Category: سیرت صحابہ

  • سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے کارنامے اور نزول قرآن سے موافقت – میاں عتیق الرحمن

    سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے کارنامے اور نزول قرآن سے موافقت – میاں عتیق الرحمن

    میاں عتیق الرحمن ابوحفص عمر بن خطاب عدوی قریشی، لقب فاروق 586ء تا 590ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا لقب فاروق، کنیت ابوحفص دونوں نبی کریم ﷺکے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب آٹھویں یا نویں پشت میں رسول اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ آپﷺ کی آٹھویں یا نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی تھے جن میں سے رسول اللہ ﷺ مرہ کی اولاد جبکہ سیدنا عمر عدی کی اولاد میں سے ہیں۔ ابتدا میں جب حضور اکرم ﷺ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو سیدنا عمر نے آپ ﷺ کی سخت مخالفت کی۔ مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد آپ پر جب حقیقتیں کھلنے لگیں اور آپ ﷺ نے دعا بھی کی تو آپ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لیے آپ کو مراد رسول ﷺبھی کہا جاتا ہے۔ سیدنا عمر فاروق مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد ﷺ کے سسراور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔آپ عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں اور ان کا شمار علم وحکمت سے بھرپورصحابہ میں ہوتا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔سیدنا عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، ان کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں سے ایک وجہ یہ بھی بن گئی۔

    سیدنا عمر بن خطاب کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان مملکت اسلامیہ میں شامل ہوئے اور سلطنت اسلامیہ کا رقبہ 22 لاکھ 51 ہزاراور30 مربع میل تک پھیل گیا۔ انہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباًً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کاحصہ بنا۔سیدنا فاروق اعظم کی مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل بادشاہت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی زبر دست صلاحیتوں کی دلیل ہے۔

    سیدنا عمر فاروق نے حسن انتظام کے ہر کونے میں جو نئی سمتیں پہلی بار متعارف کر وائیں ان میں بیت المال کو قائم کرنا،عدالتیں اور قاضیوں کی مستقل تقرری،سن ہجری اور تاریخ کو رواج دینا،امیر المومنین کا لقب اختیار کرنا،رضاکاروں کی تنخواہیں مقرر کرنا،فوجی دفتر ترتیب دینا،دفتر مال قائم کرنا،زمینوں کی پیمائش جاری کرنا،نہریں کھدوانا،کوفہ،بصرہ ،جیزہ ،فسطاط اور موصل شہر آباد کرنا،مفتوحہ ممالک کو صوبوں میں تقسیم کرکے وفاق کے ساتھ ملانا، عشور ،دریائی پیدا وار عنبر وغیرہ پر ٹیکس لگانا،ٹیکس لینےوالا عملہ رکھنا،جنگ کرنے والے ملکوں کے تاجروں کو تجارت کیلئے آنے دینا،جیل خانہ جات کا قیام،درہ کا استعمال ،راتوں کو گشت کرکے رعایا کے حالات جاننا ،محکمہ پولیس کا قیام،مختلف علاقوں میں فوجی چھاؤنیوں کا قیام ،گھوڑوں کی نسلوں میں فرق کا نظام ،پرچہ نویسوں کا تقرر،مکہ اور مدینہ کے راستے میں مسافروں کیلئے سراؤں کی تعمیر ،سٹریٹ چلڈرن کی دیکھ بھال کا انتظام،مختلف شہروں میں مہمان خانوں کا اہتمام،عربوں کی غلامی کا مکمل خاتمہ،کمزور اور ناداریہودیوں اور عیسائیوں کے وظائف،مکاتب کاقیام، جناب سیدنا صدیق اکبر کے ذریعے قرآن مجید کی ترتیب واہتمام کی کوشش،اصول قیاس کے معیار کا قیام،وراثت میں مسئلہ عول کی دریافت،صبح کی نماز کیلئے آذان سن کر سوئے رہنے والے لوگوں کیلئے الصلوۃ خیر من النوم کی آواز لگانے کا اہتمام،نماز تراویح کو باجماعت کروانے کا بندوبست،شراب کی حد 80 کوڑے مقرر کرنا،تجارتی گھوڑوں کی زکوۃ کی وصولی،بنو تغلب کے عیسائیوں سے زکوۃ لینا،طریقہ وقف ،نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر لوگوں کو جمع کرنا،مساجد میں وعظ کے طریقے مقرر کرنا،اماموں اور مؤذنوں کی تنخواہوں کا تقرر،مساجد میں رات کو روشنیوں کا اہتمام،ہجو کہنے پر تعزیر کی سزا اور غزلیہ اشعار میں عورتوں کے نام استعمال کرنے پر پابندی سمیت بہت سے امور اور جہتیں شامل ہیں۔ان کی تفصیل تاریخ طبری اور کتاب الاوائل ابو ہلال العسکری میں موجود ہے ۔

    سیدنا فاروق اعظم کو یہ سعادت بھی کئی مرتبہ حاصل ہوئی کہ وحیِ خداوندی نے ان کی رائے کی تائید کی۔ ایک دفعہ ایک یہودی نے سیدنا عمر فاروق سے کہا ، جبرئیل فرشتہ جس کا ذکر تمہارے نبی کرتے ہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا، مَنْ کَانَ عَدُوَّ لِلّٰہِ وَمَلاَ ئِکَتِہٖ وَرُسُلِہ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوُّ لِلْکٰفِرِیْن۔ ترجمہ : جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کے دشمن ہیں، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔ (البقرۃ:٩٨) بالکل اِنہی الفاظ میں یہ آیت نازل ہوئی۔تفسیر ابن کثیر البقرۃ تفسیرآیت نمبر 98 )

    ایک دوسری آیت اس طرح نازل ہوئی کہ ایک بار آپ نے عرض کی، یا رسول اللہ ! ہم مقامِ ابراہیم کو مصلیٰ نہ بنالیں ، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی، وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہمَ مُصَلًّی ۔ لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنالو۔(البقرۃ:١٢٥) ۔بخاری شریف کتاب التفسیر :4243)
    نیچے بیان کردہ تین آیات کے نزول کا پس منظر کچھ اس طرح ہے حرمت سے قبل مدینہ طیبہ میں شراب اور جوئے کاعام رواج تھا۔سیدناعمر نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، ہمیں شراب اور جوئے کے متعلق احکامات دیجیے کیونکہ یہ مال اور عقل دونوں ضائع کرتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْم کَبِیْر۔ (البقرۃ:٢١٩) ۔ اس کے نازل ہونے کے بعد سیدنا عمر پھر وہی دعا کرتے رہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔یٰااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی ۔(النساء:٤٣) اسی سلسلے میں سیدنا عمر نے بار بار دعا کی ، اے اللہ ! شراب اور جوئے کے متعلق ہمارے لئے واضح حکم نازل فرما۔ حتی کہ شراب اور جوئے کے حرام ہونے پریہ آیت نازل ہوگئی۔ اِنَّمَا الْخَمْرُ والْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلاَمُ رِجْس” مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ ۔ ۔ (المائدۃ:٩٠ تو حضرت عمر نے کہا کہ ہم باز آگئے ہم باز آگئے۔(ترمذی: 3039۔نسائی شریف: 5049)

    قرآن مجید کا چھٹا مقام سورت البقرۃ کی آیت نمبر 187 کاشان نزول ہے جس کے بارے حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں رمضان المبارک کی رات میں بھی بیوی سے قربت منع تھی ۔تمام صحابہ کرام اس پابندی سے رخصت کے طلب گار تھے مگر اس کا اظہار سب سے پہلے عمر فاروق نے کیا اور جس پر تمام صحابہ کرام کا مسئلہ بھی حل ہوا اور امت کو ایک رخصت مل گئی اور پھر شب ‏میں مجامعت کو جائز قرار دے دیا گیااور آیت نازل ہوئی۔ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَائِکُمْ۔البقرۃ 187) تفسیر ابن کثیر تفسیر سورت البقرۃ آیت 187) حافظ احمد شاکر ؒ نے عمدۃ التفاسیر میں اسے صحیح کہا ہے۔

    قرآن مجید کے ساتویں مقام سورت نساء آیت نمبر 65 میں بھی بعض کمزور روایات میں موافقت عمر فاروق میں شمار کیا گیا ہے ۔ہوا کچھ یوں تھا کہ دو شخص لڑائی کے بعد انصاف کے لیے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے ۔ حضور ﷺ نے ان کا فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا، وہ منافق تھا۔ اس نے کہا کہ ‏چلو سیدنا عمر کے پاس چلیں اور ان سے فیصلہ کرائیں۔ چنانچہ یہ دونوں پہنچے اور جس شخص کے موافق حضور نے فیصلہ کیا تھا اس نے سیدنا عمر ‏ سے کہا ، حضور نے تو ہمارا فیصلہ اس طرح فرمایا تھا لیکن یہ میرا ساتھی نہیں مانا اورآپ کے پاس فیصلہ کے لئے لے آیا ۔ آپ نے فرمایا، ذرا ٹھہرو میں ‏آتا ہوں۔ آپ اندر سے تلوار نکال لائے اور اس شخص کو جس نے حضور کا فیصلہ نہیں مانا تھا، قتل کر دیا۔ دوسرا شخص بھاگا ہوا رسولُ اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ‏اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا، مجھے عمرسے یہ امید نہیں کہ وہ کسی مومن کے قتل پر اس طرح جرات کرے ۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ‏ سیدنا عمر اس منافق کے خون سے بری رہے۔آیت یہ ہے۔ فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ الخ۔( النساء 65) یہ واقعہ یا شان نزول ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں علامہ زیلعی نے تخریج الکشاف ، علامہ سیوطی نے لباب النقول اور علامہ شوکانی نے فتح القدیر میں نقل کیا ہے مگر سب نے ابن لھیعہ کے وجہ سے اسے ناقابل استدلال ٹھہرایا ہے۔

    موافقات عمر کا آٹھواں مقام سورت الانفال کی آیت نمبر 68 ہے ۔۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق بعض نے فدیہ کی رائے دی تھی جبکہ جناب سیدنا عمر فاروق نے انہیں قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ اس پر آپ کی موافقت میں یہ آیت ‏نازل ہوئی۔ لَوْلاَ کِتَاب مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَاب عَظِیْم”‏(الانفال:٦٨‏)۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی”۔صحیح مسلم 2399)
    جناب سیدنا عمر فاروق کی تائید میں قرآن کریم کانواں مقام سورت التوبہ کی آیت نمبر 84 ہے کہ جب منافق عبداللہ ابن اُبی مرا تو ان کے بیٹے نے آپ ﷺ سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے درخواست کی ۔اس پر سیدنا عمر فاروق نے عرض ‏کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ، عبداللہ ابن اُبی توآپ کا سخت دشمن اور منافق تھا ،آپ اُس کا جنازہ پڑھا ئیں گے مگر پھر بھی رحمتِ عالم ﷺنے تبلیغ دین کی حکمت کے پیشِ نظر اس کی نمازِ جنازہ ‏پڑھائی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ یہ آیت نازل ہوگئی ، وَلاَ تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ اَبَدًا۔ التوبہ 84، سلسلہ صحیحہ: 1130)

    قرآن کریم کا سیدنا عمر فاروق کی تائید میں دسواں مقام سورت منافقون کی آیت 6 بھی اسی وقت یا اس سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ اسی نماز جنازہ کے حوالے سے حضرت عمر فاروق نے عرض کی تھی ، سَوَاء عَلَیْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ (منافقون 6) مجمع الزوائد جلد 9 /70)
    گیارہویں موافقت کی روداد کچھ اس طرح ہے کہ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ جب آیت لَقَدْخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِنْ طِیْنِ ۔ (المؤمنون:١٢) نازل ہوئی تو اِسے سن کر سیدنا عمر فاروق نے بے ساختہ کہا، فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ۔ ” تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا”۔ اس کے بعد اِنہی لفظوں سے یہ آیت نازل ہوگئی۔تفسیر ابن ابی حاتم تفسیر سورت مومنون آیت 12،13)

