Category: کچھ خاص

  • خوشگوارزندگی سےخوفناک علیحدگی تک – جمال عبداللہ عثمان

    خوشگوارزندگی سےخوفناک علیحدگی تک – جمال عبداللہ عثمان

    جمال عبداللہ عثمان ’’ک ک‘‘ کی شادی اپنے تایا زاد سے ہوئی۔ جس وقت ’’ک ک‘‘ کی شادی ہو رہی تھی، وہ پانچ جماعتیں پڑھی تھیں۔ شادی کے بعد شوہر نے انہیں گھر پر بارھویں جماعت تک پڑھایا۔ اللہ نے تین بچوں کی نعمت سے بھی نوازا، لیکن ان کی زندگی میں تلاطم آگیا۔ شوہر کا رویہ یکدم بدلنے لگا۔ ہر وقت مارنے پیٹنے لگا۔ ایک دن ’’ک ک‘‘ نے تنگ آ کر ان سے طلاق مانگی۔ شوہر نے غصے میں آ کر تین بار ’’طلاق‘‘ کہہ ڈالی۔ ’’ک ک‘‘ کا کہنا ہے کہ ہمارے درمیان فساد کھڑا کرنے والا ہمارا قریبی رشتہ دار تھا۔ اس نے عملیات کے ذریعے ہمارے درمیان تفریق کر ڈالی، جبکہ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ شاید شوہر کو اپنی بیوی سے متعلق کچھ شبہات پیدا ہوگئے تھے۔ اس نے اس سلسلے میں اپنی بیوی سے بات کرنا مناسب نہ سمجھی اور دل ہی دل میں کڑھتا رہا اور یہی کڑھن طلاق کا سبب بنی۔ خوشگوار زندگی سے خوفناک علیحدگی تک کی دردناک تفصیل ملاحظہ کیجیے۔
    ٭
    ’’آپ اپنا نام اور ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟‘‘
    ’’میرا نام ’’ک ک‘‘ ہے۔ تاریخ پیدائش 1975ء ہے۔ میرے والد اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے۔ دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ دونوں بھائیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں، جبکہ بہنیں بھی اپنے گھروں میں خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔ میں نے پانچویں جماعت تک پڑھا تھا۔ پھر میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ ہم لوگ اپنے تایا کے گھر میں رہے۔ مجھے پڑھنے کا زیادہ شوق بھی نہیں تھا اور والدہ نے کبھی توجہ نہیں دی، اس لیے اس وقت پانچ جماعتوں سے زیادہ نہیں پڑھ سکی۔ بارھویں جماعت تک شادی کے بعد پڑھا۔ وہ بھی میرے سابق شوہر کی کوششوں سے ممکن ہوسکا۔‘‘

    ’’آپ کی شادی کہاں اور کن کے ساتھ ہوئی؟‘‘
    ’’جیسا کہ میں نے بتایا جس وقت میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہی تھی، میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ میرے تایا کا ایک ہی بیٹا تھا۔ تائی کا انتقال پہلے ہی ہوگیا تھا۔ اس لیے تایا کو سہارے کی ضرورت تھی، لہٰذا وہ ہمیں اپنے گھر لے آئے۔ اللہ انہیں خوش رکھے، انہوں نے اپنے بچوں کی طرح ہمیں رکھا۔ اس وقت میرے بڑے بھائی کی عمر تقریباً 20 سال تھی۔ میرے تایا نے دو سال بعد ان کے لیے باہر کا انتظام کیا۔ جب ہمارے بھائی باہر گئے، حالات کافی بہتر ہوگئے۔
    میرے تایا نے اس وقت کہا تھا کہ میں اپنے بیٹے کی شادی اس کے ساتھ کراؤں گا۔ جن کے ساتھ میری نسبت ہوئی، وہ بہت ذہین تھے۔ جب انہوں نے ماسٹر مکمل کیا، میرے چچا نے اس کی شادی سے متعلق میری امی کو یاد دہانی کرائی۔ امی نے انہیں کہا: ’’آپ کے ہمارے اوپر بےپناہ احسانات ہیں۔ میں بیٹی کے رشتے کا انکار نہیں کرسکتی، لیکن بات یہ ہے کہ لڑکا پڑھا لکھا ہے اور میری بیٹی صرف پانچ جماعتیں پڑھی ہیں۔ کل کو ایسا نہ ہو، ان دونوں کا گزارا نہ ہوسکے۔‘‘ میرے تایا نے اپنے بیٹے سے مشورہ کیا۔ اس نے رشتے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اس طرح میری شادی ان کے ساتھ ہوگئی۔‘‘

    ’’آپ کی عمر اس وقت کتنی تھی؟‘‘
    ’’میں اس وقت تقریباً 19 سال کی تھی، جبکہ تایا کا لڑکا مجھ سے چار سال بڑا تھا۔‘‘

    ’’آپ کے ہاں پہلا تنازع کب شروع ہوا؟‘‘
    ’’ہماری شادی تقریباً 11 سال تک چلی۔ اس دوران مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہمارے درمیان کبھی ایسی تلخ کلامی ہوئی ہو جسے یاد رکھا جاسکے۔ مجھے زندگی کی تمام سہولیات میسر تھیں، بلکہ میں اپنی زندگی پر رشک کرتی تھی۔ میری سہیلیاں بھی آتیں تو وہ بھی میری خوش قسمتی پر حیران ہوجاتیں۔ میرے شوہر نے مجھے دنیا کی ہر نعمت دی۔ یہاں تک کہ جب میری شادی ہوئی، میرے شوہر نے مجھے کہا کہ تمہیں مزید پڑھنا چاہیے۔ میں نے انکار کیا کہ میرے لیے اب پڑھنا ممکن نہیں، مگر وہ میرے لیے گھر پر کتابیں لائے اور خود پڑھانا شروع کر دیا۔ وہ کئی کئی گھنٹے مجھے پڑھاتے اور چند مہینوں میں ایک اسکول سے آٹھویں کا امتحان بھی پاس کرا لیا۔ مجھے مزید پڑھنے کا شوق ہوا تو اس وقت ان کی مصروفیات زیادہ ہوگئی تھیں۔ میں نے محلے میں ایک خاتون سے بات کی، وہ میرے پاس آنے لگیں اور اس طرح میں نے چند سالوں میں 12 جماعتیں پرائیویٹ پاس کرلیں۔ اس عرصے میں اللہ نے مجھے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے بھی نوازا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میری زندگی ہر لحاظ سے قابل رشک تھی۔‘‘

    ’’پھر کیا ایسی بات ہوئی جس کی وجہ سے آپ کے درمیان علیحدگی ہوئی؟‘‘
    ’’دراصل انہی دنوں ہمارا ایک رشتہ دار ملازمت کے لیے کراچی آ گیا۔ وہ پہلے سے شادی شدہ تھا۔ اس کے دوبچے بھی تھے۔ وہ مالی طور پر کافی کمزور تھا۔ میرے شوہر نے اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا۔ ہمارے گھر میں تین کمرے تھے۔ اسے کہا کہ کرائے پر کوارٹر لینے کی ضرورت نہیں، ایک کمرہ آپ استعمال کریں۔ میرے شوہر نے رشتہ دار کو جو کمرہ دیا، وہ بطورِ بیٹھک استعمال ہوتا تھا۔ اس کا دروازہ بھی باہر گلی کی طرف تھا، مگر ایک دروازہ گھر کی طرف بھی کھلتا تھا۔ وہ ہمارا رشتہ دار تھا۔ گاؤں میں بھی ہمارے گھر آنا جانا ہوتا تھا۔ یہاں بھی ایسے ہی آزادانہ آتا جاتا۔ جب کھانے کا وقت ہوتا، کھانے کے لیے آجاتا۔ وہ بظاہر اچھا تھا۔ میرا بہت احترام کرتا۔ میرے شوہر نے بھی مجھے کہہ رکھا تھا کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہمارے مہمان ہیں، لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ ہمارے لیے تباہی کا پیغام لے کر آ رہا ہے۔‘‘

    آپ ذرا وضاحت کریں گی کس طرح؟‘‘
    ’’دراصل اس کے آنے کے بعد میرے شوہر کے رویے میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور کچھ عرصے بعد وہ ایسا بدلے جس کا تصور میرے لیے مشکل تھا۔ ان کے ساتھ میرے تقریباً 10 سال گزر چکے تھے۔ کبھی انہوں نے تیز آواز میں میرے ساتھ بات نہیں کی تھی، لیکن اب وہ ایسے بدلے کہ ڈانٹ ڈپٹ ان کی عادت بن گئی۔ صبح دفتر جاتے، تب بھی کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتے۔ شام کو آفس سے آتے تب بھی کوئی بہانہ تیار ہوتا۔‘‘

    ’’انہیں آپ کے حوالے سے کوئی غلط فہمی تو نہیں ہوگئی تھی؟‘‘
    ’’مجھے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انہیں کیا ہوگیا ہے؟ اس رویے کے نتیجے میں میرا بھی دل اُچاٹ ہوگیا تھا، مگر میں ان کے احسانات یاد کرتی تو میرا دل ان کے لیے نرم پڑجاتا۔ ایک دن جب میں بہت پریشان ہوئی، میں نے اپنی پڑوس کی ایک خاتون سے ان کے رویے کا تذکرہ کیا۔ میری پڑوسن نے بتایا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے شوہر پر کسی نے ”کچھ“ کر لیا ہو۔ میں ان چیزوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتی تھی، لیکن جب انسان پریشان ہوتا ہے، وہ ایسی ہر بات پر یقین کرلیتا ہے۔ ایک دن صبح سویرے میرے شوہر نے ڈانٹ ڈپٹ کے بعد مجھے مارا پیٹا۔ میں بہت روئی۔ میرا برا حال ہونے لگا۔ دوپہر کے وقت ہمارا رشتہ دار آیا۔ اس نے میری سرخ آنکھیں دیکھیں تو وجہ پوچھنے لگا۔ میں پریشان تھی۔ میں اپنے دل کا حال کسی کو بتانا چاہتی تھی۔ لہٰذا اس کے سامنے اپنے دُکھ رکھ دیے۔ پھر میں نے اسے پڑوسی خاتون کی بات بتائی۔ ہمارے رشتہ دار نے کہا آپ پریشان نہ ہوں، میرا ایک عامل دوست ہے، میں اس سے آپ کے لیے ایسا تعویذ لاکر دوں گا کہ آپ کے شوہر کا رویہ پہلے جیسا ہوجائے گا، بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر ہوجائے گا۔‘‘

    ’’کبھی آپ نے شوہر کے بدلتے رویے پر ان کے ساتھ کوئی بات کی؟‘‘
    ’’میں نے ایک دو بار بات کرنے کی کوشش کی، مگر مجھے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انہیں کیا ہوگیا ہے؟ میں نے ان سے کئی بار کہا کہ آپ مجھے میرا قصور بتادیں۔ اگر مجھ میں کوئی کمی ہے، میں اسے دور کرنے کی کوشش کروں گی۔ وہ ہر بار یہی کہتے کہ تم اپنا کردار ٹھیک کرو۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا چاہتے تھے اور اگر کچھ چاہتے تھے تو اس کا کھل کر اظہار کیوں نہیں کیا؟ جب بہت سوچا، پھر ذہن میں آیا کہ شاید میرے شوہر کو کچھ غلط فہمی ہوگئی ہے۔ اس لیے ہمارے گھر میں جو رشتہ دار رہتا تھا، میں نے ایک دن اس سے درخواست کی کہ وہ یہاں سے کہیں اور چلا جائے۔ جب اس سے بات کی، وہ خاصا پریشان ہوا، مگر بالآخر بوریا بستر اُٹھا کر قریب میں کہیں اور کوارٹر کرائے پر لے لیا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ شاید اب میرے شوہر کا رویہ کچھ بہتر ہوجائے، لیکن تب بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔‘‘

    ’’آپ کے رشتے دار تب بھی آپ کے گھر آتے جاتے رہے یا بالکل ہی رشتہ ناتا توڑ دیا؟‘‘
    ’’جی! وہ آتا تھا، خصوصاً جب میرے شوہر گھر پر نہیں ہوتے تھے۔ اگرچہ مجھے اس کا آنا اچھا نہیں لگتا تھا، مگر میں کیا کرتی۔ یہاں اور کوئی میرا نہیں تھا۔ جب وہ آتا، میں اس کے سامنے اپنا دُکھ بیان کرتی۔ اس طرح میں سمجھتی تھی کوئی تو ہے جو میرا دکھ درد سن رہا ہے۔ ایک دن وہ آیا تو بڑا خوش تھا۔ کہنے لگا کہ تمہارے لیے ایسے تعویذ لے کر آ رہا ہوں کہ تمہارا شوہر تمہارا غلام بن جائے۔ میں بھی بڑی خوش ہوئی اور اس سے تعویذ لے کر اس کی ہدایات کے مطابق رکھ لیے۔‘‘

    ’’تعویذ کے بعد ان کا رویہ ٹھیک ہوگیا؟‘‘
    ’’اس دن جب وہ شام کو آ رہے تھے، میں بڑی خوش تھی۔ میرے ذہن میں تھا کہ تعویذ نے اپنا اثر دکھایا ہوگا، لیکن اس دن وہ پہلے سے بھی زیادہ بھڑکے ہوئے تھے۔ مجھے مزید حیرت اس وقت ہوئی جب چند دن بعد وہ ایسے ہوگئے جیسے میں نے کوئی بہت بڑا جرم کیا ہو۔ وہ میری شکل دیکھتے ہی آگ بگولا ہوجاتے۔ گالیاں دیتے، اگر میں کوئی بات کرتی، مجھ پر تشدد کرنے لگ جاتے۔ میں اتنی پریشان ہوئی جس کی انتہا نہیں۔ ایک دن میں بہت اُداس تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہمارا وہ رشتہ دار آگیا۔ میں نے اسے تازہ حالات بتائے۔ کہنے لگا: ’’تم کیوں اپنی زندگی برباد کر رہی ہو؟ اس سے سیدھی سیدھی بات کرو۔ اسے بولو کہ تم نے مجھے خریدا نہیں ہے۔ اگر نہیں رکھ سکتے تو طلاق دے دو۔ آپ دیکھیں گی وہ یقیناً بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگا۔“
    میں بے وقوف تھی، اس کی باتوں میں آگئی۔ شام کو میرے شوہر گھر آئے۔ حسبِ معمول غصے سے بپھرے ہوئے تھے۔ میں کھانا رکھ رہی تھی۔ انہوں نے گالیاں دینا شروع کردیں۔ میں خاموش رہی۔ ان کا پارہ مزید چڑھنے لگا۔ جب میں تنگ ہوگئی، میں نے انہیں کہا: ’’اگر آپ مجھ سے تنگ ہوگئے ہیں تو مجھے طلاق کیوں نہیں دیتے؟‘‘ وہ غصے میں تھے، مگر میرے منہ سے یہ الفاظ سن کر میرا منہ دیکھنے لگے۔‘‘

    ’’کیا آپ کو یقین تھا کہ آپ کے شوہر اس پر عملدرآمد نہیں کریں گے؟‘‘
    ’’جی! میں یہی سمجھ رہی تھی کہ یہ محض انہیں چپ کرانے کا ایک ہتھیار ہے جس میں مجھے کامیابی ملی۔ اب انہوں نے جب بھی مجھے گالیاں دیں، میں نے انہیں یہی کہا ’’اگر نہیں رکھ سکتے تو طلاق دے دو۔‘‘ اور وہ خاموش ہوجاتے، میرا منہ تکنے لگ جاتے۔ ایک دن اسی طرح وہ آفس سے آئے۔ میں کھانا لگارہی تھی، انہوں نے حسبِ عادت گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔ جب وہ آخری حد تک چلے گئے اور میری پٹائی شروع کردی، میں نے ایک بار پھر وہی بات دُہرائی، لیکن اب شاید وہ ذہنی طورپر اس کے لیے تیار ہوچکے تھے۔ میں نے انہیں کہا: ’’اگر آپ مجھے نہیں رکھ سکتے، مجھے طلاق کیوں نہیں دیتے؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’طلاق دے دوں؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں طلاق دے دو۔‘‘ انہوں نے پھر پوچھا، میں نے پھر اپنی بات دُہرائی۔ میں نے تیسری بار وہی بات کہی۔ انہوں نے تین بار وہ لفظ دُہرایا جس سے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔ شاید انہیں بھی اندازہ ہوگیا تھا، اس لیے وہ گھر سے نکل گئے۔ میں اپنا سر پیٹ رہی ہوں اور بچے مجھ دیکھ کر رو رہے ہیں۔ میں ساری رات روتی رہی، وہ نہیں آئے۔ اگلی صبح ہوئی، تب بھی نہیں آئے۔ دوپہر کے وقت ہمارا وہ رشتہ دار آیا۔ اس نے مجھے تسلی دی اور ایک ایسی بات کہہ دی جس نے میرے تن بدن میں آگ لگادی۔ اس نے کہا تم پریشان نہ ہونا، میں تمہارے ساتھ شادی کرنے کو تیار ہوں۔ اس وقت میرا غم کی شدت سے سینہ پھٹ رہا تھا۔ میں نے اسے گالیاں دے کر گھر سے نکالا۔‘‘

