جب پاکستان، مشرقی محاذ پر اپنی سالمیت کی جنگ لڑ رہا تھا تو اس وقت، ہنری کسنجر اس وقت امریکی وزیرِ خارجہ تھے۔
یہ وہ دور تھا، جب پاکستان سیٹو اور سینٹو کا ممبر تھا۔ انہی دنوں میں پاکستان نے دو دیرینہ حریفوں امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا۔ چنانچہ ، امریکہ پاکستان کو اپنا بہترین دوست قرار دیتا تھا، اور چونکہ سوویت یونین نے بھارت سے ہاتھ ملا لیے تھے تو پاکستان سے دوستی یوں بھی امریکہ کی مجبوری بن گئی تھی۔
انہی دنوں ، جب بھارت نے پاکستان کو دو لخت کرنے کے لیے مشرقی پاکستان میں اپنی فوج داخل کی تو سوویت یونین مکمل طور پر بھارت کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ دوسری جانب ، سوویت یونین کے 15 لاکھ فوجی چینی سرحد پر چاک و چوبند کھڑے تھے کہ چین پاکستان کی امداد کے لیے کوئی قدم اٹھانے کی جرات نہ کرے۔ شمال کے اس سفید ریچھ سے براہ راست ٹکرانے کا حوصلہ تو اس وقت امریکہ میں بھی نہ تھا۔
مگر، امریکی صدر ، رچرڈ نکسن اور وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان کو یقین دہانی کروائی کہ پاکستان کی امداد کے لیے امریکہ کا ساتواں بحری بیڑہ روانہ کر دیا گیا ہے، مگر، پاکستانی افواج اسلحے اور وسائل کی عدم موجودگی میں بھی تنہا ہی بھارتی فوج، بھارتی گوریلوں، ایسٹ پاکستان رائفلز اور مکتی باہنی کے خلاف لڑتی رہی، یہاں تک کہ 16 دسمبر کا دن آ گیا مگر امریکی بحری بیڑہ نہ پہنچ سکا۔
ہم پاکستانیوں کے لیے تو ہنری کسنجر کی آخری یاد یہ بد عہدی ہی ہے۔
مگر، بھارتی پارلیمان ممبر ششی تھرور کے صاحبزادے اشان تھرور نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے مقالے ، "ہنری کسنجر کے ہاتھوں پر بنگالیوں کا خون" میں ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں، ایک جانب انہوں نے پاک افواج پر 1971 کے جنگی جرائم کے الزامات کا اعادہ کیا، اور دوسرا یہ کھلا جھوٹ بھی بول دیا کہ 1971 میں پاکستان امریکی اسلحے کی بنیاد پر لڑ رہا تھا۔
جبکہ زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہ دونوں باتیں ، مکمل طور پر جھوٹ ہیں ۔
بنگلہ دیش میں چند بھارت نواز عناصر مسلسل "1971 کے جنگی جرائم" کا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں، ان عناصر اور الزامات کو تقویت بھارتی میڈیا دیتا ہے۔
ان الزامات کے مطابق ، پاکستانی فوج نے، 1971 کی جنگ کے دوران ، مشرقی پاکستان میں باقاعدہ "ہولو کاسٹ" سر انجام دیا۔ لاکھوں عوامی لیگ والوں کو قتل کیا، خواتین کی عصمت دری کی وغیرہ وغیرہ ۔
یہ الزامات لگانا تو آسان ہے، مگر بھارت یا بنگلہ دیش عوامی لیگ ہمیشہ ان الزامات کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ۔
جنیوا کیمپ، ایمنیسٹی والے جب بھی ان الزامات کی تحقیقات کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے اس الزام کو سراسر جھٹلا دیا کہ 2 لاکھ افراد کا قتل ہو جائے اور ایک لاش کا بھی ثبوت نہ ملے ، یہ کیونکر ممکن ہے؟؟ قتل ہونے والوں کو زمین کھا گئی یا آسمان ؟؟؟
