ہوم << ناسور پاکستان ہے یا ملکہ برطانیہ کا وفادار؟ احسان کوہاٹی کے قلم سے صورتحال کا مکمل احوال اور تجزیہ

ناسور پاکستان ہے یا ملکہ برطانیہ کا وفادار؟ احسان کوہاٹی کے قلم سے صورتحال کا مکمل احوال اور تجزیہ

پاکستان پوری دنیا کے لیے ایک ناسور ہے
پاکستان دنیا کے لیے ایک عذاب ہے
پاکستان دنیا کے لیے دہشت گردی کاEpicentre ہے
اس کا خاتمہ عین عبادت ہو گا۔
جی ہاں من و عن یہ وہی الفاظ ہیں جو کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال پر بیٹھے بانیان پاکستان کی اولاد ہونے پر فخر کرنے والے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں سے ان کے اس قائد نے خطاب میں کہے جنہیں وہ منزل سے بڑھ کر مانتے اور چاہتے ہیں. ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے برطانوی شہری کے ان الفاظ پر کسی کو حیرت ہوئی ہو تو ہوئی ہو، ایم کیوایم کے بندکمروں کے اجلاسوں کی خبر رکھنے والوں کو بالکل نہیں ہوئی ہوگی. قائدصاحب اک عرصے سے اس کوشش میں ہیں کہ ایم کیو ایم فوج اور اداروں کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اور وہ عالمی ایجنڈے پر عمل کر سکیں. انہوں نے اپنی صفوں میں فاروق دادوں اور اجمل پہاڑیوں کی تلاش شروع کر رکھی ہے لیکن یہ 80ء کی دہائی نہیں کہ مہاجریت کا لسانی عقیدہ انہیں صولت مرزے دے جائے. صولت مرزا کی پھانسی نے بہت سے دادوں، پہاڑیوں اور کن کٹوں کی تحریک سے وفاداریاں سولی پر چڑھا دی ہیں اور اسی بات کا قائد کو قلق بھی ہے. اسی بات کا انہیں دکھ بھی ہے کہ ایک کراچی وہ تھا جب وہ کھانستے بھی تھے تو’’لڑکے‘‘ آٹھ دس پٹھانوں، پنجابیوں اور سندھیوں کا صدقہ دے دیا کرتے تھے اور اب انہیں لندن میں اسکاٹ لینڈ یارڈ پکڑتی ہے اور وہ جیل جاتے ہیں مگر کراچی کی نمائش چورنگی پر پانچ ہزار کارکن جمع نہیں ہوتے۔ اسی لیے کھسیا کر کھمبا نوچے جانے پر قطعا حیرت نہیں ہوئی، قوم کو مشکلات میں چھوڑ کر لندن کے مہنگے ترین علاقے میں عیاشی کی جلاوطنی کاٹنے والے’’قائد‘‘ بہت پہلے ہی اس جانب قدم بڑھا چکے تھے، بس ایک رسم باقی تھی، اک اعلان کرنا تھا سو انہوں نے سات سمندر پار سے منہ کھولا، آزادی کے مہینے میں دل میں پنپنے والی غلیظ آرزؤں کی قے کی اور 21 اگست کی سہ پہر اپنے کارکنوں سے 21 نعروں کی سلامی لے کر شیخ مجیب، جی ایم سید اور برہمداغ بگٹی کی صف میں آکھڑے ہوئے۔
پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو لگے ہوئے چھ روز ہوچکے تھے، یہ بھوک ہڑتال بھی خوب تھی کہ کیمپ میں ہڑتال ہوتی اور پیچھے کراچی پریس کلب میں پیٹ پوجا ہو رہی ہوتی، سیلانی اور دیگر صحاٖفی آتے جاتے یہ سب دیکھ رہے ہوتے تھے. کراچی پریس کلب کے آس پاس اسی قسم کی سرگرمیاں رہتی ہیں، یہ شاہ کے در سے لٹکی وہ زنجیر عدل ہے جسے ہر کوئی بجانے کے لیے آسکتا ہے. ایم کیو ایم نے بھی طے کیا کہ اور زنجیر ہلانے چلی