زمانہ جاہلیت میں عربوں میں عکاظ کا میلہ بڑا مشہور تھا۔ دیگر ثقافتی سرگرمیوں کے علاوہ شاعری کے مقابلے بھی اس کی وجہ شہرت تھے۔ عرب شاعر دور دراز کے علاقوں سے سفر کر کے عکاظ کے سالانہ میلے میں شریک ہوتے اور اپنے اشعار سناتے۔ اس زمانے کی عربی شاعری قصیدے کی شکل میں تھی۔ اول انعام حاصل کرنے والے قصیدے کی شہرت چند ہی دنوں میں پورے عرب میں پھیل جاتی تھی کہ اس زمانے میں ابلاغ کے دو ہی طریقے تھے، شاعری اور عرب خطیوں کے فصیح و بلیغ خطبے۔ عکاظ کے ان میلوں میں اول انعام پانے والے سات شاہکار قصیدوں کو سونے کے پانی سے لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا، جو بعد میں’’سبع معلقات‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کی تحقیق کے مطابق ان سات شاعروں میں امراؤ القیس، طرفہ العبد، زہیر بن ابی سلمہ، لبید بن ربیعہ، عمروبن کلثوم (اردو میں اسے امر پڑھنا چاہیے)، حارث بن حلزہ اور عنترہ بن شداد شامل ہیں۔ امراؤ القیس جاہلی شاعری کا امام کہا جاسکتا ہے۔ اس کا دور حضور اکرم ﷺ سے کوئی ایک سو سال پہلے تھا۔ وہ پہلاشاعر تھا، جس نے عربی قصائد کا رخ متعین کیا اور ایک ایسی روایت ڈالی، جس کی صدیوں تک پیروی ہوتی رہی۔ امراؤ القیس اپنی شاعری میں ان کھنڈروں کا ذکر کرتا اور وہاں کھڑے ہو کر گریہ کناں ہوتا۔ اس کا ایک مشہور شعر ہے،
دوستو، ذرا بس دن پرانے اس کھنڈر پر رک جانا کہ ہم اس اجڑے دیار پر آنسو بہا لیں. یہ روایت ایسی مقبول ہوئی کہ ہر عرب شاعر اپنے قصیدے میں اپنی گم گشتہ محبوبائوں کی یاد میں آنسو ضرور بہاتا۔ ہارون الرشید کے زمانے کے مشہورشاعر ابونواس نے اسی رویے پر طنزا یہ شعر کہا
’’وہ شاعر جو ایک ویرانے کے سامنے ’’کھڑا ہو کر‘‘ روتا آیا ہے، اس سے کہو کیا مضائقہ تھا کہ وہ کبھی بیٹھ بھی جاتا.‘‘
بات عکاظ کے میلے سے شروع ہوئی تھی۔ ان میلوں میں طویل عرصے تک عرب کا بزرگ شاعر بابغہ زبیانی منصف کے فرائض انجام دیتا تھا۔ کھلے میدان میں سرخ چمڑے کا خیمہ نصب کر دیا جاتا، جہاں نابغہ قیام پذیر ہوتا۔ نوجوان شاعر اسے اپنے قصیدے دکھاتے اور اس سے رہنمائی لیتے۔ ایسے ہی ایک میلے میں اس زمانے کا مشہور شاعر اعشیٰ، حضرت حسان بن ثابت ؓ اور عرب کی مشہور مرثیہ گو شاعرہ خنسا شریک تھے۔ بی بی خنسا نے جب اپنا کلام سنایا تو بڑے بڑے ماہرین کلام ان کے پرتاثیر شعروں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ نابغہ نے بے اختیار کہا،’’اے دختر عرب! اگر تم سے پہلے اعشیٰ اپنا کلام نہ سنا چکا ہوتا تو میں کہتا کہ جن و انس میں تم سے بڑا شاعر کوئی نہیں۔‘‘ نابغہ زبیانی جیسے باکمال شاعر کی یہ بےساختہ رائے بی بی خنسا کے کلام کی بلاغت اور تاثیر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بی بی خنسا جو سن آٹھ ہجری میں اسلام لے آئیں اور پھر حضرت عمر ؓ کے زمانے تک زندہ رہیں، عربوں کی سب سے ممتاز مرثیہ گو شاعرہ تھیں۔ ان کے مرثیوں کے ہر زمانے کے عرب شاعر اور نقاد معترف رہے۔ جریر عربی ادب کے تین بڑے ہجوگو شاعروں میں سے ایک ہے۔ منہ پھٹ جریر ہر ایک پر اعتراض کرتا تھا، مگر کسی نے اس سے پوچھا کہ تم سے بڑا شاعر اور کون ہے، وہ اس پر جھنجھلا کر بولا کہ اگر خنسا مجھ سے پہلے نہ گزری ہوتی تو میں اپنا نام ہی لیتا۔ بی بی خنسا کے تمام مرثیے ان کے دو بھائیوں معاویہ اور صخر کی یاد میں تھے۔ معاویہ کے بارے میں وہ کہتی ہیں:
’’جس کو عزت ورثے میں ملی تھی اور جو اپنی سیرت میں قابلِ تعریف تھا۔ جب وہ دینے پر آتا تو بےحساب دیتا تھا اور جنگ میں اس کے حملے منہ توڑ ہوتے تھے۔‘‘
جواں سال معاویہ کے مرنے پر بی بی خنسا نے بہت جذب کے ساتھ مرثیے کہے۔ ایک مرثیے کے آغاز میں وہ اپنی پُرنم آنکھوں کے بارے میں سوال کرتی ہیں:
’’یہ میری آنکھ کو کیا ہو گیا ہے؟ کیا ہو گیا ہے میری آنکھ کو کہ اس کا دامن آنسوئوں سے تربتر ہے۔‘‘
ایک اور شعر ہے:’’معاویہ کی موت سے یوں لگتا ہے جیسے کوہسار اُوندھے گر پڑے ہوں اور زمین کو ایک زلزلے نے آ لیا ہو۔‘‘
تاہم ان شاعری کا زیادہ حصہ صخر کی یاد میں ہے۔ ان کے یہ اشعار کلاسیک شہرت کے حامل ہیں۔ ان اشعار کے تراجم اور دیگر مواد کے لئے میں اردو کے صاحب طرز ادیب اور محقق محمد کاظم کا ممنون ہوں، جن کا بی بی خنسا پر لکھا مضمون (عربی ادب میں مطالعے از سنگ میل ،لاہور) پڑھنے کے قابل ہے۔
’’مجھے ہر طلوعِ آفتاب صخر کی یاد دلاتا ہے اور ہر غروبِ آفتاب کے وقت میں اسے یاد کرتی ہوں.‘‘
’’اور اگر میرے آس پاس اپنے بھائی بندوں پر رونے والوں کی اتنی کثرت نہ ہوتی تو میں نے اس غم میں اپنے تئیں ہلاک کر ڈالا ہوتا لیکن میں تو یہ دیکھ رہی ہوں کہ ادھر ایک بدنصیب ماں ہے جس کا نورِ نظر اس سے کمسنی میں بچھڑ گیا ہے، اور اُدھر ایک دوسری ماتم کناں ہے جو برے دن کو رو رہی ہے. یہ سب جن کا غم کر رہی ہیں اگرچہ ان میں سے کوئی بھی میرے بھائی کا مثل نہیں، لیکن ان کے غم و اندوہ کو دیکھ کر میں اپنے نفس کو دلاسہ دے لیتی ہوں۔‘‘
’’خدا کی قسم! جب تک جسم میں جان ہے اور جب تک میری اپنی قبر نہیں کھودی جاتی، میں تمہاری یاد سے غافل نہیں ہوں گی۔ میں نے صخر کے وداع کے دن سے زندگی کی تمام لذتوں اور دلچسپیوں سے کنارہ کر لیا ہے اور ہائے افسوس! میرے بھائی پروائے افسوس! کیا اس کی صبح بھی اور شام بھی اب قبر کے اندھیرے غار میں ہوا کرے گی؟‘‘
سنہ آٹھ ہجری میں خنساء، سلمیٰ قبیلے کے ایک وفد کے ساتھ دربار نبویﷺ میں حاضر ہوئیں اور اسلام قبول کیا لیکن اسلام اور اس کی تعیمات بھی ان کے دل سے بھائی کا غم نہ نکال سکیں۔ رسول اللہﷺ نے اس کا کلام سنا تو بہت متاثر ہوئے۔ اس کے مرثیے سنتے تھے اور فرماتے تھے ’’ہاں تو اے خنساء! آگے کہو۔‘‘
بی بی خنساءؓ نے صخر کی موت پر جو ایک کالی اوڑھنی سر پر ڈال لی تھی، وہ انہوں نے مرتے دم تک نہ اتاری۔ ایک دفعہ اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے انہیں اس ہیئت میں دیکھا تو سمجھانے کے لیے کہا کہ اسلام میں یہ ماتمی لباس پہنے رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ خنساؓء نے جواب دیا:
’’اے میری ماں! اس اوڑھنی کے پہننے کی ایک خاص وجہ ہے اور وہ یہ کہ میرا خاوند رواحہ ایک بےحد فضول خرچ اور جوئےباز شخص تھا۔ اس نے گھر کا سب مال و متاع ایک دفعہ جوئے کی نذر کر دیا تو میں اپنے بھائی صخر کے پاس امداد کے لیے گئی۔ اس نے اسی وقت اپنے مال کے دو حصے کیے اور جو بہتر حصہ تھا وہ میرے حوالے کر دیا۔ اگلے سال تک میرے خاوند نے میرے بھائی کا دیا ہوا وہ مال بھی جوئے میں اُڑا دیا اور ہم پھر قلاش ہو گئے۔ میں دوسری مرتبہ صخر کے پاس گئی۔ اس نے اپنے مال کے پھر دو حصے کیے اور جو بہتر حصہ تھا، وہ مجھے دے دیا۔ یہی واقعہ جب تیسری مرتبہ پیش آیا تو صخر کی بیوی سے آخر نہ رہا گیا۔ وہ کہنے لگی ’صخر! تمہاری بہن کا خاوند تو قمارباز ہے۔ تم کہاں تک اپنے آپ کو برباد کیے جائو گے؟ اگر انہیں کچھ دینا ہی ہے تو کم از کم اپنے مال کا وہ حصہ تو دیا کرو جو ناقص ہو۔‘ صخر نے اس کے جواب میں دو شعر کہے کہ ’’میری یہ بہن وہ ہے کہ اس نے اپنی عفت اور شرافت سے ہماری نیک نامی اور سربلندی پر کبھی آنچ نہیں آنے دی اور اس کی محبت ایسی بے پناہ ہے کہ میں اگر مر جائوں تو یہ اپنا گریبان چاک کر ڈالے اور اپنے سر سے کالی اوڑھنی کبھی جدا نہ کرے گی!‘ … چنانچہ اس کی موت کے بعد سے میں نے یہ اوڑھنی جو سر پر ڈالی ہے، اب تک نہیں اتاری۔ میں یہ کیسے گوارا کر سکتی ہوں کہ میں اپنی زندگی میں اپنے بھائی کی اس توقع کو جھٹلا دوں؟‘‘
حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا تو بھی ان کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ آپؓ نے بلا کر فہمائش کی کہ ’’دیکھو، جو کچھ تم کرتی ہو، یہ اسلام میں معیوب چیز ہے۔ اس دنیا میں اگر کوئی انسانی ہستی ہمیشہ رہنے کے لائق تھی تو وہ رسول اللہﷺ کی ذات تھی۔ جب وہ ہی نہ رہے تو پھر کسی کی موت کا اتنا کیا غم!‘‘ اس نے جواب دیا: ’’پہلے میں اس کے بدلے کے لیے روتی تھی، اب اس کے لیے دوزخ کی آگ دیکھ کر روتی ہوں!‘‘ پھر جب اس نے اپنے مرثیے کے کچھ اشعار پڑھ کر سنائے تو حضرت عمرؓ کا سا ضبط رکھنے والا شخص بھی گداز ہو گیا۔ کہنے لگے: ’’خنساء تم پر کوئی ملامت نہیں۔ جائو ہر شخص کو اپنا غم رونے کی آزادی ہے۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب کی اس سب سے بڑی مرثیہ گو شاعرہ کا رویہ اپنے عزیز بیٹوں کی شہادت پر یکسر مختلف رہا۔ جنگ قادسیہ میں انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو جہاد کے لیے بھیجا اور کہا کہ دیکھو خدا کی راہ میں دل وجان سے لڑمرنا اور پیٹھ نہ دکھانا۔ اتفاق سے یہ چاروں جانباز جنگ میں شہید ہوگئے۔ جب یہ اطلاع بی بی خنسا تک پہنچی تو انہوں نے کمال تحمل اور برداشت سے اسے سنا اور بےساختہ کہا،’’ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ان کی شہادت کی عزت سے سرفراز کیا۔ مجھے امید ہے کہ ہم سب ایک دن ضرور اس کی رحمت کی قرارگاہ میں اکٹھے ہوں گے۔‘‘ وہ خاتون جس نے اپنے بھائی کے مرنے پر کہا تھا
’’اے آنکھو! بخل نہ دکھائو اور پتھر نہ بن جائو۔ کیا تمہارے اندر اس صخرِ سخا پیشہ پر بھی رونے کے لیے آنسو نہیں ہیں؟‘‘
اسلام کے بعد ان میں اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ اپنے جگر گوشوں کی شہادت پر ایک بھی آنسو نہیں بہایا۔
مصر کے نامور ادیب اور دانشور امیر شکیب ارسلان نے کہا تھا،’’ عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ مذہب کلچر کا ایک حصہ ہے، مگر کبھی مذہب کلچر کی پوری شکل بدل دیتا ہے، جیسے مصر میں مذہب نے مصریوں کا نہ صرف فرعون زدہ کلچر بدلا بلکہ ان کی زبان بھی بدل ڈالی۔ ہزاروں سالوں کی شاندار تہذیب رکھنے والے مصریوں نے عربی زبان، رسم ورواج، حتیٰ کہ عرب ڈشز بھی اپنا لیں۔ یہ مذہب کی قوت ہے، افسوس ہمارے بہت سے لبرل سیکولر دانشور اس کا ادراک ہی نہیں کر پائے۔‘‘
تبصرہ لکھیے