Tag: قرآن

  • علامہ اقبال اور قرآن – عادل لطیف

    علامہ اقبال اور قرآن – عادل لطیف

    عادل لطیف تحریر کے دو رنگ ہوتے ہیں، پہلا نثر اور دوسرا شاعری، شاعری کو بلا واسطہ یا بالواسطہ علم کلام بھی کہہ سکتے ہیں. شاعری نثر کو چند لفظوں میں سمو دینے کا کمال، فن اور صلاحیت ہے، شعر کہنے کی صلاحیت خداداد ہوتی ہے، کوئی شخص اپنی مرضی اور منشاء سے شعر نہیں کہہ سکتا. قرآن کریم میں رب کریم نے ایسی شاعری کی مذمت بیان فرمائی ہے جو افراط و تفریط، غلو، مبالغہ آرائی اور کذب بیانی پر مبنی ہو اور ایسی شاعری کی تحسین فرمائی ہے جس میں روح کی پاکیزگی کا نور ہو، جو شاہراہ حیات کے مسافروں کے لیے قندیل ایمانی کا کام دے. شعراء میں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری سے زندگی کی پر پیچ وادیوں میں بھٹکنے والے راہی، سمت منزل کی تعیین میں رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں. علامہ اقبال کی شاعری میں تاریخ اسلام کے عظیم الشان کرداروں اور اس کی لافانی سچائیوں کی خوشبو مہکتی ہے. خود اقبال کے الفاظ میں یہ اعجاز ان کی شاعری کا نہیں قرآن کا ہے، بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری قرآن کریم کی منظوم تشریح ہے. علامہ اقبال فرماتے ہیں
    گر دلم آئینہ بے جوہر است
    ور بہ حرفم غیر قرآں مضمر است
    تنگ کن رخت حیات اندر برم
    اہل ملت را نگہدار از شرم
    روز محشر خوار ورسوا کن مرا
    بے نصیب از بوسئہ پا کن مرا
    اے حضور پاک صلي اللہ عليہ وسلم اگر میرے دل کا آئینہ بے جوہر ہے، اجلا اور شفاف نہیں، اور اگر میرے کلام میں قرآنی فکر کے علاوہ کچھ اور چھپا ہوا ہے تو میرا جامہ زندگی میرے جسم پر تنگ کر دیجیے، اور ملت اسلامیہ کے افراد کو میرے شر سے محروم کر لیجیے. اے میرے حضور صلي اللہ عليہ وسلم اگر ایسا ہو تو قیامت کے دن مجھے ذلیل و رسوا کر دیجیے اور سزا کے طور پر مجھے اپنے پائے مبارک کو بوسہ دینے سے محروم فرما دیجیے.
    جہان شعر و سخن میں ہے کوئی دوسرا جسے اپنے معجزہ فن پر ایسا اعتماد ہو. علامہ اقبال کے اندر قرآن کریم سے عشق ومحبت کا جذبہ ان کے والد کی تربیت کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، ان کے والد کی عادت تھی کہ وہ تہجد کے وقت مسجد جایا کرتے تھے. ایک دن انھوں نے علامہ کو تلاوت کرتے ہوئے دیکھا تو کہا بیٹا تم قرآن پڑھتے ہو، سمجھ بھی آتا ہے، والد صاحب نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن اس طرح پڑھو جیسے تم پر نازل ہو رہا ہو، تبھی تو علامہ نے فرمایا تھا
    تیرے وجود پر نازل نہ ہو اگر کتاب
    گرہ کشا ہے نہ رازی نہ کشاف

    اب ہم قرآن کریم کی مختلف آیات کے ترجمے پر مبنی علامہ اقبال کے اشعار نقل کرتے ہیں.

    1۔ [pullquote]یاايھا الناس انتم الفقراء الي اللہ واللہ غني حميد (فاطر آیت نمبر15)[/pullquote]

    اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بےنیاز ہے.
    علامہ اقبال اپنی فارسی رباعی میں فرماتے ہیں
    تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
    روز محشر عذر ہائے من پذیر
    ور حسابم را تو بینی ناگزیر
    از نگاہ مصطفی پنہاں بگیر
    (اے رب ذوالجلال! تیری ذات اقدس دونوں جہانوں سے غنی ہے اور میں ایک فقیر خستہ جاں ہوں)
    (اقبال کے یہ جاودانی اشعار، ان کی کسی کتاب میں ہیں نہ کلیات میں، وجہ اس کی یہ ہے کہ اقبال نے یہ رباعی ایک عاشق رسول رمضان عطائی کو دے دی تھی، اس لیے اقبال نے اپنے کلام میں اس کو نہیں چھپوایا۔)

    2۔ [pullquote]وقال نوح رب لا تذر علي الارض من الكافرين ديارا (نوح آیت نمبر26)[/pullquote]

    (اور نوح نے یہ بھی کہا اے میرے پروردگار ان کافروں میں سے کوئی ایک باشندہ بھی زمین پر باقی نہ رکھیے)
    علامہ اپنے شعر میں یوں بیان کرتے ہیں
    دل مرد مؤمن میں پھر زندہ کر دے
    وہ بجلی کہ تھی نعرہ لا تذر میں

    3۔[pullquote] ياايھاالذين امنواتقواللہ وقولو قولا سديدا (الاحزاب آیت نمبر70)[/pullquote]

    (اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور سیدھی اور سچی بات کہو)
    علامہ اس آیت کو یوں منظوم کرتے ہیں
    ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
    گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

    4۔ [pullquote]خلق لكم من انفسكم ازواجا لتسكنوا اليھا (الروم آیت نمبر21)[/pullquote]

    (اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو)
    اقبال کا مشہور شعر ہے
    وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ
    اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
    یہ مذکورہ آیت کا منظوم ترجمہ ہے

    5۔ [pullquote]قل ان كنتم تحبون اللہ فاتبعوني يحببكم اللہ (آل عمران آیت نمبر31)[/pullquote]

    (کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا)
    علامہ اس کو یوں منظوم کرتے ہیں
    کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
    یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

    6۔ [pullquote]محمد رسول اللہ والذين معہ اشداء علی الكفار رحماء بينھم (الفتح آیت نمبر29)[/pullquote]

    (محمد اللہ کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل)
    علامہ کا مشہور شعر ہے
    ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
    رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

    اقبال کے مجموعہ کلام میں سے نمونے کے طور پر یہ چند مثالیں پیش کی ہیں. وطن عزیز میں مصور پاکستان کی فکر کو عام کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ کلام اقبال سوئے ہوئے دل ودماغ پر ضرب لگائے گا، خوابیدہ جذبوں کو لرزش دے گا، سوئی ہوئی امنگ کو بیدار کر دے گا اور پھر غفلتوں کے خاکستر میں دبی ہوئی چنگاری فروزان ہو جائے گی مگر کون سمجھائے میرے ملک کے دانشوروں کو جو مرعوبیت کی بنا پر اپنے تہذیبی ورثے اور اخلاقی میراث کے متعلق نہ صرف یہ کہ خود احساس کمتری میں مبتلا ہیں بلکہ دوسروں کو بھی مغربی تہذیب اپنانے کا درس دیتے ہیں. انہیں کون بتائے کون سمجھائے کون آخر کون کہ
    جسے حقیر سمجھ کر تم نے بجھا دیا
    وہی چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی

  • قاری صاحب کی فیس : حمزہ شبیر کشمیری

    قاری صاحب کی فیس : حمزہ شبیر کشمیری

    کچھ روز قبل کی بات ہے کہ جب میں اپنے ایک عزیز کے گھر تھا … ہم سب ساتھ
    بیٹھ کر ہی کھانا کھا رہے تھے ..چونکہ ان کے بچے بھی ہمارے ساتھ ہی کھانے کی
    میز پر موجود تھے لہذا ہمارے درمیان بچوں کی تعلیم کے حوالہ سے گفتگو جاری تھی
    … والدین بڑے فخر کے ساتھ ایک اعلی اسکول کا حوالہ دے رہے تھے …. کہ ہمارے
    بچے فلاں نامور اسکول میں زیر تعلیم ہیں .. ابھی گفتگو اختتام کو نہ پہنچی تھی
    … . کیوں کہ میں دروازہ کے بالکل سامنے تھا اور ہم ابھی کھانا تناول ہی فرما
    رہے تھے کہ مجھے اس گھر کے متصل دوسرے گھر کے دروازے پر قاری صاحب دستک دیتے
    نظر آے ….. جو بچوں کو قرآن پڑھانے تشریف لاتے تھے … قاری صاحب کو دیکھ
    کر میرے ذہن میں ایک سوال آیا … کیوں کہ گھر والوں سے بے تکلفی تھی اس لیے
    بلا جھیجک پوچھ لیا … سوال یہ تھا کہ آپ کے بچے ناظرہ قرآن پڑھنے مسجد کس
    وقت جاتے ہیں ؟
    جواب ملا آج کل اسکول کی تعلیم کا بوجھ زیادہ ہے .. ٹیوشن بھی ہے .. اس لیے
    وقت کی قلت کی وجہ سے نہیں جا سکتے …. میں نے جواب میں مشورہ کے طور پر کہ
    دیا کہ ساتھ والے گھر میں قاری صاحب بچوں کو پڑھانے تشریف لے آتے ہیں …ان کے
    بچے بھی تو آخر اسکول ، ٹیوشن وغیرہ پڑھتے ہیں … آپ بھی انہی قاری صاحب کو
    یہ ذمہ داری سونپ دیں …
    یہ سنتے ہی بچوں کی والدہ آگے ہوئی اور کہنے لگی یہ قاری صاحب ایک بچے کے
    ماہانہ پورے ہزار روپے لیتے ہیں . اور ہمارے تین بچوں کا پورا تین ہزار بنتا
    ہے … اتنا خرچہ ہم کیسے برداشت کریں .. میں نے کہا اچھا ؟؟؟ ابھی ابھی آپ
    بچوں کے اسکول کی کچھ بات کر رہی تھی … وہاں آپ ان بچوں کی ماہانہ کتنی فیس
    ادا کرتی ہیں ؟؟؟
    کہنے لگے سب سے چھوٹے کی 2 ہزار … درمیان والے کی 3 ہزار ہے .. اور بڑے بیٹے
    کی 5 ہزار فیس ہے …. اور میں نے کہا ٹیوشن کی کتنی فیس ماہانہ ادا کر رہی
    ہیں ؟
    جواب ملا 6 ہزار ہے سب کی ..
    میں نے یہ جواب سنا تو بالکل ساکت ہو کر رہ گیا …… اس حماقت کا کوئی جواب
    مجھ سے نہ بن پڑا اور بس میں عالم تحیر میں ڈوبتا چلا گیا ……

