ہوم << تذکرہ امام حسین رضی اللہ عنہ - ریحان الدین فیضی

تذکرہ امام حسین رضی اللہ عنہ - ریحان الدین فیضی

ریحان الدین فیضی ولادت باسعادت
سید السادات حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔ آپ خاتم الانبیاء ،تاجدار مدینہ، محمد عربی ﷺ کے نواسے اورامیر المؤمنین حضر ت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ و فاطمۃ الزھرہ رضی اللہ عنہاکے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔ آپ ؓ اپنے بھائی حضرت حسن ؓ سے ایک سال چھوٹے تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان جمعرات کے دن ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت کی خوشخبری سن کر جناب نبی کریم ﷺ تشریف لائے، آپ ؓ کو گود میں لیا، دائیں کان میں آذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی اور اپنی زبان مبارک ان کے منہ می دے دی۔ محدثین اور مؤرخین سے منسوب ہے کہ حضرت امام حسین ؓ نے 25 حج پیدل کیے۔ نماز اور روزہ کے پابند تھے۔ صدقہ اور دین کے ہر کام میں کثرت سے اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
شہادت کا مختصر واقعہ
حضرت عائشہ ؓ یا حضرت ام سلمہ ؓ (راوی کو یہاں شک ہے کہ راوی ان دونوں امہات المؤمنین میں سے کون تھیں) سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میرے پاس آج ایک ایسا فرشتہ آیا ہے جن کو آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ آپ کا یہ بیٹا (حضرت امام حسین ؓ ) شہید کردیے جائیں گے۔ اگر آپ ﷺ چاہیں تو میں اس سرزمین کی مٹی بھی دکھا سکتا ہوں جہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید کردیے جائیں‌گے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر انہیں سرخ رنگ کی مٹی نظر آئی۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ثابت ؓ فرمایا کرتے تھے کہ وہ سرخ سرزمین اطف یعنی کربلا کی مٹی تھی۔
یزید جس نے خلافت جیسی نعمت اور عبادت کو آمریت میں تبدیل کردیا تھا، سلطنت کی کرسی میں براجمان ہوتے ہی اطراف میں اپنی بیعت کے مکتوب روانہ کردیے۔ مدینہ منورہ کا عامل جب بیعت کے لیے حضرت امام حسین ؓ کے پاس حاضر ہوا مگر حضرت امام حسین ؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا، اور اسی شب آپ ؓ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے۔ یہ واقعہ 4 شعبان 60ھ کا ہے۔ یزید کے ہاتھ پر صرف اہل شام (جہاں وہ تخت نشین تھا) نے بیعت کی، مگر اہل کوفہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو مسلسل اپنے ہاں آنے کے لیے درخواستیں بھیج رہے تھے لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ مسلسل انکار کر رہے تھے۔ یزید کی تخت نشینی کے بعد اہل عراق کی تمام جماعتوں نے متفق ہو کر اپنی نیاز مندی، عقیدت اور اخلاص کا اظہار کرتے ہوئے آپ ؓ پر اپنی جان و مال قربان کرنے کی تمنا کی۔ بالآخر آپ ؓ نے اپنے چچازاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ کو کوفہ کے حالات جاننے کے لیے روانہ فرمایا اور اہل کوفہ کو ایک خط لکھا کہ آپ لوگوں کی درخواست پر میں اپنے بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو بھیج رہا ہوں، ان کی نصرت اور حمایت تم پر فرض ہے۔ حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے کوفہ کی طرف اپنا رخت سفر باندھا، اس سفر میں میں حضرت مسلم بن عقیل ؓ کے دو نو عمر فرزند محمد اور ابراہیم بھی ہمراہ تھے۔ کوفہ پہنچ کر حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے مختار بن عبید کے گھر قیام فرمایا۔ اہل کوفہ نے نہایت جوش اور احترام کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور ان کی حمایت کی، تقریباً 12000 کے قریب لوگوں نے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کے ہاتھ پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر بیعت کی، یہ جوش اور جذبہ دیکھ کر حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین کو خبر کی اور کوفہ آنے کو کہا تاکہ حق کی تائید ہوسکے۔ اس وقت نعمان بن بشیر کوفہ کے گورنر تھے۔ حضرت حسین کے ہاتھ اہل کوفہ کی بیعت کے سلسلے میں انہوں کسی بھی قسم کی دست اندازی نہیں کی. یزید حضرمی اور عمارہ بن ولید نے یزید کو شام میں اطلاع کی اور تمام معاملات سے آگاہ کیا اور یہ بھی کہا کہ نعمان بن بشیر نے حضرت مسلم بن عقیل ؓ اور ان بارہ ہزار کوفیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہ اطلاع پاتے ہی یزید نے نعمان بن بشیر کو معزول کردیا اور عبد اللہ بن زیاد کو اپنا گورنر بنا کر کوفہ روانہ کیا۔ عبیداللہ بن زیاد انتہائی مکار شخص تھا اور دجل اور فریبی اس کی رگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
کوفہ پہنچتے ہی اس نے مسلم بن عقیل ؓ اور اہل کوفہ کے عمائدین کو ایک قلعہ میں قید کرادیا اور اہل کوفہ کو جمع کیا، جیسے ہی لوگ جمع ہوئے تو اس نے اہل کوفہ کو یزید کے خلاف بغاوت کرنے سے باز رکھا اور انہیں ڈرایا دھمکایا۔ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی فوج منتشر ہوگئی اور اہل کوفہ کی عہد شکنی، ابن زیاد کی مکاری اور یزید کی عداوت ثابت ہوچکی تھی۔ حتی کہ حضرت مسلم بن عقیل ؓ اکیلے ہوگئے، ابن زیاد نے اپنے محل میں بلایا اور دھوکہ سے ان کے صاحبزادوں کے ساتھ انہیں تیر کی بوچھاڑ میں شہید کردیا۔
اسی روز سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انھیں مسلسل روکتے رہے اور سفر ملتوی کرنے کا اصرار کرتے رہے لیکن آپ ؓ نے اہل کوفہ کی درخواستوں پر ان دل شکنی کرنا گوارا نہ کیا، اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ 3 ذی الحجہ 60ھ کو کو فہ کے لیے روانہ ہوئے۔ جب آپ ؓ مقام تعلیہ میں پہنچے تو حضرت مسلم بن عقیل ؓ کی شہادت اور اہل کوفہ کی عہد شکنی کی خبر ملی تو بنو عقیل نے جوش میں آکر کہا کہ ہم اہل کوفہ سے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کی شہادت کا بدلہ لیں گے۔ یہ سن کر حضرت حسین ؓ نے واپسی کا ارادہ ترک کرکے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ جب کربلا سے دو منزل دور رہ گئے تو حر بن زید ریاحی نامی سپاہی اپنے 1000 مسلح افواج کے ساتھ آپ کو گرفتار کرنے کے لیے کھڑا تھا۔ آپ دستہ حر کے ساتھ تشریف لے گئے اور آپ کو کوفہ کے بجائے کربلا میں لے جایا گیا۔ محرم 61ھ کی دوسری تاریخ کو عبید اللہ ابن زیاد کا مکتوب امام حسین ؓ کی خدمت میں پہنچا جس میں یزید کی بیعت طلب کی گئی تو امام حسین ؓ نے ابن زیاد کے قاصد کو جواب کے ساتھ ارسال فرمایا کہ آپ کی اس بیعت کی خواہش کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ یہ جواب سن کر عبید اللہ ابن زیاد کا غصہ پہلے سے اور زیادہ بڑھ گیا، اس نے مزید فوج کو عمر بن سعد کی سپہ سالاری میں روانہ کیا۔ یہ تمام لوگ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور عظمت کو اچھی طرح سے جانتے تھے تو ان باتوں کے پیش نظر انہوں نے حضرت حسین ابن علی ؓ اور ان کے ساتھیوں سے مقابلہ سے گریز کیا مگر ملعون عبید اللہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو مجبور کیا اور حکومت کا لالچ دے کر جنگ پر آمادہ کیا۔
72 آدمی جن میں عورتیں، بچے، بیمار سبھی شامل تھے، جن کے پاس نہ سامانِ حرب تھا نہ ان کا جنگ کرنے کا کوئی ارادہ تھا۔ ان سے لڑنے کے لیے جنگی سازوسامان سے لیس 22000 جرار فوج تھی۔ 7محرم الحرام کو ان ظالم سیاہ باطن سپاہیوں نے خاندان رسالت پر دریائے فرات کا پانی بند کردیا، بھوک اور پیاس سے تین دن گزر گئے مگر مصائب کا ہجوم ان کی عظمت کو متزلزل نہ کر سکا۔ 10 محرم الحرام تک یزیدی لشکر کی طر ف سے یہی اصرار رہا کہ سیدنا حسین ؓ یزید کے ہاتھوں بیعت کر لیں لیکن انہوں امت مسلمہ کی بربادی کو گوارا نہ کیا بلکہ اپنا تن من دھن اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا منظور کیا کیونکہ اسلامی تعلیمات و قوانین کی عظمت میں کوئی فرق آئے، انہیں یہ کسی بھی حال میں منظور نہ تھا۔ بالآخر10محرم الحرام 61ھ کا قیامت خیز دن طلوع ہوا۔ دن جمعہ کا تھا سیدنا امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہ نے اپنے خاندان اور جانثاران اسلام کے ساتھ فجر کی نماز باجماعت ادا کی اور اپنے خیمے میں تشریف لائے. خاندان نبوت تین دن سے بھوک سے نڈھال، ایک قطرہ پانی بھی میسر نہیں، پھر بےوطنی، تیز دھوپ، گرم ریت، صحرا کی خشک ہوائیں، جور و جفا کے پہاڑ کو توڑنے کے لیے سامنے 22000 کا لشکر مگر عزم و ہمت اور پائے استقلال میں لرزش نہیں۔ بالآخرجنگ کا نقارہ بج گیا، حضرت علی المرتضیٰؓ کے خاندان کے بہادروں نے کربلا کی تشنہ لب زمینوں کو دشمنوں کے خون سے لالہ زار کردیا، اسی طرح حضرت امام حسین ؓ کے جانثاروں نے اپنی بہادری کے جوہر دکھا کر قربان ہوتے گئے، حضرت مسلم بن عقیل ؓ کے بھائیوں نے کربلا کے میدان میں دشمنوں پر بھر پور وار کرکے اپنی جان آفریں کے سپرد کر دی۔ یہاں تک کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ میدان میں اترے، دشمنوں نے حضرت حسین ابن علی کرم اللہ وجہہؓ کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا اور تیر برسانا شروع کر دیے۔ دشمنوں کے تیروں نے آپ ؓ اور آپ کے گھوڑے کو زخمی کردیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا بدن مبارک خون سے لہولہان ہوگیا، ایک تیر آپ رضی اللہ عنہ کے پیشانی اقدس پر لگا جو جناب نبی کریم ﷺ کی بوسہ گاہ تھی۔ آپ کا چہرہ مبارک خون سے لہولہان ہوگیا اور بالآخر نواسہ رسول جگر گوشہ بتول سیدنا امام حسین ابن علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ نے اپنی جان اسلام اور حق کی خاطر آفرین کر دی اور شہید ہو کر زمین میں گر پڑے۔ ایک ملعون نے آگے بڑھ کر حضرت حسین ابن علی ؓ کا سر اقدس تن مبارک سے جدا کردیا۔ مؤرخین و محدثین روایت کرتے ہیں جیسے ہی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو آسمان سے خون برسا گویا آسمان میں کہرام مچ گیا ہو اور آسمانوں کے فرستے رونے لگے ہوں۔
مشن حسین رضی اللہ عنہ اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے نہتے ہونے کے باوجود فسق و فجور کی مخالفت کی اور بھرپور مقابلہ بھی کیا۔ آنے والے نسلوں کے لیے عزم و ہمت کے لیے بےنظیر مثال قائم کردی۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر آنے والی تکالیف کو سن کر چند آنسوبہانے اور آہ وزاری کرنے سے ان کا مشن پورا نہیں ہوگا کیونکہ ان پر جتنی تکلیفیں آئی، ان کا حق تھا کہ ان تکالیف پر آنسو بہائیں، آہ وزاری کریں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ ثابت قدم رہے، صبر کیا، مسلسل اللہ کی عبادت میں مصروف رہے، دشمنان اہل بیت کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔ امت مسلمہ کو عزم واستقلال کا درس دیا ۔ اللہ کی بندگی اور اور اس کے بتائے ہوئے احکامات کو پورا کرنے کا سبق دیا۔
جناب نبی کریم ﷺ کے فرامین مبارکہ پر خود بھی عمل کیا اور دوسروں کو عمل کرنے کا درس بھی دیا۔ اگر آپ واقعی حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں، ان کے غم خوار ہیں، ان کو اپنا رہنما سمجھتے ہیں تو ان کے مشن کو اپنائیں، اور 10محرم الحرام کو امام حسین کی شہادت کے دن کی مناسبت سے تجدید عہد کریں کہ ہم حق و صداقت کے علم کو بلند کریں گے، اللہ تعالیٰ اور جناب رسول خدا ﷺ کی فرامین مبارکہ کو اپنی عملی زندگی میں اپنایں گے، تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ عالیہ میں اس کی رضاء اور سعادتِ قبولیت کا شرف حاصل ہو۔
فضیلت امام حسین رضی اللہ عنہ
٭ حضرت امام حسن ؓ اور حسین ؓ دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں.
٭ حضرت امام حسن ؓ اور حسین ؓ دونوں جناب نبی کریم کے گلدستے ہیں.
٭ حضرت محمد ﷺ حضرت حسن ؓ اور حسین ؓ کواپنا بیٹا کہہ کر بہت خوش ہوتے.
٭ اے اللہ میں حسن ؓ و حسین ؓ سے راضی ہوں تو بھی راضی ہوجا.

Comments

Click here to post a comment