Tag: اسلام آباد

  • خان صاحب! تحریکیں کسی کے سہارے پر نہیں چلا کرتیں – پروفیسر محمد عمران ملک

    خان صاحب! تحریکیں کسی کے سہارے پر نہیں چلا کرتیں – پروفیسر محمد عمران ملک

    عمران ملک جون کے گرم دن ہیں، بے نظیر بھٹو اپنی حکومت کا آخری ثابت ہونے والا بجٹ پیش کرتی ہیں، مسٹر زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور ہیں، زبان زد عام ہے کہ آبدوزوں سے لے کر جنگلات تک کچھ بھی زرداری صاحب کی کرپشن سے نہیں بچ پا رہا، سناٹے کا عالم ہے، نواز شریف اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ہڑتال کی کال دے کر کارکنان کو استعمال کر کے منظر سے غائب رہتے ہیں۔ ایسے میں پہلی مرتبہ دھرنے کا لفظ سننے کو ملتا ہے، اس حال میں کہ جماعت اسلامی کا اسلامک فرنٹ پاکستان بھر میں شکست سے دوچار ہو چکا تھا، دھاندلی کے الزامات اس وقت بھی تھے، لیکن جس کو اپنا کام کرنا ہو وہ کرتا ہے، اٹھاون سالہ عمر رسیدہ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے کارکنان کو اسلام آباد میں دھرنے کی کال دیتا ہے، دھاندلی اور شکست کے بعد زخم کھائے کارکنان اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہیں، اور پھر دنیا منظر دیکھتی ہے کہ اس قاضی حسین احمد کو راولپنڈی پولیس مری روڈ پر تشدد کا نشانہ بناتی ہے، کارکنان قاضی حسین احمد کے آگے ڈھال بن جاتے ہیں، اٹھاون سالہ قاضی حسین احمد کارکنان سے پہلے پولیس کی لاٹھیوں کی زد میں ہے، سفید ریش بابا جی کی ٹوپی اتر چکی ہے، صوبائی اسمبلی میں جماعت سلامی کا پارلیمانی لیڈر چوہدری اصغر علی گجر سر پر گولی لگنے سے زخمی ہے، چار لوگ پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہو چکے ہیں اور پھر دنیا یہ منظر بھی دیکھتی ہے کہ وہ قاضی اکیلا اس محاذ پر ڈٹا ہوا ہے، پورے پاکستان میں وہ ایک ایک کونے میں اپنی تحریک کو پھیلا دیتا ہے، اپنی آنکھوں سے منظر دیکھا کہ وہ نواز شریف جو ہڑتال کی کال دے کر بیرون ملک چلا جاتا تھا، قاضی حسین احمد کی تحریک میں خود شمولیت کا اعلان کرتا ہے. میں نے نون لیگ کے ایم پی ایز کو قاضی حسین احمد کے گھٹنے کو ہاتھ لگاتے دیکھا، لیکن جماعت کسی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتی، اور نہ ہی کسی کو تحریک میں شامل ہونے کے لیے منتیں کرتی ہے، تحریک روز بروز شدت اختیار کر رہی ہے اور اس میدان اب بھی قاضی بابا تنہا ہے۔

    ایک اور دھرنے کی کال دی جاتی ہے، اسمبلی میں تین ممبران کی اقلیت کے باوجود جماعت سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بن کر ابھرتی ہے۔اب اکتوبر کے ٹھندے دن ہیں، اسلام آباد کا ماحول گرم ہے، کسی کے سامنے بھیک نہیں مانگی جاتی کہ ہمارے دھرنے میں شریک ہوں، کسی پارٹی کے دفتر کا طواف کوئی لیاقت بلوچ نہیں کرتے، کسی نواز شریف کے در پر منور حسن حاضری نہیں دیتے، کسی طاہر القادری کا پیچھا کرنے کے لیے اس وقت جیل سے تازہ تازہ رہا ہونے والے شیخ رشید کی منتیں نہیں کی جاتیں، قاضی حسین احمد کو سولو فلائٹ کا طعنہ دیا جاتا ہے، لیکن دھرنا کی تیاریاں جاری ہیں، اکتوبر کے یہی دن تھے جب قاضی حسین احمد ایک بار پھر اسلام آباد کے لیے نکلے تھے، لیکن اس بارحکومت کی طرف سے ملک بھر کی ٹرینیں بند کر دی گئیں تھیں، ائیر پورٹس سے فلائٹس آپریشن روک دیے گئے تھے، اور ہائی ویز پر بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر سڑکیں بلاک کر دی گئی تھیں۔ لوگوں کو ایک ہفتہ پہلے ہی اپنے اپنے شہروں میں گرفتار کر لیا جاتا ہے، جماعت اسلامی لاہور کے امیر لیاقت بلوچ کو مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں پولیس گھسیٹ کر قیدیوں کی وین میں ڈالتی ہے۔

    قاضی حسین احمد معلوم نہیں کب اسلام آباد پہنچ چکے تھے، لیکن کسی بھی مرحلے پر حکومت سے نہ ہی کسی اور سے بھیک مانگی، ان تمام پابندیوں کے باوجود اچانک قاضی صاحب تن تنہا خلاف معمول براؤن رنگ کے کپڑے اور سر پر جناح کیپ کی بجائے گول چترالی ٹوپی پہنے برآمد ہوئے، سڑکوں پر سناٹا تھا، کرفیو کا سماں تھا، لیکن قاضی صاحب کے مری روڈ پر نکلتے ہی بلاشبہ ہزاروں لوگ لیڈر کے پیچھے تھے، پولیس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اس کرفیو میں بھی لوگ اس طرح دیوانہ وار نکلیں گے، نکلتے بھی کیوں نا، لیڈر نے پہل کی تھی، آج پولیس میں بھی ہمت نہیں تھی کہ اس معمر سفید ریش ”نوجوان“ کو روک پائے، اسی اثنا میں شاہ احمد نورانی، اور کچھ ہی لمحوں بعد اعجاز الحق قاضی حسین احمد کے ساتھ ٹرک پر موجود تھے، فیض آباد پر شدید شیلنگ تھی اور شیل بھی امپورٹ کیے گئے تھے، اس شدید شیلنگ میں نوجوان اعجازالحق بےہوش ہو چکا تھا، لیکن ٹرک کی چھت پر قائد قاضی حسین احمد ڈٹ کر کھڑا تھا۔ سارا دن گزر گیا کہ کسی طرح فیض آباد پار کر کے اسلام آباد میں داخل ہو جائیں لیکن بڑے بڑے کنٹینر، خاردار تاروں اور پولیس کی بھاری موجودگی میں یہ ناممکن دکھائی دے رہا تھا، پولیس قاضی حسین احمد کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی تھی، سورج ڈھلتے ہی قاضی صاحب نے کارکنان سے کہا کہ وہ اسلام آباد میں پہنچنے کی کوشش کریں اور رات کسی بھی جگہ گزاریں، دھرنا ہوگا اور پارلیمنٹ کے سامنے ہوگا، جب تک ہم پارلیمنٹ نہیں پہنچ جاتے تب تک واپسی نہیں ہوگی، اس سخت جدوجہد کے دن بھی کسی نواز شریف، کسی شیخ رشید، کسی چوہدری شجاعت، کسی طاہر القادری کو مدد کے لیے نہیں پکارا گیا۔ بہرحال تین دن کی شیلنگ، پولیس تشدد، گرفتاریوں کے باوجود ایک بڑا قافلہ سید منور حسن کی قیادت میں 30 اکتوبر 1996ء کو پارلیمنٹ کے سامنے سجدہ ریز تھا، اور 4 نومبر 1996 کو بےنظیر بھٹو وزیراعظم نہیں تھیں۔

    یہ سب باتیں اکتوبر کے ان دنوں میں اس لیے یاد آ گئیں کہ آج بیس سال بعد ایک بار پھر اسلام آباد بند کرنے کی بات ہو رہی ہے، جو دو سال پہلے ناکام و نا مراد لوٹے تھے، آج پھر قوم کو ڈگڈگی کے گرد اکٹھا کرنا چاہ رہے ہیں۔

    حضور کیسا دھرنا؟ حضور کیسے بلاک کرنے کے دعوے؟ حالت یہ ہے کہ اپنے اوپر بھروسہ نہیں اور در در پر لوگوں سے شرکت کی اپیل، کبھی قادری صاحب سے ملنے کے لیے لندن یاترا، کبھی شیخ رشید کے در پر، کبھی پرویز الہٰی کے آگے پیچھے، کبھی جماعت اسلامی کی منتیں، کبھی پیپلز پارٹی کے سامنے سجدہ ریز۔ اور جو آپ کا ساتھ نہ دے وہ نواز شریف کا حامی کہلوائے، جناب جماعت اسلامی یہ سب کام تب کر چکی تھی جب آپ کی پارٹی ابھی جھولے میں وارد نہیں ہوئی تھی۔
    حضور والا! لیڈر شپ یہ نہیں ہوا کرتی، لیڈر تو آگے بڑھتا ہے، یہاں تولیڈر صاحب بنی گالہ یا زمان پارک سے نکلتا ہی تب ہے جب اسے یقین ہو جائے کہ لوگ سڑکوں پر آ گئے ہیں، پھر حکومت گرانے کی باتیں، پھر سے ایک بار انگلی اٹھنے کی بات۔
    کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ، مرے لہو کی بہار کب تک
    مجھے سہارا بنانے والو میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے؟

    حضور والا! ائیر کنڈیشنڈ کنٹینر پر بیٹھ کر، اور گانے کی دھن پر لوگوں کا ہجوم تو اکٹھا کیا جا سکتا ہے، لیکن اس سے کوئی با مقصد کام نہیں لیا جا سکتا، کبھی کرپٹ لوگوں کے ساتھ مل کر کرپشن ختم نہیں کی جا سکتی، کون نہیں جانتا جہانگیر ترین کی غریبی کی داستان، کون واقف نہیں شاہ محمود قریشی کے بوریا نشین ہونے سے، کون نہیں جانتا آپ کے ساتھ لگے لوگوں کے ماضی کو، جانے دیجیے، قوم پہلے بہت دھوکے کھا چکی ہے، اب اس قوم پر رحم کیجیے۔ اب اگر دھوکا ہوا تو سب کی ذمہ داری آپ پر ہوگی خان صاحب۔ مجھے خطرہ ہے کہ نوجوانوں کو امید دینے والا عمران خان کہیں اصغر خان نہ بن جائے۔

  • اگر دھرنا کامیاب ہو گیا-جاوید چوہدری

    اگر دھرنا کامیاب ہو گیا-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ہم فرض کر لیتے ہیں عمران خان دو نومبر کو اسلام آبادآتے ہیں‘شہر مکمل طور پر بند ہو جاتا ہے‘ سڑکوں پر ہوکا عالم ہوتا ہے‘ اسکول‘ کالج ‘ یونیورسٹیاں ‘ مارکیٹیں‘ بازار‘ شاپنگ سینٹر اور دکانیں لاک ڈاؤن ہو جاتی ہیں‘ ٹرانسپورٹ بند ہو جاتی ہے اور سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں کام رک جاتا ہے‘ یہ بندش دس پندرہ بیس دن جاری رہتی ہے یہاں تک کہ سپریم کورٹ بھی دھرنے سے متاثر ہو جاتی ہے اور یہ میاں نواز شریف کو فیصلوں تک وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیتی ہے تو کیا ہو گا؟ پاکستان مسلم لیگ ن نیا وزیراعظم چن لے گی‘ میاں نواز شریف مری شفٹ ہو جائیں گے۔

