Tag: مذہب

  • خدا، ملٹی ورس، سائنس اور الحاد – ارمغان احمد

    خدا، ملٹی ورس، سائنس اور الحاد – ارمغان احمد

    میری زندگی کی اہم ترین تحاریر میں سے ایک تحریر اور شاید آپ کی زندگی میں بھی ہو۔ اس تحریر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے کم از کم میٹرک تک سائنس پڑھی ہو ورنہ شاید یہ مضمون آپ سمجھ نہ پائیں۔ دوسری عرض یہ ہے کہ اس تحریر میں کچھ بھی نیا نہیں ہے، یہ سب چیزیں دنیا میں ڈسکس ہو رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر انگریزی میں ڈسکس ہو رہی ہیں۔
    اور آخری عرض شو آف کی غرض سے نہیں کی جا رہی بلکہ ماڈرن شکوک سے بھرپور ذہن کی تسلی کے لیے کی جا رہی ہے کہ میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، مسلمان بھی ہوں مگر آپ ہی جیسا عام سا اور گناہگار سا مسلمان، جو بہت سی کوتاہیاں کرتا ہے، نماز میں بھی سستی کرتا ہے، موقع ملے تو جمعہ پڑھ لیتا ہے۔ زندگی میں کبھی کسی مدرسے میں گیا نہ کسی مذہبی جماعت سے وابستہ رہا، نہ کبھی کسی سلسلے میں بیعت ہوا، ایک زمانے میں خدا کے حوالے سے شکوک کا بھی شکار رہا لیکن کبھی ملحد یا اگناسٹک ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ پاکستان کی ایک ایسی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی جو کیو ایس رینکنگ کے مطابق پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹی ہے، اس وقت یورپ کی ایک ٹاپ یونیورسٹی میں انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں، گوروں کے ہی سکالرشپ پر۔ پورے ایک ماہ بعد میرا فائنل ڈیفنس ہے، داڑھی بھی نہیں رکھی زندگی میں کبھی، زیادہ تر اپنے کیمپس میں شارٹ اور ٹی شرٹ میں دیکھا جا سکتا ہوں۔ کسی بھی قسم کی انتہا پسند، متشدد یا دہشتگرد تنظیم سے کبھی تعلق رہا ہے نہ ہمدردی بلکہ بساط بھر ہمیشہ ان کی مذمت اور انکار ہی کیا ہے۔ فرقہ واریت سے بھی کوسوں دور ہوں۔ غرض یہ کہ سو فیصد مادی قسم کا عام سا مسلمان ہوں۔

    معذرت اس طولانی تمہید کے لیے مگر یہ ضروری تھی تاکہ میرا قاری آگاہ ہو سکے کہ یہ بات کرنے والا شخص کون ہے۔ اب آ جائیں بات پر۔ آپ نے سنا ہوگا ایٹم کے بارے میں؟ اس میں الیکٹران ہوتے ہیں، پروٹان ہوتے ہیں۔ الیکٹران کا ایک خاص میس (کمیت) ہوتی ہے، اس پر ایک خاص چارج ہوتا ہے، دنیا کا ہر میٹر (مادہ) انہی الیکٹرانز اور پروٹانز سے مل کے بنا ہے۔ اسی طرح کائنات میں گریویٹیشنل کانسٹنٹ ہوتا ہے جسے کیپیٹل جی سے فزکس کی ایکویشنز میں ظاہر کیا جاتا ہے، ایک اور پلانک کا کانسٹنٹ ہوتا ہے۔ بہت سے سائنسدانوں کی ذہن میں یہ سوال آیا کہ ٹھیک ہے الیکٹران پر اتنا چارج ہوتا لیکن اتنا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اس کا میس اتنا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اور اگر یہ چارج کچھ اور ہوتا تو کیا ہوتا؟ ٹھیک ہے روشنی کی رفتار اتنی ہوتی ہے خلا میں مگر اتنی ہی کیوں ہوتی ہے؟ کچھ اور ہوتی تو کیا ہوتا؟

    اس بارے میں تھوڑی تحقیق ہوئی تو پتا چلا کہ کائنات کی تخلیق یعنی بگ بینگ کے وقت کچھ ایسا ہوا کہ ان تمام کانسٹنٹس کی ویلیوز کا فیصلہ ہوگیا۔ اگر ان میں سے کسی کی بھی ویلیو (قدر) میں معمولی سی بھی تبدیلی کی جائے تو یہ کائنات اس شکل میں موجود نہ ہوتی، زمین ہوتی نہ ستارے، اور نہ ہم ہوتے۔ شاید زندگی موجود ہوتی مگر کسی اور شکل میں، شاید ہم سمجھ ہی نہ پاتے کہ وہ زندگی بھی ہے کہ نہیں۔ شاید ایک ایک ستارے کے بجائے دو دو ستاروں کے جوڑے بن جاتے، غرض یہ کہ چونکہ ان کانسٹنٹس کی بےشمار ویلیوز ممکن ہیں، اس لیے بےشمار شکلیں ہماری کائنات ہماری یونیورس کی بھی ممکن ہوتیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کانسٹینٹس کی ویلیوز بہت ہی فائن ٹیونڈ اور احتیاط سے چنی گئی ہیں۔

    اب کائنات کو کچھ دیر کے لیے ادھر ہی چھوڑ دیں۔ سائنس کے مطابق بگ بینگ کے بعد جو کچھ بھی ہوا، وہ ایک اتفاقیہ امر تھا، اتفاقاً زمین بن گئی، اتفاقاً اس میں زندگی کے لیے سازگار ماحول بن گیا، اتفاقاً ہی زندگی پیدا ہوئی، اتفاقاً ہی ارتقاء کا عمل شروع ہوا، پھر اتفاقاً انسان بن گئے، غرض یہ کہ پوری دنیا اور ہماری پیدائش تک سب کچھ ایک اتفاق کا نتیجہ ہے۔

    اب بہت دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔ سائنس ایک طرف کہتی ہے کہ بگ بینگ کے بعد جو کچھ بھی ہوا محض ایک اتفاق تھا اور دوسری طرف یہ کہتی ہے کہ بگ بینگ کے شروع کے سیکنڈ کے لاکھویں حصے میں کچھ ایسا ہوا کہ ہر کانسٹنٹ کی ایک خاص ویلیو بن گئی، اور وہ اتنی ہی تھی جو اس کائنات کی تشکیل اور زندگی کے آغاز کے لیے ضروری تھی۔ کیا آپ تضاد تک پہنچ رہے ہیں؟ کوئی بات نہیں، اگر نہیں بھی پہنچ رہے۔ میں اسے لکھنے لگا ہوں
    ”تمام اتفاقات کی ماں یعنی بگ بینگ خود ایک اتفاقی امر نہیں تھا.“
    کیسا رہا؟
    اس کا دوسرا مطلب یہ بنتا ہے کہ کائنات کی تشکیل کے وقت کوئی ذہانت بھرا ذہن حرکت میں آیا، جس نے کچھ ایسا کیا کہ ہر کانسٹنٹ کی ویلیو فائن ٹیون ہو گئی، ورنہ کوئی چیز اگر محض ایک بار ہو اور پہلی بار میں ہی آئیڈیل ویلیو پر ”اتفاقاً“ پہنچ جائے، یہ سائنسی طور پر ناممکن ہے۔ لیکن اس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ خدا کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے یا ایک خالق کو مان لیا جائے۔ یہ چیز روایتی طور پر سائنسدانوں کے لیے تسلیم کرنا نہایت مشکل رہا ہے۔

    اس لیے خدا کے وجود کا انکار کرنے کے لیے ایک نئی تھیوری پیش کی جاتی ہے، اسے کہتے ہیں، ”تھیوری آف ملٹی ورس“۔ ایک سے زیادہ کائناتوں کا نظریہ۔ اس نظریے کے مطابق صرف ایک کائنات نہیں ہے بلکہ اربوں کائنات ہیں، اور ہر وقت بن رہی ہیں۔ ہر وقت بگ بینگ ہو رہے ہیں اور ان کے نتیجے میں نئے نئے جہان وجود میں آ رہے ہیں، ہر جہاں میں ان کانسٹنٹس کی اپنی ویلیوز ہیں، اس لیے ہر یونیورس مختلف ہے اور اتفاقاً وجود میں آ رہا ہے۔ یوں سائنسدان یہ کہنے کے قابل ہو جاتے ہیں کہ ہماری کائنات بھی حادثاتی طور پر اتفاقاً وجود میں آ گئی۔

    اب اس تھیوری کے مسائل کیا ہیں؟
    1۔ یہ ایک تھیوری ہے محض۔
    2۔ ہم اپنی کائنات کے آخری سرے پر ہی نہیں جا سکتے تو کسی اور میں کیسے جائیں گے؟
    3۔ جو سائنسی آلات ہماری کائنات میں چلتے اور درست ریڈنگ دیتے ہیں، اگر ہم کسی اور کائنات میں چلے بھی جائیں تو وہاں کے اپنے کانسٹنٹ ہوں گے، یہ وہاں نہیں چلیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ ہماری دنیا کے مادے کا وہاں محض داخل ہونا ہی اس دنیا کی تباہی کا سبب بن جائے۔
    4۔ اس تھیوری کو درست یا غلط ثابت کرنا کم از کم اب تک سائنسی طور پر ناممکن ہے۔
    5۔ اس تھیوری کو بھی مذہب کی طرح ایک ”یقین“، ایک بیلیف کا نام تو ضرور دیا جا سکتا ہے مگر ایک سائنسی حقیقت نہیں کہا جا سکتا“

    سائنس کی ہی زبان میں، سائنسی طریق کار کے ہی مطابق، ان کانسٹنٹس کی اوریجن کے بارے میں معلومات کے مطابق اس وقت سائنسی صورتحال یہ ہے کہ یہ کائنات کسی ہستی کی تخلیق ہے، جس نے ان کانسٹنٹس کی وہ ویلیو رکھی جو زندگی کے لیے ضروری تھی، اور یہ صورتحال تب تک جوں کی توں رہے گی جب تک کہ تھیوری آف ملٹی ورس سائنسی طور پر درست ثابت نہیں ہو جاتی۔

    اب مضمون کے آخر میں مذہبی معلومات کا سہارا لیتے ہوئے ایک ازمپشن میں بھی پیش کرنے لگا ہوں۔ میرا خیال یہ ہے کہ تھیوری آف ملٹی ورس درست بھی ثابت ہوگئی تو اس سے مذہب یا خدا کا انکار ممکن نہیں ہو پائے گا؟
    کیوں؟
    ویسے تو ہر مذہب میں ہی اس طرف اشارے موجود ہیں مگر قرآن میں نہایت واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ
    [pullquote]وما أرسلناك إلا رحمۃ للعالمين[/pullquote]

    اور (اے محمدﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔
    [pullquote]الحمدللہ رب العالمین[/pullquote]

    تعریف اس اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
    یاد رہے دو یا تین جہانوں کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ”تمام جہانوں“ کی بات ہو رہی ہے۔ نجانے کتنے ہیں؟

    اس تمام گفتگو اور علم کے بعد کم از کم میں اس رائے کا حامل ہو چکا ہوں کہ سائنسی طور پر بھی کہ خدا ہے تو سہی۔ اس کا انکار کرنا اس وقت تک سائنسی طور پر ممکن نہیں۔ باقی کس مذہب کی خدا کی تشریح سچی ہے، اس پر پھر بحث و مکالمہ ہو سکتا ہوگا مگر سائنسی طور پر اس وقت خدا کا انکار نہیں کیا جا سکتا کم از کم۔ لیکن سائنس تو نہیں البتہ خدا کا انکار کرنے والے بہت دلچسپ مخمصے میں پھنس چکے ہیں۔
    1۔ اگر تھیوری آف ملٹی ورس کو درست تسلیم نہیں کرتے تو منطقی طور پر خدا کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
    2۔ اگر تھیوری آف ملٹی ورس کو درست مانتے ہیں یا ثابت بھی کر دیتے ہیں تو اس کا ذکر تو پہلے ہی تمام الہامی کتابوں میں موجود ہے۔

    اور آخرکار مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتے ہیں،
    اگر خدا نہیں ہے تو اسے ماننے یا نہ ماننے والے، دونوں کو مرنے کے بعد کوئی فرق نہیں پڑے گا، اور اگر ہے تو ”نہ ماننے والیاں دے نال ہونی بڑی پیڑی اے اگلے جہان وچ“۔ شکریہ

    نوٹ: اگر کسی دوست نے اعتراض یا کوئی سوال کرنا ہو تو پہلے یو ٹیوب پر ”Theory of multiverse and God“ سرچ کر لیں۔ کسی جرنل یا پیپر کا لنک اس لیے نہیں دے رہا کیونکہ اس سے سمجھنا عام لوگوں کے لیے خاصا مشکل ہوگا۔

  • جدید سائنس کی بنیادوں میں مسلم سائنسدانوں کا کردار – علی عمران

    جدید سائنس کی بنیادوں میں مسلم سائنسدانوں کا کردار – علی عمران

    پچھلے دنوں یوٹیوب پر جیم الخلیلی کی بنی ڈاکومینٹری (سائنس اینڈ اسلام، دی لینگویج آف سائنس) دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جیم الخلیلی کا تعلق عراق سے ہے، وہ اس وقت ساورے یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر ہیں۔اس ڈاکومینٹری میں جیم الخلیلی نے مسلم سائنسدانوں اور ان کی خدمات کا سراغ لگانے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے اس نے ان شہروں اور ملکوں کا سفر کیا جہاں کبھی اسلام اپنے عروج پر تھا۔ اس نے مصر، ترکی، بغداد اور دوسرے اسلامی مقامات اور عجائب گھروں کا دورہ کیا، مسلم سائنسدانوں کی لکھی نادر کتابوں اور دستاویز تک رسائی پائی اور اپنے ناظرین کو آگاہ کرنے کی کوشش کی کہ جدید سائنس کی بنیادوں میں مسلم سائنسدانوں کا کردار کتنا اہم ہے۔ ڈاکومینٹری دیکھنے کے بعد کمنٹ سیکشن میں پہنچا تو حیرانی ہوئی کہ مسلم سائنسدانوں کی خدمات پر بنی ڈاکومینٹری پر سارے کمنٹس غیر مسلموں کے ہیں سوائے ان چند مسلمانوں کہ جنہوں نے صرف ماشاءاللہ یا سبحان اللہ لکھا تھا۔

