ہوم << سانحہ اے پی ایس کامیابی اور ناکامی کے دس سال - شبیر احمد یوسفزئی

سانحہ اے پی ایس کامیابی اور ناکامی کے دس سال - شبیر احمد یوسفزئی

سانحہ اے پی ایس پشاور کو دس برس بیت گئے۔ اس سانحے نے پوری قوم کے دل و دماغ پروہ ان مٹ نقوش چھوڑے جسے آج بھی یاد کر کے ہر آنکھ نم اور ہر روح کانپ جاتی ہے۔ 16 دسمبر 2014۔ یہ منگل کا دن تھا ۔ پشاور ورسک روڈ پر قائم آرمی پبلک اسکول میں ظالم دہشت گرددیوار یں پھلانگ کر داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کی۔ معصوم بچوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔ مزاحمت کرنے والے استاد کو آگ لگادی۔ چند لمحے بعد زور دار دھماکوں سے ہر طرف کہرام مچ گیا ۔ ظالم اور سفاک دہشت گردوں کے ہاتھوں 147 افراد شہید ہوگئے جس میں 132 اسکول کے معصوم بچے تھے۔
سانحہ اے پی ایس سے اگلے روز قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں اس المناک واقعے پر سب طرف خبریں چھپیں اور دہشت گردی پر اداریے لکھے گئے۔ واقعہ اتنا بڑا تھا کہ کئی روز، ہفتے اور مہینے خبریں صرف اسی کے گرد گھومتی رہیں۔ڈان کے اداریے میں لکھا گیا کہ دہشت گردی کو لے کر اب سخت سوال پوچھنا ہوں گے، جس کے جوابات آنا بھی ضروری ہے ۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ شدت پسندی کو صرف قومی سطح پر شکست نہیں دی جاسکتی ، یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے جب تک ہم اس کو اس سطح پر حل نہیں کریں گے۔ یہ بار بار سر اٹھاتا رہے گا۔
اس سانحے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق یہ حملہ کرنے والے دہشت گرد 27 تھے، جس میں 9 اسی وقت جہنم واصل کیے گئے جبکہ 12 کو گرفتار کرلیا گیا۔ 2021 میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ ان میں بھی پانچ دہشت گرد پھانسی کے پھندے سے لٹکائے جاچکے ہیں۔
اس واقعے کےفوری بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی۔تمام سیاسی اور عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھی۔عمران خان نے اپنا دھرنا ختم کر کے اس میں شرکت کی اور تمام اسٹیک ہولڈرز نے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کیا، جسے 24 دسمبر کو پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا۔ اس نیشنل ایکشن پلان میں دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔
نیشنل ایکشن پلان کے مطابق دہشت گردی میں ملوث تمام افراد کو سزائے موت دی جائے گی۔دو سال کے لیے ملٹری کورٹس قائم کیے جائیں گے۔ نیکٹا کی تشکیل نو کی جائے گی۔دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کو جڑ سے اکھاڑا جائے گا۔ انسداد دہشت گردی فورس کوملک کے حساس مقامات پر تعینات کیا جائےگا۔افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے جامع پالیسی بنائی جائے گی۔
ان نکات پر عمل درآمد کے لیے پاک فوج کی جانب سے ملک میں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا جبکہ خیبر ایجنسی میں فوجی آپریشن خیبر ون اور خیبر ٹو شروع کیا گیا۔ بی بی سی کے مطابق ایک برس کے دوران اس آپریشن کے نتیجے میں 2763 دہشت گرد مارے گئے جبکہ ساڑھے تین سو کے قریب فوجی افسر اور جوان بھی شہید ہوئے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں فتنہ الخوارج کی ’امارت‘ یعنی گڑھ سمجھے جانے والے علاقے شمالی وزیرستان کو ان سے خالی کروالیا گیا۔