اشان تھرور صاحب نے مگر ایک تو واضح جھوٹ گھڑا کہ پاکستانی افواج نے مکتی باہنی والوں کو قتل کر کے لاشوں کو چاول کی فصل میں چھپا دیا،
حالانکہ جب اقوام متحدہ اور عالمی تنظیمیں ان مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے بنگلہ دیش آئی تھیں تو تب عوامی لیگ کی حکومت یہ "کھلے ہوئے ثبوت" دکھانے سے قاصر کیوں رہی تھی ؟
اشان تھرور کا دوسرا جھوٹ یہ تھا کہ پاکستانی فوج نے مکتی باہنی اور بھارتی گوریلوں کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو سمندر برد کر دیا ۔
اب دیکھا جائے تو یہ الزام، بھارت اور بنگلہ دیشی عوامی لیگ کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات کی نفی کرتا ہے۔
کیونکہ، بیشتر قتل کے الزامات، 15 دسمبر کی رات کے ہیں، یعنی مبینہ طور پر پاک افواج نے سرنڈر سے پچھلی رات کو مکتی باہنی کے لوگوں کو بڑی تعداد میں قتل کیا، اور صبح پلٹن میدان میں سرنڈر کر دیا۔ یعنی 16 دسمبر دوپہر سے پہلے پہلے پورے مشرقی پاکستان کا چارج بھارتی افواج اور مکتی باہنی سنبھال چکے تھے۔
تو پاکستانی فوج کو اس دوران ان ہزاروں لاکھوں لاشوں کو سمندر برد کرنے کا موقع کیسے مل گیا؟ یہ ممکن تھا کہ ہوائی جہاز کے ذریعے یہ اقدام کیا جاتا مگر، پورے مشرقی پاکستان میں موجود واحد پاک فضائیہ کا ہوائی اڈہ، تاج گاؤں ڈھاکہ میں تھا جو بھارتی فوج نے 7 دسمبر کو ہی تباہ کر دیا تھا، چنانچہ یہ امکان بھی ختم ہو گیا۔
دوسری جانب ، بھارت، عوامی لیگ کے حامیوں، غیر جانبدار تحقیق کاروں اور مغربی مصنفین نے سقوطِ ڈھاکہ پر مفصل انداز میں تحقیقات کیں اور پھر انہیں بیان کیا، مگر کبھی کسی نے اس سب پر کوئی واضح الزام یا ثبوت پیش کیوں نہیں کیا؟
حمود الرحمٰن کمیشن کے علاوہ
بنگلہ دیشی کرنل ریٹائرڈ شریف الحق دالیم کی
Bangladesh Untold Facts
بنگلہ دیشی حمید الحق چودھری کی
Mamoires
بھارتی لیفٹننٹ جنرل جے ایف آر جیکب کی
Surrender at Dhaka, birth of a nation
بھارتی پروفیسر شرمیلا بوس کی
Dead Reckoning
لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ کمال متین کی
Tragedy of Errors, East Pakistan Crisis 1968-1971
میجر جنرل ریٹائرڈ خادم حسین راجا کی
A stranger in my own country
قطب الدین عزیز کی
Blood and Tears
صفدر محمود کی
The Pakistan Divided
کرنل ریٹائرڈ صدیق سالک کی
Witness to Surrender
(میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا)
مسعود مفتی کی چہرے اور مہرے
یا نسرین پرویز کی
ڈھاکہ سے کراچی تک
سمیت بے شمار کتب اور تحقیقی مقالے اس موضوع پر تحریر کیے گئے ہیں، جن میں ایسے جھوٹ کبھی نہیں بولے گئے جو اشان تھرور صاحب بول رہے ہیں۔
کسی ملک میں گوریلا جنگ یا علیحدگی کی جدوجھد جاری ہو تو یقیناً اس میں کچھ بد انتظامی ہو جاتی ہے، کچھ بے گناہ افراد بھی مارے جاتے ہیں مگر ، جس تعداد کا ہوّا بنا کر اشان تھرور صاحب بھی صاحبِ کتاب ہو گئے ہیں، وہ در اصل ان کا اپنا کمال نہیں ، بلکہ وہ سب مواد
گیری جے۔ بیس کی کتاب
The people who Didn't matter to Henry Kissinger
کا چربہ ہے۔
تبصرہ لکھیے