    کمنٹس پڑھنا شروع کیے تو زیادہ تر لوگوں نے اس ڈاکومینٹری کو جانبدار قرار دیا، کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ کچھ زیادہ ہوگیا اور کچھ لوگ زیرو کی ایجاد پر دست و گریباں تھے۔
    مگر ایک کمینٹ نے مجھے ٹھہرنے اور سوچنے پر مجبور کیا، کسی نے لکھا تھا کہ یہ کیا تماشہ ہے کہ ”اس آدمی نے اسلام اسلام کی رٹ لگا رکھی ہے۔ لگتا ہے اسلام سے شدید متاثر ہے۔ بھلا سائنس اور مذہب کا کیا تعلق ؟ یہ ڈاکومینٹری تو اسلام کا نام لیے بغیر بھی بن سکتی تھی۔“ اس بات میں دم بھی تھا اور یہ بات ایک تضاد کا حصہ بھی تھی اور وہ یوں کہ مذہب اور سائنس کا بلاشبہ کوئی تعلق نہیں سوائے اس کہ مذہب آپ کو سوچنے کی ترغیب دے سکتا ہے اور سائنس کا مقصد اگر انسانی فلاح ہے تو وہ مذہب کا حصہ بن سکتی ہے اور تضاد اس طرح کہ اگر اس نظریے کو سامنے رکھا جائے تو دنیا میں سائیسی میدان میں پیچھے رہ جانے والی قوموں کے بارے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کچھ خطوں کے لوگ پیچھے رہ گئے، جیسا کہ فطرت کا اصول ہے کہ دنیا کی تمام قومیں بیک وقت عروج یا زوال کا شکار نہیں ہوسکتیں، مگر معاملہ ذرا مختلف ہے، غیر تو غیر ہمیں اپنے ہی نہیں جینے دے رہے۔

    ہم مسلمان صبح شام گنوار ہیں، نکھٹو ہیں اور ہماری کوئی وقعت نہیں۔ ہمارے یہ بھائی ہمیں لتاڑتے ہوئے ذرا بھی یہ نہیں سوچتے کہ اگریہ بدنصیب اپنے عہد عروج کو یاد کر کے بےوقوف کہلائے جاتے ہیں تو ہم خود ہی محسوس کریں کہ آخر کس چیز نے ان کو روبہ زوال کیا ہے؟ وہ سوچیں گے تو جان لیں گے کہ یہ قوم پہلے وڈیروں اور جاگیرداروں کی جاگیر بنی رہی، پھر انہیں وڈیروں نے سیاست کا شکنجہ تیار کیا اور کامیاب ٹھہرے، اس قوم کو انصاف اور تعلیم سے محروم رکھا گیا، ملا نے اس کو اپنے فتووں میں الجھائے رکھا، اور اس ملک کے سیاست دانوں نے ایک دوسرے کی گندگی اور عوام کی آنکھوں پر پردہ ڈال کر اس ملک کو بےتحاشہ لوٹا۔ دوسری طرف میرے ان بھائیوں کو اس بات کا بہت کم احساس ہے کہ انسان کو جسمانی اور شعوری غذا کے بعد روحانی و جذباتی غذا بھی چاہیے، وہ غذا جو اس میں قربانی کے جذبے کوا نجیکٹ کر سکے، بالکل اس طرح کہ جیسے کسی اندھے سے پوچھیں کہ تم آنکھوں کے بغیر کیسے جی لیتے ہو تو وہ جواب دے، میں آنکھیں نہیں رکھتا مگر میرے پاس ایسا دل ہے جو تمہاری آواز کے ارتعاش سے تمہارے دل کی کفیت سے آگاہ ہو سکتا ہے، تو ایسی کیفیت ایک جذباتی و روحانی سہارا ہے۔ مگر یہ سہارا اتنا نہ بڑھ جائے کہ آدمی بے سہارا ہو جائے۔

    اگر آپ تخیل کی آنکھ سے دیکھیں تو شام کے کسی تباہ حال گھر میں پیدا ہونے والا بچہ جب مسکراتا ہے تو اس کی وہ مسکراہٹ بھی کسی نئی امید اور کسی نئے راستے کی نشاندہی کر رہی ہوتی ہے۔ اور اس آخرالذکر کیفیت کی ناسمجھی کے سبب ہی ہم نے علامہ اقبال رح کو بھی فراموش کرنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے یہی کیا تھا کہ اس قوم کے افراد کو انٹیلیکچوئل اور اموشنل ایڈ فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ چلو اگر شاعرانہ مزاج سے محروم ہوکر بھی ان کی شاعری پر ایک نظر ڈالیں تو یہ بات ضرور محسوس ہوتی ہے کہ ان کی شاعری اس تباہ حال قوم کے کسی درد مند دل سے اٹھنے والی ایک ایسی ہوک ضرور ہے جو افلاک کے پردے چاک کر ڈالے۔

    میں نے اپنی زندگی کے سولہ سال مٹی کے بنے ہوئے کچے گھر میں گزارے ہیں، تین چار سال پہلے پکے گھر میں منتقل ہو گئے، وہ گھر جسے ماں اور ابا جان نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا، اور میری ماں نے اس گھر کو اتنا خوبصورت بنائے رکھا کہ محلوں والیاں بھی میری ماں کی تعریف کیے بنا رہ نہ پاتیں۔ اس گھر کی دیواروں پر میری ماں کے ہاتھوں سے بنے ہوئے وہ سرخ اور سنہری پھول بوٹے میڑے میرے شعور کا حصہ ہیں۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ جس قوم کی ماں اپنے بچوں کے لیے اتنا خوبصورت گھر بنا سکتی ہے تو ایسے ماؤں کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جن کو کسی چیز کی تھوڑ نہیں، اگر تھوڑ ہے تو جستجو کی، حوصلے کی عزم کی اور چھوٹ کے خلاف سینہ سپر ہو جانے کی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر ہم اس سفر میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہمیں دنیا کے سامنے کسی صفائی ضرورت نہیں رہے گی کہ سچائی کا اعتراف نہ بھی ہو تو بھی یہ مخالف کے سینے میں سراخ کر سکتی ہے۔

  • سیاست، مذہب اور عقل-خورشید ندیم

    سیاست، مذہب اور عقل-خورشید ندیم

    m-bathak.com-1421245366khursheed-nadeem
    ہمارے ہاںسیاست اور مذہب، بالخصوص دو ایسے میدان ہیں جہاں عقل کا استعمال کم ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں، سیاست میں یہ جرم اور ‘سٹیٹس کو‘ کی حمایت، جبکہ مذہبی حلقے میں گناہ اور ایمان کی کمزوری شمار ہوتا ہے۔

    ریاست کیا ہوتی ہے، ریاست اور سماج میں کیا فرق ہے، سماجی اخلاقیات کس طرح سیاست پر اثر انداز ہو تے ہیں، حکومت اور ریاست میںکیا فرق ہوتا ہے، ریاست کو چلانے کے لیے کسی عمرانی معاہدے یا آئین کی کیا ضرورت ہے، سیاسی عصبیت کیا ہوتی ہے، کرپشن سیاسی عمل ہے یا سماجی ۔۔۔۔ اس نوعیت کے بے شمار سوالات ہیں جن کی ہمارے ہاں کوئی اہمیت نہیں۔ میں اپنے کالم پر قارئین کے تبصرے پڑھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ بظاہر پڑھے لکھے لوگوں میں بھی اس کا ادراک نہیں ہوتا۔ قارئین کو تو چھوڑیے، جو سیاست پر بولنے اور لکھنے پر مامورہیں، ان کا معاملہ بھی کم مختلف نہیں ہے۔ اب یہ معاملہ نظری بحث کا بھی ہے۔ ماضی قریب میں پاکستان اور دنیا بھر میں جو تجربات ہوئے، میڈیا نے ہمیں سب سے باخبر رکھا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ لوگ مشاہدات پر بھی غور نہیں کرتے۔

    مجھے زیادہ حیرت اُن ای میلز پر ہوتی ہے جو بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھیجتے ہیں۔ بظاہر پڑھے لکھے مگر سیاسی حرکیات سے بے خبری انتہا کی۔ خوابوں میں جینے والے۔ یورپ میں رہتے ہیں لیکن کبھی اس سوال پر غور نہیں کیا کہ یہ ملک یہاں تک کیسے پہنچے۔ انہیں یہ سب کچھ حاصل کرنے میں کتنے سال لگے؟ موجودہ یورپ کسی سیاسی انقلاب کا نتیجہ ہے یا سماجی ارتقا کا؟ زیادہ تر لوگ روزگار کی تلاش میں اس طرف کا رخ کرتے ہیں۔ جو پڑھنے کے لیے جاتے ہیں، ان میں بھی اکثریت وہ ہے جوطبعی علوم پڑھتے ہیں۔ کم ہی سماجی علوم کا رخ کرتے ہیں۔ شاید یہی وجوہ اس رائے کا ماخذ ہیں جو سیاست میں، بالعموم اختیار کر لی گئی ہے۔

    ایک طبقہ وہ ہے جو ابھی تک خیال کرتا ہے کہ دنیا میں اشتراکی انقلاب آئے گا۔ یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ان کا ایک تصورِ تاریخ ہے۔ وہ اب بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ طبقاتی کشمکش امرِ واقعہ ہے اور جب تک یہ موجود ہے، انقلاب کے امکانات موجود ہیں۔ یہ بھی اگرچہ خوابوں میں رہنے والے لوگ ہیں لیکن ان کا کم از کم ایک مقدمہ ہے جس کی تاریخ بھی ہے اور علمی استدلال بھی۔ اس نقطہ نظر کی موجود گی غنیمت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی کمزوریاں نظروں سے اوجھل نہیں ہوتیں۔ اشتراکیت میں سرمایہ داری پر تنقید انسان کی تاریخ کا ایک قابلِ قدر اثاثہ ہے؛ تاہم یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ جہاں کہیں، معاملات ان کے ہاتھ میں آئے، تاریخ بدترین ظلم کا شکار ہوئی۔ کاسترو یا شاہ ویز کا کسی حد تک استثنیٰ ہے لیکن ایسے استثنیٰ تو بادشاہوں میں بھی مل جاتے ہیں۔

    مذہبی دنیا میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ آج بھی لوگ بحث کرتے ہیں کہ عقل ماخذ علم یا وحی؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ وحی کی ترجیح کے حق میں دلائل دیتے ہیں جو خالصاً ایک عقلی عمل ہے۔ یہ عمل خود بتا رہا ہے کہ وحی اور عقل کا باہمی تعلق کیا ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ وحی ایک برتر ماخذ ِعلم ہے۔ مشکل مگر یہ ہے کہ یہ بات کسی عقل والے ہی کو سمجھائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح لوگ فقہا کے قائم پیراڈائم میں کھڑے ہو کر مابعد الطبیعاتی امور پر فیصلے سنا رہے ہوتے ہیں یا نصوص کی تفہیم کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر فقہ میں پہلا اصول یہ ہے کہ درپیش مسئلے پر کوئی حکم لگانے کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اب قرآن کو کیسے سمجھا جائے گا، یہ فقہ کا نہیں، علمِ تفسیر کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح ایک متن قطعی الدلالت ہے یا نہیں، اس کا تعلق بھی فقہ سے نہیں، لسانیات یا تفہیمِِ متن سے ہے۔ توجہ دلائیں تو لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔ رہی مذہب کو سماج کے بیک وقت متن اور پس منظر (Text and context) میں سمجھنے کی کوشش تو الہیات کی دنیا میں ایک جرم ہے۔

    ایک طبقہ وہ ہے جو چاہتا ہے کہ آخرت میں سرخروئی کا کوئی آسان نسخہ ہاتھ لگ جائے۔ اسلام کے تصور ِشفاعت کو اس کے تصور جزا و سزا سے الگ کر کے بیان کیا جا تا ہے، یہ دین ٹی وی چینلز پر پیش کیا جاتا ہے اور ایسے لوگ سب سے مقبول مذہبی مبلغ ہیں جو اس کے علم بردار ہیں۔ یہ لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کس طرح چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر بڑے سے بڑا اجر ملے گا، جیسے کسی ولی کے چہرے کو دیکھنے سے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ بظاہر پڑھے لکھے لوگ اسے مان رہے ہوتے ہیں اور اس پر غور کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے کہ جنت اتنی آسان ہوتی تو اللہ کے پیغمبرﷺ، صحابہ اور امت کے نیک لوگ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے۔ میرے نزدیک یہ مسیحیت کے تصورِ کفارہ کی ایک ‘مسلمانی تعبیر‘ ہے۔ ایسے لوگوںکا خیال ہے کہ حضرت مسیحؑ نے صلیب پر چڑھ کر سب کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ لوگوں کو اب صرف اس پر ایمان رکھنا ہے۔ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ امت کے بڑے لوگوں نے ہمارے حصے کی مشقت بھی اٹھا لی۔ ہمیں بس ان پر ایمان لانا ہے، وہ ہمیں بخشوا دیں گے۔

    میں جب اپنے معاشرے کی سیاسی وفکری پراگندگی کو ددیکھتا ہوں تومجھے لگتا ہے کہ عقل کی بنیاد پر ہم معاملات کو حل کر نے کے عادی نہیں رہے۔ اس کی وجہ ہے کہ عقل شارٹ کٹ راستہ نہیںبتاتی۔ ہم اس سے فرار چاہتے ہیں۔ سرخروئی کی کوئی سادہ صورت ہو تاکہ سب دکھ درد دور ہو جائیں۔ دنیا میں ہم ایک دن جاگیں تو سب کچھ بدلا ہوا ہو۔ نہ کرپشن نہ بجلی پانی یا کھانے پینے کا مسئلہ۔ ہم یہ سمجھنے کے لیے آمادہ نہیں کہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ ایران سے زیادہ کرپشن سے دور اور دنیا سے بے نیاز قیادت کہاں آئے گی؟ خمینی صاحب جیسی سادہ زندگی کون گزار سکتا ہے۔ اس کے باوجود، ایرانی سماج کے مسائل حل نہیں ہوئے۔