  • قرآن اور دور حاضر – مولانا محمد شفیع چترالی

    قرآن اور دور حاضر – مولانا محمد شفیع چترالی

    اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے 18اور 19 اکتوبر کوایکسپو سینٹر کراچی میں’’ ٹیلنٹ ایکسپو‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں متعدد دینی و سیاسی رہنماوں اور دانشوروں سمیت ہزاروں و طلبہ و طالبات نے شرکت کی اور نوجوانوں نے مختلف شعبوں میں اپنی مہارت و صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ ٹیلنٹ ایکسپو میں ’’القرآن کانفرنس‘‘کا پروگرام بھی شامل تھا جس میں سینیئر اینکر پرسن انیق احمد، معروف اسکالر امام احمد خواجہ، نوجوان ڈیبیٹر راجہ ضیاء الحق کے علاوہ راقم کو بھی ’’قرآن اور دور حاضر‘‘ کے موضوع پر چند طالب علمانہ گزارشات پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔ راقم کی گفتگو کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

    میں سب سے پہلے اسلامی جمعیت طلبہ کو اس کامیاب ٹیلنٹ ایکسپو کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، پھر اس پروگرام میں’’ القرآن کانفرنس ‘‘کے ذریعے نوجوان طلبہ و طالبات میں قرآنی تعلیمات سے متعلق آگاہی بڑھانے کی کوشش اپنی جگہ ایک انتہائی مستحسن اقدام ہے۔ آج کی یہ مجلس نوجوانوں کی مجلس ہے اور ایک نوجوان کے سامنے سب سے اہم سوال اپنے مقصد زندگی کے تعین کا ہوتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ معرفت الہیہ یعنی اپنے خالق و مالک کی پہچان ہماری زندگی کا مقصدو محور ہے، اس لیے ہمیں رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ معرفت الہیہ کے حصول کی بھی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ اسی سے ہم اپنے مقصد حیات کو پاسکتے ہیں۔ فارسی کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
    روح پدرم شاد کہ او گفتہ بہ استاد
    فرزند مارا عشق بیاموز ودیگر ہیچ!
    (میرے باپ کی روح شاد رہے کہ اس نے میرے استاد سے کہا تھا، میرے فرزند کو بس عشق سکھا دیں اور کچھ نہیں!)

    اب معرفت الہیہ کا حصول کیسے ہو؟ اس کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام کی صورت میں ایک شاندار تحفہ عطافرمایا ہوا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے پاس اور جتنی بھی دیگر نعمتیں ہیں مثلا ہماری یہ زمین، آسمان، چاند ستارے اور خود ہمارا اپنا وجود، یہ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، جبکہ قرآن کریم وہ نعمت ہے جو جمہور امت کے نزدیک اللہ کی مخلوق نہیں بلکہ خود اس کی ذات و صفات کاایک حصہ اور مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں قرآن کریم کو ’’حبل اللہ المتین‘‘ یعنی اللہ کی ایک مضبوط رسی سے تعبیر کیا گیا ہے اور ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا‘‘ میں بھی’’ حبل اللہ‘‘ کی تفسیر مفسرین نے ’’کلام اللہ ‘‘ سے ہی کی ہے۔ اب اگر کوئی شخص آج کے دور میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہونا اور معرفت الہیہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا ذریعہ قرآن کریم ہی ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ قرآن سے وابستہ ہوگا، اتنی ہی وابستگی اسے اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوجائے گی۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ لازوال ابدی و آفاقی کلام ہے جو ہر دور کے انسان کی جملہ روحانی ومادی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کچھ نعمتیں ایسی ہیں جن کی اہمیت و افادیت کسی بھی دور میں کم نہیں ہوتی۔ مثلا پانی کو ہی لے لیجئے،حضرت انسان نے اپنے ذوق کی تسکین کے لیے طرح کی مشروبات بنائی ہوئی ہیں لیکن پانی کی ضرورت و افادیت آج بھی اسی طرح ہے جس طرح آج سے ہزاروں سال پہلے تھی۔ اسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ آکسیجن ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی تمام تر ترقی کے باوجود کوئی چیز آکسیجن کی متبادل نہیں بن سکتی۔ بالکل اسی طرح قرآن کریم بھی انسان کی روحانی زندگی کی وہ ضرورت ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہے اور کسی بھی دور میں اس کی اہمیت و فادیت کم نہیں ہوسکتی۔ آج کوئی بھی شخص صبح اٹھ کر جب قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کلام آج ہی اس کے آج کے مسائل کے حل کے لیے اترا ہے۔

    آج کا دور عالمگیریت کا دور کہلاتا ہے جبکہ قرآن کریم کا پیغام بھی عالم گیر و آفاقی ہے۔ قرآن انسانیت کو ’’اے لوگو!‘‘ اور’’ اے بنی آدم!‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے جس میں ہر خطے، ہر زبان اور ہر رنگ کے لوگ شامل ہیں۔ قرآن ہر دور کی کتاب ہے۔افلاطون الہیات،فلکیات اور تخلیق کائنات سے متعلق اپنے جن شہرہ آفاق نظریات و خیالات کی وجہ سے ’’افلاطون‘‘ کہلاتا ہے اور ارسطو کو جن باتوں کی وجہ سے’’ ارسطو‘‘ کہا جاتا ہے، وہ نظریات اور باتیں آج اگر میٹرک کے کسی بچے کے سامنے بھی بیان کی جائیں تو وہ ان میں سے بیشتر باتوں کو جھٹلادے گا اور ان پر ہنسے گا کیونکہ سائنس کے ارتقاء نے ان باتوں کو کلی اور حتمی طور پر غلط ثابت کردیا ہے، مگر قران کریم نے انہی مشکل ترین موضوعات سے متعلق جو حقائق آج سے چودہ سال قبل بیان کیے تھے،وہ آج بھی نہ صرف اپنی حقانیت کو منوارہے ہیں بلکہ انسانیت کی رہنمائی بھی کر رہے ہیں۔

    ’’قرآن اور سائنس‘‘ ایک مستقل موضوع ہے جس پر بات کرنا یہاں مقصود نہیں ہے، ہرنئے سائنسی نظریے کے لیے قرآن سے موافقت تلاش کرنے کے علمی طرز عمل پر کلام بھی کیا جاسکتا ہے، مگرمیں صرف ایک بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواناچاہتا ہوں کہ تخلیق کائنات سے متعلق سائنس کی جو تازہ ترین اور مقبول ترین نظریہ ہے، جسے big bang کا نظریہ کہا جاتا ہے، اس سے آگاہی رکھنے والا سائنس کا طالب علم جب قرآن پڑھتا ہے تواسے اس نظریے کی قرآن کریم کی اس آیت سے حیرت انگیز مماثلت نظر آتی ہے کہ (ترجمہ) ’’ کیا نہیں دیکھا ان منکروں نے کہ آسمان اور زمین ’’منہ بند‘‘ تھے، پھر ہم نے ان کوکھول دیا … ‘‘ (الانبیاء97)گویا کہ آج کے سائنس نے صدیوں کے ارتقاء کا سفر طے کرنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا ہے، اس کی طرف قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے رہنمائی کی تھی۔

    بات صرف سائنس تک محدود نہیں ہے۔ سیاست،معیشت، معاشرت اور سماجیات سے متعلق چند باتیں ایسی ہیں جو آج بین الاقوامی سطح’’ مسلمہ ‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں۔ مثلا انسانیت تاریخ کے تلخ ترین تجربات اور ہر طرح کی بادشاہتوں، آمریتوں اور شخصی و گروہی حکمرانیوں کی تباہ کاریاں دیکھنے کے بعد اس بات پر اتفاق کر چکی ہے کہ ملکوں اور قوموں کے فیصلے’’ اجتماعی دانش‘‘ سے کرنا ہی بہترین سیاسی نظام ہے۔ اسے جمہوریت کہہ لیں یاکچھ اور نام دیں، تعبیر اور تشریح میں فرق ہوسکتا ہے،مگردنیا کی بیشتر قوموں نے اسے ہی ایک بہتر سیاسی نظام قرار دے کر اپنایا ہوا ہے۔ قرآن کریم آج سے چودہ سال پہلے صرف تین لفظوں میں اس مسئلے کو حل کرچکا ہے کہ’’ امرھم شوریٰ بینھم‘‘ (الشوریٰ) کہ مسلمانوں کا’’امر‘‘ باہمی مشاور ت سے طے ہوتا ہے۔ عربی زبان جاننے والے واقف ہیں کہ عربی محاور ے میں’’ امر‘‘ عام طور پر نظم مملکت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح آج کی دنیا کا ایک مسلمہ یہ ہے کہ دنیا میں نسلی امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ رنگ، نسل، زبان کی بنیاد پر کسی انسان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم نے صدیوں پہلے ہر قسم کے نسلی امتیاز کا قلع قمع کردیا تھا۔سورہ حجرات(آیت نمبر13 (میں فرمایا گیا کہ( ترجمہ)’’ اے آدمیو!ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے تاکہ تمہارے آپس کی پہچان ہو، تحقیق عزت اللہ کے ہاں اس کی بڑی ہے جس میں تقوی زیادہ ہو۔خبردار اللہ سب کچھ جانتا ہے۔‘‘

    آج کی دنیا میں ایک بات یہ بھی زور دے کرکہی جاتی ہے کہ انسانوں کے درمیان صنفی امتیاز نہیں ہونا چاہیے، یعنی مردوں اور عورتوں میں تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ صنفی مساوات کے مفہوم اور مقصد سے متعلق جو خلط مبحث کیا جاتا ہے،اور خاص طور مغرب نے آزادی نسواں کا جوتصورپیش کیا ہے،وہ بجائے خود حیرتوں اور تضادات کا ایک باب ہے، مگر اسلام نے مرد اور عورت کے دائرہ کارکو الگ الگ رکھتے ہوئے دونوں کو اپنی ا پنی جگہ پر برابر حقوق دیے ہیں۔سورہ النحل ایت نمبر79میں واضح ارشاد ہے (ترجمہ ) ’’جس نے کیا نیک کام مرد ہو یا عورت ہو اور وہ ایمان پر ہے تو اس کو ہم دیں گے ایک اچھی زندگی اوربدلے میں دیں گے حق ان کو بہتر کاموں پر جو وہ کرتے تھے۔‘‘

    یہ بڑی دل چسپ بات ہے کہ جس وقت قرآن نازل ہورہا تھا،احادیث میں آتا ہے کہ اسی زمانے میں کچھ مسلمان خواتین نے یہ سوال اٹھایا تھا( خواتین اپنے حقوق کے بارے میں ہمیشہ سے حساس واقع ہوئی ہیں) کہ قران کریم میں مذکر کے صیغے سے مردوں کا مخاطب کیا جاتا ہے، ہم عورتوں کا ذکر نہیں آتاحالانکہ اصولا یہ سوال بنتا نہیں ہے کیونکہ دنیا میں ہر طرح کے حکم نامے مذکر کے صیغوں میں ہی جاری کیے جاتے ہیں اور عورتیں اس میں شامل ہی ہوتی ہیں، مگر قرآن کریم نے قیامت تک آنے والی خواتین کو اس ’’اشکال‘‘ سے بچانے کے لیے ایک لمبی آیت نازل کی جس میں مومنین کے ساتھ مومنات، مسلمین کے ساتھ مسلمات، صالحین کے ساتھ صالحات، صابرین کے ساتھ صابرات و غیرہ … کا تذکرہ کرکے دونوں کے لیے برابر کے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اعمال و اخلاق کی میزان میں دونوں کے کردار کو برابر کا درجہ حاصل ہے۔

