Tag: قرآن

  • کیا قرآن میں سائنس ہے؟ ذی شان وڑائچ

    کیا قرآن میں سائنس ہے؟ ذی شان وڑائچ

    کافی عرصے سے یہ موضوع گرم ہے کہ آیا قرآن میں سائنس ہے یا نہیں۔ ہمارے بہت سارے نوجوان اس بارے میں پرجوش ہیں اور سائنس کے ذریعے قرآن کی حقانیت ثابت ہوتی ہے۔ محترم ڈاکٹر ذاکر نائک کے انداز تبلیغ کی وجہ سے یہ موضوع بہت زیادہ ہائی لائٹ ہوا ہے۔ دوسرے طرف کچھ ملاحدہ قرآن کی بعض آیات کا حوالہ دے کر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن میں واضح طور پرسائنسی غلطیاں ہیں۔ بلکہ ان کا اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کیوں اتنے غیر سائنسی انداز میں سائنسی حقائق کو بیان کرتا ہے جس کے ایک سے زیادہ معنی ممکن ہیں۔ یہ ایک نازک موضوع ہے اور اس میں توازن رکھنا ضروری ہے۔ اس موضوع کے تمام جوانب کو سمجھنے کے لیے کچھ باتیں عرض خدمت ہیں۔

    یہ واضح ہونا چاہیے کہ علم وحی اور سائنس کا علم دو قطعی علیحدہ علمی فریم ورک میں کام کرتے ہیں۔ وحی ایک خبر ہے اور انبیاء کو جو وحی کا تجربہ ہوتا ہے وہ صرف ان کو ہوتا ہے۔ انہیں اس بات کا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ کسی اور کو وہی تجربہ کرائیں اور نہ ہی خود اپنی مرضی سے ایسا کوئی تجربہ کریں۔ اور پھر یہ بھی ہےکہ انبیاء جن کو وحی کا تجربہ ہوچکا ہے وہ آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ ہم ان کے وجود کے بارے میں موجودہ علم کے تاریخی تواتر اور تسلسل کی وجہ سے مانتے ہیں۔ دوسری طرف سائنس بنیادی طور پر ایک مشاہداتی اور تجرباتی علم ہے۔ سائنس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے مشاہدات ضروری ہیں اور کسی کے صرف ایک تجربے یا مشاہدے سے سائنس کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرسکتی۔ بلکہ جن علمی بنیادوں پر نتیجہ اخذ کیا گیا ہے، ان کا مشاہدہ دوسروں کو کرانا بھی ضروی ہے۔ اس کو قطعی طور پر سائنس کے اصولوں میں شامل کرنے کے لیے اس کی بنیاد پر پیش کر کے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ پیشن گوئی صحیح ہوتی ہے یا نہیں۔

    علمی وحی علمیت کی جس شاخ سے متعلق ہے وہ مادی نہیں بلکہ اس کا تعلق مقصدیت (Teleology)، معاشرت، انسانی رویوں اور انسانی شعور سے ہے۔ علمی وحی انسان کی ان ضروریات کو پورا کرنے لیے ہے۔ اس علم کی ساخت ہی ایسی ہے کہ اس بارے میں سائنسی طریقہ علم (Scientific Method) ناکارہ ہوجاتا ہے۔ بالفاظ دیگر اسلامی علوم کو اگر دنیاوی علوم کی کچھ شاخوں سے موازنہ کیا جاسکتا ہے تو وہ فلسفے کی شاخ میٹافزکس اور سوشل سائنس سے ہے۔ ان دونوں علوم کا تعلق تجرباتی سائنس سے نہیں ہے۔ میٹافزکس کا تعلق معقولات اور انسانی شعور سے ہے جبکہ سوشل سائنس کا تعلق انسانی رویوں سے ہے جیسے نفسیات، عمرانیات، پولیٹکل سائنس، معاشیات وغیرہ۔

    قرآن ہم سے علم غیب پر ایمان کا مطالبہ کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ قیامت تک کے لیے ہے۔ دوسری طرف سائنس حسی مشاہدات کے ذریعے حاصل کیا ہوا علم ہے اور حسی علم ہمارے پانچوں حسیات میں سے کسی سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ قیامت سے پہلے یا ہمارے مرنے سے پہلے قرآن پاک جن چیزوں پر ایمان بالغیب کی دعوت دیتا ہے اس کی حیثیت علم شہادت کی سی بن جائے۔ اس لیے یہ بات تو طے ہے کہ قرآن کے لیے آپ جتنے بھی سائنسی دلائل ڈھونڈ لیں علم غیب بالکل ہی علم شہادہ بن کر ہمارے سامنے نہیں آنے والا۔ اسی طرح اللہ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں اس میں یہ بھی ہے کہ وہ الظاہر اور الباطن ہے۔ یعنی ایک طرف وہ اپنے کمالات سے ظاہر بھی ہے تو دوسری طرف اپنی مخلوقات پر پوری طرح عیاں نہیں ہے۔ اس کی پراسراریت قائم رہنے والی ہے چاہے ہم جتنی بھی سائنسی ترقی کر لیں۔ تو یہ بات ہمیں طے کر لینی چاہیے کہ قیامت سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ وحی سے حاصل شدہ علم سائنسی طریقہ علمی سے’’ثابت ہونا‘‘ شروع ہوجائے۔ ایسا ہونا بذات خود وحی سے حاصل شدہ علم کے خلاف جاتا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کی مزید کچھ ’’نشانیاں‘‘ ظاہر ہوں جو ہمارے غافل شعور کو اور زیادہ اپیل کریں۔

    کسی نظریے یا عقیدے کو سمجھنا، اسے قبول کرنا، اس سے متاثر ہونا، اس کے لیے قربانیاں دینا حقیقت میں انسانی شعور کا ایک باکمال اور لاینحل مسئلہ ہے۔ آپ بہت سارے نومسلموں کے واقعات پڑھیں گے تو آپ کو حیرت ہوگی کہ کیسے لوگ اس طرح سے مسلمان ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی نے مسلمانوں کو جماعت سے نماز پڑھتا دیکھ لیا اور اس کا تاثر اس کے شعور پر اتنا زیادہ ہوا کہ کچھ عرصے کے بعد وہ مسلمان ہوگیا اور پھر وہ اسلام کا داعی بن گیا۔ کسی نے قرآن کے ایک حصے کا ترجمہ پڑھ لیا اور اس کو اپنی تمام الجھنوں کا جواب مل گیا جبکہ کچھ مسلمان بچپن سے قرآن پڑھ کر بلکہ سمجھ کے بھی بعد میں ملحد ہوجاتے ہیں۔ یہاں پر ہمیں سمجھنا چاہیے کہ انسانی نیت، اس کی طلب، اس کی خواہشات ہمارے شعور پر بالکل ہی الگ طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے۔ کائنات میں پائی جانے والی چیزوں میں انسانی شعور ایک بہت بڑا اسرار ہے۔ کچھ سائنسی دانشوروں کے نزدیک پوری کائنات کو سمجھنے سے زیادہ انسانی شعور کامپلیکس ہے۔ بلکہ ہماری پوری تحقیق کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمارا شعور ہمارے محسوسات کو کس طرح سے معنی پہناتا ہے۔ کسی چیز سے تاثر لینے کا تعلق جمالیات (Aesthetics) سے بھی ہے اور تاحال سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ جمالیات کی یقینی تشریح کر سکے۔ کلام پاک نے جو اپنی بلاغت کی دلیل دی تھی اس نے پورے عرب پر بہت بڑا اثر ڈالاتھا اور کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ اس دلیل کو رد کرسکے۔ اس بلاغت کا تعلق بھی جمالیات سے ہے۔

    چونکہ انسانی دماغ ایک حیاتیاتی (Biological) عضو ہے اس لیے دماغ اور ذہن کو سمجھنا سائنس کے دائرے میں آتا ہے۔ خالص مادی سائنسی دانشوروں کا اصرار ہے کہ انسانی شعور صرف انسانی حیاتیاتی دماغ کا کمال ہے۔ یعنی یہی دماغی خلیے (Neurons) کا ایک کامپلیکس جال (Complex Network) ہی انسانی شعور کو تشکیل دیتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں بھی سائنس کوئی حتمی بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

