Category: نئے لکھاری

  • دینی مدارس اور والدین – عقیل شہزاد قریشی

    دینی مدارس اور والدین – عقیل شہزاد قریشی

    عقیل شہزاد قریشی آج پھر صبح صبح وہی ہو رہا تھا جو پچھلے 3 ماہ سے ہوتا آیا تھا. معمول کے مطابق بچہ مدرسے جانے کو تیار نہ تھا. باپ اسے زبردستی گاڑی میں ڈالتا اور وہ ہاتھ چھڑا کر واپس گھر کی طرف بھاگتا. ذرا سا پیچھا کر کے باپ نے پھر پکڑ لیا، اور اس بار غصہ کچھ زیادہ تھا، چنانچہ تھپڑوں اور لاتوں کا استعمال کیا جارہا تھا اور ساتھ میں ورد جاری تھا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے. آخر اس معصوم بچے کا کیا قصور تھا ؟؟ ظاہر ہے کوئی باپ اتنا بے رحم کیونکر ہو سکتا ہے؟ وہ شخص (باپ ) غریب لگتا تھا نہ بچہ ذہنی مریض اور نہ اس کی ماں مرگئی تھی. بالعموم غریب والدین مدراس میں اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں یا وہ بچے جاتے ہیں جو یتیم یا ذہنی طور پر کمزور ہوں. اس بچے کا حال ذرا مختلف تھا، یہ گھروالوں کو تنگ کرتا تھا، اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مدرسے میں بھیج دیا جائے، مولوی صاحب اس کو سیدھا کردیں گے.

    غریب والدین کے پاس غربت کا علاج اور مسئلے کا آخری حل مدرسہ ہوتا ہے. وسائل کی عدم موجودگی میں بچوں کو اچھے سکول میں پڑھا لکھا نہیں سکتے تو مدرسے کا انتخاب کیا جاتا ہے جہاں تعلیم اور باقی سہولیات مفت ملتی ہیں اور ساتھ ہی خیال بھی ہوتا ہے کہ آخرت بھی سنور جائے گی. یتیم بچوں سے ان کے قریبی عزیز محبت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کو کسی اچھے مدرسے میں بھیجنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور پھر انھیں وہاں بھیج دیا جاتا ہے اور وہی ان کےلیے بہترین گوشہ عافیت ثابت ہوتا ہے.

    آج کے دور میں والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر اور انجینئر بنے لیکن یہ کوئی نہیں کہتا کہ میرا بیٹا عالم بنے، حافظ قرآن ہو، اگر لاڈلا ذہین نہ نکلے تو دین کی یاد آتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ امتحان میں پاس تو ہو گا نہیں، اسے کسی مدرسے میں چھوڑ دو۔ جب عالم بننے کے لیے کمزور ذہن کا انتحاب کیا جائے گا تو عالم نہیں مولوی ہی پیدا ہوں گے۔ کچھ دین دار والدین اپنے بچوں کی دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم پر زور دیتے ہیں. یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دنیا اور آخرت کو سمبھتے ہیں اور اپنے بچوں کو مناسب تعلیم فراہم کرتے ہیں. ان کے بچے مولوی نہیں عالم بنتے ہیں جن کی دنیا اور آخرت میں خیر ہی خیر ہے.

    حکومت پاکستان مدارس کو اپنی تحویل میں لینے یا ان کی سرپرستی کرنے کی خواہش رکھتی ہے لیکن یہ وہ خواہش ہے جو شاید کبھی نہ پوری ہو کیونکہ پاکستان میں اتنے مدارس ہیں کہ حکومت دو وقت کی روٹی تو دور ایک وقت کا پانی بھی فراہم نہیں کر سکتی۔ مدارس کی صرف اصلاح کی جا سکتی ہے، ان میں جدت لائی جا سکتی ہے، باقی مدارس انتظامیہ جانے اور ان کا کام. اور حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیے.