    آخرت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہم اگر کچھ دیر کے لیے عقل سے سوچیں تو یہ بات جاننے میں کوئی دقت نہیں ہوتی کہ ایمان کے ساتھ اعمال بھی لازم ہیں۔ حسنِ عمل کے بغیر ایمان کا کوئی اعتبار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات میں کوئی ابہام نہیں رکھا کہ یہ دنیا قانونِ آزمائش پر قائم ہے۔ یہ آزمائش ایمان کی بھی ہے اور اعمال کی بھی۔ اس نے یہی دیکھنا ہے کون حسنِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے بغیر نجات کی کوئی صورت نہیں۔ دین کی تفہیم عقل کے بغیر ممکن نہیں اور عقل یہی بتاتی ہے کہ آخرت کی کامیابی کے لیے عمل لازم ہے۔

    انسان مگر آسانی چاہتا ہے۔ جذبات اور رومان کی دنیا اسے اچھی لگتی ہے۔ دن رات اسے ایک بے خودی چاہیے۔ انسانی تاریخ میں کوئی ایک معاشرہ ایسا نہیں گزرا جہاں محض سیاسی قیادت تبدیل ہونے سے معاشرہ تبدیل ہو گیا ہو۔ جو کام کل نہیں ہوا، آج کیسے ہو سکتا ہے۔ انسان مگر تجربہ کر نا چاہتا ہے۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جس نے تجربات سے بھی سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ قوم کا ایک بڑا طبقہ آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ 2 نومبر کے بعد دنیا بدل جائے گی۔ شاید بدل جائے مگر یہ ویسی کبھی نہیں ہو گی جیسے لوگ سوچ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پچھتاوے کی اذیت سے محفوظ رکھے۔

  • قاضی کرے تو ظلم، جج کرے تو قانون، ایسا کیوں؟ مہران درگ

    قاضی کرے تو ظلم، جج کرے تو قانون، ایسا کیوں؟ مہران درگ

    ”مذہب کی موجودگی میں لوگ اتنے کمینے ہیں تو عدم موجودگی میں کیا ہوں گے؟“ سَر فرینکلن
    الحاد اپنی ذات میں اک اصول سموئے ہوئے ہے کہ کوئی بھی قانون آفاقی نہیں ہوتا، حرفِ آخر نہیں ہوتا۔
    آپ چاہیں تو اسے مانیں، چاہیں تو نہ مانیں، آپ پابند نہیں آزاد ہیں۔
    آپ کی اپنی مرضی جب چاہیں کمینگی پر اتر آئیں اور جب چاہیں تہذیب کے مجوِزہ سٹیک ہولڈر بن رہیں۔
    نیکی میرا مذہب ہے (گرونانک)
    میں مذہب کو ٹریفک کا سگنل گردانتا ہوں۔
    مذہب چیک انڈ بیلنس ہے.
    اس کے اشارے پر آپ کو رکنا ہوگا۔
    نہیں رکیں گے تو چلان ہوگا۔
    چلان نہیں بھریں گے تو کیس ہوگا۔
    کیس ہاریں گے، سزا ہوگی۔
    مگر چونکہ آپ کسی اصول کے پابند ہونا نہیں مانتے تو آپ سگنل توڑ دیتے ہیں۔
    کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ پابند ہیں نہ ہونا ضروری ہے، کہ آپ آزاد پیدا ہوئے ہیں۔
    نیکی کو مذہبی اصطلاح سمجھنے والے بے وقوف ہیں، کسی بھی مہذب اصول کی عزت کرنا نیکی ہے۔
    ہم عالم ِاسباب میں رہتے ہیں۔
    یاد رہے مذہب انسانی معاشرے پر معاشرتی چیک اینڈ بیلنس ہی لے کے اترتا ہے۔
    نہ کہ کسی ایٹم بم بنانے والے کارخانے پر کوئی راکٹ سائنس لے کر۔
    معاشرت و مذہب میں جو چیزیں جرائم ہیں
    قتل
    جھوٹ
    شراب
    جوا
    زنا
    دھوکہ
    نافرمانی
    ناجائز (الیگل)
    جبر ِناروا
    حبس بے جا
    بے جا تنقید
    بہتان
    مکسنگ
    بیہودگی
    شور
    گندگی
    بلا اجازت مداخلت
    پرسنل اٹیک
    شر پسندی
    تھریٹ
    غداری
    احسان فراموشی
    منافقت
    منافع خوری (سود، بےجا ٹیکس)
    ذخیرہ اندوزی (الیگل سٹورج)
    مینوپلیشن
    مس گائیڈنگ
    برین واشنگ (الیگل)
    کیا یہ جرائم اسلام می‍ں کہیں حلال (لیگل) گردانے گئے ہیں؟
    یا کسی دوسرے معاشرے می‍ں حلال (لیگل) گردانے گئے ہیں؟
    اگر نہیں تو آپ اسلام پر صرف ذاتی عناد اللہ واسطے کا بیر نکالتے ہیں۔
    انہیں ہر معاشرے میں مذہب و فردیت کرائم ہی گردانتی ہے، مذہب انھی اصولوں کے مخالف چیک اینڈ بیلنس سزا و جزا وضع کرتا ہے۔
    مگر جب مذہب اس پر حد قائم کرے تو لامذہب کو قے آتی ہے، پھر مذہب کے اگینسٹ آپ حدود و قیود سزا و جزا، قانون کو ظلم کہنے لگتے ہیں۔
    مگر جب آپ عملی زندگی میں روڈ پہ کھڑے ہوئے سرخ بتی پہ رک جانے کو اپنی ذمہ داری گردانتے ہیں، دوسروں کو اس پر کاربند نہ پا کر سرزنش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں، چلان پہ مسرت کرتے ہیں،
    تو مجھے اس کھلے تضاد پر حیرت ہوتی ہے کہ ایسا مذہب کرے تو ظلم کیوں ہوتا ہے؟ اور پولیس والا کرے تو قانون کیوں گردانا جاتا ہے؟
    کہنے کو سگنل پہ رکے ہوئے آپ کا وقت ضائع ہو رہا ہے، جو کہ کہنے کو پوائنٹ آف نوریڑن ہے، ملین ڈالرز دے کر بھی اس کا ازالہ ہونے سے رہا۔
    کہنے کو اگر آپ کسی کا قتل کرتے ہیں تو آپ کو اس کے موافق سزا ہوتی ہے، جیسے کہنے کو کوئی قانون آفاقی نہیں ہوتا، آپ اس کے درحق آزاد ہیں، اس آزاد کنندہ کو سزا دینے والا کوئی ظالم ہوگا جو اس کی فریڈم سلب کر رہا ہے۔
    مگر جب آپ عملی زندگی میں قتل کرتے ہیں یا آپ کا کوئی قتل ہوتا ہے تو آپ سب سے پہلے قاتل کی آزادی سلب کر لیتے ہیں، اسے لاملزوم کسی مین میڈ قانون کے دائرے میں خود گھسیٹ کے لے آتے ہیں، آپ کو جج کے چالان پر مسرت ہوتی ہے۔
    تو مجھے اس کھلے تضاد پہ حیرت ہوتی ہے کہ ایسا قاضی کرے تو ظلم کیوں ہوتا ہے؟ جج کرے تو قانون کیوں گردانا جاتا ہے؟
    کہنے کو آپ ریپ کرتے ہیں، کہنے کو یہ آپ کی کھلم کھلا آزادی کا اظہار بھی ہے کہ ریپ سے رک جانا کسی قانون کی خود ساختہ شق ہے، کہنے کو یہ فطری عمل ہے اور اس سے رکنا لازم نہیں،
    مگر جب مختاراں مائی کے ساتھ ریپ ہوتا ہے، جج کے روبرو چلان پر آپ کو مسرت ہوتی ہے، آپ اس پر قانون کو بالادست قرار دے کر سرزنش کر چکے ہوتے ہیں،
    تو مجھے اس کھلے تضاد پہ حیرت ہوتی ہے۔ ایسا قاضی کرے تو ظلم کیوں ہوتا ہے؟ جج کرے تو قانون کیوں گردانا جاتا ہے؟
    کہنے کو آپ چوری کرتے ہیں، کہنے کو یہ آپ کی کھلم کھلا آزدی اظہار بھی ہے کہ آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو، آپ اٹھا لیں یا چھین لیں، کہ آپ کی دانست میں چوری کی ممانعت تو کوئی آفاقی قانون نہیں، ضرورت فطری عمل ہے جو نہ دے آپ چھیننے می‍ں آزاد ہیں،
    مگر جب مہران چوری کرتا ہے تو آپ جھٹ سے اس کی سرزنش کرتے ہیں، قانون کی بالادستی روبرو کرتے ہیں، جج کے کردہ چلان پہ مسرت ہوتی ہے،
    تو مجھے اس کھلے تضاد پہ حیرت ہوتی ہے کہ ایسا قاضی کرے تو ظلم کیوں ہوتا ہے، اور ایسا جج کرے تو قانون کیوں گرداناجاتا ہے؟
    کہنے کو آپ شراب ہر جگہ پی سکتے ہیں کہ پینے کی شے ہے، آپ کا کھلم کھلا آزادی اظہار بھی ہے، کہ آپ کی دانست میں شراب کی کسی جگہ ممانعت تو کوئی آفاقی قانون نہیں، آپ اس کے پابند کس رو سے، فطری عمل ہے آپ پینے میں آزاد ہیں،
    مگر جب کوئی مہران پیتا ہے تو آپ اس کی سرزنش یوں کرتے ہیں کہ _____Dr says Alcohol consumption injerious to health____ پھر کہنے کو آپ قانون کی بالادستی کو روبرو کرتے ہیں کہ آپ پیتے ہی‍ں تو غلط کرتے ہیں، لیکوور فری زون، ڈرائیونگ کے دوران اس کے چلان پہ مسرت ہوتی ہے،
    تو مجھے اس کھلے تضاد پہ حیرت ہوتی ہے کہ ایسا قاضی کرے تو ظلم کیوں ہوتا ہے؟ اور جج کرے تو قانون کیوں گردانا جاتا ہے؟

  • ہوئے تم دوست جس کے – حمزہ صیاد

    ہوئے تم دوست جس کے – حمزہ صیاد

    حمزہ صٰاد بات تو دوستوں کو ناگوار گزرے گی لیکن اس موقع سے زیادہ بہتر کوئی موقع نہیں کہ جس پہ یہ بات کہی جائے.

    جب ہم یہ کہتے تھے کہ ایک مودودی سو یہودی کا نعرہ لگانا بری بات ہے تو آپ کہتے تھے، نہیں وہ شخص اسی نعرے کا مستحق ہے.
    جب ہم کہتے تھے کہ جاوید غامدی کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں کہ وہ حسیناؤں کے درمیان بیٹھ کر ان کی مرضی کا اسلام بیان کرتا ہے تو آپ جواب میں کہتے تھے کہ یہ تو حقائق ہیں.
    جب ہم کہتے تھے کہ کسی کی ذات پر الزام لگانا بہت بری بات ہے تو آپ کہتے تھے، نہیں سب چلتا ہے.
    جب ہم نشان دہی کرتے تھے کہ فلاں صاحب بہت غلط زبان استعمال کر رہے ہیں تو آپ کا جواب ہوتا تھا کہ بس گزارا کیجیے، اپنے مسلک کا بندہ ہے.
    جب آپ عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہتے تھے تو ہم نے احتجاج کیا تھا کہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہوں یا کوئی اور فرد، کسی کو یہودی کہنا غیر اخلاقی حرکت ہے تو آپ نے کہا تھا کہ نہیں ہمارا قائد سیاسی بصیرت کا حامل ہے، وہ درست ہی کہتا ہے.
    جب اسلام آباد میں دھرنا ہوا تھا، جو کچھ بھی ہوا بہت غلط ہوا، لیکن آپ نے دھرنے میں شریک تمام خواتین کے بارے میں بہت غلط تبصرے کیے تھے، اس پر بھی ہم نے احتجاج کیا تو آپ نے ہمیں بھی گالیوں سے نوازا تھا.

    آج جب مولانا الیاس گھمن صاحب پر الزامات لگ رہے ہیں تو آپ کو تکلیف ہو رہی ہے اور تمام اسلامی اور قانونی باتیں یاد آ گئی ہیں. بے شک جن لوگوں نے ان کے خلاف ایک فضا بنائی، ہم اسے درست نہیں سمجھتے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس الزام و دشنام کی فضا بنانے میں آپ کا بھی بہت حصہ ہے. جو بندہ تمیز سے بات کرے تو آپ اسے احساس کمتری اور مرعوبیت کا شکار قرار دیتے ہیں اور جو بندہ گالیاں دے تو آپ کہتے ہیں کہ دیکھو کتنا متصلب آدمی ہے.

    بھائی میرے ! دشمن کی واٹ لگاتے ہوئے تو مزہ آتا ہے لیکن جب اپنی واٹ لگتی ہے تو پھر وہی کیفیت ہوتی ہے جو اس وقت آپ کی ہے. اس معاشرے میں جب عورتوں کو محض الزام کی وجہ سے اور غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے تو آپ خوش ہوتے ہیں کہ بےحیائی کا سدباب ہو رہا ہے اور آج اپنے عالم کے بارے میں جب اس کی بیوی نے انکشافات کیے ہیں تو آپ شرعی اور قانونی نقطے بیان کرنے لگے ہیں. بہت افسوس ہوتا ہے جب یہ دوہرا معیار سامنے آتا ہے، اور پتہ ہے اس دوہرے معیار کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ مذہب کی نہیں، مسلک کی خدمت کرتے ہیں.