    اسی طرح آج دنیا سرمایہ داریت اور سودی معیشت سے تنگ آچکی ہے جبکہ قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے سود ی معیشت کو انسانیت کے لیے زہر قاتل قرار دیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن ہر دور کی طرح دور حاضر کی بھی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ جتنی جلد انسانیت اس حقیقت کو پالے گی، امن و سکون بھی حاصل کرسکے گی۔

  • آزمائش لازم ہے – ابو محمد مصعب

    آزمائش لازم ہے – ابو محمد مصعب

    ابومصعب قرآن پڑھنے یا سننے پر معلوم پڑتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک امتحان و آزمائش سےگزر رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی کو امتحان کی اس کیفیت کا ادراک و احساس ہے اور کسی کو نہیں، مگر یہ طے ہے کہ ہم میں سے ہر ایک بہرحال امتحان ہال میں کوئی نہ کوئی پرچہ ہاتھوں میں تھامے بیٹھا ہے اور اپنے پرچے کے جوابات تحریر کر رہا ہے۔

    اس نرالے امتحان کی کچھ خصوصیات ہیں:
    اول: یہ کہ اس میں ہر ایک کو ایک جیسا سوالنامہ دینے کے بجائے مخلتف پرچے دیے گئے ہیں۔
    دوم: یہ کہ دورانیہ بھی سب کے لیے یکساں نہیں بلکہ ہر ایک کو مختلف مہلتیں ملی ہیں۔
    سوم: یہ کہ یہ امتحان کسی ایک جگہ بیٹھ کر دینے کے بجائے ہر وقت چل رہا ہے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، حتٰی کہ سوتے ہوئے بھی ہر امیدوار اپنے پرچے کے جوابات دے رہا ہے۔
    چہارم: یہ کہ مہلت یا وقت ختم ہونے کے قریب ہو تو کسی قسم کا اعلان نہیں کیا جاتا بلکہ اچانک ہی پرچہ چھین لیا جاتا ہے۔
    پنجم: یہ کہ اس امتحان ہال میں سب امیدوار ہی ایک دوسرے کے لیے آزمائش ہیں اور ہمہ وقت ایک سوال بن کر دوسرے کے سامنے موجود ہیں۔ مرد عورت کے لیے، عورت مرد کے لیے، بڑا چھوٹے کے لیے اور چھوٹا بڑے کے لیے، شوہر بیوی کے لیے اور بیوی شوہر کے لیے، باپ بیٹے کے لیے اور بیٹا باپ کے لیے، بیٹی والدین کے لیے اور والدین بیٹی کے لیے، بہن بھائی کے لیے اور بھائی بہن کے لیے، استاد شاگرد کے لیے اور شاگرد استاد کے لیے، مالک نوکر کے لیے اور نوکر مالک کے لیے، حاکم رعیت کے لیے اور رعیت حاکم کے لیے۔۔۔۔۔ غرض یہ یہ کہ ہر انسان دوسرے کے لیے ایک آزمائش اور امتحان ہے۔
    ششم: یہ کہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، اس امتحان میں سے ہر ایک نےگزرنا ضرور ہے۔ کوئی اگر کچھ نہیں کر رہا یا کچھ نہیں لکھ رہا تب بھی وہ امتحان ہی دے رہا ہے۔

    پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ پرچے ہر ایک کو مختلف دیے گئے ہیں:
    کسی کے پاس کثرت دولت کا پرچہ ہے تو کسی کے پاس تنگی داماں اور غربت کا۔
    کسی کے پاس حسن و رعنائی کا پرچہ ہے تو کسی کے پاس قبح و بدصورتی کی۔
    کسی کے پاس تنومند اور طاقتور جسم کا پرچہ ہے تو کسی کے پاس لاغر پن اور کمزوری کا۔
    کوئی شادی کروا کر آزمایا جا رہا ہے تو کوئی مجرد اور غیرشادی شدہ رکھ کر۔
    کوئی اپنے بیوی بچوں کے ذریعہ آزمایا جا رہا ہے تو کوئی بےاولاد اور بانجھ رکھ کر۔
    کسی کو لامحدود فرصت اور فارغ البالی کا سوال درپیش ہے تو کسی کو بے انتہا مصروفیت کا جنجال۔
    کسی کو کسی پر غلبہ اور تحکم دے کر آزمایا جا رہا ہے تو کسی کو کسی کا غلام، محکوم یا پھر محتاج رکھ کر۔

    جس طرح کچھ دے کر آزمایا جاتا ہے اسی طرح کچھ چھین کر بھی آزمایا جا رہا۔ مثلا:
    کسی سے نوکری چھین لی جاتی ہے، کسی سے اولاد واپس لے لی جاتی ہے، کسی کے مال میں گھاٹا ڈال دیا جاتا ہے، کسی کے جانوروں پر بجلی گرادی جاتی ہے، کسی کا جہاز ڈبو دیا جاتا ہے، کسی کو آبائی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کردیا جاتا ہے، کسی کی بینائی لے لی جاتی ہے، کسی سے صحت کی نعمت چھین لی جاتی ہے، کسی سے اس کی پسندیدہ گاڑی یا سواری واپس لے لی جاتی ہے۔

    پھر، نیکی اور برائی کے مواقع دے کر بھی آزمایا جاتا ہے۔ جب برائی سولہ سنگھار کیے سامنے آ کھڑی ہو اور مال کی فراوانی باہوں میں باہیں ڈال کر بیلے ڈانس پر آماد ہو، جب رشوت، ملاوٹ اور چور بازاری میں ڈبکیاں لینے کا پورا پورا پورا موقعہ موجود ہو اور جب حق و باطل کی جنگ اپنے تمام تر امکانات، خطرات اور خدشات کے ساتھ سروں پر منڈلا رہی ہو تو اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کا بندہ جو پانچوں وقت ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ کا دعویٰ کرتا ہے، اپنے قول میں کس قدر سچا ہے۔
    اسی لیے قرآن کہتا ہے:
    کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اِتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ (عنکبوت: آیت:۲)

    خلاصہ کلام یہ کہ ہم میں سے ہر ایک یہ دیکھے کہ اس کے ہاتھ میں کون سا پرچہ ہے اور وہ اس پرچے میں موجود سوالات کے کیا جوابات تحریر کر رہا ہے۔
    یہ امتحان اتنا طاقور فیصلہ کن اور اہم ہے کہ اپنے امیدوارکو پھر چاہے وہ کتنا ہی بدصورت، غریب، مسکین یا محتاج کیوں نہ ہو، ککھ پتی سے لکھ پتی بنا دینے کی پوری قدرت، صلاحیت اور قوت رکھتا ہے، جس کے لیے صرف دو چیزیں درکار ہیں اور وہ ہیں تقویٰ اور اخلاص نیت۔

  • جنت عدن کی قرآنی منظرکشی اور مستشرقین کا مؤقف – عالم خان

    جنت عدن کی قرآنی منظرکشی اور مستشرقین کا مؤقف – عالم خان

    عالم خان اسلام ایک آفاقی اور سچا دین ہے اور اللہ تعالی نے اس کو اپنے بندوں کی زندگی گزارنے کے لیے پسند فرمایا ہے جس کا ثبوت سورہ المائدہ آیت 3 میں موجود ہے.
    [pullquote]الیوم اکلمت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا- الآيۃ[/pullquote]

    ”آج ہم نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں، اور تمھارے لیے اسلام بطور دین پسند کیا.“

    پس جن لوگوں نے اس کو اختیار کیا اور اس کے مطابق زندگی گزار دی، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی کی بشارت دے دی گئی ہے، اور قرآنی نکتہ نظر سے بڑی کامیابی یہ ہے، کہ إنسان نار جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو جائے، قرآن میں ارشاد ہے.
    [pullquote]فمن زحزح عن النار و أدخل الجنۃ فقد فاز الآيۃ[/pullquote]

    ”تو جو شخص آتش جہنم سے دور رکھا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہو گیا.“

    قر‌‌آن کریم میں جہاں مسلمان کی حوصلہ افزائی کے لیے جنت کا ذکر موجود ہے، وہاں اس کے لازوال نعمتوں کی منظر کشی بھی دیکھنے کو ملتی ہے، جنت کے تصور كو واضح کرنے کے لیے گیارہ مقامات (سورہ التوبہ 72، سورہ الرعد 23، سورہ النحل 31، سورہ الکھف 31، سورہ مریم 31، سوره طہ 76، سورہ فاطر 33، سورہ ص 50، سورہ غافر 8، سورہ الصف 12 اور سورہ البینہ 8 میں جنت کے ساتھ اضافی طور پر ”عدن“ کا تذکرہ كيا گیا ہے جس کا مفہوم ہے ”ہمیشہ رہنے کا“ یعنی جنتی حیات اور اس کی خوبصورتی و نعمتیں بھی دائمی وابدی ہے.

    سورہ التوبہ اور غافر کی آیتوں میں اللہ تعالی کی طرف سے اپنے نیک بندوں کے ساتھ بطور وعدہ ذکر فرمایا ہے اور باقی آیات میں مجموعی طور پر اس کو اعمال صالحہ کا بدلہ قرار دیا گیا ہے، جنت کی زندگی اور اس میں موجود نعمتوں کی منظرکشی جو قرآن نے کی ہے باقی مقدس و الہامی کتب میں موجود نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ مستشرقین اس کی اللہ تعالی کی طرف سے ہونے کا انکار کرتے ہیں.