    یہ وکلاء کا پینل بنائیں گے اور یہ عدالت میں ثابت کر دیں گے ان کا نام پانامہ لیکس میں شامل نہیں‘ عدالت ان سے لندن کی پراپرٹی کے بارے میں پوچھے گی‘ یہ جائیداد کے مالکان کو عدالت میں پیش کر دیں گے‘ حسن نواز‘ حسین نواز اور مریم نواز جائیداد کو ’’اون‘‘ کر لیں گے‘ عدالت ان سے ’’منی ٹریل‘‘ پر سوال کرے گی‘ یہ عدالت کو 1973‘ 1978ء‘ 1999ء اور 2005ء کا ریکارڈ دے دیں گے‘ یہ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب‘ پاکستان اور برطانیہ کے بینک ریکارڈز اور ٹیکس قوانین بھی پیش کر دیں گے‘ عدالت یہ ماننے پر مجبور ہو جائے گی کہ میاں نواز شریف کا نام واقعی پانامہ لیکس میں شامل نہیں‘ لندن کی جائیداد ان کے بچے اون کر رہے ہیں۔

    پانامہ‘ برطانیہ‘ سعودی عرب اور یو اے ای کے قوانین کے تحت یہ جائیداد یں ناجائز نہیں ہیں جب کہ پاکستان کے ٹیکس قوانین میں 1973ء سے 2013ء تک 13ٹیکس امیونٹیز آ چکی ہیں اور ان اسکیموں کی وجہ سے 40 سال کا کالا دھن سفید ہو چکا ہے چنانچہ عدالت شریف خاندان کو باعزت بری کرنے پر مجبور ہو جائے گی‘ یہ 2018ء کا الیکشن لڑیں گے اور خوفناک ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں گے لہٰذا پھر عمران خان کے دو نومبر‘ دھرنے‘ شہر کی بندش اور کامیابی کا کیا فائدہ ہوا‘ اس ساری ایکسرسائز کا کیا نتیجہ نکلا؟ کیا عمران خان یہ چاہتے ہیں؟  عمران خان کا جواب یقینا ناں ہو گا۔

    ہم اب دوسرے امکان کی طرف آتے ہیں‘ ہم فرض کر لیتے ہیں عدالت میاں نواز شریف کو ’’ڈس کوالی فائی‘‘ کر دیتی ہے‘ یہ وزیراعظم نہیں رہتے تو کیا ہو گا؟ یہ لوگ احسن اقبال کو عارضی وزیراعظم بنائیں گے‘ میاں شہباز شریف پنجاب خواجہ حسان کے حوالے کریں گے‘ ایم این اے ’’الیکٹ‘‘ ہوں گے اور وزیراعظم بن جائیں گے‘ میاں نواز شریف پارٹی سنبھال لیں گے‘ یہ لوگ 2018ء کا الیکشن لڑیں گے‘ حکومت بنائیں گے‘ سینیٹ میں نشستیں پوری کریں گے‘ پارلیمنٹ میں بل پیش کر کے میاں صاحب کا جرم معاف کرائیں گے اور نواز شریف ایک بار پھر وزیراعظم بن جائیں گے اور اگر یہ ہو گیا تو وہ میاں نواز شریف صرف میاں نواز شریف نہیں ہوگا وہ زخمی شیر ہو گا اور وہ زخمی شیر کس کس کا کیا کیا حال کرے گا ہم اس کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔

    لہٰذا پھر عمران خان کے دو نومبر‘ دھرنے‘ شہر کی بندش اور کامیابی کا کیا فائدہ ہوا؟ اس ساری ایکسرسائز کا کیا نتیجہ نکلا؟ اور کیا عمران خان بوڑھے‘ کمزور اور بیمار شیر کو زخمی اور خوفناک دیکھنا چاہتے ہیں‘ عمران خان کا جواب یقینا اس بار بھی ناں ہو گا‘ ہم اب تیسرے امکان کی طرف آتے ہیں‘ ہم فرض کر لیتے ہیں دھرنے طویل ہو جاتے ہیں‘ عمران خان پیچھے ہٹتے ہیں اور نہ ہی میاں نواز شریف‘ سپریم کورٹ سیاست بازی میں نہیں الجھتی‘ کار سرکار بند ہو جاتا ہے‘ سرکاری میٹنگز‘ سرکاری دورے اور سرکاری فیصلے ملتوی ہو جاتے ہیں‘ کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں‘ اسٹاک ایکسچینج کریش کر جاتی ہے اور میڈیا ’’اوئے اوئے‘‘ کرنے لگتا ہے۔

    یہ دیکھ کر فوج کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے اور یہ مارشل لاء لگادیتی ہے لیکن اس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا فوج عمران خان کو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا دے گی؟ کیا یہ پوری پاکستان مسلم لیگ ن پر پابندی لگا دے گی اور کیا یہ الیکشن کرائے گی اور آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کا احتساب اگلی حکومت پر چھوڑ دے گی؟ جی نہیں‘ یہ پہلے ایل ایف اوز کے تحت احتساب کے قوانین بنائے گی‘ یہ خصوصی عدالتیں تشکیل دے گی اور پھر مجرموں کے خلاف مقدمے چلائے گی‘ ملک میں اس دوران مارشل لاء رہے گا‘ کیوں؟ کیونکہ فوج اگر احتساب سے پہلے مارشل لاء اٹھا لیتی ہے تو آئین بحال ہو جائے گا اور آئین بحال ہو گیا تو پاکستان مسلم لیگ ن اور شریف خاندان دونوں باہر آ جائیں گے۔

    ہم ایک لمحے کے لیے یہ بھی فرض کر لیتے ہیں فوج الیکشن سے پہلے احتساب میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ احتساب صرف آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کا ہوگا؟ کیا عمران خان‘ ان کے ساتھی‘ فوج کے سابق جرنیل اور جنرل پرویز مشرف احتساب کے بیلنے میں نہیں آئیں گے؟ اور اگر یہ لوگ بھی احتساب کا شکار ہو جاتے ہیں تو پھر دو نومبر‘ دھرنے اور شہر کی بندش کا کیا فائدہ ہوا؟ اور ہم اگر یہ بھی مان لیں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف جیلوں میں ٹھونس دیے جاتے ہیں اور عمران خان اور ان کی پارٹی احتساب میں کلیئر ہو جاتی ہے تو کیا گارنٹی ہے فوج آسانی سے بیرکس میں چلی جائے گی؟ ہماری تاریخ گواہ ہے فوج جب بھی اقتدار میں آئی یہ دس سال سے پہلے واپس نہیں گئی اور اس نے دوران اقتدار اپنی پارٹی بھی ضرور بنائی‘ یہ اگر اس بار بھی دس سال اقتدار میں رہتی ہے اور یہ کوئی نئی مسلم لیگ بنا لیتی ہے تو عمران خان کو کیا فائدہ ہو گا؟ کیا یہ سب کچھ اس لیے کر رہے ہیں؟ مجھے یقین ہے عمران خان کا جواب اس بار بھی ناں ہوگا۔

    ہم اب چوتھے اور آخری امکان کی طرف آتے ہیں‘ ہم فرض کر لیتے ہیں‘ واقعات عمران خان کی اسکیم کے مطابق چلتے ہیں‘ شہر بند ہو جاتا ہے‘ سپریم کورٹ پورے شریف خاندان کو ڈس کوالی فائی کر دیتی ہے‘ میاں نواز شریف کے تخت سے اترتے ہی پارٹی تتر بتر ہو جاتی ہے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے 90 فیصد سینیٹرز‘ ایم این ایز اور ایم پی ایز عمران خان کی پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں‘ سپریم کورٹ ٹیکنو کریٹس کی حکومت بنا دیتی ہے‘ یہ حکومت نیا الیکشن کمیشن بنا کر الیکشن کرا دیتی ہے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے لوٹے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہو جاتے ہیں اور یہ عمران خان کو وزیراعظم بنوا دیتے ہیں لیکن اس کے بعد کیا ہو گا؟

    کیا عمران خان ایک آزاد اور خود مختار نیب بنا سکیں گے؟ کیا یہ صاف اور شفاف احتساب کے لیے نئے قوانین تیار کر سکیں گے؟ جی نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ اگر نئے قوانین بن گئے‘اگر ملک میں آزاد اور خود مختار نیب بن گیا تو وہ تمام پارلیمنٹیرینز بھی زد میں آ جائیں گے جو احتساب سے بچنے کے لیے ن لیگ کے اصطبل سے پی ٹی آئی کے رِنگ میں آئے تھے چنانچہ یہ کبھی عمران خان کو نئی قانون سازی نہیں کرنے دیں گے اور یوں عمران خان بھی میاں نواز شریف بن جائیں گے‘ یہ بھی حکومت بچانے میں لگ جائیں گے چنانچہ پھر عمران خان کو اس ساری ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہوا؟ کیا یہ دو نومبر کے ذریعے ملک بھر کے لوٹوں کو اپنے گرد جمع کرنا چاہتے ہیں‘ کیا یہ ایک نئی ق لیگ بنانا چاہتے ہیں‘ مجھے یقین ہے عمران خان کا جواب اس بار بھی ناں ہوگا۔

    ہم اگر ان چاروں امکانات کو سامنے رکھیں تو ہمیں ماننا ہوگا‘ ان میں سب کچھ ممکن ہے اگر ممکن نہیں تو وہ احتساب ہے! دونومبر کا کوئی بھی نتیجہ نکلے لیکن اس نتیجے سے پانامہ لیکس کا حل نہیں نکلے گا‘ کیوں؟ کیونکہ اس کے لیے قانون ضروری ہے اور ہمارے ملک میں آف شور کمپنیوں ‘ بیرون ملک جائیدادوں اور ماضی کی پراپرٹی کے خلاف کوئی ٹھوس قانون موجود نہیں لہٰذا آپ کچھ بھی کر لیں‘ آپ خواہ اسلام آباد کو دس سال کے لیے بند کر دیں لیکن سڑکوں اور تالوں سے کوئی قانون نہیں نکلے گا‘ آپ کو قانون کے لیے بہرحال پارلیمنٹ میں جانا ہو گا اور عمران خان پارلیمنٹ کے بجائے یہ قانون فیض آباد‘ زیرو پوائنٹ اور ڈی چوک میں تلاش کر رہے ہیں‘ یہ کیسے ممکن ہے؟

    آپ اس لاک ڈاؤن کے ذریعے میاں نواز شریف کو چند ماہ کے لیے سسٹم سے باہر ضرور رکھ سکتے ہیں لیکن آپ ملک کو احتساب کا شفاف سسٹم نہیں دے سکتے چنانچہ آپ خدا کے لیے ملک پر رحم کریں‘ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ جائیں‘ قانون بنائیں اور ملک کے تمام بدمعاشوں کو پکڑ لیں‘ عوام کو بے وقوف نہ بنائیں‘ یہ بے چارے بے وقوف بن بن کر تھک چکے ہیں‘ یہ دو نومبر کا مقصد جان گئے ہیں‘ یہ سمجھ گئے ہیں دو نومبر سے دو ہزار محتاج باپ بن سکتے ہیں لیکن اس سے احتساب کی گود ہری نہیں ہو سکتی‘یہ جان گئے ہیں پانامہ درمیان میں رہ جائے گا اور پائجامہ آگے آ جائے گا‘ ملک پیچھے چلا جائے گا اور نئے لٹیرے آگے آ جائیں گے‘ کیا عمران خان یہ چاہتے ہیں!