  • انسانی چہرے اورجسمانی ڈیل ڈول پر ’’اعمال‘‘ کے اثرات – ادریس آزاد

    انسانی چہرے اورجسمانی ڈیل ڈول پر ’’اعمال‘‘ کے اثرات – ادریس آزاد

    ادریس آزاد کسی مذہبی شخص کی دولت وہ عقائد نہیں جو اس کے دماغ میں بھرے ہوئے ہیں اور جنہیں وہ اپنی خوش فہمی کی وجہ سے پختہ ایمان کا نام دیتاہے بلکہ اس کی دولت اس کی وہ قلبی کیفیات ہیں جو بعض اعمال کی وجہ سے گاہے بگاہے پیدا ہوتی اور اُسے مذہب کی قدروقیمت یاد دلاتی رہتی ہیں۔ مذہب کسی سکول کا مضمون نہیں کہ اسے عقلی سطح پر یاد رکھا جائے بلکہ یہ ایک ایسا عملی نظام ہے جس کا عادی ہوجانا پڑتاہے۔ چونکہ مذہب کا تعلق جذبات کے ساتھ ہے اس لیے اس کی حیثیت کسی دوا کی سی ہے نہ کہ فقط لکھے ہوئے نسخے کی سی۔ مذہبی لوگوں کے ساتھ مباحث میں عقائد پر بات کرنے والے مخالفین ہمیشہ اس بڑی حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ شخصیت کی گہرائیوں میں پرورش پانے والا ایک ایسا نظام ہے جو انسانی وجود کی فقط ذہنی ہی نہیں کیمیائی ساخت کو بھی تبدیل کردیتاہے۔ یہ سب باتیں تو ہمیں اہل تصوف کی کتابوں میں پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔ یہاں میرا مدعا جس حقیقت سے ہے وہ قدرے مختلف ہے۔

    دیکھیں! فرض کریں، ایک شخص جھوٹ کا عادی ہے۔ وہ مسلسل جھوٹ بولتاہے۔ تو مسلسل جھوٹ سے کیا ہوگا کہ سب سے زیادہ واضح اثرات اس کے چہرے پر نظر آئیں گے۔ میں اس سے بھی آسان الفاظ میں بات کرتاہوں۔ آپ ایک دوست فرض کریں جسے آپ ملنے کے لیے گئے اور آپ نے نہایت مجبوری کے عالم میں اس سے تھوڑے سے پیسے قرض مانگے۔ اُس کے پاس پیسے پڑے ہوئے تھے، وہ آپ کو دے سکتا تھا لیکن اس نے نہیں دیے بلکہ آپ سے کہا، ’’اوہ ہو! آپ ایک دن پہلے آئے ہوتے تو ضرور بندوبست ہوجاتا‘‘۔ ایسا کہتے وقت ظاہر ہے وہ ایک خاص قسم کی شکل بنائے گا۔ فرض کریں کہ وہ یہ شکل دن میں کئی بار بناتاہے اور گزشتہ بیس سال سے بنا رہا ہے تو کیا یہ عین سائنسی بات نہیں کہ اس کی شکل ایک خاص قسم Shape اختیار کرجائے گی۔ کتنے بچوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ جب وہ معصوم بچے تھے تو فرشتے معلوم ہوتے تھے اور جب وہ دنیا میں رہے، بڑے ہوئے، ایک خاص قسم کی تربیت حاصل کی تو اب ہمارا دل بھی نہیں کرتا کہ اُن کی طرف چہرہ گھما کر بھی دیکھ لیں۔ اور ایسے بھی کتنے لوگ ہم نے دیکھے ہیں جو بچپن میں کالے پیلے، بیمار، موٹے ہونٹوں والے اور نالائق قسم کے ہوتے تھے لیکن وقت کی ٹھوکروں، غموں، حادثات اور اچھی تربیت نے انہیں ایسا بنادیا کہ اب ہم ان کے پاس بیٹھ جائیں تو اُٹھنے کو دل نہیں کرتا۔

    شکل و صورت بظاہر تو مادی چیز ہے لیکن اس کا نہایت گہرا تعلق اعمال کے ساتھ ہے۔ دل کی خوبصورتی اور کمینگی دونوں ہی وقت کے ساتھ ساتھ چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے بارے میں قران کہتاہے فی قلوبہم مرضٌ ، ان کے چہروں پر اتنا موٹا موٹا لکھاہوتاہے کہ ’’جی ہاں! ہمیں دل کا عارضہ لاحق ہے‘‘ اور عارضہ ہرگز وہ عارضہ نہیں جس کے لیے میڈیکل ڈاکٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسانی جسم کا ڈیل ڈول اور چہرے کی ساخت کا نہایت گہرا تعلق انسان کے اعمال ِ حسنہ اور اعمالِ سیٗہ کے ساتھ ہے۔ ملاوٹ والا دودھ بیچنے والے تین چار گوالوں کو ایک ساتھ کھڑا کرکے دیکھیں! آپ کو حیران کن حد تک ان میں ایک خاص قسم کی مشابہت نظر آئے گی جسے آپ الفاظ میں بیان نہ کرپائینگے لیکن پہچان ضرور جائینگے۔ ویسے ایک بہت آسان مثال بھی موجود ہے۔ پولیس میں اور خاص طور پر پنجاب پولیس میں ہمیں بہت سے ایسے کردار مل جاتے ہیں جنہیں اگر ایک جگہ اکھٹا کھڑا کردیں تو ان میں ایک خاص قسم کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ مزید گہرا مشاہدہ اور معلومات کرنے پر معلوم ہوتاہے کہ ان تمام لوگوں کی کوئی قباحت مشترک تھی۔

    ایسی ہی ایک شکل بعض میڈیکل ڈاکٹروں کے چہروں پر مشترک ملتی ہے۔ اور خاص طور پر ٹیوشن پڑھانے والے ٹیچروں کو باقاعدہ ریسرچ کے ارادہ سے جاکر ملیں، آپ کو ان میں ایک خاص قسم کی قباحت، سب کے سب میں، مشترک نظر آئے گی۔

    دوسروں کی قباحتیں گنوانا کوئی اچھی بات نہیں۔ میرا مدعا کسی کی قباحت گنوانا نہیں، اس بات کی طرف اشارہ کرناہے کہ مذہب اگر فقط عقائد کا نظام ہوتا تو اس کے اثرات ’’روح کی کھڑکی یعنی آنکھوں میں‘‘ اور چہرے پر اتنی شدت سے مرتب نہ ہوتے۔ کہنے کو یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ بغیر کوئی مذہب تسلیم کیے بھی تو ایسے اچھے برے اثرات سے چہرے کو روشن یا تاریک بنایا جاسکتاہے۔ ہاں ایسا ممکن ہے لیکن آپ کبھی ان چہروں کو غور سے دیکھیں جو ایسے ہیں۔ جو ایتھسٹ ہیں لیکن بہت ہی اچھے انسان ہیں۔ اس میں بلاشبہ تنکا بھر شک نہیں کہ وہ بھی اچھے اعمال کی بدولت بہت من بھانونے اور خوبصورت ہوجاتے ہیں لیکن اگر ایسے چند لوگوں کو ایک ساتھ کھڑ اکرکے ان کا سائنسی نظر سے مشاہدہ کریں تو آپ کو ان میں بھی ایک شئے مشترک نظر آئے گی جو ’’بے رُوح‘‘ ہونے جیسا کچھ ہوگا۔ حی و قیّوم خدا کے ساتھ کوئی رشتہ نہ ہونے کی صورت میں، وقت کے ساتھ ساتھ جیسی لاپرواہ اور قدرے خشک شکل بن جاتی ہے وہ خوبصورت ضرور ہوسکتی ہے لیکن اس میں ایک اضافی چمک جسے شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول شہیدؒ کے ’’اِلُمینیشنزم‘‘ کے مطالعہ سے بخوبی سمجھا جاسکتاہے، قطعی طور پر مفقود ہوتی ہے۔

  • جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار – محمد دین جوہر

    جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار – محمد دین جوہر

    محمد دین جوہر جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

    ہم تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس جدید تصور میں ایک قدری فیصلہ شامل ہے۔ جدید موقف کے مطابق حال اور مستقبل کا زمانہ نہ صرف بہتر ہے، بلکہ اچھا بھی ہے، اور ماضی نہ صرف کم تر ہے بلکہ برا بھی ہے۔ جدید عہد ”روشنی“ ہے اور پرانا زمانہ ”ظلمت“ ہے۔ اگر مذہبی آدمی زمانے کے جدید تصور کے ساتھ، اس قدری فیصلے کو بھی قبول کر لے، تو پھر وہ محض تفریح طبع کے لیے مذہبی ہے، اور اس کے مذہبی ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے۔ زمانے کا خطی یا محوری ہونا تو ایک علمی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے اور ہے بھی، لیکن اس میں پنہاں قدر کو کیونکر قبول کیا جا سکتا ہے؟

    مذہبی آدمی کے لیے ماضی روایت پہلے ہے، اور تاریخ بعد میں ہے۔ جدید آدمی کے لیے واقعہ اور متن تاریخ کا لاوارث مال ہے، اور جس کا حقدار بھی صرف وہ خود ہی ہے۔ جدید آدمی کے لیے صرف آثاریاتی ”شے“ اہم ہے تاکہ وہ تاریخ کو بھی ”دریافت“ اور ”ایجاد“ بنا کر روایتی قدر اور تاریخی واقعے کے حتمی ہونے کو منہدم کر سکے۔ مذہبی آدمی کے لیے ماضی ایک آئیڈیل ہے، اور ایک اتھارٹی ہے، اور مذہبی ہونے کا بنیادی ترین مطلب اس ماضی کا دائمی استحضار ہے۔ پھر یہ کہ جدید آدمی زمانے یا جگہ سے کوئی تقدیس وابستہ نہیں کرتا، اور تقدس جیسی کسی بھی چیز کو توہم قرار دیتا ہے۔ جبکہ مذہبی آدمی کی زندگی میں زمانے اور جگہ سے تقدیس وابستہ ہے۔ مثلاً بطور مسلمان ہمارے نزدیک وہ زمانہ جس میں حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام دنیا میں تشریف فرما ہوئے، مقدس ہے۔ نہ صرف مقدس ہے، بلکہ مستند بھی ہے اور ہمارے لیے حکمی درجہ رکھتا ہے۔ اور ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس چیز یا جگہ کو حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کا لمس مبارک نصیب ہوا، وہ مقدس ہو گئی۔ ہمارے لیے صرف وہ زمان و مکاں معتبر ہے جس کی نسبت حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ذات اقدس سے ہے، اور وہ تاریخ مقدس آئیڈیل ہے جو آپ کی خاکِ رہگزر ہے۔

    یہاں موقع نہیں، لیکن اشارتاً عرض ہے کہ تاریخ کے خاتمے کے لبرل دعوے اور مارکسی تصورات اور تاریخ کے خاکِ رہگزر ہونے کے تصور کو ایک ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ جدید تصورات کس قدر لغو ہیں۔ بہرحال، مقدس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ وہ لمحہ جب، اور وہ جگہ جہاں ماورا اور دنیا ایک ہو جائیں، اس شرط پہ کہ دنیا ”خود“ سے کسی معنی کا ظرف نہ رہے، اور ماورائی معنی سے معمور ہو جائے۔ تقدیس اور اتھارٹی کے بغیر روایت کا کوئی معنی نہیں ہے۔ روایت کا سادہ ترین مطلب ”مقدس تاریخ“ ہے۔ جبکہ جدید آدمی تاریخ کی معنویت کو اپنی تعبیر کے تیشے سے متعین کرتا ہے۔ مذہبی آدمی روایت سے جڑنے کا جو اسلوب رکھتا ہے وہ حافظہ ہے۔ حافظہ اصلاً ماضی کی یاد اور اس یاد کو تازہ رکھنے ہی کا نام ہے۔ روایت سے ملنے والے الفاظ و معانی، افعال و اعمال یعنی اقدار کو حافظے میں محفوظ، ارادے سے منسلک اور عمل کا رہنما رکھنا مذہبی آدمی کی بنیادی شخصی ساخت ہے۔ لیکن اگر حافظہ فعال نہ ہو تو یہ متحجر ہو جاتا ہے۔ حافظے کے فعال ہونے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے توشہ خانے میں موجود ”چیزیں“ عقل، نفس، تخیل اور ارادے سے زندہ تعلق رکھتی ہوں، بلکہ وہ تاریخ اور معاشرے سے بھی زندہ نسبتوں کی حامل ہوں۔ اس زندہ تعلق کے مختلف پہلوؤں کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ صرف یہ عرض کرنا ضروری تھا کہ مذہبی شخصیت میں حافظہ کس قدر مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ہم ”تذکیر“ کی معنویت کو بھی ملاحظے میں رکھیں تو بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ ہدایت بھولی ہوئی چیزوں کی یاد دہانی ہی ہے، یعنی ایسی چیزوں کی جو مرکزِ شعور میں قائم نہ رہ سکیں، اور حافظے میں بھی کمزور اور پھر معطل ہو گئیں۔

    سمع خراشی کا خطرہ مول لیتے ہوئے یہ گزارشات اس لیے کرنا پڑیں کہ جدید تعلیم اور حافظے کا تعلق بھی معلوم کر لیا جائے۔ جدید تعلیم میں جس چیز کو سب سے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہ یہی حافظہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیرفعال حافظہ کوئی پسندیدہ چیز نہیں، لیکن حافظے کو اخلاقی اور تعلیمی عیب بنا دینا جدید تعلیم کے اعلی ترین مقاصد میں سے ہے۔ مذہبی شخصیت میں حافظے کی مرکزیت کی وجہ سے حالات کے ساتھ چلنے میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، اور جدید تعلیم کی رو سے یہ بھی ایک بڑا عیب ہے۔ اگر پورے تعلیمی نظام میں حافظے کو مذموم قرار دے دیا جائے تو ایسے انسان کی تشکیل ممکن ہو جاتی ہے، جو ہوا کے ہر جھونکے پر بدل جائے، اور حالات کی ہر رو کے ساتھ چل پڑے۔ حافظے کے خاتمے کے لیے اپج کو پورے تعلیمی عمل میں مرکزیت دی گئی، جسے عام طور پر تخلیقی صلاحیت (creativity) کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل innovation ہے، تخلیقی صلاحیت نہیں ہے۔ اس کا مطلب تخلیق نہیں ہے بلکہ ایک کام یا چیز کو کئی طرح سے کرنے کی صلاحیت ہے جسے انگریزی میں variation on the theme کہتے ہیں، مثلاً گلاس ایجاد کرنا تخلیقی صلاحیت کا اظہار ہو سکتا ہے۔ انوویشن دراصل پہلے سے موجود گلاس کو سو طرح سے بنانے کی صلاحیت ہے تاکہ کاروباری امکانات بہتر کیے جا سکیں۔

