Category: کچھ خاص

  • دلیل کا دلیل سے آغاز – زبیر منصوری

    دلیل کا دلیل سے آغاز – زبیر منصوری

    13495272_10209334159298801_2216135318695331631_nدلیل نے آغاز تو دلیل سے کیا ہے اور خوب کیا ہے
    اور کہتے ہیں اچھا آغاز آدھی کامیابی ہوتا ہے
    (Good start half done )
    “دلیل “خوب صورت اور خوب سیرت تو ہے ہی، اسے لے کر چلنے والے بھی پر عزم دکھائی دیتے ہیں
    “دلیل “کی ٹیم دیر تک اور دوووور تک چلنے کا عزم رکھتی ہے
    “دلیل “سے بات کرنا اور دلیل سے کی گئی بات سننا چاہتی ہے
    میرا مشورہ ہے
    اگر ہاتھ کی بورڈ پر لفظ ‘چن لیتے ہیں
    اگر دماغ میں کوئی خیال بہت زور سے کلبلاتا ہے
    اگر کوئی نئی دلیل
    کوئی نیا خیال
    کوئی نیا ڈیٹا
    ذہن اور کمپیوٹر کی دسترس میں ہے
    کوئی نیا اوراچھوتا اسلوب تحریر اندر مچلتا ہے
    اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے لفظ پھیلیں، بیسییوں سے بیسیوں ہزاروں تک پہنچیں
    اور ہاں اگر آپ باوقار رہتے ہوئے، ذاتیات کے دائروں سے خود کوآزاد رکھتے ہوئے معقولیت کی زبان میں
    لکھ سکتے ہیں تو “دلیل “یقیننا بہت اہم پلیٹ فارم ہے
    اور یہ بہت تھوڑے دنوں کی بات ہے “دلیل “میں لکھنا باوقار لکھاری ہونے کی دلیل بن جائے گا
    لکھیے لوگ ہمہ تن گوش ہیں

  • دلیل کی ” دلیل  ” – حسیب احمد خان

    دلیل کی ” دلیل ” – حسیب احمد خان

    Haseeb قرآن جو بے شک ہدایت کی راہ دکھاتا ہے اور بھٹکے ہوؤں کی رہنمائی کرتا ہے اور الله رب العزت کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کے بیان سے بھی نہیں شرماتے.
    چیونٹی ایک چھوٹی سی مخلوق جو اکثر ہمارے پیروں میں روندی جاتی ہے، قرآن کی ایک سوره کا عنوان ہے ” النمل ”
    [pullquote]وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴿17﴾ حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿18﴾
    [/pullquote]

    ” اورسلیمان کے لیے (کسی مہم کے سلسلہ میں )اس کے جنوں،انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اوران کی جماعت بندی کر دی گئی تھی۔ یہاں تک جب وہ چیونٹیوں کی ایک وادی پر پہنچے تو ایک چیونٹی بول اٹھی ،”چیونٹیو!اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ایسانہ ہو کہ سلیمان اورا س کے لشکر تمہیں روند ڈالیں اورانہیں پتہ بھی نہ چلے.
    چیونٹی کا اپنی قوم کے لیے فکر کرنا الله کو اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کے لیے اپنے کلام میں محفوظ فرما دیا
    کیا ہم چیونٹیوں سے بھی گئے گزرے ہو چکے ہیں۔ ہم جنھیں اشرف المخلوقات بیان کیا گیا ہے، ہم جن کے بارے میں کہا گیا ہے
    [pullquote]لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿٤﴾
    [/pullquote]

    یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا
    حدیث میں آتا ہے اِنَ اللہ خَلَقَ آدَمَ عَلَٰی صُورَتِہِ ( مسلم ، کتاب البروالصلاۃ والاداب )“ اللہ تعالٰی نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا “
    لیکن ہمیں سفالت پسند ہے ثُمَّ رَ‌دَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ﴿٥﴾ پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا
    سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں کہا گیا
    [pullquote]إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ‌ غَيْرُ‌ مَمْنُونٍ ﴿٦﴾
    [/pullquote]

    لیکن جو لوگ ایمان ﻻئے اور (پھر) نیک عمل کیے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا

    ادب کیا ہے؟ کسی شے کا اس خوبی سے بیان کہ وہ سننے والے کی جمالیات اور فکریات دونوں کو یکساں متاثر کر سکے۔
    مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں
    غالبؔ کہتے ہیں:
    فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
    نالہ پابندِ نے نہیں ہے
    رونے اور ہنسنے کی کوئی قومیت یا وطنیت نہیں ہوتی، اور نہ اس کو فن چاہیے، بلکہ سچا ہنسنا اور سچا رونا وہ ہے جو فن سے عاری ہو، جس میں تصنع نہ ہو، کوئی روتا ہے تو درد سے بے قرار ہوکر، کوئی ہنستا ہے تو کسی مسرت کی بنا پر، یہ اندر کا جذبہ ہے، اس لیے رونے اور ہنسنے کے لیے اندر کا جذبہ ہونا چاہیے، اور وہ رونا رونا کہلانے کا مستحق نہیں جس کو ابھارنے والی اندر کی کوئی چیز نہ ہو، درد نہ ہو، کسک نہ ہو، اور وہ ہنسنا ہنسنے کا مصداق نہیں جو کسی کی فرمائش سے ہو۔
    ادب کا معاملہ بھی یہی ہے کہ ادب کی نہ کوئی قومیت ہے، نہ وطنیت ہے، نہ جنسیت ہے، اور نہ وہ خاص اصطلاحات کا پابند ہے، نہ خاص ضوابط کا، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ خود ادیبوں نے جنھوں نے اپنی زندگیاں ادب کے لیے وقف کیں، اور اپنی بہترین صلاحیتیں اس کے لیے مخصوص کردیں، انھوں نے بھی ادب کے سمندر کو کسی آب جو میں تصور کیا۔
    ادب ادب ہے، خواہ وہ کسی مذہبی انسان کی زبان سے نکلے، کسی پیغمبر کی زبان سے ادا ہو، کسی آسمانی صحیفہ میں ہو، اس کی شرط یہ ہے کہ بات اس انداز سے کہی جائے کہ دل پر اثر ہو، کہنے والا مطمئن ہو کہ میں نے بات اچھی طرح کہہ دی، سننے والا اس سے لطف اٹھائے، اور اس کو قبول کرے۔ حسن پسندی تو یہ ہے کہ حسن جس شکل میں ہو اسے پسند کیا جائے، بلبل کو آپ پابند نہیں کرسکتے کہ اس پھول پر بیٹھے ، اس پھول پر نہ بیٹھے، لیکن یہ کہاں کا حسن مذاق ہے اور یہ کہاں کی حق پسندی ہے کہ اگر گلاب کا پھول کسی مے خانے کے صحن میں اس کے زیر سایہ کھلے تو وہ گلاب ہے اور اس سے لطف اٹھایا جائے، اور اگر کسی مسجد کے چمن میں کھل جائے تو پھر اس میں کوئی حسن نہیں۔ کیا یہ جرم ہے کہ اس نے اپنی نمود کے لیے مسجد کا سہارا لیا؟
    حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
    ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟
    ہمیں حسن بے پروا سے مطلب ہے کہ شہر و صحرا سے؟ تو ادب کے ساتھ معاملہ یہی کیا گیا، اجازت دیجیے تو فارسی کا بھی شعر پڑھ دوں:
    دلِ عبث لب بہ شکوہ دانہ کند
    شیشہ تا نہ شکند صدا نہ کند
    اگر شیشے کی آواز سنیے تو سمجھیے کہ وہ ٹوٹا ہے، تو یہ ٹوٹے ہوئے دل اور ایک ٹوٹے ہوئے ساغر کی صدا ہے، صدائے احتجاج ہے کہ ادیبوں اور ادب کی بارگاہ میں یہ شرط کردی گئی کہ فلاں قسم کی وردی پہن کر آئیے، رسمیات سے سب سے زیادہ بے پروا ادب ہے، اس کو ہرگز یہ قبول نہیں کہ وہ فلاں وردی پہن کر آئے، اور فلاں زبان بولتا ہو، وہ جہاں بھی ہے ادب ہے، اگر وہ پھٹے پرانے کپڑے میں بھی ہے تو ادب ہے، اور شہ نشین پر بٹھانے اور ذہن نشین کرانے کے قابل ہے، اور وہ اگربادشاہوں کا لباس پہن کر آئے لیکن اس کو اپنے مطلب کو صحیح طرح سے ادا کرنے کا سلیقہ نہ ہو، تو وہ ادب نہیں ہے، ادب اس لیے ادب نہیں ہوجاتا کہ وہ کسی انگریزی داں نے ادا کیا، کسی ترقی پسند نے ادا کیا، شعبۂ اردو کے کسی چیئرمین اور پروفیسر نے ادا کیا، صدر نے ادا کیا، وہ ادب ادب ہے خواہ اس کو آپ کسی سائل کی صدا میں سن لیں، کسی غریب کی فریاد میں سن لیں، کسی ماں کو اپنے بچے کو سلاتے ہوئے لوری سنانے میں سن لیں، کسی خدا شناس کے نالۂ نیم شبی میں سن لیں، جو صرف خدا ہی کو سنانا چاہتا ہے، اتفاق سے آپ نے سن لیا، اس لیے ادب جس شکل میں ہو، جس زبان میں ہو، اور جس شخص کی زبان سے ادا ہو، وہ ادب ہے۔
    (دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں 1981ء میں منعقد مذاکرۂ ادبیات اسلامی کے اردو، فارسی، انگریزی سیکشن کے اختتامی خطبہ سے ماخوذ)

    ادبی وسائط کا فکری میدانوں میں باقاعدہ تحریکی انداز میں استعمال بر صغیر میں مخصوص سیکولر فکر کی ترویج میں خاص رہا ہے جس کی سب سے عظیم مثال ترقی پسند تحریک ہے۔ 1917ءمیں روس میں انقلاب تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ثابت ہوا۔ اس نے پوری دنیا پر اثرات مرتب کیے۔ دیگر ممالک کی طرح ہندوستان پر بھی اس کے گہرے اثرات پڑے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد میں تیزی آئی۔ ہندو مسلم اختلاف میں اضافہ ہوا۔ ان حالات اور سیاسی کشمکش کی بدولت مایوسی کی فضا چھانے لگی، جس کی بنا پر حساس نوجوان طبقہ میں اشتراکی رجحانات فروغ پانے لگے۔ شاعر اور ادیب ٹالسٹائی کے برعکس لینن اور کارل مارکس کے اثر کو قبول کرنے لگے۔ جبکہ روسی ادب کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ مذہب کی حیثیت افیون کی سی ہے۔ مذہب باطل تصور ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ معاش ہے۔ اس طرح اس ادب کی رو سے سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے اور ادب کا کام مذہب سے متنفر کر کے انسانیت میں اعتقاد پیدا کرنا ہے۔ یہ نظریات ترقی پسند تحریک کے آغاز کا سبب بنے۔
    1923ء میں جرمنی میں ہٹلر کی سرکردگی میں فسطائیت نے سر اُٹھایا جس کی وجہ سے پورے یورپ کو ایک بحران سے گزرنا پڑا۔ ہٹلر نے جرمنی میں تہذیب و تمدن کی اعلیٰ اقدار پر حملہ کیا ۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادبیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان شعراء و ادباء میں آئن سٹائن اور ارنسٹ ووکر بھی شامل تھے۔ ہٹلر کے اس اقدام پر جولائی 1935ء میں پیرس میں بعض شہرہ آفاق شخصیتوں مثلاً رومن رولان ، ٹامس مان اور آندر مالرو نے ثقافت کے تحفظ کے لیے تمام دنیا کے ادیبوں کی ایک کانفرنس بلالی ۔اس کانفرس کا نام تھا:
    The world congress of the writers for the defense of culture .
    ہندوستان سے اگر چہ کسی بڑے ادیب نے اس کانفرس میں شرکت نہیں کہ البتہ سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے ہندوستان کی نمائند گی کی ۔ اس طرح بعد میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے کچھ دیگر ہندوستانی طلبہ کی مدد سے جو لندن میں مقیم تھے۔ ”انجمن ترقی پسند مصنفین“ کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن کا پہلا جلسہ لندن کے نانکنگ ریستوران میں ہوا۔ جہاں اس انجمن کا منشور یا اعلان مرتب کیا گیا ۔ اس اجلاس میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں سجاد ظہیر، ملک راج آنند ، ڈاکٹر جیوتی گھوش اور ڈاکٹر دین محمد تاثیر وغیرہ شامل تھے۔ انجمن کا صدر ملک راج آنند کومنتخب کیا گیا۔ اس طرح انجمن ترقی پسند مصنفین جو ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی وجود میں آئی۔ اس ترقی پسند تحریک نے اپنے منشور کے ذریعے جن مقاصد کا بیان کیا وہ کچھ یوں ہیں:

    فن اور ادب کو رجعت پرستوں کے چنگل سے نجات دلانا اور فنون لطیفہ کو عوام کے قریب لانا۔
    ادب میں بھوک، افلاس، غربت، سماجی پستی اور سیاسی غلامی سے بحث کرنا۔
    واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا۔ بے مقصد روحانیت اور بے روح تصوف پرستی سے پرہیز کرنا۔
    ایسی ادبی تنقید کو رواج دینا جو ترقی پسند اور سائینٹیفک رجحانات کو فروغ دے۔
    ماضی کی اقدار اور روایات کا ازسر نو جائزہ لے کر صر ف ان اقدار اور روایتوں کو اپنانا جو صحت مند ہوں اور زندگی کی تعمیر میں کام آسکتی ہوں۔
    بیمار فرسودہ روایات جو سماج و ادب کی ترقی میں رکاوٹ ہیں ان کو ترک کرنا وغیرہ۔
    وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک کے نظریات کو غور و تدبر کے بعد اپنی فکر ی تربیت کرکے اپنے احساس کا حصہ بنایا اور فنی خلوص کو مارکسی نظریہ کے لیے کام کرتے ہوئے بھی مد نظر رکھا ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ان لوگوں میں کرشن چندر، فراق، فیض، ندیم، ساحر وغیرہ شامل ہیں۔ دراصل یہ لوگ تحریک کے وجود سے پہلے بھی اچھے فنکار تھے اور تحریک کے خاتمے کے بعد بھی اچھے رہے۔