    اللہ تعالی نے کلام پاک میں جو آفاق و انفس کی نشانیاں بیان کی ہیں ان کا مقصد اور انداز سائنسی نہیں ہے۔ بلکہ یہ تذکیر اور دعورت کے لیے انسانی شعور سے اپیل کے لیے بیان کی گئی ہیں۔ جب آپ اُن آیات کی تشریح سائنسی انداز میں بیان کرنا چاہیں تو ان کے ایک سے زیادہ معنی نکل سکتے ہیں۔ یہ معنی پہنانے کا عمل بیان کرنے والے کی ذہنیت یا معلومات پر بھی منحصر ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ پانچ سو سال پہلے ایک شخص کلام پاک کی آیات سے ایک سائنسی نتیجہ اخذ کرے اور پھر آج کے دور میں کوئی اور انہیں آیات سے جدید سائنس کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ اور نتیجہ اخذ کرے۔ تو سائنس کو کلام پاک کی آیات سے جوڑنے یا map کرنے کا کام ایک انسانی عمل ہے اور اس میں غلطیوں کے بہت سارے امکانات ہیں۔ اس لیے یہ مطابقت ظنی ہوگی اور ہم بطور ایمانیات کے اس کو پیش نہیں کرسکتے۔ اس وضاحت سے یہ بات بھی سمجھ جانی چاہیے کہ ’’سائنسی حقائق‘‘ بیان کرتے ہوئے کلام پاک کا انداز اتنا غیر سائنسی کیوں ہے۔ اور یہ بھی سمجھ جانا چاہیے کہ اگر قرآن میں سائنس ہے تو قرآن پڑھ کر کوئی سائنسدان کیوں نہیں بنتا۔

    دوسری طرف سائنسی علم ایک تدریجی علم ہے۔ اگرچہ سائنسی دریافتیں مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر ہوتی ہیں لیکن اس میں بہت سارے مفروضات اور تخمینے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً کچھ تجربات کر کے ایک شخص اپنے ذہن میں ایٹمی نظام کا ایک ماڈل بناتا ہے۔ اس ماڈل کی بنیاد پر مزید تحقیق اور مختلف تجربات کرتا ہے۔ جب تک نئی تحقیقیں اور تجربات اس ماڈل کے مطابق ہوتے رہیں گے اس ماڈل کو صحیح مانا جائے گا۔ جب کوئی ایک تجربہ اس ماڈل کے خلاف پڑے گا تو پھر اس نئے تجربے اور پرانے تمام تجربات کو پیش نظر رکھ کر ایک نیا ماڈل بنانا پڑے گا۔ اس قسم کی تدریج اور بےیقینی کی وجہ یہ ہے کہ سائنس اتنی کامپلیکس ہوچکی ہے کہ اس کی اکثر دریافتیں براہ راست انسانی مشاہدے کی بنیاد پر نہیں ہوتیں کہ براہ راست انسانی مشاہدات بہت ہی محدود ہیں۔ مثلاً ذراتی سطح پر یہ طے کرنا کہ الیکٹران کیا چیز ہے، ایک بہت ہی الجھا ہوا مسئلہ ہے کہ یہ بیک وقت ایک ذرے کی خصوصیات بھی رکھتا ہے اور امواج کی بھی اور ہمارا مشاہدہ ان خصوصیات کے اظہار پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح کائناتی سطح پر بگ بینگ کی تشریح ایک سربستہ راز ہے اور ہر آئے دن اس کے بارے میں کوئی نہ کوئی نئی تحقیق نکلتی رہتی ہے۔ یہاں پر واضح ہو کہ سائنس میں پائی جانے والے بےیقینی یا تخمینیت کو بیان کرنے کا مقصد سائنس کی مخالفت یا تحقیر نہیں ہے۔ سائنس تو وہ چیز ہے جس سے تقریباً دنیا کے تمام انسان بے بہا استفادہ کر رہے ہیں۔ اس بات کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کسی چیز کے حتمی اور یقینی طور پر معلوم کرنے کے بارے میں سائنس کی کیا پوزیشن ہے۔ ان وجوہات کے پیش نظر قرآن آیات کو کسی سائنسی تحقیق کے ساتھ جوڑنے کے بارے میں محتاط رہنا ہوگا۔

    اب سوال ہے کہ آیا کلام پاک کی تصدیق کے لئے سائنس بالکل ہی ناکارہ ہے؟
    اس بارے میں ہمارا خیال ہے کہ احتیاط کے ساتھ یہ سودمند بھی ہے۔ ایک مثال سے بات سمجھا دیتے ہیں۔ ایک میڈیکل پروفیسر میڈیسن کے موضوع پر لیکچر دے رہا ہو اور میڈیکل موضوع تھوڑا بہت انسانی اعصاب کی طرف مڑتا ہے تو وہ پروفیسر انسانی نفسیات پر بھی تھوڑی بہت بات کر لیتا ہے۔ سامعین میں سے ایک ماہرنفسیات مذکورہ پروفیسر کی نفسیات پر مختصر سے بحث سن کر حیران ہوجاتا ہے اور نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ پروفیسر نفسیات کے بارے میں بھی اتنا کچھ جانتا ہے حالانکہ اس کے لیکچر کا موضوع نفسیات تھا ہی نہیں۔

    کلام پاک میں انسانوں کے شعور سے اپیل کرنےکے لیے اللہ تعالی اپنی نشانیاں بیان کر رہا ہے اوران نشانیوں کو بیان کرنے کے دوران کوئی بھی ایسی بات بیان نہیں کرتا جو کہ طے شدہ سائنسی حقیقت کے خلاف ہو۔ اور وہ سائنسی حقیقت نزول قرآن کے وقت طے شدہ طور پر معلوم نہیں تھی۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اللہ تعالی علیم و خبیر ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ اس نے کیا کچھ پیدا کیا اور قرآن اسی خالق کائنات کا کلام ہے۔ ان باتوں میں قرآن پاک میں بیان شدہ جینیات (Embryology)، بادلوں اور بارش کا نظام (Water Cycle) جیسی کچھ چیزیں شامل ہیں۔ یہ سائنسی حقائق ایسے ہیں کہ آج کے دور میں ان کو سائنسی آلات کے استعمال سے براہ راست مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

    اس سلسلے میں محترم ذاکر نائک صاحب بکثرت کائنات کی تخلیق کا نظریہ بگ بینگ تھیوری بھی بیان کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں واضح طور پر ہے کہ پہلے زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے اور یہ بھی کہ اللہ آسمانوں کو پھیلا رہا ہے۔ اگرچہ یہ مطابقت بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن بگ بینگ تھیوری کے بہت سارے اور تقریباً یقینی دلائل کے باوجود یہ صرف ایک تھیوری ہے اس بات کا امکان ہے کہ کل کو کوئی متبادل تھیوری آجائے۔ ایسے میں یہ بھی ہوگا کہ نئی تھیوری کو کسی اور انداز میں قرآن کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی جائے اور اس میں ہم کامیاب بھی ہوجائیں۔ اس وجہ سے اس مطابقت کی حتمیت پر پوری طرح مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ ورنہ پھر یہ مطابقت ایمان کا حصہ بن جائے گی اور کچھ Zealous قسم کے مسلمان دلائل کے باوجود نئی تھیوری کو رد کردیں گے۔ اس بارے میں ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جن چیزوں میں مسلمان قرآن اور سائنس میں مطابقت ثابت کرتے ہیں، وہ علوم اور آئیڈیاز دور جاہلیت میں بھی پائے جاتے تھے اور مسلمانوں نے ان کو وہاں سے نقل کیا ہے۔ اس بارے میں صرف یہ عرض ہے کہ اس قسم کے بہت سارے دوسرے نظریے بھی پائے جاتے تھے جو کہ بعد میں غلط ثابت ہوئے۔ ایسے میں اس دور میں نبیؐ یا صحابہ کو کیسے معلوم ہوا کہ کون سا نظریہ نقل کرنا ہے اور کون سا نہیں؟ اس لیے یہ بات تو یقینی ہے کہ قرآن پاک میں کسی ثابت شدہ سائنسی حقیقت کا بیان اور ان تمام نظریوں کا بیان نہ کرنا جو بعد میں غلط ثابت ہوئے اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کلام علیم و خبیر خالق کائنات کا ہی ہے۔

  • ایمان کا میڈیکل ٹیسٹ – ابومحمد مصعب

    ایمان کا میڈیکل ٹیسٹ – ابومحمد مصعب

    ابومصعب ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ ہر سال اپنا مکمل میڈیکل چیک اپ کرواتے ہیں، باوجود اس کے کہ انہیں کوئی بیماری نہیں ہوتی. یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اگر جسم کے کسی حصہ میں کسی بیماری کا امکان موجود ہو تو اس کو پہلے ہی سے روک لیا جائے. فرض کریں کہ اگر میڈیکل رپورٹ میں جسم کے کسی حصہ میں کینسر کی علامات پائی جائیں تو ڈاکٹر مریض کو نہ صرف احتیاطی تدابیر بتاتے ہیں بلکہ دوائیوں کا ایک کورس بھی لکھ دیتے ہیں جو کہ اس مریض کو کچھ عرصہ کے لیے کھانی پڑتی ہیں. پرہیز و علاج کا یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک کہ مرض کی علامات یا بیماری کے حملے کا خدشہ موجود ہو. بعض اوقات دوائیاں اور پرہیز، انسان کی زندگی کے آخری دم تک ساتھ رہتے ہیں اور اس کے مرنے پر ہی دوائیوں کا وہ ذخیرہ اس کے بستر یا تھیلے سے نکال کر نالی کی نظر کیا جاتا ہے.