  • کیا حافظ سعید تحریک انصاف کے دھرنے میں شامل ہوں گے؟ محمد عامر خاکوانی

    کیا حافظ سعید تحریک انصاف کے دھرنے میں شامل ہوں گے؟ محمد عامر خاکوانی

    پچھلے تین چار دنوں میں کئی جگہوں سے یہ بات کہی گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تقویت آتی جا رہی ہے کہ عمران خان کے دو نومبر کے دھرنے میں حافظ سعید صاحب خود تو شریک نہیں ہوں گے، مگر ان کی افرادی قوت تحریک انصاف کے ساتھ شامل ہوگی۔ یہ بات تواتر سے کہی جا رہی ہے، حالانکہ حافظ سعید نے دو دن پہلے ایک انٹرویو میں وضاحت سے کہا کہ یہ بات بالکل غلط اور غیر منطقی ہے۔ حافظ سعید کا کہنا تھا کہ اس وقت جبکہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک زوروں پر ہے، اس وقت پاکستان سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا اور پھر ایسی صورت میں میڈیا اور عوام سب کی توجہ کشمیر سے ہٹ کر دھرنے کی طرف ہوجائے گی۔ اس کے باوجود پروپیگنڈا جاری ہے، اب لال مسجد والے المشہور مولوی عبدالعزیز کی حمایت کی بات بھی ہو رہی ہے، مولانا سمیع الحق کی حمایت کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے، جامعہ حقانیہ کی کے پی کے حکومت کی جانب سے دی گئی امداد کا واوین یعی کاماز میں ذکر کرنے کے بعد۔

    سچ تو یہ ہے کہ اسے پروپیگنڈے کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تین چار دلائل ایسے ہیں جن کی بنا پر حافظ سعید اور جماعۃ الدعوہ کا اسلام آباد دھرنے میں شامل ہونا یا تحریک انصاف کا انہیں قبول کرنا ممکن نہیں۔
    1۔ حافظ صاحب کے معتقدین کوان کے مخصوص حلیوں کی وجہ سے پہچاننا کبھی مشکل نہیں رہا، اس لیے جو بھی ان کی حمایت لینا چاہتا ہے، اسے یہ معلوم ہے کہ یہ بات چھپی نہں رہ سکتی۔
    2۔ حافظ صاحب آج کل امریکہ اور مغربی دنیا کی نظروں میں جس قدر معتوب ہیں، کوئی بھی پاکستانی سیاسی جماعت ان کی حمایت کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ کون اپنے اوپر یہ ٹھپہ لگوانا چاہے گا؟ اس میں حاصل وصول کچھ نہیں ہونا اور نققصانات ایک سو ایک ہیں۔
    3۔ حافظ صاحب خود بھی یہ خودکشی والا قدم نہیں اٹھا سکتے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ نواز شریف صاحب ان کی تنظیم کی جڑیں کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔ نواز حکومت کے خلاف کسی احتجاجی مظاہرے میں شامل ہونا تو کسی بھینسے کو سرخ کپڑا دکھانے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ وہ اپنے لیے نئی مصیبت کیوں کھڑی کریں گے؟ وہ آج کل پہلے ہی خاصا لوپروفائل جا چکے ہیں، سیاسی منظر میں آنے کی غلطی کبھی مول نہیں لیں گے۔
    4۔ رہی اسٹیبلشمنٹ تو وہاں بھی بے وقوف لوگ نہیں بیٹھے ہوئے ہیں، حافظ سعید صاحب اپنی مرضی سے بھی کسی تحریک مین شامل ہوں گے تو الزام اسٹیبلشمنٹ پر آئے گا، اس لئے اسٹیبلشمنٹ ایسا کچا کام کبھی نہیں کرتی، جس کے بعد ان کے حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔
    5۔ عمران خان کا عسکریت پسندی کے حوالے سے نرم گوشہ قطعی نہیں ہے۔ وہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا حامی ضرور رہا ہے، مگر اس کی وجہ امریکہ ہے۔ عمران خان کے مطابق اینٹی امریکی جذبات کی وجہ سے جو لوگ پاکستانی ریاست کے خلاف ہوئے، ان کے خلاف آپریشن سے پہلے مذاکرات کر کے انھیں جس قدر الگ کیا جا سکتا ہے، کیا جائے۔ تاہم عسکریت پسندانہ تنظیموں کے حوالے سے عمران خان بھارتی صحافی کرن تھاپر کے انٹرویو میں پچھلے عام انتخابات سے پہلے واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ اگر وہ الیکشن جیتا تو جماعت الدعوہ وغیرہ پر پابندی لگا دے گا۔ ویسے بھی عمران خان کے جلسوں کا ماحول، ناچ گانے وغیرہ یہ حافظ صاحب کے سخت گیر قدامت پسندانہ ذہن رکھنے والے حامیوں کو بالکل ہی گوارا نہیں ہو سکتا۔

    کم وبیش یہی پوزیشن مولانا لدھیانوی کی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے، امریکہ کے خلاف مظاہرے کرنے کے لیے اکٹھے ہو کر عوامی جلسے جلوس نکالنا ایک الگ بات ہے، ان ایشوز پر ان کے حامی واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ عمران خان کی حمایت میں تحریک انصاف کے رنگا رنگ جلسوں میں شرکت کرنا یکسر دوسرا مسئلہ ہے، جس کی حمایت کرنا ان میں سے کسی کے لیے آسان نہیں ہے۔

    رہی بات مولوی عبدالعزیز کی تو ان کے پاس افرادی قوت بچی کہاں ہے؟ وہ اپنا بیان البتہ داغ سکتے ہیں، مگر اب انہیں کوئی سیریس نہیں لیتا۔ نواز شریف حکومت کے وہ مخالف ہیں تو ایسے میں نواز شریف کے خلاف اٹھنے والا ہر شخص ایسے لوگوں کو پسند ہوگا، مگر یہ ایک اور بات ہے۔

    ہاں! مولانا سمعیع الحق والا معاملہ الگ ہے۔ وہ ایک باقاعدہ سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ خیبر پختون خوا میں اگلا سیاسی اتحاد تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور سمیع الحق صاحب میں ہوسکتا ہے۔ یہ کسی حد تک قابل عمل لگتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے سمیع الحق صاحب کو ایک سائیڈ سے لگا رکھا ہے، ان کے پاس فطری آپشن تحریک انصاف ہی ہے۔ تو ان کی حمایت اگر شامل ہو تو اس کی کوئی منطق سمجھ آتی ہے۔

    عوامی تحریک بھی اگر اس میں شامل ہوتی ہے تو اس کی وجوہات بھی واضح ہیں۔ طاہر القادری صاحب کی موجودہ سیاست میں کوئی جگہ نہیں بنتی، وہ صرف احتجاجی تحریک میں شامل ہو کر ہی اپنی کچھ پوزیشن بنا سکتے ہیں۔ ورنہ تو وہ ایک بڑا سا صفر ہی لگتے ہیں، ہر ایک کو یہ بات معلوم ہے۔

    حافظ سعید کے ساتھیوں کے تحریک انصاف کے دھرنے میں شامل ہونے والی بات تو صرف عمران خان کو سیاسی نقصان پہنچانے کا حربہ نظر آ رہا ہے کہ اسے متنازع بنایا جائے اور عالمی سطح پر بھی اس کے خلاف سخت ناگوار میسج جائے۔ اس کے سوا مجھے تو اور کچھ نظر نہیں آ رہا۔ مسلم لیگ ن کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اس سے اور اس کے حامیوں سے کسی بھی طرح کے جھوٹے پروپیگنڈے کی توقع رکھی جا سکتی ہے.

  • جو کام عمران خان کا دھرنا نہ کر سکا – ایاز امیر

    جو کام عمران خان کا دھرنا نہ کر سکا – ایاز امیر

    ایاز امیر بہت شکریہ، سرل المیڈا
    آپ نے اور میرے دوست، ظفر عباس نے وہ کچھ کر دکھایا جو دھرنے بھی نہ کرسکے ۔ جس جمہوریت کی عظمت کے ہم رطب الساں رہتے ہیں، کو ایسی ضرب لگی کہ اسے سنبھلنے میں خاصا وقت لگ جائے گا۔ اس کہانی کے پیچھے مخفی زبان خصوصی انعام کی حقدار ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ آخر کار جمہوریت سنبھل جائے لیکن ہماری جمہوریت کے چیمپئن، شریف برادران نہیں سنبھل پائیں گے ۔ ذرا سوچیں کہ جس چیز سے شیخ رشید کے لبوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگے، وہ شریف برادران کے لئے کیسے اچھی ہوسکتی ہے ؟آپ کی کہانی کی اشاعت کے بعد سے شیخ صاحب کے صحت مند لبوں پر جاندار مسکراہٹ کا سفر جاری ہے ۔ موجودہ حکمران محاورے کے مطابق ’’بم کو لات مارنے‘‘ کا شغف رکھتے ہیں، لیکن وائے قسمت، کافی عرصہ سے کوئی ’’بم ‘‘ دکھائی نہیں دے رہاتھا، ٹانگ میں کھجلی سی ہونے لگی تھی، مایوسی بڑھتی جارہی تھی ۔ لیکن پھر اچانک یہ کہانی ایک بم کی طرح نمودار ہوئی تو وہ اپنی طبیعت پر کیسے جبر کرسکتے تھے ؟چونکہ دیر بعد موقع ہاتھ آیا تھا ، اس لئے شریف برادران اور ان کی بقراطی ٹیم نے اسے ایسی جما کر لات ماری کہ تمام سیاسی منظرنامہ ہی تبدیل ہوگیا۔

    صورت ِحال پہلے سے ہی خراب تھی،حالات دھماکہ خیز ہوتے جارہے تھے ، عمران خان دارالحکومت کی طرف مارچ کرکے اسے بند کرنے کی دھمکی دے رہے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما گیٹ پر دی جانے والی درخواستوں کی سماعت بھی شروع ہواچاہتی ہے ، تاہم قانونی موشگافیاں اکثر اوقات دھماکہ خیز رجائیت کا ساتھ نہیں دیتیں۔ اس تمام ماحول میں آگ بھڑکانے کے لئے ایک چنگاری درکار تھی، جو اس کہانی نے فراہم کردی۔ اس نے جنرل اسٹاف کو انڈیا کی طرف سے درپیش خطرے سے بھی زیادہ برہم کردیا۔ کہانی کی ٹائمنگ ، خاص طور پر جب انڈیا سرحد پار دہشت گردی کی دہائی دے رہا تھا، بھی بہت اہم ہے ۔ پہلے تو سیکرٹری خارجہ کی طرف سے پاکستان کی بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کا ذکر، جس کی وجہ ’جہادی پالیسیاں ‘ ہیں، اور پھر جہادی عناصر کی پشت پناہی کی وجہ سے آئی ایس آئی چیف پر تنقید ۔ حیرت ہوتی اگر یہ صورت ِحال اسٹیبلشمنٹ کومشتعل نہ کردیتی۔

    سیکرٹری خارجہ تو اپنے آپ کو فارغ سمجھیں۔ اگر وہ کسی واشنگٹن پوسٹنگ کی امید لگائے ہوئے تھے ، تو اُسے بھول جائیں ۔ ہوسکتا ہے کہ قربانی کے اور بکرے بھی ہوں، لیکن فوجی قیادت کچھ اور بھی چاہے گی۔ کیا؟یہ تو ہم فی الحال نہیں جانتے ۔ اس پر دوآراء ہوسکتی ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا۔ کچھ ایسے دائمی شکرے بھی ہیں جو ہمیشہ امید سے رہتے ہیں کہ فوج کچھ کر گزرے گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے ۔ کچھ دوسرے یہ سوچ رکھتے ہیں کہ موجودہ عالمی ماحول میں، اور جب کہ جنرل راحیل شریف کی مدت تمام ہوا چاہتی ہے، کسی قسم کی براہ ِراست مداخلت خارج ازامکان ہے ۔ ٹرپل ون بریگیڈ کی پیش قدمی سے زیادہ پاکستانی تنگ آچکے ہیں۔ حاصل ہونے والے طویل تجربات کے بعد اس پر کم و بیش قومی اتفاق ِ رائے ہوچکا کہ فوج کے اقتدار سنبھالنے سے حالات مزید خراب ہوجاتے ہیں۔