    بارہویں دفعہ قرآن مجید میں آپ کی موافقت کچھ اس طرح آئی کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ پرمنافقوں نے جب بہتان لگایا تو ر سول اللہ ﷺنے دیگر صحابہ کی طرح سیدنا عمر سے بھی مشورہ فرمایا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے میرے آقا ! آپ نے اُن سے نکاح خود کیا تھا یا اللہ تعالیٰ کی مرضی سے تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ ، اللہ کی مرضی سے تو اس پر آپ نے کہا کہ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ سے اُن کے عیب کوچھپایا ہو گا، بخدا یہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر عظیم بہتان ہے۔ سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَان” عَظِیْم” (النور:١٦)۔ اسی طرح آیت نازل ہوئی۔ عمدۃ القاری ،کتاب الصلاۃ ،باب ما جاء فی القبلۃ ۔۔۔الخ ،شرح حدیث 402)
    تیرہویں تائید ایزدی اس طرح حاصل ہوئی کہ سیدناعمر ایک روز سو رہے تھے کہ ایک غلام بغیر اجازت لیے اندر چلا آیا۔ اس وقت آپ نے دعا فرمائی ، اے اللہ بغیر اجازت گھروں میں داخل ہونا حرام فرما دے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا ۔(النور:٢٧،)۔بخاری شریف کتاب التفسیر ج2 ص 706 حاشیہ 7)

    قرآن مجید کا چوھدواں مقام جو آپ کی تائید میں اترا وہ سورت الاحزاب کی 53 نمبر آیت نازل ہو گئی ۔آپ کو لوگوں کا امہات المومنین کے پاس جانا پسند نہیں تھا آپ نے اس کا اظہار فرما یا تو یہ آیات نازل ہو گئیں ۔( صحیح مسلم 2399)

    پندرویں مقام میں موافقت سورت التحریم کی آیت نمبر 5 جن میں امہات المومنین کو تنبیہ کی گئی ہے،سولہویں نمبر پر سورت الانفال کی آیت نمبر 5 ، جس میں غزوہ بدر کیلئے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ سیدنا عمر کاتھا تو قرآن مجید کے نزول نے بھی اس کی تائید کردی ،سترہویں موافقت قرآنی سورت منافقون کی آیت نمبر 6 ہے جس میں منافقین کیلئے دعا کرنے یا نہ کرنے سے انکی مغفرت نہیں ہوتی کے بارے میں بتایاگیا تھا ،اٹھارہویں تائید یا موافقت سورت الواقعہ کی آیات نمبر 39،40 ہیں جن میں امت محمد ﷺ کی زیادتی کا ذکر کیا گیا ہے ۔(تاریخ الخلفاء ص 200)

    اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ جنت الفردوس میں آپکے درجات کو اور بلند فرمائے ، اور ہمارے دل میں آپکی عظمت اور آپکی سیرت پہ عمل کرنے کا بیج بو دے۔اللہ ہم سب کے گناہوں کو معاف فرمائے۔اور اگر کوئی غلطی، کمی کوتاہی ہو گئی مجھ سے تو معاف فرمائے۔ اور ہمیں ایسا بنادے کے ہم اسے پسند آ جائیں۔ اور نبی پاک روحِ مقدس پیر کامل محمد مصطفیٰ ﷺ پہ ،تمام اصحاب پہ تمام امت پہ اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔۔۔آمین ثم آمین یا رب العالمین

  • حضرت امیرمعاویہ : معاویہ آزاد

    حضرت امیرمعاویہ : معاویہ آزاد

    حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں ، آپ رضی تعالی عنہ کی بہن حضرت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ اور ام المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔

    آ پ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی، تاریخ اسلام کے روشن اوراق آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار و کارناموں اور فضائل ومناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔

    حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی قیامت کے دن معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس طرح اٹھائیں گے کہ ان پر نور ایمان کی چادر ہو گی”کنزالاعمال” ایک موقعہ پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قا ئم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا۔( جا مع ترمذی)

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ میری امت میں سب سے زیادہ بردبار اور سخی ہیں۔(تطہیرالجنان)۔ حضرت امیر معاویہ رضی تعالی عنہ سروقد ، لحیم وشحیم، رنگ گورا، چہرہ کتابی ،آنکھیں موٹی گھنی داڑھی، وضع قطع، چال ڈھال میں بظاہر شا ن وشوکت اورتمکنت مگر مزاج اور طبیعت میں زہد و تواضع، فرونتی، حلم برد باری اور چہرہ سے ذہانت اور فطانت مترشح تھی۔

    حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مبارکبا د دی اور ”مرحبا۔۔۔۔۔۔” فرمایا ”(البدایہ والنہایہ ص ٧١١ج٨)” حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے اس لئے انہیں خا ص قرب سے نوازا ۔ فتح مکہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔

    قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ”کتابت وحی” ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ ” کاتب وحی ” تھے ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کا تب وحی بنایا تھا۔۔۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا (ازالتہ الخفا ازشاہ ولی اللہ)

    حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط تحر یر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفرو خضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے۔

    چنانچہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں تشریف لے گئے تو سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پیچھے پیچھے گئے۔ راستہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وضو کی حاجت ہوئی پیچھے مڑ ے تو دیکھا، معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پانی لئے کھڑے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے متاثر ہوئے چنانچہ وضو کیلئے بیٹھے تو فرمانے لگے ” معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں کے ساتھ درگزر کرنا ”۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے امید ہو گئی تھی کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی صادق آئے گی۔

    حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی خدمت اور بے لوث محبت سے اتنا خوش تھے کہ بعض اہم خدمات آپ کے سپرد فرمادی تھیں ۔ علامہ اکبر نجیب آبادی” تاریخ اسلام” میں رقمطراز ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدرات اور ان کے قیام وطعام کا انتظام واہتمام بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر دیا تھا۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں آپ نے مانعین زکوة، منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سر انجام دیئے ۔

    عرب نقاد رضوی لکھتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ کسی کا خون بہانا پسند نہیں کرتے تھے مگر آپ اسلامی ہدایات کے مطابق مرتدین کے قتل و قتال میں کسی کے پیچھے نہ ہوتے ایک روایت کے مطابق مسلیمہ کذّاب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔

    خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں اس میں حضرت امیر معاویہ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے اس جنگ میں غرضیکہ آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔

    خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہاد وفتوحات میں مصروف رہے اور آپ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس ، الشام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ ، روڑس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کردئیے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے اس کو اب سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہئے ”فتح قبرص” کی خواہش آپ کے دل میں مچل رہی تھی یورپ وافریقہ پر حملہ اور فتح کیلئے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔

    بحرروم میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کیلئے بہت بڑا خطرہ تھا اسے فتح کیے بغیر شام ومصر کی حفاظت ممکن نہ تھی اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔

    حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہ نے بڑے جوش خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کردی اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کردیا جس کے جواب میں جزبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔

    28ہجری میں آپ پوری شان وشوکت تیاری وطاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ جس میں تقریباً پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے قبرص کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔

    اس لشکر کے امیروقائد خود امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے آپ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کیلئے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیم اجمعین جن میں حضرت ابو ایوب انصاری ، حضرت ابوذرغفاری، حضرت ابودردا، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت شداد بن اوس، سمیت دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین شریک ہوئے۔

    اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا، تجربہ کار رومی فوجوں اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بد ترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر میں جنگ کریگا۔

    پہلی بشارت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلی بحری لڑائی لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کر کے رومیوں کو زبردست شکست دی تھی اور دوسری بشارت سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں اس وقت پوری ہوئی جب لشکر اسلام نے قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کرکے اس کو فتح کیا۔

    اس جنگ میں حصہ لینے کیلئے شوق شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وتابعین دنیا کے گوشہ سے دمشق پہنچے، ان میں حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سیدنا حسین بن علی، اور میزبان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، اور دیگر مدینہ منورہ سے تشریف لاکر اس لشکر میں شریک ہوئے جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی تھی۔

    سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار دور حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلفائے راشد ین کے تر قیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اس مندرجہ ذیل نئے امور کی داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا۔

    1 ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
    2 ۔سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔
    3 ۔آبپاشی اور آبنوشی کیلئے دور اسلامی میں پہلی نہر کھدوائی۔
    4 ۔ ڈاکخانہ کی تنظیم نو کی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔
    5۔ احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
    6۔ آپ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے آپ نے پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
    7 ۔ خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔
    8 ۔ انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔
    9۔ آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔
    10 ۔ آپ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کئے۔
    11 ۔ سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
    12 ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔

    حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 163احادیث مروی ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آئینہ اخلا ق میں اخلاص ، علم وفضل، فقہ واجتہاد، تقریر وخطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی، مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، فیاضی وسخاوت، اور خوف الہٰی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔

    ان وصیتوں کے بعد 22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے۔
    رضي الله عنه وأرضاه

  • شہ کار رسالت سیدنا امام عمر رضی اللہ عنہ – عبدالمنان معاویہ

    شہ کار رسالت سیدنا امام عمر رضی اللہ عنہ – عبدالمنان معاویہ

    امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ ’’عمر ؓ مراد رسول ؐہے ‘‘یعنی دیگر صحابہ کرامؓ مرید رسولؐ ہیں اور عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مراد رسول ؐ ہیں،ایک عالم نے کیا خوب کہا کہ:’’پیغمبر اسلام ﷺ کے لیے عطائے خداوندی‘‘اسی طرح مسٹر غلام احمد پرویز سے ہزارہااختلاف ہوں لیکن یہ سچ ہے کہ اس نے سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے لیے جو لقب استعمال کیا ہے کمال کیا ہے یعنی ’’شہ کار رسالت ‘‘ انہوںنے اس نام سے سیدنا عمر فاروق ؓ کی حیات پر ایک ضخیم کتاب بھی لکھی ہے،ہم نے انہی کے لقب کو اپنے مضمون کی بنیاد بنایا ہے ،اور بھی بہت سے لوگوں نے علمائے اسلام نے ،حکمائے اسلام نے ،اور مستشرقین نے اپنے اپنے لفظوں میں بارگاہ فاروقی میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔

    سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاشمار مکہ مکرمہ کے چند پڑھے لکھوں میں ہوتاتھا لیکن وہ بھی اسی عرب معاشرے کا حصے تھے جہاں پیغمبر اسلام ﷺ کو قبل از نبوت صادق وامین کہا جاتا تھا اور بعد از اعلان نبوت نعوذ باللہ ساحر ،شاعر،کاہن ،اور نجانے کیا کیا کہا گیا اور ہر دور میں باطل پروپیگنڈانہ مہم کے ذریعہ اہل حق کو مرعوب کرنے کی سازش کرتا ہے اس دور میں بھی یہی کچھ ہوا اور جان بوجھ کر کیا گیا کہ نعوذ باللہ محمد (ﷺ) نے اپنے آباء واجداد کا دین ترک کردیا ہے اور ایک نئے دین کی بنیاد ڈالی ہے ۔

    اہل مکہ کے جبر وستم بہت بڑھ چکے تھے صحابہ کرامؓ سرعام تبلیغ تو درکنار عبادت نہیں کرسکتے تھے چھپ کر دین اسلام کی تبلیغ وعبادت کی جاتی تھی ،صحابہ کرامؓ کی تعداد اس وقت انتالیس تھی ایک رات بیت اللہ کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبر اسلام ﷺ نے عجیب دعا کی اپنے پروردِگار سے،مانگا بھی تو عجب شئے مانگی ،کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے اسلام کی بڑھوتری کی دعا کی جاتی ،اہل مکہ کے ایمان لانے کی دعا کیجاتی دنیائے عالم میں اسلام کی اشاعت کی دعا کی جاتی یا اہل مکہ کے ظلم وستم کی بندش کے لیے ہاتھ اٹھائے جاتے لیکن میرے عظیم پیغمبر ﷺ نے دعا کی کہ:’’ اے اللہ ! عمر وابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا‘‘۔

    نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اللہ ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبر اسلام ﷺ کی دعاکو شرف قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغ برہنہ لیے جارہے تھے راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا جس نے پوچھا کہ عمر خیریت کہاں کا ارادہ ہے کہنے لگے محمد (ﷺ) کو قتل کرنے جارہاہوں اس نے نئے دین کااعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق کردی ہے کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کردوں بنو زہرہ سے تعلق والے شخص نے کہا کہ عمر اگر تم نے ایسا کیا تو کیا ’’بنو ہاشم وبنو زہرہ ‘‘تم سے انتقام نہیں لیں گے کہنے لگے لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہوچکے ہو انہوںنے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو تمہاری بہن وبہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں ۔

