عالمی مفکرین کا غالب حصہ مغرب کے علمی، عسکری، اور سیاسی رعب سے مغلوب ہے۔ مسلم دانشوروں کے دو طبقات پائے جاتے ہیں، ایک وہ جو شکست خوردہ ہے، دوسرا وہ جو ایمان بچا کر معجزے کا منتظر ہے۔ پہلا طبقہ سیکولرائزیشن کے حق میں ہے، دوسرا طبقہ بین المذاہب ہم آہنگی سے امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔ دونوں ہی طبقات قریب قریب جہاد فی الاسلام سے گریزاں ہیں، تاہم حیلوں میں اختلاف ہے۔ مسلم دنیا کے غالب حصے میں یہ طبقات متحرک ہیں، ایک کا دائرہ عمل عوام اور دوسرے کا اسلامی تحریکوں میں ہے۔ دونوں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسلام کا انقلاب جن معیارات پر دین کامل قرارپایا، وہ علم عسکریت اور سیاست کے اُن معیارات سے بہت بلند تر اور کامل ہے، جو مغرب میں مقرر ہیں۔ یہاں مقصود محض ان طبقات کا تعارف ہے نہ کہ تجزیہ۔ مدعا مضمون مغرب میں اسلام کی 'سیاسی استثنائیت' کا وہ حالیہ اعتراف ہے، جو مذکورہ مسلم دانشور طبقات کے لیے ایک ایسا نکتہ فکر ہے، جس کا درست فہم صحیح لائحہ عمل کا محرک ہوسکتا ہے۔
مغرب میں اسلام کی سیاسی 'استثنائیت' سے کیا مراد ہے؟ یہ 'اسلام کی واپسی' ہے، یہ 'اسلام کا احیا' ہے، یہ اسلام کا 'جہاد' ہے، 'قرآن' ہے، 'رسالت' ہے، اور 'عالمگیریت' کا رجحان ہے۔ مغرب پر اسلام کا بخار چڑھ چکا ہے، ہر ذريعہ ابلاغ پر اسلام کی 'استثنائیت' کی چھاپ ہے۔ مغرب کے سارے ذرائع ابلاغ 'اسلام' سے بھرے پڑے ہيں جبکہ دہائیوں پیچھے مغرب میں 'اسلام' سے ناواقفیت کا وہی عالم تھا، جو آج مذکورہ مسلم سیکولر دانشوروں کا ہے، یعنی 'اسلام' 'عیسائیت' کی مذہبی نقل سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ استثنائیت تو کجا اسلام کا نام تک اجنبی تھا۔ یہ رویہ غیرفطری نہ تھا۔ مغرب یہ سمجھتا تھا کہ وہ علم، سیاست، عسکریت غرض ہر شعبہ زندگی میں سب سے بالادست ہے، اور اس درجہ بندی میں 'اسلام' کا کوئی درجہ نہ تھا۔ جوں جوں تاریخ کي تہذیبی تشریح ہوئی، سائنس کے پر جلے، اورفلسفہ کی بےبسی ثابت ہوئی، 'اسلام' کی استثنائیت واضح ہوتی چلی گئی۔ بالکل اسی طرح جیسے ابلیس پر آدم کا استثنٰی یکایک آشکار ہوا، اور ابلیس نے انکارکردیا۔ عین اسی طرح مغرب نے اسلام کی 'استثنائیت' محسوس کی، مگر بالادستی تسلیم نہ کی۔ یوں خیروشر کی کشمکش نئے عہد میں داخل ہوگئی۔
مغرب میں سب سے پہلے معتبر مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی نے تاریخ کے مطالعہ کا تہذیبی اسلوب مؤثر انداز میں پیش کیا۔ یہودی مؤرخ اور مستشرق برنرڈ لوئیس نے مغرب کو بتایا کہ 'اسلام' 'عیسائیت' نہیں ہے، اسلام میں دین و سیاست الگ الگ نہیں، اسلام کا جامع معاشی ومعاشرتی نظام موجود ہے، اسلام ایک مکمل ظابطہ حیات ہے۔ گزشتہ صدی مسلم دنیا کی اسلامی تحریکیں 'اسلام کی واپسی' کا واضح اشارہ ہیں۔ برنرڈ لوئیس نے لکھا ''مسلم دنیا کے ماضی اور حال میں متحرک دو مرکزی عناصر سمجھنے کی ضرورت ہے، ایک مسلمانوں کی زندگی میں دین کی کائناتی حیثیت اور دوسرا اس کی مرکزیت ہے۔'' 'اسلام کی واپسی' کے بعد 'اسلام کا مغرب سے تصادم' محسوس کیا گیا، وضاحت ہاوروڈ پروفیسر ہنٹگٹن کی جانب سے آئی۔ اب بات اسلام کی سیاسی 'استثنائیت' پرآگئی ہے۔