    ’’مختصراً بتادیں کہ وہ رشتہ دار کہاں گیا اور آپ کے سابق شوہر کا کیا بنا؟‘‘
    ’’میں نے گاؤں میں اپنے بھائیوں کو فون کیا، انہیں مختصر طور پر یہ خوفناک داستان سنائی۔ ایک بھائی فوری کراچی آئے۔ میں نے شروع سے آخر تک ساری صورتِ حال ان کے سامنے رکھی۔ میں نے انہیں رشتہ دار کا بھی بتایا۔ تعویذ کا بھی ذکر کیا۔ میرے بھائیوں نے مجھ سے وہ تعویذ منگوائے اور کسی عامل کے پاس لے گئے۔ جب ان تعویذوں کی جانچ پڑتال ہوئی، پتا چلا سارا فساد اسی شخص نے کھڑا کیا ہے۔ اسی نے ہمارے درمیان تفریق پیدا کی ہے۔ میرا بھائی اس کی تلاش میں نکلا۔ انہوں نے قسم کھائی تھی، میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس رشتے دار کو جب معلوم ہوا، وہ فرار ہوگیا۔ آج کئی سال ہوچکے ہیں، اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے؟ میرے سابق شوہر نے بعد میں مکان میرے نام کرایا۔ وہ گاؤں چلے گئے۔ ذہنی اذیتوں سے گزرتے رہے اور اب سنا ہے کہ ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔ آج مجھے کسی چیز کی کمی نہیں۔ بھائیوں کی طرف سے مکمل سپورٹ ہے۔ اپنا مکان کرائے پر دے رکھا ہے، لیکن جب اپنا وہ وقت یاد کرتی ہوں، دل بہت اُداس ہوجاتا ہے۔ سوچتی ہوں کاش! میں ایسا نہ کرتی۔ اب اس اُمید پر جی رہی ہوں کہ بچوں کا اچھا مستقبل دیکھ سکوں۔‘‘

  • لبرل فکر کےشارحین کی غلطی – مجاہد حسین خٹک

    لبرل فکر کےشارحین کی غلطی – مجاہد حسین خٹک

    مجاہد حسین خٹک ایک دور تھا جب سوشلسٹ اور کمیونسٹ طبقہ ہر اس تہذیبی قدر کا مذاق اڑاتا تھا جو عوام کو عزیز تھی۔ یہ بہت بری حکمت عملی تھی کیونکہ اس کا ردعمل پیدا ہوا اور عوام نے اس فکر کے مثبت پہلوؤں کو بھی یکسر رد کر دیا۔ آج بہت سے سلجھے ہوئے کمیونسٹ دانشور اس غلطی کو تسلیم کرتے ہیں۔

    اس احمقانہ طریق کار کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ فرسودہ سوچ کو اپنا بیانیہ معاشرے پرمسلط کرنے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی۔ انہیں فکری میدان بالکل خالی مل گیا جس پر انہوں نے آسانی سے قبضہ جما لیا۔ ان کا یہ غلبہ آج تک قائم ہے۔

    آج کمیونسٹ بیانیے کی جگہ لبرل فکر نے لے لی ہے اور اس کے شارحین ایک بار پھر وہی پرانی غلطی دہرا رہے ہیں۔ ان کے ہاں ہر اس تہذیبی قدر کا مذاق اڑایا جاتا ہے جو عوام کو محبوب ہے۔ اس رویے کی وجہ سے معاشرے میں پھیلی فرسودہ سوچ کا غلبہ آج بھی قائم و دائم ہے۔

    پاکستان میں ایک ایسے ترقی پسند بیانیے کی گنجائش ہمیشہ موجود رہی ہے جو ہماری تہذیبی اقدار کا احترام کرتے ہوئے معاشرے کو دور جدید سے ہم آہنگ کر سکے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس فکری خلا کو اس گروہ نے پر کرنے کی کوشش کی جو یا تو ردعمل کی بیمار نفسیات کے تحت تلخی، فرسٹریشن اور غصے کا شکار رہا ہے یا جسے اپنے محدود حلقے میں واہ واہ کی طلب ہے۔ کیونکہ اسی واہ واہ کے جادوئی اثر سے ایک عام دانشور کے لیے بھی وہ بند دروازے کھل جاتے ہیں جن کے پیچھے شہرت اور دولت کی دیوی گھونگٹ اوڑھے منتظر بیٹھی ہوتی ہے۔

    علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے معاملے پر جس طرح دھڑا دھڑ مضامین آ رہے ہیں اور ہماری روایات کا جس مضحکہ خیز انداز میں مذاق اڑایا جا رہا ہے، اسے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ یہی تو مواقع ہوتے ہیں جب عوام کا دل جیتا جا سکتا ہے۔ جب امتحان کے پرچے میں اپنی بہن کی جسمانی ساخت بیان کرنے کا سوال آ جائے تو اس پر لبرل ازم کے پیروکاروں کو بھی احتجاج میں شریک ہو جانا چاہیے تاکہ عوام کے دل تک انہیں رسوخ حاصل ہو سکے۔ وہ رسوخ جسے حاصل کرنے کے بعد منزل کا حصول بہت آسان ہو جاتا ہے۔

    یہ وقت تھا جب وجاہت مسعود صاحب جیسے حقیقی دانشور اپنے طبقے کی رہنمائی کے لیے سامنے آتے۔ وہ سماج کی پیچیدہ ساخت کے تمام پہلوؤں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ ان جیسے سلیم الفطرت لوگ اس معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟ اور ان کے زیراثر لوگ اس پر خامہ فرسائی کیوں کر رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ بھی اپنے طبقے کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں؟ یا یہ سب ان کی رضامندی سے ہو رہا ہے؟

  • خودغرضی کی بھوک اور پاپی پیٹ – نورین تبسم

    خودغرضی کی بھوک اور پاپی پیٹ – نورین تبسم

    اللہ تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (سورہ یونس، 44)

    خودغرضی اللہ کی بہترین نعمتوں میں سے ایک ہے۔ ایسی نعمت جس کی پہچان بہت کم کسی کے قلب و ذہن پر اُترتی ہے اور جو اِس کی اصل روح کو پا لے وہ ولی اللہ کے درجے کو چھو جاتا ہے۔ عام طور پر کسی کو خود غرض کہا جائے تو نہ صرف کہنے والا بلکہ سُننے والا اَسے طعنے یا گالی کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ درحقیقت دونوں اِس کے اصل مفہوم سے ناآشنا ہیں۔

    خودغرض یا خودغرضی کا عام مطلب ہے اپنے آپ سے غرض رکھنا۔ صرف اپنا بھلا چاہنا اور دوسروں کی قطعی پروا نہ کرنا۔ اِن معنوں اور اس مفہوم میں کوئی کجی نہیں اور یہی اصل مطلب بھی ہے۔ بات پلٹ کر وہیں آ جاتی ہے کہ ہم ہر چیز, ہر لفظ اور ہر احساس کو سرسری نگاہ سے دیکھ کر حرفِ آخر کا فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل و دماغ کی کھڑکیاں ہٹ دھرمی کی میخوں سے بند کر کے اُسی بات پر اڑے رہتے ہیں۔

    خود غرضی کیا ہے؟ اپنی طلب سے غرض رکھنا, اپنا بھلا چاہنا۔ تو کیا کسی نے سوچا کہ اُس کی بھلائی کس میں ہے؟ اُس کی طلب کی نوعیت کیا ہے؟ اس کی بھوک اور پیاس کی حدیں کہاں تک پھیلی ہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ اس کی ”غرض“ اُس کے لیے کتنے وقت تک اور کتنا ساتھ دے سکے گی؟

    سب سے پہلے بھوک کی بات کہ یہی وہ غرض ہے جوانسان کو اپنے پرائے رشتوں ناطوں حتیٰ کہ اپنے اہل و عیال سے بھی بیگانہ کر دیتی ہے۔ بھوک ایسا طاقتور اور بےرحم جذبہ ہے جس کے آگے اِبن ِآدم کی ساری تمیز اور تہذیب دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اگرچہ بھوک ایک آدم خور درخت ہے جس کی شاخیں انسان کے اندر ہر جگہ پھیلی ہیں جیسے ناشُکرا پن اور ہوس بھی بھوک کے کرشمے ہیں لیکن پیٹ کی آگ اور جنس کی طلب انسانی اخلاقیات کے لیے زہرِقاتل کا درجہ رکھتی ہیں۔ بھوک کوئی بھی ہو وہ کبھی اپنے اندر سے پوری نہیں پڑتی ۔اُس کے لیے اپنی ذات سے باہرآ کر ڈھونڈنا پڑتا ہے۔۔۔ خاموشی سے۔۔۔ چُپ چاپ دبے پاؤں۔

    پیٹ کی آگ اورجنس کی بھوک بہت شور مچاتی ہے، اسے سنبھالنا بہت مشکل ہے جو اکثر اوقات ناممکن بن جاتا ہے۔ اس کو قابو کرنے کا فن زندگی کی ریاضت چاہتا ہے۔ ساری زندگی کی کمائی دینے کے بعد کب ملے، یہ کوئی نہیں جانتا اور اس جن کو بوتل میں بند کرنے کے بعد بھی آزمائش ختم نہیں ہوتی۔ جو اس پر قابو پا گیا، وہ ولی اللہ کے رُتبے کو پا گیا۔ جیسے جیسے اس بھوک کو سمجھتے جائیں، اس سے پنجہ آزمائی کرتے رہیں، اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر اس سے باتیں کرتے رہیں، یہ سر پر سوار نہیں ہوتی۔

    پیٹ کی آگ جسمِ انسانی کا وہ بھڑکتا الاؤ ہے جس میں انسان کی ساری اخلاقیات سوکھی لکڑیوں کی طرح لمحوں میں جل کر خاکستر ہو جاتی ہے۔ پیٹ کی ہوس وہ ضرورت ہے جس پر انسان ذرا سا بھی شرمندہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اُسے اس طور اتنا بُرا محسوس کرتا ہے۔ انسان وقتی لذت کے چسکے اور اُس ذائقے کے لیے جو زبان پر چند لمحوں اور پیٹ میں چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ٹھہرتا، اپنے فہم اور شعور کو بہت کم قیمت پر فروخت کر دیتا ہے۔۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے اسی طرح پیٹ گھڑی بھی وقت بے وقت سے بے پروا اپنے وقت پر الارم بجانے لگتی ہے۔ عام زندگی میں ایسے مظاہرے کئی بار دیکھنے کو ملتے ہیں، خاص طور پر جب ہمیں مالِ مفت کے مصداق کھانے کو مل جائے تو ہم اس الارم کی ضرورت اور ہوس میں فرق بھول جاتے ہیں۔ خوشی کی تقریبات میں ”کھانا کھلنے“ کا اعلان ہو یا کسی کا جنازہ اٹھنے کے بعد کھانے کا منظر جسے پہلے زمانوں میں ”کڑوی روٹی“ کہا جاتا تھا، کھانے والوں کے انداز اور اطوار میں صرف کچھ ہی فرق ہوتا ہے لیکن نظروں میں رتی برابر فرق دیکھنے کو نہیں ملتا۔ خوشی کے موقع پر تو بہت کچھ خوشی خوشی نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی جاتا ہے لیکن مرنے والے کے گھر میں چاولوں میں ”بوٹی“ اور سالن میں ”تری“ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اپنے گھروں میں روز ہی پیٹ بھر کر مرغِ مسلم کھانے والے ایسی بدنیتی کا مظاہرہ کریں تو اس بےحسی سے زیادہ اُن کی اپنی غرض کی ناسمجھی پر شدید تاسف ہوتا ہے۔

    مال اور اولاد کو دُنیا کی زندگی میں سب سے بڑی آزمائش کہا گیا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں، گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس آزمائش کا سرا ”پیٹ“ سے جا ملتا ہے۔ انسان کی بھوک اس کے ہر احساس پر غالب آ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محبت سے پیٹ نہیں بھر سکتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پیٹ بھر جائے تو پھردوسری ہر محبت کی طلب بیدار ہوجاتی ہے۔

    پیٹ کی بھوک کی طرح جنس کی بھوک کی بدنمائی بھی انسان کاانسان پر سے اعتبار ختم کر دیتی ہے۔وہ ایسی ہوس ہے جو انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوسروں کی نظر سےگرا دیتی ہے۔ جسم کی طلب کو اگر چھوٹے بچے کی ضدوں کی طرح سمجھا جائے تو اسے منانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ یہ فرمائشوں کو پورا کرنے کےعارضی وعدوں اورمحبت کے دو بول سے بہل جاتی ہے اور اپنی پوری معصومیت سے انتظار کرنے لگتی ہے اچھے وقت کا، خوبصورت موسم کا۔ اور اگر اسے سخت گیر اُستاد کے حُکم کی طرح سُن لیا اور اس سے سہم گئے تو یہ کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی، نہ خوابوں میں اور نہ حقیقت میں۔ اپنی پوری کمینگی اور سفاکیت کے ساتھ یوں حملہ آور ہوتی ہے کہ اس کے نوکیلے پنجے روح میں شگاف ڈال دیتے ہیں اور جسم ہر طرف سے کیکر بن جاتا ہے جو قریب آنے والوں کو زخمی کر دیتا ہے۔

    حرفِ آخر
    بھوک وہ سانپ ہے جو ہر بار نئے رنگ سے نئے ڈھنگ سے بہروپ بدل بدل کر ڈستا ہے- زیادہ طلب بڑھے تو بھوک مرتی نہیں راستہ بدل لیتی ہے۔۔ لبادہ اُوڑھ لیتی ہے، کبھی صبر کا، کبھی قناعت کا، کبھی بہادری کا تو کبھی مذہب کا- بھوک فطرت ہے کہ جھولی خالی ہو تو خیرات ملتی ہے۔ طلب ہو تو بھوک ہوتی ہے پھر خواہش ضرورت بنتی ہے۔ بھرے پیٹ کی خواہش تو ہوس ہوتی ہے، بدنظری ہوتی ہے، خودغرضی ہوتی ہے، لُوٹ کھسوٹ ہوتی ہے، اجتماعی زیادتی ہوتی ہے۔گھاٹے کے سوداگر ایک لمحے کی خوشی، ایک پل کے عارضی سکون کی خاطر ہمیشہ کی آسودگی قربان کر دیتے ہیں۔ دنیا کی باتیں دُنیا میں سمجھ آ جائیں تو آگہی کی جنت دور نہیں۔ ہم اس حال کی فانی دنیا کو اپنی محدود عقل کے دائرے میں جاننے کی کوشش کیے بغیر نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی دوزخ بھڑکاتے ہیں۔ آگے کی اللہ جانے کہ وہ ایمان والوں کے ایمان کا معاملہ ہے۔ اللہ کی نعمت اور رحمت کا دائرہ کس قدر وسیع اور لامحدود ہے اور وہ کتنا بےنیاز ہے، ہم کبھی نہیں جان سکتے۔ لیکن اتنا ضرور محسوس کیا جا سکتا ہے کہ وہ خلوصِ نیت سے پلٹنے والوں، سوچنے والوں اور اس کے مطابق عمل کرنے والوں کو اس دنیا میں ہی جنت عطا کر دیتا ہے۔

  • وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف کے نام قوم کی بیٹی کا خط

    وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف کے نام قوم کی بیٹی کا خط

    محترم جناب میاں محمد شہباز شریف صاحب
    (وزیراعلی پنجاب)

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ

    میرا آج کا خط لاہور اور گرد و نواح پہ چھائی سموگ کی وجوہات، اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور مستقبل میں پیش آ سکنے والے خطرات سے آگاہ کرنے اور ان کے سدباب سے متعلق ہے. میرا سیاست سے کچھ واسطہ نہیں. میرے اس خط کو محض آنے والی نسل کی حفاظت کے لیے بلند کی جانے والی پکار ، ایک مےڈے کال سمجھا جائے.

    محترم خادم اعلی صاحب! تصور کیجیے ایک ایسا شہر جو خوبصورت اور حسین ترین ہائی رائز بلڈنگز اور عظیم الشان فلائی اوورز سے مزین ہو. چمکتی دمکتی گاڑیاں اور دن رات چمنیوں سے دھواں اگلتی فیکٹریاں ملک کی بےمثال ترقی کا نقشہ پیش کرتی ہوں. کسی سائنس فکشن اینیمیشن کی طرح اس تصویر میں ایک غیرفطری فیکٹر نوٹ کیجیے کہ درخت کہیں نہ ہوں. چمکتی گاڑیوں کے ایگزاسٹ پائپس سے نکلتا دیدہ یا نادیدہ دھواں آب و ہوا کو مسموم کرتا ہو. شہری علاقوں میں قدرتی حسن کو نگلتے کنکریٹ اسٹرکچرز اور فیکٹریز کی چمنیاں شہر کو زہریلی ہواؤں کا تحفہ دیتے ہوں. کتنا غیر فطری تصور ہے نا.. یہ کیسی تعمیر ہے جس کی کوکھ سے تخریب کا جنم ہو رہا ہے..

    درخت قدرت کا انمول عطیہ جو ہمارے لیے قدرت کے پھیپھڑوں کا کردار ادا کرتے ہیں. ہمارے پھیپھڑے خون میں سے فاسد ضرر رساں گیسز مثلا کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال کر سانس کے ذریعے جسم سے خارج، جبکہ ہوا میں سے حیات بخش آکسیجن حاصل کر کے اسے خون میں شامل کر دیتے ہیں، اس طرح جسم میں اچھی اور بری گیسز کا تناسب درست مقدار میں برقرار رہتا ہے اور انسانی جسم اپنے افعال بخیر و خوبی سرانجام دیتا ہے.. قدرت کے پھیپھڑے درخت ہیں. درختوں کے سرسبز پتوں میں موجود کلوروفل (سبز رنگ کا نامیاتی مادہ) دھوپ کی موجودگی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آکسیجن تیار کرتا ہے اور فضا میں بکھیر دیتا ہے. جبکہ آکسیجن کے بدلے یہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسز چوس لیتا ہے، جسے یہ اپنی سانس اور خوراک کے لیے استعمال کرتا ہے. اس طرح قدرت کے یہ پھیپھڑے کھلی فضا میں گیسز کے تناسب کو حیات انسانی کے لیے مفید تناسب میں برقرار رکھتے ہیں.. اسی طرح درخت ہوا میں نمی کا تناسب بڑھا کر درجہ حرارت کم کرتے ہیں اور بارش کے برسنے کا سبب بنتے ہیں جس سے فضا دھل کر صاف شفاف ہو جاتی ہے. جیسے سگریٹ پینے سے یا دھویں سے بھری زہریلی فضا میں ہمارے پھیپھڑے کم کام کرنے لگتے ہیں، اسی طرح اگر ماحول میں گاڑیوں اور فیکٹریوں کے مقابلے میں درختوں کا تناسب کم ہوتا چلا جائے تو فضا میں گیسز کا تناسب بگڑ جائے گا..