    موجودہ بائبل جو تورات (Old testament) اور انجیل (New testament) کا مجموعہ ہے، میں جنت عدن کی وہ تصویر کشی مفقود ہے، جو قرآن كريم میں کی گئی ہے، مثلا تورات میں جنت کا تذکرہ موجود ہے لیکن اس میں فقط جنت کی سرسبزی و شادابی اور نہریں بہنے کا بیان موجود ہے اور باقی نعمتیں جن کا قرآن حكیم میں ذکر ہے کہ جنتیوں کے لیے پر آسائش مکانات، حور العین، بےموسم میوے اور خدام ہمہ وقت حاضر خدمت ہوں گے اور جنتی مسندوں پر بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہوں گے وغیرہ وغیرہ کا تذکرہ تورات میں نہیں پایا جاتا، تورات میں جنت کا ذکر کچھ یوں کیا گیا ہے.
    And out of the garden the Lord God made to grow every tree that is pleasant to the sight and good for food, the tree of the life also in the midst of the garden, and the tree of the knowledge of good and evil (Gens 2:9)
    اس کے علاوہ کتاب پیدائش (2:10-14 اور 3:24) میں نہروں اور خادموں کا اجمالا ذکر موجود ہے، اس طرح انجیل میں بھی جنت کی یہ خوبصورت منظر کشی موجود نہیں ہے، انجیل میں فقط جنت میں داخل ہو نے کا ذکر کیا گیا ہے.
    When Paul tells of a man (perhaps himself) who was caught up to the third heaven into paradise (Paradeison) (Isa 65:77ff)

    انجیل کی چار نسخے ہیں جنہیں انگریزی زبان میں (The Four Gospels) کہا جاتا ہے، تو لوقا کی روایت یعنی انجیل لوقا میں عیسی علیہ السلام کا ایک مکالمہ نقل کیا گیا ہے جو کہ عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق انھوں نے مصلوب ہونے سے قبل کیا تھا، جس شخص کے ساتھ یہ مکالمہ ہوا ہے وہ بھی چوری کی پاداش میں سولی پر چڑھایا جار رہا تھا اور بقول انجیل عیسی علیہ السلام نے اس سے فرمایا تھا کہ:
    Today you will be with me in paradise (Paradesion) (Luke 23:43)

    مستشرقین کی اکثریت کا تعلق تو یہودیت اور نصرانیت سے ہے، اس لیے جنت کے قرآنی تصور کا انکار کرتے ہیں، اور اس کو خود ساختہ او ارتقائی شکل قرار دیتے ہیں، کس چیز کی ارتقائی تصویر؟ تو مستشرقین کے نز دیک افرم ( Ephraim the Syrian) (وت 373م) نے مذہبی گیتوں کا ایک مجموعہ تیار کیا تھا جو کہ مغرب کے کتب خانوں میں ( Hymns on paradise) کے نام سے موجود ہے اور عیسائی اس کو مقدس تسلیم کرتے ہیں، یہ جنت کے بارے میں گیتوں پر مشتمل ہے اور چونکہ وہ شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے قبل ہو گزرا ہے اور اس کی گیتوں اور قر‌آنی معلوت میں تھوڑی بہت مماثلت ہے، اس لیے مستشرقین قرآنی منظر کشی کو ان گیتوں کی ارتقائی تصویر سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے.

    اگر ہم افرم کے گیتوں اور قرآنی آیات کا موازنہ کریں يا ان گیتون کا یہودیوں کی ایک اور مقدس کتاب، کتاب السفر مصنفہ حزقیال (Ezekiel) (622 ق م) سے تقابل کریں تو روز روشن کی طرح عیان ہوجائے گا کہ قرآن نے نہیں بلکہ افرم نے جنت کا تصور حزقیال سے لیا ہے اور اس كا خیالى خاکہ پھر اپنے گیتون میں پیش کیا ہے، اس حوالے سے کئی دلائل ہیں، لیکن سب سے بڑى دلیل یہ ہے کہ افرم کے نزدیک جنت ایک چوٹی پر واقع ہوگی، حالانکہ کسی بھی آسمانی کتاب خواہ وہ قرآن ہو یا موجودہ تحریف شدہ تورات اور انجیل، کسی میں بھی ایسی جنت کا حوالہ نہیں ملتا، یہ اشارہ صرف حزقیال کی کتاب میں ملتا ہے کہ جنت ایک چوٹی پر ہوگی.
    You were on the Holy mountain of God (Ezek 28:13-16)

    مستشرقین قرآن کو وحی من اللہ ماننے سے انکاری ہیں، اس لیے مغربی دنیا میں قرآن کے بارے طرح طرح کے نظریات پھیلانے میں مصروف ہیں، مثلا پروفیسر حداد کا کہنا ہے کہ رسول اللہ نے قرآن میں موجودہ احکام و آفاقی معلومات ورقہ بن نوفل اور بحیرہ راہب سے لیے تھے اور ان سے ملاقات کے بعد نبوت کا دعوی کیا تھا، حالانکہ پروفیسر حداد کا یہ دعوی تاریخی عقلی اور نقلی ہر اعتبار سے بالکل باطل ہے. کسی اور مضمون میں اس کی وضاحت کروں گا، اور اسی طرح گولڈ زیہر (وت 1921م) ہاورٹز (وت1931م ) اور شاخت (1969م) کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تالیف میں یہودیت اور نصرانیت سے استفادہ کیا گیا ہے، ان کے پاس اس دعوے کے اثبات کے لیے قیاس آرائی اور دلیل مشابہت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے.

    مستشرقین کا عقیدہ یہ ہے، کہ قرآن کریم نے ”جنت عدن“ کی منظر کشی میں افرم کی گیتوں سے استفادہ کیا ہے اور پھر مختلف عبارات سے اس کو ارتقائی شکل میں پیش کیا ہے، تو اس لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان بنیادی فرق کو واضح کیاجائے. جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قرآن نے نہیں بلکہ خود افرم نے جنت کے تصور میں حزقیال سے استفادہ کیا ہے لیکن پھر بھی دونوں کے درمیان چند بنیادی فروق موجود ہیں، مثلا افرم کے گیتوں میں جنت کو مکان کے اعتبار سے محدود کیا گیا ہے، اور قرآن میں اس طرح کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس طرح افرم کے گیتوں میں نفسانی اور جنسی خواہشات کی نفی کی گئی ہے، جبکہ قرآن کریم میں حور العین اور ازواج مطہرات کا ذکر خصوصی طورکیا گیا ہے جو افرم کے برعکس اثبات پر دليل ہے، تو قرآن کریم وحی اور کلام اللہ ہے نہ اس نے کسی حکم کے بیان یا منظر کشی میں تورات، انجیل یا دیگر مقدس کتابوں سے استفادہ کیا ہے، اور نہ یہ محرف ہے بلکہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، اور اگر کہیں تورات یا انجیل سے مماثلت پائی جاتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے، کہ ان سب کا منبع اور مصدر ایک ہے، اس لیے مماثلت ضرور ہوگی.

    (عالم خان گوموشان یونیورسٹی ترکی، میں فیکلٹی ممبر اور پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں)

  • مطالعہ اسلام میں مستشرقین کی دلچسپی کا بنیادی مقصد – عالم خان

    مطالعہ اسلام میں مستشرقین کی دلچسپی کا بنیادی مقصد – عالم خان

    عالم خاناسلام کے اس تفوق اور فضلیت کے بارے میں یقنا دو رائے نہیں ہوسکتی، کہ یہ وه عظیم ترین مذہب ہے، جو عالم انسانیت کے تمام ازلی وابدی معاملات کے بارے میں منطقی اور واضح حکمت عملی رکھتا ہے، اس عظیم مذہب کی اشاعت و ابلاغ اور قبولیت عام میں اس کی اعلی ترین تعلیمات کو دخل حاصل ہے، اور اہل اسلام کے لیے اس روز افزاں پذیرائی کی وجوہات کا ادراک چنداں دشوار نہیں. لیکن اسلام کا بڑھتا ہوا اثر ونفوذ یہود و نصاری کے اس طبقے کے لیے باعث حیرت ہے، جو اپنے مخصوص مذہبی رجحانات کے مقابل کسی اور مذہبی فکر کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے، اور کسی دوسری آفاقی صداقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں.

    یہود و نصاری کے علماء وحکماء کا ایک اہم طبقہ جو استشراق (Orientalism) سے وابستہ ہے، اس نے 19 ویں صدی سے تادم تحریر تمام فکری کاوشووں کا رخ اسلام کی طرف موڑ رکھا ہے. عوام الناس کی مطالعہ اسلام میں دلچسپی اور قبول اسلام کی بڑھتی ہوئی روش کے پیش نظر یورپ کے متعصب اور تنگ نظر صاحبان ثروت اور حکومتوں نے بھی اسلامو فوبیا کے زیر اثر اس طرف توجہ مبذول کر لی. لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں استشراق کی تفہیم کےلیے کوئی عالمانہ و منظم کاوش و تحقیق نظر نہیں آتی، دینی مدارس کے علمائےکرام و‍ طلبہ انگریزی زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے اس اہم موضوع کا مطالعہ اور اس پر تحقیق نہیں کرسکتے، جبکہ ہمارے کتب خانوں میں بھی اس حوالے سے مایوس کن صورتحال ہے، جس کی وجہ سے طلبہ اس موضوع کے بارے میں وسیع علم کے حصول سے قاصر ہیں.

    الحمد للہ راقم الحروف كو عصری علوم کے ساتھ ساتھ علوم دينيہ كى تحصيل كا شرف بھى حاصل رہا ہے، اور مختلف مکاتب فکر کے علماء سے استفادے کا موقع بھی ملا ہے، لیکن مدارس میں چونكہ فقہی مباحث پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، اس ليے اساتذہ ہر موضوع پر بقدر حاجت طالب علموں کو ائمہ أربعہ کے مذاہب سے روشناس کراتے ہیں، اور بعض اساتذہ اپنے مکتب فکر كو برحق تصور كرتے ہوئے مخالف کے دلائل کو شد و مد سے رد کردیتے ہیں، يہيں سے طلبہ کے ذہنى خلفشار كا آغاز ہوتا ہے، اور وہ درست و غلط كى الجھن ميں گرفتار ہو جاتے ہيں.

    اگرچہ اعتدال پسند علماء کی بھی کمی نہیں ہے، اور الحمدللہ مجھے زیادہ تر ان سے تحصيل علم کى سعادت حاصل رہى ہے، جہاں تک فروعی اختلافات كا تعلق ہے تو یہ اختلاف حق اور باطل کا نہیں جیسا کہ عموما بعض حضرات اس كا اظہار کرتے ہیں، اور نہ جواز و عدم جواز کا ہے، بلکہ أولی اور غیر اولی کا ہے، جیسا کہ ابو بکر جصاص الحنفی (وت370ھـ) نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر أحکام القران میں سورۃ البقرۃ أيت (183) يا أيھا الذين آمنوا كتب عليكم الصيام کے تحت ذکر فرمایا ہے. مدرسہ ميں پڑھنے كے دوران مجھے بحیثيت طالب علم يہ تجسس رہا، کہ غیر مسلم علماء ہمارے ان فقہی مباحث کے بارے ميں کس فكر كے حامل ہیں، اگرچہ بعد ازاں مجھے معلوم ہوا، کہ غیر مسلم فقہ کے بارے ميں کم اور اس کے مآخذ کے بارے ميں زیادہ بحث کرتے ہیں.