    بلکل اسی طرح ایمان کا بھی میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے. یہ ٹیسٹ جسمانی میڈیکل ٹیسٹ کی طرح سال میں ایک بار نہیں بلکہ دن میں پانچ بار، ہر نماز کے موقع پہ ہوتا ہے. آپ کہیں گے کہ اتنی زیادہ بار کیوں؟ تو اس کا جواب ہے کہ اس لیے کہ بیماری کے حملے کا خدشہ بھی اتنا ہی شدید ہے اس لیے یہ ٹیسٹ بھی دن میں پانچ بار رکھا گیا ہے. جسم کو کھانے کی ضرورت دن میں دو تین بار پڑتی ہے مگر سیدھی راہ سے ہٹنے کا خدشہ ہر لمحہ رہتا ہے اس لیے دن میں کم ازکم سترہ بار اھدناالصراط المستقیم کی اینٹی بائیوٹک دی جاتی ہے تاکہ آدمی پر گمراہی کا حملہ نہ ہو.

    ایمان کے اوپر سب سے زیادہ جس بیماری کے حملہ کا خطرہ موجود رہتا ہے اس کا نام ”نفاق” ہے. نماز ایک ایسا ٹیسٹ ہے جو اس بیماری کا فوراً پتہ لگا لیتا ہے. آذان کی آواز سن کر آدمی کے دل کے اندر اگر سرشاری و مسرت کی کیفیت کے بجائے غم، سستی اور پدمژگی کے آثار پائے جائیں تو سوفیصد یقین ہے کہ بندے کے اوپر”نفاق” کی بیماری نے پوری طرح حملہ کر دیا ہے.

    اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس بیماری کے آثار پائے جائیں تو اس کا علاج کیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ: آخرت کی یاد، ہستیء باری تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کا تصور. جتنا یہ تصور پختہ ہوگا اتنا ہی نیکی پر چلنا سہل ہوگا. اور ہاں، قرآن کریم کی شعور کے ساتھ تلاوت سے زیادہ کوئی چیز اس تصور کو پختہ کرنے والی نہیں.

  • اسلام کی استثنائیت – ناصر فاروق

    اسلام کی استثنائیت – ناصر فاروق

    ناصر فاروق عالمی مفکرین کا غالب حصہ مغرب کے علمی، عسکری، اور سیاسی رعب سے مغلوب ہے۔ مسلم دانشوروں کے دو طبقات پائے جاتے ہیں، ایک وہ جو شکست خوردہ ہے، دوسرا وہ جو ایمان بچا کر معجزے کا منتظر ہے۔ پہلا طبقہ سیکولرائزیشن کے حق میں ہے، دوسرا طبقہ بین المذاہب ہم آہنگی سے امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔ دونوں ہی طبقات قریب قریب جہاد فی الاسلام سے گریزاں ہیں، تاہم حیلوں میں اختلاف ہے۔ مسلم دنیا کے غالب حصے میں یہ طبقات متحرک ہیں، ایک کا دائرہ عمل عوام اور دوسرے کا اسلامی تحریکوں میں ہے۔ دونوں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسلام کا انقلاب جن معیارات پر دین کامل قرارپایا، وہ علم عسکریت اور سیاست کے اُن معیارات سے بہت بلند تر اور کامل ہے، جو مغرب میں مقرر ہیں۔ یہاں مقصود محض ان طبقات کا تعارف ہے نہ کہ تجزیہ۔ مدعا مضمون مغرب میں اسلام کی ‘سیاسی استثنائیت’ کا وہ حالیہ اعتراف ہے، جو مذکورہ مسلم دانشور طبقات کے لیے ایک ایسا نکتہ فکر ہے، جس کا درست فہم صحیح لائحہ عمل کا محرک ہوسکتا ہے۔

    مغرب میں اسلام کی سیاسی ‘استثنائیت’ سے کیا مراد ہے؟ یہ ‘اسلام کی واپسی’ ہے، یہ ‘اسلام کا احیا’ ہے، یہ اسلام کا ‘جہاد’ ہے، ‘قرآن’ ہے، ‘رسالت’ ہے، اور ‘عالمگیریت’ کا رجحان ہے۔ مغرب پر اسلام کا بخار چڑھ چکا ہے، ہر ذريعہ ابلاغ پر اسلام کی ‘استثنائیت’ کی چھاپ ہے۔ مغرب کے سارے ذرائع ابلاغ ‘اسلام’ سے بھرے پڑے ہيں جبکہ دہائیوں پیچھے مغرب میں ‘اسلام’ سے ناواقفیت کا وہی عالم تھا، جو آج مذکورہ مسلم سیکولر دانشوروں کا ہے، یعنی ‘اسلام’ ‘عیسائیت’ کی مذہبی نقل سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ استثنائیت تو کجا اسلام کا نام تک اجنبی تھا۔ یہ رویہ غیرفطری نہ تھا۔ مغرب یہ سمجھتا تھا کہ وہ علم، سیاست، عسکریت غرض ہر شعبہ زندگی میں سب سے بالادست ہے، اور اس درجہ بندی میں ‘اسلام’ کا کوئی درجہ نہ تھا۔ جوں جوں تاریخ کي تہذیبی تشریح ہوئی، سائنس کے پر جلے، اورفلسفہ کی بےبسی ثابت ہوئی، ‘اسلام’ کی استثنائیت واضح ہوتی چلی گئی۔ بالکل اسی طرح جیسے ابلیس پر آدم کا استثنٰی یکایک آشکار ہوا، اور ابلیس نے انکارکردیا۔ عین اسی طرح مغرب نے اسلام کی ‘استثنائیت’ محسوس کی، مگر بالادستی تسلیم نہ کی۔ یوں خیروشر کی کشمکش نئے عہد میں داخل ہوگئی۔

    مغرب میں سب سے پہلے معتبر مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی نے تاریخ کے مطالعہ کا تہذیبی اسلوب مؤثر انداز میں پیش کیا۔ یہودی مؤرخ اور مستشرق برنرڈ لوئیس نے مغرب کو بتایا کہ ‘اسلام’ ‘عیسائیت’ نہیں ہے، اسلام میں دین و سیاست الگ الگ نہیں، اسلام کا جامع معاشی ومعاشرتی نظام موجود ہے، اسلام ایک مکمل ظابطہ حیات ہے۔ گزشتہ صدی مسلم دنیا کی اسلامی تحریکیں ‘اسلام کی واپسی’ کا واضح اشارہ ہیں۔ برنرڈ لوئیس نے لکھا ”مسلم دنیا کے ماضی اور حال میں متحرک دو مرکزی عناصر سمجھنے کی ضرورت ہے، ایک مسلمانوں کی زندگی میں دین کی کائناتی حیثیت اور دوسرا اس کی مرکزیت ہے۔” ‘اسلام کی واپسی’ کے بعد ‘اسلام کا مغرب سے تصادم’ محسوس کیا گیا، وضاحت ہاوروڈ پروفیسر ہنٹگٹن کی جانب سے آئی۔ اب بات اسلام کی سیاسی ‘استثنائیت’ پرآگئی ہے۔