بروکنگز دوہا سینٹر کے ڈائریکٹر اور عرب نژاد امریکی دانشور شادی حامد نے Islamic Exceptionalism: How the Struggle Over Islam Is Reshaping the World کے موضوع پر کتاب لکھی ہے۔ کتاب اسلام کی سیاسی 'استثنائیت' پر دلیل مستحکم کرتی ہے۔ یہ استثنائیت منفی معنوں میں ہے (مصنف غیرجانبداری کا دعویدار ہے)۔ کتاب کہتی ہے کہ دین اسلام کا سیاسی نظام متحرک ہے، اور مشرق وسطٰی کے مستقبل پرگہرے اثرات مرتب کرنے جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے مابین نہ صرف اقتدار بلکہ جدید قومی ریاست کے تصور اور 'عوامی زندگی میں مذہب کےکردار' پر اختلافات اور مباحث گرم ہیں۔ کتاب اسلام میں دین و سیاست کے تعلق پر بحث کرتی ہے۔ اس میں داعش کی کامیاب 'دہشت ناک' مثال شامل ہے۔ کتاب کا تعارف ظاہر کرتا ہے کہ شادی حامد کی جانب سے اسلام کی 'استثنائیت' سیاسی اسلام کے لیے سیکولرائزیشن کا نسخہ تجویز کرتی ہے۔ غرض لب لباب یوں ہے کہ سیاسی اسلام سے انکار ممکن نہیں رہا مگر یہ سیاسی اسلام 'آج کی دنیا' میں قوانین نافذ نہیں کرسکتا۔ اگر یہ سیکولرائزیشن کے بجائے مدینہ کی ریاست تشکیل دے گا، تو 'دہشت ناک ترین' نتائج سامنے آئیں گے۔ شادی حامد نے Is Islam 'Exceptional کے عنوان سے طویل مضمون باندھا ہے، اسے کتاب کا پیشگی خلاصہ کہا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ''کوئی (مسلم) ہمت کر کے آگے بڑھے، اسلامی قوانین کی نہ صرف جدید تشریح کرے بلکہ آج کے معاشروں کی زندگی سے اس کی بنیادی لاتعلقی ظاہر کرے، اور یہ سمجھائے کہ دین سے سیاست کی علیحدگی ہی کسی بھی لبرل جدید معاشرے کی بنیاد ہے۔ تاہم اسلامی تاریخ کا بھاری بھر کم بوجھ یہ ممکن نہ ہونے دے گا۔ جو اسلامی قوانین ماقبل جدید عہد کے لیے تشکیل دیے گئے تھے، وہ کس طرح موجودہ دور میں قابل عمل ہوسکتے ہیں، جبکہ دینی وابستگیاں اب قومی وفاداریوں میں بدل چکی ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا اب تک جواب نہیں مل سکا ہے۔''
گو کہ شادی حامد 'اسلام کی واپسی' اور 'اسلام کے مغرب سے تصادم' سے ایک قدم آگے بڑھ کر اعتراف کر رہا ہے، کہ اسلام واحد مذہب ہے جو ایک مربوط اور جامع سیاسی نظام کا حامل ہے۔ مگر شادی حامد کی سوئی بھی 'سیکولرزم' پر اٹک گئی ہے۔ وجہ سادہ سی ہے۔ اسلامی قوانین تسلیم کرنا اسلام کا اقتدار تسلیم کرنا ہے، جومغربی نظام تعلیم کا پروردہ دماغ نہیں کرنا چاہتا۔ یہاں 'اسلام کی استثنائیت' کو سیاست تک رعایت دی جا رہی ہے۔ ایک ایسی سیاسی رعایت، جو لبرل اور سیکولر معاشرے میں محدود کردار ادا کرسکے. اس کتاب کا یہ خیال سچ ہے کہ مشرق وسطٰی کا مستقبل سیاسی اسلام کے سوا کچھ نہیں۔ کسی سیکولر دانشور کی جانب سے یہ انوکھا بیانیہ ہے، اور پاکستان سمیت مسلم دنیا کے مرعوب دانشوروں کے لیے انتباہ ہے، کہ اسلام کی سیاسی استثنائیت ناقابل تردید حقیقت ہے، اس سے انکار ممکن نہیں۔ عین اسی طرح اسلامی قوانین کی استثنائیت بھی ایک اٹل سچائی ہے، جس سے تادیرگریز ممکن نہ ہوگا، جرائم کا عالمی طوفان کھلا اشارہ ہے۔ کتاب اس حقیقت کا اعتراف کر رہی ہے کہ سیاسی اسلام کي کوششیں دنیا بدل رہی ہیں اور مغرب کی نام نہاد علمی عسکری بالادستی بے بسی سے معصوم بستیوں پر غصہ نکال رہی ہے۔ اسلام کی سیاسی استثنائیت' سے اگلے مراحل اسلام کی قانونی، علمی، اور تہذیبی استثنائیت اور کاملیت کا اعتراف ہوگا۔
تبصرہ لکھیے