    اب ہو کیا رہا ہے.. پچھلے کچھ سالوں میں لاہور کی ترقی و تعمیر کے نام پر ان گنت درخت کاٹ دیے گئے ہیں. ان درختوں کی ہریالی اور تازگی کو اسٹیل اور کنکریٹ کے جناتی سائز کے اسٹرکچرز سے ری پلیس کر دیا گیا ہے. شہری تازہ ہوا اور دھوپ دونوں سے نہ صرف محروم ہوگئے ہیں بلکہ فضا کو صاف کرنے والے درختوں کی عدم موجودگی میں زہریلی گیسز کا تناسب بڑھ گیا ہے، اور آکسیجن کم ہوگئی ہے. زہریلی گیسز، گرد اور دھویں نے مل کر زہریلی دھند کی چادر لاہور اور گرد و نواح پر تان دی ہے، جسے سموگ (سموک +فوگ) کا نام دیا گیا ہے.

    باغات اور زندہ دلان کا شہر کہلانے والا لاہور اب اوور ہیڈ فلائی اوورز کے سائے میں گم پژمردہ بیماروں کا شہر بن چکا ہے. یہ سموگ پہلی چیز ہے.. میٹرو کے بننے کے بعد کا ڈیٹا جمع کرنا شروع کیجیے، آپ کو دھوپ کی محرومی سے وٹامن ڈی کی کمی کے نتیجے میں رکٹس rickets میں مبتلا بچے اور جوڑوں،گردوں، سانس، جلدی بیماریوں اور کینسر کے مریض پچھلے سالوں سے زیادہ ملیں گے.
    http://medicalopedia.org/2387/vitamin-d-deficiency-in-pakistan-a-consequence-of-undervaluing-natures-endowment/

    وٹامن ڈی کی کمی اور فضائی آلودگی نمونیا، تپ دق اور دمہ کے مریضوں میں بھی اضافہ کرے گی اور اس کے ساتھ ساتھ آرتھرائٹس اور بانجھ پن میں بھی اضافہ دیکھنے میں آئے گا.. دھوپ کی کمی مختلف جلدی بیماریوں مثلا خارش اور سورائسس (scabies and psoriasis) میں اضافے کا باعث بھی ہوگی. .

    بعض لوگ کہیں گے کہ یہ فلائی اوورز پہلے سے موجود سڑکوں کے اوپر بنائے گئے ہیں، آبادی کے اوپر نہیں.. درست فرمایا. لیکن ہمارے ملک میں جہاں دن کے زیادہ اوقات میں تیز دھوپ رہتی ہے، جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ گھروں یا سایہ دار جگہوں تک محدود رہتے ہیں. خواتین گھرداری اور پردے کی وی سےگھروں میں محدود ہیں.. ان کا دھوپ سے سامنا عموما دوران سفر ہی ہوتا ہے. سکول، کالج، آفس، دکان یا بازار آتے جاتے عوام اپنے حصے کی دھوپ اور نتیجتا سن شائن ہارمون یعنی وٹامن ڈی کا اپنا حصہ پاتے ہیں..

    Head outside for at least 20 minutes each day and expose a minimum of 40 percent of body to the sun for maximum D3 synthesis. During cold months, pill or liquid supplements may be necessary for many adults. Because of the preoccupation with the harmful effects of too much sun, most people do not get enough of it. Increased pigmentation due to which more prolonged exposure to sun is required, use of sun block, purdah observation and possibly the reason that women in general do not go outside the home may be responsible for Vitamin D Deficiency …
    (http://medicalopedia.org/2387/vitamin-d-deficiency-in-pakistan-a-consequence-of-undervaluing-natures-endowment)

    اب سڑکوں پر پائی جانے والی دھوپ فلائی اوورز کے سائے نے روک لی. یا تو فلائی اوورز نہ ہوتے یا اتنے اونچے ہوتے کہ دھوپ نہ رکتی. تیسرا طریقہ سوراخ دار فلائی اوورز بنانے کا بھی ہو سکتا تھا، جس کے روزن سے دھوپ چھن کر نیچے چلتے پھرتے عوام تک پہنچتی رہتی.

    درختوں کی کمی، اسٹیل، کنکریٹ اور شیشے سے بنے اسٹرکچرز میں اضافہ، گرمی میں اضافے کا باعث بنیں گے. گلوبل وارمنگ کا یہ ایک بہت بڑا فیکٹر ہے. خصوصا درختوں کی کمی..
    https://en.m.wikipedia.org/wiki/Environmental_impact_of_concrete

    ماحولیاتی گرمی بڑھنے کے منطقی نتیجہ کے طور پر گاڑیوں اور گھروں میں اے سی کا استعمال بڑھے گا جو کاربن مونو آکسائیڈ کے فضا میں مزید اضافے کا باعث ہوگا.. جس سے اوزون لئیر کو نقصان پہنچے گا، نتیجتا انسانی صحت کے لیے مضر اثرات کی حامل شعائیں بلا روک ٹوک زمین تک پہنچنے لگیں گی. یعنی بظاہر ترقی نظر آتے عوامل قدرتی ماحول کی تنزلی’ (deterioration) کا باعث ہیں.

    اس سب کا حل ہنگامی بنیادوں پر شجرکاری میں اضافہ اور میٹرو / اورنج فلائی اوورز کا روٹ میپ سرکلر یا رنگ روڈ کی طرز پر شہری آبادی سے باہر شفٹ کیے جانے میں ہے. جو آبادیاں ان فلائی اوورز کے سائے میں آ کر اپنے حصے کی دھوپ سے محروم ہو چکی ہیں، انہیں ترجیحی بنیادوں پر حکومتی سرپرستی میں کھلی فضا والے بہترین پلاننگ والے علاقوں میں بسایا جائے. یہ ہماری آنے والی نسلوں کی صحت اور بقا کا معاملہ ہے.

    ایک ڈچ آرٹسٹ نے فضائی آلودگی دور کرنے والے مصنوعی درخت تیار کیے ہیں جو ہوا میں سے زہریلی گیسز اور کاربن کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں جبکہ اس جذب شدہ کاربن کو ہیروں میں بھی تبدیل کیا جا رہا ہے. ان ہیروں کو جیولری میں جڑ کر بیچا جاتا ہے اور اس سے حاصل شدہ آمدنی سے مزید مصنوعی درخت لگائے جاتے ہیں.. یہ بھی ایک حل ہو سکتا ہے لیکن اس میں وہ مولوی مدن کی سی بات کہاں..

    https://www.facebook.com/worldeconomicforum/videos/10153611715491479/

    آپ ترقی اور انفرادی سٹرکچر، ڈویلپمنٹ کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں لیکن مغربی ممالک کے تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ ماحول کے تحفظ کے اقدامات بھی ساتھ ہی لیے جانے اہم ہیں ورنہ صحت کی مد میں بڑھتے مسائل اور اخراجات ملکی وسائل پر ایک غیر متوقع بوجھ بھی ڈالتے ہیں اور رائے عامہ کو بھی حکومت بیزاری کی طرف دھکیل سکتے ہیں.

    خیر اندیش
    قوم کی بیٹی
    ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

  • لنڈے بازار کی لبرل ازم – محمد زاہد صدیق مغل

    لنڈے بازار کی لبرل ازم – محمد زاہد صدیق مغل

    زاہد مغل ویسے تو لبرل ازم سفاکیت و بدتہذیبی (savagery) کا ہی دوسرا نام ہے، البتہ اس کا سب سے سفاک اور قبیح پہلو رحمی رشتوں کے تقدس کی پامالی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسی کوئی گمراہی پیدا نہیں ہوئی جس نے ان رشتوں کے تقدس کو پامال کیا ہو، یہ خصوصی مقام سب سے پہلے تحریک تنویر سے برآمد ہونے والی لبرل ازم کو حاصل ہوا۔ مقدس رشتوں کی پامالی اور لبرل ازم کے مابین یہ تعلق کوئی حادثہ نہیں بلکہ عین اس کی بنیادی سرشت کا اظہار ہے کیونکہ لبرل فریم ورک میں ذاتی اخلاقیات (morality) نامی کسی شے کا وجود ممکن نہیں، یہاں صرف ”قانونی حقوق“ ہوتے ہیں اور بس۔ یہاں ماں، بہن، بیٹی وغیرہ نامی رشتوں کی بندشیں ذاتی ترجیحات (subjective preference) سے زیادہ کسی چیز کا نام نہیں، آزادی کے فروغ کے لیے ان بندشوں کے ارد گرد موجود نفسیاتی گرہیں گرانا ایک ضروری امر سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لبرل معاشروں میں بدکاری کی کثرت کے ساتھ ساتھ محرم رشتوں کے ساتھ اس شنیع فعل کا فروغ بھی عام ہوتا ہے اور ہم پھر کہے دیتے ہیں کہ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ عین ”لبرل اخلاقیات“ کا اظہار ہے۔ لبرل ازم کا یہ پہلو اس قدر قبیح ہے کہ خود سلیم الطبع اور سنجیدہ لبرل حضرات بھی اس پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔

    کسی بھی نظریے کی طرح یقینا لبرل ازم کے بھی کچھ پہلو اچھے ہوسکتے ہیں، ہمارے دیسی لبرل حضرات اگر ان پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرکے قومی شعور کی کچھ تربیت کرنے کا کام سرانجام دیں تو یہ بھی ایک قابل قدر کام ہوسکتا ہے۔ مگر یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ لنڈے بازار کی لبرل ازم کے فروغ میں ہی قوم کا بھلا دیکھتے ہیں۔ خواتین کے حوالے سے معاشرے میں پائے جانےوالے چند غلط خیالات کا حل ان کے نزدیک گویا یہ ہے کہ کہ لوگ اپنے محرم رشتوں کے جسمانی خدوخیال بیان کرنا شروع کر دیں۔ جس مذہب کی یہ تعلیم ہو کہ محرم تو کجا کسی غیر محرم خاتون کے جسمانی خدوخال کے بارے میں بھی گفتگو کو معیوب قرار دیا گیا ہو، اب اس کے ماننے والوں پر یہ وقت بھی آنا تھا کہ وہ اپنے محرم رشتوں کے بارے میں ایسی لغو گفتگو کرنے کو فروغ دیں گے۔ جس مذہب کا ”ہم سب“ دم بھرتے ہیں، اس کی یہی تعلیمات ہیں کہ غیر لوگوں کے سامنے اپنی ماں بہن کے جسمانی خدوخال بیان کیے جائیں؟ آخر بہن کے جسمانی خدوخال جیسے بےہودہ موضوع پر گفتگو میں ایسی کون سی تخیلقیت یا ترقی کا کون سا راز پنہاں ہے جس کا دفاع کرنے کے لیے کچھ لوگ دیوانے ہوئے چلے جا رہے ہیں؟ کچھ لوگوں کو ہمارے معاشرے کی پسماندگی پر دکھ ہے کہ یہاں تو بہن کے بارے میں سوال ہی ایک گناہ ہے۔ اس پر صرف یہ عرض ہے کہ ہماری روایتی معاشرت کے محلوں میں ”باجی“ بھی ایک بہن ہی کا کردار رہا ہے، جو صرف سگے بھائیوں کی ہی نہیں بلکہ محلے کے دیگر بھائیوں کی بھی ”باجی“ ہوا کرتی ہے، جس کا نام سنتے ہی سر عزت سے جھک جاتے ہیں، جس کے جسمانی خدو خال کا بیان تو کجا اسے نگاہ بھر دیکھنے کو بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم بہن کے کردار کو عزت کے مقام پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں نہ کہ اس قسم کے بےہودہ موضوعات کا موضوع سخن بن جانے کو۔

    پھر کیا وجہ ہے کہ ان حضرات میں سے کسی کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ اس کے دفاع میں رطب و یابس پر مبنی طویل مضامین لکھنے کے بجائے ایک مضمون خود اسی سوال کے جواب پر لکھ مارتے، کہ ان کی اپنی بہن کے جسمانی خدوخال کی نوعیت کیا ہے، تاکہ دوسروں کے لیے وہ ”اسوہ“ بن جاتے؟ اگر بالفرض کسی کی بہن نہیں تو وہ اپنے کسی قریبی دوست کی بہن کے جسمانی خدوخال کے بارے میں یہ سب باتیں لکھ کر اپنا ”لبرل فریضہ“ سر انجام دے لیتا۔ ذرا ”ہم سب“ بھی تو دیکھیں کہ اس فریضے کی ادائیگی کے لیے یہ کس حد تک جانے کی ”اخلاقی جرات“ رکھتے ہیں۔ اور اگر ان میں یہ اخلاقی جرات نہیں تو دوسروں کو یہ سبق پڑھانے کی منافقت بند کی جانی چاہیے۔ رشتوں کے لنڈا بازار پر مبنی لبرل ازم کی یہ خرید و فروخت وہاں کی جائے جہاں نہ تو نقل کی کوئی قدر و قیمت ہے اور نہ ہی عقل کی، جہاں صرف خواہش نفس کے سامنے سجدہ کیا جاتا ہے۔

  • ریڈیوپاکستان میں کام کرنےوالی عروج کی سچی اور دردناک داستان – جمال عبداللہ عثمان

    ریڈیوپاکستان میں کام کرنےوالی عروج کی سچی اور دردناک داستان – جمال عبداللہ عثمان

    جمال عبداللہ عثمان ’’عروج اختر‘‘ کی شادی 19 سال کی عمر میں ہوئی۔ یہ شادی والدین کی مرضی کے بغیر ایک 50 سالہ ادھیڑ عمر ڈاکٹر سے ہوئی۔ شادی کے فوراً بعد شوہر نے نشہ کرنا اور جوا کھیلنا شروع کردیا۔ ’’عروج اختر‘‘ کے شوہر کو آخری عمر میں فالج ہوا اور فالج کے دوران ہی اپنے گزشتہ رویوں پر پشیمان ہوکر عروج کو طلاق دے دی۔ عروج کے مطابق اس طرح وہ اپنی کوتاہیوں کا ازالہ چاہتے تھے۔ ”عروج اختر“ نے مشکل حالات کے باوجود گریجویشن کیا اور ریڈیو پاکستان میں بھی کچھ عرصے تک کام کرتی رہیں۔ وہ اس وقت کراچی میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ یہاں بوجوہ ان کا اصل نام نہیں دیا جارہا۔
    ٭
    ’’میں ایک ایسے گھر میں پیدا ہوئی، جہاں ہمیشہ لڑائی، جھگڑا اور فساد ہی دیکھا۔ میری چار بہنیں تھیں۔ والد صاحب انتہائی سخت مزاج کے مالک تھے۔ خصوصاً مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے بیٹیوں کو کبھی محبت بھری نظر سے دیکھا ہو۔ جس طرح انسان صبح، دوپہر اور شام کو کھانا کھاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے والد ہمیں تین وقت جسمانی سزا ضرور دیتے تھے۔ مجھے کبھی یاد نہیں پڑتا کہ والد نے کسی بیٹی کو پیار کیا ہو۔ وہ اسکول کالج کے بھی مخالف تھے۔ میری ایک ٹانگ پولیو سے متاثر تھی۔ اس کے باوجود اللہ نے بڑا کرم کیا اور میں نے اتنی مشکلات کے ہوتے ہوئے بی اے کا امتحان دے دیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ اسکول میں پڑھایا۔ ریڈیو پاکستان میں مختصر عرصے کے لیے کام کیا۔ لکھنے کا شوق تھا، کچھ رسائل کے لیے لکھا بھی۔ اللہ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا، مگر اس دوران ایک ایسا حادثہ پیش آیا، جس نے زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔‘‘

    ’’یہ ایسا حادثہ ہے جس کی تفصیلات بیان کرنا مناسب نہیں۔ بہرحال! مختصراً یہ بتادیتی ہوں کہ ایک ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی۔ یہ ڈاکٹر کراچی میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کی عمر تقریباً 50 سال تھی۔ یہ پہلے سے شادی شدہ تھے اور بچے وغیرہ بھی تھے، لیکن پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ تعلقات نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان کے ہاں گھریلو ناچاقی چل رہی تھی۔ میری اور ان صاحب کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے تم میں اور کوئی دلچسپی نہیں، بس مجھے تمہارا نام پسند ہے اور میں تمہارے نام کو اپنے نام کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔ میں بھی مسائل اور پریشانیوں میں گھری ہوئی تھی۔ گھر کا ماحول انتہائی گھٹن زدہ تھا۔ ہر وقت لڑائی جھگڑا رہتا تھا۔ اس سے فرار چاہتی تھی۔ لہٰذا اسے سنہرا موقع سمجھا اور بدقسمتی سے ان کی باتوں میں آگئی، فرار کا راستہ اختیار کرلیا۔ یہ صاحب مجھے فیصل آباد سے اپنے شہر کراچی لے کر آئے، اس وقت میری عمر 19 سال تھی۔‘‘

    ’’جب ہم کراچی پہنچے، اس وقت ہمارا نکاح نہیں ہوا تھا۔ ان صاحب نے مجھے ایک رشتہ دار کے گھر رکھا۔ وہاں لوگ مجھے بڑی عجیب نظروں سے دیکھتے تھے۔ شاید وہ مجھے کوئی بہت ہی بری عورت سمجھتے تھے۔ میرے پاس اپنے گھر کے کسی فردکو قریب نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔ خصوصاً لڑکیاں میرے پاس آنے سے بہت ہچکچاتی تھیں۔ جب میں نے ان صاحب سے تذکرہ کیا، انہوں نے اپنے رشتے داروں کو بتایا کہ یہ کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں۔ خاندانی لڑکی ہے۔ حالات کی ترسی ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں آپ لوگ غلط نہ سوچیں۔ اس طرح وہ لوگ مطمئن ہوگئے اور ان کا رویہ بہت بہتر ہوگیا۔ ہم نے وہاں 20، 22 دن گزارے۔ میں اس وقت انتہائی خوفزدہ تھی، کیونکہ میری عمر زیادہ نہیں تھی۔ اس کے بعد وہ صاحب مجھے ایک اور رشتے دار کے گھر لے گئے۔ جہاں میرا نکاح پڑھایا گیا۔ نکاح کے بعد مجھے اپنے گھر لے گئے اور میں نے ایک نئی زندگی میں قدم رکھا۔ میں اُداس تھی، مگر سوچتی تھی والدین کو راضی کرلوں گی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ آسمان سے گرکر کھجور میں اٹک گئی ہوں۔‘‘