    maxresdefault بروکنگز دوہا سینٹر کے ڈائریکٹر اور عرب نژاد امریکی دانشور شادی حامد نے Islamic Exceptionalism: How the Struggle Over Islam Is Reshaping the World کے موضوع پر کتاب لکھی ہے۔ کتاب اسلام کی سیاسی ‘استثنائیت’ پر دلیل مستحکم کرتی ہے۔ یہ استثنائیت منفی معنوں میں ہے (مصنف غیرجانبداری کا دعویدار ہے)۔ کتاب کہتی ہے کہ دین اسلام کا سیاسی نظام متحرک ہے، اور مشرق وسطٰی کے مستقبل پرگہرے اثرات مرتب کرنے جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے مابین نہ صرف اقتدار بلکہ جدید قومی ریاست کے تصور اور ‘عوامی زندگی میں مذہب کےکردار’ پر اختلافات اور مباحث گرم ہیں۔ کتاب اسلام میں دین و سیاست کے تعلق پر بحث کرتی ہے۔ اس میں داعش کی کامیاب ‘دہشت ناک’ مثال شامل ہے۔ کتاب کا تعارف ظاہر کرتا ہے کہ شادی حامد کی جانب سے اسلام کی ‘استثنائیت’ سیاسی اسلام کے لیے سیکولرائزیشن کا نسخہ تجویز کرتی ہے۔ غرض لب لباب یوں ہے کہ سیاسی اسلام سے انکار ممکن نہیں رہا مگر یہ سیاسی اسلام ‘آج کی دنیا’ میں قوانین نافذ نہیں کرسکتا۔ اگر یہ سیکولرائزیشن کے بجائے مدینہ کی ریاست تشکیل دے گا، تو ‘دہشت ناک ترین’ نتائج سامنے آئیں گے۔ شادی حامد نے Is Islam ‘Exceptional کے عنوان سے طویل مضمون باندھا ہے، اسے کتاب کا پیشگی خلاصہ کہا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ”کوئی (مسلم) ہمت کر کے آگے بڑھے، اسلامی قوانین کی نہ صرف جدید تشریح کرے بلکہ آج کے معاشروں کی زندگی سے اس کی بنیادی لاتعلقی ظاہر کرے، اور یہ سمجھائے کہ دین سے سیاست کی علیحدگی ہی کسی بھی لبرل جدید معاشرے کی بنیاد ہے۔ تاہم اسلامی تاریخ کا بھاری بھر کم بوجھ یہ ممکن نہ ہونے دے گا۔ جو اسلامی قوانین ماقبل جدید عہد کے لیے تشکیل دیے گئے تھے، وہ کس طرح موجودہ دور میں قابل عمل ہوسکتے ہیں، جبکہ دینی وابستگیاں اب قومی وفاداریوں میں بدل چکی ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا اب تک جواب نہیں مل سکا ہے۔”

    گو کہ شادی حامد ‘اسلام کی واپسی’ اور ‘اسلام کے مغرب سے تصادم’ سے ایک قدم آگے بڑھ کر اعتراف کر رہا ہے، کہ اسلام واحد مذہب ہے جو ایک مربوط اور جامع سیاسی نظام کا حامل ہے۔ مگر شادی حامد کی سوئی بھی ‘سیکولرزم’ پر اٹک گئی ہے۔ وجہ سادہ سی ہے۔ اسلامی قوانین تسلیم کرنا اسلام کا اقتدار تسلیم کرنا ہے، جومغربی نظام تعلیم کا پروردہ دماغ نہیں کرنا چاہتا۔ یہاں ‘اسلام کی استثنائیت’ کو سیاست تک رعایت دی جا رہی ہے۔ ایک ایسی سیاسی رعایت، جو لبرل اور سیکولر معاشرے میں محدود کردار ادا کرسکے. اس کتاب کا یہ خیال سچ ہے کہ مشرق وسطٰی کا مستقبل سیاسی اسلام کے سوا کچھ نہیں۔ کسی سیکولر دانشور کی جانب سے یہ انوکھا بیانیہ ہے، اور پاکستان سمیت مسلم دنیا کے مرعوب دانشوروں کے لیے انتباہ ہے، کہ اسلام کی سیاسی استثنائیت ناقابل تردید حقیقت ہے، اس سے انکار ممکن نہیں۔ عین اسی طرح اسلامی قوانین کی استثنائیت بھی ایک اٹل سچائی ہے، جس سے تادیرگریز ممکن نہ ہوگا، جرائم کا عالمی طوفان کھلا اشارہ ہے۔ کتاب اس حقیقت کا اعتراف کر رہی ہے کہ سیاسی اسلام کي کوششیں دنیا بدل رہی ہیں اور مغرب کی نام نہاد علمی عسکری بالادستی بے بسی سے معصوم بستیوں پر غصہ نکال رہی ہے۔ اسلام کی سیاسی استثنائیت’ سے اگلے مراحل اسلام کی قانونی، علمی، اور تہذیبی استثنائیت اور کاملیت کا اعتراف ہوگا۔

  • دینی مدارس اور والدین – عقیل شہزاد قریشی

    دینی مدارس اور والدین – عقیل شہزاد قریشی

    عقیل شہزاد قریشی آج پھر صبح صبح وہی ہو رہا تھا جو پچھلے 3 ماہ سے ہوتا آیا تھا. معمول کے مطابق بچہ مدرسے جانے کو تیار نہ تھا. باپ اسے زبردستی گاڑی میں ڈالتا اور وہ ہاتھ چھڑا کر واپس گھر کی طرف بھاگتا. ذرا سا پیچھا کر کے باپ نے پھر پکڑ لیا، اور اس بار غصہ کچھ زیادہ تھا، چنانچہ تھپڑوں اور لاتوں کا استعمال کیا جارہا تھا اور ساتھ میں ورد جاری تھا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے. آخر اس معصوم بچے کا کیا قصور تھا ؟؟ ظاہر ہے کوئی باپ اتنا بے رحم کیونکر ہو سکتا ہے؟ وہ شخص (باپ ) غریب لگتا تھا نہ بچہ ذہنی مریض اور نہ اس کی ماں مرگئی تھی. بالعموم غریب والدین مدراس میں اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں یا وہ بچے جاتے ہیں جو یتیم یا ذہنی طور پر کمزور ہوں. اس بچے کا حال ذرا مختلف تھا، یہ گھروالوں کو تنگ کرتا تھا، اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مدرسے میں بھیج دیا جائے، مولوی صاحب اس کو سیدھا کردیں گے.

    غریب والدین کے پاس غربت کا علاج اور مسئلے کا آخری حل مدرسہ ہوتا ہے. وسائل کی عدم موجودگی میں بچوں کو اچھے سکول میں پڑھا لکھا نہیں سکتے تو مدرسے کا انتخاب کیا جاتا ہے جہاں تعلیم اور باقی سہولیات مفت ملتی ہیں اور ساتھ ہی خیال بھی ہوتا ہے کہ آخرت بھی سنور جائے گی. یتیم بچوں سے ان کے قریبی عزیز محبت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کو کسی اچھے مدرسے میں بھیجنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور پھر انھیں وہاں بھیج دیا جاتا ہے اور وہی ان کےلیے بہترین گوشہ عافیت ثابت ہوتا ہے.

    آج کے دور میں والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر اور انجینئر بنے لیکن یہ کوئی نہیں کہتا کہ میرا بیٹا عالم بنے، حافظ قرآن ہو، اگر لاڈلا ذہین نہ نکلے تو دین کی یاد آتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ امتحان میں پاس تو ہو گا نہیں، اسے کسی مدرسے میں چھوڑ دو۔ جب عالم بننے کے لیے کمزور ذہن کا انتحاب کیا جائے گا تو عالم نہیں مولوی ہی پیدا ہوں گے۔ کچھ دین دار والدین اپنے بچوں کی دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم پر زور دیتے ہیں. یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دنیا اور آخرت کو سمبھتے ہیں اور اپنے بچوں کو مناسب تعلیم فراہم کرتے ہیں. ان کے بچے مولوی نہیں عالم بنتے ہیں جن کی دنیا اور آخرت میں خیر ہی خیر ہے.

    حکومت پاکستان مدارس کو اپنی تحویل میں لینے یا ان کی سرپرستی کرنے کی خواہش رکھتی ہے لیکن یہ وہ خواہش ہے جو شاید کبھی نہ پوری ہو کیونکہ پاکستان میں اتنے مدارس ہیں کہ حکومت دو وقت کی روٹی تو دور ایک وقت کا پانی بھی فراہم نہیں کر سکتی۔ مدارس کی صرف اصلاح کی جا سکتی ہے، ان میں جدت لائی جا سکتی ہے، باقی مدارس انتظامیہ جانے اور ان کا کام. اور حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیے.