آئی، انہیں کراچی آپریشن پر تحفظات تھے، ان کا کہنا تھا کہ رینجرز صرف ان کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے، صرف ان ہی کے کارکنوں کو پکڑ رہی ہے، ان ہی کے کارکن لاپتہ ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے مطالبات کا ڈول لیے پریس کلب کے سامنے سڑک پر تمبو لگا کر بیٹھ گئے، یہاں شہر بھر سے کارکن حاضریاں لگانے آتے، پنڈال میں بیٹھتے جیے مہاجر جیے الطاف حسین کے نعرے لگاتے اور احتجاج کرکے گھروں کو نکل جاتے. ان کا یہ شو میڈیا کے ذریعے لوگ بھی دیکھ رہے تھے، اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی یہ بھوک ہڑتال خبروں کا حصہ ہوتی، البتہ قائد تحریک کا خطاب کسی کو نشر کرنے کی ہمت نہ تھی کہ پیمرا کے ابصار عالم نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ یہاں ہمت دکھائی تو پھر مجھ سے گلہ نہ کرنا، معاملہ میرے ہاتھ کا نہیں ہے۔
پانچویں روز بھوک ہڑتال رنگ لانا شروع ہوئی. سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی بھوک ہڑتالی کیمپ پہنچے، وزیر اعلٰی اور بلاول ہاؤس کا پیغام پہنچایا، پھر یہاں کا پیغام لیا اور چلے گئے. چھٹے روز وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے ایم کیو ایم کے وفد کو وزیراعلی ہاؤس بلا لیا، سیلانی کو وزیراعلی کے ترجمان کے ذریعے یہ اہم اطلاع ملی اور وہ بھی بارہ بجے کے قریب وزیر اعلی ہاؤس پہنچ گیا کہ دیکھیں کیا بات ہوتی ہے. لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ بعد وزیراعلی ہاؤس سے کنور نوید، خواجہ اظہار دو ساتھیوں کے ہمراہ باہر آئے اور میڈیا کے سامنے اعلان کیا کہ ہم بیس نکاتی ایجنڈا لے کر آئے تھے، تین پر وزیر اعلٰی نے اتفاق کیا ہے، باقی نکات پر کچھ دنوں کی مہلت مانگی ہے، ہم جلد ہی دوبارہ ملیں گے، یہاں خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات اور آپریشن کی مانیٹرنگ کمیٹی کی تشکیل پر وزیراعلی مان گئے ہیں، انہوں نے لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کے لیے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بات کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے. ہمیں لگتا ہے کہ وزیراعلی آپریشن کی کپتانی میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ ہمیں خاصے بااعتماد بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
ناراض سیاسی دوستوں کا وزیراعلی ہائوس آنا، وزیراعلی سے بات چیت کرنا اور دوسری جانب وزیراعظم کے دست راست اور وفاقی وزیر اطلاعات پرویزرشید کا بھی فاروق ستار سے ملنا اور انہیں یقین دہانیاں کرانا، اس صورتحال میں بڑے اقدام تھے. سیلانی یہ سب لے کر دفتر پہنچا اور اس ساری صورتحال کو خبر کے قالب میں ڈھال کر خبر اسائنمنٹ ڈیسک کے حوالے کرکے پریس کلب کی طرف چل پڑا، وہاں اسے کچھ ہلچل سی محسوس ہوئی، ایک صحافی دوست تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا آتا دکھائی دیا، اس کے چہرے پر ہوائیاں سی اڑ رہی تھیں