    ’’آج اس واقعے کو تقریباً 20 سال ہوچکے ہیں۔ والدین سے اس کے بعد کوئی ملاقات ہوئی نہ ہی رابطہ۔ البتہ کئی بہنوں سے کچھ عرصے بعد رابطہ بحال ہوگیا تھا۔ ایک بھائی باہر ہوتے ہیں۔ ان سے فون پر بات ہوجاتی ہے۔ باقی تمام بہنوں کی شادیاں ہوگئی ہیں۔ سب اپنے اپنے گھروں میں بہت خوش ہیں۔ جو مجھ سے بڑی ہیں، ان کی بھی شادی ہوگئی ہے۔ ان کے جوان بچے ہیں۔ مجھ سے چھوٹی بہن نے کورٹ میرج کی ہے۔ چوتھی نمبر کی بہن یہاں کراچی میں رہتی ہے۔ وہ بھی بہت خوش ہے۔ اللہ نے اسے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ میں سمجھتی ہوں میری بہنوں نے ماں باپ کے گھر میں بہت دُکھ دیکھے اور مصائب جھیلے۔ اللہ نے ان پر بڑا رحم کیا۔ ان کی مشکلات ان کی شادیوں کے ساتھ ختم ہوگئیں۔‘‘

    ’’میں نے اپنے تمام رشتہ داروں اور خاندان سے جھگڑا مول لے کر شادی کی۔ ایک شخص کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑدیا۔ بدقسمتی سے وہ ایسا بدلا جس کا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ چند دن تک ان کا رویہ میرے ساتھ ٹھیک رہا، اس کے بعد ذہنی ٹارچر شروع کردیا۔ انہوں نے ملازمت چھوڑدی۔ میرے پاس جو کچھ تھا، وہ ایک ایک کرکے مجھ سے لے لیا۔ مجھے اس وقت بہت شدید دھچکا لگا جب پتا چلا کہ میرے شوہر نے جوا کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس انکشاف نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی کہ وہ شراب پینے لگے ہیں۔ میں نے اس شخص کی خاطر سب کو چھوڑ دیا تھا۔ اب دنیا میں میرا کوئی نہیں رہا تھا۔ والدین سے رابطے ختم ہوگئے تھے۔ دیگر رشتہ داروں کے ساتھ بھی تعلقات نہ ہونے کے برابر تھے۔ میں نے اتنا بڑا قدم اُٹھایا تھا۔ آج بھی میں سوچتی ہوں کہ 20 سال ہوگئے ہیں، میں نے اپنے والدین کی شکل تک نہیں دیکھی، لیکن جس کی خاطر یہ سب کچھ کیا، اس نے بہت زیادتی کی۔ اچھا صلہ نہ دیا۔ اس نے مجھے ترسایا۔ گھر میں راشن ہوتا نہ سبزی۔ فاقوں پر فاقے ہوتے۔ پڑوس والے کھانے پینے کی اشیا بھیجتے۔‘‘

    ’’میرا خیال ہے کہ میں نے اپنے شوہر کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ وہ شروع سے ہی ایسے تھے۔ محنت سے جی چراتے تھے۔ بیٹھے بٹھائے کچھ مل جائے۔ اسی طرح ملازمت کی اور چھوڑ دی۔ کلینک کھولا اور بند کردیا۔ وہ آرام پسند تھے۔ کبھی ان میں غیرت آجاتی اور کام شروع کردیتے، مگر جلد ہی اپنی ڈگر پر واپس آجاتے۔ میں نے ان کا یہ رویہ بدلنے کی بہت کوشش کی۔ میرے پاس الفاظ نہیں جن کا سہارا لے کر میں بتاسکوں کہ میں نے کتنی کوششیں کیں۔ ظاہر سی بات ہے کون چاہتا ہے کہ اس کا گھر تباہ ہو، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے اندر فریب کاری بہت تھی۔ یہاں وعدہ کیا، آگے جاکر توڑ دیا۔

    آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ جب دُکھ درد اور غموں میں اللہ نے مجھے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ اس وقت میں نے ان سے فیصلہ کن انداز میں بات کی۔ انہیں اپنی عادات اور رویہ بدلنے کے لیے کہا۔ میں نے انہیں بتایا کہ اب آپ پر ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ خدارا! اپنے لیے نہیں، اس ننھی جان کی خاطر ہی اپنے آپ کو بدل ڈالیں۔ اس کا وقتی اثر ہوا۔ انہوں نے جوا اور نشہ چھوڑ دیا۔ ملازمت پر بھی جانا شروع ہوگئے، لیکن ایک دن پتا چلا کہ ملازمت پھر چھوڑدی اور شراب پی کر آ رہے ہیں۔ وہ بالکل مستقل مزاج نہیں تھے۔ اپنا مکان بیچ کر کرائے کے مکانوں میں لیے پھرتے رہتے تھے۔ کہتے تھے میرے بچوں کی تربیت پر اثر پڑے گا۔ آج یہاں، کل وہاں۔ پھر بھی میں ان کے ساتھ زندگی گزارتی رہی، کیونکہ میرے لیے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔‘‘

    ’’میرے ہاں پہلے سالوں میں دو بیٹوں کی ولادت ہوئی، اس کے بعد اللہ نے ایک بیٹی سے نوازا۔ میں نے زندگی میں ہمیشہ دُکھ دیکھے ہیں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ زندگی کا پرمسرت لمحہ کون سا تھا تو میں کہہ سکتی ہوں کہ جب مجھے اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا۔ مجھے بیٹی کی بڑی خواہش تھی۔ جتنی میرے والد کو بیٹیوں سے نفرت تھی، اتنی ہی میری بیٹیوں کی آرزو تھی۔ پھر یہ بھی سنا تھا کہ جس گھر میں ایک لڑکی ہو، اس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ اس لیے میں نے مزاروں پر حاضری دی۔ منتیں مانیں۔ اللہ کے سامنے گڑگڑا کر دُعائیں مانگیں۔ حالانکہ لوگ کہتے تھے تمہاری قسمت میں بیٹی نہیں ہے۔ جب لوگ اس طرح کی باتیں کرتے، میرے دل میں بیٹی کے لیے اور خواہش پیدا ہوتی۔ میں بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتی تھی اور یہی سوچتی تھی کہ لوگ کچھ بھی کہیں، میں اللہ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہوسکتی۔ آج بھی اپنی بیٹی کو دیکھتی ہوں، سکون ملتا ہے۔ سارے غم دور ہوجاتے ہیں۔ میں تمام والدین سے کہتی ہوں کہ بیٹیوں کو کبھی نہ دھتکاریں۔ کبھی انہیں تنہا نہ چھوڑیں۔ ان سے نفرت نہ کریں۔ وہ بہت معصوم ہوتی ہیں۔ بڑی مظلوم ہوتی ہیں۔‘‘

    ’’میرے شوہر کو بچوں سے محبت تھی۔ یہاں تک کہ جب بیٹی کی ولادت ہوئی، انہوں نے ایک بار پھر تمام خرافات سے توبہ کی۔ رمضان کے روزے باقاعدگی سے رکھنا شروع کردیے۔ ملازمت پر جانے لگے، لیکن میں نے بتایا کہ وہ مستقل مزاج نہیں تھے۔ کاہل قسم کے تھے۔ بہت جلدی بہک جاتے تھے۔‘‘

    ’’ایک بار جب میرے شوہر بیمار ہوئے، میری ہمت ٹوٹ گئی۔ میں سوچتی تھی کہ بچوں کو اکیلے کیسے سنبھالوں گی؟ حالات کا مقابلہ کیسے کروں گی؟ کیونکہ میرے شوہر جیسے بھی تھے، بہرحال مرد ایک سہارا ہوتا ہے۔ اس لیے میں اتنی پریشان ہوئی کہ سوچا اب زندگی کا خاتمہ کرلینا ضروری ہے۔ اور ایک بار اس وقت ٹوٹ کر رہ گئی جب میرے شوہر نے میری ساری پروفائل جلادی۔ آخری وقت میں وہ کچھ نفسیاتی ہوگئے تھے۔ اس وقت انہوں نے میری پوری لائبریری اور ڈائریاں بیچ ڈالیں۔ میں نے زندگی بھر اتنی پریشانیوں کے باوجود کتابیں اکٹھی کی تھیں۔ مجھے بہت سی کتابیں تحفے میں ملی تھیں۔ لوگ دولت کماتے ہیں۔ میں نے اپنی دولت کتابوں کو بنایا۔ اس دن میں ان کے رشتہ داروں کے ہاں گئی تھی۔ جب واپس آئی تو پتا چلا کہ اس ظالم نے ایک ہزار پچاس روپے میں میری پوری لائبریری بیچ ڈالی ہے۔‘‘

    ’’اصل میں وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ آخری عمر میں ان کے پورے جسم پر فالج کا حملہ ہوا۔ اس وقت وہ پریشان رہتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں نے تمہیں کچھ نہیں دیا۔ اب تم کہیں اور چلی جائو۔ میں ان سے کہتی کہ جو جوانی کا زمانہ تھا، وہ آپ کے ساتھ گزارا۔ آپ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا، والدین کی شکل بھلادی۔ اب اس دنیا میں میرا کون ہے اور اس عمر میں تین بچوں کے ساتھ مجھے کون قبول کرے گا؟ لیکن وہ کہتے تھے تم کہیں بھی جاؤ، بس مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ وہ چیختے تھے، چلاتے تھے اور بار بار کہتے تھے تم چلی جاؤ، ورنہ میں طلاق دے دوں گا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کس طرح ان حالات کا سامنا کروں، کیونکہ وہ کسی بھی وقت روح کو گھائل کردینے والے یہ الفاظ بول سکتے تھے۔ مجھے ہر وقت یہ خوف لگارہتا تھا۔ اور ایک روز ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے مجھے کئی طلاقیں دیں۔ وہ بار بارکہتے جارہے تھے اب تم چلی جاؤ۔ میں نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ پوری زندگی تمہیں پریشان رکھا۔ دکھ دیے، درد دیے۔ تم مجھے معاف کردینا۔ شاید وہ اس طرح اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘

    ’’میں انہیں اس حال میں کیسے چھوڑکر جاتی؟ وہ بستر پر تھے۔ ان کی حالت خراب تھی۔ وہ خود اُٹھ کر پانی نہیں پی سکتے تھے۔ میری زندگی میں دکھ کا زمانہ یہ بھی تھا کہ طلاق کے باوجود میں نے دو ڈھائی سال تک ان کی خدمت کی۔ میں اپنے اللہ کے حضور بہت روتی تھی اور کہتی تھی اے اللہ! میں انہیں اس حال میں چھوڑکر کیسے چلی جائوں؟ میں کہتی تھی: ’’میرے اللہ! آپ جانتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ میاں بیوی کا کوئی تعلق نہیں رکھ رہی۔ میں بطورِ نرس ان کی خدمت کر رہی ہوں۔‘‘

    میں اس بات پر آج بھی شرمندہ ہوں۔ اپنے آپ کو گنہگار سمجھتی ہوں کہ طلاق کے باوجود ان کے ساتھ دو ڈھائی سال گزارے۔ مگر میں یہی کہہ رہی ہوں کہ انہیں کیسے چھوڑتی؟ اس کے خاندان والے طعنے دیتے کہ جب وہ کسی کام کا نہ رہا، تب اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ میں نے انتقال کے بعد لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے عدت کے ایام گزارے۔‘‘

    ’’میں نے ان کے تمام رشتہ داروں کو بتایا تھا کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دی ہے، لیکن تب بھی میں ہی بری تھی۔ وہ سب یہی سمجھتے تھے کہ شاید میں آخری عمر میں ان سے جان چھڑانا چاہتی ہوں۔ یہی وجہ ہے میں نے مجبوراً عدت کے چار ماہ دس دن بھی گزارے۔ صرف اس لیے کہ کل کہیں لوگ میرے بچوں کو طعنے نہ دیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ چار ماہ دس دن مجھ پر کس اذیت میں گزرے؟ کوئی رات ایسی نہیں آئی جب میں نے انہیں آگ میں جلتا ہوا نہ دیکھا ہو۔ اور جب میں انہیں آگ سے بچانے کے لیے آگے بڑھتی، کوئی اَن دیکھی قوت مجھے زور سے پیچھے دھکیل دیتی۔‘‘

    ’’انتقال سے تین چار ماہ پہلے ان کا نفسیاتی مسئلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ رات کو اُٹھ کر بچوں کا گلا دبانے کی کوشش کرتے۔ وہ کہتے تھے میں ان سب کو قتل کردوں گا۔ جب یہ حال ہوا، میں نے ان کی پہلی بیوی کے بیٹے کو فون کیا۔ انہیں بتایا کہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں۔ آپ خدارا! انہیں کسی ہسپتال لے جائیں یا انہیں اپنے گھر پر علاج کرائیں۔ وہ سرکاری دفتر میں اچھی پوسٹ پر ہوتے ہیں، مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر میں نے ان کے دیگر رشتے داروں کو بلوایا اور پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا کروں، کیونکہ اب یہ بچوں کی جان کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ رشتہ داروں میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ انہیں ’’ایدھی ہوم‘‘ میں داخل کرا دیں۔ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مجبوراً انہیں رشتہ داروں کے مشورے سے ایدھی ہوم میں داخل کرایا۔ تین ماہ بعد ہمیں ان کے انتقال کی خبر ملی۔ میں نے ان کے انتقال کے بعد مجبوراً عدت کی مدت بھی گزاری، تاکہ کل کوئی مجھے طعنہ نہ دے سکے۔‘‘

    ”تب سے لے کر اب تک میں اسی مکان میں رہ رہی ہوں۔ زندگی میں بہت دکھوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بس اب تو اپنی اولاد کی خاطر جی رہی ہوں۔ انہیں دیکھتی ہوں تو ہمت کچھ کچھ بندھ جاتی ہے۔“

    ”میں نے اپنی زندگی سے بس ایک ہی سبق سیکھا ہے اور آپ سے بھی یہی درخواست کر رہی ہوں کہ اسے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔ وہ یہ کہ والدین اپنے بچوں، خصوصاً بچیوں پر کبھی سختی نہ کریں۔ آج اگر میرا یہ برا انجام ہوا ہے تو میں اس کا ذمہ دار اپنے گھر کے حالات اور اپنے والد کے رویے کو سمجھتی ہوں۔ میں آج شاید مشکل میں نہ ہوتی، اگر میں گھر کی مشکلات سے بچنے کے لیے یہ قدم نہ اُٹھاتی۔“

  • کرنسی نوٹوں کی تبدیلی، غریبوں کی موت اور مودی کی مسکراہٹ – ریحان خان

    کرنسی نوٹوں کی تبدیلی، غریبوں کی موت اور مودی کی مسکراہٹ – ریحان خان

    ریحان خان ا آٹھ نومبر کی شام مختلف ٹی وی چینلز سے ایک نادر شاہی اعلان ہوتا ہے کہ پانچ سو روپے اور ہزار روپے کے نوٹ رات بارہ بجے کے منسوخ قرار پائیں گے. اس کے پیچھے کیا حکمتِ عملی اور دانشوری کار فرما تھی، اس سے قطع نظر ہم نے یہ دیکھا کہ ممبئی کے ایک نوجوان کا پورا دن پانچ سو روپے کے نوٹ لے کر اپنی ماں کی لاش کے لیے کفن ڈھونڈنے میں گزر گیا. ایک بوڑھی بھکارن جس کی کل متاع انہی منسوخ شد نوٹوں کے تیس ہزار روپے کے شکل میں تھی، وہ ہارٹ اٹیک سے انتقال کرگئی. جہیز میں دیے جانے والے کیش کے لیے نئے نوٹ دستیاب نہ ہونے پر بیٹی کی ڈولی کی جگہ صدمے میں خودکشی کرلینے والی ماں کی ارتھی اٹھی. جس بچّے کی پیدائش پر اس کے ناز اٹھائے گئے تھے، منسوخ نوٹوں کی وجہ سے بروقت طبّی امداد نہ ملنے پر اس بچّے کا جنازہ اٹھ گیا، کیونکہ ہاسپٹل اسٹاف ڈپازٹ میں منسوخ نوٹ قبول نہیں کررہا تھا جو بعد میں بینک سے تبدیل کیے جاسکتے تھے. وہ ہاسپٹل نوئیڈا کے ڈاکٹر مہیش شرما کا تھا جو حکمراں جماعت کے وزیر ہیں. ممبئی میں نوٹ تبدیل کرانے کےلیے قطار میں کھڑے ایک معمر شہری کی موت واقع ہوجاتی ہے. ایک ہارٹ پیشنٹ کو فوری ادویات کی ضرورت تھی تو میڈیکل اسٹور نے ازراہِ انسانیت اسے ادویات ادھار دیں. یہ انسانیت کی پہلی مثال تھی جو اس افراتفری کے عالم میں سامنے آئی. جب شب و روز کے اس جھمیلے میں لوگ جاں سے گزر گئے، جب چہیتے اپنوں کے ہاتھوں میں دم توڑ گئے، جن کاندھوں پر سر رکھ کر بہن کو رونا تھا، وہاں ماں کی ارتھی رکھ دی گئی.