    آخر میں اس بچے کا ذکر، باپ جسے مار مار کر مدرسے چھوڑ آیا تھا، آج وہ پھر وہاں سے بھاگ آیا ہے اور اس بار اپنے دو ساتھیوں کو بھی اپنے ساتھ بھگا لایا ہے. اس کا جو حال ہوگا وہ تو پتا ہے، ان دو بےچاروں کا بھی اب اللہ ہی حافظ ہے

  • بھارت میں مسلم دشمنی عروج پر – محمدبلال خان

    بھارت میں مسلم دشمنی عروج پر – محمدبلال خان

    محمد بلال خان اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر اور جمہوری ریاست ہونے کا دعویدار پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت اپنے عمل کے ذریعے اپنے ہر مؤقف کو جھوٹا ثابت کرتا آ رہا ہے۔
    اس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری مملکت ہے، مگر دنیا میں قومیت پرستی، اور لسانی عصبیت میں دوسرا نمبر رکھنے والا بھارت نہ صرف ایک فرقہ وارانہ ذہنیت کا حامل ملک ہے، بلکہ عدم برداشت، شرپسندی اور تعصب پسندی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔

    بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 20 سے 30 کروڑ کے درمیان ہے، اور وہاں کی سب سے بڑی اقلیت ہے، مگر ریاستی انتہاپسندی اور ہندو دہشت گردی کا شکار ہے. بی جے پی کی متعصب حکومت مسلمانوں کو ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی، اس سے وابستہ ہندو دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں کو ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔
    سرکاری سطح پر مسلم دشمنی کی وجہ سے مسلمانوں کو رمضان میں روزے رکھنے اور مساجد جانے سے روکا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہریانہ کے ایک سکول میں عید ملن پارٹی منعقد کرنے پر مقامی ہندو انتہا پسندوں نے سکول پر دھاوا بول دیا. پنچایت نے ایک سکول پر عید کی تقریب منعقد کرنے پر ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا اور سکول کے باہر دھرنا دے کر مسلم طلبہ اور اساتذہ کو سکول سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا گيا۔ سکول کی مینیجر ہیما شرما نے ایک اخبار کو بتایا کہ ’پنچایت کے مطالبے کے بعد سکول کی واحد مسلم ٹیچر ملازمت چھوڑ کر دہلی میں رہنے پر مجبور ہوئی ہیں۔‘

    بھارت میں یوں تو مسلمانوں کے خلاف فسادات ہوتے رہے ہیں لیکن مرکز میں مودی حکومت آنے کے بعد سے اس میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گيا ہے۔ مقامی ہندو انتہا پسندوں کا مسلمانوں کو ملک بدر ہونے کے لیے مجبور کرنا اور ہندو رہنماؤں کی طرف سے مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑنے کے بیانات دینا اب ایک معمول بن گیا ہے۔ ڈاکٹر ذاکرنائک جیسی معتدل آواز کو بھی برداشت نہیں کیا جارہا جن کے صرف ہندوستان میں کروڑوں فالوورز ہیں. دنیا بھر میں پیغامِ محبت بانٹ کر تقابلِ ادیان میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے اس اسکالر کو بھی دہشت گرد قرار دے کر ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس سے بھارت کا متعصب، انتہا پسند اور عدم برداشت پر مبنی چہرہ مزید عیاں ہوگیا ہے۔

  • کراچی کو صوبہ بنائیں – محسن علی

    کراچی کو صوبہ بنائیں – محسن علی

    کراچی کی معیشت کی بہتری کی بہت بات کی جاتی ہے مگر اس ماہ رمضان میں طارق روڈ، صدر اور کریم آباد میں افطار کے بعد بھی دکاندار مکھیاں مارتے نظر آئے. کریم آباد جہاں لڑکپن میں آپ دھکے سے اندر جاتے تھے اور دھکے سے باہر آتے تھے، عید کے دنوں میں وہاں دکانیں بند اور اکا دکا خریدار مارکیٹ میں دکھائی دیے جبکہ طارق روڈ کی صورت حال یوں تھی کہ ہر چوتھا دکاندار آپ کو ایسے دیکھتا کہ آپ اس کے خریدار بن جائیں. گاڑیوں کا رش تو خوب ہوتا مگر دکانیں خالی، بس ڈولمین مال اور گلیمر ون میں کچھ عوام ہوتی تھی جبکہ صدر عام دنوں سے کم رش کا منظر پیش کرتا رہا.

