دنیا کی مالیاتی تاریخ ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں اب کرنسیوں کی جنگ کاغذی نوٹوں سے نہیں بلکہ کوڈز، لیجرز، اور بٹنوں کی دنیا میں لڑی جا رہی ہے۔ ایسے میں چین کا مرکزی بینک (People’s Bank of China) ایک ایسا اعلان لے کر سامنے آیا ہے جو شاید عالمی طاقتوں کی نیندیں اڑا دے۔
چین نے سرکاری طور پر اعلان کر دیا ہے کہ اس کی ڈیجیٹل کرنسی ڈیجیٹل یوآن (Digital RMB) اب نہ صرف مکمل فعال ہو چکی ہے بلکہ آسیان کے دس ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے چھ ممالک کے ساتھ کراس بارڈر سیٹلمنٹ سسٹم میں منسلک ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عالمی تجارتی حجم کا 38 فیصد اب امریکی ڈالر کی اجارہ داری والے SWIFT نظام کو بائی پاس کرتے ہوئے، براہِ راست ڈیجیٹل یوآن کے دائرے میں داخل ہو رہا ہے۔ مغربی جرنل The Economist نے اسے "بریٹن ووڈز سسٹم 2.0 کی پہلی لڑائی" قرار دیا ہے — ایک ایسی لڑائی جو بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کے مالیاتی ڈھانچے کو جڑ سے بدل رہی ہے۔
جہاں SWIFT سسٹم بین الاقوامی ادائیگیوں میں 3 سے 5 دن لیتا ہے، وہاں چین کا ڈیجیٹل کرنسی برج (Bridge) محض 7 سیکنڈ میں رقوم کی ترسیل مکمل کر دیتا ہے۔ ہانگ کانگ اور ابوظہبی کے درمیان ہونے والے ابتدائی تجربے میں ایک کمپنی نے اپنے مشرقِ وسطیٰ کے سپلائر کو ڈیجیٹل یوآن میں ادائیگی کی جو چھ بینکوں سے گزرے بغیر براہِ راست، بلاک چین کے ذریعے مکمل ہوئی۔ اس عمل میں 98 فیصد تک فیس کم ہو گئی۔ یہ صرف ایک تکنیکی کامیابی نہیں بلکہ امریکی مالیاتی بالادستی کے لیے براہِ راست چیلنج ہے۔
یہ بات مغرب کے لیے اور بھی زیادہ پریشان کن ہے کہ چین کی ڈیجیٹل کرنسی صرف ایک کرنسی نہیں بلکہ ایک خودکار مالی نظام ہے۔ اس میں ایسی بلاک چین ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے جو نہ صرف لین دین کو مکمل طور پر قابلِ سراغ بناتی ہے بلکہ منی لانڈرنگ جیسے جرائم کی خودکار نگرانی بھی کرتی ہے۔ چین اور انڈونیشیا کے مابین "دو ممالک، دو پارکس" منصوبے میں ایک ادائیگی صرف 8 سیکنڈ میں مکمل ہوئی، جو روایتی بینکنگ کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ مؤثر ہے۔
یہ تیزرفتار کامیابیاں صرف تجارت تک محدود نہیں بلکہ مالی خودمختاری کی نئی تعریف بھی وضع کر رہی ہیں۔ جب امریکہ نے SWIFT کے ذریعے ایران پر پابندیاں لگائیں، تو چین نے خاموشی سے جنوب مشرقی ایشیا میں یوآن پر مبنی ادائیگیوں کا نیٹ ورک قائم کر لیا تھا۔ صرف 2024 میں آسیان ممالک کے ساتھ یوآن کی سیٹلمنٹ کا حجم 5.8 ٹریلین یوآن سے تجاوز کر گیا، جو 2021 کے مقابلے میں 120 فیصد زیادہ ہے۔
ملائشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، اور کئی دیگر ممالک نے اب اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں امریکی ڈالر کے ساتھ ساتھ یوآن کو بھی شامل کر لیا ہے۔ تھائی لینڈ نے ڈیجیٹل یوآن کے ذریعے پہلی بار تیل کی ادائیگی کی، اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی تاجروں نے اپنے اخراجات میں 75 فیصد تک کمی نوٹ کی ہے۔
اس تمام منظرنامے کا سب سے حیران کن پہلو چین کی طویل المدتی حکمت عملی ہے۔ ڈیجیٹل یوآن محض ایک کرنسی نہیں بلکہ "بیلٹ اینڈ روڈ" پالیسی کا ڈیجیٹل ہتھیار ہے۔ چین-لاوس ریلوے، جکارتہ-باندونگ ہائی اسپیڈ لائن، اور آرکٹک فریٹ روٹس جیسے منصوبوں میں، ڈیجیٹل یوآن کو بیڈو نیویگیشن (Beidou) اور کوانٹم کمیونیکیشن کے ساتھ ملا کر ڈیجیٹل سلک روڈ تشکیل دیا جا رہا ہے۔ ان پروجیکٹس میں تجارتی کارکردگی میں 400 فیصد تک بہتری آئی ہے، جو کسی بھی عالمی طاقت کے لیے گہری تشویش کا باعث بن سکتی ہے۔
آج کی تاریخ میں دنیا کے 87 فیصد ممالک کسی نہ کسی شکل میں ڈیجیٹل یوآن سسٹم سے ہم آہنگ ہو چکے ہیں، اور بین الاقوامی ادائیگیوں میں اس کرنسی کا حجم 1.2 ٹریلین ڈالر سے بڑھ چکا ہے۔ دوسری طرف امریکہ ابھی تک اس بحث میں الجھا ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی امریکی ڈالر کے عالمی رتبے کے لیے خطرہ ہے یا نہیں۔
یہ خاموش انقلاب دنیا کی معاشی شہ رگ پر کنٹرول کی جنگ ہے۔ چین کی شطرنجی چالیں دنیا کو نہ صرف ایک نئے مالیاتی نظام میں داخل کر رہی ہیں بلکہ یہ طے کر رہی ہیں کہ اگلی عالمی طاقت کا حقیقی ستون مالیاتی کنٹرول ہوگا — اور شاید یہ طاقت اب مغرب کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔
تبصرہ لکھیے