میں کئی ماہ سے اس بات پر غور کر رہا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں چیخنے چلانے، بلند آواز میں بات کرنے اور سخت لہجے کا رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ والدین بچوں پر چیختے ہیں، اساتذہ طلبہ پر رعب ڈالنے کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، باپ بیٹوں کو ڈانٹتا ہے، وکیل اپنے مخالف پر برستے ہیں، دکاندار گاہک سے الجھتا ہے، اور میاں بیوی ایک دوسرے سے تلخی سے پیش آتے ہیں۔ گویا ہر طرف ایک دوسرے پر غصہ نکالنے، کاٹ کھانے اور زبان سے وار کرنے کا چلن عام ہو چکا ہے۔
اس رویے کے نتائج انتہائی خطرناک ہیں۔ رشتے ٹوٹ رہے ہیں، تعلقات ختم ہو رہے ہیں، نفرتیں بڑھ رہی ہیں، دشمنیاں جنم لے رہی ہیں، اور بات چیت میں مٹھاس کی جگہ زہر آ گیا ہے۔ چھوٹے بڑے سب اس تلخی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے، کیا ہم اس تناؤ سے نجات حاصل کر سکیں گے؟ کیا ہمارے لہجے کبھی نرم، الفاظ کبھی شیریں، اور گفتگو کبھی محبت بھری ہو سکے گی؟
ہمیں اس بڑھتی ہوئی تلخی، چیخ و پکار اور زبان کی سختی کا حل اجتماعی سطح پر تلاش کرنا ہوگا۔ سب سے پہلا قدم اپنی گفتگو میں نرمی، شائستگی اور لحاظ کو اپنانا ہے۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ بلند آواز سے دلیل کمزور ہو جاتی ہے اور سخت لہجے سے دل دُکھتے ہیں۔ دوسروں کے جذبات کا احترام، ردعمل سے پہلے لمحہ بھر سوچنا، اور اپنی زبان پر قابو رکھنا وہ صفات ہیں جو ہمارے باہمی تعلقات کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ گھروں، تعلیمی اداروں اور دفاتر میں ایسی تربیتی نشستیں ہونی چاہئیں جن میں خوش اخلاقی، برداشت اور گفتگو کا مثبت انداز سکھایا جائے۔ اگر ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنا احتساب کریں کہ ہم نے کسی کا دل تو نہیں دُکھایا، اور اگر سیرتِ نبوی ﷺ سے رہنمائی لے کر نرمی اور محبت کو اپنا شعار بنالیں تو یقیناً ہم اپنے گرد و پیش کے اس بگڑے ہوئے ماحول کو سنوار سکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ سارے فساد کی جڑ اکثر ہماری زبان، آواز اور لہجہ ہوتا ہے۔ جنہوں نے دل توڑے ہیں، نفرتوں کے بیج بوئے ہیں، اور زندگیوں میں تلخی گھولی ہے۔ ذرا سی توجہ، شعوری کوشش اور مسلسل مشق سے ہم اپنے جہنم زدہ ماحول کو جنت بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ مضبوط ارادے سے آغاز کیا جائے تو خوشگوار تبدیلی ممکن ہے۔
تبصرہ لکھیے