ہوم << روکو مت جانے دو - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

روکو مت جانے دو - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

عاصم اللہ بخش گئے دنوں کی بات ہے، سکول کا زمانہ تھا اور اردو کی کلاس، ماسٹر صاحب نے تختہ سیاہ پر لکھا ’’روکو مت جانے دو‘‘. پھر ہماری طرف دیکھ کر کہا، یہ کیا ہے؟
بہت حیرانی ہوئی کہ صاف تو لکھا ہے، اس میں پوچھنے لائق کون سی بات ہے. بہرحال ہماری جانب سے کسی جواب کا انتظار کیے بغیر ہی وہ گویا ہوئے، آج ہم پڑھیں گے کیسے ایک معمولی سے تبدیلی سے کوئی جملہ دو قطعی برعکس معانی دے سکتا ہے. پھر انہوں نے ایک بار ’’روکو‘‘ اور پھر’’روکو مت‘‘ کے بعد کوما لگا کر دکھایا اور واقعی، بات کچھ سے کچھ بن گئی. کوما، فل اسٹاپ سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے، اس دن کے بعد سے ہمیشہ کے لیے ذہن میں راسخ ہو گیا.
اس واقعہ کا خیال آج محترم فاروق ستار صاحب کی پریس کانفرنس دیکھ کر آیا. فاروق بھائی نے بھی کچھ ’’روکو مت جانے دو‘‘ پریس کانفرنس ہی کی ہے آج. جس نے جہاں کوما فٹ کرنا ہے کر لے اور خوش رہے.
اس ایک پریس کانفرنس سے انہوں نے جوابوں سے زیادہ سوال کھڑے کر دیے ہیں.
کیا یہ کوئی سیاسی بلف ہے؟ اپنی پارٹی، اس کی لیڈرشپ اور کارکنوں کو کراچی آپریشن کی حدت سے بچانے کے لیے؟ کیا یہ مائنس ون کے خواہش مندوں کے لیے ایک لالی پاپ ہے تاکہ پارٹی کو بکھرنے سے بچایا جا سکے، بالخصوص پاک سرزمین پارٹی کے مقابلے میں؟ کیا الطاف حسین صاحب کی کل کی تقریر اس سوچے سمجھے پلان کا پہلا ایکٹ تھی؟ ساری جماعت اچانک اس انتہائی نتیجے پر کیسے پہنچ گئی اور پھر قریباً تمام رہنما خراماں خراماں اتنا بڑا اعلان کرنے پہنچ گئے؟
یا پھر یہ سچ میں ایک سیاسی جماعت کی سیاسی قیادت کا سیاسی فیصلہ ہے کہ وہ فرد واحد کی اسیری کا طوق گلے سے اتار پھینکے تاکہ اپنے لوگوں کو خالصتاً سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں ان کے حقوق دلوائے جائیں؟ بغیر کسی پر مالی یا جسمانی جبر کیے. بنا توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے.
روکو مت جانے دو. مندرجہ بالا دونوں منظرناموں میں جس طرف بھی کوما لگا لیں، بات اسی زاویے سے درست لگنے لگے گی.
اس وقت ان لوگوں اور حلقوں کے لیے بھی چیلنج ہے جو کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کا یہ حق اس سے نہیں چھینا جا سکتا کہ وہ سیاسی جدوجہد سے اپنے لیے راستہ بنائے اور اپنے ووٹرز کے مسائل حل کر سکے. دوسری جانب، یہ قدم اٹھا کر فاروق ستار صاحب اور ان کے ساتھیوں نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ وہ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ان کے مقاصد و عزائم وہی ہیں جو انہوں نے آج بیان فرمائے.