    جلال میں نکلنے والا عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے یہاں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ان کے بہنوئی وبہن کو سورۃ طہٰ پڑھا رہے تھے باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی اندر سے پوچھاگیا کون۔۔؟عمر نام سنتے ہیں سیدنا خباب ؓ چھپ گئے عمر نے آتے ہی پوچھا تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ ہم آپس میں باتیں کررہے تھے کہنے لگے میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو بہنوئی نے کہا کہ عمر ؓ وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے تو جس دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر،بہن چھڑانے آئی تواتنی زور سے اس کے چہرہ پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرہ سے خون نکل آیا بہن کے چہرے پہ خوں دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ اچھا لائو دیکھائو تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے بہن نے کہا کہ تم اس کے آداب ہیں پہلے تم وضو کرو پھر دیکھائوں گی انہوںنے وضو کیا اور سورۃ طہٰ پڑھنی شروع کی یہ پڑھتے جارہے تھے اور کلام الہٰی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جارہے تھی خباب بن ارت ؓ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے عمر کل رات نبی کریم ﷺ نے بارگاہ خداوندی میں دعا کی تھی کہ :’’اللّٰھمّ اعزّ الاسلام باحد الرجلین امّا ابن ھشام وامّا عمر بن الخطاب ‘‘اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ:’’اللّھمّ ایّد الاسلام بابی الحکم بن ھشام وبعمر بن الخطاب‘‘اے اللہ ! عمر وبن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا ،یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی تائید فرما‘‘اے عمر میرے دل نے گواہی دی تھی کہ یہ دعا ئے پیغمبر ﷺ عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہوگی ،اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ:’’کان رسول اللہ ﷺ اذا رایٔ عمر بن الخطاب او ابا جھل بن ھشام قال اللھم اشدد دینک باحبّہما الیک ‘‘ یعنی جب کبھی رسول اللہ ﷺ عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب العزت کے حضور دست دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے اے اللہ !ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ پسند یدہ ہے اس سے اپنے دین کو قوت عطافرما۔(طبقات ابن سعد)

    سیدنا خباب بن ارت ؓ سے سیدناعمر ؓ کہنے لگے کہ اچھا تو مجھے بتائو محمد ﷺ کہاں ہیں میں ان سے ملنا چاہتا ہوںانہوں نے بتایا کہ صفاپہاڑی پر واقع ارقم ؓ کے مکان میں قیام پذیر ہیں ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل پڑھے درہ پر مقیم صحابہ کرام ؓ نے جب دیکھا کہ عمر آرہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے تو گھبرائے ہوئے آنحضرت ﷺ کو بتایاوہیں اسداللہ ورسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب ؓ بھی تھے وہ فرمانے لگے آنے دو اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کاکام تما م کردوں گا۔

    جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسلام ﷺ پر نزول وحی جاری تھی چند لمحوں بعد آپ نے عمر ؓ سے فرمایا:’’ اے عمر! تم کس چیز کا انتظا رکررہے ہو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو ‘‘۔ بس یہ سننا تھا کہ فوراً کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے اصحاب رسولؓ نے عمر ؓ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ صحن کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادی مکہ گونج اٹھی پھر نبی رئوف رحیم ﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینہ مبارک پر دست اقدس رکھا اور دعا فرمائی :اللّھم اخرج مافی صدوہٖ من غلٍ واید لہ ایماناً ،یا اللہ ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔(مستدرک للحاکم)قبول اسلام کی وقت بعض مورخین کے نزدیک آپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال تھی۔مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسر قرآن جناب علامہ طنطناوی ؒ نے عجیب جملہ کہا ہے کہ :’’حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا آغاز ہوا ۔

    مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :قال رسول اللہ ﷺ لما اسلم اتانی جبرائیل فقال استبشراھل السماء باسلام عمر ‘‘ یعنی حضور سرورِکائنات ﷺ نے فرمایا کہ جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ آسمان والے عمر ؓ قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں ۔(مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)

    ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے نبیﷺ !کیا ہم حق پر نہیں ہیں ،آپﷺ نے اثبات میں جواب دیا تو فرمانے لگے کہ پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں میں قربان جائوں اپنے آقا ومولاﷺ پر کہ انہوں نے ایسے ہی عمر ؓ کو نہیںمانگا تھابلکہ دوررس نگاہ نبوت دیکھ رہی تھیں کہ اسلام کو عزت وشوکت عمرؓ کے آنے سے ہی نصیب ہوگی ۔

    حضور اکرمﷺ نے صحابہ کرامؓ کو دو صفوں میں تقسیم کیا ایک صف کے آگے اسد اللہ ورسولہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مراد رسولؐ،شہ کار رسالت ؐ،پیغمبر اسلام ﷺ کے لیے عطائے خداوندی یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل رہے تھے مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفار مکہ نے دیکھا نظر پڑی حمزہ ؓ پر اور عمر ؓ پر تو بڑے غمگین ہوئے لیکن کس میں جرات تھی کہ کوئی بولتا اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاک ﷺ نے فرمایا تھا کہ:’’ان اللّٰہ جعل الحق علیٰ لسان عمر وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل ‘‘ اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمر کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے حق وباطل میں اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ فرق کردیا ہے ۔(طبقات ابن سعد)

    جناب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’واللّٰہ ما استطعنا ان نصلّی عندالکعبۃ ظاھر ین حتٰی اسلم عمر ‘‘اللہ کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ لائے ۔(مستدرک اللحاکم)

    اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا ،اور ہم کھلے بندوں اسلام کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت اللہ میں بیٹھتے تھے ہم بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے بدلہ لیتے تھے ۔

    کچھ اسی قسم کے تاثرات فقیہ الامت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بھی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ: ’’عمرؓ کا اسلام قبول کرنا ہماری کھلی فتح تھی، اور عمر ؓکا ہجرت کرنا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرت خاص تھی ، اور آپ ؓ کی خلافت تو ہمارے لیے سراپا رحمت تھی میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ہم بیت اللہ کے قریب بھی نماز ادا نہیں کرسکتے تھے لیکن جب عمر ؓ اسلام لائے تو آپ ؓ نے کفار سے مقابلہ کیا یہاں تک کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے دینے لگے ۔(طبقات ابن سعد)

    سیدنا امام عمر سلام اللہ علیہ کی شان رفیعہ میں چند فرامین رسالتمآبﷺ پیش کرتا ہوں جس سے آپ امام عمر سلام اللہ علیہ کی عظمت ومنقبت اور مقام رفعت کا اندازہ کرسکیںگے نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ:’’اے ابن خطاب !اس ذات پاک کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے جس راستے پہ آپ کو چلتا ہواشیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے وہ راستہ چھوڑ کر دوسراراستہ اختیار کرتا ہے ۔(صحیح بخاری)

    صحیح بخاری میں روایت ہے کہ :’’حضور پاک ﷺ فرماتے ہیں میں نے حالت خواب میں دودھ پیا یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے آثار میرے ناخنوں میں نمایاں ہونے لگے پھر میں وہ دودھ عمرؓ کو دے دیا اصحاب رسولؓ نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ !اس خواب کی تعبیر کیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا:’’علم‘‘۔
    اسی طرح امام بخاری ؒنے ایک اور روایت بھی اپنی صحیح میںدرج کی ہے کہ :’’ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نیند میں تھا میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اور انہوںنے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے نیچے تک ،اور پھر عمر کو پیش کیا گیا انہوں نے ایسی لمبی وکھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین پر گھٹتی جارہی تھی ،اصحاب رسول ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے نبی کریم ﷺنے فرمایا :’’دین ‘‘۔
    اسی طرح بڑی ہی مشہور ومعروف حدیث نبویہ ؐ ہے کہ :نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا‘۔یعنی اگر سلسلہ نبوت جاری رہتا تو سیدنا امام عمر رضی اللہ عنہ بھی منصب نبوت سے سرفراز کیے جاتے ۔
    ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ :’’رسول مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے جو امم گزری ہیں ان میں محدث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے ‘‘۔
    اسی حدیث مبارکہ میں لفظ’’محدث‘‘کی تشریح میں صاحب فتح الباری علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ یوں تحریر فرماتے ہیں کہ :’’المحدث الملھم وھو من القی فی روعہ شئی من قبل الملاء الاعلیٰ ومن یجری الصواب علیٰ لسانہٖ بغیر قصد ‘‘یعنی محدث وہ ہے جس کی طرف اللہ کی طرف سے الہام کیاجائے ملاء اعلیٰ سے اس کے دل میں القاء کیا جائے اور بغیر کسی ارادہ وقصد کے جس کی زبان پر حق جاری کردیا جائے یعنی اس کی زبان سے حق بات ہی نکلے ۔
    ایک بار سیدنا امام عمر رضی اللہ عنہ شفیع اعظم نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی تو نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا :’’یا اخی اشرکنا فی صالح دعاء ک ولا تنسنا‘‘ اے میرے بھائی ! اپنی نیک دعائوں میں ہمیں بھی شریک کرنا اور بھول نہ جانا۔
    سلسلہ احادیث سے آخری حدیث پیش کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ بہت دراز ہے اور دامن صفحات میں جگہ کم ،بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی حدیث ہے کہ :’’ ایک دفعہ حضور پرنور ﷺ احد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے ہمراہ ابوبکر ؓ ،عمرؓ اور عثمان ؓ بھی تھے احد کاپہاڑ لرزنے لگے توحضور انورﷺ نے اپنا قدم مبارک احد پر مارتے ہوئے فرمایا اے احد!ٹھہر جا تجھ پر اس وقت نبی ،صدیق اور شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔
    اس کے بعد سیدنا امام عمر رضی اللہ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ:’’ اللھم ارزقنی شھادۃ فی سبیلک وموتافی بلد حبیبک ‘‘ اے اللہ ! مجھے اپنی راہمیں شہادت کی موت دینا اور موت آئے تو تیرے حبیب ؐ کے شہر میں آئے ۔

    آخری ایام ہائے حیات میں آپؓ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے ۔اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے اس وقت ایک درّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے اس روز بھی آپؓ نے ایساہی کیا نماز ویسے ہی آپؓ نے شروع کی تھی صرف تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لولو (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا ایک زہر آلود خنجر لئے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا اس نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجر سے لگائے آپؓ بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر بجائے آپؓ کی امامت کے مختصر نماز پڑھکر سلام پھیرا ابولولو نے چاھا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے مگر نمازیوں کی صفیں مثل دیوار کے حائل تھیں اس سے نکل جاناآسان نہ تھا اس نے اور صحابیوںؓ کو بھی زخمی کرنا شروع کردیا تیرہ صحابی زخمی ،جن میں سے سات جاں بر نہ ہوسکے اتنے میں نماز ختم ہوگئے اور ابولولو پکڑ لیا گیا جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا ۔(خلفائے راشدین ،از لکھنویؒ)

    بالآخر آپ کی دعائے شہادت کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور دیارِ حبیب ؐ میں بلکہ مصلیٰ رسولؐ پر آپ کو 27 ذوی الحجہ بروز چہار شنبہ(بدھ ) آپ کو زخمی کیا گیا اور یکم محرم بروز یک شنبہ (اتوار)آپؓ نے شہادت پائی شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی ،حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبویؐ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں آپ ؓ کی قبر بنائی گئی ۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ

  • خلیفہ کے خلاف مقدمہ اور پرویزمشرف کا رقص – احسان کوہاٹی

    خلیفہ کے خلاف مقدمہ اور پرویزمشرف کا رقص – احسان کوہاٹی

    کہتے ہیں تاریخ دیواروں سے لٹکے اور میزوں پر رکھے کلینڈروں میں آڑھے ترچھے ہندسوں کا نام نہیں۔ یہ ہندسے یادوں، محبتوں عقیدتوں، خوشیوں مسرتوں اور غموں کی شاہراہ ہوتے ہیں، یہ کبھی تاریخ کی گود میں ہمکتے خوشیوں کے لمحات ہوتے ہیں اور کبھی آنکھوں کو نم کر دینے والے پرسوگ پل، صبح سویرے گیٹ میں اڑسا ’’امت ‘‘ نکال کر سیلانی نے صفحہ اول پر نظر ڈالی اور لوح پر یکم محرم کی تاریخ دیکھ کر چونک سا گیا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو ہاں! اسے یاد آگیا وہ بارعب حکمران جو سرجھکائے کھڑا تھا۔ وہ دراز قامت حاکم وقت کہ جس کے کاندھوں کو کوئی سیڑھی بنائے کھڑا تھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ منصف مزاج عادل فرماں روا، قاضی کے ایک بلاوے پر کیسی تابعداری سے عدالت پہنچا تھا جیسے کوئی غلام سرمئی شام کا رنگ بدلنے سے پہلے آقا کے دروازے پر پہنچتا ہے تو اسے عدالتوں سے کھلواڑ کرنے والے اپنے حکمران بھی یاد آگئے۔ کمانڈو کی رخصتی تو حال ہی کی بات ہے، کمر کی شدید ’’ تکلیف‘‘ میں مبتلا پرویز مشرف کو بیرون ملک تاتھک تھیا تاتھک تھیا ناچتا دیکھ کر سیلانی ہی نہیں کتنوں کے لبوں پر مسکراہٹیں دوڑ گئی ہوں گی، بوڑھے کمانڈو کی رقص میں مہارت کے ثبوت اب سوشل میڈیا پر ہر کسی کی دسترس میں ہیں۔ سادہ لوح سر دھنتے ہوئے کہتے ہیں کہ کمانڈو پھر کمانڈو ہوتا ہے، بوڑھے جرنیل نے بڑی جلدی کمر کے درد سے نجات پا لی اور یہ ان کی بقلم خود ہمت حوصلے کے بنا ممکن نہیں تھا وگرنہ وہ دن بھی تھے جب کراچی کے ضیاء الدین اسپتال میں ڈاکٹروں کا ایک ٹولہ آتا اور ایک جاتا تھا۔ اسپتال کی چار دیواری سے عجیب عجیب اطلاعات باہر آ کر محبان مشرف کا دل دکھاتی اور مخالفین کا لبھاتی تھیں، ایسا اکثر تب ہوتا تھا جب مشرف صاحب کو عدالت یاد کرتی، ادھر عدالت انہیں طلب کرتی اور ادھر کمر کا درد آ لیتا، عدالت نے ہر ہر جتن کر لیا لیکن آئین شکنی کے ملزم کو کٹہرے میں نہ لاسکی، کمر کے درد لادوا میں مبتلا ملزم ملک سے نکل کر ٹھمکے لگانے لگا اور عدالت دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔

    سیلانی کو کمانڈو یاد آیا تو وہ شخص بھی یاد آگیا کمانڈو جیسے جس کے غلاموں کے پاؤں کی دھول بھی نہیں، کمانڈو تو چار صوبوں کے پاکستان کا سربراہ تھا ناں، وہ تو لاکھوں مربع میل کی سلطنت رکھتا تھا، یکم محرم کی تاریخ اسی کی یاد لے آئی تھی اور پھر تاریخ اسے بتانے لگی، وہ منظر دکھانے لگی، جسے دیکھ کر ہر شخص حیران ہوئے بنا نہ رہتا، چلتے قدم رک جاتے، آنکھیں کچھ اور کھل جاتیں، بڑھتی عمر نے جن کی کمریں جھکا اور نظریں دھندلا دی تھیں، وہ بھی ماتھے پر دائیں ہاتھ کا چھجا بنا کر ٹھٹک کر دیکھ رہے تھے، برابر والے سے پوچھ رہے تھے کہ بتا جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تو بھی دیکھ رہا ہے ناں۔

    منظر ہی کچھ ایسا تھا کہ وہ دراز قامت شخص جھکے ہوئے سر کے ساتھ دیوار کے برابر کھڑا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کے کاندھوں پر دونوں پاؤں رکھے کھڑا گھر کی چھت پر کچھ لگا رہا تھا، یہ دراز قامت شخص صرف ڈیل ڈول میں ہی ممتاز نہ تھا، سپہ گری میں بھی کوئی اس کا ثانی نہ تھا، اس کارعب و دبدبہ ایسا تھا کہ مخالف نام سنتے ہی کانپ جاتے، بڑے بڑے شمشیر زن اپنی تیز دھار رتلواریں نیام میں کرلیتے کہ نہ نہ نہ، ہم اپنے بچوں کو یتیم کرنا نہیں چاہتے، نڈر ایسا تھا کہ دشمن کی صفوں میں گھس جائے تو میمنہ اور میسرہ کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتا، صفیں ایسی چیر دیتا جیسے ململ کے کپڑے کو قینچی کاٹتی چلی جاتی ہے، آج اسی شخص کا سر جھکا ہوا اور پیشانی عر ق آلود تھی، سب سے بڑھ کر اسکے کاندھوں پر صرف اس کے سر کا ہی نہیں کسی اور کے بھی دو پیروں کا بوجھ تھا۔

    یہ دونوں اشخاص کون تھے، لوگ انہیں تعجب بھری نظروں سے کیوں دیکھ رہے تھے اور اس بارعب قدآور معزز سردار زادے نے ایک دوسرے شخص کو اپنے کاندھوں پر کھڑا کیوں کیا تھا؟ یہ بتانے کے لیے سیلانی آپ کو ایک کمرہ عدالت میں لیے چلتا ہے، اس سے پہلے سیلانی آپ کو بتا دے کہ یہ دراز قامت شخص اپنے قبیلے کا سردار زادہ ہی نہیں ایک سلطنت کا فرماں روا بھی ہے اور سلطنت بھی مکران سے مہران تک کی نہیں نیل کے پانیوں سے لے کر کاشغرکی خاک تک، بائیس لاکھ مربع کلومیٹرکی ریاست میں اس کے نام کا سکہ چلتا تھا، اس عظیم الشان فرماں روا کے خلاف اس کی رعیت میں سے ایک شخص نے اس کے اختیار کو چیلنج کر دیا تھا، چیلنج کرنے والا بھی کوئی ہلکا نہ تھا اس کے نام کے ساتھ بھی بڑے بڑے نام جڑے ہوئے تھے لیکن شاہ پھر شاہ ہوتا ہے ۔

    ہوا کچھ یوں کہ قاضی کی عدالت میں ایک شخص نے پٹیشن ڈال دی، اس کا کہنا تھا کہ حاکم وقت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کا پرنالہ اکھڑوا دیا ہے، قاضی نے سائل کی عرضی سنی اور قانون و آئین کی کتاب اٹھا کر حیلے بہانے کھوجے نہ کسی نقطہ ضرورت کو گھڑ کر حاکم وقت کے حکم کو جائز قرار دیا کہ وہ اسلامی جمہورریہ پاکستان کا چیف جسٹس نہ تھا۔ قاضی نے سائل کی فریاد سنی اور فریق مخالف کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دے دیا، حاکم وقت کو عدالت کے حکم کا پتہ چلا تو اس کی پیشانی شکن آلود ہوئی نہ اس نے پیشی سے بچنے کے لیے احباب کا اجلاس بلایا، اس کی طبیعت بھی خراب نہ ہوئی اور نہ اسے کوئی امور سلطنت کا کوئی ضروری کام پڑا، وہ مقرر دن اور وقت پر عدالت پہنچ گیا۔ اب صورتحال یہ کہ حاکم وقت عدالت کے باہر کھڑا ہے اور قاضی صاحب مصروف ہیں، حاکم وقت کو بتا دیا گیا کہ وہ انتظار کرے، وہ انتظار کرنے لگا، یہاں تک کہ جج صاحب فارغ ہوئے اور انہوں نے حاکم وقت کو طلب کرکے کہا کہ مقدمہ پیش کیا جائے۔ مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی، حاکم وقت نے کچھ کہنا چاہا لیکن جج نے روک دیا۔
    ’’مدعی کا حق پہلے ہے کہ وہ پہلے اپنی شکایت کرے گا‘‘۔
    حکمران خاموش ہوگیا، مدعی بھی وہیں موجود تھا، اس نے عرض کیا کہ جناب عالی! میراگھر مسجد سے متصل ہے اور اس کا پرنالہ مسجد میں گرتا ہے اور پرنالہ شروع دن سے ہی اسی جگہ پر ہے، اسے حاکم وقت نے میری غیر موجودگی میں اکھاڑ دیا ہے، میرا نقصان ہوا ہے، اس کا ازالہ کیا جائے، مجھے انصاف دیا جائے۔
    اب قاضی نے حاکم وقت کی جانب سپاٹ چہرے سے دیکھا اور کہا،
    ’’آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟‘‘
    لاکھوں مربع کلومیٹر کے والی ریاست نے اثبات میں سرہلایا اور گویا ہوا
    ’’قاضی صاحب ! اس پرنالے سے بعض اوقات نمازیوں پر چھینٹیں گرتی تھیں، نمازیوں کے آرام کی خاطر یہ پرنالہ اکھڑوایا گیا ہے اور میراخیال ہے کہ یہ کوئی غلط اقدام نہیں‘‘۔
    حاکم وقت نے اپنا سادگی سے اپنا موقف پیش کیا
    قاضی نے مدعی کی جانب دیکھا اور کہا
    ’’اب آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘
    مدعی کہنے لگا
    ’’اصل بات یہ ہے کہ میرے گھر کا نقشہ رسول اللہ ﷺ نے بنایا تھا۔‘‘
    بس مدعی کا یہ کہنا تھا کہ عدالت میں صحرا کے گرم میدانوں کی سی خامشی چھا گئی اور سب مدعی کی طرف دیکھنے لگے۔ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا
    ’’رسول اللہ ﷺ نے اپنی چھڑی سے نشان لگا کر دیے تھے کہ میں اس طرح اپنا مکان بنواؤں اور میں نے ایسا ہی کیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ پرنالہ خود نصب کروایا، رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے کاندھوں پر کھڑا ہو جاؤں، مجھ میں یہ سکت کہاں تھی، میں نے انکار کیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے اصرار کرکے مجھے اپنے کاندھوں پر کھڑا کروایا اور یہ پرنالہ لگوایا‘‘۔
    اب اس جج کو بھی شاباش ہے کہ اس نے سائل کی یہ بات سننے کے بعد بھی جوش عقیدت میں فیصلہ نہیں دیا، وہ سائل کی نسب سے مرعوب ہوا نہ خلیفہ کے رعب میں آیا، کھرا سچ کہنے اور کھرا فیصلہ کرنے والا جج تھا اور کیوں نہ ہوتا، اس کی تربیت بھی تو رسول اللہ ﷺ نے کی تھی۔ جج کے ریمارکس بتانے سے پہلے سیلانی یہ سسپنس ختم کر ہی دے کہ مدعی کون تھا؟ جناب! مدعی مدینے کا کوئی عام شخص نہ تھا، وہ علم و وعمل میں یکتا سرور کونین ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے، اب حاکم کو بھی جان لیجیے، حاکم مراد رسول ﷺ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جس راستے سے گزرتے تو وہاں سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا تھا۔
    اس ہائی پروفائل مقدمے کے ثالث حضرت سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے، ان کے انصاف کو سلیوٹ کہ وہ یقیننا یہ جانتے ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا دروغ گو ہو ہی نہیں ہو سکتے، انہوں نے انصاف کا تقاضا پورا کیا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا
    ’’ اس واقعے کا کوئی گواہ ہے؟‘‘
    حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فورا باہر گئے اور چند انصار کو ساتھ لے آئے، انہوں نے گواہی دی کہ ہاں یہ پرنالہ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسوال اکرم ﷺ کے کاندھوں پر کھڑے ہو کر نصب کیا تھا۔
    گواہی ختم ہوئی تو خلیفہ وقت کی آنکھیں عاجزی سے جھکی ہوئی تھیں، وہ کچھ دیر سر جھکائے کھڑے رہے اور پھر حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے التجاکرنے لگے
    ’’اللہ کے لیے میرا قصور معاف کردو، مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پرنالہ رسول اللہ ﷺ نے لگوایا تھا ورنہ میں اسے کبھی نہ اکھڑواتا، مجھ سے جو غلطی ہوئی لاعلمی میں ہوئی، اب آپ میرے کاندھوں پر چڑھ کر یہ پرنالہ ویسے ہی اپنی جگہ پر لگا دیں‘‘۔
    حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمانے لگے
    ’’ہاں انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے‘‘
    اور پھر مدینہ والوں نے دیکھا کہ خلیفہ وقت دیوار کے ساتھ کھڑے ہیں اور حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کے کاندھوں پر پاؤں جمائے گھر کی چھت پر پرنالہ لگا رہے ہیں۔
    بات یہیں ختم نہیں ہوئی، خلیفہ وقت کے کاندھوں کی سیڑھی سے اتر کر مقدمہ جیتنے والے سائل نے سینہ پھلا کر انصار کو دیکھا نہ کوئی شیخی ماری بلکہ کہنے لگے
    ’’امیر المومنین! میں نے جو کچھ کیا اپنے حق کے لیے کیا جو آپ کی انصاف پسندی کی وجہ سے مجھے مل گیا، اب میں آپ سے بےادبی کی معافی مانگتا ہوں‘‘۔
    اس کے ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ کے چچا نے اپنا وہ مکان راہ خدا میں وقف کر دیا اور امیر المومنین کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو اسے گرا کر مسجد نبویﷺ کو وسعت دے دیں۔

