چاند! یہ دودھ کی مٹکی، یہ چھاگل ، یہ کٹورا، جیسے چِیکو مَلی رُوس کی سنیورا، جیسے صحرا کی سفید سنگھیلی گائے، جیسے ماٹی کی پرات میں ماکھن کا نچوڑا، آسمان ِدنیا کا یہ پنگھٹ! پنگھٹ پہ آئی ہوئی ناری، کمریا پہ دھری دودھیا جست کی گھاگر! جس کی ہر اٹھان پہ نور کے چھینٹے چھٹکتے جائیں، ”شام“ کے ماتھے پہ یہ نور کا جھومر، کانوں میں ”رادھا“ کے سے بالے!
آنکھ مندمل ہے، منظر واپس کو رواں ہے، اور کیا مصیبت ہے میں تمھیں کیسے دکھلاؤں، وہاں ادھر اُس کچے آنگن کے حصے کی چودھویں کی رات! وہ راتیں جو کسی نو بیاہتا کے چندن ہار کی ماند حواس پہ طاری ہی رہی ہیں، جس کی البیلی طمازتوں میں مرا نہال بچپنا دودھوں نہلایا گیا تھا، اور پھر سچ ہے کہ وہاں تاحد نگہ (جو اب قریہ ِخراباں میں سے) ٹھہری سبز فصل کے بیچ اک دائروی وجود نما گھر تھا! ڈبیہ ڈبیہ چھتیائی ہوئی چھت جیسے سفید پکھراج کا نگ ویرانے میں رکھا ہو، جس کے چار اطراف میں میلوں میلوں کسی چار دیورای کا وجود کفر تھا، شرک تھا، اور اک عمود کو تراشتی ہوئی نامعلوم کہاں سے اک ہچکولے کھاتی سڑک آتی ہے جس کے دائیں بائیں سبز سیندور میں نہلائی ہوئی گندم کے ہموار سلسلے ہیں، جس کے گڑھوں پہ جابجا ریڑھا گاڑی کے ٹائروں کے نشاں ثبت ہیں، ان ٹائروں کے نقوشوں نگاروں کی طلسمیاتی گفتگو کہتی ہے، بیل ٹھہرا نہیں ہے، وقت بھی ٹھہرا نہیں ہے، پھر بیک دوش انساں بھی ٹھہرے نہیں ہیں! انساں جو ٹھہرے! سو نہیں ٹھہرے!
وہ پڑھی لکھی جاگتی الیکتی کوکتی سڑک، یہ اس کی وفا ہے کہ وہ مرے پاؤں پکڑ کر اسی دہلیز پہ لا پٹختی ہے! سڑک ہے کہ دلدل ہے اور دھیرے دھیرے پاؤں پکڑتی ہے، دھنساتی ہے، دھنسائے چلے جاتی ہے، کہ قد بونا ہوجاتا ہے، مونچھیں جھڑجاتی ہیں، داڑھی گرجاتی ہیں، پتلیاں چھوٹی ہوجاتی ہیں، ہاتھ یہ ہاتھ ٹھنگنے، قیمض اتر جاتی ہے، بنیان پھٹ جاتی ہے، شلوار گھٹنوں تک آ رہتی ہے، بال الجھ جاتے ہیں، آواز پتلی ہوجاتی ہے، جوتیاں اتر جاتی ہیں، چکی کی کوہ کوہ کوکنے لگتی ہے!
سامنے اک درواز ہے، کیکر کا ہے، جس کے تختوں پہ وقت کی اتنی کلہاڑیاں پڑیں کہ اس پہ عمودی باریک جابجا چھید سے چھد گئے ہیں، شاید وہ مرے آباء کی روحیں ہیں جو اس کے وجود کو وحشت سے دھڑ دھڑاتی ہیں، پھر چھید سے داخل ہو کر صحن میں اوندھے منہ گر کے گریہ کناں ہیں! دیکھو تم یہ اچھا نہیں کرتے، دیکھو ایسا نہیں کرتے، ہمیں وہاں سے اُکھیڑو، ہم یہیں کے تھے ہمیں یہیں اتارو!