    دور جدید کی مقتل گاہ میں
    اردو میں اسلامی یا اسلام پسند ادب کی تاریخ قدیم ہے، چاہے وہ صوفیانہ شاعری ہو یا اسلامی فکر و فلسفہ کا بیان۔ اقبال سے لے کر سید مودودی تک، نظم سے نثر تک۔ تاریخ، تفسیر، افسانہ یا ٹھیٹ فکری اور فلسفیانہ مضامین ،اسلامی ادب کی چھاپ ہر جگہ دکھائی دے گی لیکن فعال انداز میں مسلکی، جماعتی اور گروہی عصبیتوں سے ماوراء ہوکر کسی ایسے ادارے کا قیام جہاں اسلامی یا اسلام پسند ادیبوں کی کھیپ تیار ہو سکے ابھی تک تشنہ وجود ہے، گویا یہ ضرورت کے درجہ سے بڑھ کر فرض کفایہ بن چکی ہے جو پوری امت کے کچھ اہل علم پر لازم ہے۔ اور یہ کوئی ایسی سلف سے ہٹی ہوئی بات بھی نہیں کہ جس کو نظر انداز کر دیا جاۓ یہ تو آقا حضرت محمد مصطفیٰ صل الله علیہ وسلم کی سنت بھی ہے

    ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سیدنا ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ قریش کی ہجو کرو۔ انہوں نے ہجو کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آئی۔ پھر سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ پھر سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ جب سیدنا حسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ تم پر وہ وقت آ گیا کہ تم نے اس شیر کو بلا بھیجا جو اپنی دم سے مارتا ہے ( یعنی اپنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدان فصاحت اور شعر گوئی کے شیر ہیں)۔ پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے، میں کافروں کو اپنی زبان سے اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑے کو پھاڑ ڈالتے ہیں۔ اک خواب جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے

    دلیل جیسی اسلام پسند انجمنوں کا قیام ایسا ہی ایک خواب ہے جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے جس کو فسانے کی دنیا سے نکل حقیقت بننا ہے۔ گو بکری کی ذات چھوٹی ضرور ہے لیکن اس میں دل کو لگنے کے تمام اوصاف بھی ضرور موجود ہیں
    گو ادب کی اس بسیط دنیا میں ایک چیونٹی ہی سہی لیکن اس کا وجود تو ہے بس قبولیت کی ایک نظر ہی تو چاہیے ……
    [pullquote]رَبَّنَآ ءَاتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةًۭ وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًۭا[/pullquote]

  • رائٹ ونگ کے نوجوان لکھاریوں کو 11 مشورے. محمد عامرہاشم خاکوانی

    رائٹ ونگ کے نوجوان لکھاریوں کو 11 مشورے. محمد عامرہاشم خاکوانی

    11866265_1085617161465765_1795389247132538024_nپچھلے چند ہفتوں کے دوران سوشل میڈیا پر رائیٹ ونگ سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوان لکھنے کے حوالے سے متحرک ہوئے ہیں۔ اگلے روز ایک دوست نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چلو اج کل دے منڈے فیس بک پر ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کرنے کے بجائے کسی مثبت ، تعمیری کام سے لگ گئے ہیں۔ مجھے زیادہ خوشی اس کی ہے کہ نوجوان کتابیں پڑھنے، سوچنے اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کی طرف مائل ہوئے ہیں، جو ہمارے سماج کے لئے بڑی خوش آئند بات ہے۔ اس سب کے پیچھے محرک قوت تو محترم وجاہت مسعود اور ان کی ہم خیال دوستوں کی جانب سے شروع کردہ مکالمہ نما یدھ یا یدھ نما مکالمہ ہے ۔ اس نے وہی کام کیا جو ساٹھ کے عشرے کے اواخر اور خاص کر ستر کے عشرے کے اوائل میں ترقی پسندوں کی جانب سے آنے والی یلغار سے ہوا تھا۔ اس نے دائیں بازو کے مذہبی سوچ رکھنے والے نوجوان میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ انہیں اپنی نظریاتی شناخت خطرے میں نظر آئی تو وہ کھڑے ہوئےا ور اپنی پوری صلاحیتیں اور قوت نظریاتی ، فکری دفاع میں کھپا دیں۔ اس بارقدرت نے یہ نیک کام جناب وجاہت مسعود اور ان کے فکری ہم سفروں سے لیا۔ میرے دل میں ان کا احترام اس لئے زیادہ ہے کہ ایک نالائق یا اوسط درجے کے فکری حامی سے میرے نزدیک ذہین ، سوچنے سمجھنے پر مجبور کر دینے والا نظریاتی مخالف اہم ہے ۔ سماج میں جمود سے نظریاتی ہلچل پیدا کرنا زیادہ ضروری ہے۔ فکری مکالمہ جاری رہنا چاہیے ۔ کنزیومر ازم کے اس بے رحم، سفاک دور میں بے غرض قلمی جدوجہد کرنے والے مبارک اور تحسین کے مستحق ہیں۔ دلچسپی سے ان نوجوانوں کی تحریریں پڑھ رہا ہوں ، داد دینے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا، بعض پوسٹیں تو اپنی وال پر بھی شئیر کیں۔ یہ سب سوال جواب بلکہ جواب الجواب پڑھتے ہوئے مجھے یہ محسوس ہوا ہے کہ پرجوش نوجوانوں کو چند ایک مفت کے مشورے دے دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے تو ان سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، مگر میں نے اپنے رائیٹ ونگ کے نوجوانوں کو ذہن میں رکھ کر یہ تحریر لکھی ہے تو ممکن ہے دوسروں کے لئے بعض باتیں سودمند نہ ہوں۔ (یاد رہے کہ ان تمام مشوروں کو نظرانداز کرنے کی آپشن بدستور موجود ہے، کسی پر پابندی نہیں، ہر ایک اپنے انداز میں سوچ اور اس کا اظہار کر سکتا ہے ۔ )

    نمبر ایک : اسلامسٹ بمقابلہ سیکولرازم کا معرکہ ٹی ٹوئنٹی میچ ہرگز نہیں، اسے ون ڈے بھی نہیں سمجھنا چاہیے ۔ یہ کرکٹ کی اصطلاح میں ٹیسٹ میچ ہے۔ طویل دورانئیے کا کھیل ۔ جس میں دو تین باتیں اہم ہیں۔

    اے: اس میچ نے جلدی ختم نہیں ہوجانا۔ لمبا معرکہ ہوگا۔ یہ قسطوں میں لڑی جانے والی جنگ ہے، باربار غنیم کے لشکر امنڈ امنڈ کر آئیں گے۔ ہر بار تلوار سونت کر لڑنا پڑے گا۔ انداز بدلتے رہیں گے ، سپاہیوں کے چہرے تبدیل ہوں گے گے،مگر اہداف وہی ہیں ۔ جان پہچانے، دیکھے بھالے۔ اس محاذ کا رخ کرنے والے سوچ سمجھ کر میدان میں اتریں۔ نظریاتی جدوجہد بعض اوقات مختلف فیز میں لڑی جاتی ہے۔ ہم سے پہلوں نے اپنے انداز میں یہ معرکہ لڑا۔ اب ہمارے زمانے میں اور ہم سے بعد میں یہی مسائل، مکالمے اور مجادلے چلتے رہیں گے۔

    بی : ٹیسٹ میچ میں جلدبازی اور عجلت کے بجائے کھلاڑی کی محنت، تکنیک اور مہارت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ فکری مکالمے میں بھی یہ چیزیں اتنی ہی اہم ہیں۔ اچھی طرح تیاری کر کے ، سوچ سمجھ کر قدم بڑھانا چاہیے۔

    سی : بہتر ہو گا کہ لکھنے والے اپنے اپنے کام کا تعین کر لیں۔ جیسے کرکٹ ٹیم میں کسی کا کام بائولنگ، کوئی بلے باز اور ایک وکٹ کیپر ہوتا ہے ۔ ہر ایک کی سپیشلیٹی ہوتی ہے۔ بیانیہ کی جنگ میں مل جل کر بھی کام ہوسکتا ہے ۔ جسے تحقیق میں دلچسپی ہے، وہ حوالہ جات پر محنت کرے اور اس اعتبار سے مواد سامنے لے آئے ، کسی کو سوالات اٹھانے میں مہارت ہے، وہ اس طرف کا رخ کرے، کسی کا ہنر مرصع نثرلکھنا ہے تو وہ اس پر ہی فوکس کرے، مغربی لٹریچر سے رسائی رکھنے والوں کو اس اینگل کو کور کرنا چاہیے ۔

    نمبر دو : مکالمہ ہر حال میں نہایت شائستگی سے کرنا چاہیے۔ انکسار، استدلال اور علمی شائستگی تحریر کے بنیادی جوہر ہونے چاہئیں۔ طنز، تضحیک، دشنام اور اختلاف رائے کرنے والے پر لیبل چسپاں کرنے سے ہر صورت گریز کرنا ہوگا۔ رائیٹسٹوں کو یہ سوچ کر لکھنا چاہیے کہ وہ اسلامی مائنڈ سیٹ کے علمبردار ہیں اور ان کے تحریر ہی سے مذہبی سوچ رکھنے والوں کے کردار کو جانچا جائے گا۔ اس لئے اخلاق ، شائستگی اور متانت کا دامن قطعی نہ چھوڑا جائے ۔

    ہر تحریر یہ سوچ کر لکھی جائے کہ ہمارے سرکار، آقا اور محسن عظیم حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر اسے پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے۔ کوئی ایسا جملہ یا لفظ نہ ہو، جس سے سرکار مدینہ کی منور پیشانی پر کوئی شکن نمودار ہو اور انہیں لگے کہ ان کے امتی، ان کے نام لیوا دین اسلام کی بے توقیری کا باعث بنے۔ کوئی بھی سچا، کھرا رائیٹسٹ صرف اس لئے اس میدان میں اترتا اور اپنے دین، اپنی اخلاقی اقدار اور تصور دین کا دفاع کرتا ہے کہ روز آخرت اس کی یہ کاوش قبول ہو اور بخشش کا باعث بنے۔ اس لئے تحریر کا معیار بھی ویسا ہی کڑا اور سخت ہونا چاہیے ۔ بد تمیزوں، بد اخلاق، عامیانہ گفتگو کرنے والوں، پست الفاظ استعمال کرنے کے عادی لوگوں کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔ رائٹسٹوں، اسلامسٹوں کو ایسے تمام لوگوں سے خود کو دور کرلینا چاہیے ، ان سے اعلان لاتعلقی کر لینا ہی زیادہ بہتر اور مناسب ہے۔ گھیٹا دفاع سے دفاع نہ کرنا افضل ہے۔

    نمبر تین : یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مایوس ہونے یا ہمت ہار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامسٹوں کی جدوجہد اور نوعیت کی ہے۔ پاکستان میں اللہ کے فضل سے اسلامسٹوں نے بہت اہم آئینی جنگیں جیتی ہوئی ہیں۔ دستور پاکستان سے قرار داد مقاصد یا ملک سے اسلامی لفظ ہٹانا، یا پھر توہین رسالت قانون میں ترمیم وغیرہ ، یہ سب سیکولرسٹوں کا ایجنڈا ہے، مایوسی اور فرسٹریشن ہر بار انہی کے حصے میں آتی ہے۔ ریاست کو سیکولر بنانے کا خواب وہی دیکھ رہے ہیں،اس کی فکر بھی انہیں ہی ہونی چاہیے۔ رائیٹ ونگ نے تو جو کچھ حاصل کرنا تھا بڑی حد تک کر لیا، اب فوکس آئین پر عملدرآمد کرنے اور اسلامی معاشرے کے قیام پر کرنا چاہیے ۔ دعوت، تعلیم ، تربیت کا جوکام انفرادی، گروہی یا جماعتوں کی حد تک ہوسکتا ہے، وہ کیا جائے، حکومت میں آ کر ریاستی وسائل کی مدد سے کچھ کرنے کے مواقع جب ملیں تو ایسا کیا جائے ، نہ مل سکیں تو کم از کم پریشر گروپس کا کردار ادا کرتے رہنا ہوگا۔

    نمبر چار : ممکن ہے پوائنٹ نمبر تین پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ ایسی صورت میں پھر اتنی محنت کی ضرورت کیا ہے؟ سادہ جواب یہ ہے کہ اسلامسٹوں کو اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے جوابی بیانیہ تشکیل دینا پڑتا ہے اور رہے گا۔ سیکولروں کے سوالات کے جواب دینا اس لئے ضروری ہے کہ اسلامی طرز فکرکو دلوں میں بسانے، دماغ میں اتارنے کے لئے استدلال ہی واحد ذریعہ ہے۔ نئی نسل تک اپنی بات دلیل کے ساتھ پہنچانی ہے۔ ان کے ذہنوں میں موجود الجھنیں کھولنی، سلجھانی اور مذہب کے خلاف پروپیگنڈے کا توڑ کرنا ضروری ہے۔ بہت سے مذہبی گھرانوں کے بچے ردعمل میں دوسری طرف اس لئے چلے جاتے ہیں کہ ان کے والدین نے نئی نسل کے سوالات کے جواب دینے کی زحمت ہی نہیں فرمائی، وہ سمجھتے تھے کہ شاہد ان کی فکر اولاد کے ذہنوں میں خود بخود منتقل ہوجائے گی ۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔

    نمبر پانچ: ایک بات اور ذہن میں رکھیں کہ سیکولرفکر کے بیشتر علمبرداروں کو آپ دلیل سے قائل نہیں کر سکتے۔ یاد رہے کہ قائل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اگلا قائل ہونے پر آمادہ ہو۔ جس نے طے کر رکھا ہو کہ مابعدالطبعیات کچھ نہیں اور صرف مادہ ہی سب کچھ ہے، اسے آپ مذہب کی اہمیت پر کیسے قائل کر سکتے ہیں؟ جو روز آخرت پر ہی یقین نہ رکھتا ہو، سرے سے خدا یا اس کے پیغمبر کے وجود ہی پر اسے شک ہو، اسے کس طرح الہامی دانش کا پیروکار بنایا جا سکتا ہے؟ میرا یہ مقصد نہیں کہ سیکولر سوچ رکھنے والے تمام ایسے ہوتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ ایشو نہیں۔ وہ کسی بھی دوسرے مذہبی شخص کی طرح کی سوچ رکھتے ہیں، ان میں سے بعض ردعمل میں سیکولر ہوئے، کچھ کو مذہبی جماعتوں یا بعض تنگ نظر مولوی صاحبان کی شدت اور بے تدبیری اس جانب لے آئی، ایسے بھی بہت ہیں جو داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کی متشددانہ پالیسیوں، لوگوں کو زبح کرنے اور سروں سے فٹ بال کھیلنے جیسی ویڈیوز دیکھ کر مذہب کا نام لینے والے ہر ایک گروہ سے متنفر ہوگئے۔ سیکولر سوچ رکھنے والوں میں یہ تمام شیڈز موجود ہیں، مگر سیکولرازم کی خالص علمی بنیادیں الحاد اور مذہب بیزاری پر استوار ہیں، اس لئے ان سے زیادہ دیر بچا نہیں جا سکتا۔

    سیکولروں کی ہارڈ کور کو متاثر یا قائل نہ کرسکنے کے امکان کے باوجود یہ مکالمہ جاری رکھنا ہوگا، اسلامی بیانیہ پوری صراحت اور گہرائی کے ساتھ تشکیل دینا ہوگا۔ ہدف وہ لوگ ہیں جو ابھی درمیاں میں ہیں، سوئنگ ووٹرکی طرح سوئنگ پیروکار بھی ہوتے ہیں۔ جو لوگ ابھی کسی جانب نہیں گئے، وہ لوگ جوکسی وجہ سے سیکولر ہوگئے ، مگر وہ مذہب کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں، انہیں چند کامن پوائنٹس پر قریب کیا جا سکتا ہے ۔ وہ لوگ بھی جو مذہبی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، رائٹسٹ ہیں، مگرانہیں دوسروں سے بات کرنے کے لئے دلائل کی ضرورت ہے۔ ان کی یہ کمی، ضرورت رائٹسٹ لکھاریوں کو پوری کرنا ہے۔

    نمبر چھ : سیکولرسٹوں سے بحث کرتے ہوئے ان کی کج بحثی اور مذہب پر حملوں کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔ ہم لوگ بعض چیزوں کو پہلے سے طے شدہ لے کر چلتے ہیں، سوچتے ہیں کہ بعض سیاسی سوال اور بحثیں ہوں گی، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تو کوئی بات نہیں کرے گا۔ اسی طرح پاکستان کے حوالے سے ہم میں سے بہت سوں کو اس وقت شاک لگتا ہے،جب نظریہ پاکستان، قائداعظم، اقبال، لیاقت علی خان ، علامہ شبیر احمد عثمانی وغیرہ پر کوئی حملہ آور ہو۔ ہم اس سے یہ حملہ توقع نہیں کر رہے ہوتے، اسے ناف کے نیچے وار سمجھتے ہیں۔ اس سب کے لئے مگر پہلے سے تیار ہونا چاہیے ۔

    نمبر سات: یہ بات بھی اب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں اسلامی نظام، اسلامی معاشرے کا قیام نظریہ پاکستان ، تحریک پاکستان اور قرارداد مقاصد سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ تقسیم کے مخالف ہوں، قائداعظم یا نظریہ پاکستان سے وابستگی نہ رکھتے ہوں یا اس درجہ حساسیت کے حامل نہ ہوں اور اپنے مذہبی میلان کی وجہ سے پاکستان میں نفاذ اسلام کی بات کریں، تحریک چلائیں۔ ایسی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس پر یکسوئی حاصل کر لیں۔ اگر نظریہ پاکستان سے دستبردار ہوگئے، اسلامی مملکت کے دعوے، خواب سے ہاتھ کھینچ لیا تو پھرملک میں اسلامی قوانین، اسلامی معاشرے کا خواب بھی بھول جائیں۔ پاکستان تب لفظی طور پر نہ سہی، عملی طور پر سیکولر ریاست بن جائے گی۔

    نمبر آٹھ : (پوائنٹ نمبر سات کی یہ ایکسٹینشن ہی ہے، مگر اہمیت واضح کرنے کے لئے اسے الگ پوائنٹ بنایا ہے۔) یاد رکھیں ،تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان، قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوران تحریک کئے گئے وعدے ہی وہ بنیاد فراہم کرتے ہیں، جس پر پوری اسلامی تحریک استوار ہوتی ہے، قرارداد مقاصد اس کے بغیر پاس ہونا ممکن نہں تھی۔ سیکولر حلقہ اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے، اس لئے وہ بار بار قراردار مقاصد پر حملہ آور ہوتا ہے، نظریہ پاکستان کا تمسخر اڑاتا ، اسے بے حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیاقت علی خان کے قد کاٹھ کو چھوٹا ثابت کرنا، علامہ شیبر احمد عثمانی پر حملے محض اس لئے کئے جاتے ہیں کہ قرارداد مقاصد کے موید یہی لوگ تھے۔ جب ان پر سے تقدس کا لبادہ نوچ کر الگ کر لیا جائے تو پھر اس قرارداد کی حیثیت کسی بھی اسمبلی میں پیش ہونے والی قرارداد کی سی رہ جاتی ہے۔

    نمبر نو : یاد رکھیں کہ قائداعظم رحمتہ اللہ کی شخصیت بھی پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے، یہاں اسلامی نظام قائم کرنے اور رول ماڈل اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سپنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یہ سب باتیں قائداعظم کہتے رہے تھے، ان کے بے شمار جملے، فقرے ، بیانات اور انٹرویوز اس حوالے سے ہیں۔ چونکہ قائداعظم کی ذات پاکستان اور پاکستانی عوام سے منسلک ہے،اس لئے سیکولر حلقہ قائد کی گیارہ اگست والی تقریر کے حوالے دینے پر مجبور ہے، سمجھدار سیکولر جانتے ہیں کہ قائداعظم کی الفاظ کی تعبیر وتشریح کر کے ایک قومی بیانیہ تشکیل دینا آسان ہے،اسی لئے بار بار اسی ایک تقریر کے حوالے دئیے جاتے رہیں گے۔ شدید بوریت کے باوجود ہمیں یہ سب سہنا پڑے گا، جواباً بار بار قائد کی دوسری تقاریر کے حوالے دینے پڑیں گے۔بار بار ایسا کرنا پڑے گا۔ یہ عمل دونوں طرف سے جاری رہے گا، شائد آنے والے برسوں، عشروں تک۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ بیشر سیکولر قائداعظم کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنی تحریروں میں التزام کے ساتھ انہیں جناح صاحب لکھیں گے۔ یہ دراصل لٹمس ٹیسٹ ہے، جدید دور کا کوئی بھی لکھاری جو اپنی کسی تحریر میں قائداعظم کے بجائے جناح صاحب لکھے، سمجھ لیجئے کہ اس کے اندر کا تعصب اور قائداعظم کے لئے نفرت اور بیزاری ابل ابل کر باہر آ رہی ہے۔ جناح صاحب لکھنے کی آزادی صرف ان کے ہم عصروں کو دی جا سکتی تھی، باچا خان یا جی ایم سید ایسے آخری لوگ تھے۔ ان کے بعد کی نسلوں کو یہ حق نہیں ۔ ہمارے قائد محمد علی جناح کو قائداعظم کہنا پاکستانی روایت کا حصہ بن چکا ہے۔ اس روایت کو تسلیم بھی عرصہ پہلے کیا جا چکا ہے ۔ اس سے انحراف وہی کرے گاجو قائد کی دشمنی اور مخالفت میں اعتدال کی حدعبور کر چکا ہو، ورنہ کوئی بھی سمجھدار سیکولر ایسی غلطی کر کے خود کو بے نقاب نہیں کرتا۔ اسی طرح یہ اکثر دیکھا جائے گا کہ مولانا آزاد کو اکثر سیکولر لکھاری بہت اہمیت دیں گے، مولانا کے علمی قد کاٹھ سے زیادہ بغض قائداعظم اس کا باعث ہوگا۔

    علما کے حلقے میں سے ایک گروپ جو زہنی طور پر جمعیت علما ہند کے قائدین سے زیادہ قریب ہے، ان کے لئے بھی قائداعظم کی شخصیت کو تسلیم اور قبول کرنا آسان نہیں، مگر پاکستان مین اسلامی جدوجہد کے لئے قائداعظم کی شخصیت کو ساتھ لے کر ہی چلا جا سکتا ہے۔ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے یہ لوگ اپنے تصور کا دوبارہ سے جائزہ لیں اور تحریک پاکستان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح علامہ اقبال اور حضرت مدنی والے مناقشہ کے بعد کچھ لوگ اقبال کے لئے بھی ناپسندیدگی کی ایک زیریں لہر رکھتے ہیں، انہیں بھی اقبال کی عظمت کو ازسرنو سمجھنا ہوگا۔ اقبال کا ورلڈ ویو حیران کن ہے۔ اسلامی معاشرے یا اسلامی ریاست کے لئے اقبال کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔

    نمبر دس: یہ بات شروع میں آنی چاہیے تھی، مگر اس پر اختتام کرنا بھی کم اہم نہیں۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام اور سیکولرازم کا امتزاج کسی طور ممکن نہیں۔ کسی بھی ملک میں یا تو اسلامی ریاست ہو گی یا سیکولرریاست ، اسلامی معاشرہ تشکیل پائے گا یا پھر سیکولر معاشرہ۔ ان کو ملانے کی بچکانہ کوشش کبھی کامیاب ہوئی نہ ہوگی۔ یہ کہنا کہ کسی قسم کا دیسی مسلم سیکولرازم ممکن تھا، ایک بڑا فکری مغالطہ ہے۔ دیسی مسلم سیکولرازم نام کی کسی اصطلاح کا کوئی وجود نہیں، یہ بن بھی نہیں سکتی۔ بات سادہ سی ہے کہ آپ نے یہ طے کرنا ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی ریاست میں رہنا ہے یا پھر بندوں کی بنائی ہوئی ریاست میں، اللہ کے بتائے ہوئے قوانین، وضوابط پر عمل کرنا ہے یا پھر انسانی عقل سے آخذ کئے ہوئے قوانین کو چلانے کی کوشش کرنا ہے۔ ان دونوں تصورات کو کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟

    یہ نقطہ بھی واضح ہوجائے کہ پاکستانی تناظر میں علامہ شبیر احمد عثمانی کا ماڈل ہی قابل قبول ہوگا۔ حضرت علامہ حسین احمد مدنی کے تمام تر احترام کے باوجود ان کا ماڈل بھارتی ماڈل ہے، ایک ایسے معاشرے کا جہاں کثیر المذاہب لوگ رہتے ہوں، جہاں مسلمان اکثریت میں نہ ہوں۔ سیکولرازم کا مطالبہ وہیں ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی کہے کہ بھارت میں اسلام نافذ کیا جائے تو اس کی عقل پر شک کیا جائے گا، پاکستان میں البتہ یہ مطالبہ ہوگا اور قابل فہم بھی سمجھا جائے گا۔ دیوبند مکتب فکر کے لوگوں کو یہ مان لینا چاہیے کہ جمعیت علما ہند بھارت کے لئے ہے اور جمعیت علما اسلام پاکستان کے لئے۔ اس بیریر سے گزرنے کے بعد یہ لوگ یکسوئی کے ساتھ اسلامی معاشرے کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح مولانا آزاد کے علمی ، ادبی سحر میں کون گرفتار نہیں، مگر پاکستانی بیانیہ میں قائداعظم پہلے آتے ہیں، مولانا آزاد اس فریم ورک میں فٹ نہیں ہوتے۔ نہایت احترام کے ساتھ انہیں بھارتی سیکولرسٹوں کے لئے چھوڑ دیجئے ۔ مولانا آزاد کی پیش گوئیاں بھی ہمارے ہاں سب سے زیادہ ذوق شوق سے تقسیم ہند کے مخالف اور سیکولر حلقے ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ ان کے بیانیہ میں فٹ ہوتی ہے۔ بڑے پیار اور احترام کے ساتھ مولانا آزاد سے اختلاف کیجئے۔ ہو سکے تو منیر احمد منیر کی کتاب مولانا آزاد کی پیش گوئیاں پڑھ لیجئے،دوسرارخ سامنے آ جائے گا۔

    اسی طرح جاوید غٓامدی صاحب کا یہ تصور کہ ریاست سیکولر ہو، حکومت البتہ مسلمان ہوگی، یہ بھی آخری تجزیے میں سیکولرسٹوں کو سپورٹ کرتا ہے۔ جناب غامدی اور ان کے ذہین تلامذہ کی فکر ایک خاص سٹیج پر جا کر سیکولر فکر کے ساتھ ہی جا کر کھڑی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ غامدی صاحب کے بیانیہ پر کبھی سیکولر تنقید نہیں کریں گے، انہیں سوٹ جو کرتا ہے ۔ غامدی صاحب پر ہمیشہ اسلامسٹوں کی طرف سے تنقید،اور جواب بیانیہ دیا جاتا ہے۔