    جو لوگ کہتے ہیں کہ کراچی میں امن کی صورت حال میں بہتری آئی ہے اور کراچی کی معیشت مستحکم ہوئی ہے تو ان سے گزارش ہے کہ ٹی وی سے نکل کر بازاروں میں خود گھومیں اور حالات کا جائزہ لیں. کراچی کی عوام کا پیسہ پانی خریدنے میں خرچ ہورہا ہے یا پھر جنریٹر اور یو پی ایس لگوا کر ماہانہ ہزاروں روپے بل ادا کرنےکی صورت میں. کوئی عقل کا اندھا ہی ہوگا میری نظر میں جو کراچی شہر کی معاشی آسودگی کی بات کرے گا. پچھلے سال تک سفید پوش ہمیں شاذ و نادر پتا چلتے تھے، اب کچھ تحقیق کر کے دیکھا تو آس پآس میں ہی دو تین گھرانے نکل آئے جبکہ جن این جی اوز کے ساتھ میں کام کرتا ہوں، ان کے پاس بھی بیسیوں جینوئن کیس ہیں. یہ ہے کراچی

    اگر کراچی کو الگ صوبہ بنا دیا جائے تو بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ورنہ اگلے دس سالوں میں ہر تیسرے شخص کو دس پندرہ سفید پوش ملیں گے، اور 25 سالوں میں بھوک سے مر نے والوں کی خبریں نشر ہوا کریں گی. سیاستدانوں کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ کر انسان مریں‌گے. گوادر ضرور چلائیں مگر کراچی کو تاریک ہونے سے بچائیں. سیاسی جماعتیں جذبات اور لسانیت کے جھگڑے سے نکل کر معاشی اعتبار سے سوچیں. حالات و معیشت کی بہتری کا تقاضاہے کہ نچلی سطح تک انتظامی نظام بنادیا جائے. اگر نئے صوبے بنانے سے کسی کی عزت اور انا میں فرق پڑتا ہے تو بلدیاتی نظام کو مضبوط بنائیں اور بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دیں. اگر کراچی جیسے بڑے شہر کا یہ حال ہے تو باقی پاکستان کا تو سوچ کے دماغ کی نسیں پھٹنے لگتی. ذرا سوچیے گا ضرور

  • ترکی میں سزائے موت کی بحالی – ابن الحسن

    ترکی میں سزائے موت کی بحالی – ابن الحسن

    ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں سزائے موت کی ممکنہ بحالی کی بات کی تھی. اس اعلان نے یورپی شراکت داروں کو شدید ردعمل پر اکسایا ہے. 2004 میں سرکاری طور پر یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی شرط کو پورا کرتے ہوئے سزائے موت کو ختم کر دیا گیا تھا. اردگان نے استنبول میں ناکام فوجی بغاوت کے متاثرین کے جنازے کے اجتماع میں لوگوں کے مطالبے پر کہا تھا کہ ہم آپ کی درخواست نظر انداز نہیں کر سکتے. سرکاری طور پر اور ایک ریاست کے طور پر، ہم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کا مطالبہ ہے جنہوں نے فوجی بغاوت کو ناکام بنایا ہے. ہماری حکومت اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے بعد اس کا فیصلہ کرے گی۔ اس کے بعد ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ سزائے موت کی ممکنہ بحالی پر پہل ےپارلیمنٹ میں ایک بحث کی ضرورت ہے.

    ترکی میں سزائے موت بحال ہوتی ہے تو یہ یورپی یونین کی رکنیت کے معیار کے برعکس ہوگا. ترکی اور یورپی کے درمیان رکنیت مذاکرات برسوں سے تعطل کا شکار ہیں. برسلز سے یورپی سفارت کاری کے سربراہ Federica Mogherini نے اس کے خلاف ردعمل دیا. برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پہنچنے پر اطالوی وزیر نے کہا کہ ” قانون کی حکمرانی ترکی کے فائدے میں ہے، مزید یہ کہ ترکی کے اقدامات اسے یورپی یونین سے دور کرنے کے لیے کوئی بہانا نہیں ہے.” جرمن حکومت نے بھی اس پر شدید ردعمل دیا اور اس کے ترجمان ، اسٹیفن Seibert نے خبردار کیا سزائے موت کی بحالی یورپی یونین کے ساتھ الحاق کی کوشش کا اختتام ہوگا”. یورپی یونین کے ردعمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی میں سزائے موت کی بحالی کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور اس سے نہ صرف رکنیت کے حصول کی خواہش کو دھچکا لگے گا بلکہ تعلقات میں بھی فرق پڑے گا.

