ایک دوست نے سوال کیا کہ اگر کوئی غیرمسلم اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد کسی مسلمان سے سوال کرے کہ آپ کی تاریخ میں صحابہ کی جماعت میں جنگ ہوئی، جنگ جمل اور جنگ صفین۔ ان میں کون صحیح/ حق پر تھا تو ایک مسلمان کو کیا جواب دینا چاہیے۔ سوال کرنے والا غیر مسلم ہے۔
اس پر ہمارا جواب یہ رہا.
آپ نے بہت ہی عمدہ سوال کیا ہے۔ ہم غیر مسلم سے کہیں گے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقطہ نظر سے ان کا مؤقف درست تھا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مؤقف غلط تھا، جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ان کا مؤقف درست تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مؤقف غلط تھا۔ اب یہ مسئلہ کہ کون صحیح/ حق پر تھا اور کون غلط؟ اس میں جمہور امت اور علمائے کرام کا مؤقف یہ رہا ہے کہ حضرت علی خلیفہ راشد ہونے کی بنا پر حق پر تھے جبکہ حضرت امیرمعاویہ سے اجتہادی خطا ہوئی. عام طور پر دوافراد یا دو فریقوں کے مابین پیدا ہونے والے تنازع اورجھگڑا کا فیصلہ ایک برتر اتھارٹی کرتی ہے، نہ کہ کم تر سطح کے لوگ۔ اصحاب رسول ﷺ کے بعد کے لوگ چاہے وہ کتنے ہی بلند مقام و مرتبہ کے کیوں نہ ہوں، اگر تو وہ اپنے آپ کو اصحاب رسول ﷺ سے برتر سمجھتے ہوں پھر تو انہیں بےشک یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان کے آپس میں پیدا ہونے والے نزاعات کا حتمی فیصلہ کریں۔ لیکن اگر پوری امت کے تمام صلحا، علما، فقہا اور محدثین مل کر کسی ایک صحابی کی پاؤں سے اڑنے والی دھول کی برابر ی بھی نہیں کرسکتے جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا تھا تو پھر ہمیں اس بات کا کوئی اختیار اور حق حاصل نہیں کہ حتمی فیصلے دیتے پھریں۔ تاہم ہم حالات و واقعات کے معروضی مطالعہ سے حاصل ہونے والے دلائل کی روشنی میں کسی بھی ایک فریق کو زیادہ درست اور مضبوط سمجھ سکتے ہیں۔
ان جنگوں کا محرک یہ ایشو بنا کہ مسلمانوں کے خلیفہ راشد کو شریر اور فسادی لوگوں نے شہید کر دیا، انہی شریر اور فسادی لوگوں کے سرغنہ افراد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرلی اور اس کے پیچھے اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ سابق خلیفہ کے قاتلوں سے قصاص لیا جائے، یہ قرآن کا حکم ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جواب یہ تھا کہ ابھی میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ قاتلین عثمان پر ہاتھ ڈال سکوں، وہ بہت مضبوط گروہ ہے، مجھے ذرا مضبوط ہولینے دو۔ جیسے ہی حالات میرے قابو میں آئیں گے، قصاص لے لوں گا۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے حمایتی صحابہ کرام نے نہایت شدت اور بے لچک انداز میں بیعت سے پہلے شرط عائد کی کہ پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا قصاص شرپسندوں سے لیا جائے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اصرار تھا کہ پہلے میری بیعت کرو، اس کے بعد قصاص کا معاملہ دیکھیں گے۔ مؤقف کے اس فرق نے بداعتمادی اور بدگمانیوں کو جنم دیا اور اختلاف اتنا شدید ہوگیا کہ لشکر ایک دوسرے کے مقابل آ گئے۔ اہل شام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور قصاص سے پیچھے ہٹنے کےلیے تیار نہ تھے۔ کئی اصحاب رسول حتی کہ خود نبی اکرمﷺ کے ماموں حضرت سعد بن ابی وقاص، حسان بن ثابت اور حضرت عائشہ صدیقہ جیسے نہایت اجلہ و کبار صحابہ نے اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی۔ دو عشرہ مبشرہ صحابہ کرام حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے بھی اختلاف کیا۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مؤقف یہ تھا کہ اہل مدینہ اور عالم اسلام کے بڑے حصے نے بیعت کر لی ہے تو باقیوں پر واجب ہے کہ وہ میری خلافت پر بیعت کریں۔
جن اصحاب رسول نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور حالات سے دل برداشتہ ہو کر ایک طرف ہوگئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کوئی تعرض نہ کیا۔ لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ ذرا مختلف تھا، وہ خلافت اسلامیہ کے ایک وسیع اور بہت اہم رقبہ /صوبہ کے نہایت طاقتور گورنرتھے، لہٰذا ان سے بیعت لینا ضروری تھا. انھوں نے قصاص پہلے کا مطالبہ کرکے بیعت نہ کی، یوں شکوک و شبہات بڑھتے چلے گئے اور پھر اس کے بعد جنگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور بالآخرجب صلح کا امکان پیدا ہونے لگا تو شریر اور فسادی لوگوں میں سے ایک گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ کر ان کا سخت مخالف ہوگیا اور اسی گروہ نے انھیں شہید بھی کردیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت و قصاص کے مسئلہ پر اختلاف نے اصحاب رسول کے درمیان جنگوں کو جنم دیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جنگیں بدنیتی، نفس پرستی اور تکبر و بڑائی کے لیے نہیں تھیں، بلکہ حالات کے بے رحم جبر کا نتیجہ تھیں۔