    تاہم اس وقت فوج کا برہم ہونا ہی واحد پیش رفت نہیں ، کچھ اور ہلچل بھی دکھائی دے رہی ہے ۔ شریف فیملی کے سمندر پار اکائونٹس اور جائیداد کے بارے میں پاناما اسکینڈ ل اپنی جگہ پر موجود ہے ، اور اس کا کریڈٹ عمران خان کے استقلال کو جاتا ہے ۔ اُنھوں نے دور افتادہ دیہات میں بھی اس لفظ کو زبان ِ زدخاص وعام کردیا ۔ یہ اسکینڈل اُنہیں اسلام آباد مارچ کا جواز فراہم کررہا ہے ۔ خطرناک بات یہ ہے کہ موجودہ لانگ مارچ پرامن ماحول میں نہیں ہونے جارہا ، اس وقت حکومت اور جی ایچ کیو کے درمیان ڈان کی کہانی کی وجہ سے تنائو کا تاثر موجود ہے ۔ یہ عمران خان کی پلاننگ نہ تھی، حتیٰ کہ شیخ رشید کے فرشتے بھی خواب نہیں دیکھ سکتے تھے کہ ایسی نعمت ِ غیر مترقبہ ہاتھ لگ جائے گی۔ لیکن اب چونکہ ایسا ہوچکا، اس لئے اسلام آباد مارچ کی دھار تیز تر ہوتی جارہی ہے ، اور حکومت کو کسی حلقے کی طرف سے خیر خواہی کی توقع نہیں۔ اس کے پاس وسائل صرف اسلام آباد اور پنجاب پولیس کی صورت ہوں گے، لیکن ان کے موثر ہونے کا بھرم 2014 ء کے دھرنے چاک کرچکے ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ حکومت کے ترکش میں کوئی تیر نہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نہایت تندہی سے تمام انتظامات کوحتمی شکل دے رہی ہے کیونکہ اس مرتبہ عمران خان نے ہر چیز کو دائو پر لگا دیا ہے ۔ اگر وہ کافی تعداد میں لوگوں کو اسلام آبادلانے میں کامیاب ہوگئے اور اگر دارالحکومت کی طرف آنے والی رابطہ سڑکیں بلاک ہو گئیں تو حکومت کا تختہ الٹنے کا چیلنج پورا ہوجائے گا۔ اگر عمران خان ایسا کرنے میں ناکام رہے تو یہ اُن کی حتمی ناکامی ہوگی۔ اس پر اُن کے دشمن اور ناقدین جشن منائیں گے۔

    جلد ہی نئے آرمی چیف کی نامزدگی کا مرحلہ بھی قریب ، جبکہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے مقبول آرمی چیف اپنی مدت پوری کرکے گھر جانے والے ہیں۔ دوسری طرف شریف برادران ،جن کی سیاسی تاریخ میںخوش قسمتی کا باب نمایاں ہے ، بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ابھی قسمت نے اُن کا ساتھ نہیں چھوڑا، اور یہ اُن کے دشمن ہیں جو ایک مرتبہ پھر ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ شریف برادران کے حامیوں میں سازش کی تھیوریاں بھانپنے کی خصوصی مہارت ودیعت کی گئی ہے، خاص طور پر جب اُن کے رہنما مشکل حالات سے دوچار ہوں۔ 2014 ء کے دھرنوں کے دوران اُنھوں نے سازش کی دہائی دی تھی، اب بھی بو سونگھ رہے ہیں ۔ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں کہ پاناما گیٹ آئی ایس آئی کاپلان کردہ نہیں، اور ڈان کی کہانی آئی ایس آئی نہیں بلکہ وزیر ِاعظم کے دفتر کی طرف سے آئی ہے ۔ چاہے آئی ایس آئی جو بھی طاقت رکھتی ہو، وہ عمران خان کے جلسے، جیسا کہ رائے ونڈ میں دیکھنے میں آیا، مینج نہیں کرسکتی ۔ اگر دونومبر کو اسلام آباد کی طرف عوام چلے آئے تو ایسا پی ٹی آئی اور عمران خان کے پیغام کی وجہ سے ہوگا، اس میں کسی کا نادیدہ ہاتھ فعال نہیں ہوسکتا۔

    آئی ایس آئی نے نواز شریف کےلئے مسائل پیدا نہیں کیے ہیں۔ لندن فلیٹس اور سمندر پار اکائونٹس سے لے کر ڈان کی کہانی تک وہ اپنے تمام مسائل کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔ اور پھر ان کا حل تلاش کرنے کی بجائے وہ توقع کررہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آئے گا ۔ یہ راستہ صرف یہی ہوسکتا ہے کہ عمران عملی میدان میں قدم رکھنے کی بجائے حسابی موشگافیوں کی بحث میں الجھ جائیں ، اورتاریخ گواہ ہے کہ شریف برادران ایسی موشگافیوں کے ماسٹر ہیں۔ پریس کانفرنس اور ٹی وی ٹاک شوز، جو آج کی پاکستانی سیاست کے لئے سکہ رائج الوقت ہیں، کے الفاظ گھاگ سیاست دانوں کے لئے ویسے ہی ہیں جیسے بطخ کے پروں پر پانی۔ شریف برادران گزشتہ 35 برسوں سے سیاسی اکھاڑے میں ہیں۔ الفاظ سے متاثر ہونے والے شخص کا اس گلی میں کیا کام؟بھٹو اور ان کے خلاف 1977 ء میں جمع ہونے والے پی این اے کے رہنما عوامی سیاست دان تھے، لیکن پھر بعض وجوہ کی بنا کر یہ فن ختم ہوتا گیا۔ عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنھوں نے اس فن کو پھر سے زندہ کردیا ۔ اور یہ بات بھی ہے کہ سپریم کورٹ میں دائر پٹیشنز لامتناہی وقت کے لئے گردش میں نہیں رہیں گی۔ یہ معمول کے لمحات نہیں ہیں۔ ہم ایک سنجیدہ کارروائی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صرف نجومی اور کاہن ہی بتاسکتے ہیں کہ آنے والے واقعات کیا رخ اختیار کریں گے۔

  • چائے والے کو دکھائے جانے والے لاحاصل خواب – محمد ابراہیم شہزاد

    چائے والے کو دکھائے جانے والے لاحاصل خواب – محمد ابراہیم شہزاد

    ابراہیم شہزاد کسی دل جلے نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ
    ’’اگر کسی شاپنگ مال میں کام کرنے والی نیلی آنکھوں والی خوبصورت لڑکی کی تصویر کوئی منچلا بلا اجازت فیس بک پہ پوسٹ کر دیتا اور اس پر دنیا بھر کے خصوصاََ پڑوسی ملک کے لڑکے سیکسی، ہاٹ، بیوٹی فل، قاتل حسینہ اور مارڈالا جیسے کمنٹ کر دیتے اور کروڑوں کی تعداد میں لائکس اور شیئر ہوتے اور ہر لونڈا لپاڑہ اس کی ورکنگ پلیس پر جا کر اس کے ساتھ سیلفیاں بنوانے کی خواہش کا اظہار کر رہا ہوتا تو سوچیے کہ ان سب مردوں کو اب تک کیا کیا القاب مل چکے ہوتے. ٹھرکی، بدکردار، ورکنک گرلز کا جنسی استحصال کرنے والے، ہوس کے پجاری اور نہ جانے مذمت میں کتنے ٹاک شو ہوتے اور موم بتی والی آنٹیاں مختلف چوکوں چوراہوں میں دس دس پندرہ پندرہ کی تعداد میں متاثرہ لڑکی کی تصویر کے ساتھ کیٹ واک کر رہی ہوتیں.‘‘

    ارشد-خان-چائے-والا لیکن اسلام آباد کا ارشد خان چائے والا ایک ایسا نوجوان ہے جس کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، بھارتی ناریوں پر اس کی نیلی آنکھوں نے ایسا جادو کیا کہ گویا پورے ہندوستان کا زنان خانہ ہی پتھر کا ہو گیا۔ یہاں تک تو بات قابل برداشت تھی کہ بھائی اگر ایک چوتھائی دنیا کو اس کی آنکھیں پسند آگئی ہیں تو اس کی بلا سے کیونکہ کسی بھی انسان کو کسی دوسرے انسان کو پسند یا نا پسند کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے بشرطیکہ جس کو پسند یا ناپسند کیا جا رہا ہے، اس کی ذاتی زندگی میں کوئی دخل اندازی نہ ہو.

    ارشد خان چائے والا لیکن ہوا یہ کہ سوشل میڈیا پر ہٹ ہونے والا ارشد خان لوکل میڈیا کے لیے ریٹنگ حاصل کرنے والا ہاٹ کیک بن گیا اور اس بےچارے سیدھے سادے بےخبر چائے والے کی چائے کی پیالی میں ایک شدیدطوفان آگیا جو بڑے پر سکون انداز سے اپنے اہل خانہ کے لیے روزی روٹی کما رہا تھا لیکن اس کی روزی سے زیادہ ٹی وی اینکرز کو اپنی روزی روٹی اور ٹی آر پی کی فکر تھی اس لیے اسے پکڑ پکڑ کر مختلف ٹی وی والے اپنے سٹوڈیوز میں لائے، اس کی سادہ شلوار قمیص اتار کر پینٹ کوٹ پہنایا گیا، کیمرے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہلکا پھلکا میک اپ بھی کیا گیا اور ٹی وی سکرین پر بٹھا کر اس معصوم انسان کو الٹے سیدھے کبھی نہ پورے ہونے والے خواب دکھانا شروع کر دیے گئے.

    %d8%a7%d8%b1%d8%b4%d8%af-%da%86%d8%a7%d8%a6%db%92-%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%a7-%d9%84%da%91%da%a9%db%8c کسی برانڈ نے اسے ماڈلنگ کی آفر کی، کسی نے اسے اپنی سیاسی جماعت کا ممبر بنانا چاہا، کسی نے فلمی ہیرو بننے کا خواب دکھایا تو کسی نے اسے شادی کا لڈو کھانے کا مشورہ دیا. لڑکیوں اور لڑکوں نے اسے روک روک کر اپنا فیس بک سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کے لیے سیلفیاں بنوائیں لیکن کیا اس تمام دورانیے میں جو اس کے کام کا حرج ہوا، کیا کسی نے اس کا معاوضہ اسے ادا کیا؟ کیا کسی اینکر نے یہ سوچا ہوگا کہ آج کا سارا دن تو یہ ہمارے سٹوڈیو میں رہا چائے کی دوکان بند ہونے کی وجہ سے یہ اپنا آج کا راشن کیسے خرید پائے گا، ٹی وی کا پیٹ بھرتے بھرتے کہیں خود خالی پیٹ تو نہیں سوئے گا؟ ہمارے صحافی دوست جانتے ہیں کہ ہماری میڈیا انڈسٹری میں ایسی بےحسی کوٹ کوٹ کر بھری ہے لیکن اگر کسی نے اس غریب کے ٹائم کا معاوضہ اسے دیا ہے تو میں اس چینل کو مبارکباد اور کھل کر ان کے اس نیک عمل کی داد دیتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ لاعلمی بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے، جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا اسے معلوم ہے کہ وہ کتنا مشہور ہو گیا ہے تو اس نے کہا کہ میرے پاس انٹرنیٹ والاموبائل نہیں اور نہ ہی میں فیس بک استعمال کرتا ہوں، اس لیے مجھے میرے دوستوں نے بتایا کہ میری تصویر ٹی وی پر بار بار دکھائی جا رہی ہے، جس کے بعد اس کے چائے خانے پر صحافیوں اور فوٹوگرافروں کا رش بڑھ گیا۔ کاش کہ وہ لاعلم ہی رہتا۔ اسے کیا معلوم کہ یہ ماڈلنگ اور فلمی ہیرو بننے کی آفرز صرف تب تک ہیں جب تک وہ خبروں کا حصہ ہے جیسے ہی ارشد خان چائے والا ٹی وی سکرین اور اخبارات کے صفحوں سے آؤٹ ہوگا، یہ سب ہیرو اور لیڈر بنانے والے بھی آؤٹ ہو جائیں گے اور اسلام آباد کے اس بازار میں وہ پھر سے بس چائے ہی بنا رہا ہوگا۔