  • خودی سے خود احتسابی تک – محمد مجیب صفدر

    خودی سے خود احتسابی تک – محمد مجیب صفدر

    انسان کے اندر بہت سی خوبیاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں لیکن سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خود احتسابی و خود شناسی سے بہرہ ور ہو اور اپنی خامیوں سے متعارف کرانے والوں کا دل کی وسعتوں سے سامنا بھی کر سکے اور ان کو دور بھی کرے. ایسے ہی سب سے بڑی خامی بھی یہی ہے کہ وہ خود احتسابی و خود شناسی سے روگردانی کرنے والا ہو.

    آج ہمارے زوال کے اسباب میں سے ایک بڑا اور اہم سبب خود احتسابی و خود شناسی سے دوری ہے. ہم گناہوں سے دور رہنے کی لاکھ کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسے ایسے گناہ سرزد ہوجاتے ہیں جن سے بہت زیادہ شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے. آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ بچنے کی کوشش کے باوجود بچ نہیں پاتے. یاد رکھیے جب تک ہم اپنے اندر کے شیطان کو نہیں پہچانتے اور اس کا سدباب نہیں کرتے تب تک ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے. گناہوں کی اصل جڑ اور بنیاد ہمارے اپنے اندر کا شیطان ہے، انسان کے اندر دو قوتیں ہوتی ہیں، ایک انسانیت اور ایک شیطانیت کی، انسانیت شیطانیت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے، اس وقت تک جب تک انسان اس کو جگائے رکھے اور اس کی تجدید کرتا رہے. جب انسان اپنے اندر پنپنے والی انسانیت کو بیدار کرنا اور اس کی تجدید چھوڑ دے تب اس کے اندر کی شیطانیت غلبہ پانے لگتی ہے اور انسانیت مرنے لگتی ہے، انسانیت مرتی ہے تو اپنے ساتھ بہت سی چیزیں لے جاتی ہے جن میں سرفہرست حیا آتی ہے. تب انسان کو اس کے برے افعال بھی اچھے لگنے لگتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے سب اچھا ہے. حدیث پاک میں آتا ہے ” جب حیا فوت ہو جائے تو جو چاہے مرضی کرو”

    مختصر یہ کہ انسانیت اپنے ساتھ سب اچھی خصلتیں لے جاتی ہے اور انسان کے اندر صرف شیطانیت بچ جاتی ہے. شیطانیت سے انسان کے اندر توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے. انسانیت کی پرورش تو آپ کو خود کرنی پڑتی ہے لیکن شیطانیت اپنے رستے خود بناتی ہے. شیطانیت کی مرغوب غذاؤں میں سے انسانوں کی عزتیں اچھالنا، ان کی لاشوں کے مینارے بنانا، ان کو تعلیم سے دور کرنا، ان کے اندر سے حسن اخلاق کو لے اڑنا، الغرض ہر اچھی چیز کو ختم کرنا ہوتی ہیں. اس لیے اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب کسی کے اندر انسانیت مرجائے. وقتا فوقتا اپنے اندر انسانیت کی پرورش کرتے رہیں، اور اس کی پرورش کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں، ان کی خوشی کو اپنی خوشی جانیں بلکہ ان کی خوشی کے اسباب پیدا کریں، ان کے دکھ کا مداوا کریں. جب آپ یہ سب لوگوں کے لیے کریں گے تو یہی سب کچھ لوگ آپ کے لیے بھی کریں گے. شیطانیت کو نیست و نابود کرنے کے واسطے ہمیں خود احتسابی و خود شناسی کا ہتھیار استعمال میں لانا ہوگا تب جا کر ہم ایک اچھا معاشرہ تشکیل دے پائیں گے. اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کیوں کہ جب ہم خود احتسابی کا ہتھیار استعمال میں لائیں گے تو پھر اور کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں رہے گی. نہ کسی انقلاب کو کینیڈا سے منگوانے کی اور نہ ہی ڈی چوک بلاک کرنے کی.