    نمبر گیارہ : اب تک ان بحثوں کو پڑھنے والوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ سیکولر دوست کس طرح بات کو ایک جگہ سے کھینچ کر دوسری جگہ لے جاتے ہیں، ایک ساتھ کتنے مفروضے ، مغالطے بھر دیتے ہیں تاکہ یکسوئی کے ساتھ جواب نہ دیا جا سکے۔ دانستہ طور پر رائیٹسٹوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ انہیں معلوم ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یوآئی کے مابین ماضی میں مسائل رہے ، تو ان نکات کو بار بار اٹھایا جائے گا۔ جماعت اسلامی والوں کو الجھانے کے لئے تقسیم کے وقت مولانا مودودی کی آرا کا مسئلہ چھیڑا جائے گا، کبھی جماعت کی مسلم لیگی مخالفت پر سوال ہوگا، کبھی کسی اورایشو کو چھیڑ دیا جائے گا۔ اس کا صاف جواب دینا چاہیے کہ یہ سب ماضی کے ایشوز ہیں۔ بنیادی نقطہ یہی ہے کہ کیا پاکستان اسلامی ریاست ہو یا سیکولر؟ اسلامی نظام آنا چاہیے یا سیکولر نظام؟ ہماری اخلاقی نظام کی بنیاد مذہب پر ہونی چاہیے یا پھر اس اخلاقیات کی تشکیل ہر ایک خود کرتا پھرے۔ ان بنیادی سوالات پر بحث مرکوز رکھنی چاہیے، نان ایشوز میں الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں، اپنی توانائیاں ادھر صرف نہ کی جائیں۔ ہر حلقہ فکر کی طرح رائیٹ ونگ میں فالٹ لائنز موجود ہیں، انہیں ایکسپوز کرنے سے گریز کریں۔ آپس میں لڑنے کے بجائے اصل مدعے کی طرف توجہ رکھیں۔ اس کی زیادہ اہمیت ہے۔ اجر بھی اسی کا ملنا ہے۔ یہ اپنی مسلکی، جماعتی شناخت سے اٹھ کر دین اسلام کے لئے فکری جدوجہد کرنے کا وقت ہے۔ اللہ سے مدد مانگئیے ، وہی توفیق دے گا، تحریر اور خیالات میں برکت اور وہی قبول بھی فرمائے گا۔

    اسلامسٹ بیانیہ کے لئے معروف مذہبی کتب کا سب کو علم ہی ہے، میں دو تین کتابوں کی طرف نشاندہی کرنا چاہوں گا۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر طارق جان کی سیکولرازم، مغالطے ، مباحثے ہے۔ اسے منشورات لاہور نے شائع کیا ہے ، اس کی ای بک بھی دستیاب ہے۔ ڈاکٹر طارق صاحب نے بڑی عمدگی سے کئی ایشوز پر قلم اٹھایا ہے۔ اس پڑھنا فائدہ مند ہوگا۔ قائداعظم کے اسلامی تصور کے حوالے سے بہت سی کتب شائع ہوچکی ہیں، کسی سے حوالہ جات کے لئے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اسد کا کام بھی ان مباحث میں بہت کارآمد ہے۔ ان کی کتاب یورپین بدو کمال کی ہے۔ علامہ اسد نے اس پر بھرپور بحث کی ہے کہ پاکستان میں اسلامی دستور کیوں بنایا جائے؟ پروفیسر احمد رفیق اختر نے بھی سیکولرازم کے خلاف بھرپور طریقے سے لکھا ہے۔ پروفیسر صاحب کی سیکولرازم کی علمی بنیاد جو الحاد پر مشتمل ہے، اس پر کڑی تنقید ہے۔ اسے پڑھنے سے نئے دلائل ملیں گے۔

  • پاکستان میں جاری اسلام اور سیکولرزم کی کشمکش – محمد دین جوہر

    پاکستان میں جاری اسلام اور سیکولرزم کی کشمکش – محمد دین جوہر

    13006688_190862491305745_6488080985877669796_n اس وقت اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسلام اور سیکولرزم کی بحث زوروں پر ہے۔ دھیمے سروں میں یہ بحث بہت پرانی اور غیرنتیجہ خیز ہے، لیکن آجکل اس میں پھر سے تیزی آئی ہوئی ہے۔ یہ بحث کسی پالیسی، بیان، واقعے یا پبلک رائے وغیرہ کے نتیجے میں اچانک دھواں دھار ہو جاتی ہے، اور کچھ عرصے کے بعد بے نتیجہ ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا ایک اثر ضرور مرتب ہوتا ہے کہ طرفین کی باہمی مخاصمت میں اضافہ ہو جاتا ہے، موقف اور پوزیشنیں سخت ہو جاتی ہیں، اور آئندہ بحث کی نتیجہ خیزی بھی موہوم رہ جاتی ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ اس بحث کو مفید اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے خود اس بحث کی نوعیت اور خد و خال، اس کے تاریخی اور علمی تناظر، طرفین کی شناخت اور ان کے موقف اور طرز استدلال کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے چند ایک گزارشات ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں۔

    (۱) بحث کی نوعیت اور خدوخال:
    ہمارے ہاں اسلام اور سیکولرزم کی بحث کے خدوخال واضح نہیں۔ یہ کوئی علمی بحث نہیں ہے کہ طرفین کے مواقف قطعیت سے معلوم ہوں، اور اس کی حیثیت ایک فٹ بال میچ کی طرح بھی نہیں ہے کیونکہ یہ ہمیشہ بے نتیجہ ختم ہو جاتی ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ اسلام اور سیکولرزم کی دھینگامشتی کہا جا سکتا ہے جو پست ترین انسانی اور ذہنی سطح پر واقع ہوتی ہے۔ دھینگا مشتی ”بحث“ اور ”میچ“ کا ملغوبہ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ نہ کبھی نتیجہ خیز ہوئی ہے اور نہ ثمرآور۔ یعنی اس بحث کے نتیجے میں کہیں کوئی علمی ترفع واقع نہیں ہوتا، دلیل کو کوئی سرفرازی نصیب نہیں ہوتی، اور اعلیٰ اخلاقیات کے مظاہر بھی سامنے نہیں آتے۔ بات جوتم پیزار، تکفیربازی، غدارسازی وغیرہ سے آگے ہی نہیں بڑھ پاتی۔ ہماری ناقص رائے میں یہ بحث نہایت اہم ہے، لیکن اس کے نتائج نہایت افسوسناک ہوتے ہیں جو سماجی صحت اور قومی سلامتی کے لیے گہرے ضرر کا پہلو لیے ہوئے ہیں۔ جس بحث کا نتیجہ طرفین کی تذلیل، گالم گلوچ، اتہام بازی وغیرہ کی صورت میں سامنے آئے وہ انسانوں کے لیے کبھی مفید نہیں ہو سکتی۔
    ”علمی بحث“ اور ”فٹبال میچ“ دو مختلف چیزیں ہیں، ایک ذہن کی جدلیات ہے اور دوسری ارادے کی۔ ہمیں اس وقت ذہن کی جدلیات کی ضرورت اس کی پوری شرائط کے ساتھ ہے، کیونکہ اجتماعی سطح پر راستہ صرف ذہن کی جدلیات سے گزر کر ہی روشن ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ راستے کی نشاندہی صرف علم ہی سے ہو گی، اور اقدار اس راستے کو طے کرنے کے وسائل اور منزل کے عزم کے لیے ضروری ہوں گی۔ ہم اپنی دینی اقدار کی وجہ سے مسلمان ہیں، لیکن اقدار پر کاربند ہونا ازخود کسی علمی موقف کا اظہار نہیں ہوتا، کیونکہ اقدار کو بنیاد میں رکھتے ہوئے علمی موقف کی عصری تشکیل ضروری ہوتی ہے۔ تاریخی صورت حال علم کا موضوع ہے اور دونوں تغیرپذیر ہوتے ہیں، اور اقدار کا مخاطب انسان ہے، اور وہ ابدی حق کا مستقل اظہار ہیں اور انسان سے بدلتی ہوئی تاریخ میں ”عبد“ رہنے کا تقاضا کرتی ہیں۔ اقدار، ارادے کی نفسی اور تاریخی جدلیات میں ضروری اور کارگر ہوتی ہیں، ان کو علمی قضایا کے روبرو لانے یا ان کے رد میں پیش کرنے سے ارادے کا اقدار سے تعلق میکانکی ہو کر ختم ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی ذہن کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔
    قرن اول میں ہماری دینی اقدار فوراً ہماری تہذیبی اقدار بھی بن گئیں، اس لیے انہیں کسی علمی اور فکری توسیط کی ضرورت نہیں پڑی۔ ہمارے ہاں علمی اور فکری بحث کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب خاص تاریخی حالات میں ہماری تہذیبی اقدار داخلی جدلیات کا شکار ہو گئیں۔ جدید دنیا کی تشکیل اس سے بالکل برعکس طریقے پر ہوئی ہے۔ اس میں پہلے سے قائم مذہبی تہذیبی اقدار کے انخلا اور ان کی جگہ جدیدیت کی اقدار کو غلبہ دینے کے لیے آگے پیچھے، دائیں بائیں علم کے جنگی دستے چلانے پڑے، جنہوں نے نئی اقدار کو جدید تہذیب کے عین قلب میں قائم کر دیا۔ اب یہ تاریخ کا معمول ہے اور اس کا لحاظ رکھنا ہم پر بھی ایک جبر کی صورت میں مسلط ہے۔ اس میں ہم اپنی دینی اقدار کا بار بار اعادہ کر کے نہ ان کو قوت دے سکتے ہیں، اور نہ انہیں معاشرے اور اجتماع میں فنکشنل بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے علم کے دستوں کی ضرورت ہے اور سچ یہ ہے کہ علم دشمنی ہمارے انفرادی اور اجتماعی وجود کی نادیدہ تہوں میں بھی رچ بس گئی ہے۔
    جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ روایتی طور پر اجتماعی معاملات ہمارے ہاں اقدار کا موضوع رہے ہیں لیکن جدید دنیا میں وہ علم کا موضوع ہیں۔ مثلاً سیاسی طاقت سے کیا مراد ہے؟ سیاسی طاقت کی جدید تشکیل کا منہج کیا ہے؟ ریاست کی نوعیت کیا ہے؟ قانون اور قانون سازی کے منابع اور طریقۂ کار کیا ہے؟ کلچر کیا ہے؟ خود علم اور اقدار سے کیا مراد لیا جاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ گویا سوالات کی ایک طویل فہرست ہے جس پر جدید تہذیب اور ذہن نے علمی گولہ بارود کے ذخیرے جمع کیے ہوئے ہیں اور ان کی توپیں بھی بڑے دھانے والی اور دورمار ہیں۔ اگر اقدار کو علم کی کمک حاصل نہ رہے تو ان کی حیثیت اس کی آدمی کی طرح ہو جاتی ہے جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو۔ ہم نے دیانت داری سے عصری صورت حال کو سمجھنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ کام صرف ذہن کی جدلیات میں رہ کر ہی ممکن تھا۔ مثلاً کوئی ہم سے اگر پوچھ لے کہ دین کا سیاسی نظام کیا ہے؟ تو ہم جواب میں کہیں گے خلافت۔ لیکن عصر حاضر میں انسانی اجتماع کو منظم کرنے کے لیے اس کی علمی تفصیل اور فکری جہات کو اجاگر کرنا پڑے گا جن کا ہمیں ابھی کوئی شعور ہی نصیب نہیں ہے، جواب تو بعد کی بات ہے۔ مثلاً ہم جدید ریاست کی فکری تفصیلات طے کیے بغیر اسے اسلامی کہنا چاہتے ہیں۔ جدید سرمایہ داری نظام کو بھی اسی بنیاد پر اسلامی کہنا چاہتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس۔ اس رویے کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ اہل علم کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمیں نہ اسلامی کا کوئی شعور باقی رہا ہے اور نہ ہم میں جدید ریاست یا جدید دنیا کے موثرات وغیرہ کا کوئی ادراک پایا جاتا ہے۔
    سیکولر طبقہ یہی سوالات اٹھا رہا ہے اور مسلم ذہن ان سوالوں کے سامنے جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر فوراً ہزیمت کا شکار ہو جاتا ہے یا لڑنے مارنے پر اتر آتا ہے۔ اس جھنجھلاہٹ میں ہم اپنی اقدار کو اشتہار بنانے کا کام کرتے ہیں اور وہ بھی صرف ان جگہوں پر جہاں ہمیں کوئی گنجائش ملتی ہے۔ ابھی پاکستان میں اسلام پسندوں کے لیے کچھ گنجائش باقی ہے۔ جس دن پاکستانی ریاست نے سیکولر ہونے کا فیصلہ کر لیا، جس کا امکان بڑھتا جا رہا ہے، اس دن کوئی ہماری بات سننے کا بھی روادار نہیں ہو گا اور ہمیں اپنے سارے نعرے اور مواقف طاق نسیاں میں دھرنے پڑیں گے۔ دنیا میں ان پڑھ آدمی کو بھی اپنی اقدار ازبر ہوتی ہیں جس کا لازمی نتیجہ اس کا صاحب علم ہونا نہیں ہوتا۔ ہم اپنی اقدار کی آڑ میں سیکولر طبقے کو گالیاں دے کر یہ جنگ نہیں جیت سکتے، کیونکہ اقدار کی حفاظت کا پہلا مرحلہ علم ہے اور دوسرا تلوار۔ ہمیں خوش فہمی ہے کہ سیکولر طبقے سے ہمارا سابقہ صرف گوالمنڈی تک محدود ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔ یہاں تو ہم اپنے دو چار لڑکوں کو بلا کر انہیں سٹکنے پر مجبور کر دیتے ہیں، لیکن باہر عالمی مال روڈ پر تو ان کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہوئے ہیں، اس کا ہم کیا علاج تجویز فرماتے ہیں؟
    پاکستان میں سیکولر طبقے کی یہ بڑی مہربانی ہے کہ وہ طاقت، معیشت، کلچر اور تعلیم کے تمام وسائل پر قابض ہونے اور عالمی دھارے میں شامل اور اس سے جڑے ہونے کے باوجود ہم سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، باقی جگہوں پر تو وہ مذہبی آدمی سے بات کرنا ہی اپنی کسرشان سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سے بات اسی سطح پر شروع کی جائے جس پر وہ چاہتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی نااہلی اور عدم تحفظ کی نفسیات کی وجہ سے اس موقعے سے فائدہ نہیں اٹھا پائے۔ اوریا مقبول جان صاحب کے دیندار ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کسی علمی یا تہذیبی بصیرت کے حامل بھی ہیں، اور اس دینداری کی وجہ سے انہیں فتوے یا کاروکاری کا اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے۔ جس طرح ضیاء الحق کی اصلاحات سے ہم ایک اسلامی معاشرہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں، اسی طرح اوریا صاحب کی کوششوں سے ہم اسلامی فکر میں بھی اتنی ہی پیشرفت کر پائیں گے۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے ہاں سیکولر طبقہ اس طرح کا زہریلا اور قاتل نہیں ہے جس طرح کا مثلاً مصر، مراکش، تیونس، الجزائر، ترکی، ایران، وسطی ایشیا وغیرہ میں رہا ہے یا ہے۔ ہمارے ہاں سیکولر طبقے میں کشادگی کا ایک عنصر ہمیشہ موجود رہا ہے، جو مذہبی طبقے میں بالکل ہی غیرموجود ہے۔
    سیکولر طبقے سے ہمارا گلہ دوسری نوعیت کا ہے۔ ان کا رویہ مقامی کلچر اور مذہب کی طرف بالکل ویسا ہی تحقیر کا ہے جو یہاں استعماری گوروں کا تھا۔ بدقسمتی سے کچھ مخصوص ثقافتی حالات کی وجہ سے، جس میں تعلیم سرفہرست ہے، یہ ان کی نفسیات کا حصہ ہے، علمی موقف نہیں ہے۔ افسوس کہ اس تحقیر میں بعض اوقات اپنے ملک، کلچر اور یہاں کی روایات سے بے وفائی کا رنگ بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ ان کے اپنے درست ہونے کی واحد دلیل ان کا عالمی طاقت اور سرمائے سے جڑے ہونا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنی جدید تعلیم اور جدید ثقافتی شناخت کے باعث مغرب سے کبریت احمر ہاتھ لگ گئی ہے جو یہاں کے سارے مسائل کا حل ہے، جبکہ اس کبریت احمر کا وہاں جو ملیدہ بنا ہوا ہے اس کی طرف وہ کوئی دھیان نہیں دیتے۔ سیکولر طبقے نے وسائل کے باوجود یہاں کے خاص ثقافتی، تاریخی اور مذہبی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی بڑی فکر کی طرف بھی کبھی کوئی پیشرفت نہیں کی، اور اپنی بہتر سماجی اور معاشی پوزیشن کی آڑ لے کر غیر سنجیدہ بحثوں سے اہل وطن کا ناطقہ بند کیے رکھتے ہیں۔ وہ ملک میں جن سیاسی، معاشی اور ریاستی اداروں پر مکمل طور پر قابض ہیں ان کی اصلاح اور ان کو عوام دوست بنانے کی بھی وہ کبھی بات نہیں کرتے۔ اپنی نادانی کی وجہ سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آئین اور قانون کی چند ایک ایسی شقیں جو مذہبی محتویٰ کی حامل ہیں، ہماری ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے ریاست کے پورے استعماری ڈھانچے کو کبھی موضوع بنانے کی بات نہیں کی۔ وہ جلب منفعت اور لوٹ مار کے لیے ریاست کے سارے ذرائع کو استعمال کر کے اپنی معاشی حالت بہتر بنانے اور وسائل بیرون ملک منتقل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی معلوماتی پوزیشن مضبوط ہو لیکن ان کی اخلاقی پوزیشن خاصی افسوسناک ہے۔
    یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ عوام دوستی پر سیکولر اور مذہبی طبقہ بالکل ایک جیسی سیاسی اور نام نہاد علمی پوزیشن رکھتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے سیکولرزم اور مذہبی تعبیرات سے عوام کو کوئی سکھ یا فائدہ ملنے والا نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ سیکولر اور مذہبی طبقات کی ریاست کی بحث میں حد درجہ اقتصاری اور بیمارانہ دلچسپی ہے۔ ایک کہتا ہے کہ ریاست سیکولر ہوتی ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ مذہبی ہوتی ہے۔ بس یہ ہے ان کی بحث۔ کیا ریاست قومی ترقی، عوام کی معاشری بہتری، عدلِ اجتماعی، انسان کی آزادی اور انصاف کی فراہمی میں بھی کوئی معنی یا رول رکھتی ہے یا نہیں، یہ ان سب کی بحث سے خارج ہے بلکہ اگر کوئی یہ سوال اٹھائے تو اس کے خلاف یہ دونوں متحد ہو جاتے ہیں۔ دونوں طبقات یہ بھول گئے ہیں کہ عدل اجتماعی کا آدرش سیکولر یا مذہبی میں منقسم نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا واحد مطلب معاشی استحصال کا خاتمہ اور معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے، اور یہ بات دونوں طبقات کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ سیکولر طبقہ تخلیق پاکستان سے اب تک حکمران ہے، اور اگر وہ اسے ایک ترقی یافتہ ملک اور منصفانہ معاشرہ بنانے ہی کا ارادہ کر لیتے تو یہ بحث ویسے ہی ختم ہو جاتی۔