دونوں گروہوں کی باہمی جنگوں کا بہترین سبق یہ ہے کہ دونوں گروہ ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے تھے، دونوں ایک دوسرے سے صلح کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، دونوں کو مسلمانوں کا امن اور تحفظ بےحد عزیز تھا، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مقابل فریق سے صلح کی پیش کش قبول کی، اور اس خانہ جنگی و خون ریزی پر پریشان رہتے تھے۔ حضرت امیرمعاویہ کو قیصر روم نے مدد کی پیشکش کی جسے انھوں نے سختی سے رد کر دیا. نبی اکرمﷺ کی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں وہ پیشین گوئی بھی اس پر دلالت کرتی ہے جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ یہ میرا بیٹا سردار ہے، اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو گروہوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرے گا، نواسہ رسولﷺ امام حسن رضی اللہ عنہ سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ کسی باطل پرست کو امت کی نگہبانی و نگرانی کی اہم ترین ذمہ داری سونپ دیں گے۔
بعد کے حالات مثلا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جنگوں کے سلسلوں کو بند کرنے کے لیے صلح اور امن کے لیے اپنی مکمل آمادگی ظاہر کرنے پر ان کی فوج سے تخریبی اور مفسد گروہ کے ایک حصہ کا الگ ہوجانا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کی جان کا دشمن بن جانا، اور پھر اسی تخریب کار گروہ ہی کاحضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنا، اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کرنا اور اس میں ناکام ہونا اور اسی تخریبی گروہ کے ایک رکن شمر ذی الجوشن کی طرف سے واقعہ کربلا کو ڈیزائن کیا جانا اور اسی ملعون کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا براہ راست ذمہ دار ہونا، اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خلیفہ وقت کے قتل میں ملوث فسادی اور تخریب کاروں کو ان کے انجام تک پہچانا کتنا ضروری تھا۔ امت میں تفرقہ، تخریب اور تفریق پیدا کرنے کے خواہاں اس مضبوط سازشی گروہ نے اتنی چالاکی اور صفائی سے اپنا کام سرانجام دیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ داری پوری امت پر ڈال دی، خود درمیان سے صاف اپنے آپ کو بچا کر نکل گیا، اور امت میں تفرقہ اور اختلاف کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کروا دیا، اللہ لعنت کرے اس شریر، مفسد، تخریب کار اور فرقہ پرست گروہ پر جس کا مقصد امت میں تفرقہ و فساد تھا۔
مقام اور فضیلت کے اعتبار سے ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر فیصلہ کن برتری کے قائل ہیں۔ ہم یزید کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں سمجھتے، ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی محبت اور احترام کو ایمان کا لازمی تقاضا سمجھتے ہیں۔
آخری سوال یہ ہے کہ اگر علی و حسین اور طلحہ و زبیر اور معاویہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے عظیم اصحاب رسول اس بدترین فتنہ اور سازش کا توڑ نہیں کرسکے، اس تخریب کار گروہ کے فساد کو نہیں روک سکے تو آج کا مسلمان اس کا توڑ کیسے کرسکتا ہے؟ ہماری تاریخ کے واقعات کا یہ پہلو واضح کرتا ہے کہ اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اتباع میں فتنہ، سازش، تخریب اور فساد کی روک تھام کے لیے ہمیں اپنی امکانی اور استطاعت بھر کوشش کو بروئے کار لانا چاہیے اور نتیجہ اللہ کے سپرد کردینا چاہیے۔ انسان جتنا مرضی بلند ہوجائے، علم ، نیکی اور بزرگی کے جتنے مرضی بلند مقامات پر فائز ہوجائے، کبھی خدائی اختیارات کا مالک نہیں ہوسکتا۔ اللہ چاہے تو بعض اوقات معمولی اور ادنیٰ قسم کے لوگوں کی مساعی اور کاوشوں کو دنیا ہی میں ثمر آور کردے اور نہ چاہے تو اصحاب رسول جیسے مبارک ترین اور اپنے پسندیدہ ترین گروہ کی بعض کوششوں کو بھی دنیا میں ثمر آور نہ ہونے دے۔ یہ خالصتا اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی تقدیر کا معاملہ ہے جس میں بندوں کو کوئی دخل حاصل نہیں ہے۔ بندوں کا کام صرف صاف اور صحیح نیت کے ساتھ اصلاح ،امن اور سلامتی کی کوشش کرنا چاہیے اور بس۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے اس کا فیصلہ بندے نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ اصحاب رسول کی باہمی جنگوں میں دونوں گروہوں نے یہی کچھ کیا۔ رائے کے اختلاف کے باوجود دونوں گروہوں کی نیت نیک تھی۔ اللہ ان سے راضی ہو، اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں اور ان کے اعمال و قربانی کا بہترین بدلہ انہیں دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ان محبوب بندوں اور اپنے رسول پاکﷺ کے محبوب ساتھیوں کے ذکر بد سے بچائے۔ اور اصحاب رسول کے ان باہمی جنگوں سے فائدہ اٹھا کر امت میں بدترین فرقہ پرستی اور نفرت و عداوت کو فروغ دینے والے مفسدین اور اشرارکو نیست و نابود کرے اور جولوگ جہالت، نادانی یا بے سمجھی سے ایسا کررہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ اور ہدایت دے اور انہیں اصحاب رسول سے حسن ظن رکھنے اور امت میں اتفاق و اتحاد اور محبت و اخوت پیدا کرنے کے لیے اپنی مساعی خرچ کرنے کی توفیق دے۔ آمین
تبصرہ لکھیے