    یکم محرم کی تاریخ اسی عظیم الشان ہستی کایوم شہادت ہے جسے ایک بدبخت اور جہنم کے آخری گڑھے کے مکین نے شہید کر کے ابدی عذاب مول لے لیا، کتنی عجیب بات ہے کہ محرم کو ہم صرف نواسہ رسول ﷺ کی شہادت کے حوالے سے زیادہ جانتے ہیں، انہی کے نام کی تقریبات بھی ہوتی ہیں بلاشبہ ان کی قربانیاں بھی ایسی ہی ہیں حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسے شہید بھی کہیں ہوئے ہیں؟ لیکن مراد رسول ﷺ کو بھی تو بھلایا نہ جائے۔ ان کا تدبر، انتظامی صلاحتیں، قائدانہ، فاتحانہ کردار تاریخ کی کتابوں میں بند ہونے کے لیے تو نہیں، یہ تو ہم اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ سیلانی یہ سوچتا ہواچشم تصور سے تاریخ کے دریچہ کھول کر مسجد نبوی کے آنگن میں گرنے والے پرنالے کو دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، ایک عہد ساز شخصیت – توقیر ماگرے

    سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، ایک عہد ساز شخصیت – توقیر ماگرے

    توقیر ماگرے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ واقعہ فیل کے تیرہ سال بعد 584ء میں پیدا ہوئے۔ والدین نے آپ کا نام عمر رکھا۔ تاریخ کی کتابوں میں آپ کے بچپن کے حالات و واقعات بہت کم ملتے ہیں. چند جگہوں پر یہ روایت پائی جاتی ہے کہ آپ رض اپنے والد کے اونٹ چرایا کرتے تھے، اس کے علاوہ آپ نے فن سپہ گری میں بھی مہارت حاصل کی۔ حضرت عمر رض کا قد لمبا اور رنگ سفیدی مائل تھا، آپ مضبوط بدن کے مالک تھے، اور تمام آدمیوں میں اونچے معلوم ہوتے تھے۔ حصرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خاندان میں سب سے پہلے آپ کی بہن فاطمہ رض اور بہنوئی سعید رض نے اسلام قبول کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی فظیلت بیان کرنے کے لیے یہ ایک بات ہی کافی اہمیت کی حامل ہے کہ آپ کو حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالی سے خاص طور پر مانگ کے لیا۔

    سیدنا عمرفاروق کی بہادری و شجاعت کا ڈنکا سارے عرب میں بجتا تھا۔ آپ کے قبول اسلام سے مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا، جہاں کفار کے خوف سے مسلمانوں کے لیے چھپ کے نماز پڑھنا مشکل تھا، آپ کے اسلام لانے کے بعد کعبہ میں سرعام نماز ادا کی گئی۔ آپ نے تمام غزوات میں شرکت کی۔ رعب و دبدبے کا یہ عالم تھا کہ کفار کے بڑے بڑے پہلوان آپ کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے۔ ہجرت کے موقع پر آپ نے کمال بہادری کا مظاہرہ کیا، جب سارے مسلمان کفار کے شر سے بچنے کے لیے خاموشی سے ہجرت کررہے تھے، آپ کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا، آپ نے تلوار ہاتھ میں لی، کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کرکے کہا کہ تم میں سے اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی بیوہ اور بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آ کر میرا راستہ روک کر دیکھ لے۔ کسی کافر کی یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ آپ کا راستہ روکنے کا سوچتا بھی۔

    بارگاہ رسالت ﷺ سے آپ کو فاروق کا لقب ملا۔ آپ ﷺ ان چند خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔ آپ کا ایمان اس قدر قوی تھا کہ جس راستے سے آپ رض کا گزر ہوتا، شیطان وہ راستہ چھوڑ کر بھاگ جاتا (بخاری و مسلم)۔ فکر اور ذہانت کی بلندی میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا، جو بات حضرت عمر رض زبان مبارک سے ادا کرتے، اللہ پاک وہ قرآن مجید میں نازل فرما دیتا۔ قرآن پاک میں ایسی تقریبا سترہ آیات ہیں۔ جن میں خواتین کے پردے کے متعلق آیات بھی شامل ہیں چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عمر کی زبان پر اللہ نے حق جاری کر دیا ہے (بیہقـی) ایک اور موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا. (ترمذی) آپ ﷺ کا یہ فرمان بلاشبہ سیدنا عمرفاروق رض کے بلند رتبے پر مہر ثبت کرتا ہے۔

    حضرت عمر رض ہر وقت مسلمانوں کی بھلائی کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ جب جنگ کے لیے سامان جمع کرنے کا مرحلہ آیا تو آپ رض اپنے گھر کا آدھا سامان بارگاہ رسالت میں لے کر حاضر ہوگئے۔ یہاں تک کہ زخموں سے چور جب آپ رض بستر مرگ پر تھے تو عیادت کے لیے ایک نوجوان آیا جس کا تہبند اس کے ٹخنوں سے نیچے لٹک رہا تھا، اس موقع پر بھی اسے تہبند ٹخنوں سے اوپر رکھنے کی نصیحت کی۔ حضرت عمر فاروق رض کے یہی وہ اعلی اوصاف تھے جن کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ارشاد فرمایا تھا کہ میرے بعد ابوبکر اور عمر کی اقتداء کرنا۔ (مشکوۃ)

    حضرت عمر فاروق رض عہد صدیقی میں حضرت ابوبکر صدیق رض کے مشیر رہے، سیدنا ابوبکر رض نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اگلے خلیفہ کے لیے حضرت عمر فاروق رض کا نام تجویز کیا جسے تمام صحابہ کرام رض نے بخوشی قبول فرمایا۔ آپ رض کا دور خلافت مسلمانوں کے عروج کا دور تھا۔ مسلمان دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرے، عرب سے آگے بڑھ کر عراق، ایران، مصر اور شام وغیرہ میں اسلام کا جھنڈا لہرایا، جو علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آجاتا آپ رض وہاں فوری مسجد کی تعمیر کا حکم دیتے تاکہ اس جگہ اللہ کے دین کی ترویج ہوسکے۔ آپ رض کے دور خلافت میں فتوحات کا جو سلسلہ شروع ہوا تو اسلامی مملکت کا رقبہ ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل تک پہنچ گیا۔ آپ رض کا عدل و انصاف مثالی تھا، آپ رض انصاف کے معاملے میں مذہب، قوم، قبیلے یہاں تک کہ اپنے عزیز رشتہ داروں کو بھی کوئی فوقیت یا برتری نہیں دیتے تھے۔ آپ رض نے حکومت اس طرز سے کی کہ رہتی دنیا تک کے حکمرانوں کو حکمرانی کرنے کا سلیقہ بتا گئے۔ آپ رض اپنی رعایا کے مسائل سننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے، غریبوں اور مسکینوں کے گھروں تک راشن اپنے کاندھے مبارک پر رکھ کر پہنچاتے تھے۔ آپ رض کا مشہور قول ہے کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی بھوک سے مرگیا تو قیامت کے روز اس کا حساب مجھ سے لیا جائے گا۔

    سیدنا عمر فاروق رض انتہائی مدبر، زیرک اور انسانیت کے لیے ہمدردی رکھنے والے تھے، آپ رض نے اسی مدبرانہ انداز سے قبلہ اول بیت المقدس بھی فتح کیا۔ آپ رض کے دور خلافت میں باقاعدہ عدالتی نظام قائم ہوا، امن و امان کی قیام کے لیے پولیس کا محکمہ قائم کیا، ریاست کے اہم مراکز میں فوجی چھاؤنیاں قائم کی گئیں، مسلمان معاشی طور پر مستحکم ہوئے تو بیت المال کا قیام عمل میں آیا، مسلمانوں میں اتحاد کے فروغ کے لیے شرعی مسائل میں اصول قیاس قائم کیا۔

    27 ذی الحجہ 23 ہجری بروز بدھ فجر کی نماز کے دوران مسجد میں چھپے ہوئے ایک بدبخت مجوسی ابو لولوفیروز نے خنجر سے وار کرکے زخمی کردیا۔ زخم اس قدر شدید تھے کہ یکم محرم 24 ہجری کو آپ رض ساڑھے دس سال خلیفہ رہنے کے بعد شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے۔ ام المؤمنین سیدنا عائشہ صدیقہ رض کی اجازت کے بعد آپ رض کو پہلوئے رسولﷺ میں دفنا دیا گیا۔ سیدنا عمر فاروق رض کی زندگی بلاشبہ قابل رشک اور سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

  • رحمت اللعالمین ﷺ کے جانثار غلام کی داستان – غلام نبی مدنی

    رحمت اللعالمین ﷺ کے جانثار غلام کی داستان – غلام نبی مدنی

    غلام نبی مدنی اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے، جو انسانیت کی قدم قدم پر رہنمائی کرتاہے، ابتدا سے انتہاء تک، عالم دنیا سے عالم بالا تک اور قبر سے حشر تک غرض ہر جگہ اور ہر مقام پر اشرف المخلوقات کے لیے آسانیاں پید اکرتا ہے۔ کبھی تویہ رہنمائی افضل البشر محمدﷺکے ذریعہ کی جاتی ہے اور کبھی انسانیت کی خاطر سید البشر ﷺکے جانثار رفقاء کو ذریعہ ہدایت بنایا جاتاہے، کبھی کلام اللہ میں انسانیت کی فلاح کے لیے روشن اصول بیان کیے جاتے ہیں تو کبھی رسول اللہ ﷺ کے اقوال وافعال کے ذریعہ اور کبھی صحابہ کرام ؓ سے ایسے واقعات سرزد کروا کر امت کو پیش آمدہ گھمبیر مسائل کے حل کی سلجھن سکھائی جاتی ہے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود امت کا اتفاق ہے کہ صحابہ کرام ؓ محفوظ ہیں اور معیار ِحق اور لائق تقلید ہیں، کسی کو ان کے کسی فعل وقول پر جرح کرنے کی قطعا اجازت نہیں کیوں کہ اللہ عزوجل نے بذات خود ’’رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ‘‘ کے ذریعے ان عظیم ہستیوں کو اپنی رضا کا پروانہ دے دیا ہے۔

    زیرنظر مضمون ایک جلیل القدر صحابی ؓکی ایسی داستان سے معمور ہے جس میں انسانیت کے لیے بےشمار فوائد اور حکمتیں ہیں۔ اس داستان میں دنیاوی زندگی کو کارآمد بنانے کے لیے ایک کارگرنسخہ بھی سمجھایاگیاہے ۔اس داستان کے پڑھنے سے نہ صرف عشق رسول ؐکا شوق بڑھتا ہے بلکہ زندگی میں اتباع سنت کے جذبات بھی بھڑک اٹھتے ہیں۔ یہ داستان صرف داستان ہی نہیں بلکہ ایک ایسا سبق ہے جس کا پڑھنا اور یاد کرنا، اسے عملی زندگیوں میں بروئے کار لانا اور دوسروں تک پہچان اہر مسلمان کے لیے ضروری ہے تاکہ عشق رسول ﷺ اور محبت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا پیغام پوری دنیا میں پھیل سکے۔

    افضل البشر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار کا جانثار غلام کعب بن مالک خزاعی ؓ اپنی داستان اپنی زبانی یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’میں سوائے دو غزوات (غزوہ بدر اور غزوہ تبوک) کے باقی سب غزوات میں اپنے آقامحمد مصطفی ﷺ کا ہمسفر رہا، غزوہ بدر میں شرکت کا موقع اس وجہ سے نہ ملا کیوں کہ اس وقت آپ ؐ جنگ کے قصد سے نکلے تھے اور نہ اس کے لیے اعلانِ عام کیا تھا بلکہ آپ نے توصرف قافلہ قریش کے تعاقب کے لیے مدینہ کو چھوڑا تھا، اور مجھے اس غزوہ میں عدم شرکت کا افسوس بھی نہیں کیونکہ میں ’’لیلۃ العقبہ‘‘ کی بیعت میں شریک تھا جس میں ہم نے اسلام کی حمایت و حفاظت کے لیے جان قربان کرنے کی بیعت کی تھی۔

    غزوہ تبوک میں میر ی عدم شرکت کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ مجھے اتنی فراوانی کبھی نہ ملی جتنی غزوہ تبوک کے اعلان کے وقت تھی، خداکی قسم! اس وقت میر ے پاس دو سواریاں تھیں جبکہ اس سے پہلے میرے ہاں سواری کا نام ونشان تک نہ تھا۔ ادھر غزوہ تبوک کی اہمیت بھی بہت زیادہ تھی کیوں کہ اس غزوہ کا اعلان اس وقت کیا گیا تھا جب فصلیں پک چکی تھیں اور گرمی کی شدت اس قدر تھی کہ ہر شخص کو سایہ محبوب تھا اور مسلمانوں کو بے آب وگیاہ صحرا عبور کر کے بہت بڑے دشمن سے پنجہ آزمائی کرنا تھی، اسی اہمیت کے پیشِ نظر رسول اللہ ﷺ نے عادت مبارکہ سے ہٹ کر سمتِ سفر کا تعین بھی فرما دیا اور جہاد کا کھل کر اعلان بھی کردیا تھا، اس اعلان کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک زبردست فوج تیار ہوگئی اور تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ ان سب کی فہرست بنانا دشوار تھا۔

