاشرے میں معاشی طور پر اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اس لیے خواہ لوگ ان سے نفرت کریں، حکومتیں ان کے خلاف مسلسل بولتی رہتی ہیں، تا کہ وہ خوفزدہ ہوں، ان کو کوئی اپنے ملک سے نکالتا نہیں۔

    افغان مہاجرین جب سے پاکستان میں آئے ہیں پاکستان کی معیشت میں ان کا جو کردار ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ بلوچستان کے بے آب و گیاہ  علاقے کی مثال لے لیتے ہیں۔ کوئٹہ سے کراچی اور کوئٹہ سے ایران کی شاہراہیں کبھی ویرانی کا منظر تھیں۔ یہ ہرے بھرے سیب، آڑو، ناشپاتی، انگور اور آلو بخارے کے باغات کب اور کس کی محنت سے آباد ہیں، سب جانتے ہیں۔ چاغی میں نوشکی کے بعد ایک صحرا ہے، اس صحرا میں ہاتھ سے کنویں کھود کر فصل کس نے اگائی، دالبندین کے مرحوم سخی دوست جان ایم پی اے کی زمینیں مدتوں سے بے آباد تھیں، کاریزیں خشک ہو چکی تھیں، ان زمینوں سے وہ نوے کی دہائی میں افغان مہاجرین کی محنت سے لاکھوں روپے کمانے لگا تھا۔ ازبک مہاجرین کے بارے میں تو یہ لطیفہ مشہور ہو گیا تھا کہ ’’جب اللہ نے گدھے کو پیدا کیا تو ازبک نے شکایت کی کہ پھر مجھے کیوں پیدا کیا تھا۔‘‘ کون تھا جو ڈھونڈ کر ازبک مزدور نہیں لاتا تھا کہ ایسا ایماندار اور جانفشانی سے کام کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔ ملک میں امن اور خوشحالی ہو تو کوئی دوسرے ملک میں نہیں رہتا کہ وہاں کے لوگ اسے اجنبی سمجھتے رہتے ہیں۔

    آج بھی اس ملک کے کچرا دانوں سے شدید بدبو کے عالم میں بوتلیں، ٹین، گتے علیحدہ کرتے اور فیکٹریوں کا پہیہ چلانے والے یہی افغان مہاجرین ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جسے کوئی بیان نہیں کرتا کہ 1995ء میں جب ملا محمد عمر کی حکومت قائم ہوئی، افغانستان میں صدیوں کے بعد امن آیا تو افغان مہاجرین کے کیمپ ویران ہو گئے۔ محمود اچکزئی کے گھر کے آس پاس جنگل پیر علی زئی، گلستان، سرخاب اور سرانان کے کیمپوں میں ہُو کا عالم تھا۔ ہر کوئی پاکستان چھوڑ کر افغانستان جا رہا تھا۔ پنچپائی اور محمد خیل کے مہاجر کیمپ جو بلوچ علاقوں میں تھے وہاں سے بھی اکثریت واپس چلی گئی۔ لیکن افغانستان کا امن کسی کو اچھا نہیں لگتا۔ ان پر ایک اور جنگ مسلط کر دی گئی اور وہ ایک بار پھر خانماں برباد ہو گئے۔

    ہجرت اور مہاجر ایک اسلامی تصور ہے اور دنیا میں اگر واقعی کسی ملک میں اللہ کے نام لیواؤں پر ظلم مسلط ہے تو وہاں کے لوگ جو جان کے تحفظ میں نکلتے ہیں تو وہ مہاجرین ہیں۔ خواہ کشمیر سے نکلیں یا بوسنیا سے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اخوت جن کے نبی سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا ورثہ ہے، جو منبر رسول پر بیٹھ کر اخوت مدینہ کی باتیں کرتے ہیں، ان کی زبانیں گنگ ہیں اور ان مہاجرین کے حق میں قوم پرست رہنما پشتون ہونے کے ناطے بیاں دے رہے ہیں۔ کیا وہاں سے اس لیے نکالے گئے کہ وہ پشتون تھے، نہیں وہ اس لیے نکالے گئے کہ وہ مسلمان تھے اور ہر ایسے نظام کے مخالف اٹھ کھڑے ہوئے تھے جو اسلام کے نزدیک طاغوت ہے۔