    جب علامہ تفتازانی(وت 792ھـ) كى علم الکلام کے حوالے سے معروف کتاب شرح العقائد النسفیہ پڑھی، اور اشاعرہ و ماتوردیہ کے علاوہ اور باطل فرقوں کے عقائد اور مناہج کے ساتھ ساتھ پہلی مرتبہ مستشرقین (Orientalists) کا نام سنا تو مختلف ذرائع سے معلومات كے حصول كى كوشش كى، ليكن جذبه تجسس تسكين نہ پا سكا. بين الاقوامي اسلامي يونيورسٹي اسلام آباد سے ايم فل كرنے كے بعد جب دسمبر 2013ء ميں ترکی كى ايک معروف يونيورسٹي ميں بحیثیت لیکچرار فرائض کی انجام دہى كا موقع ملا، تو معلوم ہوا کہ تركي كی جامعات ميں استشراق كے ماہرين موجود ہیں، جن سے یہ علمى تشنگى ختم ہو سكتى ہے، چنانچہ اسی سوچ کے زیراثر ڈاکٹریٹ كے مقالے كے لیے استشراق كو بطور موضوع منتخب كيا.

    پی ایچ ڈی كورس ورک كے دوران اور مابعد معروف مستشرقین کو پڑھنے کا موقع ملا، اسلام کے بارے ميں ان کے وقیع مطالعے اور تحقيقى باریک بینی کو دیکھا، تو ذہن ميں كئى اور سوالات ابھرے، کہ آخر وہ كيا وجوہات و مقاصد ہیں جن کی وجہ سے مستشرقين بطور خاص اپنا فوكس اسلام پر کیے ہوئے ہیں، وہ دیگر مذاہب كى تشريحات و تعبيرات پر اتنى توجه كيوں نہيں ديتے، حالانكہ ان كى اكثريت كا تعلق انھى مذاہب سے ہے. اس تحقيقى تجسس نے مختلف كتب اور مقالات کے مطالعے كے طرف راغب کیا تاکہ ان اسباب تک پہنچا جا سکے جن کی وجہ سے یہ لوگ اسلام کے بارے ميں پڑھنے پر مجبور ہوئے. مختلف قومی اور بین الاقوامی کانفزنسز میں بھی اپنا یہ سوال کئی اہم شخصیات كے سامنے رکھا جو اس میدان کے شہسوار ہیں، لیکن وہ سارے وہی اسباب بیان کرتے تھے، جو ایک مسلمان ان کی کتب پڑھنے کے بعد محسوس کرتے ہے کہ ان کا بنیادی مقصد صرف مسلمانوں کے ذہنوں ميں اسلام کے بارے ميں شكوك وشبہات پيدا كرنا ہے وغیرہ وغیر، لیکن مطالعے کے دوران Dr Harald Motzki جو ایک عظیم مستشرق ہے، اور اسلام کے بارے ميں عموما اور حدیث کے بارے ميں خصوصا کافی معلومات رکھتا ہے، اوراس نے کئی مواقع پر اسلام کا دفاع بھی کیا ہے، اس کا ایک مقالہ Dating Muslim Traditions. A Survey پڑھنے کو ملا، اس کے مطابق مستشرقین حدیث کے پڑھنے میں اس لیے دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ اسلامی تاریخ کو از سر نو مرتب کر سکيں. یہ پڑھ کر مجھے اپنے سوال کا ادھورا جواب ملا، که یہ لوگ تاریخ سے آگاہى کےلیے حدیث كا مطالعہ كرتے ہیں لیکن سوال يہ ہے كہ تاریخ اسلامی تو ہماري كتب ہائے تاريخ میں موجود ہے، تو دوبارہ تاریخ کے مرتب كرنے ميں ان كی کیا غرض پوشيدہ ہے.

    اسی تلاش و جستجو میں ایک ایطالی مستشرق Leone Caetani (وت 1935م) سے باقی آدھا جواب ملا. اس کو مستشرقین میں ایک عظیم تاریخ دان سمجھا جاتا ہے، صاحب ثروت تھا، اسلام کے بارے ميں تحقیق کے ضمن ميں لاكھوں ڈالر خرچ كيے، خود ہندوستان، ایران، مصر اور شام کا سفر کیا، تاکہ وہاں کے علماء سے ملاقات اور مشرقی سوسائٹی کا عموما اور مسلمانوں کا خصوصا قریب سے مشاہدہ کرسکے. اس کی ایک عبارت ڈاکٹر قحطان حمدی محمد کے عربي مقالہ ”أدوار المستشرقین فی تشویہ العالم“ میں ملی، جو كہ اس کے کتاب كے مقدمہ سے لي گئی ہے، اس ميں اس نے خطير رقم خرچ كر نے اور تحقيقى كاوشوں كے حوالے سے کاوشوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ”ہم اسلام کو اس لیے سمجھنے كى كوشش اور اس پر تحقیق کرتے ہیں کہ ان اسباب کو تلاش کريں، جنھوں نے عیسائیوں کو عیسائیت ترک کرنے پر آمادہ کیا ہے، اور جو ابھی تک محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان کی رسالت پر یقین رکھتے ہیں.“ Leone Caetani وہ شخص تھا جس كے بارے ميں مشہور تھا کہ وہ ايسے گروہ تیار کر تا تھا، جو مسلمانوں ميں انتشار پیدا کرکے مفتوحہ علاقے ان سے چھين لیں.

    مستشرقین بنیادی طور پر اسلام کا مطالعہ اس مخصوص غرض كى بنا پر کرتے ہیں کہ ان اسباب کو تلاش کرسکيں جس کے بدولت اسلام یہودیت اور نصرانیت پر غالب آيا ہے اور تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے، اس مقصد كے حصول کے لیے مستشرقین نہ صرف انفرادی طور پر مال و دولت خرچ کرتے ہیں بلكہ ان كے مشنرى جذبے كو فروغ دينے كے لیے يہودى و عیسائي حکومتیں بھی ان كى سرپرستى کرتی ہیں. Robert payne (وت 1631م) نے اپنی کتاب The Holy Sword The Story Of Islam کے مقدمہ میں بھى اس مقصد كى طرف اشارہ كيا ہے، وہ لکھا ہے کہ
    we have good reasons to study the Arabs and probe into their ways of thoughts, for have conquered the world before, and may do it again, the fire lit by Muhammad still burns strongly and there is every reason to believe that the flame is unquenchable.
    اس سے ان كا خوف اور اسلام كے بارے ميں تحقيق كا مقصد بخوبى واضح ہو جاتا ہے.

    Ignác Goldziher (وت 1921م) کا سن (1873م) میں دورہ شام، فلسطين اور مصر بھی اس کی ايک کڑی ہے، اس نے حکومتی خرچے پر شام میں شيخ طاہر الجزائرى (وت 1920م) اور مصر میں شيخ محمد عبدہ (وت1905م) کے دروس میں شرکت کی تھى، اس کے بعد اس نے اسلام کے بارے ميں جو لکھا اس سے پورے یورپ میں اسلام كے حوالے سے تہلكہ مچ گيا، مسلمان ابھی تک اس کے جواب تحرير كر رہے ہیں.

    اگرچہ اور بھى كئى اسباب ہوں گے، مگر بنیادی مقصد اسلام كى مقبوليت اور غلبہ كے بنيادى اسباب كى جانچ پركھ ہے، اور ظاہر ہے، فہم قرآن اور علم حديث كے بغير مستشرقين كے لیے ان اسباب و وجوہات كا پتہ لگانا كار دشوار ہے، سو ہم كہہ سكتے ہيں، كہ اسلام كا تيزي سے بڑھتا ہوا اثر و نفوذ مستشرقين اور ان كى سرپرست حكومتوں كے لیے ايک اہم سوال ہے، جس كے حل كے لیے انھيں اسلام كى تفہيم كي ضرورت پيش آتى ہے.
    (عالم خان گوموشان يونيورسٹى، تركى سے بطور لیکچرار وابستہ ہیں، اسی موضوع پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھ رہے ہیں)

  • پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش شروع(قسط دوم)-ضیاء شاہد

    پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش شروع(قسط دوم)-ضیاء شاہد

    zia shahid

    سب سے پہلے گاندھی کے سیکرٹری ”ماہا دیوڈیسائی“ نے اپنی کتاب ”خدا کے دو خدمت گار“ میں خان برادران کے بارے
    میں انکشاف کیے جس کا دیباچہ خود گاندھی جی نے لکھا ”جب غفار خان سے اپنے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی بیوی کے
    بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ شادی کے بعد مسلمان ہو گئی تھیں تو غفار خان نے کہا ”میں نے کبھی اس بارے میں نہیں پوچھا، کیونکہ شادی مذہب کی تبدیلی کا باعث کیوں بنے، خاوند اور بیوی اپنے اپنے مذہب کے کیوں نہ پابند رہیں۔“

    ایک اور موقع پر ڈیسائی لکھتے ہیں ”غفار خان روزانہ صبح آشرم میں آتے تھے اور گاندھی جی سے تُلسی داس کی رامائن سُنا کرتے تھے وہ صبح شام پرارتھنا (دُعا) میں بھی شامل ہوتے تھے، اُن کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے ایک مرتبہ کہا کہ ”پیارے لال جی، اس بھجن کی دُھن میری روح کو مسحور کر دیتی ہے مہربانی کر کے اُردو رسم الخط میں اس کا ترجمہ کر دیں۔“اپنی آب بیتی میں غفار خان نے لکھا ہے ۔جس کا نام ”جدوجہد“ ہے۔”ہندوآشرموں کی سادہ زندگی مجھے بہت پسند آئی اور مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ یہ خیال آیا کہ میں بھی ”خدائی خدمت گاروں“ کی تربیت کے لئے ایسے ہی آشرم بناﺅں۔“ بعدازاں ڈاکٹر خان صاحب نے چارسدہ کے قریب اسی طرح کا ایک آشرم تعمیر بھی کروایا جس میں ہندو مرد اور عورتیں آیا کرتے تھے۔ اس آشرم کی تعمیر کیلئے کانگریس نے غفارخان کو 25 ہزار روپے کا چندہ بھی ارسال کیا۔

    ڈاکٹر خان صاحب نے اپنی بیٹی کو انگلستان سے واپس بلا کر واردھا کے کنیا آشرم میں داخل کروادیا جس کے بارے میں ٹنڈولکر نے اپنی مشہور کتاب میں لکھا ہے”ڈاکٹر خان صاحب کا یہ قدم بہت خوب تھا کیونکہ اگر ایک پٹھان لڑکی انگلستان میں تعلیم پاسکتی ہے تو واردھا کے کنیا آشرم میں تعلیم حاصل کرنے میں کیا دقت ہے۔“ڈیسائی کے کتاب کے صفحہ 98 پر لکھا ہے۔”ڈاکٹر خان صاحب نے اپنے بچوںکو نصیحت کی کہ بہادر بننا اور گاندھی اور جمنا لال جی کے سائے میں سادگی اور تہذیب سیکھنا۔“ڈیسائی کی ہی کتاب سے خان عبدالغفار خان کی گفتگو ملاحظہ ہو۔”مہاتما گاندھی کی زندگی میں جب کوئی مشکل موقع آتا ہے تو میرا دل کہتا ہے کہ اس شخص کا فیصلہ درست ہوگا جس نے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے سپرد کردیا ہے اور خدا کسی کو غلط راستہ نہیں بتلاتا۔“