’’السلام علیکم، خیریت تو ہے ، پریشان لگ رہے ہیں.‘‘
’’پاگل ہوگیا ہے پاگل، دماغ خراب ہو گیا۔‘‘
’’کس کا؟‘‘
’’ایک ہی تو ہے، پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوا دیے ا س نے‘‘
’’الطاف حسین نے؟‘‘
’’اور کون کرے گا یہ سب، بکواس کررہا تھا کہ پاکستان ناسور ہے، عذاب ہے، دہشت گردی کا ایدھی سینٹر ہے.‘‘
’’اوہ تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا جو روکتا۔‘‘سیلانی نے پوچھا
’’دماغ خراب ہے تمہارا، ہم کیسے اسے روکتے، یہ کام تو رینجرز اور پولیس کا ہے ناں، میں تو اٹھ کر ہی آگیا.‘‘
سیلانی تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا پنڈال میں پہنچا لیکن وہاں اب ایسا کچھ نہیں تھا. اس نے ایک دو دوستوں سے پوچھا کہ آج ’’بھائی‘‘ نے کچھ زیادہ کہہ دیا تو جواب میں وہی کچھ سننے کو ملا جو پریس کلب کے عقبی گیٹ پر پتہ چلا تھا. سیلانی حیران تھا کہ اس کے باوجود پنڈال سجا ہوا ہے، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا، پاکستان نہ ہوگیا غریب کی بیوہ ہوگئی، سب نے بھابھی بنا لیا۔ وہ اسی وقت پنڈال پر چار حرف بھیج کر الٹے قدموں چلا آیا، جہاں اس کے وطن کی توقیر نہیں وہ وہاں کھڑے ہونا اپنے جوتوں کی توہین سمجھتا ہے.
سیلانی کلب سے نکلا اور موٹر سائکل اسٹارٹ کر کے حاجی صاحب کے پاس چلا آیا، اس کی طبیعت خاصی مکدر ہو چکی تھی، اس کا جی چاہ رہا تھا کہ سیدھا گھر کی راہ لے لیکن وہ حاجی صاحب سے آنے کی کمٹمنٹ کر چکا تھا، وہ کچھ دیر ہی شگفتہ مزاج حاجی صاحب کے پاس بیٹھ سکا، آدھے سر کا درد چھڑ چکا تھا، اس نے قریبی میڈیکل اسٹور سے سر درد کی دوا لی اور اجازت لے کر گھر کی طرف چل پڑا، اسے گھر پہنچنے میں گھنٹہ بھر لگ گیا، یہاں آکر اس نے سیل فون چیک کیا تو اسے نیوز چینلوں پر حملے کی دھمکیوں نے ٹھٹکا دیا، کراچی پریس کلب کے واٹس اپ گروپ میں سماء نیوز کے ایک اسپورٹس رپورٹر کا پیغام تھا:
’’اے آر وائی، سماء اور جیو کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، بھائیو کچھ کرو‘‘
پہلے تو سیلانی اسے مذاق سمجھا اور لکھا
’’بھائی! کچھ مل ہی رہا ہے ناں تو لے لو، پریشانی کیسی‘‘.
وہ اسے مذاق ہی سمجھا تھا یہ 90ء کی دہائی تو نہ تھی، کون نیوز چینلز کے دفتر میں گھسنے کی حماقت کرتا؟ لیکن پریشانی کی بات تو تھی. قائد تحریک کو قلق تھا کہ انہیں ویسے کوریج نہیں مل رہی جیسا کہ ان کا ’’حق‘‘ ہے، انہوں نے کارکنوں سے اس دکھ کا اظہار کیا، قائد کو دکھی دیکھ کر چہیتی خواتین کارکنوں میں سے کچھ نے جوشیلے انداز میں کہا:
’’بھائی! آپ کا اشارہ ہونا چاہیے، ہم سب تیار ہیں، بس آپ کے اشارے کی دیر ہے.‘‘
اس پر بھائی نے کہا ’’بسم اللہ، بسم اللہ‘‘
اور پھر’’بسم اللہ ‘‘ہو گئی.