    (۲) تاریخی اور فکری تناظر
    ہمارے ہاں اسلام اور سیکولرزم (ہم یہاں ناموں کی تفصیل میں نہیں جاتے) کی بحث ۱۸۵۷ سے پہلے کی ہے اور اس جنگ کے بعد اس بحث کا فیصلہ مذہبی طبقے کے خلاف اور جدید طبقے کے حق میں ہو گیا۔ اب تک تاریخ سیکولر یا نیم سیکولر طبقے کے ہمرکاب ہے، اور مذہبی طبقہ صرف ردعمل میں ہے۔ جدید تعلیم، نئی ثقافت اور خاص طور پر جدید معاشی رشتوں کی وجہ سے زمین مذہبی طبقے کے پیروں تلے سے مسلسل نکل رہی ہے اور اسے اپنے موقف کا دفاع کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مذہبی طبقے کے موقف اور کوشش کے علی الرغم ہمارا معاشرہ سیکولر بننے کا عمل تقریباً مکمل کر چکا ہے، اور مذہبی طبقہ اس عمل میں اب شکست اور پسپائی سے دوچار ہے۔ اس عمل کے محرک تمام سیاسی، معاشی اور ثقافتی مؤثرات سیکولر طبقے کے پاس ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور نئی معاشی قوتوں کی وجہ سے بھی اس عمل میں بہت تیزی آ گئی ہے اور مذہبی طبقے اور مذہب سے لگاؤ رکھنے والوں کی جگہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر آدمی حالت انکار میں نہ ہو تو تاریخ کے سفر کی سمت صاف ظاہر ہے۔
    اگر بات کو بالکل سادہ بنایا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ سیکولر طبقے کا نعرہ ”ترقی“ رہا ہے اور مذہبی طبقے کا نعرہ مذہب کا ”دفاع“ رہا ہے۔ ان دونوں نعروں کا اظہار ایک مشترک سیاسی دائرے میں ہوتا ہے، جس سے ایک جدلیاتی فضا کا التباس پیدا ہو جاتا ہے۔ سیاسی موقف کا کوئی بھی تعلق علم، اخلاق وغیرہ سے نہیں ہوتا، صرف طاقت اور سرمائے سے ہوتا ہے۔ سیکولر طبقے کی ”ترقی“ کا مطلب صرف ان کی اپنی ترقی ہے اور مذہبی طبقے کے ”دفاع“ کا مطلب بھی صرف ان کا اپنا دفاع ہے۔ اس ”ترقی“ اور ”دفاع“ میں دونوں طبقات کو ریاست کی مرکزی اہمیت کا اندازہ ہے۔ علم اور بحث کے سارے قلابے اس لیے ملائے جاتے ہیں کہ ریاست کے طاقتی اور معاشی وسائل تک رسائی حاصل ہو جائے۔ ان دونوں کی باہمی جنگ سے اب تک جتنی ”ترقی“ ہوئی ہے، اور اسلام کا جس قدر ”دفاع“ ہوا ہے وہ تو اب نوشتۂ دیوار ہے، اس کے لیے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ سیکولر طبقہ اہل مذہب کو ”ترقی“ کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتا ہے اور مذہبی طبقہ سیکولرسٹوں کو ”دفاع“ میں رکاوٹ خیال کرتا ہے۔ لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کا باہمی نزاع بھی مستقل ہے اور مفادات پر مفاہمت بھی مستقل ہے۔ سیکولرسٹوں کی وجہ سے عوام کے حصے میں جتنی ”ترقی“ آئی ہے اور مذہبی لوگوں کی وجہ سے عوام میں دینداری کو جو فروغ حاصل ہوا ہے وہ تو سب کو نظر آ رہا ہے۔ عوام کے حصے میں صرف تماش بینی ہی آتی ہے۔ اگر سماجی، سیاسی اور معاشی تجزیے کے دیانتدارانہ اسالیب کو اختیار کیا جائے تو صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس ”ترقی“ اور ”دفاع“ کی قیمت عوام نے خاک و خون سے ادا کی ہے۔
    اسلام سے محبت رکھنے اور اسے ابدی سرچشمۂ ہدایت ماننے والوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی افسوسناک ہے۔ ہمارے خیال میں اس صورت حال کی بڑی وجہ ہمارے ہاں علوم کی موت ہے، جس سے نہ ملکی ترقی ہو پاتی ہے اور نہ اسلام کا دفاع ہو پاتا ہے کیونکہ ملکی ترقی اور مذہب کے دفاع کے لیے واحد ضروری وسیلہ علم ہی ہے۔ ہمارے ہاں علوم کی موت کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک آقائے سرسید کا استعماری علم الکلام ہے اور دوسری وجہ ہمارے ہاں بنیادی عقائد پر ہونے والا وہ داخلی مناقشہ ہے جو اٹھارھویں صدی کے اواخر میں شروع ہوا اور بیسویں صدی کے نصف اول میں بے نتیجہ ختم ہو گیا۔ ہماری کلاسیکل پوزیشن ہمیشہ یہ رہی ہے کہ علم، عقیدے کی فرع ہے اور عقیدے کی بحث میں فتوی یا اخلاقی مواعظ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ متقدمین میں اشاعرہ اور معتزلہ کی بحث کا یہی بنیادی نکتہ ہے۔ سیکولرسٹوں کے ساتھ بھی بحث کا اسلوب وہی ہو گا جو معتزلہ کے ساتھ تھا، کہ دلیل اور رد دلیل سے بات کی جائے گی، اور فتوی اور اخلاقی مواعظ سے کام نہیں لیا جائے گا۔ سیکولرسٹوں سے ہونے والی بحث میں ہم کوئی علمی بات تو نہیں کرتے، بس فتوی اور مواعظ جاری کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں سیکولرسٹ خاموش ہو جاتے ہیں۔ لیکن جدید تاریخ کے مؤثرات تو اس بحث کے تابع نہیں ہیں، اور وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں، اور انہوں نے ہمارے مذہبی معاشرے کو اندر سے بالکل کھوکھلا کر دیا ہے۔ سیکولرسٹوں کی بات رک جانے سے معاشرے کے سیکولر بننے کا عمل تو نہیں رک پاتا۔ اس صورت حال کو مذہبی طبقہ اپنی فتح کا اعلامیہ سمجھتا ہے اور اسے معلوم نہیں ہو رہا کہ اس کی جگہ اور گنجائش کس قدر کم ہو گئی ہے۔ یہ عمل صرف ریاست کی سطح پر واقع نہیں ہو رہا، بلکہ معاشرے کی ہر سطح پر بھی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ کوئی قانونی شق تو ہم مظاہرہ وغیرہ کر کے بچا سکتے ہیں، جو ضروری بھی ہے، لیکن معاشرہ جس نہایت بنیادی تبدیلی سے گزر رہا ہے، اور جس طرح سے دینی اقدار اجنبی ہوتی جا رہی ہیں، کیا ان کی بات کرنا دین کے دفاع میں شامل نہیں ہے؟ تاریخی مؤثرات کو وعظ و نصیحت سے لگام نہیں دی جا سکتی۔ اس کام کے لیے علمی اور فکری تجزیے اور ان کی بنیاد پر بننے والی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے، اور ہر قدم پر مورچہ لگانا پڑتا ہے، لیکن ہم اس دفاع کی بات نہیں کرتے۔ تحکم، ادعایت، مذہبی بلیک میل اور مانعاتی ہتھکنڈوں سے لوگوں کو مذہب سے دور تو کیا جا سکتا ہے، قریب نہیں لایا جا سکتا۔ مذہبی دفاع اور بقا کے لیے صرف سیاسی وسائل پر مرتکز رہنا اور دیگر تمام تہذیبی وسائل کو سیکولرزم کے سپرد کر دینے سے ہم دینی دفاع کی کون سی جنگ لڑ رہے ہیں؟ ہمیں تھوڑی دیر رک کر دیانتداری سے اپنے حالات اور احوال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