    حیرت ہے اسلام کی عظمت کے گن گانے والے پاکستانی معیشت کا رونا روتے ہوئے انھیں واپس جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیا مدینہ کے کسی رہنے والے نے مہاجرین کو یہ مشورہ دیا۔ اگر معیشت پر بوجھ ہی ایک اصول ہے تو پھر کل اگر دنیا کے ممالک نے نوے لاکھ پاکستانیوں کو واپس بھیج دیا گیا تو پھر کیا دلیل دو گے۔ وہ پاکستانی جو معیشت کے نام پر ہجرت کر کے گئے ان کے لیے دیار غیر میں تمام سہولتیں مانگتے ہو اور اپنے گھر آئے ہوئے ’’مہاجرین‘‘ کو دھکے مارتے ہو۔ ایک اصول اپناؤ، ایک کسوٹی بناؤ۔ یاد رکھو جس ملک کو تم ریاست مدینہ کے بعد دوسرا بڑ واقعہ قرار دیتے ہو وہ ایسے ہر لٹے پٹے، بے خانمان شخص کا گھر ہے جسے اللہ کے نام پر ستایا اور بے گھر کیا گیا۔

    حج کے دوران ایک بلجیئم کے نو مسلم سے ملاقات ہوئی۔ اس کے چہرے پر اس قدر نور تھا کہ پلک چھپکنے لگتی تھی۔ اس نے سوال کیا پاکستان کیسے وجود میں آیا۔ میں نے بتایا ہم نے اسلام کے نام پر اپنے پنجابی، سندھی، بلوچ اور پشتون بھائیوں کو چھوڑ کر ایک علیحدہ ملک بنایا۔ اس نے جواب دیا Than I am a Natural Citizen of your Country. تو میں آپ کے ملک کا حقیقی طور پر شہری ہوں۔ میرے ساتھ حامد میر بھی تھے۔ مجھے منیٰ کے خیمے میں حامد میر کا جواب آج بھی یاد ہے۔ انھوں نے کہا You can but you can’t تم ہو سکتے ہو لیکن تم نہیں ہو سکتے۔ یہی ہمارا المیہ ہے۔ ہم اللہ سے کوئی اور وعدہ کرتے ہیں اور بندوں سے کوئی اور سلوک۔ جس دن ہم نے یہ منافقت چھوڑ دی اللہ ہم پر مہربان ہو جائے گا۔

  • لبرلزم کا مطلب کیا ہے؟ مغالطہ کہاں ہے؟ سجاد حیدر

    لبرلزم کا مطلب کیا ہے؟ مغالطہ کہاں ہے؟ سجاد حیدر

    سجاد حیدر فیس بک پر محترم رعایت اللہ فاروقی صاحب ان معدودے چند اصحاب میں سے ہیں جنہیں میں اپنے اساتذہ میں شمار کرتا ہوں، اور مجھے یہ فخر ہے کہ میری تلخ نوائیوں اور احمقانہ سوالات کے باوجود فاروقی صاحب نے ہمیشہ شفقت فرمائی. جو لوگ فاروقی صاحب کو باقاعدگی سے پڑھتے ہیں وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ فاروقی صاحب کی ہر تحریر کے پیچھے ایک ہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے اور وہ ہے نوجوان نسل کی بالعموم اور مدارس کے طلبہ کی بالخصوص تربیت. میرے اپنے طلبہ اور عزیز جب مجھ سے کچھ پڑھنے کے بارے مشورہ طلب کرتے ہیں تو دیگر باتوں کے علاوہ میں انہیں فیس بک پر فاروقی صاحب، ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، عامر خاکوانی، قاری حنیف ڈار، فرنود عالم اور محمد اشفاق کو پڑھنے اور فالوو کرنے کا مشورہ دیتا ہوں.