    آخر میں اس بچے کا ذکر، باپ جسے مار مار کر مدرسے چھوڑ آیا تھا، آج وہ پھر وہاں سے بھاگ آیا ہے اور اس بار اپنے دو ساتھیوں کو بھی اپنے ساتھ بھگا لایا ہے. اس کا جو حال ہوگا وہ تو پتا ہے، ان دو بےچاروں کا بھی اب اللہ ہی حافظ ہے

  • روس میں قرآن کیسے محفوظ رہا؟ محمد عالم خان

    روس میں قرآن کیسے محفوظ رہا؟ محمد عالم خان

    1973 میں جب روس میں کمیونزم کا طوطی بولتا تھا اور دنیا کہہ رہی تھی کہ پورا ایشیا سرخ ہوجائے گا، ان دنوں میں ہمارے ایک دوست ماسکو ٹریننگ کے لیے گئے. وہ بتاتے ہیں کہ جمعہ کے دن میں نے دوستوں سے نماز جمعہ کی ادائیگی کےلیے چلنے کو کہا تو جواب ملا کہ یہاں اکثر مساجد کو گودام جبکہ کچھ کو سیاحوں کی قیام گاہ بنا دیا گیا ہے. شہر میں صرف دو مسجدیں بچی ہیں جو کبھی بند اور کبھی کھلتی ہیں. ان سے پتہ لیا اور خود ایک مسجد چلا گیا. وہاں پہنچا تو مسجد بند تھی، پڑوس میں ہی ایک بندے کے پاس چابی تھی. اس آدمی سے دروازہ کھولنے کو کہا اور بتایا کہ مجھے نماز پڑھنی ہے. اس نے کہا کہ دروازہ تو میں کھول دوں گا لیکن اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا. میں نے کہا کہ دیکھیں جناب! میں پاکستان میں بھی مسلمان تھا اور روس کے ماسکو میں بھی مسلمان ہی ہوں، پاکستان کے کراچی میں بھی نماز ادا کرتا تھا اور روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا، چاہے کچھ بھی ہوجائے. اس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر کا ماحول بہت خراب تھا. میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور پھر بلند آواز سے اذان دی. اذان کی آواز سن کر بوڑھے بچے مرد عورت جوان سب مسجد کے دروازے پہ جمع ہوگئے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی ہے، لیکن مسجد کے اندر کوی بھی نہیں آیا، خیر میں نے نماز جمعہ تو ادا نہیں کی کیونکہ اکیلا تھا، بس ظہر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آگیا. واپسی پر لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں نماز ادا کر باہر نہیں نکلا بلکہ کوئی نیا کام متعارف کروا کر باہر آیا ہوں.

    ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے گھر چاۓ پینے آئیے. اس کے لہجے میں خلوص ایسا تھا کہ انکار نہ کرسکا، گھر پہنچے تو وہاں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے. کھانا کھایا، چائے پی اور ساتھ بیٹھے ایک بچے سے پوچھا آپ کو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے؟ بچے نے جواب دیا، جی بالکل قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے. میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسحہ نکالا اور کہا یہ پڑھ کر سنائو مجھے. بچے نے قرآن کو دیکھا، پھر مجھے دیکھا، پھر قرآن کو دیکھا، ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا، پھر مجھے دیکھا. میں نے سوچا کہ اس کو قرآن پڑھنا نہیں آتا. میں نے کہا بیٹا قرآن کی یہ آیت پڑھو اور انگلی
    [pullquote]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ
    [/pullquote]

    رکھی تو وہ فرفر پڑھنے لگا، قرآن کو دیکھے بنا ہی. مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ یہ تو قرآن کو دیکھے بنا ہی پڑھ رہا ہے. میں نے اس کے والدین سے پوچھا” حضرات یہ کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ” دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں، کسی کے گھر سے قرآن پاک کی آیت کا ایک ٹکڑا بھی مل جائے تو اس تمام خاندان کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ہے، اس وجہ سے ہم لوگ قرآن پاک نہیں رکھتے گھروں میں”
    “تو پھر اس بچے نے قرآن کیسے حفظ کیا، کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں” میں نے مزید حیران ہوکر پوچھا
    “ہمارے پاس قرآن کے کئی حافظ ہیں، کوئی درزی ہے، کوئی دکاندار، کوئی سبزی فروش اور کوئی کسان، ہم ان کے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہیں محنت مزدوری کے بہانے. وہ ان کو الحمدللہ سے والناس تک زبانی قرآن پڑھاتے ہیں، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ حافظ قرآن بن جاتے ہیں. کسی کے پاس قرآن کا نسحہ ہے نہیں، اس لیے ہماری نئی نسل کو ناظرہ قرآن پڑھنا نہیں آتا. اس وقت ہماری گلیوں میں آپ کو جتنے بچے دکھائی دے رہے ہیں، یہ سب حافظ قرآن ہیں. جب آپ نے اس بچے کے سامنے قرآن رکھا تو اس کو پڑھنا نہیں آیا لیکن جب آپ نے آیت سنائی تو وہ فرفر سنانے لگا. اگر آپ نہ روکتے تو یہ سارا قرآن ہی پڑھ کر سنا دیتا.

    ہمارا دوست کہتا ہے کہ میں نے قرآن کے ایک نہیں کئی ہزار معجزے دیکھے. جس معاشرے میں قرآن پڑھنے اور گھر میں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی، اس معاشرے کےبچوں کے سینوں میں قرآن محفوظ ہو گیا تھا. میں جب باہر نکلا تو کئی بچے دیکھے، ان سے قرآن سننے کی فرمائش کی تو کئی نے قرآن سنایا. دفعتا دل میں خیال آیا کہ کمیونسٹوں نے قرآن رکھنے پر پابندی لگا دی لیکن سینوں میں قرآن محفوظ کرنے پر پابندی نہ لگا سکے. تب مجھے اللہ پاک کے اس ارشاد کی حقانیت سمجھ آ گئی.
    [pullquote]إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
    [/pullquote]

    بے شک یہ ذکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.