    %d9%85%d9%88%d8%af%db%8c-1اسی دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی کے حالیہ جاپان دورے کی ایک تصویر میڈیا میں وائرل ہوتی ہے جس میں وہ ساز و سنگ کے ماحول میں ایک رباب کے تاروں کو مضراب سے چھیڑ رہے ہیں اور ایک اطمینان بخش مسکراہٹ ان کے چہرے پر رقص کررہی ہے. اس تصویر کو دیکھ کر ہندوستانیوں کو رومن شہنشاہ نیرو یاد آیا جو سارے شہر کو آگ لگا کر دور کی ایک پہاڑی پر بانسری بجا رہا تھا-اسی طرح وزیرِ اعظم نریندر مودی سارے انڈیا کو نوٹ کھسوٹ کی اس آگ میں جھونک کر جاپان کے کسی نغار خانے میں ساز و سنگ میں مست تھے.

    ان حالات کا ذمّہ دار کون ہے؟
    %d9%85%d9%88%d8%af%db%8c-2ہم حکومت کو اس سے بری کرتے ہیں. یہ حالات ہمارے اجتماعی شعور کا شاخسانہ ہیں. وہ جانیں جو چلی گئیں اس کے لیے ہم میں سکستی انسانیت ذمّہ دار ہے. حکومت وقت نے تو صرف ایسا ماحول بنایا ہے جس میں ہم اپنی چہروں سے مکر و ریا کے نقاب نوچ پھینکنے پر مجبور ہوجائیں. کیا وہ جانیں بچائی نہیں جاسکتی تھیں؟؟ بالکل بچائی جاسکتی تھیں لیکن ہم نے بچائی نہیں. بچّہ مر گیا اور ہم بضد رہے کہ نئے نوٹ لائے جائیں، تب ہی آپریشن شروع کیا جائے گا. جس نوجوان کی ماں کی لاش گھر پہ رکھی ہوئی تھی، اسے کفن نہ دینے والے بھی ہم ہی تھے. ہم جو جانتے ہیں کہ کفن کیوں خریدا جاتا ہے. بچّی کی ڈولی نا اٹھا کر اس کی ماں کو خودکشی پر مجبور کردینے والے بھی ہم ہی تھے. شمشان میں ایک لاش کا انتم سنکسار محض اس لیے نہ ہوسکا کہ پنڈت کو دینے کے لیے میت کے ورثاء کے پاس نئے نوٹ نہیں تھے. وہ پنڈت بھی ہم میں سے ہی ہے اور اس کا رویہ بھی ہمارے اجتماعی رویّے میں ہی شمار ہوتا ہے. وہ اجتماعی رویّہ جو ووٹ دیتا ہے اور حکومت منتخب کرتا ہے، اور یہ ہماری منتخب کردہ حکومت کا فیصلہ ہے جسے ہم نے بلاشرکتِ غیرے اقتدار ایک تھالی میں رکھ کر پیش کیا ہے-.

    لیکن یہ بھی سچ ہے کہ شب و روز بینکوں میں خوار ہونے والے چھوٹے لوگ ہیں. ان میں امیر و کبیر افراد نہیں ہیں. وہ لوگ ہیں جن کی زمینیں اور جائیدادیں چھوٹی ہیں، صبر کا پیمانہ بھی چھوٹا ہے. جن کا سرمایہ کم ہے، جو بلیک منی نہیں رکھتے، جنہوں نے تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بنایا ہے، جب اسی آشیانے پر برق کے سائے دیکھے تو لرز اٹھے اور کچھ جاں سے گئے. ان کو ہراساں کرکے حکومت یہ سوچتی ہے کہ وہ کالے دھن کو واپس لا رہی ہے، وہ کالا دھن جو سوئس بینکوں میں موجود ہے، وہ کالا دھن جوگولڈ کی شکل میں امراء و رؤساء کی محفوظ تجوریوں میں رکھا ہوا ہے، وہ کالا دھن جو ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں لگا ہوا ہے، وہ کالا دھن جس سے اپنے ملازمین کے نام پر زمینیں خریدی گئی ہیں. کالے دھن کو ان شکلوں میں محفوظ رکھنے والے بنیوں کا کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کا عمل کیا بگاڑ سکتا ہے؟ عام آدمی کا دیوالیہ نکال دینے والی سرکار کے چہیتے اور کروڑوں کا قرض لے کر ملک چھوڑ دینے والے وجے مالیا کا نوٹوں کی تبدیلی کے اس عمل سے کیا بگڑ گیا؟ کیا آئی پی ایل میں کروڑوں کی ہیرا پھیری کرنے کے بعد ملک سے فرار ہوجانے والا للت مودی اس سے باخبر بھی ہے کہ ہندوستان میں کرنسی تبدیل ہوگئی ہے؟

    جہاں بلیک منی میں اضافہ جاری رکھنے کے ساتھ محفوظ رکھنے کے اتنے طریقے ہیں، کیا بلیک منی رکھنے والے اس بنیے اور سیٹھیے اس سے لا علم ہیں؟ اگر کوئی اس کے باجود بھی بلیک منی کرنسی کی شکل میں رکھتا ہے تو اس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہے، اور انہیں بےوقوفوں کےلیے ایک بےوقوف گورننس سے اتنا سخت اور بےوقوفانہ فیصلہ لیا ہے، جس کی زد میں ملک کا مفلوک الحال اور مڈل کلاس طبقہ آگیا ہے، اور حکومت اس فیصلے پر پشیمان ہونے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے اپنی پیٹھ تھپتھا رہی ہے.

    کاش ہمارا پرائم منسٹر کوئی پڑھا لکھا اور اہل و عیال والا شخص ہوتا جو بیٹی کی ڈولی کی جگہ اس کی ماں کی ارتھی کو کاندھا دینے والے، ماں کی لاش کے لیے کفن ڈھونڈنے والے اور بچّے کا علاج نہ کروا پانے والوں کا درد سمجھ سکتا-

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت – آخری قسط – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت – آخری قسط – ریحان اصغر سید

