اس مضمون سے پہلے ایک وضاحت کردوں کہ یہ ایک خالص علمی یا تحقیقی مضمون نہیں ہے بلکہ یہ میرے نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔ اس امر کا اعتراف ہے کہ یہ موضوع ایک گہری تحقیق کا تقاضا کرتا ہے اور یہ اہل علم کا فرض ہے کہ وہ اس علمی تحقیقی کاوش میں اپنا حصہ ڈالیں۔
بعض محققین اسلام کو ایک سامی مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں مگر اسلام اپنے آپ کو ایک ایسی آفاقی سچائی کے طور پر پیش کرتا ہے جو صرف بنی اسرائیل کے سلسلے سے نہیں جڑا ہوا بلکہ یہ انسانی ارتقا کے عالمگیر سلسلے سے جڑا ہوا ہے اور یہ ان تمام رسولوں اور پیغمبروں کی سچائی کی تصدیق کرتا ہے جو سامی مذاہب کے علاوہ بھی دوسری اقوام اور دوسرے خطوں میں تشریف لائے اور انھوں نے انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا۔
بدھ مت ایک اہم مذہب اور فلسفہ حیات ہے۔ خلافتِ بنو امیہ (661ء تا 750ء) کا دور عرب ملوکیت کی توسیع کا دور تھا۔ سارے مشرق وسطی میں بنوامیہ کی حکومت تھی۔ آٹھویں صدی کی ابتدا میں عرب جرنیل محمد بن قاسم نے آج کے جنوبی پاکستان میں واقع بودھی اکثریت کے علاقہ سندھ کو فتح کیا۔ وہاں کے ایک بڑے شہر برہمن آباد کے ہندوئوں اور بدھ مت کے پیروئوں نے درخواست کی کہ ان کی مذہبی آزادی برقرار رکھی جائے اور انہیں اپنے مندروں کی تعمیرِ نو کی اجازت دی جائے۔ محمد بن قاسم نے گورنر حجاج بن یوسف سے مشورہ کیا جس نے مسلمان علما سے پوچھا۔ مسلمان علما نے فیصلہ میں، جسے بعد میں ”برہمن آباد بندوبست“ کہا گیا، بدھ مت کے پیروکاروں (اور ہندوئوں) کو اہلِ کتاب قرار دے دیا۔
اہل کتاب سے مراد ایسے مذاہب ہیں جو اللہ کے کسی رسول اور اللہ کی نازل کردہ کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اہل اسلام کو جب بدھ مت کے پیروکاروں سے معاملہ کرنا پڑا تو انہیں بھی وہی حقوق اور حیثیت دے دی گئی جو یہود و نصاریٰ کو ان کی حکومت میں حاصل تھی۔ انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی تھی بشرطیکہ ان کے عام لوگ جزیہ ادا کرتے رہیں۔ بدھ مت کے پیروکاروں کو اہلِ کتاب قرار دینے کا ضمنی مطلب یہ تھا کہ وہ ”نجات یافتہ“ گروہوں میں شمار ہوتے تھے، قران مجید کی مندرجہ ذیل آیت کے مطابق (سورۃ بقرہ، آیت 62) ”جو کوئی مسلمان اور یہودی اور نصرانی اور صابی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور اچھے کام بھی کرے تو ان کا اجر ان کے رب کے ہاں موجود ہے اور ان پر نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“
اموی گورنر حجاج بن یوسف نے حکم جاری کیا ”بودھی اور دوسرے مندر تعمیر کرنے اور مذہبی امور میں رواداری کے لیے برہمن آباد کے سرداروں کی درخواست منصفانہ اور معقول ہے۔ میں نہیں جانتا کہ سوائے ٹیکس وصول کرنے کے ہمارے اُن کے اوپر اور کیا حقوق ہیں۔ انہوں نے ہماری اطاعت قبول کر لی ہے اور خلیفہ کو جزیہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ کیونکہ وہ اب ذمّی بن گئے ہیں اس لیے ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم ان کی جان و مال میں مداخلت کریں۔ انہیں اجازت دی جائے کہ وہ اپنے مذہب کی پیروی کریں اور اس امر سے انہیں کوئی منع نہ کرے۔“
بعد ازاں بدھ مت کے پیروئوں کو اپنے معبد اور خانقاہیں دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت مل گئی اور ساتھ ہی انہیں، جزیہ ادا کرنے کی شرط پر، ذمی (یعنی غیر مسلم محفوظ اشخاص) کا رتبہ مل گیا۔ اموی خلفاء اور اس کے بعد بغداد سے حکومت کرنے والے عباسی خلفاء (550ء تا 1258ء) اور ان کے بعد کے ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں نے اصولی طور پر یہی پالیسی اپنائی رکھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بدھ مت کو مشرکانہ مذاہب میں نہیں گردانا گیا جن کے پیرووں کو مندرجہ بالا استحقاق حاصل نہیں تھے۔
