اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر اور جمہوری ریاست ہونے کا دعویدار پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت اپنے عمل کے ذریعے اپنے ہر مؤقف کو جھوٹا ثابت کرتا آ رہا ہے۔
اس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری مملکت ہے، مگر دنیا میں قومیت پرستی، اور لسانی عصبیت میں دوسرا نمبر رکھنے والا بھارت نہ صرف ایک فرقہ وارانہ ذہنیت کا حامل ملک ہے، بلکہ عدم برداشت، شرپسندی اور تعصب پسندی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 20 سے 30 کروڑ کے درمیان ہے، اور وہاں کی سب سے بڑی اقلیت ہے، مگر ریاستی انتہاپسندی اور ہندو دہشت گردی کا شکار ہے. بی جے پی کی متعصب حکومت مسلمانوں کو ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی، اس سے وابستہ ہندو دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں کو ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔
سرکاری سطح پر مسلم دشمنی کی وجہ سے مسلمانوں کو رمضان میں روزے رکھنے اور مساجد جانے سے روکا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہریانہ کے ایک سکول میں عید ملن پارٹی منعقد کرنے پر مقامی ہندو انتہا پسندوں نے سکول پر دھاوا بول دیا. پنچایت نے ایک سکول پر عید کی تقریب منعقد کرنے پر ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا اور سکول کے باہر دھرنا دے کر مسلم طلبہ اور اساتذہ کو سکول سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا گيا۔ سکول کی مینیجر ہیما شرما نے ایک اخبار کو بتایا کہ ’پنچایت کے مطالبے کے بعد سکول کی واحد مسلم ٹیچر ملازمت چھوڑ کر دہلی میں رہنے پر مجبور ہوئی ہیں۔‘
بھارت میں یوں تو مسلمانوں کے خلاف فسادات ہوتے رہے ہیں لیکن مرکز میں مودی حکومت آنے کے بعد سے اس میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گيا ہے۔ مقامی ہندو انتہا پسندوں کا مسلمانوں کو ملک بدر ہونے کے لیے مجبور کرنا اور ہندو رہنماؤں کی طرف سے مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑنے کے بیانات دینا اب ایک معمول بن گیا ہے۔ ڈاکٹر ذاکرنائک جیسی معتدل آواز کو بھی برداشت نہیں کیا جارہا جن کے صرف ہندوستان میں کروڑوں فالوورز ہیں. دنیا بھر میں پیغامِ محبت بانٹ کر تقابلِ ادیان میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے اس اسکالر کو بھی دہشت گرد قرار دے کر ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس سے بھارت کا متعصب، انتہا پسند اور عدم برداشت پر مبنی چہرہ مزید عیاں ہوگیا ہے۔
تبصرہ لکھیے