    گاندھی جی کی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے حوالے سے بات چھڑی تو غفار خان نے کہا”گاندھی اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتے ہیں اور پھر اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں‘ سچ تو یہ ہے کہ اس مسلح اعظم کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔“علماءہی بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں اور فقیہان ہی یہ رائے دے سکتے ہیں کہ خان عبدالغفار خان کے ان نظریات کے بعد وہ کس حد تک مسلمان تھے۔اس موقع پر ڈیسائی کی کتاب ”خدا کے دو خدمتگار“ کے صفحہ 29 پر درج یہ جملہ ملاحظہ کریں‘ غفار خان کہتے ہیں ”مجھے 1930 ءمیں انڈمان کے پنڈت جگت رام نے باقاعدہ گیتا پڑھائی اور اس کا صحیح مفہوم سمجھایا‘ اب تک میں نے تین بار گیتا پڑھی ہے‘

    قرآن شریف میں صاف صاف لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر قوم میں ہادی بھیجے ہیں اور وہ سب اہل کتاب ہیں۔“اس مسئلے پر ٹنڈولکر کی کتاب ”خان عبدالغفار “ میں صفحہ 73 پر لکھا ہے۔ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔”مقدس کتاب (قرآن پاک) کہتا ہے کہ اللہ نے تمام قوموں میں لوگوں کےلئے پیغمبر اور ہدایات دینے والے بھیجے اور وہ سب پیغمبر نبی ہیں۔ سارے اہل کتاب ہیں۔ لہٰذا ہندو کسی بھی طرح عیسائیوں‘ یہودیوں سے کم اہل کتاب نہیں۔ جب غفارخان سے پوچھا گیا کہ اکثر مسلمان تو ایسا نہیں سمجھتے تو انہوں نے جواب دیا۔”وہ نہیں سمجھتے کہ ہندو اور ان کی کتاب ”قرآن مقدس“ میں اس لئے نہیں ہیں کہ قرآن مقدس میں فہرست مکمل نہیں ہے اور اس کی حیثیت محض مثال کے لئے ہے۔ مقدس قرآن میں صرف اصولوں کی صراحت کی گئی ہے وہ سب لوگ جو مقدس کتابوں سے متاثر ہوئے وہ اہل کتاب ہیں۔“

    ماہا دیو ڈیسائی اور ٹنڈولکر دونوں نے اپنی کتابوں میں ایک ہی واقعہ نقل کیا ہے‘ الفاظ ملاحظہ ہوں۔”غفار خان نے جیل میں گوشت چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور جب تک جیل میں رہے کبھی گوشت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ جیل سے باہر آنے کے بعد بھی یہ طریقہ جاری رکھا۔ اپنی آپ بیتی میں ان کا بیان ملاحظہ ہو‘ صفحہ 634 پر لکھتے ہیں۔”ایک جلسے میں کسی کی شرارت پر بعض لوگوں نے شور مچایا اور میری تقریر کے دوران سوال کیا کہ ”گائے کو ذبح کرتے ہو؟“ میں نے کہا ”میں قصائی نہیں ہوں اور مسلمانی گائے کے ذبح کرنے پر منحصر نہیں ہے۔“اپنے رسالے ”پشتون“ میں غفار خان نے ایک ڈرامہ شائع کیا جس میں ایک حکیم اور دانش مند کے مابین مکالمہ کچھ یوں ہے۔دانش مند….”نہ کوئی نیکی‘ نہ برائی ‘ کم عقل لوگوں نے بعض چیزیں اچھی قرار دی ہیں‘ دوزخ‘ جنت‘ خیروشر‘ جزا اور سزا‘ انصاف اور ظلم تمہارے اندر ہے‘ تو اپنے آپ کو پہچانو‘ کیونکہ جو اپنے آپ کو نہیں پہچان سکتے ان کے لئے بیوقوفوں نے اپنے لئے خدا بنا رکھا ہے۔

    حکیم….”توبہ کرو اور استغفار پڑھو‘ ہوسکتا ہے کہ خدا تم پر رحم کردے اور تمہیں ایمان نصیب ہوجائے۔“دانش مند……..”کس سے رجوع کروں اور کس سے توبہ کروں‘ کون رحم کرے گا‘ تم عقل کے ہوتے ہوئے بھی بیوقوف ہو جو ایسی باتیں کرتے ہو۔“مفتی مدرار اللہ مدرار کے بقول 1969ءمیں غفار خان کانگریس سے ایوارڈ وصول کرنے بھارت گئے اور ان کی تصویریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ ان تصاویر میں غفار خان کے ماتھے پر مسز اندرا گاندھی نے ”قشقاہ“ یعنی تلک لگایا اور غفار خان نے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا‘ اپنی کتاب ”دو خدائی خدمت گار“ میں ڈیسائی نے صفحہ 29 پر لکھا ہے۔”غفار خان کے قدر دان محبت سے اور مخالف نظر سے انہیں سرحدی گاندھی کہتے ہیں۔

    غفار خان نے گاندھی کی زندگی کا بڑے غور سے مطالعہ کیا اور ان کی پیروی کی۔ جیل خانے میں نہ صرف وہ ہفتے میں ایک دن روزہ رکھتے بلکہ ایک دن مرن برت بھی رکھتے تھے۔ پچھلے اگست میں مہاتماگاندھی نے سات دن کا برت رکھا تو غفار خان نے کہا کہ میں نے بھی سات دن کا روزہ رکھا اور شام کو صرف نمک ملا ہوا پانی پیا کیونکہ یہ کہنا تنگ نظری ہوگا کہ عام طور پر جس طرح مسلمان روزہ رکھتے ہیں وہی صحیح روزہ ہے۔غفار خان نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے رسول کریم نے اکثر دن رات متواتر روزے رکھے۔ آنحضرت کو کسی غذا کی ضرورت نہ تھی کیونکہ ان کا قول تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں روحانی غذا بھیجتا ہے جبکہ عام انسانوں کو یہ غذا نہیں ملتی۔علمائے کرام ان الفاظ پر خود غور فرمائیں اور یہ فیصلہ دیںکہ کیا ان خیالات کے باوجود غفارخان کو مسلمان کہا جاسکتا ہے؟
    (جاری ہے)

    قسط اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے
    بشکریہ روزنامہ خبریں
  • کیا ہم قرآن کا حق ادا کر رہے ہیں؟ کاشف خان

    کیا ہم قرآن کا حق ادا کر رہے ہیں؟ کاشف خان

    قرآن مجید جیسی بیش بہا قیمتی کتاب اس امت کو عطا کی گئی ہے تو اس کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے، شکریہ کے معنی یہاں قرآن مجید کے حقوق ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں.

    1. ایمان لانا: خدا اور اس کے رسول پر اور جو کتاب ہم نے پیغبر پر نازل کی ہے اور جو کتابیں ہم نے اس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان لاؤ. سورۃالنساء: 136. قرآن کو پڑھنے اور سمجنے کے لیے یہ سب سے اہم ہے کہ اس پر تہہ دل سے ایمان لایا جائے.

    2. تلاوت کرنا: قرآن کو سمجھنے، عمل کرنے اور اسے آگے پھیلانے کےلیے ضروری ہے کہ اسے پڑھا جائے، تلاوت کی جائے. اس کا ذکر قرآن میں کافی جگہ ملتا ہے. جن لوگوں کو ہم نے یہ کتاب عطا کی ہے وہ اس کو ایسا پڑھتے ہیں جیسا کہ اس کو پڑھنے کا حق ہے، یہی لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جو نہیں مانتے وہ خسارہ پانے والے ہیں. البقرہ :121

    3. تبلیغ کرنا: قرآن کو پڑھنے اور ایمان لانے کے بعد یہ ہم پر فرض ہے کہ اسے آگے بڑھائیں. قرآن میں حکم ہے کہ ”پس تو کافروں کی بات نہ مان اور اس (قرآن مجید) کے ذریعے سے ان سے جہاد کر.“ اس لیے ضروری ہے کہ قرآن پاک کے احکامات کو آگے بڑھایا جائے.

    4. سمجھنا اور عمل کرنا : یہ سب سے اہم فرض ہے، جیسا اس کا حق ہے ویسے پڑھا جائے. اور اس کے ساتھ عمل کو لازم کر لیا جائے.

    خلاصہ بحث: جب تک مسلمانوں نے اسے اپنا شیوا بنائے رکھا، تب مسلمان خوشحال اور غالب ہوا کرتے تھے کیونکہ قرآن ان کی زندگی کا ایک جز تھا، کسی مسلم بستی سے گزرنے والا لازماً یہ محسوس کرتا تھا کہ یہ ایک مسلم بستی ہے کیونکہ قرآن کی برکت سے اس سے الگ ہی قسم کی رونق آتی تھی. مسلمانوں میں عجیب قسم کا پیار اور اتحاد ہوا کرتا تھا مگر اب یہ کیا ہوا کہ ہر جگہ نفرت اور اختلافات کا بازار گرم ہے. آج ہم دینی اور دنیاوی حثیت سے تباہ ہو چکے ہیں اور یہ سب قرآن سے دوری کی وجہ سے ہے کیونکہ قرآن ایک مرکز ہے اور جب مسلمان مرکز سے دور ہوئے تو اختلاف بڑھتے چلے گئے.. اگر ہم اپنے زوال کی وجہ خود قرآن سے پوچھیں تو وہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے حالات و نفسیات نہ بدلے.

    آج پوری دنیا کے مسلمان ظلم وجور کی چکی میں پس رہے ہیں اور زبان حال سے فریاد کر رہے ہیں کہ رحمتیں ہیں تری اغیار کے آشیانوں پر، برق گرتی ہے تو بےچارے مسلمانوں پر، مگر اس فریاد سے پہلے ہمیں خود بحیثیت ملت یہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس طرح کے ناگفتہ حالات ہمارا ساتھ کیوں نہیں چھوڑ رہے. آج ہم دیکھیں کہ قرآن کو کن کاموں کے لیے استمال کیا جا رہا ہے، وہ قرآن جو قوموں کی تقدیریں بدلنے کے لیے آیا تھا اس کو ہم نے صرف قبرستانوں اور مُردوں تک محدود کر دیا ہے، اور کچھ نے اسے روزی کا ذریعہ بنا ڈالا ہے. کیا یہ ہے قرآن کا حق؟ کیا قرآن دھو کر پلانے سے حق ادا ہو گا یا تعویذ بنانے سے؟

    ملت اسلامیہ کی تقدیر اس وقت تک نہیں بدلے گی جب تک قرآن کے حقوق ادا نہ کیے جائیں گے. ہمارے عروج و بلندی کے لیے اگر کوئی زینہ ہے تو وہ قرآن پاک ہے، ہماری قسمت اسی کے ساتھ وابستہ ہے، اس لیے ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ قرآن کو ہم اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔
    وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
    اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

  • اسلام اور قومی ریاست کا تصور-سعادت سید

    اسلام اور قومی ریاست کا تصور-سعادت سید

    sadat said کسی حکم کی شرعیت کا ثبوت شریعت کے اپنے مآخذ اور اصولوں ہی کےاندرسے ڈھونڈھنا لازمی ہے، لیکن روایت کچھ ایسی بنتی دکھائی دے رہی ہے کہ اب احادیث اور قرآن سے براہ راست استدلال کا “فیشن” کم ہو رہا ہے اورموجودہ ٹرینڈز میں “ان/in” کی بنیاد پر ایک رائے بنا کراسکے لئے شریعت کےمآخذ میں سند جواز کی تلاش کی جاتی ہے اور اس طرح وہاں ان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر سمجھنے اور استدلال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے. جو کہ اس طرز عمل کا لازمی تقاضہ ہے.