بودھی اور ہندو مندروں کی تعمیرِ نو کے بعد عرب گورنروں نے وہاں آنے والے زائرین پر ٹیکس عائد کر دیا تھا۔ مسلمان علماء نے نہ تو اس زمانے میں اور نہ ہی بعد میں اس پالیسی کو بنیادی اسلامی عقائد کے خلاف سمجھا۔ بدھ مت کے پیروکاروں کو قانونی حیثیت، سیاسی حمایت اور مذہبی رواداری کے سلوک کا ملنا اس امر پر دلالت کرتا تھا کہ بدھ مت کی روحانی راہ اور اخلاقی قواعد ایک بالاتر قدرت یعنی خدا کی مستند وحی سے حاصل شدہ تھے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں فارسی تاریخ دان الکرمانی نے بلخ، افغانستان میں واقع نووہار خانقاہ کے مفصل حالات لکھے اور کچھ بودھی روایات کو اسلام میں ان کی مشابہ اصطلاحات میں بیان کیا۔
دوسرے عباسی خلیفہ المنصور (دورِ خلافت: 754 تا 775عیسوی) نے اپنی سلطنت کے نئے دارالخلافت کی تعمیر کے لیے ہندوستانی ماہرِ تعمیرات ملازم رکھے۔ اس نے اس نئے شہر کا نام بغداد رکھا جو کہ ایک سنسکرت نام ہے جس کا معنی ہے ”عطیہِ خداوندی“۔ شہر کے منصوبہ کے مطابق خلیفہ نے بیت الحکمت تعمیر کروایا جس کا مقصد یہ تھا کہ یونانی اور ہندوستانی ثقافتی دنیاؤں کے ادب کا مطالعہ اور ترجمہ کیا جائے بالخصوص سائنسی موضوعات پر۔ اگلے عباسی حکمران، خلیفہ المہدی (دورِ خلافت: 775 تا 785عیسوی) نے بیت الحکمت میں کام کرنے کے لیے برِصغیر اور افغانستان سے کئی بودھی راہبوں کو مدعو کیا۔ اس نے اُن کے ذمہ، بنیادی طور پر طِب اور علمِ نجوم کی کُتب کا سنسکرت سے عربی میں ترجمہ کا کام لگایا۔
پانچویں عباسی خلیفہ ہارون الرشید (دورِ خلافت: 786 تا 809 عیسوی) کا وزیر یحیی بن خالد بن برمک تھا جو کہ بلخ کی نووہار خانقاہ کے بودھی انتظامی سربراہوں میں سے ایک کا مسلمان پوتا تھا۔ اگرچہ اس وقت بغداد کے بیت الحکمت میں بودھی عالم پہلے سے موجود تھے لیکن یحیی نے مزید بودھی عالموں کو بھی مدعو کیا، خاص طور پر کشمیر سے۔ ان کی توجہ کا مرکز بودھی طبی متون تھے، خاص طور پر رویگپت کی کتاب ”کامیابیاں کا سمندر“ (سنسکرت میں: سدھاسار)۔
یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس زمانہ میں بودھی اور مسلمان عالموں کے درمیان مذہبی اعتقادات پر بحثیں ہوئی ہوں گی لیکن چونکہ بیت الحکمت کے علما کی مرکزی دلچسپی یونانی فلسفہ میں تھی اس لیے ان کا بدھ مت کا بہت گہرا مطالعہ نہیں تھا۔ تاہم ابن ندیم کی دسویں صدی عیسوی کے آخر کی کتاب ”الفہرست“ میں کئی بودھی مقالوں کا ذکر ملتا ہے جنہیں اس دور میں عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا، مثلاً ”بدھ کی کتاب“ (عربی میں: کتاب البُد)۔ یہ دو مختلف سنسکرت کتابوں سے ماخوذ تھی: ”گزشتہ زندگی تاریخ کی ایک مالا“ (سنسکرت میں: جتک مالا) اور اشواگھوش کی ”بدھ کے اعمال“ (سنسکرت میں: بدھا کاریتا)
مشرقی افغانستان اور شمال مغربی پاکستان کی آبادی میں ہندوئوں اور بودھیوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ 876 تا 976 عیسوی، یہ سارا علاقہ ہندو شاہی حکومت کے ماتحت تھا۔ عباسیوں کے باجگزار، سُنّی مسلمان غزنویوں نے افغان حصہ کو 976 عیسوی تک فتح کر لیا تھا اور پاکستانی طرف بھی 1010 عیسوی میں انہوں نے ہندوشاہی حکمرانوں کا تختہ لپیٹ دیا۔ غزنوی حکمران سابقہ ہندو شاہی علاقوں میں ہندو مت اور بدھ مت کے لیے رواداری کے قائل تھے۔ البیرونی (976 تا 1048عیسوی) ، ایک ایرانی عالم اور ادیب جو کہ غزنوی دربار میں ملازم تھا، لکھتا ہے کہ دسویں صدی عیسوی کے اختتام پر آج کے مشرقی افغانستان میں واقع بودھی خانقاہیں بشمول نووہار خانقاہ کے، قائم و دائم تھیں۔ البیرونی، محمود غزنوی کے ابتدائی گیارھویں صدی عیسوی میں ہندوستان پر حملے میں اس کے ہمراہ تھا۔ اس نے ہندوستان میں جو کچھ سیکھا اس پر مبنی ایک کتاب ”کتاب الہند“ تحریر کی۔ اس میں اُس نے بنیادی بودھی روایات اور اعتقادات کی تفصیل بتائی اور کہا کہ ہندوستانی مہاتما بدھ کو ایک پیغمبر مانتے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ جانتا تھا کہ بدھ مت کے پیرو شاکیہ منی کو اپنا خدا نہیں مانتے۔ سلجوق خاندان کے دورِ حکومت میں الشہرستانی نے اپنی بارھویں صدی عیسوی کی ”کتاب الملل و النحل“ یعنی مذاہب اور فرقوں کی کتاب میں بھی بدھ مت کے بارہ میں البیرونی کی دی گئی تفصیلات دہرائیں۔
غزنوی دور میں ہمیں اسلامی ادب میں بدھ مت کے اثر کی مزید مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً نابیناؤں کے ایک گروہ کی کہانی جس میں ہر شخص ایک ہاتھی کو مختلف رنگ میں بیان کر رہا تھا اُس کے مختلف اعضا کو ہاتھ لگا کر۔ یہ کہانی ایرانی عالم ابو حامد الغزالی (1058 تا 1111عیسوی) کی تحریروں کے ذریعہ تصوّف میں پہنچی۔ فلسفیانہ شک و شبہ کی حمایت میں الغزالی نے اس تمثال کو یہ دکھانے کے لیے استعمال کیا کہ مسلمان متکلمون حق کا صرف کچھ حصہ جانتے تھے جبکہ مہاتما بدھ نے اسے غیر بودھی مذاہب کی آپس کی بحث کی بے فاعدگی سکھانے کے لیے غیر بودھی مذاہب کے زمرے میں استعمال کیا۔
چھٹا ایلخانی حکمران، غزان خان (دورِ حکومت: 1295 تا 1304 عیسوی) شیعہ صوفی شیخ صدرالدین ابراہیم کے زیرِ اثر مسلمان ہو گیا۔ اس کے باوجود اس نے اپنے وزیر رشید الدین کو حکم دیا کہ وہ ایک عالمگیر تاریخ (عربی میں: جامع التواریخ) مرتب کرے۔ نیز اس نے ہدایت دی کہ اس تاریخ میں ان مختلف قوموں کے اعتقادات بھی شامل ہوں جن سے منگولوں کا سامنا ہوا تھا، بشمول بدھ مت کے۔ پس اس نے اپنے دربار میں کشمیر سے ایک بودھی راہب بکشی کمالشری کو مدعو کیا تاکہ وہ رشید الدین کی اعانت کرے۔ اس اشتراک کا نتیجہ ”بدھ کی زندگی اور تعلیمات“ تھا جو کہ عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں ”جامع التواریخ“ کی دوسری جلد کے تیسرے حصہ ”تاریخِ ہند“ میں شامل تھا۔
الکرمانی اور البیرونی کی طرح رشید الدین نے بھی بدھ مت اور اس کی تعلیمات کو مسلمان اصطلاحات میں واضح کیا۔ پس ان نے اُن چھ مذہبی بانیوں کی فہرست دی جنہیں ہندوستانی بطور پیغمبر تسلیم کرتے تھے: تین یزدانی : شِو، وشنو اور برہما اور تین غیر یزدانی: جین مت کے ارہنت، چارواک نظام کے ناستک اور بدھ مت کے شاکیہ منی۔ اس نے دیووں کا ذکر بطور فرشتوں کے کیا اور مارا کا بطور ابلیس یعنی شیطان کے۔ یہ متن چھ سمساری حالتوں کا ذکر بھی کرتا ہے اور کرمی قانونِ علت و معلول کا بھی اور اس امر کا کہ مہاتما بدھ کے الفاظ ”کانگیور“ کے تبتی ترجموں کے مجموعہ میں محفوظ ہیں۔
رشید الدین نے یہ بھی لکھا کہ اس کے زمانہ میں ایران میں گیارہ بودھی متون عربی ترجمہ میں موجود تھے۔ ان میں امیتابھ کی خالص سرزمین کے بارہ میں ”سکھہ کی پاک صاف سرزمین کے ترتیب کی سوتر“، ‘آوالوکیت ایشور’ یعنی درد مندی کی تجسیم کے بارہ میں ”بُنی ہوئی ٹوکری کی طرح ترتیب کی سوتر“ اور ‘مایتریا’ یعنی مستقبل کے بدھ اور محبت کی تجسیم کے بارہ میں ”مایتریا کا بیان“ شامل تھے۔
اس کے تقریباً ایک صدی بعد، ابتدائی پندرہویں صدی عیسوی میں حافظِ آبرو نے سمرقند میں تیموری پادشاہ شاہ رُخ کے دربار میں ملازمت کے دوران ”مجمع التواریخ“ مرتب کی۔ اس کتاب کا مہاتما بدھ اور بدھ مت کے بارہ میں حصہ رشیدالدین کی کتاب سے ماخوذ ہے۔
(جاری ہے)
Leave a Reply