    ہم اپنے اپنے مسالک اور گروہوں کے قید خانوں میں اس طرح مقید ہو چکے ہیں کہ تازہ ہوا کا ہر جھونکا ہمیں باد سموم لگتا ہے. کوئی بھی تنقید جو کوئی باہر والا کرتا ہے، ہمارے لیے تازیانہ بن جاتی ہے اور ہم فورا جوابی وار کے لیے کمر کس لیتے ہیں. لیکن اگر کوئی اپنا ہماری کسی خامی کی نشاندہی کرتا ہے تو بھلے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن یہ تنقید ہمیں سوچنے پر مجبور ضرور کرتی ہے. فاروقی صاحب کو یہ کریڈیٹ جاتا ہے کہ اصلاح احوال کے لیے ان کی تنقید کا سب سے زیادہ نشانہ ان کے اپنے بنتے ہیں. صاحبو یہ کام اتنا آسان نہیں، اگر اندازہ لگانا ہے تو آپ کو وہ سارا سب و دشنام پڑھنا پڑے گا جسے فاروقی صاحب نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا. اس سب کے باوجود اگر انہوں نے اپنا مشن نہیں
    چھوڑا تو داد دینا پڑے گی ان کی ہمت اور اور استقامت کی.

    اساتذہ سے اختلاف کی روایت چونکہ ہمیشہ سے رہی ہے تو اسی رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فاروقی صاحب کی ایک حالیہ پوسٹ کے ایک پیراگراف کی ایک لائن سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرنا چاہتا ہوں. فاروقی صاحب نے اپنے ایک حالیہ مضمون…. عورت اور مرد کی عزت کا فرق……میں عورت کو کھلونا سمجھنے اور اس کو شکار کرنے کا سارا الزام… لبرل مرد… پر ڈالا ہے. چونکہ بیشتر اصحاب فاروقی صاحب کی وال پر اور پھر دلیل کے فورم پر اس مضمون کو پڑھ چکے ہیں لہذا پورا پیرا گراف نقل کرنے کے بجائے صرف مذکورہ فقرہ نقل کر رہا ہوں.
    ”یہ فریب انہیں وہی دے رہا ہے جو روز ان کے شکار کے لیے گھر سے نکلتا ہے. لبرل مرد!“

    مزید بحث سے پہلے اگر ہم لبرل ازم کی تعریف پر متفق ہو جائیں تو بات کو آگے بڑھانا آسان ہو گا.
    According to Oxford Dictionary: – Willing to respect or accept, behaviour or opinion different from one’s own; open a new idea.
    ترجمہ: اپنے مروجہ نظریے کے خلاف کسی دوسرے نظریے یا رویے کو قبول کرنے یا اس کے احترام کرنے یا کسی بھی نئے خیال کو قبول کرنے کا نام لبرل ازم ہے.
    According to Cambridge Dictionary:- Respecting and allowing many different types of beliefs or behaviour.
    مختلف رویوں اور اعتقادات کے احترام کا نام لبرل ازم ہے.
    According to another source :- A movement in modern Protestants that emphasized freedom from traditions and authority, the adjustment of religious believes to scientific conceptions, and development of spiritual capacities.