ان آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کو کافی حد تک دبایا گیا لیکن سال 2017 کے ابتدائی دو ماہ میں ملک میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں اچانک تیزی آئی تو اس تناظر میں فروری 2017 میں فوج کی طرف سے آپریشن ردالفساد کے نام سے ایک نئے آپریشن کا آغاز کیا گیا۔اس بار اس آپریشن کو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ لیڈ کر رہے تھے۔ اس کے بعد دہشت گردوں کے خود ساختہ مذہبی بیانیے کو کاؤنٹر کرنے کے لیے 2018 میں اٹھارہ سو علماء نے پیغام پاکستان کے نام سے ایک فتوی جاری کیا، جس کی امام کعبہ اور مصر کی الاظہر یونیورسٹی نے بھی حمایت کی۔ فتوے میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کو غیر شرعی اور حرام قرار دیا گیا۔برسوں کی قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ اکتوبر 2022 میں منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کے لیے مالی معاونت پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو اپنی گرے لسٹ سے نکال دیا۔ جبکہ آپریشن رد الفساد کے پانچ سال مکمل ہونے پر آئی ایس پی آر نے بھی کہا کہ آپریشن کی کارروائیاں "کامیابی سے" جاری رہیں اور ملک نے غیر یقینی صورتحال سے امن کی طرف سفر طے کیا۔
لیکن، اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے سے پہلے 2020 میں پاکستان میں تین حملوں میں پچیس افراد جبکہ 2021 میں چار حملوں میں اکیس افراد شہید ہوئے تھے۔لیکن طالبان کے قبضے کے بعد2022 میں تیرہ حملوں میں چھیانوے افراد، جبکہ 2023 میں پاکستان میں تیس خودکش حملوں میں دو سو اڑتیس افراد شہید ہوئے۔اس دوران دہشت گردوں نے پشاور پولیس لائنز مسجد پر حملے میں 80 سے زائد افراد کو بھی شہید کیا۔
اس صورتحال میں پاکستان نے افغان طالبان کی ثالثی میں مذاکرات کی کوششیں کیں۔مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں علماء کا ایک وفد جولائی 2022 میں افغانستان گیا۔اسی طرح اکتوبر 2022 میں بیرسٹر سیف نے مذاکرات کی قیادت کی۔ جنوری 2023میں پشاور پولیس لائن پر حملے کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفیننٹ جنرل ندیم انجم نے بھی کابل کا دورہ کیا ۔ لیکن، ان مذاکرات کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا اور آج پاکستان2024 میں دہشت گردی کی ایک اور لہر کا سامنا کر رہا ہے۔
یہ سانحہ اے پی ایس کے بعد دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ اور تاریخ تھی ۔۔یعنی کامیابی اور ناکامی کے دس سال۔سانحہ اے پی ایس سے پہلے ہم نے بدترین دہشت گردی کا سامنا کیا۔ اس سانحے کے بعد بھرپور آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کو دبایا گیا اور کسی حد تک کارروائیوں میں کمی بھی آئی لیکن آج ملک پھر سے اسی صورتحال سے دو چار ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ قصور وار کون ہے؟ کیانیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح سے عمل درآمد نہیں ہوسکا؟ اس پورے دور میں دو جماعتیں حکومت میں آئیں ، ن لیگ اور پی ٹی آئی۔۔کیا دونوں جماعتیں اس کا سیاسی حل نکالنے میں ناکام رہیں؟ افغان حکومت بات ماننے کے لیے تیار نہیں تو ایسے میں آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوسکتا ہے؟ کیا علاقائی سطح پر دہشت گردی کا حل نکالا جاسکتا ہے؟ کیا سیکورٹی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کو جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے؟
آج دس سال عرصہ گزرنے کے بعد سر جوڑ کر ان سوالات کا تعاقب ضروری ہے،وگرنہ سانحہ اے پی ایس کے بچوں کی چیخیں ہمیں دھتکارتی رہیں گی ۔