    فنون لطیفہ اور آرٹ میں تخلیقی صلاحیت بہت اہمیت رکھتی ہے، لیکن جدید تعلیم میں تخلیقی صلاحیت کا مطلب کاروباری ہے، فنکارانہ نہیں ہے۔ جدید تعلیم میں تخلیقی صلاحیت اور حافظے کو جس طرح ایک دوسرے کی ضد قرار دیا گیا ہے، اس نے مذہبی آدمی کی شخصی ساخت کو بہت گہرے اور منفی طریقے سے متاثر کیا ہے۔ جدید تعلیم میں حافظے کو انسان کے انفسی پہلوؤں سے غیرمتعلق کر دینا، اور ہماری مذہبی تعلیم میں حافظے کو تمام آفاقی نسبتوں سے منقطع کر دینا ہماری قومی بدنصیبی کے بڑے مظاہر ہیں۔ اگر تعلیمی عمل میں concept کا غلبہ اور حافظے کا خاتمہ ہو جائے تو اقدار بےگھر ہو کر نگاہوں سے بھی اوجھل ہو جاتی ہیں۔ اور اگر حافظہ تاریخ اور معاشرے سے منقطع ہو جائے تو دینی روایت کو زندہ رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ انسان کے اجتماعی امور سے غیرمتعلق ہو جاتی ہے۔ ہماری ضرورت ایک ایسی تعلیم ہے جو آخرت کے زندہ شعور کے ساتھ دنیا میں جینا بھی سکھائے اور مرنا بھی۔

  • صوفی، سیکولرازم اور نئی اصطلاحات کی ضرورت – رانا احسن رسول

    صوفی، سیکولرازم اور نئی اصطلاحات کی ضرورت – رانا احسن رسول

    %d8%a7%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%b1%d8%b3%d9%88%d9%84 گاہے نپی تلی ”پھلجھڑی“ ہم بھی چھوڑ دیتے ہیں جس سے یار لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ احسن اب دائرہِ اسلام سے تین کلومیٹر اور دور ہو گیا ہے. دراصل گرد اس قدر اڑائی جا چکی ہے کہ اردو لغات تک میں ”سیکولر“ کا ترجمہ لادین کر دیا گیا ہے. ارے لغت والے بھیّا، پھر اتھیسٹ کا ترجمہ کیا کریں گے؟ جواب ملا ملحد. ملحد اور لادین میں کیا فرق ہوا؟ جواب ندارد

    افلاطون ٹائپ بزرگ جو اس کثیف فرق کو بھی لطیف سمجھتے ہیں، یہ فرما کر گزر جاتے ہیں کہ بیٹا اول بندہ سیکولر ہوتا ہے اور آخرش ملحد ہو کر ہی دم لیتا ہے جس کے لیے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں اور اللہ اللہ.. ورنہ پھر لنڈے کے لبرلز اور لعنت شعنت. اگر ہم سیکولرازم کا سادہ سے سادہ مفہوم بھی پیش کریں تو ”مذہب کے سیاسی استعمال سے بچاؤ“ کے علاوہ کیا کر پائیں گے؟

    صحیفۂ حق میں لکھا ہے جو زندہ رہا دلیل سے زندہ رہا اور جو ہلاک ہوا دلیل سے ہلاک ہوا. ایمان بالغیب کا مطلب یہ تھا کے بغیر دیکھے ایمان لانا. وقت کی گرد نے سب دلیلوں کو طاق پر سجا کر بغیر سوچے سمجھے ایمان لانا بنا دیا ہے. اب کسی ایمانی عقیدہ پر عقلی دلیل مانگنا بھی کفر ٹھہر چکا ہے. کوئی جو بھی سمجھے یہ اس کا حق ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کے ہر سچے صوُفی کے اندر ایک مطمئن فلسفی چھپا ہوتا ہے جس کے عقائد سیکولر ہوتے ہیں.

    ہم سیکولر، لبرل اور روشن خیالی کے بیچ سیکولر تر اور سیکولر ترین طرز کی اصطلاحات کے خواہشمند ہیں جس کو انگلش میں سافٹ سیکولرازم، ہارڈ سیکولرازم کا نام دیا گیا ہے تاکہ سیکولر کا مطلب لادین کوئی بھی نہ کر سکے. یہ ذمہ داری بہرحال فقیروں سے زیادہ مقامی پیشہ ور فلاسفروں کی ہے. نیز سیکولرازم کے حامی دانشوروں کو مذہبی اخلاقیات (سچ، ترکِ نشہ، زکوٰۃ، عبادات میں روحانی سکون) کے مثبت استعمال کے فوائد کو بھی اسی طرح دلیل سے تسلیم کرنا ہے جس طرح مذہب کے سیاسی استعمال کے نقصانات کو تسلیم کیا گیا ہے.

    ہم جس سیکولرازم کے فلسفے کو پسند کریں گے، اس میں ریاست کے قوانین میں مذہب اور فرقہ جات کی علمداری کو روکے جانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ریاست لوگوں کے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کو مطلوبہ مذہبی سہولیات ( عبادت گاہیں، مدارس) بھی فراہم کرے.

    دراصل مسئلہ کہاں ہے؟
    سیکولرازم کا امیج محض فحاشی، میراتھن، شراب نوشی اور مادر پدر آزادی بن چکا ہے، اس لیے اس آخری حل کی طرف ایک سنجیدہ مسلمان بھی اپنا سفر پھونک پھونک کر کر رہا ہے. ہمیں نئی اصطلاحات کی ضرورت ہے اور صوفیائے کرام جو کہ بیک وقت عالم، فلسفی اور نباضِ وقت ہوتے ہیں، ان کے انسٹیٹوشنز کو استعمال کرنا ہوگا کہ ہر دور میں سب سے زیادہ نظریاتی لچک ان کے ہاں موجود رہی ہے. بابا بلھے شاہ کی سیکولر لبرل شاعری بھی آپ نے سنی ہوگی، خان پور سے تعلق رکھنے والے صوفی خواجہ محمد یار فریدی کا ایک شعر سنتے جائیے.

    لا مذہبیم و مذہبِ ما ترکِ مذہب است
    ما مذہبے با دستِ مذہب داں فروختیم

  • مغربی تہذیب کا فکری واعتقادی چیلنج، مولانا دریابادی کے تجربات – عمار خان ناصر

    مغربی تہذیب کا فکری واعتقادی چیلنج، مولانا دریابادی کے تجربات – عمار خان ناصر

    عمار خان ناصر غلبہ مغرب کی نوعیت و ماہیت کی کوئی تفہیم اس فکری و اعتقادی چیلنج کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی جو جدید مغربی فکر نے مذہب اور مذہبی اعتقادات کے حوالے سے کھڑا کر دیا ہے۔ اس چیلنج کو درست طور پر سمجھنے کے لیے جدید مغربی فکر کے ارتقا پر نظر رکھنا ضروری ہے جو قرون وسطیٰ میں ابتداء مسیحی مذہبی فکر سے بےاعتنائی اور بعد ازاں اس کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے زیر اثر مغربی فکر میں کائنات اور انسان کے حوالے سے اہم ترین سوالات کا جواب مذہب سے قطع نظر کرتے ہوئے محض عقل، انسانی فطرت، فلسفیانہ غور وفکر اور تجربہ و مشاہدہ سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر تلاش کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ اس رجحان نے ابتدا میں مذہب کی حقیقت اور مذہبی شعور کا فی نفسہ انکار کرنے کے بجائے ”فطری مذہب“ کے فلسفہ کی شکل اختیار کی اور روایتی مذاہب کو مذہبی تجربہ و احساس کا حتمی ماخذ تسلیم کرنے کے بجائے انسان کے فطری احساسات پر انحصار کرنے پر زور دیا۔ آگے چل کر اٹھارہویں صدی میں تحریک تنویر میں مذہبی تصور کائنات و تصور انسان کو بالکلیہ مسترد کر دیا گیا اور مذہبی علم کو کسی بھی درجے میں حقیقت کی معرفت کا کوئی ذریعہ تسلیم نہ کرتے ہوئے انسان کے دور جہالت کی پیداوار قرار دیا گیا۔ مذہب کو زمانہ قدیم کے توہمات سے پیدا شدہ جہالت کے ہم معنی اور سائنس کے دریافت کردہ تازہ حقائق سے متصادم ہونے کی بنیاد پر سرے سے ناقابل التفات تصور کیا جانے لگا۔ اس طرز فکر کے منطقی نتیجے طور پر مغربی ذہن تمام کائناتی، نفسی اور سماجی مظاہر کی توجیہ کے لیے متبادل نظریات اور فلسفوں کی طرف متوجہ ہوا اور یوں رفتہ رفتہ حیات وکائنات سے متعلق مذہبی نظریے کی مکمل نفی کر کے لا دینی نظریات اور فلسفوں پر استوار علوم وفنون کا ایک پورا نظام کھڑا کر دیا گیا جو انسانی فکر وعمل کے ہر ہر دائرے کی ایک خاص رخ پر تشکیل کرتا ہے اور جس میں مذہبی فکر یا مذہبی تصورات اب حیات وکائنات کی تفہیم کے لیے زاویہ نظر فراہم کرنے کے بجائے خود انسانی فکر کے ایک معروض (Subject) کی حیثیت سے زیر غور آتے ہیں۔ جدید مغربی فکر کے تمام اہم تصورات، نظریات، فلسفے اور فکری تحریکات بنیادی طور پر مذہب اور مذہبی علم سے بغاوت پر مبنی ہیں اور ان کا اساسی محرک انسانی ذہن کے سامنے مذہبی مقدمات کے متبادل مقدمات پیش کرنا رہا ہے۔

    ظاہر ہے کہ یہ صورت حال بطور ایک مذہب اور بطور ایک کامل تصور حیات، اسلام کے لیے ایک زبردست چیلنج کا درجہ رکھتی ہے، اور اس کا سامنا کرنا مسلم فکر و دانش کی اولین ذمہ داری قرار پاتی ہے۔ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کا ایک بنیادی اور اہم دائرہ تو علم الکلام ہے۔ علم الکلام کی اصطلاح علمی و فنی لحاظ سے ایسے جدلیاتی مباحث کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں کسی مخصوص الٰہیاتی اور اعتقادی مسئلے کا اثبات یا تردید مقصود ہو۔ تاہم اپنے اصل مقصد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مسائل و مباحث کو براہ راست موضوع بحث بنانے کے علاوہ ایسی عمومی حکمت عملی وضع کرنا اور اس کے خط و خال کی وضاحت کرنا بھی اس علم کے دائرے میں ہی شمار ہوگا جس کا مقصد غلط نظریات اور باطل فلسفوں کے منفی اثر سے ذہنوں کو بچانا اور اسلامی عقائد ونظریات کی حقانیت اور صداقت کا یقین دلوں میں راسخ کرنا ہو۔ یہ پہلو عام طور سے علم الکلام سے متعلق تحریروں میں زیر غور نہیں لایا گیا، جبکہ غور کیا جائے تو انسانوں کے مزاجوں اور طبائع کے فرق اور جدید تہذیبی ونفسیاتی رجحانات کے تناظر میں ایسے راہ نما اصول متعین کرنے کی ضرورت اس علم کے اصل مقصد کے لحاظ سے بے حد واضح ہے جن کی روشنی میں ملحدانہ فکر سے متاثر اذہان کو مختلف اور متنوع طریقے اختیار کرتے ہوئے مذہب کی طرف مائل کیا جا سکے اور ان کے ذہنوں سے شکوک وشبہات کے کانٹے چنے جا سکیں۔

    molana-abdul-majid-dariya-abadi اس ضمن میں تجربے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جدلیاتی انداز میں براہ راست کسی مسئلے پر مباحثہ یا مناظرہ کا طریقہ بیشتر افراد کے لیے زیادہ مفید نہیں ہوتا۔ علمی و عقلی بحث و مباحثہ کی ایک خاص سطح پر اپنی اہمیت اور افادیت ہے اور فکر و دانش کی سطح پر مؤثر عقلی انداز میں حق کے اثبات اور باطل کی بےمائیگی واضح کرنے کی ضرورت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، تاہم جہاں تک انفرادی سطح پر متاثرین کی اصلاح کا تعلق ہے تو ان کے لیے براہ راست موضوع پر مناظرہ یا مباحثہ کا طریقہ بسا اوقات الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں بیسویں صدی کے ممتاز عالم اور دانش ور مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنی آپ بیتی میں جو اپنے ذاتی تجربات بیان کیے ہیں، وہ بے حد مفید اور قابل توجہ ہیں اور الحاد سے متاثر نئی نسل کو مخاطب بنانے کے لیے نہایت اہم نفسیاتی اور دعوتی اصولوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ (دیکھیے: آپ بیتی، مجلس نشریات اسلام کراچی، ۱۹۹۶، صفحات ۲۳۳ تا ۲۵۴)

    ذیل میں مولانا کی آپ بیتی کے متعلقہ ابواب سے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں:
    ”ایک عزیز کے پاس ایک انگریزی کتاب محض اتفاق سے دیکھنے میں آ گئی۔ جوں جوں آگے بڑھتا گیا، گویا ایک نیا عالم عقلیات کا کھلتا گیا اور عقائد واخلاق کی پوری پرانی دنیا جیسے زیر و زبر ہوتی چلی گئی! کتاب مذہب پر نہ تھی، نہ بظاہر اس کا کوئی تعلق ابطال اسلام یا ابطال مذاہب سے تھا۔ اصول معاشرت وآداب معاشرت تھی۔ نام تھا: Elements of Social Science ۔ کتاب کیا تھی، ایک بارود بچھی ہوئی سرنگ تھی۔ حملہ کا اصل ہدف وہ اخلاقی بندشیں تھیں جنھیں مذہب کی دنیا اب تک بطور علوم متعارفہ کے پکڑے ہوئے ہے اور ان پر اپنے احکام کی بنیاد رکھے ہوئے ہے، مثلاً عفت وعصمت۔ کتاب کا اصل حملہ انھیں بنیادی اخلاقی قدروں پر تھا۔ کتاب کی زد ہر ایسی قدر پر پڑتی تھی جو مذہب اور اخلاق کو ہمیشہ عزیز رہے ہیں۔ پروپیگنڈے کا کمال بھی یہی ہے کہ حملہ براہ راست نہ ہو، بلکہ اطراف و جوانب سے گولہ باری کر کے قلعہ کی حالت کو اتنا مخدوش بنا دیا جائے کہ خود دفاع کرنے والوں میں تزلزل و تذبذب پیدا ہو جائے اور قدم از خود اکھڑ جانے پر آمادہ ہو جائیں۔“ (ص ۲۳۴ تا ۲۳۶)