    مذکورہ بالا تمام تعریفات (جو میری نظر میں کافی مستند ہیں) سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ لبرل ہونے کا مطلب عورتوں کا شکاری ہونا بھی ہے. اب اگر لبرل تحریک کا جائزہ
    لیا جائے تو ابتدائی دور میں یہ اس وقت کے جاگیردارانہ معاشرہ، بادشاہت اور مورثیت کے خلاف تھی. آغاز سے ہی مذہب کو چونکہ مذکورہ بالا اداروں کے تحفظ کے لیے ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور چرچ نے ہمیشہ ان اداروں کا تحفظ کیا جب تک کہ خود چرچ کا مناقشہ شہنشاہیت سے نہیں ہوا. تو لازمی تھا کہ اس تحریک کو بھی چرچ کے ساتھ دوبدو ہونا پڑا. اس تحریک کے آغاز کی وجوہات کو ڈھونڈنے کے لیے ہمیں اس وقت کی تاریخ کے صفحات کو کھنگالنا پڑے گا جو ہمارا موضوع نہیں. جب کلاسیکل لبرل ازم نے ماڈرن لبرل ازم کی شکل اختیار کی تو اس میں معاشرتی اصلاحات بھی شامل ہوتی گئیں، معاشرتی انصاف، مساوات، اور سماجی جکڑبندیوں کے خلاف جدوجہد بھی اس کا حصہ بنتی گئیں. تمام نقاد متفق ہیں کہ جان لاک جو کہ اٹھاروی صدی کا ایک برطانوی مفکر، فزیشن اور سیاسیات کا طالبعلم تھا، کو بجا طور پر ماڈرن لبرل ازم کا بانی کہا جا سکتا ہے. جان لاک کے نظریاتی ساتھیوں نے امریکی آزادی کی تحریک کو آگے بڑھایا. والٹیئر اور روسو کے خیالات پر لاک کے نظریات کی چھاپ واضح طور پر نظر آتی ہے.

    لبرل ازم کا اگر سادہ الفاظ میں ترجمہ کیا جائے تو ہر میدان خواہ وہ سیاست کا ہو، سماجیات کا، یا مذہب کا، روایتی بیانیہ سے ہٹ کر سوچنے اور کسی بھی نئے خیال کو قبول یا مسترد کرنے کی آزادی کا نام لبرل ازم ہے. اگر اس کو مزید آسان بنانے کے لیے کیٹیگرائز کیا جائے تو فرد کی اہمیت، خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کا یقین، انسانی اقدار اور ذہانت پر اعتماد، اخلاقیات کا احترام اور فطرت انسانی میں ارتقا پذیری کا یقین ہی وہ ستون ہیں جن پر لبرل ازم کی عمارت کھڑی ہے. جان لاک کبھی بھی مذہب اور خدا کا باغی نہیں رہا، بلکہ آج بھی اس کا جسد خاکی ایک چرچ میں دفن ہے.

    اوپر دیے گئے تمام مواد میں مجھے کہیں بھی مذہب سے روگردانی نظر نہیں آئی، ہاں! مذہب سے مراد اگر ایک جامد اور غیر ترقی پذیر نظریہ لیا جائے اور اصرار کیا جائے کہ ایک خاص دور میں مذہبی تعلیمات کی جو تعبیرکی گئی ہے، وہی حتمی اور ناقابل ترمیم ہیں تو اس صورت میں لبرل ازم اور مذہب ایک دوسرے کے مقابل نظر آتے ہیں. ایک طرف ہمارا یقین ہے کہ ہمارا دین ہر دور کی ضروریات کے مطابق اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے اور دوسری طرف ہم ابھی تک آقا اور غلام کی بحث سے باہر نکلنےکو تیار ہی نہیں.

    مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم لبرل ازم کو فیمینینزم کے ساتھ خلط ملط کرنے کی کوشش کرتے ہیں. ہر معاشرے کی اپنی اقدار اور روایات ہوتی ہیں. مغرب میں ہمیں جو جنسیت نظر آتی ہے وہ لبرل ازم کی پیداوار نہیں بلکہ انڈسٹریلائزیشن کا شاخسانہ ہے. یہ درست ہے کہ مغرب میں ایک وقت پر لبرل ازم کو فرد کی آزادی کے تحفظ کی خاطر اس کی حمایت کرنا پڑی، لیکن یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ نہ تو لبرل ازم کوئی آسمانی مذہب ہے اور نہ کوئی مسلک کہ اس کے تمام اصولوں کو ماننا ہم پر فرض ہے. لیکن اس کی جو چیزیں ہماری معاشرتی اقدار اور مذہبی روایات کے ساتھ متصادم نہیں، ان کو ماننے میں آخر کیا امر مانع ہے. چلیں اگر اس لفظ سے چڑ ہے تو اسے کوئی اور نام دے دیں. ہمارے ہاں ایک رویہ عام ہے کہ ہم اصطلاحات کو افراد کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کے عادی ہیں جیسے روشن خیالی کو مشرف صاحب کے ساتھ جوڑ کر اس کا تمسخر اڑایا جاتا ہے. اب اگر کہیں کوئی قسمت کا مارا اس لفظ کا استعمال کر بیٹھتا ہے تو فورا ایک تمسخر آمیز مسکراہٹ سارے حاضرین و قارئین کے ہونٹوں پر پھیل جاتی ہے. اب اگر ہمیں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ اختلاف ہے جو کہ مجھے بھی کئی ایشوز پر ہوتا ہے تو اس کی ضد اور چڑمیں پورے کے پورے تھیسیس کو رد کرنا بنتا نہیں ہے.