    جب ہم اپنے اندر ایک چھوٹی سی انقلابیت کو سمو لیں گے جس کا نام خود احتسابی ہے تو پھر ہم سب کی یہ چھوٹی چھوٹی خود احتسابی پر مبنی انقلابیت مل کر ایک بڑے انقلاب کا روپ دھار لیں گی جو ایک نیا معاشرہ تشکیل دے گا. ایسا معاشرہ جس میں کسی بہن بیٹی اور ماں کو ایک وحشہ بننے دیا جائے گا نہ کسی بھائی باپ اور بیٹے کو ضلال، وہ انقلاب بھکاریوں کے ہاتھوں میں کشکول کی جگہ ہاتھ تھما دے گا، وہ ہاتھ جو ایک سہارا ہوگا، ایک لاٹھی کی صورت بن کر ہمارے بوڑھوں کا سہارا ہوگا، ہمدردی کا روپ دھار کر ہمارے غریبوں کا مسیحا بنے گا، ان لوگوں کے لیے کام کرے گا جو مفلسی و ناداری کے سبب گداگری جیسی لعنت کو اپنی گردن کا طوق بنائے پھرتے ہیں. وہ انقلاب ان مائوں کا بیٹا بنے گا جن کے بیٹے کسی دھماکے میں اڑا دیے جاتے ہیں، جہیز جیسی لعنت کو اپنے معاشرے سے نکال پھینکے گا جس کی بدولت بہنیں اکثر اپنے بالوں میں سفید چاندی اگا لیتی ہیں، عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے ان والدین کا سہارا بنے گا جو کچھ نہ ہونے کے سبب اپنی اولادوں کے رشتے نہیں کروا سکتے، ایک طوائف کو کوٹھے سے اٹھا کر ایک گھر میں بٹھائے گا، کسی ماں کی کوکھ کو اجاڑے گا نہیں بلکہ بسائے گا، کسی بہن سے اس کا بھائی چھینے گا نہیں بلکہ اس کو اور مضبوط بنائے گا، ایک مولوی کی دوڑ کو صرف مسجد تک نہیں رکھے گا بلکہ امور دنیا میں بھی اسے ساتھ ساتھ لے کر چلے گا، وہ انقلاب اقبال کے شاہینوں کو حقیقی معنوں میں معمار ملت بنائے گا، کسی بوڑھے کو خودسوزی کی اجازت نہیں دے گا، بوڑھوں کو اولڈ ہوم سے نکال کر اولاد کے لیے راہ نجات کا سبب بنائے گا، وہ انقلاب معاشی بحران کا سبب نہیں بنے گا بلکہ ملک و قوم کو ترقی دے گا. لیکن یاد رکھیے کہ ایسا انقلاب صرف اور صرف خود احتسابی و خود شناسی کی قربانی مانگتا ہے، جب ہم لوگ یہ قربانی دیں گے تو پھر ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے سکیں گے جس کی آب و ہوا میں بارود کی بو نہیں بلکہ خوشیوں اور بہاروں کی خوشبو ہوگی، جو ہماری سانسوں کو ایسے مہکائے گی جیسے کسی مچھلی کے لیے پانی ہو یا جیسے کسی تتلی کے لیے پھول ہو.
    علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا:
    اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
    تو میرا نہیں بنتا تو نہ بن اپنا تو بن

  • ترکوں کی اسلام سے محبت – سحر فاروق

    ترکوں کی اسلام سے محبت – سحر فاروق

    سحر فاروق یہ محض ایک فوجی بغاوت کی ناکامی ہے نہ اسلام پسند عوام کا اپنے من پسند لیڈر پراعتماد کا ووٹ ہے، بلکہ یہ اس ترکی کا ردعمل ہے جس کے اسلامی تشخص کو نوے سال قبل گہنا دیا گیا تھا، بقا کی جنگ کی بڑی مہنگی قیمت ادا کی تھی امت کے اس آخری حصار نے۔