کواڑ ہیں کہ جن کو دیمک کھا رہی ہے، وہاں راٹ لوہے کا بنا ہک جس سے بالشت کی اک زنجیر لٹک رہی ہے، اس زنجیر کی ناب سے سیاہ لکڑی کا دستہ پیوستہ ہے! اس کو پکڑ کر دراوزے کے ہردے سے ٹکراؤ تو جیسے رقاصہ کی پازیب چھنچھناتی ہے، اور حویلی”کوٹھے“ میں بدل جاتی ہے، اور کہتی ہے ہم بےخاندان سہی مگر یوں ویراں نہیں ہوتے! اے غیرت! اے نکاح پڑھوایا ہوا لہو! لو خاندانوں طروں، جبوں، اناؤں کی حویلیاں ویراں ہیں اور کوٹھے ہیں کہ ویراں نہیں ہوتے!
یہ وہ دہلیز تھی کہ جہاں سے مرے پرکھوں کے جنازے گزر کر ویرانہ برد ہوئے، جن کی دستاروں کا وزن وہ پلڑا تھا کہ جدھر وہ دھر دی جائیں دنیا اسی کی ہے! یہ وہ دہلیز تھی کہ جس کی زنجیر، زنجیرِ جہانگیری تھی! اور کیا جانیے میں بھی زنجیر ہلا دیتا ہوں!
کواڑ کھلتے ہیں تو حویلی اپنی حالت میں سمٹ جاتی ہے، روحیں ماضی کے اصطبل سے نکل کر دیواروں سے کوندتی ہیں، پرکھ مسجم ہو رہتے ہیں، گائے بکریاں زندہ ہوجاتی، در و دیوار کمرے کھڑکیاں کوئلے امریاں زمیں اگل دیتی ہے، لیپ و آراستہ ہو جاتی ہیں، وہ جو گہنا گئی تھیں سہلا دی گئیں! بڑے دادا مونچھوں کو تاؤ دیے دستار کا آخری بل کس رہے ہیں، پورا آنگن سفید مٹی سے لیپ دیا گیا ہے، جیسے تختی کے حجم پہ لپائی ہووے، مونج کی رسی کی بنوائی ہوئی چارپائیاں، جن کے پائے سرخ رنگ میں رنگ دیے گئے تھے، دادو سرخ مٹکی کی چاٹی جس کے اوپر چرغی لگی تھی، جس کےگرد رسی دائرے میں باندھ کر کھینچ کھینچ مکھن کشید کر رہیں، جست کی ڈولچیاں، داجلی مٹی کے بنے حقے کے پاٹ جس پہ اکک کے پودے کی دراز نڑی والا پائپ جڑا تھا، دائیں اوڑ مٹی کا بنا چلھا جس کی تکونی شکل، جس کے ہر کونے پر مٹی کے چھوٹے چھوٹے گمبد بنوائے گئے تھے، اور اک طرف سے چھوٹی سی دیوار اٹھا دی گئی تھی، جو فقط چلھے کی فصیل سی تھی اسی کو آڑ بنا کر ڈھانپتی تھی! اسی کے ساتھ اک تندور جس کی اندرونی دیواریں جل جل کر گیندے کے پھول کے جیسی پیلی ہوئی جاتی تھیں! یہی وہ تندور ہے جس سے پیٹ کا دوزخ بھرا جاتا تھا، آج یہی وہ تندور ہے جو طوفان نوح کا memorandum ہے! ویراں ہے ویرانہ جہاں ہے!
رات اتر آئی ہے، ماہ شب چار دھم ہے! پرلی نکڑ کی دیوار سے لگا کھجور کا درخت جس کی خمیدہ ٹہنیوں سے چھد چھد کر چاند دودھ کے فوارے اڑاتا ہوا آ نکلا ہے، سرکتا سرکتا صحن کے اوپر یوں تن گیا ہے جیسے فروزاں ہو کر کچھ گما ڈھونڈ رہا ہو! وسط میں لگی موتیا کی پھلواری جس کی مہک میں چاند کی لپکتی ہوئی کوندیں جیسے ہی روحوں کے بطن پہ پڑتی ہیں، حویلی کی دیوراوں کے کچے لیپ اکھڑ کر دھڑم سے نیچے آرہتے ہیں! روحیں گم ہو جاتی ہیں! فرش پہ ببول کی جھاڑیاں اگ آتی ہیں، زمیں کلراٹھی بھُربھُری ہوجاتی ھے! کوئی روح باہر نکلتے ہوئے دروازہ ہلا گئی ہے، دراوزے کو متصل زنجیر آہستگی سے چھنچھنائی، زنجیر ہل رہی ہے.
تبصرہ لکھیے