  • وہابی کی لڑکی – محمد فیصل شہزاد

    وہابی کی لڑکی – محمد فیصل شہزاد

    بچپن میں بوجہ کم عمری مدرسہ بھیجنے سے قبل اماں جان نے محلے کی ایک بوڑھی اماں کے پاس سپارہ پڑھنے کے لیے بٹھا دیا تھا. بڑی بڑی لڑکیوں کےرنگین آنچلوں کی چھاؤں میں ہم چند چھوٹے چھوٹے لڑکے چوزوں کی طرح دبکے رہتے تھے. لڑکیاں حجن اماں کی نظر بچا کر نمک مرچ والی املی کی کٹاریاں سسکاری بھر بھر کر کھایا کرتیں. کوئی چھالیہ چباتی سبق پڑھتی، کوئی آنکھیں میچ میچ کر ٹاٹری والا چورن چاٹتی تو کسی چٹوری کو اور کچھ نہ ملتا تو ملتانی مٹی ہی کھاتی رہتی. ایک دو شریر لڑکیاں ہمارے گال کھینچ کر ہمارے منہ میں بھی کھٹ مٹھی ٹافی لڑھکا دیتیں اور ہم جو ابھی ان کے گال کھینچنے پر منہ ہی بسور رہے ہوتے، چٹر پٹر رال ٹپکاتے ٹافی چوسنے لگتے!
    حجن اماں کا قرآن ویسا ہی تھا، جیسا کہ ساری گھر گھر قرآن پڑھانے والیوں کا ہوتا ہے. ہر لفظ مجہول پڑھتیں اور پڑھاتیں. مخارج بھی اماں کا اپنا خاندانی ہی تھا. پوربی لہجے میں دکنی مخارج. ستم تو یہ تھا کہ کوئی غلطی سے بھی معروف اور صحیح مخرج ادا کر دے تو ان کی سوٹی بڑی زور سے لڑکی کی کمریا پر پڑتی اور ہائے اللہ کی ایک دلدوز پکار زنانہ چیخ کے ساتھ گونج جاتی
    ایک کو چپل پڑتے دیکھ کر باقی سب تیز تیز ہل ہل کر سبق دہرانے لگتیں اور فضا بلبلوں کی آواز سے گونج اٹھتی
    ایک دن ایک لڑکی جو غالباً پہلے کہیں کسی سے پڑھ کر آئی تھی، کی خوب پٹائی ہوئی، اس بات پر کہ وہ سورہ فاتحہ کے آخر میں ولاالضالین کو ضاد سے پڑھ رہی تھی
    حجن اماں نے سنا تو درست کروایا ’’ضواد ‘ ‘ نہیں کم بخت’’ دواد ‘ ‘ ہوتا ہے، صحیح پڑھ!
    مگر اتنی جلدی پچھلے استاد کا رنگ بھلا کیسے اتر جاتا، وہ بے چاری ضاد سے پڑھتی رہی. آخر حجن اماں کو جلال آ ہی گیا، انہوں نے گرج کر کہا:
    ’’اے وہابی کی لڑکی کہیں کی، بد بخت! کتنی بار کہے جا رہی ہوں نامراد کو کہ ’’دواد ‘ ‘ہوتا ہے دواد، مگر وہی اپنی ہی کہے جار ہی ہے موئی ‘ ‘
    ساتھ ہی انہوں نے جو چوٹی پکڑ کر دو ہتڑ مارے ہیں تو بے چاری کے سفید رخسار پر یوں لگا کسی نے سیندور مل دیا ہو. گال سرخ انگارہ ہو گئے اور اس پر ہائے وائے کی فریادیں اور چھم چھم برستے نین.!
    ہم آج کی طرح اس وقت بھی بہت رقیق القلب تھے، بچوں اور خواتین کو روتا نہیں دیکھ سکتے تھے، سو دل بھر آیا اور ہم بھی رو پڑے.
    خیر قصہ مختصر تین چار ماہ بعد جب ہم مدرسے بھیجے گئے تو ایک تو اس وجہ سے کہ مدرسہ 4 بجے جانا ہوتا تھا اور اسی وقت ہم بچوں کا اس وقت کا مشہور ٹی وی سیریل عینک والا جن آیا کرتا تھا، دوسری وجہ قاری صاحب (جنھیں ہم بڑے مولوی صاحب کہا کرتے تھے) کا پرجلال چہرہ، سو پہلےکچھ دن ہم بہت روئے.
    پھر دوسرا مسئلہ حجن اماں کا سوٹیوں کے بل ہمیں سکھایا ہوا ’’دواد ‘ ‘تھا جو پھر قاری صاحب کی بے شمار سوٹیوں کے بعد ہی کہیں جا کر’’ضاد ‘ ‘میں بدل سکا
    گویا کئی بار گال گلابی ہونے کے بعد ہی ہم دوبارہ سے’’ وہابی کے لڑکے ‘ ‘ کا اسٹیٹس پا سکے، ہائے وہابیت.!