  • بہت سی کائناتوں کا نظریہ – ادریس آزاد

    بہت سی کائناتوں کا نظریہ – ادریس آزاد

    12983425_10206383337009150_3234894972904837408_o
    جب قدیم انسان رات کے آسمان کو دیکھتے تھے تو سوچتے تھے کہ ساری کائنات صرف انہی کے گِرد گھوم رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خیال ایک لطیفہ محسوس ہونے لگا۔ اور ہم انسانوں نے جان لیا کہ ہم ایک سیّارے پر آباد ہیں جو ایک ستارے یعنی سُورج کے گرد گھوم رہا ہے۔ آج ہمیں یہ پتہ ہے کہ ہمارا سولر سسٹم، ہماری کہکشاں کے بہت دور دراز کے ایک کونے میں واقع ہے۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں جیسی اربوں کہکشائیں اور بھی ہیں۔

    اب ہم جو یہ سمجھتے ہیں کہ دکھائی دینے والی تمام کائنات ہی کُل کائنات ہے، کہیں ہم قدیم انسان کی طرح تو نہیں سوچ رہے؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ’’ملٹی ورس‘‘ میں ہوں یعنی ہماری کائنات محض ایک چھوٹا سا، دُور دراز کا کوئی حصہ ہو کسی بہت بڑی ’’ملٹی ورس‘‘ کا اور سوسال بعد ہمیں پتہ چلے کہ ہماری کُل کائنات تو فقط ایک ذرّے سے بھی کم حیثیت کی مالک تھی تو آج کی ساری فلکیات کتنی حقیر سی لگے گی، جیسے قدیم انسان کی فلکیات، آج ہمیں حقیر لگتی ہے جو یہ سوچتا تھا کہ ساری کائنات اس کے گرد گھوم رہی ہے۔

    میساچیوسِٹس (Massachusetts ) اِنسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر، انفلیشن تھیوری کے خالق، ڈاکٹر ایلن گُوتھ (Dr Alan Guth) کا کہنا ہے کہ،

    ’’ملٹی ورس ایک عام سا تصور ہے ۔ یہ کہنا غلط نہیں، کہ ہوسکتاہے ہماری کائنات کوئی منفرد شئے نہ ہو۔ ہوسکتاہے کائناتیں بہت زیادہ ہوں‘‘۔

    سٹینڈفورڈ اِنسٹیٹیوٹ فار تھیوریٹکل فزکس کے ڈائریکٹر معروف ماہر ِ طبیعات لیونارڈ سسکنڈ (Leonard Susskind) کے بقول،

    ’’ملٹی ورس کا تصور، محض خیالی طور پر ترقی نہیں پارہا بلکہ یہ تصور خالص تجربی فزکس اور تھیوریٹکل فزکس کے ملاپ سے پیدا ہوا ہے اور مسلسل پَنپ رہا ہے‘‘

    ملٹی ورس کے کئی نظریات اب تک متعارف ہوچکے ہیں۔ جن میں ’’کاسمولوجیکل ویو‘‘، ’’پاکٹ یونیورسز‘‘، ’’سٹرنگ تھیوری کی ملٹی ورس‘‘ اور کوانٹم کی ’’مینی ورلڈز‘‘ تھیوری خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں۔

    ۱۔ کاسمولوجیکل ویو

    غالباً سسکنڈ نے اِسی وجہ سے کہا کہ ملٹی ورس کا نظریہ ’’تجربی فزکس‘‘ کی جانب سے بھی آرہاہے۔ کیونکہ پہلا نظریہ یہ ہے کہ ہم جہاں تک دیکھ سکتے ہیں، فقط وہاں تک ہی دیکھ پاتے ہیں۔ ہم آئندہ بھی جہاں تک دیکھ سکیں گے فقط وہاں تک ہی دیکھ پائیں گے۔ زمین تک جس کسی سیارے ستارے یا کہکشاں کی روشنی پہنچ رہی ہے اور پہنچ سکتی ہے ، وہیں تک ہمارے دیکھنے کی حدود ہیں۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ہماری کائنات کا ایک سِرا بِگ بینگ ہے جو آج سے تیرہ اعشاریہ آٹھ (13.8) بلین سال پہلے پیش آنے والا ایک حادثہ ہے۔ چونکہ کائنات پھیل رہی ہے اور اس نے خلا کو بہت دور دور تک پھیلا دیا ہے اس لیے اب ہم بیالیس بلین سال دُور تک دیکھنے کی صلاحیت کے سائنسی طور پر مالک ہوچکے ہیں۔

    فی زمانہ ماہرینِ طبیعات نظر آنے والی کائنات کو ’’آبزرویبل یونیورس‘‘ یعنی قابل ِ مشاہدہ کائنات کہہ کر پکارتے ہیں۔ قابل ِ مشاہدہ کائنات کو ’’ہبل ریڈی اَس‘‘ بھی کہا جاتاہے۔ ایسا کہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب سب جانتے ہیں کہ تمام کہکشائیں بہت زیادہ اونچے درجے کی رفتار کے ساتھ ایک دوسرے سے دور جارہی ہیں۔ ان تمام کہکشاؤں کی گنتی کا جو اندازہ لگایا گیا تھا کہ ہماری کائنات میں ایک کھرب کہکشائیں ہیں، اب وہ اندازہ بہت پرانا ہوچکاہے۔ اب فلکیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی کہکشائیں بھی ہیں جن کا ہم کبھی مشاہدہ نہیں کرسکتے کیونکہ کائنات بہت زیادہ اونچے درجے کی رفتار کے ساتھ باہر کی طرف پھیل رہی ہے۔ قابل ِ مشاہدہ کائنات سے پَرے کیا ہے، یہ ہم ابھی نہیں جان سکتے ہیں لیکن اس بات کے نناوے اعشاریہ نناوے فیصد چانسز ہیں کہ قابل ِ مشاہدہ کائنات سے پَرے اور کائناتیں ہیں اور بےشمار کائناتیں ہیں۔ اور یہ سب کائناتیں جو ہبل ریڈی اَس سے باہر ہیں، اپنے اپنے شاہد کے لیے اپنے اپنے الگ الگ ’’ہبل ریڈی اَسز‘‘ کی بھی حامل ہیں۔ فی زمانہ دنیا میں ایک بھی فزکس کا ماہر ایسا نہیں پایا جاتا جو یہ سمجھتاہوں کہ ہماری کائنات اپنے آخری کناروں پر ختم ہوجاتی ہے۔

    ۲۔ پاکٹ یونیورسز

    یہ دوسرا نظریہ ہے جس میں سب سے پہلے ’’انفلیشن تھیوری‘‘ کو بیان کیا جاتاہے جو ایلن گُوتھ کی دریافت ہے اور جسے فزکس درست نظریہ تسلیم کرچکی ہے۔ سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ’’اینڈری لِنڈے‘‘ نے اس تھیوری پر مزید کام کیا اور اسے ایک طرح سے نئی جہات فراہم کیں۔ اس تھیوری کے مطابق ہماری کائنات فقط ایک سیکنڈ کے ٹریلینتھ آف دی ٹریلینتھ آف دی ٹریلینتھویں حصے میں پھیل کر اتنی بڑی ہوگئی کہ تمام تر قابل ِ مشاہدہ کائنات، اپنے تمام تر مادہ اور توانائی سمیت وجود میں آگئی۔ اس نظریہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ’’انفلیشن‘‘ ہرکہیں، کسی ایک ہی وقت میں رُک تو نہ گئی ہوگی۔ سو جس کائنات کو ہم دیکھتے ہیں یہ ’’انفلیشن کے انڈے‘‘ سے نکلنے والا فقط ایک بچہ ہے۔ لیکن اِسی انفلیشن سے ، کہیں اور، کئی ’’بَبل یونیورسز‘‘ یا ’’پاکٹ یونیورسز‘‘ بھی تخلیق ہوئی ہونگی۔ خود ایلن گوتھ کے الفاظ ہیں کہ،

    ’’ہم نہیں جانتے کہ انفلیشن کیسے شروع ہوئی۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ انفلیشن صرف ایک بار واقع ہوئی یا بار بار بھی واقع ہوئی ہوگی۔ لیکن فرض کریں کہ انفلیشن فقط ایک ہی بارپیش آئی ہو تب بھی یہ لاتعداد ’’پاکٹ یونیورسز‘‘ پیدا کرنے کا باعث ہوسکتی ہے‘‘۔

    یہ دیگر کائناتیں کبھی ہم بھی دیکھ پائینگے؟ اس سوال کا جواب دینا ابھی ممکن ہیں۔ التبہ ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسی کائناتوں میں فزکس کے قوانین ہمارے قوانین سے بالکل مختلف ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے وہاں کشش ثقل نہ ہو۔ ممکن ہے وہاں کیمیائی عناصر کوئی اور ہوں یا ان کی ساخت ہی سرے سے ایسی ہو کہ انہیں مادہ نہ کہاجاسکے۔ ضروری نہیں کہ ان میں ستارے ہوں اور اگر ہوں تو کیا معلوم وہ کیسے ہوں۔

    ۳۔ سٹرنگ تھیوری کی کائناتیں

    سٹرنگ تھیوری بنیادی طور پر تھیوری آف جنرل ریلیٹوٹی اور کوانٹم میکانیکس کو یکجا کرنے کی کوشش کا نام ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سٹرنگ تھیوری کے مطابق ایسی بہت سی باتیں جو تھیوری تجویز کرتی ہے اور جو ریاضیاتی طور پر درست ہیں جیسا کہ مثلاً ’سپیس کی دس ڈائمینشنز‘ کی بات ، تو ایسی باتیں جو ہم اپنی قابلِ مشاہدہ کائنات میں نہیں دیکھ پارہے عین ممکن ہے کہ دوسری کائناتوں میں واقع ہورہی ہوں۔ سٹرنگ تھیوری ملٹی ورس کے نظریہ کی سب سے بڑی حامی ہے۔ سٹرنگ تھیوری کے مطابق ہم ایک ملٹی ورس کا حصہ ہیں جہاں فزکس کے مختلف قوانین ایک دوسرے کے پہلو میں وجود رکھتے ہوئے یا مخالف ہوتے بھی قائم رہتے ہیں۔ اس خیال کو ’’اینتھروپک سیلیکشن‘‘ کہا جاتاہے۔ اینتھروپک پرنسپل یہ ہے کہ کسی بھی کائنات کو پہنچاننے کا طریقہ ہمیشہ وہ ہونا چاہیے جو شعوری طور پر قابل ِ فہم ہو اور ذہانت کو اپیل کرتاہو۔ اسی پرنسپل کے مطابق ہم کہتے ہیں کہ ہماری کائنات انسانوں کے لیے بطور خاص مناسب ترین کائنات ہے۔ (سٹرنگ تھیوری کی ملٹی ورس پر میں نے پہلے کافی لکھاہے)۔

    ۴۔ مینی ورلڈ تھیوری

    مینی ورلڈ تھیوری سب سے دلچسپ ہے۔ یہ تھیوری براہِ راست کوانٹم فزکس کی جانب سے وارد ہوئی ہے۔ اس تھیوری کے مطابق دوسری کائناتوں میں فزکس کے قوانین ہم سے مختلف نہیں ہیں۔ دوسری کائناتیں دراصل ہم سے فاصلوں کے اعتبار سے الگ نہیں ہیں بلکہ ٹائم کے اعتبار سے الگ ہیں۔ یہ کوائنٹم امکانات کی بنا پر تشکیل پانے والی تھیوری ہے۔ اس کے مطابق ہر وہ امکان جو ہم سوچ سکتے ہیں، کسی دوسری کائنات میں ممکن ہے۔ اسے ملٹی ٹائم لائنز، یا پیرالل رئیلٹیز بھی کہا جاتاہے۔ یہ تھیوری بنیادی طور پر کوانٹم فزکس کے پرنسپل آف اَن سرٹینٹی کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ بقول ایل گُوتھ،

    ’’کوانٹم میکانکس ’’پری ڈِکٹِو‘‘ تھیوری نہیں ہے بلکہ یہ ’’پرابیبلسٹک‘‘ تھیوری ہے۔ مثال کے طور پر ایک فوٹان کسی پولرائزر پر، اینگل آف پولرائزیشن سے پینتالیس ڈگری کا زاویہ بنا کر گزرتاہے تو اس بات کے ففٹی ففٹی چانسز ہیں کہ وہ پولرائزز سے اسی زاویے کے ساتھ گزرے گا یا نہیں؟ کوئی نہیں بتاسکتا۔ چنانچہ کوانٹم میکانیکس کی ایک تشریح جو میرے نزدیک کافی مناسب ہے اس کے مطابق جب فوٹان پولرائزر کو پینتالیس ڈگری پر چھوتاہے تو دراصل دونوں صورتیں بیک وقت پیش آتی ہیں یعنی وہ پینتالیس ڈگری پر گزرا بھی اور نہیں بھی گزرا‘‘

    مینی ورلڈ تھیوری میں پوری کائنات کا وجود ایسے ہے جیسے ایک فوٹان کا وجود ہے۔ ایک فوٹان ہزارہا جگہ پر بیک وقت ہونے کے ثبوت دیتاہے۔ اور جس طرح فوٹان ہر ممکنہ راستے سے بیک وقت گزرتاہے بعینہ اسی طرح ہرممکن کائنات وجود رکھتی ہے۔ کیونکہ کائنات میں مادے اور توانائی کے تمام تر ذرّات اسی کوانٹم نیچر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