    میرا حال یہ تھا کہ میں ہر روز صبح کو جہاد کی تیاری کا ارادہ کرتا مگر ہر بار سوچتا کہ میں توجہاد پر قادر ہوں، میرے پاس اسباب بھی موجود ہیں، پھر اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے؟ یوں میرا ارادہ ہر روز ٹلتا رہا، ادھر مسلمان محنت و مشقت سے تیار ی کرکے آپ ﷺ کے ساتھ روانہ ہوگئے، مجھے جب آپ ﷺ کے کوچ کرنے کی اطلاع ملی تو سوچا کہ ایک دو دن میں تیار ی کرکے آپ ﷺ کے ساتھ لشکر میں جا ملوں گا، دوسرے دن تیاری کرنی چاہی مگر نہ کر سکا، تیسرے دن بھی یہی ہوا، میں اسی حال میں رہا یہاں تک کہ غزوہ میں نہ جاسکا، کئی بار میں نے جانے کا ارادہ کیا کہ ان سے جاملوں ،کاش! میں ایسے کر لیتا ! لیکن یہ میرے لیے مقدر نہ تھا۔

    ادھر پورے راستہ میں کہیں بھی میری یاد رسول اللہ ﷺ کو نہ آئی، تبوک پہنچ کر آپ نے ایک مجلس میں فرمایا ’’ کعب کو کیا ہوا وہ کیوں نہیں آئے؟‘‘ بنو سلمہ کے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ان کو مال و دولت کی فروانی اور کبر و غرور نے جہاد میں شرکت سے روک دیا. حضرت معاذ ابن جبل ؓ نے کعب بن مالک ؓ کے متعلق جب یہ الفاظ سنے تو فور ابول اٹھے کہ تم نے جو کہا برا کہا، اور آپ ﷺ سے عرض کیا خدا کی قسم! میں ان میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتا۔ یہ سن کر آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔

    جب رسول اللہ ﷺ کی واپسی کی خبر مجھے ملی تو میں آپ ﷺ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے جھوٹے بہانے سوچنے لگا، لیکن جب آپ ﷺ مدینہ واپس تشریف لائے تو میرے دل سے تمام جھوٹے خیالات نکل گئے اور میں نے سمجھ لیا کہ میں جھوٹ بول کر آپ کی ناراضگی سے نہیں بچ سکتا کیوں کہ اس سے وقتی طور پر اگر آپ ﷺ نے درگزر کر بھی دیا تو آخر جب آپ ﷺ کو اس جھوٹ کا علم ہوگا تو اور زیادہ خفگی ہوگی، اس لیے میں نے سچ بولنے کا عزم کر لیا۔

    رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت واپس آئے تھے اور آپ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ ہمیشہ سفر سے واپسی پر دو رکعت نماز مسجد میں پڑھتے اور لوگوں کے ساتھ کچھ دیر کے لیے بیٹھ جاتے، حسب ِعادت جب آپ مسجد میں بیٹھے تو غزوے میں غیر حاضر رہنے والے اسّی سے زیادہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قسمیں کھا کر اپنے اپنے عذرِلنگ بیان کرنے لگے، آپ ﷺ نے ان کے ظاہری قول و قرار اور قسموں کو قبول فرما کر ان کو بیعت کرلیا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی فرما دی۔ اسی حال میں، میں بھی حاضر خدمت ہو گیا اور آپ کو سلام کیا، جوابا آپ ﷺ نے ایسا تبسم فرمایا جیسے کوئی ناراض آدمی تبسم کرتا ہے، پھر آپ نے میری غیرحاضر ی کے متعلق دریافت فرمایا، میں نے عرض کیا، خدا کی قسم ! اگر آپ کے سوا دنیا کا کوئی اور آدمی ہوتا تو میں اس کے سامنے کوئی عذر گھڑ کر اس کی ناراضگی سے بچ جاتا کیوں کہ میں بروقت بات بنانے کا ماہر ہوں، لیکن خدا کی قسم! مجھے یقین ہے کہ میں جھوٹ بول کر اگر آپ کو راضی کرلوں تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ پر حقیقت حال کھول دیں اور آپ مجھ سے ناراض ہوجائیں، اور اگر میں نے سچ بتا دیا جس سے آپ وقتی ناراض ہوں گے تاہم مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف فرما دیں گے! تو سچ یہ ہے کہ میری غزوہ سے غیر حاضری کا کوئی عذر نہ تھا بلکہ جتنی مالی اور جسمانی فراوانی اس موقع پر تھی اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم نے سچ کہا! اب جائو یہاں تک کہ اللہ خود تمہارے متعلق کوئی فیصلہ فر مادیں. میں آپ ؐ کے دربار اقدس سے اٹھ کر چلا آیا، راستہ میں بنوسلمہ کے لوگ مجھے کہنے لگے کہ ہمارے علم کے مطابق تم نے اس سے پہلے تو کوئی گناہ نہیں کیا، یہ تم نے کیا بیوقوفی کی؟ اس وقت جان خلاصی کے لیے کوئی عذر ہی پیش کر دیتے، اور پھر تمہارے اس گناہ کے لیے آپ ﷺ کا مغفرت کر دینا کافی ہوجاتا۔ یہ لوگ بار بار مجھے یوں ہی ملامت کرتے رہے حتی ٰکہ میرے دل میں بھی یہ خیال آگیا کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں جا کر دوبارہ عرض کروں کہ جو بات میں نے پہلے آپ سے کہی وہ غلط تھی، میرے پا س عذر صحیح موجود ہے، لیکن اس سے پہلے کہ میں آپ کے پاس جاتا، میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ میر ی طرح کسی اور نے اقبال ِجرم کیا ہے؟ تو انہوں نے میرے سامنے ایسی دو برگزیدہ ہستیوں کا تذکرہ کیا جو اسلام کی سب سے پہلی جنگ کے سپاہی تھے۔ میں نے ان کا نام سن کر کہا کہ بس! میرے لیے ان دو بزرگوں کا عمل ہی قابل تقلید ہے، یہ کہہ کر میں اپنے گھر چلا آیا۔

    ادھر رسول اللہ ﷺ نے ہم تینوں سے سلام و کلام کرنے سے صحابہ کو روک دیا تھا، اس وجہ سے سارے لوگ ہم سے الگ رہنے لگے۔ میرے دونوں ساتھی اس مقاطعہ سے عاجز آ کر اپنے اپنے گھروں میں محصور ہوگئے اور انہوں نے رونے دھونے کا مشغلہ اپنا لیا، میں چونکہ نوجوان اور قوی اعصاب کا مالک تھا، اس لیے میں باہر نکلتا، مسلمانوں کے ساتھ نمازوں میں شریک ہوتا اور بازارو ں کے چکر لگاتا، مگر آپ کے حکم کی تعمیل میں لوگ مجھ سے بات نہ کرتے اور نہ سلام کا جواب دیتے، میں آپ کی مجلس میں آتا، سلام کرتا، پھر دیکھتا کہ جواب میں آپ ﷺ کے لب مبارک ہلے ہیں یانہیں؟ کبھی میں آپ کے قریب نماز پڑھتا تو نظر چرا کر آپ ﷺ کی طر ف دیکھتا تو ایسے معلوم ہوتا کہ جب میں نماز میں مشغول ہو جاتا ہوں تو میرے آقا ﷺ میری طر ف نظر شفقت ڈالتے ہیں، اور جب میں آپ ﷺ کی طرف دیکھتاہوں تو آپ ﷺ رخ پھیر لیتے ہیں۔ بہرحال جب لوگوں کی بے رخی طویل ہوگئی تو ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ ؓ کے باغ میں دیوار پھاند کر گیا، وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبو ب تھے، میں نے جا کر سلام کیا، خداکی قسم! انہوں نے سلام کا جواب نہ دیا، میں نے عرض کیا کہ ابو قتادہ! میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتا ہوں، کیا تمہیں علم نہیں کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں؟ انہوں نے کوئی جواب نہ دیا، میں نے دوسری بار یہ بات کہی تب بھی وہ خاموش رہے، تیسری بار جب میں نے کہا تو انہوں نے صر ف اتنا کہا ’’اللہ و رسولہ اعلم‘‘ بس یہ سننا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور میں واپس اپنے گھر چلا آیا۔ یہی حال چلتا رہا کہ ایک دن میں مدینہ منورہ کے بازار میں جا رہا تھا، اچانک میں نے ملک شام کے ایک نبطی تاجر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ’’ کعب بن مالک کہاں ہے؟‘‘ لوگوں نے میری طرف اشارہ کر دیا تو وہ میرے پا س آیا اور مجھے غسانی بادشاہ کا خط دیا. خط کا مضمون یہ تھا ’’امابعد!مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہارے نبی (ﷺ) نے تم سے جفا کی ہے اور تمہیں دور کردیا ہے۔ اللہ نے تمہیں ذلیل بنایا ہے نہ بےکار، (تم کام کے آدمی ہو)، تم ہمارے پاس آجائو، ہم تمہارے ساتھ ہمدردی کریں گے‘‘۔ میںنے جب یہ خط پڑھا تو میرا جسم کانپ اٹھا، میں نے فوراً اس خط کو تنور میں ڈال دیا۔

    جب چالیس راتیں گزر گئیں تو آپ ﷺ کا ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺنے آپ کو حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرو، میں نے پوچھا کیا میں طلاق دے دوں؟ انہوں نے کہا نہیں! صرف علیحدہ رہو اور قریب نہ جائو۔ اسی طرح کا حکم میرے دوسرے دو ساتھیوں کو دیا گیا، میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم اب میکے چلی جائو اور وہیں رہو جب تک کہ اللہ کوئی فیصلہ فرما دیں۔ میرے دوسرے ساتھی ہلال بن امیہ کی بیوی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ! ہلال بہت بوڑھے اور ناتواں ہیں، ان کا کوئی خادم بھی نہیں، اگر میں ان کی خدمت کرتی رہوں تو کیا آپ کو ناگوار ی ہوگی؟ آپ نے فرمایا نہیں! ہاں مگر وہ تمہارے قریب نہ آئیں، اس پر ان کی بیوی نے کہا کہ خدا کی قسم! بڑھاپے کی وجہ سے ان میں حرکت ہی نہیں ہے، جب سے عتاب ہوا اس وقت سے وہ مسلسل روتے رہتے ہیں۔ مجھے بھی میرے گھر کے بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ میں بھی ہلال کی بیوی کی طرح آپ سے اجازت لوں، میں نے کہا بخدا! میں اجازت نہ لوں گا، نہ معلوم آپ کیا جواب دیں گے! میں نے اسی حال میں دس راتیں گزاریں یہاں تک کہ پچاس راتیں مکمل ہوگئیں۔

    اگلے دن فجر کے بعد میں اپنی چھت پر بیٹھا تھا کہ میں نے سِلع نامی پہاڑ کی جانب سے ایک منادی کی آواز سنی، جو پکار کر کہہ رہا تھا کہ اے کعب! تمہیں بشارت ہو، میں یہ سنتے ہی سجدہ ریز ہوگیا، خوشی سے آنسو جاری ہوگئے، میں سمجھ گیا کہ اب معاملہ حل ہوگیا ہے۔ پھر وہ شخص میرے پاس آگیا اور خوشخبری سنائی، میں نے اس کی بشارت کی خوشی میں اسے اپنا لباس اتار کر دے دیا حالانکہ اس وقت میرے پاس صرف یہی ایک لباس تھا، پھر میں نے اپنے چچازاد بھائی سے لباس عاریتاً لیا اور آپ ﷺ کے دربار میں حاضری دینے کی خاطر چل پڑا، راستے میں لوگ جوق در جوق ملتے رہے اور مبارکباد دیتے رہے۔ جب میں مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوا تو دیکھا آپﷺ تشریف فرما ہیں اور آپ ﷺ کے ارد گرد آپ کے غلام بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے آپﷺ کو سلام کیا تو آپ کا چہرہ خوشی کی وجہ سے چمک اٹھا، آپ نے فرمایا اے کعب! تمہیں بشارت ہو ایسے مبارک دن کی جو تمہاری عمر میں پیدائش سے لے کر آج تک سب سے زیادہ بہترین دن ہے۔ میں نے آپ ﷺ سے پوچھا یہ حکم آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالی کی طرف سے؟ آ پ نے فرمایا یہ اللہ کا حکم ہے، تم نے سچ بولا اور اللہ نے تمہاری سچائی کو ظاہر فرما دیا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں اپنی اس توبہ کی خوشی میں اپنا سارا مال صدقہ کرنا چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا کچھ اپنے پاس بھی باقی رکھو، تو میں نے غزوہ خیبر میں جو حصہ ملا تھا اسے صدقہ کر دیا۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ نے مجھے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی، اس لیے اب میں عہد کرتا ہوں کہ زندگی بھر سچ بولوں گا۔ خدا کی قسم! جب سے میں نے آپ ﷺ سے یہ عہد کیا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ خدا نے میرے سِوا اتنا کسی کو نوازا ہوگا جتنا کہ اس عہد کے بعد مجھے نوازا ہے، خدا کی قسم! اسلام کے بعد سب سے بڑی نعمت جو مجھے ملی وہ آپ کے سامنے سچ بولنا ہے، کیوں کہ اگرمیں جھوٹ بولتا تو ہلاک ہوجاتا جس طرح کہ 80 لوگ جھوٹی قسمیں کھانے والے اللہ کے عتاب کے مستحق ٹھہرے۔