    ذرا بیسوی صدی کی پہلی تہائی کا زمانہ تصور کیجیے. سلطنت عثمانیہ کی بے رحم قطع و برید جاری ہے، ابھرتی ہوئی طاقتوں فرانس برطانیہ اٹلی کی حریص نگاہوں میں تقسیم کا عمل وقوع پذیر ہو رہا ہے، اسے دیکھ کرمحسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہی ترکی ابھی ساڑھے چھ سو سالہ پرشکوہ دور اقتدار گزار آیا ہے. عین ممکن تھا کہ ترکی کا وجود ہی ختم ہو جاتا اور وہ ان طاقتوں میں ضم ہو کر رہ جاتا. لیکن مصطفے کمال اتاترک ( ترکوں کا باپ) ایسے میں ترک قومیت کے نام پر ترکوں کو اکٹھا کرتا ہے. اتاترک کی اصلاحات کے کڑوے گھونٹ چاہے وہ ملک سے عربی تہذیبی و لسانی اثرات کو کھرچنا ہو، مدارس پر پابندی لگاناہو یا عورت کو مغرب کے رنگ میں ڈھالنے کے لیے سروں سے اسکارف نوچے جانا ہو، ترکوں نے بڑی مشکل ہی سے بھرے تھے.

    ترکوں کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں سے جاگزیں محبت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں. حالیہ واقعے کے علاوہ بھی ترکی کا دل امت کے لیے دھڑکتا رہتا ہے. غزہ ہو یا برما، مصر ہو یا بنگلہ دیش، یا دنیا میں کوئی اور مسلم علاقہ اور مسلمان، ترکی امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے. اسلامی تاریخ بھی اس بات پر شاہد ہے کہ ترک قبائل نے کس کس موقع پر اسلام اور مسلمانوں کو سہارا دیا. لامرکزیت کا شکار زمیں بوس ہوتی عباسی خلا فت کو سہارا دینے کے ضمن میں سلاجقہ کا کردار، خلافت کے ادارے کا وقار بڑھانا، تقدس بحال کرنا ہو یا صفاری، سامانی، طولونی و فاطمیوں جیسی آزاد و خودمختار سراٹھاتی ریاستوں کے مقابل مسلمانوں کو ایک مرکز پر جمع کرنا، اس سب میں آل سلجوق، ارطغرل اور الپ ارسلان کا کردار بین دلیل ہے.

    خلیفہ قائم باللہ سے رشتہ داری کے ذریعے عباسیوں کو تقویت پہنچانا ہو تو ترک
    سید الانبیاء کی بشارت پر قسطنطنیہ کی فتح کا کارنامہ انجام دینا ہو تو ترک
    حرمین کی تولیت آل فاطمین سے لے کر مسلمانوں کو ایک خلافت پر جمع کرنا ہو تو ترک
    ایک عرصے تک تین برِاعظموں پر حکومت کر کے اسلام دشمنوں کو سہمائے رکھنا ہو تو ترک
    اسپین سے جلا وطن و بے دخل مسلمانوں کو اپنے بحری جہازوں کی خدمات دینی ہوں تو ترک
    کیا یہ سب اسلام و مسلم امت سے محبت کی سوا بھی کچھ ثابت کرتا ہے؟

    ایسے اسلام پسندوں کے ہاں بھی بھلا مذہب بیزار کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ترکوں نے تو بس اپنی صدیوں پرانی نظریاتی عمل داری کی ہلکی سی جھلک دکھائی ہے، وہ نظریہ جس سے ہم اور آپ محبت کرتے ہیں

  • معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت – زمان خالد

    معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت – زمان خالد

    زمان خالدمیرا ایک جاننے والا سرکاری وسائل اپنے ذاتی مقصد کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ میں نے اسے متوجہ کیا کہ یارآپ ٹھیک نہیں کر رہے۔وہ کہنے لگا باقی دنیا بھی کرتی ہے، میں بھی کر رہا ہوں تو کیا ہوا؟ میں نے سمجھایا کہ اگر سارے لوگ غلط کام کرنے لگیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ کام ٹھیک ہے۔ اس پر وہ صاحب بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ آپ کب سے مولوی بن گئے؟

    اس واقعے میں دو باتیں بڑی واضح ہیں۔ ایک عدم برداشت، دوسری دلیل کی کمی۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ دونوں باتیں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ کسی کے دل میں کچھ بھی آئے، فیس بک اور ٹوئٹر پر لکھ دیتا ہے۔ کسی کی تعریف کرنی ہو یا کسی پر تنقید، ہر کوئی یہاں اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتا ہے۔ چاہے اس بچارے کو اپنے گھر یا ماحول میں کوئی سننا بھی پسند نہ کرتا ہو۔ ہماری ملک کی سیاست ہو یا مذہب کا کو ئی مسئلہ، فیس بک اور ٹوئٹر پر کھل کر بحث و مباحثہ ہوتا ہے مگر ان میں عدم برداشت اور عدم دلیل واضح ہوتی ہے۔ بعض لوگ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے فوٹو شاپ کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

    حال ہی میں پیش آنے والے دو واقعات کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ جس میں عدم برداشت اور دلیل کی واضح کمی نظر آئےگی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس میں آگے آگے ہے۔ پی ایچ ڈی حضرات کے پاس بھی دلیل کی کمی دیکھی گئی ہے۔ شاید ہمارے معاشرے میں تعلیم تو ہے لیکن تربیت نہیں ہے۔

    گزشتہ مہینے اسلامی نظریاتی کونسل نے 163 صفحات پر مشتمل ایک بل تجویز کیا۔ ایک شق کے مطابق اگر ایک عورت اپنے شوہر کی بات نہیں مانتی تو شوہر کو ہلکا پھلکا مارنے کی اجازت ہے. بدقسمتی سے میڈیا کو 163 صفحات کے بل میں صرف دو لفظوں کے علاوہ اور کوئی بات نظر نہیں آئی اور ساری تشہیر “ہلکی پھلکی مار ” کی ہوئی۔ اس پر ایک طبقے کی طرف سے رد عمل آیا، اور خواتین تنظیموں نے احتجاج کیا۔ کسی نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل پر پابندی لگانی چاہیے اور کسی نے اس کے چیئرمین مولانا شیرانی کو مذاق کا نشانہ بنایا۔ سورۃ النسا آیت نمبر 34 کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس آیت کا مفہوم بیان کیا ہے۔ مولانا شیرانی صاحب اس تناظر میں اپنی بات پر قائم رہے اور انٹرویوز میں اس مئوقف کا دفاع کیا۔

    دوسرا واقعہ اوریا مقبول جان صاحب کا ہے۔
    اوریا مقبول جان صاحب نے کیو موبائل کے ایک کمرشل کے ردعمل میں ایک کالم لکھا اور اشتہار کے ذریعے سیکولرازم پھیلا نے پر تنقید کی۔ لیکن کچھ پڑھے لکھے اور برداشت کے علمبردار اوریا صاحب کے پیچھے پڑ گئے، ان کے نام کا مذاق اڑایا گیا اور ان کے خا ندان کو نشانہ بنایا گیا۔ اوریا صاحب نے ایک ایشو پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا تھا لیکن بعض لوگوں نے انھیں عریاں مقبول جان کہنا شروع کر دیا.

    ان دونوں واقعات کے بیان کرنے کا مقصد کسی کی حمایت کرنا ہے نہ کسی کو جتوانا ہے۔ بلکہ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے تضاد اور عدم برداشت کی نشان دہی کرنا ہے. ہمیں ایک دوسرے کی باتیں سننی اور نقطہ نظر کو سمجھنا ہوگا۔ ایک دوسرے کی ذات کو نشانہ بنائیں گے تو دوریاں بڑھتی جائیں گی اور ہم کبھی ایک متحد قوم کے طور پر نہیں اٹھ پائیں گے اور تفریق سے ہمارا دشمن فائدہ اٹھاتا رہےگا.