    یہ کہنا کہ سارا کا سارا لبرل ازم صرف اور صرف جنسی آزادی اور بے راہروی کا نام ہے، میرے خیال میں مبالغہ ہوگا. قصور میں سالہا سال بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے کیا لبرل تھے؟ اگر کسی کی طبیعت پر گراں نہ گزرے تو عرض کروں کہ ہمارے ملک کا اصل مسئلہ دہشت گردی اور قتل و غارت نہیں بلکہ یہ تو نتائج ہیں اس عدم برداشت، عدم رواداری، اور مخالف بیانیہ کو سننے سے انکار کرنے کے، جو ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں. ہر وہ شخص جو میرے دھڑے کا اور میرا ہم مسلک ہے فرشتہ ہے اور ہر وہ شخص جو میرے بتائے گئے اصولوں کا باغی ہے وہ شیطان کا بھی استاد ہے.

    مذہبی ایمانیات ہمارے معاشرے کا حسن اور ہمارے لیے ناگزیر ہیں لیکن انسان کو سماجی آسودگی فراہم کرنا بھی معاشرہ کے فرائض میں شامل ہے. اگر اس میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو روایتی فکر سے ہٹ کر سوچنے اور کرنے میں کوئی حرج نہیں.

  • دین و سیاست کی جدائی، مغرب کا ایجنڈا – ابوسعدایمان

    دین و سیاست کی جدائی، مغرب کا ایجنڈا – ابوسعدایمان

    ابو سعد ایمان مغربی دنیا گزشتہ پانچ سو سال سے چیخ چیخ کر یہ اعلان کر رہی ہے کہ مذہب کا ریاست و سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا ریاست و سیاست کی تشکیل میں مذہب کو کوئی کردار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ نظریہ جدید دنیا کی عالمی طاقتوں کا ایک متفقہ عقیدہ بن چکا ہے اور وہ یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ کسی بھی ملک پر مذہبی قوانین کی بالادستی کسی صورت تسلیم نہیں کی جائے گی۔ جدید دنیا کے اس عقیدے کے آگے سارے مذاہب نے سرجھکادیا اور جدید دنیا کا یہ فیصلہ قبول کرلیا، سوائے اسلام کے۔ چنانچہ جدید دنیا نے فیصلہ کیا کہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں کسی بھی ملک کی سیاسی و ریاستی تشکیل برداشت نہیں کی جائے گی۔ مغربی دنیا کے اسی جبر اور استبداد کا اظہار ہمیں الجزائر، مصر، ترکی اور افغانستان میں نظر آتا ہے کہ ان ملکوں میں جب جب اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل کرنے کی کوشش کی گئی، مغربی دنیا نے اپنے درندوں کو ان ملکوں پر چڑھا دوڑایا۔

    جدید دنیا نے اپنے اس عقیدے کو پوری دنیا پر بالجبر نافذ کرنے کی کوشش کی، اس استبداد اور جبر کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت اسلامی دنیا میں کی گئی۔ مسلم دنیا گزشتہ دو سو سال سے جدید دنیا کے اسی عقیدہ کے خلاف مزاحم ہے۔ بیسویں صدی میں یہ مزاحمت کھل کر سامنے آئی۔ فکری و نظری سطح پر مسلم دنیا کی مزاحمت کے ہراول دستہ میں علامہ محمد اقبال، سید مودودی، حسن البنا اور سید قطب شہید وغیرھم شامل ہیں، جبکہ اس مزاحمت کے میمنہ و میسرہ میں مسلم دنیا کے دیگر تمام مکاتب فکر نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