    اس داستان میں بے شمار حکمتیں اور نصائح مضمر ہیں جو ہر عام و خاص کے لیے مفید ہیں، افادہ عام کے لیے چند ایک پیش ہیں۔

    ٭ امام، حاکم یا کوئی بڑا اگر کسی کام کے کرنے کا حکم دیں تو اس کی انجام دہی کے لیے ہمہ وقت تیار رہناچاہیے، جیسے غزوہ تبوک کے اعلان کے بعد صحابہ کرامؓ جنگ کی تیاری میں مشغول ہوگئے، اگر آدمی سستی و کاہلی کا شکار ہوگیا تو آزمائش آسکتی ہے، جیسے کعب بن مالکؓ کو اپنے دوساتھیوں سمیت پچاس دن تک مقاطعہ کی اذیت جھیلنا پڑی۔
    ٭ اگر کوئی آدمی کسی کے بارے میں نامناسب بات کہے تو اسے ٹوکنا چاہیے جیسے حضرت معاذبن جبل ؓ نے بنوسلمہ کے اس آدمی کو ٹوکا جس نے حضرت کعب ؓکی عدم حاضری کو مال و دولت کی فراوانی سے نتھی کیا تھا اور پھر خود حضرت معاذؓ نے حضرت کعبؓ کی صفائی دی کہ ’’میں تو ان میں خیر کے سوا کچھ نہیں دیکھتا‘‘۔
    ٭ یہ بھی معلوم ہوا کہ جو آدمی دین میں جتنا مضبوط ہوگا اس سے کسی چھوٹی سی چھوٹی غلطی کے سرزد ہونے پر مواخذہ بھی اتناہی سخت ہوگا ،جیسا کہ حضرت کعب بن مالکؓ کے ساتھ ہوا۔
    ٭ اگر کوئی آدمی کسی دوسرے میں نامناسب بات دیکھے تو اس کی نشاندہی کردینی چاہیے تاکہ وہ اصلاح کرلے۔
    ٭ اگر کسی سے کوئی اچھا کام فوت ہوجائے تو اس کے فوت ہونے پرندامت اور تاسف کا اظہارکرنا چاہیے اور آئندہ کے لیے اللہ تعالی سے مدد طلب کرنی چاہیے، جیسے حضرت کعب بن مالکؓ ،مرارہ بن ربیعؓ اور ہلا ل بن امیہ ؓتینوں حضرات غزوہ کے فوت ہونے پر مسلسل روتے رہے۔
    ٭ اگر کسی سے غلطی سرزد ہوجائے تو صاحبِ منصب یا منتظم کو سرزنش کرنی چاہیے اور نا راضگی کا اظہار کرنا چاہیے تا کہ آئندہ وہ اس غلطی کا مرتکب نہ ہو، جیسے حضرت کعب ؓکی عدم حاضری پر آپ ﷺ کا ناراضگی والا تبسم فرمانا اور صحابہ کرام ؓکو مقاطعہ کا حکم دینا۔
    ٭ یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی بڑے کو اپنا آئیڈیل بنانا اور اس کے نیک عمل اور اچھے کردار کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے جیسے حضرت کعب ؓ نے ہلا ل بن امیہ ؓ کو اپنا آئیڈیل بنایا اور ان کے طرز ِعمل کو اختیار کیا۔
    ٭ اگر حاکم یا منتظم یا کوئی بڑا کسی بات سے روک دے تو ہرحال میں اطاعت لازم ہے اور تعمیلِ حکم میں اگر محبوب شئی بھی چھوڑنا پڑے تو بلاتامل چھوڑدینا چاہیے، جیسے حضرت ابو قتادہ ؓ کا باوجود چچا زاد ہونے کے حضرت کعبؓ کو سلام کا جواب نہ دینا ،اور آپ ؐ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں حضرات کا اپنی بیویوں سے دور رہنا۔
    ٭ یہ بھی معلوم ہو اکہ بیوی کوخاوند کی خدمت کرنی چاہیے اور سخت سے سخت آزمائش میں ساتھ نبھانا چاہیے، جیسے ہلا ل بن امیہ کی بیوی کا آزمائش میں ساتھ نبھانے کے لیے آپ ؐ سے اجازت طلب کرنا۔
    ٭ کوئی خوشخبر ی یا اچھی بات کی خبر سننے پراللہ کا شکرادا کرنا چاہیے، اور نعمت کے حصول اور پریشانی کے زوال پر صدقہ کرنا چاہیے تاکہ مزید انعامات کی بارش ہو، اس سلسلہ میں حضرت کعب ؓ کا عمل قیامت تک کے لیے بہترین اسوہ حسنہ ہے۔

    ٭ لب لباب اور نچوڑ یہ ہے کہ آدمی کو ہر وقت، ہرلمحہ اطاعت ِخدا اور رسول ﷺ کا اہتمام کرنا چاہیے اور دنیا کی مختصر زندگی کو مکمل طور پر شریعت کے مطابق گزارنا چاہیے، اور اوامر پر سختی سے عمل کرنا اور نواہی سے لازماً اجتناب کرناچاہیے. جھوٹ، سستی کاہلی، عیش وعشرت، مال و اولاد کی محبت میں انہماک سے گریز کرنا چاہیے، اور سب سے اہم بات یہ کہ ہمیشہ سچ بولنا چاہیے کیوں کہ سچ نہ صرف انسان کے وقار کو بلند کرتا ہے بلکہ فلاح دارین کا سبب اور لازوال نعمتوں کے حصول کا ذریعہ بھی بنتا ہے، حضرت کعب ؓکا قسم اٹھانا اس نعمت کی اہمیت اور عظمت کی واضح دلیل ہے۔ یہ داستان بھی اسی فلسفہ کوعملی زندگی میں اپنانے اور رواج دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

    یاد رہے! حضرت کعب بن مالکؓ کی دکھ بھری داستان ان چند خوبیوں اور حکمتوں کی محتاج نہیں بلکہ اس جیسی سینکڑوں نصیحتیں اس یادگار داستان میں پنہاں ہیں جو اہل ِعقول اور صاحب بصیرت لوگوں کو غور وخوض کی دعوت اور ان کو اپنانے کی ترغیب دی رہی ہیں۔ خدائے جل جلالہ ہم سب کو اس کی جستجواور اس داستان سے حاصل ہونے والی ہر خوبی اور حکمت پر عمل کرنے کی توفیق دے. آمین ۔

  • سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ – ریحان الدین فیضی

    سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ – ریحان الدین فیضی

    نام و نسب:
    خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اسم مبارک عمر، لقب فاروق، اور کنیت ابوحفص ہے۔
    آپ کا خاندانی شجرہ آٹھویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے ملتا ہے۔ آپ کے والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام عتمہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بعد پوری امت میں آپ کا مرتبہ سب سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ آپ واقعہ فیل کے 13 برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ حضور اکرم ﷺ سے آپ عمر میں تقریبا 11 سال چھوٹے ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ قریش کے باعزت قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اعلان نبوت کے 6 سال بعد 27 سال کی عمر میں آپ نے اسلام قبول کیا۔ آپ مراد رسول ہیں، یعنی حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی: اے پروردگار عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام میں جو تجھے پیارا ہے اس سے اسلام کو عزت عطا فرما۔ دعاء بارگاہ خداوندی میں قبول ہوئی اور آپ مشرف با اسلام ہوئے۔

    حلیہ مبارک:
    آپ ؓ کی رنگت سفید تھی لیکن سرخی اس پر غالب تھی۔ قد لمبا تھا، رخساروں پر گوشت کم تھا، داڑھی گھنی تھی اور صحت ماشاء اللہ بہت بہترین تھی۔ (تاریخ الخلفاء)
    آپ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی اور انہیں حوصلہ ملا۔ اسلام کی قوت میں اضافہ ہوا۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں جس کسی نے ہجرت کی چھپ کر کی، مگر حضرت عمر ؓ مسلح ہو کر خانہ کعبہ میں آئے اور کفار کے سرداروں کو للکارا اور فرمایا جو اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے وہ مجھے روک لے۔ حضرت عمر ؓ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ سے کفار مکہ پر لرزہ طاری ہوگیا اور کوئی مد مقابل نہ آیا۔ ہجرت کے بعد آپ نے جان و مال سے اسلام کی خوب خدمت کی۔ آپ ؓ نے اپنی تمام زندگی اسلام کی خدمت کرنے میں گزار دی۔ آپ ؓ حضور اکرم ﷺ کے وفادار صحابی ہیں۔ آپ نے تمام اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ کردار ادا کیا اور اسلام کے فروغ اور اس کی تحریکات میں حضور اکرم ﷺ کے رفیق رہے۔ (تاریخ ابن ہشام)

    علم، پیشہ، شوق شہادت:
    حضرت عمر ؓ کو لڑکپن میں اونٹ چرانے کا شوق تھا۔ جوان ہوئے تو عرب کے دستور کے مطابق سپہ سالاری، شاہ سواری، نسب کی تعلیم، پہلوانی کی تعلیم حاصل کی۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت قریش میں صرف 17 آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے، جن میں سے ایک آپ تھے۔ پہلوانی کا شوق تھا اور اتنی مہارت تھی کہ آپ عرب کے بڑے پہلوانوں میں سے تھے۔ پورے عرب میں آپ کا رعب اور دبدبہ اتنا تھا کہ بڑے بڑے دلیر انسان کانپنے لگتے تھے۔ آپؓ کوگھڑ سواری میں بھی کمال حاصل تھا۔
    حضرت عمر فاروق ؓ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتے تھے: یا رب! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسول اللہ ﷺ کے شہر میں مجھے موت عطا فرما۔ (بخاری شریف)

    زہد و تقویٰ، علم اور نبی پاک ؐ کے خواب:
    عبداللہ بن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی: آپؐ نے فرمایا: میں نے خواب میں دودھ پیا، اتنا کہ میں دودھ کی تازگی دیکھنے لگا۔ جو میرے ناخن یا ناخنوں پہ بہہ رہی ہے۔ پھر میں نے پیالہ عمر ؓ کو دے دیا۔ صحابہ نے پوچھا۔ یارسول اللہﷺ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اس کی تعبیر علم ہے۔ (مطلب عمرؓ کے علم کا بیان جو اللہ نے نبی پاک ﷺ کی بدولت انہیں عطا کیا)۔
    آپؓ کے زہد و تقویٰ کا عالم یہ تھا کہ راتوں کو جاگ کر گھر جا جا کر اپنی رعایا کی خبر لیا کرتے تھے۔ اور اپنا کام اپنے ہاتھ سے ہی کرنا پسند فرماتے تھے۔ (تاریخ الخلفاء)
    فاروقی دور کی خدمات اور فتوحات:

    حضرت ابوبکر ؓ کی وفات اور خلافت میں آنے کے بعد آپ ؓ نے 2 سال کے عرصے میں ہی اپنی قابلیت کا سکہ جمادیا۔ حالانکہ پہلے آپ ایک انتہائی رعب و دبدبہ اور غصے کے تیز شخص مانے جاتے تھے۔ مگر خلیفہ بنتے ہی انہوں نے نرم رویہ اختیار کیا کہ جس کی بدولت نہ صرف مسلمان بلکہ کافر آج تک داد و تحسین پیش کرتے ہیں۔ عہد فاروقی نے دین و دنیا میں جو خدمات پیش کیں، اس کی مثال آج تک نہیں مل پائی۔ (تاریخ الخلفاء)
    چند ایک کا تذکرہ یہ ہے:
    ٭ بیت المال کا قیام
    ٭ مالی تجاویز و ایجاد
    ٭ معاشرتی نظام کی تجاویز
    ٭ سیاسی کابینہ کا قیام
    ٭ امیر المؤمنین کا لقب
    ٭ فوج کے مختلف حکومتی شعبہ جات کے باقاعدہ دفاتر کا قیام
    ٭ رضا کاروں کی تنخواہوں کا تقرر
    ٭ ملک کی حدود کا قاعدہ
    ٭ مردم شماری
    ٭ نہریں کھدوانا
    ٭ راستے میں مسافروں کے لیے کنویں اور سرائے کا انتظام
    ٭ راستوں کو ڈاکوؤں سے محفوظ کروانا
    ٭ رات کو رعایا کی خبر گیری اور حفاظتی گشت کا قیام
    ٭ خانہ کعبہ کے صحن کی توسیع
    ٭ جیل خانہ کا قیام
    ٭ پولیس کا باقاعدہ محکمہ
    ٭ مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کی روزی کا اہتمام
    ٭ نماز تراویح باجماعت پڑھانے کا اہتمام
    ٭ بیرونی تجارت کی اجازت (جسے امپورٹ ایکسپورٹ کہتے ہیں)
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسلمانوں کو بہت ساری فتوحات حاصل ہوئیں، جن میں روم ، عراق ، فارس ، مصر کی فتوحات قابل ذکر ہیں۔ (تاریخ الخلفاء)

    طرز زندگی:
    جب اس عظیم سلطنت اور جاہ و جلال کا تذکرہ آتا ہے تو ایک لمحے کو سوچ آتی ہے کہ انسانی فطرت میں ایسے بندے کی زندگی تو انتہائی شاہانہ ہوگی۔ ایسی ہی سوچ لیے دوسری سلطنتوں کے ایلچی بھی آیا کرتے تھے کہ شاید وہ عالی شان دربار میں بٹھائے جائیں گے، لیکن ان کا یہ خیال سب کا سب دھرا رہ جاتا جب وہ اس جاہ و جلال کے پیکر کو درخت کے نیچے بلا خوف و خطر کسی حفاظتی انتظامات کے بغیر پتھر پر سر رکھے، پھٹے پرانے اور پیوندوں سے بھرے ہوئے کپڑوں میں دیکھتے تو وہ حیران ہی نہیں مبہوت ہوکر رہ جاتے کہ یہی وہ امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں؟ جو اتنی وسیع سلطنت کے مالک ہیں، اور جن سے دوسرے اقوام ہیبت زدہ ہیں۔ (سیرت ابن ہشام)

    شہادت:
    حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے غلام ابو لؤلؤ مجوسی کے ہاتھوں سن 23 ہجری بمطابق 644 عیسوی میں شہید ہوئے۔ اور حضرت محمد ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۔ (طبرانی)

    فضیلت:
    ٭ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک میں نگاہ نبوت سے دیکھ رہا ہوں، جن کے شیطان اور انسان کے شیطان دونوں میرے عمر ؓ کے خوف سے بھاگتے ہیں۔‘‘ (مشکوۃ شریف)
    ٭ حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے عمرؓ کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرمادیا۔‘‘ (مشکوۃ شریف)
    ٭ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: ’’جب حضرت عمر فاروق ؓ اسلام لائے تو حضرت جبرائیل ؑ حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یارسول اللہؐ! آسمان والے عمر ؓ کے اسلام لانے پر خوش ہوئے ہیں۔ (ابن ماجہ)
    ٭ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: [pullquote]لوکان بعدی نبیاً لکان عمر[/pullquote]

    ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا۔‘‘ (بخاری)

  • مناقب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ – مبین امجد

    مناقب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ – مبین امجد

    مبین امجد میں وہ ہوں جس نے سید الکونین نبی الاکرم ﷺ کے ہاتھوں سے تین مرتبہ جنت خریدی ہے۔ یہ قول حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہے۔
    حضور اکرم ﷺ کے خلیفہ راشد حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کی شخصیت اپنے وجود میں ان گنت محاسن کی جامع ہے۔ آپ کا شمار ان خوش نصیب افراد میں ہوتا ہے جو انبیائے کرام کے بعد برگزیدہ ترین ہیں ۔آپ کو ہر وہ اعزاز حاصل ہے جو اسلام میں کسی بھی شخص کے لیے فضیلت و تقرب کا باعث ہو سکتا ہے۔ آپ خلفائے راشدین میں سے ہیں، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، آپ کو اصحاب بدر میں شمار کیا گیا۔ بیعت ِرضوان کے انعقاد کا سبب بھی آپ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو شہزایوں سے آپ کا نکاح ہوا اور آپ ذوالنورین کہلائے۔

    حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے چھ سال چھوٹے تھے۔ عام فیل کے چھ برس بعد۵۷۶ء میں مکہ میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام عفان، دادا کا ابوالعاص، اور پڑدادا کا امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف تھا۔ پانچویں پشت عبدمناف پر ان کا نسب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرے سے جا ملتا ہے۔ آپ کا شجرۂ مبارکہ یہ ہے، محمد بن عبد اﷲ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔ حضرت عثمان کی والدہ اروی بنت کریز کو قبول اسلام کی سعادت حاصل ہوئی، نانی ام حکم بیضا بنت عبدالمطلب آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی تھیں۔ زمانہ جاہلیت کی جنگوں میں قریش کا قومی علم ‘عقاب’ ان کے خاندان بنو امیہ کے پاس رہتا تھا۔

    %d9%85%d8%b2%d8%a7%d8%b1%d8%b9%db%83-%d8%b9%d8%ab%d9%85%d8%a7%d9%86 حضرت عثمان رضی اﷲعنہ نے زمانۂ جاہلیت ہی میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ بڑے سلیم الفطرت تھے، جاہلیت کی کسی برائی سے دامن آلودہ نہ ہوا۔ جوان ہونے پر قریش کے دوسرے معززین کی طرح تجارت کو اپنا پیشہ بنایا پھر عمر بھر سوتی کپڑے کا کاروبار کرتے رہے۔ شرافت، امانت اور راست باز ی کی وجہ سے ان کا کاروبار خوب چمکا۔ ایک ممتاز اور دولت مند تاجر ہونے کی وجہ سے غنی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ عثمان ۳۴ برس کے تھے کہ اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم اﷲ کی بعثت ہوئی۔ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ترغیب پر اسلام قبول کیا۔ ان کے چچا حکم بن ابوالعاص نے انھیں رسیوں سے باندھ دیا اور کہا کہ جب تک تم یہ نیا دین ترک نہ کرو گے، میں تمہیں ہرگز نہیں چھوڑوں گا مگر جب عثمان نے ثابت قدمی دکھائی تو حکم کو چھوڑنا پڑا۔

    جلد ہی نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے اپنی بیٹی رقیہ کی شادی ان سے کر دی۔ حضرت عثمان نے اسلام لانے کے بعد بھی تجارت جاری رکھی۔ اور اسلام کی خدمت کے لیے اپنا مال وقف کر دیا۔ اور ان کی سخاوت مسلمانوں کے کام آنے لگی۔ وہ رفاہی کاموں میں پیش پیش تھے. مدینۂ منورہ میں پینے کے پانی کی قلت ہوئی تو ایک یہودی اپنے کنویں بئر رومہ کا میٹھا پانی منہ مانگے داموں فروخت کرنے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی کہ کون بئررومہ خرید کر اس کا ڈول مسلمانوں کے ڈول میں شامل کرے گا کہ اس بدلے میں اسے جنت میں اس سے بہترمل جائے؟ ‘(ترمذی:۲۷۰۳) حضرت عثمان یہودی کے پاس گئے، وہ پورا کنواں بیچنے پر آمادہ نہ ہوا تو انھوں نے ۱۲ ہزار درہم کے بدلے میں نصف کنواں خرید لیا۔ایک دن یہودی اسے استعمال کرتا، دوسرے دن وہ حضرت عثمان کے توسط سے مسلمانوں کے تصرف میں ہوتا۔ اپنی باری پر مسلمان دو دن کا پانی ایک بار ہی نکال لیتے۔ اس سے یہودی تنگ آ گیا اور ۸ ہزار درہم لے کر باقی نصف بھی دے دیا۔ اب یہ کلی طور پر عامۃ المسلمین کے لیے وقف تھا۔ بعد میں انھوں نے اور بھی کئی کنویں کھدوا کر مسلمانوں کے لیے وقف کیے، مثلاً بئر سائب، بئر عامر اور بئر اریس۔

    حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ غزوات کے مواقع پر بھی بہت زیادہ خرچ کرتے۔ غزوۂ تبوک کا موقع آیا تو سخت قحط سالی تھی۔ اسلامی لشکر بےسر وسامان تھا، اسی لیے اسے جیش عسرت کا نام دیا گیا۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعوت عام دی، جو جیش عسرت کے لیے سامان مہیا کرے گا، اسے بدلے میں جنت ملے گی۔ (بخاری :فضائل اصحاب النبی) اس موقع پر حضرت عثمان نے سامان حرب سے لدے ہوئے ۹۵۰ اونٹ اور۵۰ گھوڑے خدمت نبوی میں پیش کیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم اس فیاضی سے اس قدر خوش ہوئے کہ دیناروں کو دست مبارک پر اچھالتے جاتے اور فرماتے: ما ضر عثمان ما عمل بعد ہذا الیوم، آج کے بعد عثمان کچھ بھی کریں، کوئی عمل انھیں نقصان نہ پہنچائے گا(ترمذی:)

    حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بہت حیا دار تھے۔ حیا کی وجہ سے ان کی جوانی بےداغ رہی اور وہ مفاخرت سے دور رہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان میری امت میں سب سے بڑھ کر اور سچی حیا رکھنے والے ہیں۔ (مسنداحمد:۱۳۹۹۰) ان کی حیاکی وجہ سے لوگ بھی ان سے حیا کرتے۔ اور نبی مکرم ﷺ بھی ان کی بہت حیا کرتے تھے۔ ایک بار نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سیدہ عائشہؓ کی چادر اوڑھے اپنے بستر پر آرام فرما رہے تھے۔ شاید چادر چھوٹی تھی کہ آپ کی ران کا کچھ حصہ ڈھکنے سے رہ گیا۔ کسی کام سے حضرت ابوبکر آئے، آپ اسی حالت میں ان سے ملے۔ حضرت عمر نے آکر اجازت مانگی تو آپ اسی طرح استراحت فرماتے رہے۔ اتفاق سے کچھ دیر بعد حضرت عثمان بھی تشریف لے آئے۔ آپ نے اپنے کپڑے درست فرمائے، بدن اچھی طرح ڈھانکا اور پھر ان سے ملاقات فرمائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے استفسار کرنے پر فرمایا، عثمان بہت حیا والا ہے اور اللہ بھی ان سے بہت حیا کرتا ہے تو میں کیوں نہ کروں؟

    حضرت عثمان غنی اپنے رشتہ داروں سے بے حد شفقت کرتے۔ یہ ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کے لیے عام معافی کا اعلان فرمایا، البتہ چند افراد کا نام لے کر فرمایا کہ یہ عام معافی میں شامل نہیں۔ چاہے وہ کعبہ کے پردوں میں چھپے ہوں، انھیں قتل کر دیا جائے۔ ان میں سے ایک حضرت عثمان کا رضاعی بھائی عبداﷲ بن سعد (ابن ابی سرح) تھا جو اپنے دادا ابو سرح کی نسبت سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ یہ مسلمان تھا تو وحی کی کتابت کرتا تھا، پھر مرتد ہو کر مکہ واپس چلا گیا اور مشہور کر دیا کہ وہ وحی میں آمیزش کیا کرتا تھا۔ مسلمان مکہ میں داخل ہوئے تو یہ عثمان کے پاس چلا گیا، انھوں نے اسے پناہ دی۔ جب شہر میں امن قائم ہوگیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور اس کے لیے امان طلب کی۔ آپ نے طویل خاموشی فرمائی، پھر امان دے دی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد آپ نے اپنے پاس موجود صحابہ سے فرمایا: میں نے اتنی لمبی خاموشی اس لیے اختیار کی کہ تم میں سے کوئی آگے بڑھ کر اس کی گردن اڑا دے۔ دل میں ابن ابی سرح کے بارے میں یہ خواہش ہوتے ہوئے آپ نے حضرت عثمان سے حیا کی اور اس دشمن دین کو معاف فرما دیا۔