    اسکے برعکس قرآن فہمی کی پہلی شرط ہی قرآن نے یہی بیان کی ہے کہ یہ ہدایت ہے مگر ان لوگوں کیلئے جو ہدایت کی طلب سے اس کا مطالعہ کرتے ہوں…”هدہدی للمتقین”… نہ کہ کسی مفروضہ بات کیلئے دلیل ڈھونڈھنے کی نیت سے پڑھنے والوں کو. تلاوت کے اپنے معنی ہی میں یہ اتباع اور پیچھا کرنے کی بات ہے….والشمس و ضحاهاوالقمر اذا تلاها…”سورج کی اور اسکی دھوپ کی قسم .اور چاند کی جب وه اسکے پیچھے آئے”

    قرآن، حدیث، اجماع، تاریخ، صحابہ کرام اور دیگرسلف صالحین اور مسلمان فقہاء کی آراء کو نظرانداز کرکے ایک رائے قائم کرنے کیلئے کیا جائز ہے کہ اسکوشرعی رائے کا نام دیا جائے… بہت ساری آرا اور نظریات غیر مسلم بھی تو پیش کرتے رہتے ہیں اور انکو اسلام کا نام دئے بغیربھی چاہے کچھ وقت کیلئے ہی سہی پزیرائی مل ہی جاتی ہے تو ان social scientists کی طرح ہمارے وہ حضرات بھی کیوں نا اپنی آراء کو اسلامی رنگ دئے بغیر ‘مارکٹ’ کریں. کیا ان کو یہ تشویش لاحق ہوتی ہوگی کہ انکی اتنی “مارکٹ ویلیو” نہیں بنےگی اور خاطر خواہ قبول عام نہیں ملے گا.

    مثلا کیا یہ پیٹریارککل اور میٹریارککل اور سوشل کانٹریکٹ تھیوریاں گڑتے وقت ان حضرات نے اسکو شریعت قرار دیا تھا؟ اورغلط یا نقائص سے بھرپور ہوتے ہوئے آج بھی پڑھائی جاتی ہیں تو اتنی اہمیت اور پذیرائی کیا کم ہے؟

    اس طرح کی pick and choose کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم شریعت کے ساتھ بھی موجودہ دور کے وکیلوں کی طرح سلوک کرنے لگ جاتے ہیں جو مختلف statutes and precedence کو الٹتے پلٹتے ہوئے اپنے خلاف حوالوں کو نظرا نداز کرتے ہوئے صرف اپنے حق میں دلائل ڈھونڈھتے رہتے ہیں PLD میں 20 حوالے خلاف ہوں تو ایک تو مل ہی جائیگا اس کو نوٹ کر لیتے ہیں اور جج کے سامنے ایسے پیش کرتے ہیں جیسے بس کتابوں میں صرف یہی متعلق حوالہ تھا اور باقی ساری چیزیں غیر متعلق…….پورا قرآن ختم کرتے ہوئے ان میں سے کسی آیت پر غور کیلئے نہیں ٹہرا جاتا…..لیيظهره علی الدین کله…..والذين ان مكناهم في الارض…کنتم خیر امة اخرجت للناس….ان اقيموا الدين ولا تتفرقوا فيه…..ان الحكم الالله…..(لتحكم بين الناس بما اراك الله….واجعل لي من لدنك سلطانا نصيرا)______لیکن out of context ان کو ….”انتم اعلم بامور دنیاکم” کی حدیث ضرورنظرآئیگی…..یہ حقیقت ذہن میں رکھ کر پڑھینگے تو آپ پر واضح ہوتا جائیگا کہ مولانا مودودی کی “تعبیر” میں نہیں بلکہ وحید الدین خان صاحب اور جاوید احمد غامدی صاحب یا ان جیسے اور حضرات کی “فکر” میں ہی غلطی ہے.

    حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کو لے کر بھیجے گئے جس کو اللہ تعالی نے خود کامل دین کہا، جس کو اپنی بیش بہا نعمت سے تعبیر کرتے ہوئے ہمارے لئے پسند کیا اور اسکے علاوہ کسی بھی نظام کو ناقابل قبول قرار دیا اور جس پورےدین کےبارے میں قبر میں اور یوم الحساب پوچھا جائیگا اور اسی پر کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ ہوگا، کیا وہ اسقدر ناقابل فہم اور بے وقعت ہے کہ پوری مسلم امت کو اسکی بعثت سے لیکر آج تک درخور اعتنا نہ سمجھ کرایک دو حضرات کی آراء پر موقوف کر کے انکی کم فہمی یا کج فہمی کی نذر کیا جائے؟(اس بات کا ابوالحسن علی ندوی کی تنقید سے موازنہ نہیں کیونکہ مولانا مودودی نے عام لوگوں میں بنیادی اصطلاحات کی محدود فہم کی بات کی تھی جسکی حقیقت اب بھی ہمارے سامنے ہے اسکے برعکس یہ موجودہ فکر اصل میں ہے ہی سلف صالحہ سے موجودہ دور کے قابل ذکر علماء کی”کم فہمی” یا “غلط فہمی”کے متعلق) اور ایسا کرنے والے کیا خود اس نظام کو اپنی استطاعت کے مطابق بے وقعت کر نے کی کوشش نہیں کر رہے…..کیا محض اس دلیل سے کہ دنیا میں اب کچھ اور چل رہا ہے کسی چیز کو شرعی جواز دینے کو justify کیا جا سکتا ہے؟ غلط کاریاں اور باطل نظریات تو ہر دور میں غالب رہی ہیں تو کیا وقت کا نبی ان کی تائید کیلئے بھیجا جاتا یا اس کی اصلاح کیلئے, اور اگر تائید ہی کرنی تھی تو بھیجنے کا مقصد ہی کیا؟ بس جو لوگ کر رہے ہیں انکو کرنے دیں….

    وقتی طور پر حالات کے جبر سے مغلوب ہو کر ایک چیز کو وقتی ہی طور پر جائز کہنا….اس وقت تک جب تک حالات ناسازگار ہوں….خود شریعت کے ہی اصولوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے..لیکن اسکو مکمل جواز کے طور پر لینا ایک بالکل ہی الگ اور خطرناک چیز ہے…….جتنی جتنی “مغربیت” یا “جدیدیت” موجودہ دور میں ہمارے لئے “ناگزیر” ہے اس کو اسی ضرورت کی حد تک رکھ کر لیا جا سکتا ہے….اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ مستقبل میں اصلاح کی امید رکھی جا سکے گی،اور دین اپنی اصل شکل میں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہوگا. اور اسکو اپنی اصل شکل میں نفاذ کی جدو جہد بھی ہوگی…اسکے برعکس کسی غلط چیز کو مستقل سند جواز دے کر مستقبل میں اصلاح کی امید ہی مسدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.

    قومی ریاست کے تصور کو شریعت سے ثابت کرنا خود ایک عجیب سی بات ہے….جس رسول نے روم کے صہیب، فارس کے سلمان، حبشہ کے بلال کو ایک کلمے کی بنیاد پر اکھٹا کیا اس سے یہ ثابت کرنا کہ سلمان بلال اور صہیب( رضی اللہ عنہم اجمعین ) کے پاسپورٹس پر ویزے لگائینگے تو مدینہ میں آنے دیا جائیگا ورنہ نہیں اور آنے کے بعد بھی اتنی مدت بعد وہ دخول و خروج کی requirements پوری کرینگے تب وہ جائز شہری تصور ہونگے ورنہ deport کئے جائینگے….لا حول ولا قوة…کیا فرضی لکھیروں سے بنی قومیت، نظرئے اور عقیدے پر بنی قومیت سے زیادہ مضبوط ہے….محظ لکھیروں سے تو زبان، رنگ اور نسل کی بنیاد زیادہ مضبوط ہے…اسی لئے جاپان، چین اور عرب وغیرہ ریاستوں میں زیادہ یکجہتی اور ہم آہنگی ہے…..اسکی بنہ نسبت اسلامی نظریے سے دوری کی وجہ سے پاکستان کی فرضی لکھیروں سے بنی قومیت بھی کمزور پڑ رہی ہے اور ہر صوبے کو پاکستان سے زیادہ اپنے صوبے کی پڑی ہے اور معمولی اختلافات پر پاکستانی سے لوگ پنجابی، سندھی پختون اور بلوچ بن جاتے ہیں… اسطرح ریاست کی سب سے مضبوط بنیاد نظریہ ہے اور نظریوں میں ہمارا ایمان ہے کہ اسلام ہی سب سے بہتر اور قابل عمل اور یکجا رکھنے کی صلاحیت رکھنے والا نظریہ ہے جو نہ صرف پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو یکجا رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے….جو کہ محض کتابوں تک محدود نظریات کی طرح نہیں بلکہ عملا ثابت شدہ حقیقت ہے.

    “ان هذہ امتکم امة واحدة و انا ربكم فاعبدون”….كنتم خير امة اخرجت للناس…..مختلف قومی ریاستوں میں بٹھے ہوئے دشمنوں کی نہیں بلکہ بھائیوں کی امت….انما المؤمنون اخوة.

    ان حالات میں کہ جب ترقیافتہ ممالک خود قومی ریاستوں کو علاقائی آمد و رفت اور تجارتی آزادی کے معاہدات کے زریعے ایک دوسرے سے ملا کر دنیا کے فاصلوں کو مٹارہے ہیں اوران فرضی لکھیروں کے نقصانات کو کم سے کم کر ریے ہیں ہمارا اس کو مضبوط کرنے اور ستم بالائے ستم انکو شرعی جواز دینے کے درپے ہونا شریعت کے آفاقی کردارسے امت مسلمہ کے تصور سے اور موجودہ دور میں قومی ریاستوں کے بارے میں جدید رجحانات کی حقیقت سے بھی لاعلمی پر مبنی ہے.

    مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے ایک رائے بلا تحقیق دی اور علامہ اقبال رحمہ اللہ نے خلاف عادت اس پر نام لیکر سخت مواخذہ کیا اور انکے حامیوں کی یا انکی بھی یہی وضاحت بعد میں آئی کہ یہ انہوں نے شریعت کے اصول کی نہیں بلکہ موجودہ دور کے ٹرینڈ/چلن کی بات کی ہے جو کہ انکے مرتبے کے علماء کے بارے میں زیادہ قرین انصاف ہے…ایسا نہ بھی فرض کیا جائے تو دین میں ایسی رائے کی کوئی حیثیت نہیں جسکی پشت پر واضح شرعی دلائل نہ ہوں چاہے وہ کسی بھی فقیہ کی ہو۔…..واللہ اعلم

  • کیا جنات حقیقت ہیں؟ مجیب الحق حقی

    کیا جنات حقیقت ہیں؟ مجیب الحق حقی

    مجیب الحق حقی کیا جنّات حقیقت ہیں؟
    کیا سائنس آگ سے زندگی کی تصدیق کرتی ہے؟
    جواب یہی ہوگا کہ سائنس موجودہ علوم کی روشنی میں اس کی تصدیق نہیں کرتی۔
    لیکن ا س موضوع پر سائنس، کامن سینس اور قرآن کے زاویوں سے طائرانہ نظر ڈالنا ایک دلچسپ امر ہوگا۔

    کائنات اور اس میں زندگی کے حوالے سے سائنسی نقطۂ نظر مختصراً یہ ہے کہ کائنات ابتداء میں انتہائی گرم تھی اور آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوئی یہاں تک کہ زمین پر پانی ظاہر ہوا، پھر بہت سے کیمیائی عمل کے بعد مناسب درجہ ٔحرارت پر اس میں آبی زندگی شروع ہوئی۔ اب ظاہر ہے کہ اگر کوئی ایسی زندگی جس کا مآخذ تپش اور آگ ہو تو وہ قدرتی طور پر تُرابی یا آبی زندگی سے پہلے وجود میں آئی ہوگی اور فطری طور پر ایک شعلہ فگار ماحول میں اُبھری زندگی کے پیرامیٹرز یا اس کی ساخت، شعور اور حواس خلیے میں پیدا ہونے والی کسی بھی حیات سے یا انسان سے بالکل جدا نوعیّت کے ہوں گے۔ با الفاظ دیگر دہکتے ستارے میں حرارتی توانائی سے کوئی زندگی ظاہر ہوتی ہے تو وہ ویسے ہی لطیف خواص کی حامل ہوگی جیسا کہ توانائی! ہم اسے حرارتی حیات Thermal Life کا نام دے سکتے ہیں۔ قدرتی طور پر کسی ایسی زندگی جس کا منبع origin خلیے کے بجائے توانائی سے منسلک ہو، وہ انسان کے شعور سے ماوراء ہوگی اور اس کی تصدیق عام حواس سے ممکن نہیں ہوگی۔ سائنس تو اجنبی زندگی کے بارے میں تذبذب میں ہے لیکن آئیں اور حیرت زدہ ہوکر پڑھیں کہ ایسی حیات کی تخلیق کے حوالے سے قرآن کیا کہتا ہے!
    قرآن: سورۃ الحجر (۱۵) آیات ۲۶۔۲۷
    وَلَقَد خَلَقنَا الِا نسَانَ مِن صَلصَالٍ مِن حَماٍَ مَسنْونٍo وَالجَاٰنَّ خَلَقنَاہ ُمِن قَبلُ مِن نَارِ السَّمْومِ o
    ـ اور ہم نے انسان کو سڑی مٹّی کے سوکھے گارے سے بنایا۔ اس سے پہلے ہم جنوں کو آگ کی لَپٹ سے پیدا کرچکے تھے۔

    یہ اگر انسان کی تحریر ہوتی تو اس میں’’قبل یا اس سے پہلے‘‘ کا حوالہ نہ ہوتا کیونکہ 1400 سال قبل کا کوئی بھی انسان حیات کی تخلیق کے مدارج اور ارتقاء کے درجوں کا سائنسی علم نہیں رکھتا تھا۔ یہاں قرآن کی یہ صراحت حیران کُن ہے کہ انسان سے پہلے جنّات کی آگ سے تخلیق کی گئی جو سائنسی علوم کے مطابق حیات کے فطری ارتقاء میں منطقی درجہ ہوگا۔ یہاں انسانی پیدائش کے حوالے سے نظریۂ ارتقا کی تصدیق ہرگز مقصود نہیں بلکہ ایک عمومی پیرائے میں یہ بتانا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ قرآن انسان کی تخلیق کے حوالے سے جس مٹّی کا تذکرہ کرتا ہے وہ کائنات کے ٹھنڈا ہونے پر ہی بنی ہوگی جس میں تقریباً تمام عناصر مختلف تناسب سے موجود ہیں۔ سائنس کے مطابق عناصر elements ہی مل کر انسان بناتے ہیں جن میں آکسیجن، کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کیلشیم، فاسفورس، پوٹیشیم، سلفر، سوڈیم، کلورین، میگنیشیم اور ان کے علاوہ کسی حد تک تمام دوسرے عناصر بہت کم تناسب میں شامل ہیں، لیکن یہ واضح رہے کہ ان عناصر کے باہمی کیمیائی عمل سے زندگی کے ظہور میں جلنے cumbustion یا سُلگنے کا عمل شامل نہیں ہے۔ جلنا Combustion ایک کیمیکل یا کیمیائی عمل ہے جس میں عناصر کے جلنے سے روشنی اور تپش پیدا ہوتی ہے جس میں آکسیجن کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ یہاں ایک منطقی سوال ابھرتا ہے کہ جب زندگی عناصر کے باہمی ملاپ یعنی مخصوص کیمیا ترکیبی specific-chemical-actions-reactions سے پیدا ہوتی ہے تو یہ پیرایہ صرف ایک ہی کیوں ہو؟ ان ہی عناصر میں سے کچھ عناصر کا جلنے cumbustion کے کسی مخصوص عمل کے دوران حیات کو جنم دینا خارج از امکان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جلنا بھی ایک کیمیائی عمل ہے۔ جدید سائنس خلیوں میں ظاہر ہونے والی طبعی حیات کا راز نہیں جان سکی جو کہ آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے اور ابھی تک ایک لاینحل معمّہ ہے تووہ کس بنیاد پر کسی حرارتی حیات کو مطلق رد کرسکتی ہے جبکہ دور جدید کے مشہور ترین سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ Stephen Hawking نے کہا کہ: ’’ہمیں یقین ہے کہ زمین پہ زندگی اچانک ابھری ہے تو یقیناً اس لامحدود کائنات میں زندگی اورطرح سے بھی وقوع پذیر ہوئی ہوگی۔‘‘
    “We believe that life arose spontaneously on Earth,” Hawking said at Monday’s news conference, “So in an infinite universe, there must be other occurrences of life.”
    https://www.washingtonpost.com/news/speaking-of-science/wp/2015/07/20/stephen-hawking-announces-100-million-hunt-for-alien-life/
    اور اسی یقین کی بِنا پر اس سائنسدان نے کسی ایسی مخلوق کی تلاش کے عمل میں مدد کے لیے ایک سو ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس بات کا امکان بھی ہے کہ خلائی مخلوق کے مقابلے میں انسان کیڑے مکوڑوں سے بھی حقیر ہوسکتے ہیں اور وہ ہمیں اس طرح برباد کرسکتے ہیں جس طرح ہم چیونٹیوں کو۔ http://www.space.com/29999-stephen-hawking-intelligent-alien-life-danger.html

    اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ جدید سائنسدان اجنبی حیات کو کسی نامعلوم پیرائے میں قبول کر رہے ہیں اور مان رہے ہیں کہ ہمارے مخصوص ذہنی معیار سے بہت ہٹ کر بھی ترقّی یافتہ زندگیاں ہو سکتی ہیں۔ جدید سائنسدان غیر ارضی یا خلائی حیات Extraterrestrial-life کے وجود پر گفتگو اسی لیے کرتے ہیں کہ یہ عقلی اور منطقی ہے۔ اسطرح یہ بات تو عیاں ہوئی کہ خود سائنس کے مطابق بھی زندگی کی جہتیں اور پیرائے dimensions مختلف ہوسکتے ہیں جو کہ ایک معقول بات ہے تو پھر آگ یا کسی مخفی توانائی سے پیوستہ حیات کو مسترد کرنے کا کوئی معقول عقلی جواز تو موجود نہیں ہوا سوائے اس کے کہ بیچارگی تو ہمارے علم کی ہے کہ ہم ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ اس کو سائنسی طور پر جان سکیں۔ جدیدسائنسدان جس اجنبی مخلوق aliens کا انتظار یا اس کی تلاش کر رہے ہیں کیا عجب کہ ان میں سے کچھ ہمارے درمیان ہی ایک محدود پیرائے میں موجود ہوں اور اس وقت سے یہاں ہوں جب زمین آتشی گولہ ہو۔

    ایک دردمندانہ گذارش ان لبرل اور جدید سوچ کے پروردہ دوستوں، دانشوروں اور مفکّرین سے ہے کہ جنّات وغیرہ کو دقیانوسی خیال قرار دینے کے بجائے زندگی کے حوالے سے جدید سائنسی نظریات کی روشنی میں اس کو بھی پرکھیں یا پھر اسٹیفن ہاکنگ جیسے سائنسدانوں کو بھی دقیانوسی قرار دے دیں! مسٹر ہاکنگ کا کسی اجنبی مخلوق پر ’ایمان‘ محض طبعی علم اور تخیّل ووجدان پر مبنی ہے جس پر لوگ یقین کر رہے ہیں۔

    رہا سوال یہ کہ اس کائنات میں کسی اجنبی زندگی کا مقام اور دائرہ کار کیا ہو سکتا ہے، تو جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن وضاحت کرتا ہے کہ انسان ایک برتر حیثیت کا حامل، اشرف المخلوقات اور خالق کا نائب ہے۔ کیونکہ اللہ ہر طرح کی تخلیق پر قادر ہے لہذٰا آگ سے پیدا ہونے والی زندگی بھی اللہ کی تخلیق ہے۔ لیکن یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ کوئی بھی زندگی اپنے فزیکل یا پیرافزیکل وجود کے باوجود انسان سے کمتر ہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی کیونکہ فزیکل دنیا میں انسان طبعی برتری رکھتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کو خالق نے اشرف المخلوق قرار دے کر فوقیت اور غلبہ عطا کیا ہے لہٰذا جِن یا کوئی بھی کائناتی یا خلائی مخلوق مافوق الفطرت خصائص کی حامل ہوتے ہوئے بھی انسان کے مقابلے میں طبعئی ماحول Physical-World میں کمزور ہی رہے گی۔

    (خدائی سرگوشیاں اور جدید نظریات سے ماخوذ)