ہوم << تصوف ؛ کس کو صحیح سمجھیں؟ عمران زاہد

تصوف ؛ کس کو صحیح سمجھیں؟ عمران زاہد

10155883_10154733532529478_5886019418085289879_nتصوف سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف منارہ شریف چکوال تھا۔ 1994 میں کالج کے امتحانات سے فارغ ہو کر مجھے رمضان میں چند دن وہاں گزارنے کا موقعہ ملا تھا ۔۔۔۔ پاس انفاس کے ذکر کا طریقہ سیکھا تھا ۔۔۔ طویل القامت مولانا اکرم اعوان کے خطابات سنے تھے ۔۔۔ حاضر سروس جرنیلوں کو مولانا سے عقیدت سے ملتے دیکھا تھا ۔۔۔ وہیں مولانا اللہ یار خان چکڑالوی مرحوم کے متعلق پتہ چلا تھا ۔۔۔ ان کے صوفی سلسلے سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کی باقی سلاسل سے امتیازی خصوصیات کا پتہ چلا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچی بات ہے میں خاصا متاثر ہوا تھا ۔۔۔۔
:
منارہ جانے سے پہلے صرف تصوف کی صرف اتنی خبر تھی کہ ہمارے ہمسائیوں میں ، میرے دوست ارشد کے والد صوفی اکرم صاحب ہوتے تھے جو نہایت عبادت گزار تھے ۔۔۔ ایک دن کہنے لگے کہ رام اور رحیم ایک ہی ہستی کے دو نام ہے ۔۔ ہمیں تب اتنا شعور نہیں ہوتا تھا ۔۔۔
:
اسی طرح دادی اماں سے پتہ چلا تھا کہ والد صاحب بچپن میں گاؤں کے ایک بزرگ جنہیں صوبیدار صاحب کہا جاتا تھا سے بیعت تھے۔ صوبیدار صاحب ابوکو نماز کے وقت مسجد لیجانے آتے تھے اور ابو ایک ہاتھ میں کتاب پڑھتے رہتے تھے اور صوبیدار صاحب انہیں سہارے سے مسجد لیجاتے تھے ۔۔۔ تایا اختر ، جو ابو کو بچپن کے دوست ہیں، بھی ابو کے ساتھ ہی صوبیدار صاحب سے بیعت ہوئے تھے۔ وہ اکثر ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ صوبیدار صاحب نے ابو کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ اختر کو لازمی نماز پڑھوا دیا کریں ۔۔۔ اور ابو انہیں ہمیشہ نماز کا کہا کرتے تھے ۔۔۔آج بھی تایا جان سے نشست ہوتی ہے تو بہت سے واقعات سناتے ہیں ۔۔ ابو اپنی بیعت کا کبھی کبھی ذکر ضرور کیا کرتے تھے لیکن شاذونادر ۔۔۔
خیر۔۔۔۔
:
منارہ جانے کے اگلے ہی سال جب شہاب نامہ پڑھا تو پتہ چلا کہ شہاب صاحب بھی ایک صوفی تھے ۔۔۔ تصوف کے ضمن میں انہوں نے اپنے روحانی تجربات کو کتاب کے آخری باب "چھوٹا منہ بڑی بات" میں تفصیل سے لکھ دیا تھا۔ میں اس سے بھی خاصا متاثر ہوا تھا۔۔ اس باب کی وضاحت میں ممتاز مفتی صاحب کو الکھ نگری لکھنی پڑی، جس میں انہوں نے شہاب صاحب کو خاصا مافوق الفطرت قسم کی ہستی بنا کر پیش کیا ہے۔
:
اسکے بعد تصوف اور صوفیا پہ خاصی کتب پڑھنے کو ملیں ۔۔۔ ایسے صوفیا سے ملنے کا اتفاق بھی ہوا ذکر اذکار کی محفلیں جماتے تھے ۔۔۔ اپنے مریدوں کی قلب ماہیت کر دیا کرتے تھے ۔۔۔ لوگوں کے خیالات اور حالات بدلتے ہوئے بھی دیکھے ۔۔۔ ان میں سے ایک تو کرنٹ مارنے والے بھی تھے ۔۔۔۔ میں ان سب سے دور دور ہی رہا ۔۔۔ کسی کے کہنے پر کبھی ان کی مجالس میں گیا لیکن مجھے یوں لگتا تھا کہ یہ لوگ شاید میری سوچیں اور خیالات پڑھنے پر قادر ہیں اور میں اپنی پرائیویسی میں کسی کو شامل نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔ لہٰذا ان کو دور سے سلام تھا۔ ہاں ان میں سے جس سے متاثر ہوا تھا وہ صوفی برکت علی لدھیانوی صاحب تھے ۔۔۔ اس کی وجہ ایک وجہ ان کی سادگی اور خدمت خلق ہے اور دوسری وجہ ہر خاص و عام کا ان کی طرف رجوع تھا۔ ان کے بارے میں پڑھنے کو بھی خاصا ملا۔
:
اشفاق احمد صاحب بھی اپنی تحریروں اور گفتگوؤں میں صوفیانہ رنگ لیے ہوئے تھے۔ ہم ان سے بھی متاثر تھے ۔۔۔ بابایحییٰ خان نے پیا رنگ کالا لکھی جو بظاہر ان کے ذاتی واقعات پہ مبنی لگتی ہے ۔۔۔ لیکن وہ واقعات اتنے محیر العقول ہیں کہ آپا بانو قدسیہ نے پیش لفظ میں ہی اسے فکشن قرار دے دیا ہے۔
:
عبداللہ بھٹی کے خود نوشت پڑھ کر ان کی چلہ کشی اور مجاہدوں کے بارے میں پتہ چلا اور اندازہ ہوا کہ وہ اپنے علم کو خدمت خلق کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔
:
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے وظیفوں اور تعویزوں کی کتاب بھی زمانہ طالبعلمی میں پڑھی تھی ۔۔ لیکن ان اعمال کرنے کے لئے اجازت ایک خاص ذکر سے مشروط تھی وہ شادی کے بعد کیا۔ کئی لوگوں کو تعویز وغیرہ بنا کر بھی دیے تھے ۔۔۔ پتہ نہیں کسی کو فائدہ ہوا کہ نہیں۔
:
چھوٹے بڑے متفرق واقعات بہت سے ہیں ۔۔۔ مشرف دور کی امریکی چندے سے چلنے والی صوفی کونسل وغیرہ کا ذکر رہنے دیں۔
:
تصوف کے متعلق سب سے جامع رائے قدرت اللہ شہاب کی لگی جن کے بقول اصل چیز تو شریعت ہے ۔۔ تصوف شریعت کا کنڈرگارڈن ہے ۔۔۔ جو لوگ شریعت کی سیدھی اور خشک راہ پر چلنا دشوار پاتے ہیں انہیں تصوف کی پگڈنڈی کے ذریعے کھیل ہی کھیل میں شریعت کی شاہراہ پر ڈال دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔
:
پچھلے دنوں جاوید غامدی صاحب کا تصوف کے متعلق ایک لیکچر اور ایک ٹی وی مذاکرہ یوٹیوب پہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ لیکچر خاصا جوانی کی عمر کا تھا ۔۔ لیکن ٹی وی مذاکرہ کوئی زیادہ پرانا نہیں لگتا ۔۔۔ اس میں خورشید ندیم صاحب میزبان تھے اور چار مہمانوں میں سے غامدی صاحب کے علاوہ قابل ذکر شخصیت احمد جاوید صاحب کی تھی ۔۔۔۔۔۔
:
غامدی صاحب تصوف کو اسلام سے الگ ایک نیا دین گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک صوفیاء کرام کی تعلیمات دو پرتوں میں ہے۔۔۔ ایک عوام کے لئے جو کہ شریعت کے عین مطابق ہیں ۔۔۔ دوسری خواص اور خواص سے بھی آگے کے لوگوں کے لئے ۔۔۔ وہ سراسر قران و حدیث کے خلاف ہے۔۔۔ انہوں نے خاص طور پر توحید و رسالت پر صوفیا کے نظریات پیش کیے ہیں ۔۔۔ جو سن کر صاف لگتا ہے کہ واقعی یہ قران و حدیث سے صریحاً متصادم ہیں۔۔ ان نظریات کو کم از کم اسلام نہیں کہا جا سکتا, کوئی روحانی واردات ہو تو کہا نہیں جا سکتا ۔۔۔۔ انہوں نے مختلف صوفیا مثلاً ابن عربی، غزالی، شاہ ولی اللی، شاہ اسمعٰیل شہید کی تحریروں میں سے چن چن کر وہ اقتباسات پیش کیے جنہیں ایک عام مسلمان کبھی بھی قبول نہیں کر سکتا ۔۔۔ غامدی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ صوفیا کی کتب میں لکھا ہوا ہے کہ عام لوگوں کی توحید اور خاص لوگوں کی توحید مختلف ہے اور خاص لوگوں کی توحید کو عام لوگوں پر آشکار کرنا کفر ہے ۔۔۔ (وہی بات جو میاں محمد بخش نے کی تھی کہ خاصاں دی گل عاماں اندر نئیں مناسب کرنی ۔۔ مٹھی کھیر پکا محمد، تے کتیاں اگے دھرنی)۔۔۔ منصور حلاج کے اناالحق کا ذکر بھی کیا ۔۔۔ جس کو صوفیا کے بقول سرِّ ربانی فاش کرنے کے جرم میں سولی چڑھنا پڑا ۔۔۔۔ جوخواص کی توحید انہوں نے بتائی، اس میں اور شرک میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ قران میں بیان کردہ توحید تو فوراً سمجھ آ جاتی ہے لیکن صوفیاء کرام کی خواص کی توحید ایک چیستان ہے ۔۔۔ رسالت کے متعلق صوفیا کے خیال یہ ہے کہ تشریعی نبوت ختم ہو گئی لیکن مقام ِ نبوت تک رسائی آج بھی ممکن ہے۔اس مقام پر جا کر سالک براہ راست خدا سے رہنمائی لیتا ہے ۔۔ اس مقام پہ کسی شریعت کی ضرورت باقی رہتی ہے ۔۔ مرزا غلام احمد کی دعاوی بھی کچھ ایسے ہی تھے ۔۔ صوفیا کی تحریروں کے پیمانے پر دیکھا جائے تو وہ ایک صوفی تھا (نعوذ باللہ) ۔۔۔
:
حضرات ۔۔ غامدی صاحب نے جو اقتباسات پیش کیے وہ واقعی ہی اس طرح کے مفاہیم پہ مشتمل تھے جو میں نے اوپر شئیر کیے ۔۔ میں جتنا سمجھ سکا سلیس زبان میں شئیر کر دیا۔۔ نبوت کے بارے میں باتوں سے یاد آیا کہ یوسف کذاب بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتا تھا ۔۔۔عام مسلمان صوفیاء کی خواص کے لئے لکھی ہوئی کتب سے شاید اس لئےزیادہ واقف نہیں کہ ایک تو وہ فارسی یا عربی میں ہیں ۔۔ اور دوسرا وہ عوام کے لکھی ہوئی کتب سے اتنے مرعوب ہو چکے ہوتے ہیں کہ خواص کے لئے لکھی ہوئی کتب میں لکھی ہوئی باتوں کو سر جھکا کر مان لیتے ہیں۔ ایک اور پہلو شاید یہ ہو کہ یہ عبارات ایسی مشکل اور ادق اصطلاحات پر مشکل ہیں کہ انہیں سمجھنا ہی کارِ دارد ہے۔ مثلاً اس اقتباس کو سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔۔
"پس جس نے حق کو ، حق سے ، حق میں ، چشم حق سے دیکھا، وہی عارف ہے ۔ اور جس نے حق کو حق سے ، حق میں دیکھا ، مگر بچشم خود دیکھا، وہ عارف نہیں ہے ۔ اور جس نے حق کو نہ حق سے دیکھا اور نہ حق میں اور اِس انتظار میں رہا کہ وہ اِسے بچشم خود ہی دیکھے گا ۹؂ تو وہ مشاہدۂ حق سے محروم محض جاہل ہے۔"
:
یا اسے سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔
"اگرچہ مخلوق، بظاہر خالق سے الگ ہے ، لیکن باعتبار حقیقت خالق ہی مخلوق اور مخلوق ہی خالق ہے ۔ یہ سب ایک ہی حقیقت سے ہیں ۔ نہیں، بلکہ وہی حقیقت واحدہ اور وہی اِن سب حقائق میں نمایاں ہے ۔ ‘‘
:
اس اقتباس میں صوفی اپنے شیخ کو ہی نبی کریم ؐ کے درجے پر فائز کر رہا ہے (نعوذ باللہ)
"انسان کامل وہ مدار ہے جس پر اول سے آخر تک وجود کے سارے افلاک گردش کرتے ہیں، اور جب وجود کی ابتدا ہوئی، اُس وقت سے لے کر ابدالآباد تک وہ ایک ہی ہے ، پھر اُس کی گوناگوں صورتیں ہیں اور وہ یہودونصاریٰ کی عبادت گاہوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ اُس کی ایک صورت کے لحاظ سے اُس کا ایک نام رکھا جاتا ہے، جبکہ دوسری صورت کے لحاظ سے اُس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اُس کا اصلی نام محمد ہے۔ اُس کی کنیت ابو القاسم، وصف عبد اللہ اور لقب شمس الدین ہے ؛ پھر دوسری صورتوں کے لحاظ سے اُس کے دوسرے نام ہیں ، اور ہر زمانہ میں جو صورت وہ اختیار کرتا ہے، اُس کے لحاظ سے اُس کا ایک نام ہوتا ہے۔ میں نے اُسے اپنے شیخ شرف الدین اسمٰعیل الجبرتی کی صورت میں اِس طرح دیکھا کہ مجھے یہ بات بھی معلوم تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ میرے شیخ ہیں ۔"
:
اس مذاکرے میں احمد جاوید صاحب نے بھی غامدی صاحب کے موقف سے جزوی اتفاق کیا تھا ۔۔۔ انہیں کہنا پڑا کہ بعض اقتباس ایسے ہی کہ جن کی تاویل کرنا بھی ممکن نہیں۔۔ انہیں رد کر دینا چاہیئے۔۔
ہاں جو چیز واضح نہ ہو سکی وہ تصوف میں قطب ابدال وغیرہ ہیں۔ ممتاز مفتی بھی الکھ نگری میں اپنی حیرت کو چھپا نہ پایا اس کائنات میں بابوں کا ایک متوازی نظام کار فرما ہے جہاں فائلیں، سمریاں، سفارشیں چلتی ہیں ۔۔ بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں ۔۔ واللہ اعلم۔ حضرت ابن عربی رح اپنی تصانیف میں اس نظام پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
:
:
ڈاکٹر امین صاحب ،جو ایک مستند سکالر ہیں اور معروف مجلے البرہان کے مدیر ہیں، سے میں نے غامدی صاحب کی تصوف پر رائے کے متعلق پوچھا ۔۔۔ انہوں نے مختصراً یہ بتایا کہ غامدی صاحب کی رائے درست نہیں ۔۔۔ تصوف میں بلاشبہ بہت سے خرابیاں در آئی ہیں لیکن اس کا حل تصوف سے جان چھڑانا نہیں، اس کی اصلاح کرنا ہے۔ تصوف کو انہوں نے تزکیہ نفس سے معنون کیا جس کا ذکر قران پاک میں کئی جگہوں پر ہے اور مسلمانوں کی اس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ تصوف کی جو تعریف انہوں نے فرمائی اس کے مطابق تصوف (یا تزکیہ نفس) دو اجزاء پر مشتمل ہے۔ ۔۔ ایک ذکر دوسرا صحبت ۔۔ صحبت سے مراد نیک لوگوں کی کمپنی جس میں رہ کر آپ بھی نیک ہو سکتے ہیں۔
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
یعنی نیک کی صحبت آپ کو نیک بنائی گی اور برے کی صحبت برا۔
:
انہوں نے زور دے کر کہا کہ تصوف کو آخر کیسے رد کر دیا جائے کہ یہ صدیوں سے آزمودہ ہے اور اس کے اثرات معاشرے اور افراد پر تزکیہ نفس کے حوالے سےثابت شدہ ہیں ۔۔۔
:
انہوں نے تصوف پر ہونے والے اعتراضات کے ضمن میں ارشاد فرمایا کہ صوفیا کے دو مشہور گروہ گزرے ہیں ۔۔ ایک وہ جنہوں نے عملی اصلاح کی ۔۔ لوگوں کا تزکیہ کیا۔۔۔ بڑے بڑے محدثین اور فقہا اس صف میں شامل ہیں ۔۔۔ جن کی پاکیزہ صحبت سے لاکھوں لوگوں نے فیض پایا اور اپنے نفوس کو پاک کیا۔۔۔ دوسرا گروہ وہ ہے جس نے تصوف کو ایک فلسفے کے طور پر دلائل سے پیش کیا ۔۔ اس میں انہوں نے ضرور ٹھوکر کھائی ہے۔۔ اور اس کی وجہ اُس دور کے صوفیا پر یونانی فلسفے اور ان کے دیومالا کا اثر ہے۔ یہ لوگ وحدت الوجود اور اس طرح کے فلسفوں اور بحثوں میں الجھے رہے ۔۔۔ اور غامدی صاحب کے جو اعتراضات ہیں وہ شاید اس گروہ کے لئے ہیں ۔۔۔ گویا تصوف کی دو اقسام ہیں۔۔ عملی تصوف اور نظریاتی تصوف۔۔۔ ڈاکٹر امین صاحب کی حتمی رائِے یہی تھی کہ موجودہ تصوف میں جو جھاڑ جھنکار اگ آیا ہے اس کو صاف کر کے اس کی اصل شکل یعنی افراد کے تزکیے کے نظام کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ تصوف قران و حدیث میں بیان کردہ حدود سے باہر کوئی چیز نہیں ہے ۔۔۔۔۔
:
اشغالِ تصوف یعنی پاس انفاس، چلے، حق ہو کی ضربوں وغیرہ کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مشقیں دین کا حصہ نہیں ہیں ۔۔ لیکن صوفیاء نے انہیں ارتکاز توجہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا ہے اور ذکر کے ساتھ ملا دیا۔۔۔ ان مشقوں کے استعمال سے اللہ کے ذکر میں ارتکاز حاصل ہوتا ہے ۔۔۔ اس سے زیادہ ان مشقوں کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔
:
ڈاکٹر صاحب نے عام لوگوں کے لئے "تصوف کیا ہے" نامی کتابچہ بھی لکھا ہے، جو ابھی ہماری دسترس میں نہیں ہے۔
:
اب ہم اس شش و پنج میں ہیں کہ بات غامدی صاحب کی بھی پھینکنے والی نہیں اور غلط ڈاکٹر امین بھی نہیں ہیں۔
:
آپ کیا کہتے ہیں اس ضمن میں؟

Comments

Click here to post a comment