    o-one-pound-fish-facebook آپ کو یاد ہوگا کہ ون پائونڈ فش والا پتوکی کا شاہد نذیر، اس کا آئٹم جب فیس بک پر ہٹ ہوا تو کسی میوزک کمپنی نے اس سے معاہدہ سائن کیا تھا۔ میں آج تک اس کا میوزک البم ریلیز ہونے کا انتظار کر رہا ہوں۔ جسٹن بائبر کا گانا گانے والی وہ خانہ بدوش لڑکیاں بائبرگرلز تو بچے بچے کو یاد ہوں گی جن کو پاکستان کی ہر مارننگ شو والی اینکر نے ریٹنگ لینے کے لیے استعمال کیا، لیکن وہ لڑکیاں آج کہاں ہیں؟ ہاں یاد آیا کراچی کا وہ ماسٹر اسلم جس کی گائی ہوئی ٹھمری سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور لتا منگیشکر کو بھی واہ واہ کرنے پر مجبور کر گئی، ہندوستان کے ہی ایک گائیک جو اکثر پاکستان کی دوستی میں ڈوبے ہوئے یہاں کے چکر لگاتے رہتے ہیں، دلیر مہدی، جنہوں نے ماسٹر اسلم کی گائیکی سے متاثر ہو کر انہیں کراچی میں اپنا گھر لے کر دینے کا وعدہ کر ڈالا، لیکن ماسٹر اسلم آج بھی بےگھر ہے اور کراچی میں رکشہ چلا کر بیوی بچوں کا پیٹ پال رہا ہے۔ آج کوئی صحافی دلیر مہدی کو یاد دلانے والا بھی نہیں ہے کہ حضور آپ نے کسی بےگھر کو اس کی اپنی چھت دینے کا خواب دکھا یا تھا۔

    یہاں مجھے ایک روایت یاد آرہی ہے،
    ’’ایک بادشاہ سلامت اپنے مصاحبوں کے ساتھ شکار سے واپس آ رہے تھے تو رات کافی بیت چکی تھی، شہر کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے بادشاہ نے مشعل کی روشنی میں دیکھا کہ فصیل پر پہرا دینے والا سپاہی کافی ضعیف بھی ہے اور شدید ٹھنڈے موسم کی مناسبت سے اس کے کپڑے بھی گرم نہیں ہیں۔ بادشاہ نے اپنی سواری کو روکا، اس پہریدار کو اپنے پاس بلوایا، پہریدار ڈرتے ڈرتے بادشاہ سلامت کے حضور حاضر ہوا کہ مبادا اس سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے جس کی اب سزا ملے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ بادشاہ سلامت نے اس کی خستہ حال پوشاک پر نظر ڈالی اور اسے کہا کہ میں تمھارے لیے محل سے گرم کپڑے بجھوانے کا بندوبست کرتا ہوں۔ یہ سن کر پہریدار خوش ہوا اور بادشاہ سلامت کے اقبال بلند ہونے کی دعائیں دینے لگا جبکہ بادشاہ سلامت محل میں جاتے ہی تھکاوٹ سے چور ہونے کی وجہ سے گرم بستر میں لیٹتے ہی گہری نیند کی آغوش میں چلے گئے جبکہ شہر کے دروازے پر صبح بوڑھے پہریدار کی سردی سے اکڑی ہوئی لاش پڑی تھی. پاس ایک رقعہ پڑا تھا جس پر لکھا تھا، بادشاہ سلامت میں پچھلے کئی سالوں سے سخت سردی کے موسموں میں اسی خستہ پوشاک میں شہر کی رکھوالی کا فرض ادا کرتا رہا ہوں لیکن آج تک برفباری بھی مجھے مار نہیں سکی۔ افسوس! آج آپ کے ایک گرم کپڑوں کے وعدے نے مجھے مار ڈالا.‘‘

  • اسلام آباد لاک ڈاؤن، حقیقی امکانات کیا ہیں؟ شاہد قبال خان

    اسلام آباد لاک ڈاؤن، حقیقی امکانات کیا ہیں؟ شاہد قبال خان

    عمران خان نے اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کے اعلان سے حکومت پر ایک سیاسی بم گرا دیا ہے مگر نشانہ خطا ہونے پر یہ بم تحریک انصاف پر بھی گر سکتا ہے۔ حکومت کا یہ خیال ہے کہ وہ تحریک انصاف کا لاک ڈاؤن ناکام بنا دےگی۔ اس سلسلے میں وہ تحریک انصاف پنجاب اور اسلام آباد کے متحرک کارکنوں کی لسٹیں بھی بنا چکے ہیں اور عین موقع پر انہیں گرفتار کر کے لاک ڈاون میں شرکت سے روک دیا جاے گا۔ مگر میرے خیال میں اس سے لاک ڈاون پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ جلسہ نہیں ہے جس کے لیے لاکھوں لوگوں کی ضرورت پڑے۔ یہ ایک ہڑتال ہے۔ اگر اسلام آباد کی دس بڑی سڑکوں پر ایک ایک ہزار لوگ بھی دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں تو شہر میں آمدورفت بند ہو جاے گی جس سے تمام ادارے اور بازار خودبخود بند ہو جایں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ زیادہ سے زیادہ ۲۰ ہزار لوگ اسلام آباد کو بند کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ تحریک انصاف تمام پابندیوں کے باوجود خیبر پختونخواہ اور راولپنڈی اسلام آباد سے ۵۰،۶۰ ہزار لوگ آسانی سے نکال لے گی۔حکومت لاک ڈاون کو ناکام کرنے کے لیے خوف کا حربہ بھی استعمال کر سکتی ہے۔ مگر میرے خیال میں یہ بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو گا کیونکہ لاک ڈاون میں تحریک انصاف کے عام ووٹر نے شرکت نہیں کرنی جو خوفزدہ ہو جاے بلکہ پارٹی کے ایکٹیوسٹ شریک ہوں گے جو ان دھمکیوں سے نہیں ڈریں گے۔ میرے خیال میں تحریک انصاف اسلام آباد کو بند کرنے میں آسانی سے کامیاب ہو جاے گی مگر اس کے بعد کیا ہو گا؟

    یہ لاک ڈاؤن پچھلے دھرنے کی طرح بہت دن نہیں چلے گا۔اس بار فیصلہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں ہو جاے گا کیونکہ ڈی چوک دھرنا ایک علامتی احتجاج تھا جس سے معمولات زندگی پر زیادہ فرق نہیں پڑا تھا مگر لاک ڈاون سے زندگی مکمل طور پر رک جاے گی ۔ ممکنہ انجام کیا ہو سکتا ہے؟

    پہلا آپشن حکومت یہ استعمال کر سکتی ہے کہ دھرنے میں موجود لوگوں کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا جاے۔ میرے خیال میں یہ آپشن قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اسلام آباد پولیس نے پچھلے دھرنے میں بھی ایسا کچھ بھی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پنجاب پولیس سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد پہلے ہی دفاعی پوزیشن لئے ہوے ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف کے کارکن ا س بار دفاعی مزاحمت کی تیاری کر کے آیں گے جس کی وجہ سے ایسی کسی بھی کارروای سے بہت بڑا خون خرابہ ہو سکتا ہے جو حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔
    دوسرا آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت پچھلی دفعہ کے پی ٹی وی واقعہ جیسا کوی ڈرامہ رچا کر تحریک انصاف کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کرے جس سے تحریک انصاف لاک ڈاون ختم کرنے پر مجبور ہو جاے۔ یہ قابل عمل تو ضرور ہے مگر یہ ایک بہت خوفناک کھیل ہے۔ ایسے کسی بھی ڈرامے کی زرہ سی بھی ناکامی حکومت کے لیے زہر قاتل ہو سکتی ہے۔ اس ک علاوہ اگر تحریک انصاف ایسے کسی واقعہ کو اوون کرنے کی بجاے اس کی زمہ داری حکومت پر ڈال کر مزید جارحانہ رویہ اختیار کر لے تو یہ بھی حکومت کے لیے مزید خطرناک ہو سکتا ہے۔

    تیسرا اور آخر آپشن مصالحت ہے۔ حکومت یا تو تحریک انصاف کے بتاے ہوے ٹی۔او۔آرز کے مطابق کمیشن بنا دے یا پھر ماینس نوازشریف پر عمل کر لے۔ مگر حکومت کے لیے وہ دونوں آپشن بھی آسان نہیں ہیں۔ میری زاتی راے یہ ہے کہ شہباز شریف اور کابینہ کے زیادہ تر لوگ نواز شریف کے استعفے کی دبے لفظوں میں سپورٹ کریں گے تاکہ حکومت بچ جاے مگر نواز شریف کی طرف سے اس کو قبول کیے جانے کے امکانات کم ہیں۔ اس صورتحال میں ہو سکتا ہے کہ نواز شریف پوری اسمبلی کو ماینس کر کے عام انتخابات کا اعلان کر دے۔

  • مائنس ون کی رٹ-ڈاکٹر صفدر محمود

    مائنس ون کی رٹ-ڈاکٹر صفدر محمود

    dr-safdar-mehmood

    پاکستان میں سیاسی رت اور موسم تیزی سے بدلتا رہتا ہے۔ آج کل مائنس ون کا موسم جوبن پہ ہے اور خان خاناں عمران سے لے کر طفل سیاست بلاول بھٹو تک سبھی مائنس ون پر تبصر ے بھی کررہے ہیں اور تجاویز بھی دے رہے ہیں۔ عمران خان اور بلاول دونوں آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور مجھے بھی کچھ عرصہ آکسفورڈ میں طالب علم رہنے کا موقع ملا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے استاد الگ الگ تھے یا ہمارے استاد ریٹائر ہوگئے تھے۔ ہمارے وقتوں میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے طلبہ میں احساس تفاخر پیدا کرنے کے لئے انہیں بتایا جاتا تھا کہ برطانیہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ وزراء اعظم آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی آکسفورڈ سے فارغ التحصیل تھیں، وہ دو بار وزیراعظم بنیں اور ملک و قوم کا کچھ سنوارے بغیرحکومت کرنے کے بعد رخصت ہوگئیں۔ البتہ ان کےشوہر اور بلاول کے والد گرامی کیڈٹ کالج پٹارو سے فارغ التحصیل ہیں۔ آج کل پھر آکسفورڈ کے دو سابق طالب علموں….عمران خان اور بلاول بھٹو… . کے درمیان وزارت عظمیٰ کے لئے دوڑ لگی ہے اور ان دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدانوں نے بزعم خود موجودہ حکمرانوں کو مائنس ون کردیا ہے حالانکہ وہ اتنی جلدی ’’مائنس‘‘ یعنی منفی ہونے والے نہیں۔ ہاں یاد آیا۔ جب بے نظیر بھٹو کے بعد میاں نوازشریف وزیراعظم بنے تو ان کے میڈیا منیجرز نے بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بے نظیر کے مقابلے میں ’’اپنے ملک کی پیداوار (Home Spun)کا نعرہ لگایا۔ وقت اور تاریخ نے ثابت کردیا کہ کوئی عالمی سطح کی بہترین یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو یا اپنے ملک سے سند یافتہ ہو، سیاست، کارکردگی، کرپشن اور لوٹ مار کے حمام میں سبھی ننگے ہوتے ہیں۔

