میرا ایک جاننے والا سرکاری وسائل اپنے ذاتی مقصد کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ میں نے اسے متوجہ کیا کہ یارآپ ٹھیک نہیں کر رہے۔وہ کہنے لگا باقی دنیا بھی کرتی ہے، میں بھی کر رہا ہوں تو کیا ہوا؟ میں نے سمجھایا کہ اگر سارے لوگ غلط کام کرنے لگیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ کام ٹھیک ہے۔ اس پر وہ صاحب بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ آپ کب سے مولوی بن گئے؟
اس واقعے میں دو باتیں بڑی واضح ہیں۔ ایک عدم برداشت، دوسری دلیل کی کمی۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ دونوں باتیں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ کسی کے دل میں کچھ بھی آئے، فیس بک اور ٹوئٹر پر لکھ دیتا ہے۔ کسی کی تعریف کرنی ہو یا کسی پر تنقید، ہر کوئی یہاں اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتا ہے۔ چاہے اس بچارے کو اپنے گھر یا ماحول میں کوئی سننا بھی پسند نہ کرتا ہو۔ ہماری ملک کی سیاست ہو یا مذہب کا کو ئی مسئلہ، فیس بک اور ٹوئٹر پر کھل کر بحث و مباحثہ ہوتا ہے مگر ان میں عدم برداشت اور عدم دلیل واضح ہوتی ہے۔ بعض لوگ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے فوٹو شاپ کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
حال ہی میں پیش آنے والے دو واقعات کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ جس میں عدم برداشت اور دلیل کی واضح کمی نظر آئےگی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس میں آگے آگے ہے۔ پی ایچ ڈی حضرات کے پاس بھی دلیل کی کمی دیکھی گئی ہے۔ شاید ہمارے معاشرے میں تعلیم تو ہے لیکن تربیت نہیں ہے۔
گزشتہ مہینے اسلامی نظریاتی کونسل نے 163 صفحات پر مشتمل ایک بل تجویز کیا۔ ایک شق کے مطابق اگر ایک عورت اپنے شوہر کی بات نہیں مانتی تو شوہر کو ہلکا پھلکا مارنے کی اجازت ہے. بدقسمتی سے میڈیا کو 163 صفحات کے بل میں صرف دو لفظوں کے علاوہ اور کوئی بات نظر نہیں آئی اور ساری تشہیر "ہلکی پھلکی مار " کی ہوئی۔ اس پر ایک طبقے کی طرف سے رد عمل آیا، اور خواتین تنظیموں نے احتجاج کیا۔ کسی نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل پر پابندی لگانی چاہیے اور کسی نے اس کے چیئرمین مولانا شیرانی کو مذاق کا نشانہ بنایا۔ سورۃ النسا آیت نمبر 34 کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس آیت کا مفہوم بیان کیا ہے۔ مولانا شیرانی صاحب اس تناظر میں اپنی بات پر قائم رہے اور انٹرویوز میں اس مئوقف کا دفاع کیا۔
دوسرا واقعہ اوریا مقبول جان صاحب کا ہے۔
اوریا مقبول جان صاحب نے کیو موبائل کے ایک کمرشل کے ردعمل میں ایک کالم لکھا اور اشتہار کے ذریعے سیکولرازم پھیلا نے پر تنقید کی۔ لیکن کچھ پڑھے لکھے اور برداشت کے علمبردار اوریا صاحب کے پیچھے پڑ گئے، ان کے نام کا مذاق اڑایا گیا اور ان کے خا ندان کو نشانہ بنایا گیا۔ اوریا صاحب نے ایک ایشو پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا تھا لیکن بعض لوگوں نے انھیں عریاں مقبول جان کہنا شروع کر دیا.
ان دونوں واقعات کے بیان کرنے کا مقصد کسی کی حمایت کرنا ہے نہ کسی کو جتوانا ہے۔ بلکہ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے تضاد اور عدم برداشت کی نشان دہی کرنا ہے. ہمیں ایک دوسرے کی باتیں سننی اور نقطہ نظر کو سمجھنا ہوگا۔ ایک دوسرے کی ذات کو نشانہ بنائیں گے تو دوریاں بڑھتی جائیں گی اور ہم کبھی ایک متحد قوم کے طور پر نہیں اٹھ پائیں گے اور تفریق سے ہمارا دشمن فائدہ اٹھاتا رہےگا.
(خالد زمان یونیورسٹی آف لاہور کے شعبہ نفسیات میں ماسٹر آف فلاسفی کے طالب علم ہیں)
تبصرہ لکھیے