    بیڈ پر میرے مختلف خواتین کے ساتھ خلوت میcں گزارے لمحات کی تصاویر تھیں۔ یہ سب عورتیں چونکہ پیشہ ور ہوتی تھیں، اس لیے ہر دوسری تصویر میں مختلف عورت نظر آ رہی تھی۔ سب تصویریں میرے فلیٹ کے بیڈ روم کی ہی تھیں۔ یقیناً میرے بیڈروم میں خفیہ کیمرے نصب کیے گئے تھے جن سے میں بالکل بے خبر رہا تھا۔ ولی خان نے نے کھنکار کر مجھے متوجہ کیا تو میں چونکا۔
    مخل ہونے پر معذرت چاہتا ہوں سر۔ لیکن مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ کہیں آپ ان ہوشربا تصویروں کے نظارے میں کھو کر اپنی فلائٹ ہی نہ مس کر دیں۔
    دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے انتہائی شائستہ لہجے میں اردو بولتا یہ نوجوان اس ولی خان سے بلکل مختلف تھا جسے میں جانتا تھا۔
    آپ کو دکھانے کے لیے میرے پاس کچھ اور بھی ہے سر۔
    یہ کہہ کر ولی خان نے جیب سے ایک پیپر نکال کر مجھے پکڑایا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اسے کھول کر دیکھا تو وہ میری خالہ زاد شمسہ سے میرے نکاح نامہ کی فوٹو کاپی تھی۔ میں بےاختیار بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔
    سیگریٹ لیں گے سر؟ ولی خان نے انتہائی مہنگے برانڈ کے سیگریٹ کی ڈبی اور ایک قیمتی نظر آنے والا لائٹر نکالتے ہوئے مصنوعی ادب سے کہا۔
    میں نے بے اختیار انکار میں سر ہلا دیا۔ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ولی خان نے اپنے عیاری سے بازی پلٹ دی ہے۔ میں خود بھی قصوروار تھا، نہ میں بہکتا اور نہ آج میں ولی خان کے سامنے یوں شرمندہ ہوتا۔
    آپ کی مرضی ہے سر۔۔! آپ میرے مالک بھی ہیں اور بہنوئی بھی، عزت تو پھر دینی ہی پڑتی ہے آپ کو۔ اگرچہ آپ اس عزت کے قطعاً لائق نہیں ہیں۔
    ولی خان کے لہجے میں طنز کی کاٹ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
    تم کیا چاہتے ہو ولی؟
    ھا ھا ھا ۔۔! چلیں کسی کو تو خیال آیا کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ کاش کے کوئی پوچھے کے مدعا کیا ہے۔۔ اور جہاں تک چاہنے کی بات ہے،
    ہم آپ کا لاکھ برا چاہیں کیا ہوگا
    وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا
    ولی خان میری بے بسی اور صورتحال سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہا تھا۔
    ولی میں فلائٹ سے لیٹ ہو رہا ہوں۔ مجھے دو ٹوک الفاظ میں بتاؤ، تمہاری ان گھٹیا حرکات کا مقصد کیا ہے۔
    ولی کے چہرے پر کچھ سنجیدگی کے تاثرات ابھرے۔ اس نے اپنی جیب سے مڑے تڑے کاغذات نکالے۔
    سر یہ طلاق نامہ ہے۔ آپ کو اس پر دستخط فرمانے ہیں۔ یہ میں کچھ عرصہ پہلے بھی لے کر حاضر ہوا تھا۔ تب آپ نے میری بات کو قابل اعتنا نہیں سمجھا تھا، تب سے میں اسے جیب میں ڈالے گھوم رہا ہوں کہ کبھی نہ کبھی تو آپ شفقت فرمائیں گے۔
    میں نے بے خیالی میں طلاق نامہ پکڑ لیا اور خالی خالی نظروں سے اسے تکنے لگا۔
    میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے لارڈ صاحب۔۔! کن سوچوں میں گم ہو۔ آج میں تمہیں کوئی دوسرا آپشن نہیں دوں گا، اور کوئی دوسرا آپشن ہے بھی نہیں تمہارے پاس۔ جب تمہارے ان کرتوتوں کے ثبوت بیگم صاحبہ کے پاس پہنچیں گے تو وہ جو تمہارا حشر کریں گی، تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کتے کی طرح ذلیل ہونے سے بہتر ہے کہ چپ چاپ طلاق نامے پر دستخط کر دو! میں بڑے صاحب سے کہہ کر تمیں کچھ پیسے بھی دلوا دوں گا، یورپ یا امریکہ کی طرف نکل جانا زندگی بن جائے گی تمہاری۔
    ولی کے الفاظ کوڑوں کی طرح میری سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں ٹوٹ کر پاش پاش ہو جاؤں گا۔
    مجھے تھوڑا وقت دو ولی۔! یہ اتنا آسان نہیں ہے میرے لیے۔ میں طلاق نامے پر دستخط کر دوں گا لیکن کچھ عرصے بعد، مجھے کچھ سوچنے کا موقع تو دو۔ تمہیں بڑے صاحب کا واسطہ ! میں بول رہا تھا مگر مجھے خود بھی اپنی آواز اجنبی لگ رہی تھی۔
    ولی کے چہرے پر نرمی اور کچھ سوچ بچار کے تاثرات نمودار ہوئے۔
    کتنی مہلت درکار ہے تمہیں؟ اس نے پینسل کو واپس اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
    تین ماہ۔۔ تین ماہ دے دو مجھے؟
    تین ماہ تو بہت زیادہ ہیں۔ میں تمہیں ایک ماہ کی مہلت دیتا ہوں۔ اس کے بعد تمہیں ہر صورت میں اس طلاق نامے پر دستخط کرنا ہوں گے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ تم اپنے وعدے کی ویڈیو ریکارڈنگ کرواؤ گے۔
    میں ایک دفعہ پھر ولی کی عیاری کا قائل ہو گیا۔ وہ میرے ہاتھ پاؤں بالکل ہی باندھ دینا چاہتا تھا۔
    ویڈیو ریکارڈنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خان۔۔ تمہیں میری زبان پر اعتبار کرنا چاہیے۔ میں نے آخری کوشش کے طور پر کہا۔
    الیاس خان تم بھول رہے ہو کہ بڑے صاحب کی ایک کال پر تمہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ پھر سڑتے رہنا یہاں جیل میں اور بیٹھے رہنا تصور جاناں کیے ہوئے۔ تمہارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ میں کیمرہ آن کر رہا ہوں۔ ولی خان نے کیمرہ آن کر کے ویڈیو ریکارڈنگ شروع کر دی۔
    میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ میں نے کیمرے کے سامنے اعتراف کیا کہ میرا پہلے بھی نکاح ہو چکا ہے اور میں نے یہ بات چھوٹی بیگم صاحبہ سے چھپائی ہوئی تھی۔ میں نے یہ بھی اقرار کیا کہ میں یہاں رنگ رلیاں مناتا رہا ہوں اور چھوٹی بیگم صاحبہ سے بے وفائی کا مرتکب ہوا ہوں۔
    یہ ویڈیو ریکارڈنگ ولی کی ڈکٹیشن میں مکمل ہوئی۔ اگلے کچھ گھنٹے بعد میں ٹیکسی پر ابوظہبی ائیرپورٹ کی جانب جا رہا تھا۔ اپنی کار میں نے فلیٹ کی بلڈنگ تلے واقع زیر زمین پارکنگ میں ہی چھوڑ دی تھی۔ میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا اور میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ میں چھوٹی بیگم صاحبہ کے قابل ہی نہ تھا۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا تھا مگر آج ولی خان نے مجھے تصویریں دکھا کر میری انا کے پندار کو جو چوٹ پہنچائی تھی، میں ان سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کا حسین و جمیل چہرہ اور ان کی مہربانیاں یاد آتی رہیں اور میرا دل کٹتا و خون کے آنسو روتا رہا۔ میرے لیے یہ تصور ہی سوہان روح تھا کہ چھوٹی بیگم صاحبہ جیسی معصوم اور پاک خاتون میری وہ تصویریں دیکھے۔
    کراچی ائیرپورٹ پر اتر کر میں اپنے خالہ زاد کزن کے گھر چلا گیا۔ اس کا نام شبیر تھا۔ شبیر نے ہی مجھے بڑے صاحب کے پاس نوکری دلوائی تھی۔ میں نے شبیر کو یہی بتا رکھا تھا کہ مجھے بڑے صاحب نے ترقی دے دی ہے اور مجھے ابوظہبی بھیج رہے ہیں۔ وہاں سے ڈھیر سارے پیسے اکھٹے کر کے لاؤں گا تو شمسہ کو رخصت کر کے ساتھ لے جاؤں گا۔
    شبیر کے سامنے سچ بولنے کی ہمت و جرات مجھ میں نہ تھی۔ اتفاق سے شبیر اور شمسہ کی ماں بھی کراچی آئی ہوئی تھیں۔ وہ مجھے دیکھ کر کھل اٹھیں اور میری بلائیں لینے لگیں۔ وہ جلد سے جلد شمسہ کی رخصتی چاہتی تھیں، میں ہوں ہاں کرتا رہا اور پھر نیند کا بہانہ کر کے اٹھ گیا۔ اگلے دن صبح سویرے میں بڑے صاحب کے بنگلے میں جا پہنچا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے پورچ میں آ کر میرا استقبال کیا۔ وہ ٹریک سوٹ میں ملبوس تھیں اور ابھی جاگنگ کر کے لوٹی تھیں۔ پسینے کے قطرے ان کے صبیح چہرے پر موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔
    واؤ! گریٹ۔۔ یو آر لکنگ ہینڈسم ۔۔! انھوں نے مسرت سے مجھے چاروں طرف گھوم کر دیکھا۔ ان کے چہرے پر شوخی کے تاثرات تھے۔
    آپ تو جینٹل مین بن کر آئے ہیں۔ اگر آپ کو ایک چکر لندن کا بھی لگوا دیا جائے، پھر تو آپ ہیرو ہی لگیں گے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ بہت خوش لگ رہی تھیں اور ان کی خوشی دیکھ دیکھ کر میرا احساس زیاں بڑھتا جا رہا تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے ناشتہ میرے ساتھ ہی کیا۔ وہ بلڈنگ کولیپس والے حادثہ پر مجھے حوصلہ دیتی رہیں اور دلجوئی کرتی رہیں۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ مجھے ہمراہ لے کر بڑے صاحب کے سامنے پیش ہوئیں۔
    بڑے صاحب ابھی نائٹ گاون میں ملبوس اخبارات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ انھوں نے سرسری سے نگاہوں سے مجھے دیکھا اور بیٹھے بیٹھے نیم دلی سے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
    میں دونوں ہاتھوں سے بمشکل ان کی انگلیوں کی پوروں کو ہی چھو پایا۔
    سیٹھ صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ان کی نظریں بدستور اخبار پر ہی تھیں۔ کمرے میں ایک بوجھل خاموشی کا راج تھا۔ میں اور چھوٹی بیگم صاحبہ چپ چاپ بڑے صاحب کو دیکھتے رہے۔ آخر بڑے صاحب نے اطمینان سے اخبارات کا مطالعہ کیا۔ اپنی عینک اتار کر کیس میں رکھی۔ اس دوران ملازمہ ہمارے سامنے چائے کے کپ رکھ گئی تھی۔
    سیٹھ صاحب نے اپنا کپ اٹھا کر چائے کی چسکی لی اور میری طرف متوجہ ہوئے۔
    ابوظہبی میں تمہاری نااہلی اور غفلت کی وجہ سے کمپنی کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔ اس پر مستزاد کہ تم بغیر بتائے وہاں سے بھاگ آئے ہو جیسے کہ وہ تمہیں کل ہی گرفتار کر کے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا جیسا تم سوچ رہے تھے۔ خیر جو ہوا وہ ماضی تھا۔ تم اپنے پہلے امتحان میں بری طرح ناکام رہے ہو لیکن ابھی بھی میں مکمل طور پر تم سے ناامید نہیں ہوں۔ میں تمہیں مزید مواقع بھی دوں گا۔ تم کلفٹن والے فلیٹ میں واپس چلے جاؤ۔ آرام کرو، اطمینان سے سوچو کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ تم جو بھی کام کرنا چاہتے ہو بلاجھجک کرو۔ سرمایہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔
    چائے ختم کر کے میں باہر نکلا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ مجھے چھوڑنے پورچ تک آئیں۔
    آپ واپس کیسے جائیں گے؟ آپ اس طرح کیجیے کہ میری ہنڈا لے جائیے۔ کل تک ہم آپ کو آپ کی پسند کی کار دلوا دیں گے۔ تب تک ہماری کار کو خدمت کا موقع دیجیے۔
    لیکن بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔
    لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔! ہمارے پاس گاڑیوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ اطمینان سے ہماری کار لے جائیے۔
    میں نے ہنڈا میں بیٹھ کر بیک گئیر لگایا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا جو ابھی تک سیڑھیوں میں کھڑی مجھے دیکھ رہی تھیں۔
    کچھ دیر ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔۔۔۔۔ پھر وہ آہستہ آہستہ چلتی میرے پاس آئیں۔ ان کے چہرے پر تشویش اور خوف کے ہلکے سے تاثرات تھے۔
    الیاس ! آر یو اوکے،، کیا ہوا ہے آپ کو؟؟ آپ اتنے اتنے بجھے بجھے اور سیڈ کیوں لگ رہے ہیں۔
    میرے چہرے پر ایک پھیکی سے مسکراہٹ دوڑ گئی۔ میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گا، سب کچھ۔۔ بس تھوڑی سی ہمت جمع کر لوں۔
    یہ کہنے کے بعد میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو حیران و پریشان چھوڑ کر تیزی سے گاڑی دوڑاتا نکل آیا۔
    اب کلفٹن کا فلیٹ تھا، میں تھا اور سوچیں تھیں۔ بڑے صاحب کے رویے سے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ابھی تک میری حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں مگر یہ ان کی اداکاری بھی ہو سکتی تھی۔
    اگلے دن پھر ولی خان آ دھمکا۔
    ابھی پینتالیس دن نہیں ہوئے۔۔! میں نے اس کے لیے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
    میں یہاں تمہاری منحوس شکل دیکھنے نہیں آیا اور نہ ہی مجھے کوئی ایسا شوق ہے۔ میں صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ چھوٹی بیگم صاحبہ سے دور رہنا۔ میں تمہارا غلیظ سایہ بھی ان کے آس پاس نہیں دیکھنا چاہتا۔
    ولی خان ! میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو ڈنر پر لے کر جانا چاہتا ہوں۔ میں انھیں اپنے بارے میں سب سچ بتانا چاہتا ہوں، جب ڈنر ختم ہوگا تو ہم میاں بیوں نہیں ہوں گے۔ میں نے ولی خان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
    ولی خان نے چونک کر مجھے دیکھا اور کچھ دیر سوچ کر بولا،
    لیکن میں آس پاس ہی رہوں گا۔
    شام کو میں نے بال بنوائے، شیو کی اور اپنا سب سے خوبصورت سوٹ پہنا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے پسندیدہ پرفیوم میں نہا کر ایک فائیو سٹار ہوٹل پہنچا۔
    کچھ دیر بعد ولی خان بھی چھوٹی بیگم صاحبہ کو لے کر پہنچ گیا۔ وہ ہم سے کچھ دور ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے لانگ سکرٹ پہن رکھا تھا۔ ہاف سلیف بازو اور گلے میں موتیوں کا نیکلس۔ وہ اتنی پیاری لگ رہی تھیں کہ ان پر نظر کا ٹھہرنا مشکل تھا۔
    تھنک گاڈ ! آپ کو بھی ہمارا خیال آیا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے میری نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے مینیو کارڈ اٹھاتے ہوئے کہا۔
    ڈنر کرتے ہوئے میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو ہنساتا رہا اور وہ کھلکھلا کر ہنستی رہیں۔ کچھ دور ولی خان بظاہر اپنے لیپ ٹاپ میں مگن کافی کے کپ پر کپ پیتا چلا جا رہا تھا اور بے نیاز نظر آنے کی کامیاب کوشش کر رہا تھا۔ ڈنر کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ کی پسندیدہ آئس کریم منگوائی گئی۔
    یہ میری زندگی کے سب سے مشکل لمحات تھے۔ میں نے جیب سے ایک جیولری کیس نکال کے چھوٹی بیگم صاحبہ کو پیش کیا۔ اس میں گولڈ کا ایک کڑا تھا جس میں سستے سے پتھر جڑے تھے۔ بیگم صاحبہ یہ تحفہ میں نے ان پیسوں سے خریدا ہے جو میں نے محنت مزدوری کر کے بڑی مشکل سے اپنی شادی کے لیے جوڑے تھے، اس میں بڑے صاحب کا دیا ہوا ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں یہ آپ کے شایان شان نہیں ہے لیکن میں صرف اس کا ہی بندوبست ہی کر پایا ہوں۔ اس کو نہ صرف قبول کیجیے بلکہ مجھ سے وعدہ کیجیے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے آپ اسے کبھی خود سے جدا نہیں کریں گی۔
    معمولی سا کنگن پا کے بھی بیگم صاحبہ کی خوشی دیدنی تھی۔ انھوں نے کنگن کلائی پر پہنتے ہوئے وعدہ کیا کہ اب اسے میری موت کے بعد غسل دینے والی ہی اتارے گی۔میں دل کو پتھر کر کے آیا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں نے جتنا رونا تھا، رو چکا ہوں، مگر اب چھوٹی بیگم صاحبہ کے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھ کر مجھے اپنے حوصلے ٹوٹتے محسوس ہو رہے تھے۔
    ہم ایک قدرے نیم تاریک گوشے میں بیٹھے تھے۔ کینڈل لائٹس میں چھوٹی بیگم صاحبہ کا چہرہ افسانوی منظر پیش کر رہا تھا اور ان کی بڑی بڑی کالی آنکھوں کی چمک ہیروں کو ماند کرتی تھی۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ ۔۔۔۔ ! میں۔۔۔ آج۔۔۔۔۔ آپ کو ۔۔۔۔۔ اپنے بارے میں کچھ ایسی باتیں،،،، بتانا چاہتا ہوں جن سے آپ ابھی تک لاعلم ہیں۔ کچھ غلطیاں ہیں جن کا اعتراف کرنا ہے اور کچھ گناہ ہیں جن کی سزا پانی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میری باتیں تحمل سے سنیں اور انھیں سمجھیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کے چہرے پر کچھ گھمبیرتا کے اثرات نمودار ہوئے۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔ میں نے آپ کو اپنے ماضی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا لیکن یہ نہیں بتا سکا۔۔۔۔ کہ میرا نکاح کچھ سال پہلے میری خالہ زاد سے بھی ہو چکا ہے۔۔ اگر میرا نکاح آپ سے نہ ہوتا تو اس گزرے مارچ اپریل میں ہمارے شادی ہو جاتی۔
    میں نے بمشکل نظریں اٹھا کر چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھا۔۔ چہرے پر ہلکا سا تغیر، آنکھوں میں نمی کی چمک دیکھ کر میں نے گھبرا کر دوبارہ نظریں جھکا لیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔۔ ہم چھوٹے دیہات میں رہنے والے لوگوں کی کچھ محرومیاں اور کمپلیکس ہوتے ہیں، جو ساری عمر ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ آپ سے نکاح کے بعد میں ایک دن بھی حق ملکیت کا احساس لیے، سکون سے نہیں سو پایا۔ ہر صبح کا آغاز اس خدشے سے ہوا کہ آپ کو مجھے سے چھین لیا جائے گا یا پھر میں اپنی کمزوری کے باعث آپ کو کھو دوں گا۔۔ کاش آپ احساس کرتیں کہ غلام غلام ہوتے ہیں، مالک اور محبوب نہیں بن سکتے۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔۔ ابو ظہبی،،،، اچھا شہر نہیں ہے۔۔۔۔ ابوظہبی میں ایسی جگہیں ہیں جہان بسنے والی ڈائنییں پردیسیوں سے ان کے خواب، مان اور ان کے محبوب چھین لیتی ہیں۔
    میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ تو پہلے ہی بے آواز رو رہی تھیں۔
    میں آپ کا مجرم ہوں۔ میں نے آپ کو دھوکہ دیا۔ میں اپنے سارے جرائم تسلیم کرتا ہوں اور سزا کا طلب گار ہوں اور میری سب سے بڑی سزا تو یہی ہے کہ میں آپ کو ہمیشہ کے لیے کھو دوں۔ میں نے آنسو پونجھ کر جیب سے طلاق نامہ نکالا۔
    یہ کیا ہے ؟ بیگم صاحبہ کچھ چونکی۔
    انھوں نے میرے ہاتھ سے طلاق نامہ چھین کر دیکھا۔ ان کی آنکھوں اور چہرے میں شدید حیرانی کے تاثرات تھے۔
    آپ۔۔ آپ ہمیں طلاق دینا چاہتے ہیں؟ ان کے لہجے میں اتنا درد تھا کہ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔۔
    الیاس! آپ نے جو کچھ کیا ہے، وہ آپ کا فعل ہے۔ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا۔۔ آپ نے ہم سے محبت کی وجہ سے اپنا نکاح ہم سے چھپایا، ہمیں اس جھوٹ کا کوئی دکھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ سے کوئی بھول ہو چکی ہے تو ہم آپ کو معاف کرتے ہیں لیکن آپ کی اس بے وقوفی پر آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ہمارا رشتہ اتنا کچا تھا کیا؟ آپ کون ہوتے ہیں اکیلے ہمارے بارے میں فیصلہ کرنے والے۔۔
    ہمیں بتائیے؟؟
    بے آواز آنسو چھوٹی بیگم صاحبہ کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں کچھ دیر مزید انھیں دیکھتا رہا تو پتھر کا ہو جاؤں گا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ! میں آپ کی غلامی کے قابل نہیں ہوں۔ میں اپنی نظروں سے گر چکا ہوں۔ آپ کی خاطر جان دے سکتا ہوں مگر اب آپ کو مزید دھوکہ نہیں دے سکتا۔ آپ سے میری محبت کا تقاضا یہی ہے کہ میں آپ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤں۔ شمسہ میرا انتظار کر رہی ہے بیگم صاحبہ۔۔
    بیگم صاحبہ روتی رہیں اور انکار میں سر ہلاتی رہیں۔
    میں انھیں ہر طریقے سے سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا۔ وقت گزرتا چلا جا رہا رہا تھا۔ بیگم صاحبہ کی آنکھیں مسلسل رونے سے سوج کر بوٹی کی طرح لال ہو رہی تھیں۔
    الیاس! ہم نے ساری دنیا کی مخالفت مول لے کر آپ سے نکاح کیا۔ ہمیں مت چھوڑئیے۔ ہم ساری عمر بابا اور ولی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ فار گاڈ سیک ہمیں ہماری نظروں سے مت گرائیے۔ ہمارا انسانیت اور انسانوں سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ ہم مر جائیں گے۔۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ پر آپ کی فیملی کا دباؤ ہے۔ آپ نے شمسہ سے شادی کرنی ہے تو ضرور کیجیے مگر ہمیں طلاق مت دیجیے۔
    ہم ساری عمر آپ کے نام پر بیٹھے رہیں گے اور کبھی آپ کے سامنے نہیں آئیں گے۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہمارے ساتھ اس طرح مت کیجیے۔
    رو رو کر چھوٹی بیگم صاحبہ کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ میں نے تیزی سے جیب سے پینسل نکال کر طلاق نامے پر دستخط کیے اور اپنے آنسو پونچھتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
    بیگم صاحبہ لپک کر میرے پیروں سے لپٹ گئیں۔
    جانے میرے اندر اتنی درندگی اور وحشت کہاں سے عود آئی۔ میں نے انھیں کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور تین بار کہا۔
    لائبہ بی بی میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں۔۔۔!
    اف خدایا ۔۔۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کا وہ چہرہ ۔۔۔
    اس کے بعد میں پلٹا اور تیزی سے چلتا ہوا ہوٹل سے نکل آیا۔ بیگم صاحبہ کی کار میں نے ہوٹل میں ہی چھوڑ دی تھی۔ جانے وہ رات اور اس کا اگلا دن میں نے کہاں اور کیسے گزارا۔۔
    میں چلتا رہا۔۔ چلتا رہا۔۔۔ جانے کہاں بیٹھتا رہا، کہاں گرتا رہا۔۔ میرے دماغ میں چھوٹی بیگم صاحبہ کی آوازیں اور سسکیاں گونجتی رہیں۔
    دو تین بےخودی میں گزارنے کے بعد میں اپنے کزن کے فلیٹ پر لوٹ گیا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور میرے دل کے زخم مندمل ہو رہے تھے۔ ولی خان چاہتا تھا کہ میں کچھ پیسے لے لوں اور پاکستان سے چلا جاؤں۔
    میں نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ اس سے بہتر میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
    میں کراچی میں رہنا بھی نہیں چاہتا تھا اور اسے چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے ہوئے محض وقت گزار رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کو طلاق دیے مجبھے تین ماہ ہونے کو آئے تھے۔
    میں ایک فیکٹری میں نائٹ ڈیوٹی کر کے اپنے کوارٹر کی طرف پیدل ہی جا رہا تھا کہ ایک سوزوکی کیری کے ٹائر میرے پاس پہنچ کر چرچرائے۔ گاڑی میں اسلحہ بردار داڑھیوں والے سخت مشکوک قسم کے لوگ سوار تھے۔ ایک نے اپنی بندوق مجھ پر تانی اور دوسرے نے مجھے کھینچ کر سلائیڈنگ دروازے سے گاڑی کے فرش پر گرا دیا۔ کچھ دیر بعد میں ہاتھ پاؤں بندھوائے گاڑی کے فرش پر پڑا تھا اور گاڑی کسی انجان منزل کی طرف اڑی چلی جا رہی تھی۔
    ان لوگوں نے میرے اوپر ایک ترپال سا ڈال دیا تھا۔ اب یقیناً باہر سے دیکھنے والوں کو یہی لگ رہا ہو گا کہ گاڑی کے فرش پر سامان پڑا ہے۔ میں چپ چاپ گاڑی کے فرش پر الٹا لیٹا رہا۔ ان دنوں میں جس ذہنی کفیت میں تھا زندگی بہت حد تک اپنی اہمیت کھو چکی تھی۔ کافی دیر بعد گاڑی ایک جگہ پر جا کر رکی۔ ہارن بجایا گیا اور ایک بھاری گیٹ صدائے احتجاج بلند کرتا ہوا کھل گیا۔ گاڑی اندر داخل ہو گئی۔
    لگنے والے جھٹکوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ کوئی کچا احاطہ سا ہے۔ کہیں پاس ہی سے ویلڈنگ کٹر کے چلنے کی آواز آ رہی تھی، ہو سکتا ہے یہ کوئی ورکشاپ ہو۔ مجھے اتارنے سے پہلے میرے سر پر ایک کالا تھیلا سا چڑھا دیا گیا۔ جس سے میں بالکل ہی اندھا سا ہو گیا تھا۔ میرے میزبان پشتو بول رہے تھے۔ ایک آدمی میرا ہاتھ پکڑے مجھے ٹھوکریں لگواتا کسی عمارت کے اندر لے گیا۔ پھر ہم سیڑھیاں اترے میں نے ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔ آخر مجھے ایک کرسی پر بیٹھا کے میرے چہرے سے کالا تھیلا اتار دیا گیا۔ آنکھوں کو روشنی سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگا۔ میرے ہاتھ بدستور پشت پر بندھے تھے۔ میرے سامنے چھوٹی چھوٹی حضاب لگی کالی داڑھی والا آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے بغور دیکھا، پھر پشتو میں میری پشت پر کھڑے مجھے لانے والے آدمی سے کچھ سوال جواب کیے۔ پھر میری پشت پر کھڑا آدمی ایک بغلی کمرے میں غائب ہوگیا، جب وہ لوٹا تو اس کے ساتھ تین آدمی اور تھے۔ ان تینوں کے ہاتھ بھی کمر پر بندھے ہوئے تھے اور وہ صرف شلواروں میں ملبوس تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
    یہی ہے وہ شخص؟
    میرے سامنے بیٹھے شخص نے ان تینوں سے مخاطب ہو کے پوچھا۔ ان تینوں نے مجھے غور سے دیکھا پھر باری باری انکار میں سر ہلا دیا۔ میرے سامنے بیٹھا شخص اب کچھ حیران تھا اور مجھے لانے والے پریشان۔ وہ آپس میں تیز تیز باتیں کر رہے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھے غلطی سے کسی اور کی جگہ اُٹھا لائے ہیں۔ میں لاتعلقی اور بیزاری سے بیٹھا ان کے منہ دیکھتا رہا۔ آخر ان تین آدمیوں کو واپس اسی بغلی کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ میرے سامنے بیٹھا کالی داڑھی والا شخص جو بظاہر ان سب کا باس لگتا تھا، سگریٹ کے کش لیتے ہوئے مجھے دیکھتا رہا۔ اس نے میرا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس کا موقف تھا کہ اس کے آدمی مجھے غلطی سے اُٹھا لائے ہیں تو یہ سراسر میرا قصور ہے۔ مجھے کیا ضرورت تھی کہ ان کے مطلوبہ شخص جیسی شکل لے کر دنیا میں آنے کی۔۔ اگر آ ہی گیا تھے تو کہیں اور چلا جاتا، کراچی کے علاوہ اور بھی تو بہت سے شہر ہیں۔ مزید یہ کہ مجھے واپس چھوڑنے جانے سے آسان کام یہی ہے کہ قتل کر کے تین چار درجن دیگر مقتولوں کی طرح یہی گاڑ دیا جائے۔ مجھے ذاتی طور پر تو اس کی تجویز پر کوئی خاص اعتراض نہیں تھا لیکن اپنے بوڑھے والدین کا خیال مجھے بے چین کر رہا تھا۔ آخر کار باس کے چہرے پر نرمی کے کچھ آثار نمودار ہوئے اور اس نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے پیشکش کی کہ اگر میں اسے دو لاکھ کا بندوبست کر دوں تو مجھے زندہ واپس بھیجنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ میری جیب میں صرف چند سو روپے تھے۔ اس لیے مجھے بھی ایک کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ یہ جگہ کسی نجی جیل جیسی تھی، یہاں شاید اغوا برائے تاوان کے قیدیوں اور دشمنوں کو رکھا جاتا تھا۔ اکثر آنے والوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔ میں فی الحال تو مار پیٹ سے بچا ہوا تھا۔ تیسرے دن پھر مجھے باس کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا کیا ارادہ ہے؟ کیوں کہ اس کے پاس فالتو روٹیاں نہیں ہیں مجھے کھلانے کے لیے۔ حالانکہ مجھے تین دن میں صرف تین خشک روٹیاں دی گئی تھیں بغیر پانی اور سالن کے۔ اس دنیا میں ایک ہی ایسی ہستی تھی جو میرے لیے یہ پیسے بھر سکتی تھی، میں نے کافی سوچ بچار کے بعد اس کو چھوٹی بیگم صاحبہ کا نمبر دے دیا۔۔ کون ہے یہ؟
    باس نے اپنے سستے سے سیل پر نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا۔
    میری مالکن ہے۔ مجھے امید ہے میرے پیسے دے دی گی۔
    دوسری طرف سے کال ریسو کر لی گئی۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔ باس نے بتایا کہ آپ کا ڈرائیور الیاس ہمارے پاس ہے۔ دو لاکھ دے کے اس کی جان بخشی کروائی جا سکتی ہے۔ لو اس سے بات کرو۔ باس نے مجھے فون پکڑایا۔
    ہیلو، میں بمشکل بولا۔
    الیاس آپ کہاں ہیں؟ یہ شخص کون ہے؟ یہ کہہ رہا ہے آپ اس کے قبضے میں ہو؟
    اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا، باس نے مجھ سے سیل فون چھین لیا اور مجھے کال کوٹھڑی میں واپس بھیج دیا گیا۔ اس کے کچھ گھنٹے بعد ہی ایک کارندے نے بتایا کہ میرے پیسے مطلوبہ مقام تک پہنچا دیے گئے۔۔ مجھے آج رات چھوڑ دیا جائے گا۔
    رات کو مجھے دوبارہ کالا تھیلا پہنایا گیا، پھر گاڑی میں ایک ویران جگہ پر دھکا مار کے اتار دیا گیا۔ میرے ہاتھ کھولنے کی زحمت کی گئی تھی نہ چہرے سے کالا تھیلا اتارنے کا تکلف۔ کچھ دیر بعد کسی اللہ کے نیک بندے نے میرے پشت سے ہاتھ کھولے اور میرے سر سے تھیلا اتارا۔ تو میں اپنے کواٹر میں جا سکا۔ میں نے میسج کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اپنی زندہ اور بخیریت واپسی کی اطلاع کر دی۔
    اب میرا کراچی سے دل اچاٹ ہو چکا تھا۔ میں سیالکوٹ واپس اپنے گاؤں میں آ گیا۔ جانے کیسے شمسہ کے گھر والوں کو میرے بیگم صاحبہ کے ساتھ نکاح کی بھنک مل چکی تھی۔ دونوں گھروں کے آپسی تعلقات سخت کشیدہ ہو چکے تھے۔ آخر بات میری اور شمسہ کی باقاعدہ شادی سے پہلے ہی طلاق پر ختم ہو گئی۔۔ میں ہر چیز سے بیزار ہو چکا تھا۔۔ میں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں نے گاؤں میں جو ہماری تھوڑی بہت زمین تھی، اس کو بیچ دیا اور پیسے ایک ٹریول ایجنٹ کو دے دیے کہ مجھے سنگاپور یا ہانگ کانگ بھیج دے ۔۔ کچھ ہفتوں بعد ہی میرا سنگاپور کا ویزہ لگ کے آ گیا۔ میں کبھی نہ لوٹ کے آنے کے ارادے سے جا رہا تھا۔ ہماری فلائٹ صبح چار بجے سنگارپور کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پہنچی۔ اپنی باری پر میں نے اپنا پاسپورٹ لیڈی امیگریشن آفیسر کے کاؤنٹر پر رکھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ ویزہ دیکھ کر کچھ چونکی ہے۔ اس نے ویزے والے سٹیکر کو کاؤنٹر میں لگی ایک لائٹ کے نیچھے کر کے دیکھا، پھر مجھے غور سا دیکھا۔ اب وہ انٹر کام پر مقامی زبان میں کچھ بات کر رہی تھی، ساتھ ساتھ مجھے بھی دیکھتی جا رہی تھی۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ حسب معمول میرے ساتھ کچھ گڑبڑ ہو چکی ہے۔ کچھ لمحوں میں ہی مجھے ئیرپورٹ سکیورٹی کے اہلکاروں نے گھیر لیا۔ مجھے ایک اندرونی ہال میں لے جایا گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ میں جعلی ویزے پر سنگاپور میں داخل ہونے کا سنگین جرم کر چکا ہوں۔ میرے فرشتوں کو بھی جعلی ویزے کی خبر نہیں تھی۔ غالباً یہ اس ٹریول ایجنٹ کی کاریگری کا کمال تھا۔ بہرحال میں برے طریقے سے پھنس چکا تھا۔ چند ہفتوں کے اندر ہی مجھے جج نے بارہ سال قید کی سزا سنا دی۔۔
    جیل ائیرپورٹ کے نزدیک ہی تھی۔ جیل میں ہماری واحد تفریح یہی تھی کہ جب جہاز رن وے سے ٹیک آف کرتے تو کچھ دیر کے لیے جیل کے روشن دان سے نظر آتے۔ میری بیرک میں دو تین ہندوستانی قیدی بھی میرے ساتھ تھے۔ وہ بھی جعلی ویزے کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے۔ کچھ وقت ان سے باتوں میں کٹ جاتا۔ باقی وقت سوچیں اور یادیں کھا جاتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا، چھوٹی بیگم صاحبہ کے لیے میری محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ میں ان سے کی گئی اور ان سے سنی گئی ہر ہر بات کو درجنوں دفعہ یاد کر چکا تھا۔ میری نیند ختم ہو چکی تھی۔ ساری رات تنگ سی بیرک میں ٹہلتے رہنا اور روشندان سے چاند یا ٹیک آف کرتے یا اترتے جہازوں کی روشنیوں کو بےخیالی سے تکتے رہنا ہی میرا مشغلہ ہوتا۔
    جیل میں ہمیں ہر پندرہ دن بعد دس منٹ کال کے لیے دیے جاتے۔ میں سات آٹھ منٹ کی کال اپنے والدین کو کرتا، باقی رسیور تھام کے کھڑا رہتا اور سوچ بچار میں وقت گزر جاتا۔ آخر ایک دن میں نے آخری دو منٹ میں کانپتے ہاتھوں سے چھوٹی بیگم صاحبہ کا نمبر ملا لیا۔۔ بیل جا رہی تھی، دوسری بیل، تیسری بیل۔ میرا سانس پھول گیا تھا۔ میں نے جلدی سے فون بند کر دیا۔ اگلی دفعہ میں نمبر ملانے کی ہمت نہیں کر پایا۔ اس سے اگلی دفعہ اتفاق سے چھوٹی بیگم صاحبہ نے فوراً ہی کال ریسو کر لی۔ میرے پاس ایک سو پانچ سینکڈ رہ گئے تھے۔۔ السلام علیکم ۔۔ میں نے پہلی دفعہ بیگم صاحبہ کو فون پر سلام کرتے سنا۔۔ ورنہ وہ ہیلو کہتی تھیں۔۔ بیگم صاحبہ نے دو تین دفعہ سلام کیا لیکن میرے حلق میں تو کانٹے پڑ گئے اور دل ایسا دھڑک رہا تھا جیسے پھٹ جائے گا۔ اس دن میں بیرک کے باتھ روم میں جا کے بہت دیر روتا رہا۔ پندرہ دن بعد ابو سے میں نے سات منٹ بات کی۔ اب میرے پاس تین منٹ تھے، ایک منٹ ہمت جمع کرنے میں گزر گیا۔۔ آج بھی بیگم صاحبہ نے جلدی کال ریسیو کر لی۔۔
    السلام علیکم۔۔آپ کون بول رہے ہیں؟ ہیلو الیاس؟ آپ الیاس ہیں نہ؟ آپ بولتے کیوں نہیں؟
    جب تک میں بولنے کے قابل ہوا، میرا کال کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ اگلے پندرہ دن بہت بھاری تھے۔ میرے پاس سوائے انتظار کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ پندرہ دن بعد میں نے پہلے چھوٹی بیگم صاحبہ کو ہی کال ملائی۔۔ میں نے ایک ایک مکالمہ پہلے ہی سوچ رکھا تھا۔ ان کا حال احوال پوچھا اور انھیں اپنے حال سے آگاہ کیا۔ جسے سن کے وہ حسب توقع بہت پریشان ہوئیں۔ پھر مجھے حوصلہ اور تسلی دی، اور کہا کہ وہ فوراً کچھ کرتی ہیں ۔۔ بیگم صاحبہ کے لہجے میں میرے لیے ایسی شفقت تھی، مجھے لگا جیسے میں اپنی ماں سے بات کر رہا ہوں۔۔ میں ان سے معذرت کرنا چاہتا تھا، ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا لیکن کال کا وقت ختم ہو گیا۔ اگلے دن شام کو مجھے بتایا گیا کہ مجھ سے ملنے پاکستان سے کوئی آیا ہے۔ مجھے ملاقات والے کمرے میں لے جایا گیا جہاں چالیس پنتالیس سال کا ایک بارعب آدمی میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے اپنا نام ایم ایچ رضوی بتایا۔ رضوی سندھ ہائی کورٹ کا نامی گرامی وکیل تھا اور اسے چھوٹی بیگم صاحبہ نے بھیجا تھا۔ رضوی نے میرے کیس کی ساری تفصیلات حاصل کر لی تھیں۔ اس نے مجھ سے بھی بہت سے سوال پوچھے اور چلا گیا۔ میں نے اس دن وضو کر کے بہت عرصے بعد نماز پڑھی اور اللہ سے دعا کی کہ چھوٹی بیگم کو ایسا شخص عطا کر جو ان کے قابل ہو اور وہ ان سے ٹوٹ کے محبت بھی کرے۔
    مقررہ دن پر دوبارہ چھوٹی بیگم صاحبہ سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ مقامی قوانین کے مطابق مجھے جیل سے نکلوانا مشکل ہے۔ رضوی صاحب اس کا دوسرے طریقے سے حل نکال رہے ہیں۔۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ مجھے ایک جعلی عدالتی کارروائی کے ذریعے قتل کے مقدمے میں سزا موت سنائی گئی تھی۔ پھر پاکستان کی وزارت داخلہ کی طرف سے سنگاپور کی حکومت سے مجرم یعنی میری حوالگی کا مطالبہ کیا گیا۔ کچھ مہینے یہ ضروری قانونی کاروائی چلتی رہی۔ چونکہ دونوں ملکوں میں مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ موجود تھا، اس لیے مجھ سے طویل انٹرویو کے بعد مجھے پاکستان حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک دن مجھے الٹی ہتھکڑی لگا کے پی آئی اے میں بٹھا دیا گیا۔ نیو دہلی میں جا کے میری ہتھکڑی کھول کے سامنے لگائی گئی۔۔ کراچی ائیرپورٹ پر مجھے پولیس نے اے ایس ایف سے وصول کیا اور مجھے گاڑی میں ڈال کر وہ تھانے لے گئے جہاں رضوی صاحب پہلے ہی موجود تھے۔۔ رضوی صاحب نے پولیس والوں کو ان کی خدمات کا صلہ دیا اور مجھے تھانے سے لےکر نکلے۔۔ اب میں آزاد تھا ۔۔ میری آزادی بیگم صاحبہ کی انتھک کوششوں اور بےدریغ پیسے کے استعمال کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔۔ چھوٹی بیگم صاحبہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتی تھیں اور مجھ میں بھی ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی شادی ایک ڈاکٹر کے ساتھ طے ہو چکی ہے جو جرمنی میں مقیم ہے۔ شادی کے بعد وہ بھی وہاں شفٹ ہو جائیں گی اور ان کا نمبر بند ہو جائے گا، شاید اب ہماری دوبارہ کبھی بات نہ ہو سکے۔۔
    میں نے اسی دن کراچی کا چھوڑ دیا، اور پنجاب لوٹ آیا۔ کچھ ماہ بعد میری ماں نے بھی میری شادی میری طرح ایک واجبی اور معمولی عورت سے کر دی۔ میری بیوی کا نام اقرا تھا۔ وقت اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ گزرتا رہا۔ اب ہمارے چار بچے تھے اور میں ٹرک چلاتا تھا۔ ایک دن مجھے اچانک ہی چکر آیا اور میرے کانوں اور ناک سے خون بہنے لگا۔۔مجھے ایک سرکاری ہسپتال پہنچایا گیا جہاں سے انھوں نے مجھے لاہور ریفر کر دیا۔ لیے گئے ٹیسٹس کی رپورٹس کے بعد پتا چلا کہ میں ایک موذی اور ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ کچھ دن بعد مجھے کراچی کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔ اقرا بھی میرے ساتھ تھی۔ سرکاری ہسپتالوں میں نادار اور غریبوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میری جمع پونجی ختم ہو چکی تھی۔ قرضے کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا لیکن درد کی شدت تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میرا وزن بہت گر گیا تھا۔ ایک دن اقرا مجھے سہارا دیے ہاسپٹل کے ایک وارڈ سے دوسرے میں لےکر جا رہی تھی کہ ہمارے پاس سے گزرتی دو خواتین اچانک رک گئیں۔۔
    الیاس؟ او مائی گاڈ! یہ آپ ہیں؟ کیا ہوا ہے آپ کو؟؟
    میں نے چونک کر سر اٹھا کے دیکھا، سامنے چھوٹی بیگم صاحبہ کھڑی تھیں۔ دس سال پہلے جیسا ان کو دیکھا تھا، وہ ابھی بھی ویسی کی ویسی تھیں۔ میری حالت دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انھوں نے اقرا سے سلام دعا کی، پھر میری فائل دیکھنے لگیں۔۔ اس کے بعد وہ مجھے اور اقرا کو کراچی کے سب سے مہنگے پرائیوٹ ہاسپٹل میں لے گئیں۔۔جہاں میرا باقاعدہ علاج شروع کیا گیا۔ مرض اس سٹیج پر پہنچ چکا تھا کہ یہ اب ناقابل علاج تھا۔ ڈاکٹر صرف میری تکلیف مستقل طور پر کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔ بیگم صاحبہ روز ہم سے ملنے ہاسپٹل آتیں اور ہم تینوں گھنٹوں باتیں کرتے۔۔ بیگم صاحبہ کے بھی دو بچے تھے۔ وہ کچھ دن کے لیے ہی پاکستان آئی تھیں۔ کچھ دن بعد ہم زبردستی واپس آ گئے اور بیگم صاحبہ واپس جرمنی چلی گئیں۔۔ میرا جسم بہت لاغر ہو چکا ہے۔ میں کوئی کام کاج یا مزدوری نہیں کر سکتا۔ میری دوائیاں، علاج کے پیسے اور گھر کے اخراجات آج بھی جرمنی سے آتے ہیں۔
    آج میری عمر صرف اکتالیس سال ہے اور میں موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میرے پاس مہلت بہت کم ہے۔ لیکن مجھے مہلت درکار بھی نہیں ہے۔۔ میں دراصل اسی دن مر گیا تھا جب میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو طلاق دی تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے مجھے معاف کر دیا ہے۔ آپ میرے لیے دعا کریں کے میرا اللہ بھی مجھے معاف کر دے۔
    اللہ حافظ
    ختم شد