    (خالد زمان یونیورسٹی آف لاہور کے شعبہ نفسیات میں ماسٹر آف فلاسفی کے طالب علم ہیں)

  • اعمال نامہ ، دنیا سے آخرت تک – رانا اقبال

    اعمال نامہ ، دنیا سے آخرت تک – رانا اقبال

    احمد دفتر میں داخل ہوا تو سامنے بیٹھے مینیجر کی طرف متلاشی نظروں سے دیکھنے لگا جیسے وہ کچھ امید باندھے ہوئے ہو۔ احمد اور اس کا مینجر ایک ہی آفس میں بیٹھتے تھے اور روز مرہ کام کے ساتھ ایک بات کا ذکر معمول بن گیا تھا اور وہ تھی تنخواہ. تنخواہ کا ذکر کچھ روز سے پھر زوروں پر تھا. چونکہ احمد کا کمپنی کی ساتھ دوسالہ کنٹریکٹ پورا ہونے کے قریب تھا، اس لیے اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر اس مرتبہ تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا تو وہ کسی اور کمپنی میں کام کرے گا.
    خلاف معمول مینیجر نے ہی اس بات کا تذکرہ کیا اور احمد کو بتایا کہ اُس کی تنخواہ میں اضافہ کےلیے تشخیصی کارکردگی کا پرچہ انتظامیہ کی طرف سے مرتب کیا گیا ہے جس میں اس کی مکمل عادات و صفات سے لے کر کام میں دلچسپی اور پیداوار، تجربہ، سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت، دوسروں کے ساتھ رویہ، فیصلہ کرنے کی قوت اور عمل درآمد، دکھاوی شخصیت، نت نئے راستے سوچنا اور اختیار کرنا اور تعلیم پر مشتمل ہے۔
    مینیجر احمد کو وہ فارم دکھاتے ہوئے بتا رہا تھا کہ پچھلے دو سال کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فارم مرتب کیا گیا ہے اور اسی فارم کی بنیاد پر اس کی تنخواہ میں اضافہ ہوگا. احمد نے اپنی دو سالہ کارکردگی کا پرچہ پڑھنا شروع کیا اور تمام نکات کا بغور جائزہ لیا. واپسی پر تمام راستہ ہی وہ اپنے کارناموں کے پرچے کے بارے میں سوچتا رہا اور اسی فکر میں غلطاں اپنے راستے پر رواں دواں تھا کہ ٹریفک حادثہ پیش آ گیا۔ تب اس کا ماتھا ٹھنکا کہ اب اسے زندگی کے تمام کارناموں کا کتابچہ دیا جائے گا۔ تمام تر گزری زندگی کی فلم اُس کی آنکھوں میں چل رہی تھی کہ اُدھر ریڈیو پر سورہ الکہف کی آیات کی تلاوت اسے مزید پشیمان کر رہی تھیں۔
    ترجمہ۔
    اور جب اعمال کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی تو تم گناہ گاروں کو دیکھو گے جو کچھ اس میں لکھا ہو گا اس سے ڈر رہیں گے اور کہیں گے، ہائے شامت یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے اور نہ بڑی کو، کوئی بات بھی نہیں مگر اسے لکھ رکھا ہے اور جو عمل کیے ہوں گے سب کو حاظر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ سورت الکھف۔

    ہائے کاش کہ مجھے کچھ مہلت مل گئی ہوتی، میں کیونکر اپنے پروردگار کے احکامات کو بھول گیا تھا. سب جانتے ہوئے بھی میں امتحان کی تیاری نہ کر سکا. احمد انھی سوچوں میں کراہ رہا تھا کہ ہسپتال کے ایک کمرہ میں اس کی آنکھ کھلی. موت کی ایک جھلک نے اُسے جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا وہ اپنی تخلیق کے مقصد کو سمجھ گیا تھا. وہ اللہ پاک سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار تھا اور اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آئندہ وہ اپنے رب کے احکامات بجا لائے گا۔ وہ اپنے رب کی لگائی ہوئی ڈیوٹی پوری کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے گا.