    ”اسلام اور ایمان سے برگشتہ کرنے اور صاف وصریح ارتداد کی طرف لانے میں ملحدوں اور نیم ملحدوں کی تحریریں ہرگز اس درجہ موثر نہیں ہوئیں جتنی وہ فنی کتابیں ثابت ہوئیں جو نفسیات کے موضوع پر اہل فن کے قلم سے نکلی ہوئی تھیں۔ بظاہر مذہب سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتی تھیں، نہ نفیاً نہ اثباتاً۔ اصلی زہر انھیں بظاہر بےضرر کتابوں کے اندر کھلا ہوا ملا۔ مثلاً ایک شخص گزرا ہے ڈاکٹر ماڈسلی (Maudesley)۔ اختلال دماغی اور امراض نفسیاتی کو بیان کرتے کرتے یک بیک وہ بدبخت مثال میں وحی محمدی کو لے آیا اور اسم مبارک کی صراحت کے ساتھ لکھ گیا کہ مصروع شخص کے لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اپنا کوئی بڑا کارنامہ دنیا کے لیے چھوڑ جائے۔“ (ص ۲۴۰)

    مولانا عبدالماجد دریابادی
    مولانا عبدالماجد دریابادی

    مولانا نے الحاد سے واپسی کے ذہنی سفر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بدھ مت، تھیو سوفی، ہندو فلسفہ وتصوف اور مختلف ہندو مفکرین کی تحریریں پڑھنے کا ذکر کیا ہے اور اسے اسلام کی طرف واپسی کا پہلا مرحلہ قرار دیاہے۔ لکھتے ہیں:
    ”ڈیڑھ دو سال (۱۹ء، ۲۰ء) کے اس مسلسل مطالعہ کا حاصل یہ نکلا کہ فرنگی اور مادی فلسفہ کا جو بت دل میں بیٹھا ہوا تھا، وہ شکست ہوگیا اور ذہن کو یہ صاف نظر آنے لگا کہ اسرار کائنات سے متعلق آخری توجیہ اور قطعی تعبیر ان فرنگی مادیین کی نہیں، بلکہ دنیا میں ایک سے ایک اعلیٰ و دل نشین توجیہیں اور تعبیریں اور بھی موجود ہیں۔ اسلام سے ان تعلیمات کو بھی خاصا بعد تھا، لیکن بہرحال اب مسائل حیات، اسرار کائنات سے متعلق نظر کے سامنے ایک بالکل نیا رخ آ گیا اور مادیت، لا ادریت و تشکیک کی جو سربفلک عمارت برسوں میں تعمیر ہوئی تھی، وہ دھڑام سے زمین پر آ رہی۔ دل اب اس عقیدہ پر آ گیا کہ مادیت کے علاوہ اور اس سے کہیں ماورا و مافوق ایک دوسرا عالم روحانیت کا بھی ہے۔ حواس مادی محسوسات، مرئیات و مشہودات ہی سب کچھ نہیں، ان کی تہہ میں اور ان سے بالاتر ”غیب“ اور مغیبات کا بھی ایک مستقل عالم اپنا وجود رکھتا ہے۔ قرآن مجید نے بالکل شروع میں جو ایمان کا وصف ایمان بالغیب بتا دیا ہے، وہ بہت ہی پرحکمت ومعنی خیز ہے۔ پہلے نفس ”غیب“ پر تو ایمان ہو، پھر اس کے جزئیات وتفصیلات بھی معلوم ہوتے رہیں گے۔ ہمارے مولوی صاحبان کو اس منزل و مقام کی کوئی قدر نہ ہو، لیکن درحقیقت یہ روحانیت کا اعتقاد، ایمان کی پہلی اور بڑی فتح مبین مادیت، الحاد وتشکیک کے لشکر پر تھی۔“ (ص ۲۴۷، ۲۴۸)

    ”اسی دور کی ابھی ابتدا ہی تھی کہ مولانا شبلی کی سیرۃ النبی کی جلد اول پریس سے باہر آ گئی۔ کتاب شبلی کے قلم سے تھی۔ موضوع کچھ بھی سہی، کیسے نہ اس کو شوق سے ہاتھوں سے کھولتا اور اشتیاق کی آنکھوں سے پڑھتا۔ کھولی اور جب تک اول سے آخر تک پڑھ نہ لی، دم نہ لیا۔ دل کا اصلی چور تو یہیں تھا اور نفس شوم کو سب سے بڑی ٹھوکر جو لگی تھی، وہ اسی سیرۃ اقدس ہی کے متعلق تو تھی۔ مستشرقین و محققین فرنگ کے حملوں کا اصل ہدف تو ذات رسالت ہی تھی۔ خصوصاً بسلسلہ غزوات و محاربات، ظالموں نے بھی تو طرح طرح سے دل میں بٹھا دیا تھا کہ ذات مبارک نعوذ باللہ بالکل ایک ظالم فاتح کی تھی۔ شبلی نے (اللہ ان کی تربت ٹھنڈی رکھے) اصل دوا اسی درد کی کی، مرہم اسی زخم پر رکھا۔ اور کتاب جب بند کی تو چشم تصور کے سامنے رسول عربی کی تصویر ایک بڑے مصلح ملک وقوم اور ایک رحم دل و فیاض حاکم کی تھی جس کو اگر جدال و قتال سے کام لینا پڑا تھا تو پھر بالکل آخر درجہ میں، ہر طرح پر مجبور ہو کر۔ یہ مرتبہ یقینا آج ہر مسلمان کو رسول و نبی کے درجہ سے کہیں فروتر نظر آئے گا اور شبلی کی کوئی قدر و قیمت نظر میں نہ آئے گی، لیکن اس کا حال ذرا ا س کے دل سے پوچھیے جس کے دل میں نعوذ باللہ پورا بغض و عناد اس ذات اقدس کی طرف سے جما ہوا تھا۔ شبلی کی کتاب کا یہ احسان میں کبھی بھولنے والا نہیں۔“ (ص ۲۴۸)

    ”ہندو فلسفہ اور جوگیانہ تصوف نے گویا کفر و ایمان کے درمیان پل کا کام دیا۔ اس معروضہ کو وہ متقشف حضرات خاص طور پر نوٹ کر لیں جو ہندو فلسفہ کے نام ہی سے بھڑکتے ہیں اور اسے یکسر کفر و ضلالت کے مرادف قرار دیے ہوئے ہیں۔ ہدایت کا ذریعہ بھی اسے بآسانی بنایا جا سکتا ہے۔ اور یہ حضرات اپنے جوش دین داری میں شبلی اور محمد علی لاہوری کی خدمت تبلیغ کو سرے سے نظر انداز نہ کر جائیں، میں نے تو دونوں کی دست گیری محسوس کی بلکہ اسپرٹ آف اسلام والے جسٹس امیر علی کے کام کو بھی حقیر نہ سمجھیں حالاں کہ وہ بےچارے تو قرآن مجید کو شاید کلام محمد ہی سمجھتے تھے۔ اپنی سرگزشت کا تو خلاصہ یہی ہے کہ جس فکری منزل میں، میں اس وقت تھا، حضرت تھانوی جیسے بزرگوں کی تحریروں کو ناقابل التفات ٹھہراتا، ان کی طرف نظر تک نہ اٹھاتا اور ان کے وعظ وتلقین سے الٹا ہی اثر قبول کرتا۔ غذا لطیف وتقویت بخش ہی سہی، لیکن اگر مریض کے معدہ سے مناسبت نہیں ہوگی تو الٹی مضر ہی پڑے گی۔“ (ص ۲۵۵، ۲۵۶)

    ”بڑی خیر یہ ہوئی کہ مجلسی، خانگی تعلقات اپنے عزیزوں اور خاندان والوں سے بدستور باقی رہے۔ اپنے ایک ساتھی کو اسی زمانہ میں دیکھا کہ اپنوں سے کٹ کر مکمل غیروں میں شامل ہوگئے تھے اور رہن سہن تک بالکل ہندوانہ کر لیا تھا۔ میں اپنے کھانے پینے، وضع و لباس اور عام معاشرت میں، بلکہ کہنا چاہیے کہ ایک حد تک جذباتی حیثیت سے بھی مسلمان ہی رہا، البتہ ایک روشن خیال مسلمان۔ اور روشن خیال مسلمان اس وقت نوجوانوں میں کون نہ تھا؟ اور مسلم قومیت سے میری یگانگت کی جڑیں بحمداللہ کٹنے نہ پائیں۔ مسلم قومیت کی نعمت بھی، دین اسلام کے بعد، ایک بڑی نعمت ہے اور کوئی صاحب اسے بے وقعت و بے قیمت نہ سمجھیں۔ مجھے آگے چل کر اس بچی کھچی نعمت کی بھی بڑی قدر معلوم ہوئی۔“ (ص ۲۴۲)

    ”اکتوبر ۲۰ء میں سفر دکن میں ایک عزیز ناظر یار جنگ جج کے ہاں اورنگ آباد میں قیام کا اتفاق ہوا اور ان کے انگریزی کتب خانہ میں نظر محمد علی لاہوری احمدی (عرف عام میں قادیانی) کے انگریزی ترجمہ و تفسیر قرآن مجید پر پڑ گئی۔ بےتاب ہو کر الماری سے نکالا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ جوں جوں پڑھتا گیا، الحمدللہ ایمان بڑھتا گیا۔ جس ”صاحبانہ“ ذہنیت میں اس وقت تک تھا، اس کا عین مقتضا یہ تھا کہ جو مطالب اردو میں بےاثر رہتے اور سپاٹ معلوم ہوتے، وہی انگریزی کے قالب میں جا کر مؤثر و جاندار بن جاتے۔ یہ کوئی مغالطہ نفس ہو یا نہ ہو، بہرحال میرے حق میں تو حقیقت واقعہ بن کر رہا۔ اور اس انگریزی قرآن کو جب ختم کر کے دل کو ٹٹولا تو اپنے کو مسلمان ہی پایا اور اب اپنے ضمیر کو دھوکا دیے بغیر کلمہ شہادت بلا تامل پڑھ چکا تھا۔ اللہ اس محمد علی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اس کا عقیدہ مرزا صاحب کے متعلق غلط تھا یا صحیح، مجھے اس سے مطلق بحث نہیں۔ بہرحال اپنے ذاتی تجربہ کو کیا کروں، میرے کفر و ارتداد کے تابوت پر تو آخری کیل اسی نے ٹھونکی۔“ (ص ۲۵۴، ۲۵۵)

    اپنی اصلاح کے ضمن میں مختلف حضرات کی کوششوں اور ان کے رائیگاں جانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ”ہاں، مخلصانہ و حکیمانہ کوششیں پھر اگر تھوڑی بہت کسی کی چپکے چپکے کارگر ہوتی رہیں تو بس ان دو ہستیوں کی:
    (۱) ایک الہ آباد کے نامور ظریف شاعر حضرت اکبرؒ۔ بحث و مناظرہ کی انھوں نے کبھی چھاؤں بھی نہیں پڑنے دی اور نہ کبھی پند و موعظت ہی کی طرح ڈالی۔ بس موقع بہ موقع اپنے میٹھے انداز میں کوئی بات چپکے سے ایسی کہہ گزرتے جو دل میں اتر جاتی اور ذہن کو جیسے ٹہوکے دے دیتے کہ قبول حق کی گنجائش کچھ تو بہرحال پیدا ہو کر رہتی۔
    (۲) دوسری ہستی وقت کے نامور رہ نمائے ملک و ملت مولانا محمد علیؒ کی تھی۔ بڑی زوردار شخصیت ان کی تھی اور میرے تو گویا محبوب ہی تھے۔ کبھی خط میں اور کبھی زبانی، جہاں ذرا بھی موقع پاتے، ابل پڑتے اور جوش و خروش کے ساتھ، کبھی ہنستے ہوئے، کبھی گرجتے ہوئے اور کبھی آنسو بہاتے ہوئے تبلیغ کر ڈالتے۔ ان کی عالی دماغی، ذہانت، علم، اخلاص کا پوری طرح قائل تھا، اس لیے کبھی بھی کوئی گرانی دونوں کی تبلیغ سے نہ ہوئی اور دونوں حق نصح (خیر خواہی) ادا کر کے پورا اجر سمیٹتے رہے۔“ (ص ۲۴۹، ۲۵۰)

    ”گیتا کے مطالعہ کے بعد سے طبیعت میں رجحان تصوف کی جانب پیدا ہو گیا تھا اور مسلم صوفیا کی کرامتوں اور ملفوظات سے اب وحشت نہیں رہی تھی، دلچسپی پیدا ہوگئی تھی اور خاصی کتابیں فارسی اور اردو کی دیکھ بھی ڈالی تھیں۔ ۱۹۱۹ء کا آخر تھا کہ اپنے ایک عزیز سید ممتاز احمد بانسوی لکھنوی کے پاس مثنوی رومی کے چھ دفتر کان پور کے بہت صاف، روشن و خوشنما چھپے ہوئے دکھائی دیے اور طبیعت للچا اٹھی۔ ان بےچارے نے بڑی خوشی سے ایک ایک دفتر دینا شروع کر دیا۔ کتاب شروع کرنے کی دیر تھی کہ یہ معلوم ہوا کہ کسی نے جادو کر دیا۔ کتاب اب چھوڑنا چاہوں بھی تو کتاب مجھے نہیں چھوڑ رہی ہے۔ یاد نہیں کہ کتاب کتنے عرصے میں ختم کی۔ بہرحال جب بھی ختم کی، تو اتنا یاد ہے کہ دل ممتاز میاں کا نہایت درجہ احسان مند تھا کہ یہ نعمت بےبہا انھی کے ذریعے ہاتھ آئی تھی۔ شکوک و شبہات بغیر کسی رد و قدح میں پڑے، اب دل سے کافور تھے اور دل صاحب مثنوی پر ایمان لے آنے کے لیے بےقرار تھا! (ص ۱۵۲، ۲۵۲)