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • شادی اور رشتوں کے جھنجھٹ، نجات کا راستہ کیا ہے؟ ماجدعارفی

    شادی اور رشتوں کے جھنجھٹ، نجات کا راستہ کیا ہے؟ ماجدعارفی

    ’’ایمل‘‘ اماں کی آواز پر چونکی، جب اس نے ایمل کو تیار ہونے کا کہا۔ اس بار بھی ایمل نے بددلی سے جواب دیا۔ اب کی بار کون سا اس کی قسمت کے تارے جگمگانے والے تھے، ہونا تو وہی تھا جو دو سال سے ہوتا آرہا ہے۔ ’’بیٹا تیار ہو جاؤ، دیکھو کتنی دیر ہوچکی ہے۔‘‘ پانچ منٹ میں اماں کی یہ تیسری آواز تھی۔ ’’ان لوگوں نے کون سا مجھے پہلی نظر میں ہی پسند کر لینا ہے، اوروں کی طرح یہ بھی ٹھاٹ باٹ سے آئیں گے اور تواضع مدارات کروا کے آخر میں کوئی خامی نکال کے اپنی راہ لیں گے۔‘‘ تلخ تجربات کا سامنا کرتی ایمل کے دل میں پھر طرح طرح کے وساوس اور خدشات سر ابھارنے لگے تھے۔

    یہ صرف ایک ایمل نہیں، پاکستان میں ہزاروں ایسی ایمل ہیں جو اپنے رشتے کے انتظار میں بیٹھی اِن کٹھن ترین حالات کا مقابلہ کررہی ہیں اور نہ نجانے ہر بار انہیں کتنے ہی تیز و تند اور تلخ سوالات کے نشتر سہنے پڑتے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی اپر کلاس تو کیا، مڈل کلاس میں بھی یہ رجحان ختم ہونے کے بجائے اور جڑیں مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ رشتے کی تلاش میں نکلنے والے لڑ کی سے ایسے سوالات کرتے ہیں جیسے اسے فوج میں بھرتی کرنا ہو۔ کم ظرفی اور بے حسی دیکھیے کہ لڑکے کے رشتہ دار اور والدین اپنی بیٹی کو بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ایک دن ایسے مراحل سے گزرنے والی ہے۔ کتنی عمر، کتنا قد، کتنی تعلیم اور کیا نوکری جیسے سوالات کا تانتا لگا ہوتاہے، جیسے لڑکی نہیں، کسی پلاٹ یا گاڑی کا سودا کرنے آئے بیٹھے ہوں۔