یہاں یہ سوال ہے کہ کراچی آپریشن پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ گرفتار کارکنوں کا کیا ہوگا؟ جن پر مقدمے چل رہے ہیں ان کے ساتھ نرمی ہو گی یا معاملات ایسے ہی جاری رہیں گے؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر جناب فاروق ستار واقعی اخلاص کے ساتھ ایک کوشش کرنے جا رہے ہیں تو کراچی میں انہیں کیا مینڈیٹ دیا جائے گا؟ ایم کیو ایم ایک بااختیار بلدیاتی سیٹ اپ اور مقتدر مئیر کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہے. کراچی میں حالات کو بہتر کرنے اور احساس محرومی کے مداوا کے لیے اس سے بہتر فورم فی الوقت ممکن نہیں، تاہم اس وقت صوبائی بلدیاتی قانون میں مئیر محض بلدیہ کا منشی ہے، اور بس. قریباً ہر بات کے لیے وہ صوبائی حکومت کا دستِ نگر ہے. یہ اس وقت کا اہم ترین مسئلہ ہے. اگر ایم کیو ایم کو الطاف بھائی کے دور سے آگے لے کر چلنا ہے تو اس معاملے کو حل کیے بغیر شاید یہ ممکن نہ ہو. ایک راستہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ فوری طور پر ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دی جائے. اور کچھ وزارتیں اس کو دے دی جائیں، بالخصوص بلدیات.
اس تبدیل شدہ صورتحال میں کتنی حقیقت ہے؟ اس بات کا تعین دو شخصیات کے ردعمل سے ہوگا، ایک الطاف حسین اور دوسرے ڈاکٹر عشرت العباد.
اگر الطاف حسین آن بورڈ نہیں تو وہ سیکٹر انچارج اور گڑبڑ کرنے والے عناصر کو حرکت دیے بغیر نہیں رہ سکیں گے. یا پھر ان کے مبینہ پشت پناہ تو ضرور کچھ گڑبڑ چاہیں گے تاکہ الطاف حسین کی کمی بھی محسوس ہو اور ضرورت بھی. پھر وہ لوگ جو براہ راست لندن سے احکامات لینے کے عادی ہیں اور ایک حکم پر پریس کانفرنس میں موجود قیادت کی پٹائی بھی کر چکے ہیں، وہ اس قیادت کو ٹھنڈے پیٹوں کیسے برداشت کر لیں گے؟ دوسری جانب ان کی خاموشی خدشات کو ہوا دے گی.
تاہم میری نظر میں اصل اہمیت گورنر سندھ کے ردعمل کی ہے کہ یہ بلف ہے یا حقیقت.
فاروق ستار صاحب کی بات کا وزن جانچنے کے لیے ایم کیو ایم سے کراچی آپریشن میں بھرپور تعاون مانگا جائے. ان سے کہا جائے کہ مطلوب افراد کو کسی صورت پناہ نہ دی جائے اور انہیں فی الفور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کیا جائے. بدلہ میں انہیں تمام گفتار شدگان کے فئیر ٹرائل کی یقین دہانی کروائی جا سکتی ہے. نیز، غیر قانونی گمشدگی اور ماورائے عدالت کسی بھی انتہائی اقدام سے گریز کی پالیسی اپنائی جائے.
اس وقت سب سے مشکل وقت پاک سر زمین پارٹی کے لیے ہے. جس مقدمہ کو وہ الطاف حسین صاحب کی مخالفت میں اپنی سیاست کی بنیاد بنائے ہوئے تھے اسے آج کی پریس کانفرنس سے شدید دھچکا لگا ہے. ایم کیو ایم نے الطاف فیکٹر کو خود سے الگ بتا کر بظاہر اپنے آپ کو مزید نقصان سے خاصی حد تک محفوظ کر لیا ہے. یہ بات ان لوگوں کے خدشات کو تقویت دیتی ہے جو کہتے ہیں کہ یہ ایک سوچی سمجھی گیم ہے جس میں ہر صورت ایم کیوایم کا فائدہ ہے.
بہرحال، کم سے کم بھی کہا جائے تو یہ سب کچھ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی اچھا ہے لیکن آپ اس پر شک بھی نہیں کر سکتے. اس لیے اس پر محتاط لیکن پرامید ردعمل رکھنا سب سے مناسب آپشن ہے. گو یہ بات خود اپنی جگہ خاصی مشکل ہے. وقت بہت سے جوابات آنے والے دنوں میں فراہم کرے گا.
بہرحال یہ بات طے ہے کہ اصل صورتحال کے متعلق معلومات کی کنجی عشرت العباد خان صاحب کے پاس ہے. وہ یقیناً جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ ان پر نظر رکھیں.