    ”۲۳ء کا غالباً ستمبر تھا کہ مکتوبات مجدد سرہندی کے مطالعہ کی توفیق ہوئی۔ بڑا اچھا نسخہ، خوب خوش خط و روشن اچھے کاغذ پر، حاشیہ کے ساتھ (مثنوی کے کان پوری ایڈیشن کی طرح) نو حصوں میں امرتسر کا چھپا ہوا مل گیا۔ اس نے طبیعت پر تقریباً ویسا ہی گہرا اثر ڈالا جیسا تین چار سال قبل مثنوی سے پڑ چکا تھا۔ فرق اتنا تھا کہ مثنوی نے جوش ومستی کی ایک گرمی سی پیدا کر دی تھی۔ بجائے ادھر دھر کی آوارہ گردی اور ہر صاحب مزار و صاحب آستانہ سے لو لگانے کے، اب متعین شاہراہ اتباع شریعت کی مل گئی۔ منزل مقصود متعین ہو گئی کہ وہ رضائے الٰہی ہے، اس کے حصول و وصول کا ذریعہ اتباع احکام مصطفوی ہے۔ مثنوی اور مکتوبات، دونوں کا یہ احسان عمر بھر بھولنے والا نہیں۔ راہ ہدایت جو کچھ نصیب ہوئی، کہنا چاہیے کہ بالآخر انھیں دونوں کے مطالعہ کا ثمرہ ہے۔“ (ص ۲۵۷)

    مولانا عبدالماجد دریابادی کی آپ بیتی کا یہ پورا حصہ لائق مطالعہ ہے اور انسانی نفسیات اور تجربے کی سطح پر یہ سمجھنے میں بہت مدد دیتا ہے کہ گمراہ کن نظریات کیسے انسان کے فکر و دماغ کو متاثر کرتے ہیں اور ان کا مداوا کرتے ہوئے کن علمی و نفسیاتی اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

  • الحاد کیسے پھیلتا ہے؟ سوال کیا ہے، جواب کیا؟ عبدالسلام فیصل

    الحاد کیسے پھیلتا ہے؟ سوال کیا ہے، جواب کیا؟ عبدالسلام فیصل

    جب سے انسان پیدا ہوا ہے تب سے اس میں ایک صلاحیت پائی جاتی ہے جس کو ہم شک و شبہ، حیرت یا سوال کرنے کی صلاحیت کہتے ہیں۔ لیکن انسانوں کے ایک بڑے ہجوم میں جس کی تعداد کم و بیش 7 ارب سے بھی زیادہ ہے اور ہر انسان کے پاس اپنا دماغ، اپنی سوچنے کی صلاحیت موجود ہے، یہ کیسے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کون سا انسان عقل و فہم میں بہتر اور خیر والا ہے، اور کون سا انسان عقل و فہم میں برائی والا یا شر والا ہے؟ یہاں پر لازم آئے گا کہ اختلاف جنم لے۔ لیکن یہ اختلاف ایک ایسے شخص کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ جو عقل و فہم کا بے دریغ استعمال کرتا ہے، اور خود کو نمایاں رکھنے کی کوشش میں لوگوں کے سامنے ایسے سوالات رکھتا ہے جس کا کوئی سر ہو نہ پاؤں تو آپ کبھی بھی اس شخص کو کسی نتیجہ پر نہیں پائیں گے۔ اس کی چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

    ملحد آپ سے سوال کر سکتا ہے کہ اگر ’’اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے‘‘؟ تو انسان کو ’’ آنکھیں‘‘ سامنے کی جانب کیوں عطا کیں؟ ایک آنکھ آگے اور ایک پیچھے کیوں نہ عطا کیں؟ تاکہ وہ آ گے اور پیچھے دونوں جانب دیکھ سکتا؟
    اب اہل منطق یہ سوال اٹھائیں گے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ انسان کا آگے والا حصہ کون سا ہے اور پیچھے والا حصہ کون سا؟ پھر یہ سوال بھی کیا جائے گا کہ اگر انسان کی ایک آنکھ آگے اور ایک پیچھے ہوگی تو لازم بات ہے کہ انسان کے ناک کا ایک سوراخ بھی پیچھے ہونا چاہیے تھا؟ تا کہ وہ جس طرف سے بھی کسی بدبو دار چیز کو دیکھتا تو اس کی طرف اسی سمت میں متوجہ ہوتاَ؟
    پھر یہ سوال کیا جائے گا کہ لازم آتا ہے کہ ’’انسان کے آگے اور پیچھے 2 منہ بھی ہونے چاہیے تھے؟‘‘ تاکہ وہ اپنی خوراک کو جس طرف کی آنکھ سے بھی دیکھتا اسی طرف سے اس کے خیر و شر یعنی وہ خوراک اس کے کھانے کے لیے درست ہے یا نہیں سمجھ کر کھانا دونوں جانب سے کھا سکتا؟ پھر یہ سوال بھی تو کیا جا سکتا ہے؟ گردن کیوں دی گئی؟ کیا صرف کھانا نگل لینے کے لیے دی گئی؟ نہیں بلکہ اس کو اردگرد کے ماحول کو دیکھنے کے لیے حرکت کی طاقت عطا کی گئی؟ کیا وجہ ہے کہ انسان کو ایک کان کے ساتھ ساتھ دائیں اور بائیں بھی دو آنکھیں دی جاتیں تا کہ گردن کی حرکت کی حجت و علت ختم ہو جاتی۔ اور انسان کی یہ محتاجی ختم ہو جاتی؟
    نوٹ: آپ اندازہ کریں کہ ملحد کے ایک سوال نے کیسے کیسے سوالات کو جنم دیا۔ اور پھر تصوراتی طور پر اگر ان سوالات کو حقیقی تجزیہ سے عمل میں لایا جائے تو سوچیں کہ انسان اگر مندرجہ بالا خصوصیات کا مالک ہوتا تو کتنا بےڈھنگا اور بد صورت تصور ہوتا۔

    ملحد اس بات کے قطع نظر کہ انسانی آنکھیں 180 ڈگری میں اپنے سامنے کی طرف سے دیکھ سکتی ہیں اور گردن کے مڑنے سے انسان اپنے اردگرد 180 ڈگری اینگل کے وژن سے دیکھ سکتا ہے۔ انسان کا ’’نضام انہضام، نظام دماغ، نظام پیشاب‘‘ فطری طور پر آنکھوں والی جانب اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے اندر پائی جانے والی تبدیلیوں کو محسوس کر سکے۔ پیٹ کا درد، گردوں کا درد، دل کا درد سب کچھ سامنے کی طرف ہی انسان کو محسوس ہوتا ہے۔ ہندؤں کے بگھوان کی مورتی کو دیکھیں جس کے 6 منہ یا 4 ہاتھ ہیں؟ کیا وہ ایک کامل تخلیق ہے؟ یا ہم یہ کیسے مان لیں کہ جو مورتی خدا ہونے کا دعویٰ کرتی ہو وہ اتنی بد صورت ہواور اس میں اتنی قدرت موجود نہ ہو کہ وہ دو ہاتھوں، ایک منہ، اور دو ٹانگوں کے ساتھ ہوتے ہوئے ہر کام کو بجا لائے؟ کیا خدا بدصورت بھی ہوتا ہے؟ معاذ اللہ، کیا دنیا میں ایسے انسان نہیں پائے جاتے جن کو ایک دکھائی دینے والی چیز اچھی اور دوسروں کو بری لگتی ہے؟ اس بات سے قطع نظر کہ وہ یہ بات مانتا ہے کہ انسان ایک حادثاتی کرشمہ ہے۔ لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس قدر پیچیدہ انتظام کسی خالق کے بنائے بغیر تخلیق پا ہی نہیں سکتا۔

    اہل مذہب یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جو اعتراض آپ نے اہل مذہب اور خدا کے ماننے والوں پر کیا اسی کا اطلاق ہم آپ پر کرتے ہیں کہ انسان نے ارتقائی مراحل طے کرتے کرتے بے شمار تبدیلیاں اپنے اندر دیکھیں. آخر کیا وجہ ہے کہ انسانی شعور ان تبدیلیوں پر قابو نہ پا سکا؟ یعنی ماحول سے اخذ شدہ تبدیلیوں کا محتاج نہ رہتا؟ اور اپنی مرضی سے اپنے جسم کو ڈھال لیتا؟ اور جو سوال آج کے جدت پسند انسان کے ذہن میں پائے جا رہے ہیں وہی سوالوں کا حل انسانیت کے لیے خود پیش کرتا؟ ملحدین اس کا جواب کبھی بھی نہیں دے سکتے۔ حتیٰ کے قیامت آ جائے گی لیکن یہ لوگ شکوک و شبہات کی ایسی دلدل میں پھنسے رہیں گے اور موت کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ یعنی سوالات کا ایسا سلسلہ شروع کر دیا جائے جس سے نفس مسئلہ کی خوب اکھاڑ بچھاڑ ہو، اور ہر سوال سے کئی نقطے اور پہلو کھلتے چلے جائیں۔ پیچیدہ در پیچیدہ علم اس شخص کے حصے میں آئے جو دوسری جانب فریق مخالف کے پاس موجود نہ ہو۔ یہ وہ طریق کار ہے جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے، اور اس نے دہریت کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

    قارئین کرام! اگر انسان واقعی میں ماحول سے اخذ شدہ تبدیلیوں کا حامل ہے تو آگ اس ماحول کا حصہ ہے، کیا وجہ ہے کہ ہندو ہزاروں سالوں سے انسان کو جلا رہے ہیں اور انسان جلتا جا رہا ہے؟ اگر واقعی جینیاتی تبدیلیاں انسان کی جسمانی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں، اور ابتدائی طور پر مادہ نے انسان کی پہلی حالت ہونے کا شرف حاصل کیا ہے اور ماحول سے چھپکلی، پھر ڈائینو سارس ، پھر بڑے دیوقامت بن مانس اور پھر بندروں کی شکل اختیار کر کے موجودہ انسانی شکل تک پہنچا ہے؟ تو لازم طور پر ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وقت کی رفتار انسان کو ایسا کرنے سے روک رہی ہے ورنہ ان تبدیلیوں پر اربوں سال نہ لگتے۔
    ہم ان سے سوال کر سکتے ہیں کہ انسان کو دوڑنے سے سانس کیوں چڑھ جاتا ہے کیا یہ خامی نہیں؟ یا پھر یہ پوچھ سکتے ہیں کہ انسانی آنکھ بھی تو اسی ماحول کی عطا کردہ ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ انسانی آنکھ سورج کے نیچے یا سامنے کھڑے ہو کر اسے دیکھنے سے قاصر ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سوال کر دیا جائے کہ انسان یا مادہ کی میل اور فی میل سیکس کیوں تشکیل پائے؟ کیا وجہ ہے کہ جو ملحدین انسانیت کا نام لے لے کر عورت کو مرد کے برابر حقوق دینے کی بات کرتے ہیں، یہ ماحول انسان کو صرف مرد رہنے دیتا یا پھر صرف عورت یعنی فی میل، آج کی یہ ہل چل جس میں عورت کے حقوق کے نام پر عورت کو جگہ جگہ ذلیل کیا جاتا ہے وہ نہ ہوتی؟

    کیا آپ یہ بات سمجھنے کو تیار ہیں کہ اگر دنیا میں صرف مرد ہی مرد پیدا ہوتے اور مرد ہی میں بچہ جننے کی طاقت ہوتی تو جنگوں میں لڑنے والے حاملہ مردوں کو تلواروں، گولیوں اور دوسرے ہتھیاروں سے جب قتل کیا جاتا تو کتنے مرد اولاد سے محروم ہو جاتے؟ کیا ملحد بتا سکتے ہیں کہ مردوں کو کیا کہا جاتا؟ ماں یا باپ؟ ملحدین اگر بیس سوال کر سکتے ہیں تو یقین مانیں کہ ان کے خلاف بیس ہزار سوال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ ان کے دماغ کو منتشر کر دیا جاتا ہے۔ ملحد کا کوئی سوال آپ کو کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا سکتا جبکہ مذہب آپ کو کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچا دیتا ہے۔

    مثلاً: ملحدین آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ’’ہم آپ کے نبی محمد ﷺ کو نہیں مانتے کیونکہ یہ سب قصے کہانیاں ہیں (معاذاللہ )، تاریخ میں کسی محمد ﷺ کا یا عیسی علیہ السلام کا کوئی وجود نہ تھا۔ تو اہل مذہب جواب دیں گے کہ اللہ کے انبیاء کو دیکھنے والی ایک بہت بڑی جماعت موجود تھی۔ محمد ﷺ کو دیکھنے والے ایک لاکھ سے زائد مسلمان صحابہ رضی اللہ عنھم موجود تھے، جن سے ان کے لاکھوں تابعین اور تبع تابعین نے نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے نبی بنایا۔ ان کے خاندانوں اور ان کا سلسلہ نسب موجود ہے۔ آج بھی ان کی اولادیں موجود ہیں۔ جن سے تاریخ کی ضمانت لی جاتی ہے۔
    جبکہ ملحدین کے پاس اپنی تاریخ کا کوئی بھی پہلو محفوظ نہیں۔ وہ نہیں بتا سکتے کہ انسان نے سب سے پہلے کیا الفاظ بولے ؟ وہ نہیں بتا سکتے کہ ان الفاظ کو سننے والے کتنے تھے؟ یا تھے بھی یا نہیں؟ ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ ان میں کتنے میل اور کتنے فی میل تھے؟ انہوں نے علم کی ترسیل کس طرح کی، کوئی حتمی جواب موجود نہیں؟ سب سے پہلے جس انسان نے لباس پہنا اس کا کیا نام تھا؟ سب سے پہلے جس انسان نے آگ جلائی وہ کون تھا؟ یا کس انسان نے کس انسان کا نام رکھا؟
    نوٹ : یہ موازنہ نہیں ہے بلکہ تاریخ کے خیر و شر کو سمجھنے کی ایک مثال ہے۔
    یعنی کوئی بھی ملحد جو دین کو نہیں مانتا وہ آپ کو کسی نتیجہ تک نہیں پہنچا سکتا۔ لیکن مذاہب نتیجہ خیز ہوتے ہیں اور دین اسلام نے مسلمانوں کو جن نتائج سے آگاہ کر دیا ہے اس کی مثال کسی مذہب میں موجود نہیں۔

    مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ نے کائنات کی تخلیق سے 50 ہزار سال پہلے تقدیر یعنی پلان مرتب کیا۔ پھر کائنات اور اس میں موجود اشیاء کی تخلیق کی۔ پہلا انسان آدم تھا، وہ ایک مرد تھا، اس کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا۔ آدم علیہ السلام کے ذریعے شیطان اور شیطان کے ذریعے آدم علیہ السلام کو آزمایا گیا۔ پھر ان کو جنت میں رکھا گیا۔ جنت میں اللہ نے ان کو ایک ابتلاء یا آزمائش میں مبتلا کیا۔ آدم سب سے پہلے بولے۔ آدم علیہ السلام کو علم دیا گیا۔ آدم علیہ السلام کو کثیر اولاد حوا علیھا السلام کے ذریعے عطا کی گئی۔ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ آدم علیہ السلام کو زمین میں موجود تین رنگوں کی مٹی سے پیدا کیا گیا۔ یعنی سرخ، سیاہ اور سفید ۔ آدم علیہ السلام سے اب تک کے لوگ سب اسی ابتلاء میں مبتلا ہیں۔ موت اس لیے دی جاتی ہے کہ انسان کے اعمال کا محاسبہ آخرت میں دیا جا سکے۔ قیامت قائم ہو۔ سب سے پہلی موت آدم کی اولاد کو ہی آئی۔ سب سے پہلے آدم کی اولاد ہی کو دفنایا گیا۔ انسان کو اس امتحان کا نصاب دیا گیا۔ وہ دین اسلام ہے۔ انسان کو اسی پر عمل پیرا ہو کر اللہ سے اپنے گناہوں سے نجات حاصل کرنی ہے۔ یہ ہے وہ نتیجہ جس تک دین رہنمائی کرتا ہے۔

    ملحد یہ سوال بھی کرتا ہے کہ انسان کو آگ میں کیوں ڈالا جائے گا، اگر آگ ہی میں ڈالنا تھا تو پیدا کیوں کیا۔ جبکہ اگر آپ بغور جائزہ لیں تو وہ یہ سوال تب کرتے ہیں جب انہوں نے دین کی طرف سے پیش کردہ فلسفہ آزمائش کو پس پشت ڈال دیا ہوتا ہے اور اس کے بارے میں کوئی ملحد کچھ بھی علم نہیں رکھتا۔
    ملحد آپ سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ اللہ نے عورت کے حیض کو پلید قرار دیا ہے، وہ عورت کو اس کے بغیر بھی تو پیدا کر سکتا تھا جبکہ یہی سوال ہم ماحول کو خدا ماننے والوں سے کر سکتے ہیں کہ آپ کا نظریہ حقیقت پر مبنی ہے تو اس مسئلہ پر انسان نے اپنے ارتقاء میں جن بری تبدیلیوں سے اپنے جسم میں اچھی تبدیلیاں پیدا کیں، اس میں عورت بھی حیض سے نجات حاصل کر لیتی۔ آج کا ملحد سائنس کا ڈنکا بجانے میں مگن ہے، میڈیکل سائنس پر فخر کرتا ہے لیکن اربوں سالوں سے موت جیسی بیماری پر آج تک قابو نہ پا سکا؟

    آپ جانتے ہیں کہ اگر انسان واقعی ماحول کا بیٹا ہوتا اور اپنے اندر کی تبدیلیوں کا مالک خود ہوتا تو آج یہ دنیا جس کے 7 براعظم ہیں، انسانوں کے جم غفیر کے لیے تھوڑی پڑ جاتی۔ جو انسان آج 5یا 10مرلہ کی زمین کے لیے ایک دوسرے کو قتل کر دیتا ہے، وہ کتنا جھگڑالو ہوتا۔ افزائش نسل کے لیے جانوروں کی حد تک اپنی طاقت کا استعمال کرتا۔ ممکن ہے ماں ، باپ ، بیٹی اور بہن بھائی جیسے مقدس رشتے وجود میں نہ ہوتے۔ جو توازن موت نے انسان اور اس کی زندگی اور اس کے معاشرے میں پائی جانے والی بے شمار تبدیلیوں کی وجہ سے قائم رکھا ہے، وہ زندہ انسانوں کا وہ ہجوم جو شاید ایک کے اوپر ایک رہتا۔ اور کائنات کتنی غیر متوازی ہوتی۔

    ملحدین کا طریقہ واردات علوم فلاسفہ کی بنیاد پر ہے۔ ’’فلسفہ‘‘ کا معنی ’’عقل و دانش‘‘ سے محبت ہے، لیکن فلسفہ کی کوئی جامع تعریف موجود نہیں ۔مسائل کی تحقیق کے نام پر دوسرے علوم کے ’’قوانین‘‘ اور ’’اصول و ضوابط‘‘ کا ناقدانہ انداز میں جائزہ لے کر اپنی مرضی کی تردید کر دینے کا نام ’’فلسفہ‘‘ ہے۔ فلسفہ کا مسئلہ یہ ہے کہ ’’دلیل‘‘ کسی چیز کو نہیں مانتے۔ اگر آپ کسی فلسفی کو دلیل کے طور پر قرآن کی آیت یا رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو پیش کریں گے تو فوری طور پر دلیل کو ایک مغالطہ کہے گا۔ لیکن جب آپ سائنسی حوالے سے کسی بھی اصول پر دلیل مانگیں گے، وہ تجربہ کو مثال بنا کر دلیل مانے گا۔ فلسفیوں کا یہ انداز فکر ان پر کڑی تنقید کرتا ہے جیسے ’’تجزیاتی فلسفہ‘‘ جس میں اشیاء کے اجزاء کو سمجھ کر کل کی تعریف کی جاتی ہے۔ اس میں بے شمار خامیاں ہیں، اور اس کو مندرجہ ذیل مثال سے بیان کیا جا سکتا ہے۔
    آپ کے سامنے قرآن کا ایک جز لکھ دیا جائے گا۔ [pullquote]ومکرو مکر اللہ واللہ خیر الماکرین[/pullquote]

    ملحداس آیت پر اعتراض کرے گا کہ اللہ قرآن میں خود کہہ رہا ہے کہ ’’ اور جو مکر کرے گا اللہ اس کے ساتھ مکر کرے گا اور اللہ بہتر مکر کرنے والا ہے.‘‘
    اس سے تو ثابت ہوا کہ اللہ مکر کر سکتا ہے بلکہ کرتا ہے، اس لیے اس قرآن میں جو بھی ہوگا اس کو ہم مکر بھی تسلیم کریں گے۔ اب ایک اہل دین’’اصول ترجمہ اور تفسیر‘‘ کو مدنظر رکھ کر سورۃ آل عمرآن کی اس آیت کا ’’سیاق و سباق‘‘ دیکھے گا۔ اس کے بعد لغوی اعتبار پر ’’مدعی معترض‘‘ کے پیش کردہ لفظ کا اصطلاحی معنی پیش کرے گا کہ عربی زبان میں ’’مکر‘‘ سے مراد تدبیر کرنا بھی ہے۔ پھر وہ اس آیت کے شان نزول کو بیان کرے گا۔ اس کے بعد سمجھائے گا کہ بنی اسرائیل کے مکر کو واضح کرنے کے لیے اللہ نے قرآن میں اس آیت کو نازل کیا۔ اس کے بعد وہ اس آیت سے قبل اور بعد والی آیات پیش کر کے معاملہ صاف کر دے گا کہ بھائی یہ آیت تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی پر دلالت والی آیت سے قبل اللہ نے نازل فرمائی، اور معاملہ صاف ہو جائے گا۔ اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ آپ ملحدین سے ایسا سوال کر سکتے ہیں کہ ’’تجزیاتی فلسفی‘‘ کے پاس ’’دین‘‘ کے علم میں ’’دین کی تاریخ‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ کیا اس کے پاس ’’اصول حدیث اور اصول تفسیر‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ اور کیا اس کے پاس ’’عربی ادب اور گرامر‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ جس سے یہ بات ثابت کی جا سکے کہ ’’تجزیاتی فلسفی‘‘ کسی بھی مذہب یا دین جس کو ’’فلسفی‘‘ ایک کل کے طور پر مانتے ہیں اور اجزائے دین سے اپنی عقل کے تحت ’’کل‘‘ پر جو تجزیہ کرے گا وہ بالکل درست کرے گا؟ یہ ایک نہایت احمقانہ اور جاہلانہ بات ہے۔

    فلسفی یا ملحدین دین کے ماننے والوں کے بد اعمال کو بنیاد بنا کر بطور حجت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر بد قسمتی سے ایک عالم دین شراب پیتا ہے تو وہ کسی بھی دیندار کے سامنے یہ اعتراض رکھ سکتے ہیں کہ شراب کے حلال و حرام کا تصور بالکل غلط ہے۔ (معاذ اللہ ) کیونکہ میں نے ایک عالم کو شراب پیتے دیکھا ہے۔ لیکن جب اس سے سوال کیا جائے گا کہ بھائی یہ بتاؤ؟ کیا اللہ نے دین اسلام میں شراب کو کسی جگہ بھی حلال کہا ہے تو وہ اس کا جواب دینے سے قاصر ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی زنا کرتا ہے، ڈاکہ ڈالتا ہے، اور وہ نمازی بھی ہے تو شریعت نے کبھی اس کو نہ زنا کرنے کا حکم دیا ہے نہ ہی ڈاکہ ڈالنے کا۔ وہ اس کے اپنے نفس کی بد اعمالی ہے۔ اس کا تعلق کسی صورت دین سے نہیں ہے۔

    آج کے دور میں’’ملحدین‘‘ کے کام میں جتنی جدت موجود ہے، پہلے موجود نہ تھی۔ ملحدین عیسائیوں، قادیانیوں، منکرین حدیث، ہندوؤں، بدھ مت، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے کیے گئے اعتراضات کو جمع کرتے ہیں اور اس کو انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعے عوام زد عام کرتے ہیں۔ ان نظریات کو پھیلانے سے ملحدین کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کالج، یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات جو دین سے کوسوں دور ہوتے ہیں، وہ ان کے ورغلاوے میں آ جاتے ہیں، اور آہستہ آہستہ دین سے مکمل دور ہو کر دہریے ہو جاتے ہیں۔ آج کی دہریت کو کیمونزم، سوشلزم، مارکس ازم، بدھ ازم، ہندو ازم جیسے نظریات کی بہت سپورٹ حاصل ہے۔ ایسے دہریوں کو ’’سیاسی فلسفی‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا کام صرف اور صرف اسلام کو نشانہ بنانا ہے۔ دینی ریاستوں میں رائج نظام کو بنیاد بنا کر اس کو بےجا ’’اسلام‘‘ پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً ’’ کرنل قذافی‘‘ نے اپنے ساتھ ’’خواتین گارڈ ز‘‘ رکھی تھیں۔ اب اس کو بنیاد بنا کر اسلام کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ’’داعش‘‘ جیسی تنظیموں کو خود پروان چڑھاتے ہیں، اور ان سے مسلمانوں کا ہی قتل عام کروا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام ایک عدم برداشت اور دہشت گردی والا مذہب ہے۔ اسلام قتل و غارت کا درس دیتا ہے۔ میڈیا میں اربوں روپیہ انویسٹ کرتے ہیں، طالبان سے خود کش حملہ کی قبولیت کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ اسلام نے کبھی کسی مسجد، کسی جلسہ یا جلوس یا کسی دوسری عبادت گاہ کو تباہ کرنے سے گریز کا حکم دیا ہے۔ لیکن اگر آپ ان ملحدین سے پوچھیں تو وہ تاریخ کی من گھڑت روایات بیان کرنے کے علاوہ کچھ جواب نہیں دے پاتے۔

    آج کے الحاد کو ’’تعلیمی فلسفہ‘‘ کی بہت سپورٹ حاصل ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی یہ دیکھنے میں آیا کہ امریکہ اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں ’’الحاد کیا ہے یا دہریت کیا ہے‘‘ کے عنوان سے کتب شامل کی گئی ہیں۔ اور یہ نچلی سطح پر سکولوں میں بھی رائج کی گئی ہیں۔ ایشیائی ممالک میں ان کتب کو صرف روس اور چائنہ کے چند اداروں میں ہی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس کا ایک انداز یہ دیکھنے کو ملا کہ افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کے تعلیمی بورڈ میں اسلام سے پھیلنے والی تعلیمات کو متشدد ثابت کیا گیا ہے۔ اور ایسی شخصیات جن کا تعلق صرف دین سے ہو اور خاص دین کی تعلیم دینا ان سے منسوب ہو ان شخصیات کے نام کتب نصاب سے نکال دیے گئے ہیں۔ جیسے پاکستان کی مثال لی جائے ’’خالدبن ولید‘‘ کا نام کتب نصاب سے نکالا گیا ’’ملالہ یوسفزئی‘‘ کا نام ڈال کر، اور ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا‘‘ کا نام نصاب سے نکالا گیا۔ ’’نیلسن منڈیلا‘‘ کا نام نصاب میں ڈال دیا گیا۔ سورۃ الانفال، سورۃ الاحزاب جیسی سورتیں نصاب سے نکالی گئیں جس کا مقصد یہ بتایا گیا کہ اس سے بچوں میں انتہا پسندی اور دہشتگردی پھیلنے کا خطرہ ہے۔ لیکن اس طرف توجہ نہیں دی گئی کہ اس نصاب کو پڑھانے والے کیا یہ قابلیت رکھتے ہیں کہ ساتھ ساتھ بچوں کی مثبت تربیت کو بھی مد نظر رکھیں کہ کل کو ان کے دلوں میں اسلام کے متعلق کوئی منفی خیال نہ آئے۔

    چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے لیکن یہ تمام چھوٹی چھوٹی چیزیں بہت بڑے بڑے مسائل پیدا کرتی ہیں۔ ایمانیات اور دینیات نفس میں نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ الحاد بندے میں تشکیک، شبہات اور غیرسنجیدگی، جلد بازی اور عدم ٹھہراؤ پیدا کرتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی ملحد اللہ کو نہیں مانتا، یہ بات سمجھ لیں کہ آپ جب بھی کسی ملحد سے بات کریں گے تو آپ کو اس میں خود پسندی سے زیادہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔
    اللہ مجھے اور آپ کو دین پر زندہ رکھے اور خاتمہ بالایمان فرمائے۔ آمین ۔