    مغرب کے اس فاسد عقیدہ کے خلاف مسلم دنیا کی فکری و سیاسی مزاحمت کی سب سے زیادہ مخالفت برصغیر میں غلام احمد قادیانی، سرسید احمدخاں نے کی. جبکہ فی زمانہ بھارت میں وحید الدین خان اور پاکستان جاوید احمد غامدی اس کے سب سے بڑے علمبردار کے طور پر موجود ہیں، جو بالواسطہ طور پر مغرب کے اس استبدادی اور جابرانہ عقیدے کی سب سے زیادہ حمایت اور اسلامی دنیا میں مذہب و سیاست کی علیحدگی کے عقیدے کو نظری غذا فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان اور نظریہ پاکستان مغرب کے اس جابرانہ اور استبدادی عقیدے کے خلاف مزاحمت ہی کی ایک علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان عالمی طاقتوں کی تخریبی وسازشی سرگرمیوں کی گزشتہ 69 سالوں (اپنے قیام ہی سے) آماجگاہ بنا ہوا ہے۔

    بیسویں صدی کے مسلم مفکرین نے مغرب کے اس اندھے عقیدے کا دندان شکن جواب دیا۔ اور جدید دنیا کے اس اندھے عقیدے کو جاہلیت جدیدہ ثابت کیا۔ مغرب کا ریاست و جمہوریت کا نظریہ درحقیقت اسلامی دنیا کے نظریہ خلافت ہی کا جواب اور توڑ تھا۔ مسلم مفکرین نے ریاست و جمہوریت کو اسلام کے تابع کرنے کا نظریہ دے کر درحقیقت مغرب کے اسی جواب اور خلافت سے فرار کا توڑ پیش کردیا۔ مغرب نے بالواسطہ طور پر اسلامی نظریہ خلافت سے انسانیت کو روکنے کے لیے ریاست و جمہوریت کا جو نظریہ پیش کیا، مسلم مفکرین نے تصورخلافت کو ماڈرنائز کرکے اور اس میں مجتہدانہ تبدیلیاں کرکے درحقیقت مغرب کی خلافت کے خلاف اٹھائی گئی اس دیوار کو نظری سطح پر توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم مفکرین کے اس مجتہدانہ اقدام کے خلاف مغرب سخت غضب ناک اور طیش میں ہے۔ دوسری طرف بعض مسلم اہل علم کی طرف سے بھی مسلم مفکرین کے اس مجتہدانہ کردار پراعتراض کرنا، اس کا مذاق اڑانااور اس کی تحقیر کرنا درحقیقت مغرب کے غصے اور غضب کی بالواسطہ حمایت ہی ہے۔

    اس تناظر میں جاوید غامدی صاحب کی طرف سے ریاست پر اسلامی قانون کی بالادستی کے انکار کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ ان کا فکری ایجنڈا مغرب سے کامل ہم آہنگی اور مفاہمت پر مبنی اسلام کی تشکیل ہے۔ لیکن اگر کوئی دوسرا صاحب علم اور صاحب دانش ریاست اور اسلام کی علیحدگی پرزور دیتا ہے تو اسے اپنا مقصد واضح کرنا ہوگا کہ اس کے اس اصرار کے نتیجے میں علم کی کیا خدمت مقصود ہے؟ مسلمانوں کو اور انسانیت کو ریاست اور اسلام کی علیحدگی کے تصور سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ کیونکہ مقصد اور فائدے کو واضح کیے بغیر محض مبہم طور پر ریاست اور اسلام کی علیحدگی پر اصرار بالواسطہ طور پر مغرب کے سیکولرزم پر مبنی جابرانہ اور استبدادی ایجنڈے کو تقویت فراہم کرنے کے مترادف ہے۔