  • پسند کی شادی ، اسلامی احکامات اور غیرت کا معاملہ – کاشف حفیظ صدیقی

    پسند کی شادی ، اسلامی احکامات اور غیرت کا معاملہ – کاشف حفیظ صدیقی

    10953200_10152705232588341_7738640678239656909_nجس طرح آپ کو میری رائے سے اختلاف ہے ، مجھے اجازت دیں کہ یہ میرا حق ہے کہ میں آپ کی رائے سے بھی اختلاف کروں ۔ رائے سے اختلاف کا مطلب ذاتی دشمنی نہیں ، ہاں مکالمہ ضرور ہونا چاہیے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مجھے کہا جائے کہ تم ایک بند اور تنگ ذہن کے آدمی ہو اور میں ایک روشن خیال ۔ میں آپ کی رائے سے اختلاف رکھتا ہوں مگر اس کا احترام کرتا ہوں اور آپ سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں

    کچھ معاملات پر میرے کچھ محبت رکھنے والے دوست میری درد دل کے ساتھ اصلاح چاہتے ہیں مگر میں ہوں کوڑھ مغز ، کچھ سمجھ میں دیر سے آتا ہے ۔ مجھے کہا گیا ہے کہ حامد میر کا پسند کی شادی پر کالم پڑھوں اورکھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی رائے سے رجوع کر لوں ۔ مگر اس کالم کو پڑھنے کے باوجود میں ایسا کرنے سے قاصر ہوں. سب سے پہلے تو حامد میر نے اپنے کالم میں ایک بےباک تبصرہ یہ کیا ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ نے نبی مہربان ﷺ سے پسند کی شادی کی تھی ۔ ذرا ٹھہریے الفاظ کے چنائو میں احتیاط برتیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم ﷺ مردانہ وجاہت کا نمونہ تھے بلکہ حسن یوسف ؑ سے بڑھ کر حسین تھے۔ مگر کیا حضرت خدیجہ ؓ نے ان میں مردانہ وجاہت دیکھی یا نبی کریم ﷺ کی امانت داری اور دیانت داری سے متاثر ہوئیں۔ ساتھ میں عرض یہ بھی ہے کہ عرف عام میں متاثر ہونا ایک علیحدہ بات ہے اور پسند اور عشق ایک جدا چیز ہے۔ یہ شادی کسی بازاری عشق اور عام معاشرتی پسند سے بڑھ کر امانت داری اور تقویٰ کی بنیاد کسی سعید روح کی ترجیح بنی۔ بات اتنی آسان نہیں جتنی جرات سے کہہ دی گئی ۔ کسی خبر کی رپورٹنگ اور روئے زمین کی سب سے مقدم ترین ہستی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے ادب کا دامن ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے

    اسلام میں عورت کو مکمل آزادی دی گئی کہ وہ کسی رشتے سے کسی بھی بنیاد پہ انکار کر دے ۔ ابودائود، نسائی اور ترمذی کی روایت مشکوۃ شریف کے باب ، باب الولی فی النکاح، میں موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کنواری لڑکی سے نکاح کرتے وقت اس سے پوچھا جائے، اگر خاموشی اختیار کرے تو یہی اس کا اذن ہے اور اگر انکار کر دیا تو اس پر کوئی جبر نہیں۔ ابو داؤد کی ہی ایک اور روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے باپ نے میرا نکاح جبرا کر دیا ہے ، میں راضی نہیں ہوں ۔ آپ ﷺ نے اس کو اختیار دے دیا ۔ نبی مہربان ﷺ کے اس دیے گئے حق کا کون ظالم انکار کر رہا ہے ۔ نکاح کے وقت اس کو طلاق کا حق لینے کا بھی اختیار ہے اور مہرلڑکی کا ضامن بنایا گیا.

    مگر یاد رکھنا چاہیے کی اسلامی معاشرت کی بنیاد شرم اور حیا پر ہے (جو مرد اور عورت دونوں کے لیے لازمی ہے) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حیا اور ایمان ، ہمیشہ اکھٹے ہی رہتے ہیں ۔ جب ان میں سے ایک کو اٹھا لیا جائے تو دوسراخود بخود اٹھ جاتا ہے ۔ (مشکوۃ) سورۃ النور میں “غص بصر” یعنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا اور حدیث ﷺ میں بتایا گیا کہ پہلی نظر تمھاری اور دوسری شیطان کی ہوتی ہے ۔ یہ بھی بیان کیا گیا کہ غیر مرد اور غیرعورت کے درمیان تیسرا ہمیشہ شیطان ہی ہوتا ہے ۔ مشکوۃ ۔ سورۃ النور میں یہ بھی ہدایت کی گئی کہ غیر محرم لوگوں سے اونچی آواز میں بات مت کرو. سورۃ النور میں ہی اسلامی معاشرت میں فواحش کی روک تھام پر زور دیا گیا اور اس کو پھیلانے والوں پہ وعید کی گئی اور مرد و خواتین کے آزادانہ اختلاط کو ناپسند کیا گیا. ساتھ ہی پورے قرآن میں جہاں جہاں اطیع اللہ و اطیع رسول ﷺ کی بات کی گئی وہاں فورا بعد اطاعت والدین کا حکم دیا گیا ۔ ماں باپ کی اطاعت کی حد درجہ اہمیت رکھی گئی اور اولاد کو اپنے والدین کی اطاعت کا حکم دیا گیا چاہے وہ کتنی ہی ناگوار ہو الا یہ کہ وہ اللہ کی معصیت پر مبنی ہو کہ وہاں اطاعت لازمی نہیں. نکاح کے لیے ولی کو لازمی کیا گیا۔ احمد، ترمذی ، ماجہ اور دارمی میں سیدہ عائشہ ؓ سے مروی یہ حدیث موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے

    اقبال نے کہا کہ “خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ﷺ”

    بھائی جان، میرے نزدیک (ہو سکتا ہے کہ آپ کے نزدیک نہ ہو) اسلامی معاشرے میں شرم اور حیا لازمی عنصرہے اور اس کے ساتھ والدین کی اطاعت ہمارا دینی فریضہ ۔ والدین کو کہا گیا کہ اپنے بچوں کی تربیت دینی اصولوں پہ کرو اور شرم و حیا کا احساس اور پاس ان میں جاں گزیں کرو

    اسلامی سوسائٹی میں مغربی طرز کے عشق و عاشقی کی کوئی گنجائش نہیں. ہاں کسی کو کوئی پسند آسکتا ہے ۔اس لیے نکاح کے حوالے سے اس کا ایک طریق کار ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود ہے ۔ جو نبی کریم ﷺ کے زمانے کے معاشرے میں بھی موجود تھا ۔ اسی طریقے کو اپنایا جائے اسی میں برکت اور خیر ہے.

    گھر سے فرار، والدین سے بغاوت، عشق و عاشقی جو میرے نزدیک بے راہ روی کی علاوہ کچھ اور نہیں ، کی قطعا کوئی گنجائش نہیں۔ کسی لڑکی کی اپنے والد کی ترجیح سے انکار کی خبر دینے والے ایسے کتنے کیسسز نبی کریم ﷺ کے زمانے کے لا کر دکھا سکتے ہیں ، جہاں عشق و عاشقی کا جذبہ کار فرما ہو ۔جہاں ولی کے بغیر گھر سے باہر بھاگ کر شادی کر لی گئی ہو؟
    بلند مقاصد کی راہ پہ چلنے والے اس دنیا سے باہر اور بلند ہوتے ہیں ۔
    ؁ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے
    جتنا اس فلمی عشق و عاشقی کو سپورٹ مغربی فکر کے زیر اثر رہ کر کیا جائے گا، ہمارے معاشرے میں المیہ اتنے ہی زیادہ رپورٹ ہوں گے. غیرت کے نام پر قتل ہو یا نافرمانی کے نام پہ (ان دو چیزوں کو بھی خلط ملط کر دیا جاتا ہے) ناقابل قبول ، ناقابل معافی اور ناقابل برداشت ہیں ۔ اس کا کوئی تعلق دین سے نہیں ۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا. مگر ہم کو کہا جائے کہ عاصمہ جہانگیر جن کا نعرہ تھا “میں تو ناچوں گی، میں تو گائوں گی” ۔ میرے لیے قابل تقلید ہیں تو میں معذرت چاہتا ہوں

    اسلامی معاشرت کی بنیاد اللہ کا خوف ، اسوہ رسول ﷺ اور تعلیمات رسول ﷺ پہ کامل ایمان ، شرم و حیا ، والدین کی اطاعت اور حسن اخلاق مع ایثار اور وفاداری پہ قائم ہے ۔ اس میں سے کسی ایک چیز کو بھی ہلایا جائے گا تو عمارت کا انہدام ہوگا ۔ جس کی کاوش آج کا میڈیا ور اس کے ایجنٹ کر رہے ہیں