    لڑکا کتنا ہی نکما، اَن پڑھ اور بدشکل کیوں نہ ہو، اسے ہمیشہ کسی ’’تعلیم یافتہ حور‘‘ کی تلاش ہوتی ہے۔ اس کے گھر والے اس وقت یہ بات بھول چکے ہوتے ہیں کہ ان کا لڑکا ’’کوہ قاف‘‘ سے آیا شہزادہ نہیں جو آن کی آن ہر جگہ پسند کر لیا جائے۔ معاشرے کی قدامت پسندی کا یہ حال ہے کہ لڑکی کا رشتہ دیکھنے والی خاتون اپنے اُس ماضی کو بھلا دیتی ہے جس سے وہ خود نمٹ کر آئی ہوتی ہے اور ایک بار پھر اسی روایت کو دوہراتے ہوئے وہی معیار اور وہی مطالبہ ہوتاہے کہ لڑکی خوبصورت ، تعلیم یافتہ اور کم عمر ہو۔ لڑکے والوں کی انہی نخرے بازیوں سے نہ جانے کتنی ہی لڑکیوں کے سروں میں چاندی اتر آتی ہے۔ جس کے سبب بےبس اور مجبور والدین بیٹی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی دلی خواہش کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔

    یہ تو لڑکے والوں کا لڑکی والوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا ظلم اور سکّے کا ایک رخ تھا۔ لیکن سکے کا دوسرا رخ اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ کچھ خاندان بیٹیوں کو زیادہ پڑھا لکھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اسی لیول کے رشتے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً اسٹیٹس کے چکر میں وہ بہت سے عمدہ رشتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور بیٹی کی شادی کی اصل عمر گزرجاتی ہے یا پھر خود کے طے کردہ پیمانے اور شرائط سے سمجھوتا کرکے اسے اپنے سے کم اسٹیٹس والے لڑکے سے بیاہنا پڑتاہے۔

    پھر اس سے اگلے مرحلے کے توکیا ہی کہنے! کڑی شرائط کے باوجود اگر رشتہ طے ہو جائے تو اب فرسودہ معاشرے کی ایک روایت سر اٹھاتی ہے۔ لڑکے والوں کی طرف سے انتظامات کی لمبی فہرست تھمادی جاتی ہے، جسے پورا کرنا لڑکی کے والدین کے بس سے باہر ہوتاہے۔ اس کے لیے انہیں چارو ناچار قرض کی کڑوی گولی نگلنا پڑتی ہے۔ یہ سوچ معاشرے کو ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف لے جارہی ہے ۔ یہ باتیں یقینا ایک صحت مند معاشرے کی عکاسی نہیں کرتیں۔

    اگرمعاشرے کی ان غلیظ اور فرسودہ روایات اور اقدامات کو روکنا ہے تو اس کی ابتدا خود سے کرنا ہوگی۔ لڑکی والوں کو چاہیے کہ وہ لڑکی کو ’’شوپیس‘‘ نہ بنائیں۔ لڑکی والوں کے اس طرز عمل سے لڑکے والوں کو شہ مل جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ لڑکی والوں کی مجبوری ہے۔ اسی سے وہ جائز ناجائز مطالبات منوانے کی پوزیشن میں آتے ہیں۔ بیٹی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، اسے بوجھ سمجھ کر جلد گھرسے نکالنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے،جب شادی کا وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے بخوبی یہ معاملہ حل ہوجائے گا۔
    لڑکے والوں کو سوچنا چاہیے کہ’’حور‘‘ تو صرف جنت میں ہی ملے گی، یہاں دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی لڑکی پیدا ہی نہیں کی جس میں خوبیوں کے ساتھ خامیاں نہ ہوں۔ اس لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ خوبیوں کے ساتھ خامیوں کو برداشت کرنا ہوگا۔ لہذا لڑکی کے منفی پہلوؤں سے پہلو تہی کرتے ہوئے اس کی مثبت اور تعمیری خوبیوںپر توجہ مرکوز رکھیں۔ تبھی جاکر گھرانے خوش گوار زندگی بسر کرنے کے قابل ہو پائیں گے اور آئندہ نسلیں اعلیٰ روایات کی امین ہوں گی۔

    یہ بات تو رشتہ طے کرتے وقت پائے جانے والی خرابیوں سے متعلق تھی، لیکن شادیوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ پاکستانی معاشرے نے شادی کو شادی نہیں، عذاب بنا رکھاہے۔ یہ سوچ ذہن کے نہاں خانوں میں جاگزیں ہوچکی کہ جب تک لاکھوں روپے پاس نہ ہوں گے، شادی کا تصور بھی گناہ ہے۔ کیونکہ نکاح سے پہلے تقریبات کی بھرمار ہے ، ان تقریبات میں سرخ رو ہونے کے لیے پیسہ تو لازمی درکار ہوگا۔ چنانچہ پہلے منگنی کی رسم ہوگی، اس پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جائے گا۔ اس سے فراغت ہوئی تو مہندی کی رسم سر پر منڈلانے لگے گی۔ اس پر ہزاروں پیسے جلائے جائیں گے۔ اس سے سانس لینے کی مہلت ملی تو بارات کے پٹاخوں اور باجوں کی باری آئے گی۔ پھر دلہے کی سجاوٹ و بناوٹ کی خرچے اٹھائے جائیں گے۔ دلہن کو زیورات سے لادا جائے گا۔ یہ سب گل چھرے اڑانے کے لیے پیسہ ہونا تو لازمی ہے، پھر اسی پر بس نہیں، دنیا جہاں میں بسنے والے تمام دوستوں اور رشتہ داروں کو ان کی نجی مجبوریوں اور پریشانیوں کا لحاظ کیے بغیر شرکت کی پرزور دعوت دی جاتی ہے۔ نہ آنے پر رشتہ ناتا توڑنے کی سنگین دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

    یہ معاشرے کے بھیانک پن کی نہایت ہی مختصر تصویر کشی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت کی نعمت سے نوازا ہے، وہ لازمی خرچ کرے، لیکن فضول رسموں پہ خرچ کرنے سے اس کا تو صرف پیسہ ضایع ہوتاہے جبکہ غریب کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔یہ شاہ خرچیاں جب دوسرے لوگ دیکھتے ہیں تو اسے معاشرے کی روایت سمجھ کر ہر غریب و لاچار پر نافذ کردیتے ہیں۔ ہمارے دین میں ایسی کوئی پابندی نہیں جس کی وجہ سے شادی کو عذاب بنا لیا جائے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفt مسجد نبوی میں نماز کے لیے تشریف لائے، آپe نے ان کے کپڑوں پر زرد رنگ کی خوشبو لگی دیکھی تو پوچھا تمہارے کپڑے پر زرد رنگ کیسا؟ انہوں نے عرض کیا، یارسول اللہe میں نے ایک خاتون سے نکاح کیا ہے، اس نکاح کے وقت یہ خوشبو لگائی تھی۔

    ذرا سوچیے! بہت ہی لاڈلے صحابی جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، انہوں نے نکاح کر لیا اور بلانا تو کیا، اطلاع تک نہیں کی۔ لیکن حضورe نے کوئی شکایت نہیں کی کہ بھائی تم نے ہمیں کیوں نہیں بلایا؟ یہ ساری سردردیاں ہم نے خود ہی پالی ہیں۔ یہ ہماری ذ ہنی اختراع ہے کہ جب تک فضول اور گھٹیا رسومات سے نہ گزرا جائے، شادی کا تصور بھی مشکل ہے۔

    اسلام کے بتائے طریقوں پر ہم چلیں اور ہر قسم کے معاملات میںدین اسلام کو سامنے رکھیں تو نہ رشتوں کے ڈھونڈنے میں پریشانی ہوگی اور نہ ہی شادی بیاہ کی سنت پوری کرنے میں۔

  • بھوکے گدھ – رضوان اللہ خان

    بھوکے گدھ – رضوان اللہ خان

    رضوان اللہ خان یہ غالباََ 2012ء کا وسط تھا، میں گلبرگ میں واقع جس آفس میں بیٹھا تھا، وہ ایک نجی چینل سے منسلک ایک صاحب (میں انہیں شاہ جی کہا کرتا تھا، اوریجنل نام مخفی) کا تھا۔ شاہ جی مجھے چھوٹا بھائی کہا کرتے تھے اور ان دِنوں وہ بے تاب تھے کہ میرا پورٹ فولیو جلد تیار ہوجائے۔ لیکن اس سب میں ایک رکاوٹ تھی اور وہ یہ کہ میرے گھر والوں کو معلوم نہ تھا کہ میں یونیورسٹی کے بعد کبھی کبھی دوستوں کے پاس جاتا ہوں یا اپنے کیرئیر کا کوئی خواب لیے شاہ جی کے آفس۔
    ویٹنگ روم میں ہمیشہ کی طرح جینز، ٹی شرٹ میں ملبوس لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں شاہ جی کے آفس کے اندر چلا گیا، شاہ جی نے دیکھتے ساتھ کہا،
    ”بیٹا جی شوٹنگ روم میں پہنچو جلدی“،
    پوچھا ”شاہ جی خیر ہے؟“۔
    جواب ملا ”کبھی تو سوال چھوڑ بھی دیا کر“۔
    میں مسکراتا ہوا شوٹنگ روم کی جانب بڑھ گیا، دروازہ کھول کر ابھی قدم رکھا ہی تھا کہ دو تین لڑکیاں دیکھ کر واپس نکل آیا. فوری اندر سے کیمرہ مین سلیمان نکلا اور مجھے لے کر اندر چلا گیا۔ میں سامنے پڑے زرد رنگ کے خوبصورت صوفے پر جا بیٹھا، سلیمان پاس آیا، میرے بال ٹھیک کرنے لگا، میں نے حیرت سے پوچھا
    ”کیا ہوا؟ خیر ہے نا؟“۔
    جواب ملا ”یہ نورین ہے شاہ جی نے کہا ہے کہ اس کے ساتھ تمہارا کپل شوٹ ہوگا“۔ میں پریشانی سے اچانک کھڑا ہوا اور کہا میں شاہ جی سے بات کرتا ہوں، میں کسی لڑکی ساتھ شوٹ نہیں کروا سکتا۔ یہ کہہ کر میں شاہ جی کے پاس پہنچا۔
    شاہ جی دیکھتے ہی مسکرانے لگے اور طنزا کہا،
    ”پھر وہی نخرے ہوں گے کہ میں لڑکیوں کے ساتھ شوٹ نہیں دوں گاَ؟“
    میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
    شاہ جی کہنے لگے،
    ”یار پورٹ فولیو مکمل کرنے کے لیے آخری 5 تصاویر کی ضرورت ہے، لوگ 50 50 ہزار میں پورٹ فولیو بنواتے ہیں، میں اپنے چھوٹے بھائی کا مفت میں بنا رہا تاکہ یہ جو تین چار پروڈیوسرز اپنے من پسند لڑکے لے آئے ہیں، انہیں بھی کچھ پتہ لگے، تم نے صرف اس لڑکی کو ایک ہزار دینا ہے، ان 5 تصاویر کا“۔
    میں حیرت سے ان کا منہ تکنے لگا اور صاف جواب دیا، ”شاہ جی! مجھے تو ویسے بھی گھر سے اجازت بھی پتہ نہیں ملے یا نہیں لیکن میں لڑکی کے ساتھ شوٹ نہیں دے سکتا، برا نہ مانیے گا۔“
    اب شاہ جی نے انتہائی غصے سے دیکھا اور جلد ہی اپنے تاثرات بدل لیے اور بولے،
    ”یہ حرام— کو بھی ماڈلنگ کا شوق ہے لیکن ہاتھ لگاؤ تو چیختی ہے، اسی لیے اس کو بھی بس لٹکانا ہے، 1000 میں ایک شوٹ دے اور چلتی بنے، یہاں ایسی لڑکیوں کی کوئی جگہ نہیں۔“
    میں جیسا بھی تھا لیکن اس بات پر شدید غصہ آیا لیکن خاموش رہا۔ لیکن جوں ہی مجھے موقع ملا اس لڑکی کے پاس گیا اور پوچھا،
    ”تمھیں ماڈل کیوں بننا ہے؟“
    کہنے لگی، ”میں بھی کسی سے کم نہیں، لیکن ہاں بس ان لوگوں کی طرح ہمارے پاس گاڑیاں نہیں ہیں، ٹی وی پر دیکھ دیکھ کر شوق چڑھا اور آگئی“۔
    پوچھا، ”کیا تمہارے ماں باپ کو علم ہے؟“
    ہنس کر کہنے لگی ”مرنا ہے کیا میں نے؟“۔
    مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسے کیا کہوں کہ اچانک میں نے سیدھی طرح بات کی اور کہنا شروع ہوا،
    ”یہ تمہاری عزت کے بھوکے ہیں، شاہ جی اندر تمہیں گالیاں دے رہے تھے، اگر تم ان کے ساتھ وہ سب نہیں کرلو گی جو وہ چاہتے ہیں تب تک تم ماڈل نہیں بن سکتی، کیا تمہارے ماں باپ نے اس لیے بڑا کیا کہ اس گند میں آجاؤ؟ دیکھو میں بھی کوئی اچھا انسان نہیں ہوں لیکن مجھ سے یہ سب نہیں دیکھا جاتا، کیا تمہاری بیٹی یہ سب کرے تو برداشت کرو گی؟“
    وہ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر بنا کچھ کہے آفس سے چلی گئی۔ وہ لڑکی جس کا حلیہ دیکھ کر میں اسے ایک گھٹیا اور فحش لڑکی سمجھ رہا تھا، وہ صرف دیکھا دیکھی اس لباس میں بے لباس ہونے آئی تھی، حالانکہ وہ تو خود کو چھونے بھی نہ دیتی تھی، جو کہ شاہ جی کی باتوں سے واضح تھا۔ کچھ دیر بعد سلیمان نے شاہ جی کو بتایا کہ وہ نورین تو جا چکی تو آج پھر سے شاہ جی کے وہ الفاط کانوں میں گونج رہے ہیں،
    ”کرنی ماڈلنگ ہے اور شریف زادی بھی رہنا ہے، دماغ خراب اس کا۔“
    شاہ جی کی عادت تھی وہ ہر لڑکی کو گالی دیا کرتے تھے، کتنی ہی ایسی لڑکیاں شاہ جی، سلیمان اور ان کے دوستوں کی ہوس کا نشانہ بن چکی تھیں لیکن بس وہی 1000 کا شوٹ اور گھر۔
    تقریباََ 6 ماہ بعد ہی رب نے ہدایت عطا فرمائی، میں نے خوشی خوشی اس گندے شوق کو ترک کیا اور چہرے پر ڈاڑھی سجا لی۔ ڈاڑھی رکھنے کے 3 ماہ بعد شاہ جی سے ملاقات ہوئی، شاہ جی مجھے دیکھ کر حیران تھے، پچھلے 4 ماہ میں ہمارا کوئی رابطہ نہ ہوا تھا، اب جب ہوا تو اس حالت میں۔ شاہ جی نے آفس اندر آنے کی دعوت بھی نہ دی اور بس اتنا کہا،
    ”طالبان صاحب کہاں غائب رہے ہو؟ اچھا تم جس کام سے آئے ہو، وہ کر لو اور کسی دن چکر لگانا، میں بھی آج بہت مصروف ہوں۔“
    میں بات مذاق میں اڑا کر گھر چلا گیا، تین دن بعد شاہ جی کا فون آیا اور اسی پرانے انداز میں بات کرتے ہوئے اچانک کہا،
    ”کل رات ڈیفنس میں ڈانس پارٹی ہے، تمہارا پاس میں خرید چکا ہوں، ضرور آنا.“
    میں نے حیرت سے جواب دیا ”شاہ جی میں کبھی پہلے نہیں گیا تو اب کیسے جا سکتا ہوں۔“
    شاہ جی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ”او کُج وی نئی ہوندا، سب چلتا ہے، لڑکی تجھے وہیں مل جائے گی.“
    میرا وجود اس وقت نہ جانے کیوں کانپ رہا تھا، بس یہ کہہ پایا، ”شاہ جی! آپ بھی یہ کام چھوڑ دیں.“ اور فون بند کر دیا۔
    شاہ جی ہفتے دو ہفتے بعد ایسی ہی دعوتیں دیتے رہے اور میں ”آپ بھی چھوڑ دیں ایسے کام“ کہہ کر فون بند کر دیا کرتا۔ میں جانتا تھا کہ یہ کیا شیطانی چکر ہے، بس رب نے بچائے رکھا۔
    آج ان واقعات کو گزرے کم و بیش 3 سال ہوچکے۔ یہ وہ راز کی باتیں تھیں جو میرے دوستوں میں بھی چند کے علاوہ کوئی نہ جانتا تھا۔ نورین کو کبھی ٹی وی پر نہیں دیکھا اور اللہ کرے وہ اس دلدل سے بچ گئی ہو، شاہ جی کا اتنے عرصے سے کوئی اتہ پتہ نہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ بھی اس کام سے ہاتھ کھینچ چکے ہو۔
    عرض یہ ہے کہ جن ذہنوں میں ننگا پن اس قدر رچ بس گیا ہے کہ انہیں اس کے خلاف بات کرنے والے زہر لگتے ہیں، وہ اپنی بیٹیوں کے متعلق صرف اتنا بتا دیں کہ کیا وہ اپنی بیٹی بہن کےلیے بھی یہ سب پسند کر سکتے ہیں؟ وہ اپنی بیٹی کی عزت ایسے اچھلتی دیکھ سکتے ہیں؟ وہ اپنی بیٹی کو گالیاں پڑتی سن سکتے ہیں؟
    مہربانی فرمائیں اور کیرئیر اور دوسروں کے بستروں کی زینت بننے میں فرق ضرور ذہن میں رکھیں۔