  • ڈاکٹر ذاکرنائک فخر یا فتنہ؟ حافظ یوسف سراج

    ڈاکٹر ذاکرنائک فخر یا فتنہ؟ حافظ یوسف سراج

    13006698_1120626147982743_4328716347595490718_nآگ جلاتی اور پانی ڈبوتا ہے۔ مگر کبھی کبھی آگ جلانا اور پانی ڈبونا بھول جاتے ہیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ نمرود کی جلائی آسمان کو چھوتی آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ائرکنڈیشنڈ گلزار ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ٹھاٹھیں مارتے دریائے نیل کا نیلگوں پانی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو ڈبونے کے بجائے مٹی کے بلند پہاڑو ں کی صورت اختیار کر جاتا ہے. ہماری دنیا میں بغیر باپ اور ماں کے کسی بچے کی پیدائش ممکن نہیں مگریہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام بغیر ماں باپ کے جبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیداہوئے. قانون میں کبھی کبھی کے اس تعطل اور ’بائی پاس‘ کو عربی اور اردو میں ’ استثنا‘کہتے ہیں جبکہ انگریزی زبان میں کہا جاتاہے : ’’ There are exceptions to every rule‘‘۔
    دراصل اس کائنات کی مجاز اتھارٹی اور حتمی قوت انسانوں کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ گو اس نے انسانوں کے لیے اس کائنات کی بنیاد اسباب اور ذرائع پر رکھی ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی قطعا نہیں کہ اب خود خدا بھی اپنے ہی وضع کردہ اسباب و وسائل کے سامنے بے بس ہو گیا ہے. چنانچہ انسانوں کی اسی غلط فہمی کا ازالہ وہ یوں کرتا رہتا ہے کہ جب چاہتا ہے، اپنے بنائے ہوئے قوانین پر اپنی برتری دکھا دیتاہے. تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات کے ان قوانین میں استثنا یا Excepeion جب جب بھی ظہور کرتا ہے، پوری انسانیت کے لیے ایک واضح دلیل، نمایاں برہان اور ہمیشہ باقی رہنے والا سبق بن جاتا ہے۔ اپنی قدرتِ کاملہ کاایسا اظہار اللہ تعالیٰ کبھی نابغۂ روزگار شخصیات کو تخلیق کرکے بھی فرماتا ہے. چنانچہ جب جب اللہ کو منظور ہوا، اس نے زمیں کو ایسے ایسے عبقری اور شہ دماغ انسان نصیب کیے کہ آسمان کو بھی ان پر رشک آتا رہا. تاریخ و سیر میں جھانکنے والے شخص کے لیے نہ یہ موضوع اجنبی ہے اور نہ وہ ایسی نادرِ روزگار شخصیات سے ہی لاعلم ہو سکتا ہے. علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے عالی دماغ پیدا فرمائے کہ تاریخِ انسانی آج بھی انھیں تعجب اور احترام سے یاد کرتی ہے. ایسے کچھ نابغوں نے شعر و ادب کے نئے آسمان تخلیق کیے، کچھ نے دین و معرفت کے در کھولے اور کچھ نے کائنات کے گنجلک اسرار و رموز انسانیت کے لیے پانی کر دکھائے. ماضی قریب میں دینی حلقوں میں ابن تیمیہ ، شاہ ولی اللہ، مجدد الفِ ثانی اور ابو الکلام آزاد جیسی انسانیت کی ایسی ہی نمائندہ طلسماتی اور کرشماتی شخصیات انسانیت کا اثاثہ ہیں.
    ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارا عہد بھی ایسے بڑے لوگوں سے خالی نہیں. جن بڑی شخصیات کو میں اس زمانے کا ضمیر اور پہاڑی کا نمک سمجھتا ہوں، ان میں ایک شخصیت ڈاکٹر عبدالکریم ذاکر نائک صاحب کی بھی ہے. شہرت اور مقبولیت اس شخص پر یوں ٹوٹ کے برسی ہے کہ آدمی اللہ کی اس دین پر دنگ رہ جاتاہے. ویسے بطور سلیبریٹی شہرت کے لیے درکار لوازمات کو دیکھا جائے تو شہرت کو ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب پر ہرگز مہربان نہیں ہونا چاہیے تھا. وہ ایک دھان پان سے شخص ہیں. ٹی وی کے لیے درکار مروجہ فیس بیوٹی کے معیار پر وہ پورے نہیں اترتے. روایتی علماء و مشائخ کے بر عکس انھوں نے ممتاز ہونے کے لیے کبھی جبہ و دستار کا بھی سہارا نہیں لیا. نہ انگریزی ان کی مادری زبان ہے اور نہ اردو. اردو میں وہ بات کرنے سے پہلے معذرت کر لیتے ہیں کہ ممکن ہے وہ گرامر کی رو سے فصیح اردو بولنے سے قاصر رہیں. اس سب کے باوجود لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تھری پیس سوٹ پر ایک سادہ سفید ٹوپی پہن کر دنیا بھر کے ادیان کو اسی عام سے آدمی نے دلیل و دانش کی بنیاد پر مناظرے کا چلینج دے دیاہے. چیلنج دینا تو خیر ہمارے ہاں بڑا عام ہے لیکن تین عالمی مذاہب سے کیے گئے ناقابلِ فراموش کامیاب مناظرے بھی آنجناب کے کریڈٹ پر ہیں. ان کا مشہورِ زمانہ مناظرہ شکاگو (امریکہ) میں ایک عیسائی سکالر سے ہوا. دراصل عالمی سطح کے معروف عیسائی سکالر ولیم کیمبل کا دعویٰ تھا، بلکہ انھوں نے کتاب بھی لکھی تھی کہ ان کے نزدیک قرآن مجید میں کم و بیش سو سائنسی غلطیاں ہیں. یکم اپریل 2001 کو ہونے والے اس کئی گھنٹوں پر مشتمل مناظرے میں ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب نے ولیم صاحب کے ہر اعتراض کو دلائل سے غلط ثابت کیا جسے ولیم کیمبل صاحب نے تسلیم بھی کیا اور جوابا ڈاکٹر صاحب نے بائبل میں کئی ایسی سائنسی غلطیوں کی نشان دہی کی کہ جن کا عیسائی سکالر سے کوئی جواب نہ بن سکا اور یوں انھوں نے اپنی شکست کا اعتراف کر لیا. ڈکٹر صاحب ایسے ہی دو ایک اور بڑے مناظروں میں بھی مقابل مذاہب کو شکست دے چکے ہیں.
    ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کی مقبولیت دراصل دلیل کی مقبولیت ہے. ڈاکٹر صاحب معجزاتی حافظے کی حامل ایک انتہائی سلجھی ہوئی سادہ شخصیت ہیں. آپ کے منطقی لیکچرز اور اسلام کا ہر سطح پر دفاع پوری امت مسلمہ میں مقبولیت اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے. ڈاکٹر صاحب اس کے ساتھ ساتھ ایک امن پسند اور قانون پسند شہری بھی ثابت ہوئے ہیں. پوری دنیا گھوم لینے والے ڈاکٹر صاحب نے آج تک پاکستان کا صرف اس لیے دورہ نہیں کیا کہ کہیں پاک بھارت معاملات ان کی دعوت کے آڑے نہ آنے لگیں. حیرت ہے اس کے باوجود کیسے بچگانہ بہانوں سے ان کے کام اور نام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے. ویسے ایسا تو ہوتا ہی آیا ہے. بقول غالب
    ہوتا آیا ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
    میڈم نگہت ہاشمی صاحبہ نے ٹی وی پر کیا خوبصورت بات کی کہ جب سیدہ خدیجہ ؓ رسول رحمت کو انجیل کے عالم ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں تو انھوں نے کہا کہ کاش میں اس وقت ان کی کچھ مدد کر سکوں کہ جب انھیں ان کی قوم یہاں سے نکال دے گی. سیدہ حیران ہوئیں کہ ایسے بھلے آدمی کو بھلا قوم کیوں نکالے گی؟ تب اس نے کہا کہ جو اس سچے پیغام کے ساتھ آیا، قوم نے اس کے ساتھ ہمیشہ یہی سلوک کیا ہے. بہرحال ان شااللہ یہ ہوائیں سیرت کے سچے پیروکار ڈاکٹر صاحب کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی. ان کا جلایا چراغِ مصطفوی شرارِ بو لہبی کے مقابل پوری توانائی سے تمتماتا رہے گا.
    الحمدللہ ، دنیابھر سے بلا قیدِ مسلک و مشرب ڈاکٹر صاحب کے دفاع میں آوازیں اٹھی ہیں جو بڑے مبارک مستقبل کی نوید ہیں. پاکستانی چینل پیغام ٹی وی کے COO اور ہمارے دوست حافظ ندیم احمد صاحب ، جو دبئی میں ڈاکٹر صاحب سے تفصیلی ملاقاتیں کر چکے ہیں، وہ آپ کی سادگی، خلوص اور تقابلِ ادیان کے ساتھ ساتھ جدید ترین آئی ٹی ٹیکنالوجی پر آپ کی دسترس کی حیران کن کہانیاں سناتے ہیں، بلکہ حافظ ندیم صاحب کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب کو اپناقیمتی ترین وقت اور دماغ اسلام کے لیے ہی صرف کرنا چاہیے کہ آئی ٹی وغیرہ جیسے انتظامی معاملات تو کئی اور لوگ بھی دیکھ سکتے ہیں مگر جو کام ڈاکٹر صاحب کر رہے ہیں، فی الوقت وہ امت میں کوئی دوسرا نہیں کر سکتا. اس وقت میں نے بھی ان کے اس خیال کی تائید کی تھی لیکن اب جب دیکھتا ہوں کہ کشمیر کے ساتھ ساتھ احمد آباد اور گجرات کو لہو میں نہا دینے والے انڈیا کو دلیل کی بنیاد پر عالمی عزت دینے والے شخص کو خود اس کا اپنا ہی وطن انڈیا دہشت گردی سے جوڑنے کی ناکام کوششیں کر رہا ہے اور ایسے موقع پر خود مسلمانوں میں سے کئی ڈاکٹر صاحب سے منہ پھیرنے لگے ہیں تومجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ڈاکٹر صاحب بد دل ہو کے آئی ٹی یا اپنی پروفیشنل لائن میڈیکل کی طرف ہی نہ رجوع کر لیں. مجھے یہ بھی یقین ہے کہ یہ محض ایک خیال ہے ورنہ ڈاکٹر صاحب ان معاملات سے گھبرانے والے نہیں. آج تو خیر وہ بہت آگے نکل آئے ہیں. وہ ہزاروں لیکچر دے چکے ہیں. اپنی خدمات کے صلے میں سعودی عرب کا سب سے بڑا قومی اعزاز شاہ فیصل ایواڑد حاصل کر چکے ہیں. ان کے لیے تو بہت ابتدا میں، عیسائیت کے مقابل دلائل کی چٹان ثابت ہونے والے شیخ احمد دیدات نے فرمایا تھا کہ،’’جو کام میں نے ساری زندگی لگا کے کیا، ڈاکٹر صاحب نے وہ کام محض چار سالوں میں کر دکھایا ہے۔‘‘ یقینا آج ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل سے بالا تر ہو کر ڈاکٹر صاحب کی اسلام کے لیے خدمات کے صلے میں ان کی حمایت میں آواز بلند کرنی چاہیے ، تاکہ ہمارا شمار بھی دین اسلام کے حامیوں میں ہو سکے. کوئی فتنہ نہیں ، ان شااللہ ڈاکٹر صاحب ہمارا اور اسلام کا فخر ہیں ۔امید ہے ڈاکٹر صاحب بھی اپنی شخصیت کو فروعی معاملات سے امت کے مفاد کی خاطر بلند رکھیں گے۔

  • وحی کے نور کے بغیر عقل گمراہ ہے – رشید احمد خورشید

    وحی کے نور کے بغیر عقل گمراہ ہے – رشید احمد خورشید

    12805868_1013357245409520_7948959358563183039_n”اے ایمان والو! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ” (البقرۃ) ایمان اصل میں دل سے کسی چیز کو ماننے ، اس کا عقیدہ رکھنے اور اس کی تصدیق کرنے کا نام ہے۔ اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب انسان کے دل میں کسی چیز کا یقین بیٹھ جائے اور وہ دل سے جب کسی چیز کو تسلیم کرلے تو اس کے اثرات پھر اس کے پورے جسم اور اعضاء پر مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ مثلا آپ کے سامنے بجلی کی تار پڑی ہے اور آپ کو یقین ہے کہ بجلی کی اس تار میں کرنٹ ہے تو آپ کبھی بھی اس کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اب یقین اور اعتقاد تو آپ کے دل کا عمل ہے، لیکن اس کا اثر آپ کے جسم پر یہ ظاہر ہوا کہ اس یقین نے آپ کے ہاتھوں کو بجلی کی تار کی طرف بڑھنے سے روک دیا۔ یہی معاملہ ایمان کا ہے کہ یہ بھی دل کا عمل ہے۔ انسان اللہ پر ایمان لائے، رسولوں پر ایمان لائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان لائے۔ فرشتوں پر ایمان لائے۔ تمام آسمانی کتابوں اور قرآن کریم کے آخری آسمانی کتاب ہونے پر ایمان لائے اور اچھی بری تقدیر اور قبر، حشر اور روز جزاء وسزا پر ایمان لائے۔ ان ساری چیزوں پرایمان لانے کا کام دل کا ہوتا ہے، لیکن جب یہ ایمان واقعی دل سے ہو تو پھر جسم بھی اسی ایمان کے مطابق چلتا ہے۔جسم کا ایمان کے مطابق چلنا ”اسلام” کہلاتا ہے۔ انسان کے ظاہر سے صادر ہونے والے اعمال کا نام ”اسلام” ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیت اسی بات کا درس دے رہی ہے کہ اے ایمان والو! پورے پورے مسلمان ہوجاؤ!تو آسان الفاظ میں اگر ہم اس کو بیان کریں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایمان کے تقاضوں پر عمل بھی کرو۔ اس لیے کہ جب ایمان دل میں ہوتا ہے تو وہ خود ہی انسان کو اعمال پر آمادہ کردیتا ہے۔