بانیان پاکستان کی اولادوں کا اعزاز اور طرہ رکھنے والی مائیں بہنیں اپنے بھائیوں اور بیٹوں کے ساتھ زینب مارکیٹ صدر میں واقع اے آر وائی نیوز کے بیورو آفس میں گھس گئیں اور جو کر سکتی تھیں کر گذریں، توڑ پھوڑ گالم گلوچ، اور پھر سب کو جیسے ہوش آگیا، پولیس بھی آگئی، رینجرز بھی پہنچ گئی، پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی، معاملہ نیوز چینل کا تھا اس لیے زیادہ ’’حساس‘‘ ہو گیا، اور پھر پہلی بار سیلانی نے ٹی وی اینکرز کے لیے’’نامعلوم‘‘ کومعلوم ہوتے دیکھا، وہ انہیں ایم کیو ایم پر گرجتے برستے دیکھ رہاتھا، کوئی نیوز چینل ایسا نہیں تھا جو الطاف حسین کا نام نہ لے لے کر چڑھائی کر رہا ہو، نیوز چینلزکی گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے، کیمرا مینوں کو مارا پیٹا گیا، اس لیے سارے ہی نیوز چینلز ہر ہر رخ سے ایم کیو ایم کا چہرہ دکھا رہے تھے، کراچی آپریشن کے بعد ہمت پکڑ چکے تھے، الطاف حسین کی تقریر کا وہ غلیظ حصہ بار بار دکھا رہے تھے جس میں بانیان پاکستان کی اولادوں کا قائد کہلوانے والا شخص پاکستان کو ناسور کہہ رہا تھا، عذاب کہہ رہا تھا، دہشت گردوں کا ایدھی سینٹر کہہ رہا تھا، پاکستان کے خاتمے کو عین ثواب قرار دے رہا تھا، پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوارہا تھا۔ یہ بہت ہی تکلیف دہ بات تھی لیکن خوشی کی بات یہ تھی کہ کراچی میں برطانوی شہری کی اس ہذیان کا کسی نے ویسا نوٹس نہیں لیا جیسا کبھی ماضی میں لیا جاتا رہا ہے. کوئی نوجوان، دادا، لنگڑا، پہاڑی، مادھوری بن کر شہر کی چوراہوں میں موت بانٹنے نہیں نکلا۔ کسی چوک، چوراہے اور سڑک پر کسی پاکستانی کا رکشہ جلا نہ ٹیکسی، لیاقت آباد، عزیز آباد، لانڈھی کورنگی میں کسی ہوٹل پر فائرنگ نہیں ہوئی، رات سب سکون سے سوئے، اسپتالوں کی ایمرجنسی سے رپورٹروں کو کوئی خبر نہ ملی، مردہ خانوں سے پریس فوٹوگرافروں کوتصویر بنانے کے لیے کوئی لاش بھی نہ ملی، کرائم رپورٹر اور پریس فوٹو گرافر، پریس کلب اور میڈیا اخبارات کے دفاتر میں ہی بیٹھے انتظار کرتے رہے۔ بانیان پاکستان کی اولادوں نے پاکستان کے خلاف نعرے لگوانے والے کو ایسے ہی نظر انداز کر دیا تھا جیسے ہم کسی کچرہ کنڈی میں بیٹھے کسی ہیرونچی پر نگاہ غلط ڈال کر بڑھ جاتے ہیں، لیکن کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کو بھی ایسے ہی آگے بڑھ جانا چاہیے؟ نظریہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، عقیدہ کیسا ہی بھیانک کیوں نہ ہو، نظریے کو نظر اور عقیدے کو عقیدت مند مل ہی جاتے ہیں. پاکستان مردہ باد کے نظریے کواب’’نظر‘‘ نہیں ملنی چاہیے، بہت ہو چکی مصلحتیں، اب فیصلہ ہونا چاہیے کہ ناسور پاکستان ہے یا پاکستان کو ناسور کہنے والا ملکہ برطانیہ کا وفادار ؟۔ سیلانی سینے میں جوار بھاٹا لیے ٹیلی ویژن اسکرین پر پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے والوں کو نفرت اور حقارت سے دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

Comments

Click here to post a comment