    معاف کیجئے گا بات دور نکل گئی۔ میرا آج کا موضوع گھسی پٹی کرپشن جو ہر حکمران کے ساتھ چپکی ہوئی ہے، میرا موضوع نئے موسم کی نئی لہر ہے اور وہ ہے مائنس ون کے نسخے، تذکرے اور بے لوث مشورے۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ ہمارے استادوں نے تو ہمیں یہ پڑھایا تھا کہ سیاسی میدان میں کبھی بھی … .کبھی بھی… .مائنس ون اوپر سے مسلط نہیں ہوتا اور اگر اوپر سے یہ کلیہ یا فیصلہ نافذ کیا جائے تو کبھی بھی موثر اور نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ مائنس ون ہو یا مائنس ٹو اس کا فیصلہ جمہوریت کے ارتقائی عمل کا حصہ ہوتا ہے اور یہ صرف اسی صورت میں نتیجہ خیز ہوتا ہے جب یہ فیصلہ نیچے سے نمودار ہو یعنی جب یہ فیصلہ عوام کریں، جب اس کا اعلان جمہور کریں۔ بھلا جمہور اپنا فیصلہ کیسے سناتے ہیں؟ عوام اپنا فیصلہ ووٹ کے ذریعے سناتے ہیں چاہے عوام جمہوری عمل کے حوالے سے پختہ ہوں یا ناپختہ اور انہی کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ میں تاریخ پاکستان کا ادنیٰ طالب علم ہوں اور میں نے اس اصول یا کلیئے کی حقانیت کے مظاہرے اپنے ملک اور اپنی تاریخ میں بار بار دیکھے ہیں۔ چنانچہ میں اس اصول کا دل سے قائل ہوگیا ہوں اور جب اچھے خاصے پڑھے لکھے قدآور سیاستدان مائنس ون کے مشورے دیتے ہیں تو میں اسے طنز سمجھ کر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا اور ہاں طفل سیاست بلاول بھٹو گھاگ سیاستدان مولانا فضل الرحمٰن سے سیاسی گر سیکھنے اور اشیرباد لینے گیا تھا۔ شاید اسے علم ہوگا کہ مولانا کے ذہن پر آج بھی جمعیت علماء ہند کی سیاسی فکر، نظریہ پاکستان اور قائداعظم کے حوالے سے نظریاتی سائے دیکھے جاسکتے ہیں۔

    بلاول نے اچھا کیا کہ اس موقع پرحب الوطنی کے سرٹیفکیٹ تقسیم نہیں کئے اور نہ ہی منتخب وزیراعظم کی حب الوطنی پر شک کا اظہار کر کے ان کے عوامی مینڈیٹ کی توہین کی مگر ان کا ایک ’’مائنس ون‘‘ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہوسکے تو گجرات کے دو وفادار جیالوں، چودھری قمر الزمان اور چوہدری اعتزاز احسن… . میں سے کوئی انہیں سمجھا دے کہ وہ ایسے شخص کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ جاری کر کے سخاوت کا مظاہرہ کیوں کررہے ہیں جس نے 1979ء میں پاکستانی پرچم جلایا اور روندا اور اگست 2016ء میں پاکستان کے خلاف نعرے لگائے۔ جو مودی کی ’’را‘‘ کے فنڈز پر پلتا اورپاکستان کو تباہ کرنے کے لئے بیرونی دشمن قوتوں کو دعوت دیتا ہے۔ اگر سندھ کے حوالے سے بلاول کی کوئی مجبوری تھی تو مجبوری میں خاموشی بہتر ہوتی ہے اور خاموشی میں ہی حکمت پوشیدہ ہے۔ بلاول سے اس کے نانا کی خوشبو آتی ہے۔ مجھے ان کا الطاف حسین کو بانس پہ چڑھانا اچھا نہ لگا… . چودھری صاحبان کو میرا مشورہ ہے کہ وہ عزیزی کو تدبر کی تعلیم دیں کیونکہ یہ تعلیم یا تربیت آکسفورڈ یونیورسٹی میں نہیں دی جاتی، تدبر زندگی کی یونیورسٹی سے سیکھا جاتا ہے۔ بات ہورہی تھی مائنس ون کی۔ دراصل یہ موضوع طویل بحث کا متقاضی ہے لیکن کالم کی تنگ دامنی کے پیش نظر صرف اتنا عرض کروں گا کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی اوپر سے نافذ کردہ مائنس ون کا فارمولا کامیاب نہیں ہوا۔ آپ سب جمہوریت کے علمبردار ہیں۔ آپ کو سمجھنا چاہئے کہ اسکا فیصلہ بہرحال عوام کریں گے اور وہی ٹھوس فیصلہ ہوگا۔

    چند مثالوں کو ہی کافی سمجھیں۔ بلاول کے بقول کہ ان کے نانا جان مائنس ون فارمولے کا نشانہ بنے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو فوجی حکمران کے ہاتھوں مائنس ہو کر عوامی نظروں میں مائنس ہوئے؟ آج انہیں مائنس کرنے والا حکمران کہاں ہے؟ جب کہ بھٹو قبر سے بھی حکمرانی کررہا ہے اور بے نظیر مرحوم سے لے کر بلاول بھٹو تک سبھی ذوالفقار علی بھٹو کی کاشت کردہ فصل کا پھل کھا رہے ہیں۔ زرداری صاحب نے مبینہ طور پر اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں لوٹ مار کے وہ ریکارڈ قائم کیے اور میاں نوازشریف کو اس طرح استعمال کیا کہ وہ پی پی پی کے سب سے بڑے دشمن ثابت ہوئے۔ 2013ء کے انتخابات میں عوام نے زرداری کو ’’مائنس ون‘‘ کا اشارہ دے دیا لیکن اشارہ عقلمندوں کے لئے ہوتا ہے، شاطروں کے لئے نہیں۔ کیا زرداری صاحب کو مشرف یا کسی حکمران نے مائنس ون کا نشانہ بنایا؟ مشرف نے تو زرداری صاحب کو سرے محل بھی دے دیا اور اپنی جگہ صدر بننے کی راہ بھی ہموار کردی اب اگر زرداری صاحب پی پی پی کا حشر اور اپنی حکمرانی کا انجام دیکھ کر اشارہ نہیں سمجھیں گے تو پارٹی گھاٹے میں رہے گی۔ شاید اسی لئے وہ بیرون ملک بیٹھے ہیں اور میدان سیاست بلاول نے گرم کر رکھا ہے۔ گویا عملاً مائنس ون ہو چکا۔ وہ کس نے کیا؟ اوپر والوں نے یا نیچے والوں نے؟

    میاں نوازشریف کو جدہ بھجوا کر بھی مشرف نے مائنس ون کے فارمولے پر عمل کرنا چاہا تھا لیکن بری طرح ناکام ہوا۔ وقت بدلا تو میاں صاحب وطن لوٹے اور وزیراعظم بن گئے۔ بے نظیر بھٹو کو بھی اسی خواب اور خواہش کے تحت جلاوطن کیاگیا تھا۔ کیا یہ فارمولا کامیاب ہوا؟ مختصر یہ کہ طاقتور ایجنسیوں، اسٹیبلشمنٹ اور منہ زور سیاستدانوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ سیاست میں صرف وہی اصول یا فیصلہ کامیاب ہوتا ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ اوپر سے نافذ کردہ فیصلے کاغذی شیر کی مانند ہوتے ہیں جنہیں وقت بدلتے ہی ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتا ہے۔

  • عمران خان اور طالبان-خورشید ندیم

    عمران خان اور طالبان-خورشید ندیم

    m-bathak.com-1421245366khursheed-nadeem
    کیا عمران خان طالبان کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سرگرداں ہیں؟
    طالبان کا ایجنڈا کیا تھا؟ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا اور اس کی آڑ میں حکومت پر قابض ہونا۔ طالبان نے جو مقدمہ مذہب کے نام پرقائم کیا، عمران خان وہی مقدمہ احتساب کے نام پر پیش کر رہے ہیں۔ طالبان کا مقدمہ کیا تھا؟ پاکستان کے حکمران مرتد ہوچکے۔ یہ طاغوت کے ساتھی ہیں۔ ان کی حکومت ناجائز ہے، اس لیے اس کے خلاف خروج جائز ہی نہیں، اب لازم ہے۔ عمران خان کا مقدمہ کیا ہے؟ پاکستان کے حکمران کرپٹ ہیں۔ نوازشریف حقِ اقتدار کھو چکے۔ ان کی حکومت ناجائز ہے۔ اس لیے ہم انہیں حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں کہ ایک کی زبان اور اصطلاحیں مذہبی ہیں اور دوسرے کی عصری سیاست سے مرتب ہوئی ہیں۔ اگر طالبان غلط تھے تو عمران خان کیسے درست ہیں؟ اگر عمران خان ٹھیک کر رہے ہیں تو طالبان کیسے غلط کر رہے تھے؟

    مجھے تشویش ہے کہ اس ملک کے دانش ورطبقے کو معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں، الا ما شااللہ۔ یہ عمران خان اور نواز شریف کے مابین معرکہ نہیں ہے۔ لوگ ظلم کرتے ہیں جب اس کی یہ تعبیر کرتے ہیں۔ یہ تصادم آئین اور آئین شکنی کا ہے۔ یہ جمہوریت اور انقلاب کا ہے۔ اس بحث میں یہ بات بے معنی ہے کہ وزیرِ اعظم کون ہے اور اس کی مخالفت کرنے والے کا نام کیا ہے۔ سادہ سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں آئین موجود ہے، ادارے موجود ہیں، تبدیلی کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ اس لیے آج اہم سوال یہ نہیں کہ عمران خان درست کہہ رہے ہیں یا غلط۔ سوال یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرنے جا رہے ہیں، اس کا انجام کیا ہوگا؟

    یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ تصادم عوام اور حکمران طبقے کے مابین نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے جسے عوامی اعتماد حاصل ہے۔ وہ اس پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت ہے جسے عوام نے منتخب کیا۔ حکومت کے افراد کو کرپٹ مان لیا جائے تو بھی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں عوام کے سب سے بڑے طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ یہ مشرف جیسے کسی آمر کے خلاف مقدمہ نہیں ہے جس نے مرضی کا فیصلہ نہ دینے پر عدالتِ عظمیٰ کو معطل کردیا تھا۔ ایسی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت شرعاً، اخلاقاً اور قانوناً جرم ہے۔ عمران خان نے دراصل بغاوت کا اعلان کیا ہے۔ یہی وہ اہم بات ہے جسے رائے ساز طبقہ نظر انداز کر رہا ہے۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں فوجی آمریتوں کے خلاف بغاوت نہیں ہوتی، آئینی اور منتخب حکمرانوں کے خلاف ہوتی ہے جب میڈیا اور عدلیہ آزاد ہوتے ہیں اور لوگ احتجاج کاحق بھی استعمال کر تے ہیں۔

    عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اگر وزیرِ اعظم نے استعفیٰ نہ دیا یا اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش نہ کیا تو وہ انہیں حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ عملاً اس کی دوصورتیں ممکن ہیں: ہجوم سرکاری دفاتر پر قبضہ کر لے یا ان کے دروازے بند کر دے تاکہ اہلکار اندر نہ جا سکیں۔ موجودہ دور میں حکومت کسی فردِ واحد کا نام نہیں۔ نواز شریف بھی اداروں کے توسط سے حکومت کرتے ہیں۔ حکومت کو کام سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام حکومتی اداروں کو معطل کردیا جائے۔ عمران خان کے الفاظ میں وہ اسلام آباد کو بند کردیں گے۔ انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ یہ دھرنا نہیں ہے۔ کیا اس نقطہ نظر کو کیانام دیا جا سکتا ہے؟ کیا اسے کوئی سنجیدہ آدمی ”احتجاج جمہوری حق ہے‘‘ کی دلیل فراہم کرسکتا ہے۔ عمران خان کا موقف اگر درست مان لیا جائے تو بھی اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ایک غیر آئینی اقدام ہوگا۔

    اب اس موقف کو سیاسی حوالے سے دیکھیے؛ نوازشریف ایک مقبول سیاست دان ہیں۔ اس ملک میں ان کا ایک حلقہ ہے۔ جب عمران خان نوازشریف کواس طرح للکاریں گے تو کیا ان کے حامی خاموش رہیں گے؟ اگر کے پی میں کوئی صوبائی حکومت کے خلاف یہی رویہ اپنائے توایک ردِ عمل تو وہ ہے جو حکومت کی طرف سے سامنے آئے گا۔ دوسرا وہ ہے جو تحریکِ انصاف کے کارکنوں کے غصے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ نوازشریف سے کوئی اختلاف کرے یا اتفاق، وہ ایک سیاسی عصبیت کی علامت ہیں۔ جب ان کی حکومت کو اس طرح غیرآئینی طورپر ختم کر نے کی کوشش ہو گی تو اس کا ردِ عمل ہوگا۔گویاایک تصادم ناگزیر ہے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جو اگر خدا نخواستہ پیدا ہو گئی تو پھر پاکستان کو خانہ جنگی سے نہیں بچا یا جا سکے گا؟ کیا عمران خان اسی کے لیے سرگرداں ہیں؟

    یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ دیگر سیاسی جماعتیں ان کی تائید میں نہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ بھی مختلف سیاسی عصبیتوں کی نمائندہ ہیں، جیسے پیپلزپارٹی یا جمعیت علمائے اسلام۔ اس سے بھی واضح ہے کہ عمران خان ایک اقلیتی گروہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ایک اقلیتی گروہ کو اگر یہ حق دے دیا جائے کہ وہ خود ہی مدعی ہو، خود ہی منصف اور ساتھ ہی وہ قوتِ نافذہ بھی ہاتھ میں لے لے تو پھر دنیا کا کوئی نظام نہیں چل سکتا۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ مذہبی انتہا پسند بھی اس ہجوم کا حصہ بن جائیں اوراس کی آڑ میں دارالحکومت پر قبضے کی کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ اس سے بہتر موقع انہیں کبھی نہیں مل سکتا۔

    یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ جب دارالحکومت کو بند کیا جائے گا تو ریاست بھی ردِ عمل کا اظہار کرے گی۔ ایسے صورتِ حال میں قانون حکومت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرے۔ پہلے مرحلے پر پولیس متحرک ہوگی اور اگر معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جا تے ہیں تو وزیراعظم فوج بھی طلب کر سکتے ہیں۔ فوج کے لیے لازم ہے کہ وہ حکومت کا حکم مانے۔ انکار کی صورت میں مارشل لا کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا، الّا یہ کہ نوازشریف اردوان ثابت ہوں۔ یہ حالات عام شہریوں کے جان و مال کو کس طرح ارزاں بنا دیں گے، اس کا اندازہ مشکل نہیں۔

    پرویز خٹک نے ایک اور ظلم کیا ہے۔ انہوں نے اسے پختونوں کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے سنڑل کمیٹی میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکم دیں تو وہ سب پختون باہر نکل آئیں گے جو راولپنڈی اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ نوازشریف کے بارے میں ایک گروہ پہلے ہی مسلسل پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ وہ پنجاب کے راہنما ہیں۔کیا پرویز خٹک اس کوپختون پنجابی جھگڑا بنانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ یہ سوچ ملک کے لیے کتنی خطرناک ہے؟ کیا اس سے بڑھ کر کوئی صریع الاثر زہر ہے جو اس ملک کی رگوں میں اتا را جا سکتا ہے؟

    یہ و قت معاملات کو افراد کے تناظر میں دیکھنے کا نہیں۔ ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جو کام طالبان اسلام اور طاغوت کے نام پر نہیں کر سکے، مجھے خدشہ ہے کہ عمران خان،خاکم بدہن، احتساب اور کرپشن کے نام پر کرگزریں گے۔ سخت ظلم ہو گا اگر اس ملک کے دانش ور اس قضیے کو نوازشریف اور عمران خان کے تناظر میں دیکھیںگے۔ یہ فیصلہ کن گھڑیاں ہیں، پاکستان کے لیے بھی اورعمران خان کے لیے بھی۔ میں اب بھی عمران خان کے بارے میں خوش گمان ہوں کہ وہ دل سے فساد نہیں چاہتے۔
    کاش وہ اپنے طرزِ عمل کے نتائج پر غور کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان پر رحم کرے اور عمران خان پر بھی۔

  • آفتِ ارضی، آٹھ اکتوبر 2005 – نورین تبسم

    آفتِ ارضی، آٹھ اکتوبر 2005 – نورین تبسم

    آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
    دم دے نہ جائے ہستیء ناپائیدار دیکھ (علامہ اقبال)
    ۔
    انسانی زندگی حادثات و واقعات سے عبارت ہے۔ تباہی ازل سےانسان کے ہم قدم رہی ہے۔ دنیا کو جائےعبرت کہا جاتا ہے اور عبرت کے یہ مناظر ہم ہر روز کسی نہ کسی شکل میں اپنے اِردگرد دیکھتے ہیں۔ کبھی انسان پر انسان کے ہاتھوں ظلم سے اور کبھی قدرتی آفات کی صورت میں المیوں کی ایک بھیانک داستان ہماری نظر کے سامنے سے گزرتی جاتی ہے۔
    پاکستان اور دنیا کی تاریخ زلزلوں سے بھری پڑی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں مختلف درجوں کے زلزلے سارا سال آتے رہتے ہیں اور تباہی وبربادی کے انمنٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ لیکن ایسا ہی ایک زلزلہ پاکستان کے لاکھوں لوگوں کو تہس نہس کر دے گا، یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔

    آٹھ اکتوبر2005ء کو رمضان المبارک کا تیسرا روزہ تھا۔ جمعہ کی صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان پاکستان کے شمال مشرقی پہاڑی علاقے میں7.6 شدت کا زلزلہ آیا۔ اس کے نتیجے میں انسانی جان مال کے ضیاع کی صورت میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ وقوع پذیر ہوا۔ انتہائی کم گہرائی میں ہونے والے اس عظیم ارضیاتی تغیر نے صوبہ سرحد اور آزادکشمیر کے اضلاع میں چہارسو قیامتِ صغریٰ برپا کر دی۔آزاد جموں وکشمیر اور صوبہ سرحد کی پندرہ تحصیلیں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔

    ایک منٹ کے اندر زبردست چنگھاڑ کے ساتھ زلزلے کے پےدرپے شدید جھٹکوں نے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی مہلت ہی نہ دی۔ بلندوبالاعمارتیں خس وخاشاک کا ڈھیر بن گئیں، ہزاروں لوگ ٹنوں ملبے تلے دب گئے۔ بہت کم لوگ اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوئے۔ پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گئے، سڑکیں لینڈ سلائیڈنگ کی نذر ہو گئیں اور ان پر رواں دواں گاڑیاں دریا میں جا گریں، رکاوٹوں کے باعث دریا کے بہاؤ تھم گئے اور سیلاب کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ غرض یہ کہ بےچارگی اور بےبسی کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان نےجنم لیا۔ جہاں بےشمار لوگ دنیا سے رخصت ہوئے وہیں شدید جسمانی اور ذہنی گھاؤ ہزاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محتاجی دے کر زندہ درگور کر گئے۔ خاندان کے خاندان ختم ہو گئے، بچے اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔ ہزاروں تعلیمی ادارے بچوں کے مدفن بن گئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے، ہزاروں ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہوگئے۔ اس سے بڑھ کر لاکھوں افراد نہ صرف سر پر چھت بلکہ پیروں تلے آبائی علاقوں کی زمین سے بھی محروم ہو گئے۔ ان علاقوں کوزلزلے کے ممکنہ خدشے کے پیشِ نظر رہائش کے لیے خطرناک قرار دے کر ریڈزون کہا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اسی لاکھ سے زائد آبادی اس المیے سے متاثر ہوئی۔
    کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام ودر
    یہ وہی دیار ہے دوستو جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر

    آزادکشمیر کا دارالخلافہ مظفرآباد جو حسین وادیوں جہلم اور نیلم کے سنگم پر ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی معیار کا سیاحتی شہر بن رہا تھا، لمحوں میں یہ جیتا جاگتا شہر عہدِ جدید کا آثارِ قدیمہ بن گیا۔ دیکھنے والے اسے نئےعہد کا ہڑپہ کہتے جہاں صدیوں تک دے ہوئے ملبے سے انسانی اعضاءاور تہذیبِ انسانی سے وابستہ دوسری اشیاء برآمد ہو کر آنے والے دور میں تہذیبوں کے لیے عبرت کا سامان بنتی رہیں گی۔ آزادکشمیر کے وزیرِاعظم بےساختہ کہہ اُٹھے کہ میں اب قبرستان کا وزیرِاعظم ہوں۔

    زلزلے کی تباہ کاریوں سے قریبی شہر دارالحکومت اسلام آباد بھی محفوظ نہ رہا۔ اس کے سیکٹر ایف ٹین میں جدید سہولیات سے آراستہ رہائشی ٹاور پہلے ہی جھٹکے میں زمین بوس ہوگیا جس میں قریباً سو کے قریب افراد جاں بحق ہوگئے۔
    افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
    ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

    آٹھ اکتوبر کا زلزلہ جہاں ایک بہت بڑی قدرتی آفت تھا وہیں یہ ہر لحاظ سے پوری پاکستانی قوم کا امتحان بھی ٹھہرا۔ گلگت سے کراچی تک اور خیبر سے گوادر تک پاکستانی عوام نے ہر طرح کے اختلافات پسِ پشت ڈال کر متاثرینِ زلزلہ کی بھرپور جانی اور مالی امداد کی۔ جدید مشینری کی عدم دستیابی کے باوجود آہنی عزم کے بل بوتے پر ہمارے جوان زندگیاں بچانے میں پیش پیش رہے۔ ہسپتالوں میں خون دینے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ ایک جذبہ تھا، ایک لگن تھی جس کے پاس جو صلاحیت تھی، اُس نے قوم کے سامنےرکھ دی، نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک سے بھی دردمند پاکستانی کشاں کشاں اپنی قوم کی مدد کو چلے آئے۔ انسانی جذبوں اور اٹوٹ رشتوں کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ اُداسی اور غم کی اندھیری شام کے بعد ایک نیا سورج طلوع ہوا جس نے فرقہ واریت، لسانی تعصب، علاقائی تفریق اور سیاسی گروہ بندیوں سے قوم کو آزاد کر دیا۔ اہلِ پاکستان نے پوری دنیا سے یہ منوا لیا کہ عام حالات میں یہ قوم جس قدر بکھری ہوئی اور الگ الگ راستوں کی مسافر نظر آتی ہے، مصائب اور آفات کے وقت تسبیح کے دانوں کی طرح جُڑ جاتی ہے۔علامہ اقبال نے بہت پہلے اس حقیقت کا ادراک ان الفاظ میں کیا۔
    نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