    بس یہ ہمیں منظور نہیں ۔ میں زہر ہلاہل و کبھی کہہ نہ سکا قند

  • تصوف ؛ کس کو صحیح سمجھیں؟ عمران زاہد

    تصوف ؛ کس کو صحیح سمجھیں؟ عمران زاہد

    10155883_10154733532529478_5886019418085289879_nتصوف سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف منارہ شریف چکوال تھا۔ 1994 میں کالج کے امتحانات سے فارغ ہو کر مجھے رمضان میں چند دن وہاں گزارنے کا موقعہ ملا تھا ۔۔۔۔ پاس انفاس کے ذکر کا طریقہ سیکھا تھا ۔۔۔ طویل القامت مولانا اکرم اعوان کے خطابات سنے تھے ۔۔۔ حاضر سروس جرنیلوں کو مولانا سے عقیدت سے ملتے دیکھا تھا ۔۔۔ وہیں مولانا اللہ یار خان چکڑالوی مرحوم کے متعلق پتہ چلا تھا ۔۔۔ ان کے صوفی سلسلے سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کی باقی سلاسل سے امتیازی خصوصیات کا پتہ چلا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچی بات ہے میں خاصا متاثر ہوا تھا ۔۔۔۔
    :
    منارہ جانے سے پہلے صرف تصوف کی صرف اتنی خبر تھی کہ ہمارے ہمسائیوں میں ، میرے دوست ارشد کے والد صوفی اکرم صاحب ہوتے تھے جو نہایت عبادت گزار تھے ۔۔۔ ایک دن کہنے لگے کہ رام اور رحیم ایک ہی ہستی کے دو نام ہے ۔۔ ہمیں تب اتنا شعور نہیں ہوتا تھا ۔۔۔
    :
    اسی طرح دادی اماں سے پتہ چلا تھا کہ والد صاحب بچپن میں گاؤں کے ایک بزرگ جنہیں صوبیدار صاحب کہا جاتا تھا سے بیعت تھے۔ صوبیدار صاحب ابوکو نماز کے وقت مسجد لیجانے آتے تھے اور ابو ایک ہاتھ میں کتاب پڑھتے رہتے تھے اور صوبیدار صاحب انہیں سہارے سے مسجد لیجاتے تھے ۔۔۔ تایا اختر ، جو ابو کو بچپن کے دوست ہیں، بھی ابو کے ساتھ ہی صوبیدار صاحب سے بیعت ہوئے تھے۔ وہ اکثر ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ صوبیدار صاحب نے ابو کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ اختر کو لازمی نماز پڑھوا دیا کریں ۔۔۔ اور ابو انہیں ہمیشہ نماز کا کہا کرتے تھے ۔۔۔آج بھی تایا جان سے نشست ہوتی ہے تو بہت سے واقعات سناتے ہیں ۔۔ ابو اپنی بیعت کا کبھی کبھی ذکر ضرور کیا کرتے تھے لیکن شاذونادر ۔۔۔
    خیر۔۔۔۔
    :
    منارہ جانے کے اگلے ہی سال جب شہاب نامہ پڑھا تو پتہ چلا کہ شہاب صاحب بھی ایک صوفی تھے ۔۔۔ تصوف کے ضمن میں انہوں نے اپنے روحانی تجربات کو کتاب کے آخری باب “چھوٹا منہ بڑی بات” میں تفصیل سے لکھ دیا تھا۔ میں اس سے بھی خاصا متاثر ہوا تھا۔۔ اس باب کی وضاحت میں ممتاز مفتی صاحب کو الکھ نگری لکھنی پڑی، جس میں انہوں نے شہاب صاحب کو خاصا مافوق الفطرت قسم کی ہستی بنا کر پیش کیا ہے۔
    :
    اسکے بعد تصوف اور صوفیا پہ خاصی کتب پڑھنے کو ملیں ۔۔۔ ایسے صوفیا سے ملنے کا اتفاق بھی ہوا ذکر اذکار کی محفلیں جماتے تھے ۔۔۔ اپنے مریدوں کی قلب ماہیت کر دیا کرتے تھے ۔۔۔ لوگوں کے خیالات اور حالات بدلتے ہوئے بھی دیکھے ۔۔۔ ان میں سے ایک تو کرنٹ مارنے والے بھی تھے ۔۔۔۔ میں ان سب سے دور دور ہی رہا ۔۔۔ کسی کے کہنے پر کبھی ان کی مجالس میں گیا لیکن مجھے یوں لگتا تھا کہ یہ لوگ شاید میری سوچیں اور خیالات پڑھنے پر قادر ہیں اور میں اپنی پرائیویسی میں کسی کو شامل نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔ لہٰذا ان کو دور سے سلام تھا۔ ہاں ان میں سے جس سے متاثر ہوا تھا وہ صوفی برکت علی لدھیانوی صاحب تھے ۔۔۔ اس کی وجہ ایک وجہ ان کی سادگی اور خدمت خلق ہے اور دوسری وجہ ہر خاص و عام کا ان کی طرف رجوع تھا۔ ان کے بارے میں پڑھنے کو بھی خاصا ملا۔
    :
    اشفاق احمد صاحب بھی اپنی تحریروں اور گفتگوؤں میں صوفیانہ رنگ لیے ہوئے تھے۔ ہم ان سے بھی متاثر تھے ۔۔۔ بابایحییٰ خان نے پیا رنگ کالا لکھی جو بظاہر ان کے ذاتی واقعات پہ مبنی لگتی ہے ۔۔۔ لیکن وہ واقعات اتنے محیر العقول ہیں کہ آپا بانو قدسیہ نے پیش لفظ میں ہی اسے فکشن قرار دے دیا ہے۔
    :
    عبداللہ بھٹی کے خود نوشت پڑھ کر ان کی چلہ کشی اور مجاہدوں کے بارے میں پتہ چلا اور اندازہ ہوا کہ وہ اپنے علم کو خدمت خلق کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔
    :
    خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے وظیفوں اور تعویزوں کی کتاب بھی زمانہ طالبعلمی میں پڑھی تھی ۔۔ لیکن ان اعمال کرنے کے لئے اجازت ایک خاص ذکر سے مشروط تھی وہ شادی کے بعد کیا۔ کئی لوگوں کو تعویز وغیرہ بنا کر بھی دیے تھے ۔۔۔ پتہ نہیں کسی کو فائدہ ہوا کہ نہیں۔
    :
    چھوٹے بڑے متفرق واقعات بہت سے ہیں ۔۔۔ مشرف دور کی امریکی چندے سے چلنے والی صوفی کونسل وغیرہ کا ذکر رہنے دیں۔
    :
    تصوف کے متعلق سب سے جامع رائے قدرت اللہ شہاب کی لگی جن کے بقول اصل چیز تو شریعت ہے ۔۔ تصوف شریعت کا کنڈرگارڈن ہے ۔۔۔ جو لوگ شریعت کی سیدھی اور خشک راہ پر چلنا دشوار پاتے ہیں انہیں تصوف کی پگڈنڈی کے ذریعے کھیل ہی کھیل میں شریعت کی شاہراہ پر ڈال دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔
    :
    پچھلے دنوں جاوید غامدی صاحب کا تصوف کے متعلق ایک لیکچر اور ایک ٹی وی مذاکرہ یوٹیوب پہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ لیکچر خاصا جوانی کی عمر کا تھا ۔۔ لیکن ٹی وی مذاکرہ کوئی زیادہ پرانا نہیں لگتا ۔۔۔ اس میں خورشید ندیم صاحب میزبان تھے اور چار مہمانوں میں سے غامدی صاحب کے علاوہ قابل ذکر شخصیت احمد جاوید صاحب کی تھی ۔۔۔۔۔۔
    :
    غامدی صاحب تصوف کو اسلام سے الگ ایک نیا دین گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک صوفیاء کرام کی تعلیمات دو پرتوں میں ہے۔۔۔ ایک عوام کے لئے جو کہ شریعت کے عین مطابق ہیں ۔۔۔ دوسری خواص اور خواص سے بھی آگے کے لوگوں کے لئے ۔۔۔ وہ سراسر قران و حدیث کے خلاف ہے۔۔۔ انہوں نے خاص طور پر توحید و رسالت پر صوفیا کے نظریات پیش کیے ہیں ۔۔۔ جو سن کر صاف لگتا ہے کہ واقعی یہ قران و حدیث سے صریحاً متصادم ہیں۔۔ ان نظریات کو کم از کم اسلام نہیں کہا جا سکتا, کوئی روحانی واردات ہو تو کہا نہیں جا سکتا ۔۔۔۔ انہوں نے مختلف صوفیا مثلاً ابن عربی، غزالی، شاہ ولی اللی، شاہ اسمعٰیل شہید کی تحریروں میں سے چن چن کر وہ اقتباسات پیش کیے جنہیں ایک عام مسلمان کبھی بھی قبول نہیں کر سکتا ۔۔۔ غامدی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ صوفیا کی کتب میں لکھا ہوا ہے کہ عام لوگوں کی توحید اور خاص لوگوں کی توحید مختلف ہے اور خاص لوگوں کی توحید کو عام لوگوں پر آشکار کرنا کفر ہے ۔۔۔ (وہی بات جو میاں محمد بخش نے کی تھی کہ خاصاں دی گل عاماں اندر نئیں مناسب کرنی ۔۔ مٹھی کھیر پکا محمد، تے کتیاں اگے دھرنی)۔۔۔ منصور حلاج کے اناالحق کا ذکر بھی کیا ۔۔۔ جس کو صوفیا کے بقول سرِّ ربانی فاش کرنے کے جرم میں سولی چڑھنا پڑا ۔۔۔۔ جوخواص کی توحید انہوں نے بتائی، اس میں اور شرک میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ قران میں بیان کردہ توحید تو فوراً سمجھ آ جاتی ہے لیکن صوفیاء کرام کی خواص کی توحید ایک چیستان ہے ۔۔۔ رسالت کے متعلق صوفیا کے خیال یہ ہے کہ تشریعی نبوت ختم ہو گئی لیکن مقام ِ نبوت تک رسائی آج بھی ممکن ہے۔اس مقام پر جا کر سالک براہ راست خدا سے رہنمائی لیتا ہے ۔۔ اس مقام پہ کسی شریعت کی ضرورت باقی رہتی ہے ۔۔ مرزا غلام احمد کی دعاوی بھی کچھ ایسے ہی تھے ۔۔ صوفیا کی تحریروں کے پیمانے پر دیکھا جائے تو وہ ایک صوفی تھا (نعوذ باللہ) ۔۔۔
    :
    حضرات ۔۔ غامدی صاحب نے جو اقتباسات پیش کیے وہ واقعی ہی اس طرح کے مفاہیم پہ مشتمل تھے جو میں نے اوپر شئیر کیے ۔۔ میں جتنا سمجھ سکا سلیس زبان میں شئیر کر دیا۔۔ نبوت کے بارے میں باتوں سے یاد آیا کہ یوسف کذاب بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتا تھا ۔۔۔عام مسلمان صوفیاء کی خواص کے لئے لکھی ہوئی کتب سے شاید اس لئےزیادہ واقف نہیں کہ ایک تو وہ فارسی یا عربی میں ہیں ۔۔ اور دوسرا وہ عوام کے لکھی ہوئی کتب سے اتنے مرعوب ہو چکے ہوتے ہیں کہ خواص کے لئے لکھی ہوئی کتب میں لکھی ہوئی باتوں کو سر جھکا کر مان لیتے ہیں۔ ایک اور پہلو شاید یہ ہو کہ یہ عبارات ایسی مشکل اور ادق اصطلاحات پر مشکل ہیں کہ انہیں سمجھنا ہی کارِ دارد ہے۔ مثلاً اس اقتباس کو سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔۔
    “پس جس نے حق کو ، حق سے ، حق میں ، چشم حق سے دیکھا، وہی عارف ہے ۔ اور جس نے حق کو حق سے ، حق میں دیکھا ، مگر بچشم خود دیکھا، وہ عارف نہیں ہے ۔ اور جس نے حق کو نہ حق سے دیکھا اور نہ حق میں اور اِس انتظار میں رہا کہ وہ اِسے بچشم خود ہی دیکھے گا ۹؂ تو وہ مشاہدۂ حق سے محروم محض جاہل ہے۔”
    :
    یا اسے سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔
    “اگرچہ مخلوق، بظاہر خالق سے الگ ہے ، لیکن باعتبار حقیقت خالق ہی مخلوق اور مخلوق ہی خالق ہے ۔ یہ سب ایک ہی حقیقت سے ہیں ۔ نہیں، بلکہ وہی حقیقت واحدہ اور وہی اِن سب حقائق میں نمایاں ہے ۔ ‘‘
    :
    اس اقتباس میں صوفی اپنے شیخ کو ہی نبی کریم ؐ کے درجے پر فائز کر رہا ہے (نعوذ باللہ)

    “انسان کامل وہ مدار ہے جس پر اول سے آخر تک وجود کے سارے افلاک گردش کرتے ہیں، اور جب وجود کی ابتدا ہوئی، اُس وقت سے لے کر ابدالآباد تک وہ ایک ہی ہے ، پھر اُس کی گوناگوں صورتیں ہیں اور وہ یہودونصاریٰ کی عبادت گاہوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ اُس کی ایک صورت کے لحاظ سے اُس کا ایک نام رکھا جاتا ہے، جبکہ دوسری صورت کے لحاظ سے اُس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اُس کا اصلی نام محمد ہے۔ اُس کی کنیت ابو القاسم، وصف عبد اللہ اور لقب شمس الدین ہے ؛ پھر دوسری صورتوں کے لحاظ سے اُس کے دوسرے نام ہیں ، اور ہر زمانہ میں جو صورت وہ اختیار کرتا ہے، اُس کے لحاظ سے اُس کا ایک نام ہوتا ہے۔ میں نے اُسے اپنے شیخ شرف الدین اسمٰعیل الجبرتی کی صورت میں اِس طرح دیکھا کہ مجھے یہ بات بھی معلوم تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ میرے شیخ ہیں ۔”
    :
    اس مذاکرے میں احمد جاوید صاحب نے بھی غامدی صاحب کے موقف سے جزوی اتفاق کیا تھا ۔۔۔ انہیں کہنا پڑا کہ بعض اقتباس ایسے ہی کہ جن کی تاویل کرنا بھی ممکن نہیں۔۔ انہیں رد کر دینا چاہیئے۔۔

    ہاں جو چیز واضح نہ ہو سکی وہ تصوف میں قطب ابدال وغیرہ ہیں۔ ممتاز مفتی بھی الکھ نگری میں اپنی حیرت کو چھپا نہ پایا اس کائنات میں بابوں کا ایک متوازی نظام کار فرما ہے جہاں فائلیں، سمریاں، سفارشیں چلتی ہیں ۔۔ بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں ۔۔ واللہ اعلم۔ حضرت ابن عربی رح اپنی تصانیف میں اس نظام پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
    :
    :
    ڈاکٹر امین صاحب ،جو ایک مستند سکالر ہیں اور معروف مجلے البرہان کے مدیر ہیں، سے میں نے غامدی صاحب کی تصوف پر رائے کے متعلق پوچھا ۔۔۔ انہوں نے مختصراً یہ بتایا کہ غامدی صاحب کی رائے درست نہیں ۔۔۔ تصوف میں بلاشبہ بہت سے خرابیاں در آئی ہیں لیکن اس کا حل تصوف سے جان چھڑانا نہیں، اس کی اصلاح کرنا ہے۔ تصوف کو انہوں نے تزکیہ نفس سے معنون کیا جس کا ذکر قران پاک میں کئی جگہوں پر ہے اور مسلمانوں کی اس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ تصوف کی جو تعریف انہوں نے فرمائی اس کے مطابق تصوف (یا تزکیہ نفس) دو اجزاء پر مشتمل ہے۔ ۔۔ ایک ذکر دوسرا صحبت ۔۔ صحبت سے مراد نیک لوگوں کی کمپنی جس میں رہ کر آپ بھی نیک ہو سکتے ہیں۔

    صحبت صالح ترا صالح کند
    صحبت طالح ترا طالح کند
    یعنی نیک کی صحبت آپ کو نیک بنائی گی اور برے کی صحبت برا۔
    :
    انہوں نے زور دے کر کہا کہ تصوف کو آخر کیسے رد کر دیا جائے کہ یہ صدیوں سے آزمودہ ہے اور اس کے اثرات معاشرے اور افراد پر تزکیہ نفس کے حوالے سےثابت شدہ ہیں ۔۔۔
    :
    انہوں نے تصوف پر ہونے والے اعتراضات کے ضمن میں ارشاد فرمایا کہ صوفیا کے دو مشہور گروہ گزرے ہیں ۔۔ ایک وہ جنہوں نے عملی اصلاح کی ۔۔ لوگوں کا تزکیہ کیا۔۔۔ بڑے بڑے محدثین اور فقہا اس صف میں شامل ہیں ۔۔۔ جن کی پاکیزہ صحبت سے لاکھوں لوگوں نے فیض پایا اور اپنے نفوس کو پاک کیا۔۔۔ دوسرا گروہ وہ ہے جس نے تصوف کو ایک فلسفے کے طور پر دلائل سے پیش کیا ۔۔ اس میں انہوں نے ضرور ٹھوکر کھائی ہے۔۔ اور اس کی وجہ اُس دور کے صوفیا پر یونانی فلسفے اور ان کے دیومالا کا اثر ہے۔ یہ لوگ وحدت الوجود اور اس طرح کے فلسفوں اور بحثوں میں الجھے رہے ۔۔۔ اور غامدی صاحب کے جو اعتراضات ہیں وہ شاید اس گروہ کے لئے ہیں ۔۔۔ گویا تصوف کی دو اقسام ہیں۔۔ عملی تصوف اور نظریاتی تصوف۔۔۔ ڈاکٹر امین صاحب کی حتمی رائِے یہی تھی کہ موجودہ تصوف میں جو جھاڑ جھنکار اگ آیا ہے اس کو صاف کر کے اس کی اصل شکل یعنی افراد کے تزکیے کے نظام کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ تصوف قران و حدیث میں بیان کردہ حدود سے باہر کوئی چیز نہیں ہے ۔۔۔۔۔
    :
    اشغالِ تصوف یعنی پاس انفاس، چلے، حق ہو کی ضربوں وغیرہ کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مشقیں دین کا حصہ نہیں ہیں ۔۔ لیکن صوفیاء نے انہیں ارتکاز توجہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا ہے اور ذکر کے ساتھ ملا دیا۔۔۔ ان مشقوں کے استعمال سے اللہ کے ذکر میں ارتکاز حاصل ہوتا ہے ۔۔۔ اس سے زیادہ ان مشقوں کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔
    :
    ڈاکٹر صاحب نے عام لوگوں کے لئے “تصوف کیا ہے” نامی کتابچہ بھی لکھا ہے، جو ابھی ہماری دسترس میں نہیں ہے۔
    :
    اب ہم اس شش و پنج میں ہیں کہ بات غامدی صاحب کی بھی پھینکنے والی نہیں اور غلط ڈاکٹر امین بھی نہیں ہیں۔
    :
    آپ کیا کہتے ہیں اس ضمن میں؟