    انسان کو اللہ تعالی نے علم حاصل کرنے کے لیے پانچ حواس (Five Senses) دیے ہیں۔ آنکھ کے ذریعے ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں علم حاصل ہوتا ہے کہ یہ چیز کالی ہے یا سفید؟ یہ موبائل ہے یا کمپیوٹر؟ وغیرہ۔ اب جیسے ہی آپ دیکھتے ہیں فوراآنکھ کا یہ حاسہ آپ کے دماغ کو سنگل دیتا ہے اور آپ کو علم حاصل ہوتا ہے۔ یہی معاملہ ”کان” کا ہے۔آپ کان کے ذریعے سنتے ہیں تو علم حاصل ہوتا ہے کہ کوئی رو رہا ہے یا ہنس رہا ہے؟ کوئی مجھے بلارہا ہے یا مجھے اجازت دے رہا ہے؟ اسی طرح ”ناک” کے ذریعے آپ کو علم ہوتا ہے کہ یہ خوشبو ہے یا بدبو؟ ”زبان” کے ذریعے پتا چلتا ہے کہ یہ چیز میٹھی ہے یا کڑوی؟ نمکین ہے پھیکی؟ ”ہاتھ” کے ذریعے آپ کسی چیز کو مس کرتے اورچھوتے ہیں تو آپ کو پتا لگتا ہے کہ یہ چیز نرم ہے یا سخت؟ گرم ہے یا ٹھنڈی؟ اب یہ پانچوں حواس اللہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو زندگی دوبھر ہوجائے، لیکن اس کے باوجود ان میںسے ہر ایک کی اپنی ایک لمٹ اور حدود ہیں اور ہر ایک کا ایک مخصوص فنکشن اور کام ہے۔مثلا ہاتھ کے ذریعے اگر آپ کسی چیز کو ٹچ کرتے ہیں تو آپ اسی حدود میں ٹچ کرسکتے ہیں جہاں تک آپ کا ہاتھ پہنچ سکے۔ اس سے آگے کی چیز کو آپ ٹچ نہیں کرسکتے۔ یہی معاملہ دیگر چار حواس ؛آنکھ، کان، ناک اور زبان کا ہے۔ اب کوئی بھی شخص آنکھ کو اس لیے فضول نہیں کہتا کہ یہ کیسی آنکھ ہے؟ یہ تو سنتی ہی نہیں؟ نہ ہی کوئی شخص کان کو برابھلا کہتا ہے کہ یہ کیسا کان ہوا جو سونگھتا نہیں؟ ظاہر ہے اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو لوگ اسے سمجھائیں گے کہ بھائی آنکھ کاکام یہ ہے اور کان کا یہ۔ اس لیے آپ اپنی بات پر نظر ثانی کرو۔

    جب انسان کے ان پانچ حواس کی حدودکا خاتمہ ہوتا ہے تو پھر ایک مقام ا یسا آتا ہے کہ ان پانچوں حواس سے اس چیز کا علم حاصل نہیں ہوتا، بلکہ یہ پانچوں حواس اس کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں۔ اس جگہ پھر ”عقل” کی نعمت کام آتی ہے۔ مثلا ایک کمپیوٹر آپ نے دیکھا تو آنکھ نے آپ کو یہ بتایا کہ یہ کمپیوٹر ہے، لیکن اسی کے ساتھ آپ کے ذہن میں یہ جو سارے خیالات آتے ہیں کہ یہ کسی نے بنایا ہے؟ اس میں نہ جانے کون کون سے پرزے ہیں؟ پھر اس کمپیوٹر کا پورا استعمال یہ کام آپ اپنے عقل سے انجام دیتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ ہر حاسہ اور ہر سینس کا اپنا کام ہے اور ہر ایک کی حدود بھی ہیں۔ پھر ایک جگہ ایسی آتی ہے جہاں عقل بھی کام چھوڑدیتی ہے۔ وہاں پھر عقل کے ذریعے کسی چیز کو سمجھنا ناممکن ہوتا ہے۔ ایسی جگہ پر عقل کا استعمال آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کتنی بڑی بے وقوفی ہے؟ اگر ایک چیز عقل کی حدود سے ماورا ہے اور آپ اس کو پھر بھی عقل کے پیمانے پرکھنے کی کوشش کررہے ہیں تو یہ بالکل ایسا ہی کہ آپ آنکھ سے سننے کا کام لینے کی کوشش کریں۔ جہاں پر عقل کی حدود ختم ہوتی ہیں وہاں سے ایک ساتویں نعمت کا آغازہوتا ہے جس کو ”وحی” کہتے ہیں۔ جو چیز عقل سے بھی سمجھ نہ آئے اس کی تعلیم دینے کے لیے پھر آسمان سے بھیجی گئی وحی رہنمائی کا کام دیتی ہے۔

    اس سے معلوم ہوا کہ عقل سب کچھ نہیں، بلکہ کچھ کچھ ہے۔ لہذا دین کے کسی حکم پر عمل کرتے ہوئے اگر ایک طرف دین کا حکم ہو اور دوسری طرف آپ کی عقل ہو اور وہ بات آپ کی عقل میں نہ آرہی ہو لیکن آپ کو پتا چل جائے کہ یہ اسلام کا حکم ہے، ایسی صورت میں ایک مسلمان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ دین کی بات مانے۔ جو رہنمائی اسے وحی نے دی ہے اس کو تسلیم کرے اور عقل کو یہ کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے پس پشت ڈال دے کہ یہ عقل کا میدان ہی نہیں۔ اگر عقل اور دماغ سے ہی ہر چیز کا سمجھنا اور کائنات کے اس نظام کا چلنا ممکن ہوتا تو میرا رب کبھی سوالاکھ کم وبیش پیغمبر اس دنیامیں نہ بھیجتا۔ کبھی آسمان سے کتابیں اور صحائف نہ اترتیں۔ یہ ساری باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وحی کے نور کے بغیر عقل گمراہ ہے۔ ہاں اسی عقل کو اگر وحی کی تابعداری اور اس کی خدمت کے لیے استعمال کیاجائے تو کیاہی بات ہے! قرآن کی اس آیت میں یہ حکم دیاگیا کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ! اس کا مطلب یہ ہوا کہ بس اپنے آپ کو اسلامی احکامات کے مکمل تابع کردواور پورے کے پورے ان تعلیمات کے سامنے جھک جاؤ چاہے تمہاری عقل مانے یہ نہ مانے۔ اس لیے کہ ”اسلام” کا لفظی اور لغوی معنی ہے:” تابع فرمان ہونا، تابعدار ہوجانا، سرتسلیم خم کردینا”۔ قرآن کریم میں اسی مفہوم میں یہ لفظ کئی مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ یوں ”مسلم” کا مطلب ہے: اللہ کا تابعدار بندہ، اللہ کے احکامات کے سامنے سرتسلیم خم کردینے والا انسان۔

    ان باتوںکے تناظر میں ہم اسلام کا مفہوم اجمالا یوں بیان کرسکتے ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں تابعداربننے کا نام اسلام ہے اور تفصیل میں جائیں تو اسلام کے پانچ شعبے ہیں: عقائد؛ مثلا: اللہ پر ایمان، رسول پر ایمان۔عبادات؛ مثلا نماز، روزہ ۔ معاملات؛ مثلا: خریدوفروخت، مالی لین دین۔ معاشرت:مثلا؛ رشتہ داروں کے ساتھ کیسے رہا جائے؟ پڑوسیوں کے ساتھ کیسا سلوک رکھاجائے؟ اخلاقیات؛ مثلا حسد سے بچنا، تکبر سے اجتناب۔ ان پانچوں شعبوں میں مسلمان بننے کا مطالبہ کیاگیا ہے ہم سے۔آج کل عقلیت پسندی کا بہت زیادہ چرچا اور غوغا ہے۔ ہمارے بہت سے سادہ لوح مسلمان بعض مرتبہ اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اعمال وکردار میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر یہ ساری تفصیل سامنے ہو تو امید ہے کہ یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہوگی اور انسان اپنی عقل اور اپنی پوری سوچ، فہم وفراست کو پس پشت ڈال کر یہ دیکھے گا کہ اسلام کا حکم کیا ہے؟ مجھ سے میرے دین کا مطالبہ کیا ہے؟ اگر یہ چیز ہمیں سمجھ آجائے تو بس یہی اس آیت کی تفسیر ہے۔ یہ اس کا مفہوم بھی اور مدعا بھی، مضمون بھی ہے اور مقصود بھی۔