    آٹھ اکتوبر کو آنے والے زلزلے کے بعد اگر پاکستانی قوم کا جذبۂ خدمت اُبھر کر سامنے آیا تو انسان کی سفاکی اور بےحسی کے لرزہ خیز واقعات نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔جب مرتے ہوئے جسموں سے زیورات نوچے گئے تو کہیں بہت سے بےسہارا بچےاور خواتین نامعلوم افراد کی خباثت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سینکڑوں ابھی تک لاپتہ ہیں جن کی موت یا زندگی کے بارے میں ان کے پیارے شاید ہمیشہ شک و شبے کا شکار رہیں گے۔

    اس ہولناک زلزلے کو آئے ایک عشرہ گذر گیا، اور آج یہ عالم ہےکہ اِن علاقوں کے بہت سے لوگ اب بھی خیموں اورعارضی مکانوں میں مقیم ہیں۔ زلزلے سے منہدم ہو چکے تعلیمی ادارے بمشکل پچاس فیصد بحال ہوئے۔ صوبہ سرحد میں وادی کاغان کا سیاحتی دروازہ بالاکوٹ کا شہر جو تقریباً پورا کا پورا تباہ ہو گیا تھا، فالٹ لائن پر ہونے کی وجہ سے یہاں حکومت کی طرف سے کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا۔ حکومتی سطح پر بحالی کے اقددامات صرف دعوؤں اور وعدوں کی حد سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اپنی نسلوں کو حرام کی دولت وراثت میں دینے والے اہلِ اقتدار نے کرپشن اور لوٹ مار کی بہتی گنگا میں اپنا حسہ خوب وصول کیا، وقت گزرنے سے مالی اور معاشی زخم تو کسی حد تک مندمل ہو ہی گئے لیکن ایک قومی سانحہ محض ان خاندانوں کی ذاتی یاد بن کر رہ گیا جن کے اپنے اس زلزلے کی نذر ہو گئے تھے۔
    رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
    نَے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

  • اسلام آباد کا عدم استحکام، سندھ پر اثرات – عبدالجبار ناصر

    اسلام آباد کا عدم استحکام، سندھ پر اثرات – عبدالجبار ناصر

    عبدالجبار ناصر کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت اور بھارتی جنگی عزائم نے ملک کے دیگر صوبوں کی طرح سندھ کی سیاست میں بھی کافی سنجیدگی پیدا کردی ہے۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس 21 سے 30ستمبر تک جاری اجلاس میں پاناما لیکس کی اپوزیشن کے ضابطہ کار کے مطابق تحقیق، ایم کیو ایم بانی الطاف حسین کیخلاف غداری کا مقدمہ قائم بنانے اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اور بھارتی جارحیت کی مذمتی قراردادیں منظور کی گئیں۔

    آخر الذکر دونوں قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئی، تاہم پاناما لیکس کی قرارداد پر ایم کیو ایم اور فنکشنل لیگ لاتعلق رہیں، جبکہ (ن) لیگ کی ایوان میں موجود واحد خاتون سورٹھ تھیبو نے بھر پور احتجاج کیا لیکن قرارداد کی منظوری کے وقت واک آوٹ پر تھیں، جس پر اسپیکر نے قرارداد متفقہ طور پر منظور ہونے کا اعلان کیا، اگرچہ عملاً ایسا نہیں ہے۔

    بھارتی جارحیت اور جنگی عزائم کیخلاف تمام سیاسی، مذہبی، سماجی قوتیں یکجاں ہیں اور عوام ملکی سلامتی و بقا اور کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی اور ان کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی مدد کے لیے ہر ممکن تیار ہیں، تاہم ملکی سلامتی، کنٹرول لائن پربھارتی جارحیت اور کشمیر اخلاقی حمایت کے لیے ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بائیکاٹ کا اعلان، جہاں ملک کے دیگر حصوں کی عوام کے لیے حیران اور پریشان کن ہے وہیں سندھ کے عوام بھی تشویش میں ہیں۔

    مبصرین کے مطابق اس موقع پر جب پاکستان کا دشمن ملکی سلامتی پر حملے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کررہا ہے۔ ہمیں ملک میں اتحاد ویکجہتی کے بھرپور اظہار کی ضرورت ہے، لیکن خان صاحب کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ بھارتی لابی خان صاحب کے بائیکاٹ کو پاکستان کے اندر انتشار یا سیاسی عدم استحکام کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرے گی، جس کے اثرات بھارتی میڈیا میں دکھائی بھی دے رہے ہیں۔ عمران خان کا فیصلہ موجودہ صورتحال میں غیر سنجیدہ، جذباتی اور بے موقع ہے۔ اس فیصلے کے منفی اثرات نہ صرف ملکی سیاست بلکہ خوفناک حدتک تحریک انصاف کے اندر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔

    بعض حلقوں کی رائے ہے کہ اس موقع پر عمران خان کا ” پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان اور 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی جانب سے ڈھاکہ جانے والے ارکان کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی بہت حد تک مماثل ہے”۔ مزید یہ کہ خا ن صاحب کے اقدام نے ان خدشات کو تقویت بخشی ہے کہ مستقبل قریب میں سیاسی تلخی بھرپور تصادم کی شکل اختیار کرسکتی ہے اور اللہ نہ کرے ایسا ہو۔ اگر ایسا ہوا تو سب سے زیادہ سندھ متاثر ہوگا۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں عدم استحکام جہاں بھارت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا وہیں سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں بھی بعض قوتیں اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ اس ضمن میں مبصرین ایم کیوایم کے اندر گروپ بندی کو بھی اہم قراردے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے مرکز 90کے قریب گھر سے5اکتوبر کو جدید اور جنگی اسلحے کی بڑی کھیپ کی برآمدگی بھی اس جانب اشارہ کررہی ہے۔

    ایم کیوایم کے اندر 22اگست اٹھنے والا طوفان تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے نہ صرف ایم کیو ایم لندن کے رہنماؤں بلکہ اپنے قائد سے بھی مکمل لاتعلقی اور برات کا اعلان کیا جس کے جواب میں ایم کیو ایم لندن نے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی بنیادی رکنیت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کو مستعفی ہونے کی ہدایت کی تاہم اب تک ایم کیوایم کے 8 سینیٹرز، 23ارکان قومی اسمبلی اور 46ارکان سندھ اسمبلی سے صرف ایک رکن قومی اسمبلی صفیان یوسف نے ہی مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اب تک بظاہر ایم کیو ایم کا پارلیمانی گروپ اور بلدیاتی نمائندے ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ ہیں۔

    دوسری جانب ایم کیوایم لندن پاکستان میں تنظیم سازی کی کوشش کررہی ہے، لیکن ان کے لیے مشکل یہ ہے کہ ہمدردوں اور حامیوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی کے باوجود موجودہ صورتحال میں بر سر زمین کوئی تنظیم کا حصہ بننے کے لیے تیارنہیں ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ اس وقت ایم کیوایم پاکستان کی گرفت کافی حدتک مضبوط ہے، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کے لندن کے حامیوں اور ہمدردوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ ایم کیوایم پاکستان کوآل پارٹیز کانفرنس میں ملنے والی پذیرائی بھی ایم کیوایم لندن کے لیے یقیناً تشویش کا باعث ہوگی جودونوں میں مزید دوریوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں ایم کیو ایم لندن کوئی بڑا قدم اٹھاسکتی ہے۔

    موجودہ صورتحال میں اگر حالات کی نزاکت اور وقت کے تقاضے کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے نہیں کیے گئے تو آگے جاکر تصادم کے بہت زیادہ خدشات ہیں۔ حکومت، قومی اداروں اور تمام سیاسی وسماجی ومذہبی قوتوں کو چاہیے کہ وہ ایم کیوایم پاکستان پر الزام تراشی اورسختی کے بجائے انہیں قومی دھارے میں زیادہ سے زیادہ جگہ فراہم کرنے کے لیے کوشش کریں، کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں آج بھی ایم کیوایم ہی واحد عوامی نمائندہ قوت ہے جبکہ دیہی علاقوں میں پیپلزپارٹی نے اپنی پوزیشن پہلے سے زیادہ مستحکم کی ہوئی ہے۔

    دیہی سندھ میں اب شاید ہی کوئی علاقہ ایسابچا ہو جہاں پر پیپلزپارٹی کو کوئی قوت بآسانی شکست دے سکے۔ اس کی بنیادی ذمہ داری مسلم لیگ(ن) مسلم لیگ(ف) اور دیگر قوتوں پر عائد ہوتی ہے۔ 2013کے انتخابات کے بعدا یسا لگتاہے کہ مسلم لیگ(ن) نے سندھ میں اپنی تنظیم سازی نہ کرنے اور پارٹی کو فعال نہ بنانے کا پیپلزپارٹی سے معاہدہ کیا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اب ن لیگ کے مایوس رہنماء پیپلزپارٹی کا رخ کررہے ہیں۔ 2013ء کے عام انتخاب میں سندھ سے ن لیگ کی ٹکٹ پر ایک ہی رکن قومی اسمبلی عبدالحکیم بلوچ کامیاب ہوئے۔ انہوں نے 25 ستمبر کو وزیر اعلیٰ ہائوس میں پریس کانفرنس میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پر بدعہدی سمیت کئی الزامات لگاکر قومی اسمبلی کی رکنیت اور ن لیگ کی ممبر شپ سے مستعفی ہوکر اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے قبل سابق وزیر اعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی ن لیگ سے الگ ہوکر اپنی پارٹی تشکیل دے چکے ہیں ۔2013کے انتخاب کے بعد شامل ہونے والے شیرازی برادران اور اتحادی جتوئی برادران بھی ن لیگ کی قیادت سے سخت نالاں ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر غلام ارباب غلام رحیم بھی ن لیگ سے بہت دور جاچکے ہیں۔ ممتاز بھٹو نے (ن) سے الگ ہوکر اپنی سابقہ پارٹی بحال کردی ہے۔ شنید ہے کہ سندھ میں اور کئی لیگی رہنماء پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کے لیے نہ صرف تیار بلکہ معاملات بھی کافی حدتک طے پاچکے ہیں۔ اس ضمن میں سابق صوبائی وزیر عرفان اللہ خان مروت سمیت کئی اہم رہنماوں کے نام لیے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ (ف)اور تحریک انصاف کا ایک بڑا گروپ بھی پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔

    امکان تھاکہ ن لیگ کی کمزوری کا فائد تحریک انصاف کو ملے گا، لیکن ایسا نہ ہوسکا بلکہ تحریک انصاف مزید کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ خود تحریک انصاف میں نصف درجن کے قریب چھوٹے بڑے گروپس ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف رائیونڈکے 30اکتوبر کے جلسے کے لیے سندھ سے چند سو لوگ بھی نہ نکال سکی۔ تحریک انصاف کے قافلے میں کراچی سے اوباڑہ تک شامل میڈیا نمایندوں کے مطابق شرکاء کی تعداد،400سے بھی کم تھی۔ ان میں سے بھی بیشتر افراد کی شرکت کا کریڈٹ بھی صوبائی سینئر نائب صدر حلیم عادل شیخ کو جاتا ہے۔ اگر سندھ کی سیاسی صورتحال 2018ء کے انتخابات تک اسی طرح رہی تو پیپلزپارٹی سندھ کی 70 فیصد سے زائد نشستوں پر بآسانی کامیاب ہوگی، جبکہ شہری نشستوں پر ایم کیوایم کی گرفت دیگر کے مقابلے میں بہتر رہے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں موجودہ جمہوری نظام کے تحت انتخابات ہوتے ہیںیا پھر کوئی اور قوت مداخلت کرکے انتخابی عمل کو روکتی ہے۔