امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ ’’عمر ؓ مراد رسول ؐہے ‘‘یعنی دیگر صحابہ کرامؓ مرید رسولؐ ہیں اور عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مراد رسول ؐ ہیں،ایک عالم نے کیا خوب کہا کہ:’’پیغمبر اسلام ﷺ کے لیے عطائے خداوندی‘‘اسی طرح مسٹر غلام احمد پرویز سے ہزارہااختلاف ہوں لیکن یہ سچ ہے کہ اس نے سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے لیے جو لقب استعمال کیا ہے کمال کیا ہے یعنی ’’شہ کار رسالت ‘‘ انہوںنے اس نام سے سیدنا عمر فاروق ؓ کی حیات پر ایک ضخیم کتاب بھی لکھی ہے،ہم نے انہی کے لقب کو اپنے مضمون کی بنیاد بنایا ہے ،اور بھی بہت سے لوگوں نے علمائے اسلام نے ،حکمائے اسلام نے ،اور مستشرقین نے اپنے اپنے لفظوں میں بارگاہ فاروقی میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاشمار مکہ مکرمہ کے چند پڑھے لکھوں میں ہوتاتھا لیکن وہ بھی اسی عرب معاشرے کا حصے تھے جہاں پیغمبر اسلام ﷺ کو قبل از نبوت صادق وامین کہا جاتا تھا اور بعد از اعلان نبوت نعوذ باللہ ساحر ،شاعر،کاہن ،اور نجانے کیا کیا کہا گیا اور ہر دور میں باطل پروپیگنڈانہ مہم کے ذریعہ اہل حق کو مرعوب کرنے کی سازش کرتا ہے اس دور میں بھی یہی کچھ ہوا اور جان بوجھ کر کیا گیا کہ نعوذ باللہ محمد (ﷺ) نے اپنے آباء واجداد کا دین ترک کردیا ہے اور ایک نئے دین کی بنیاد ڈالی ہے ۔
اہل مکہ کے جبر وستم بہت بڑھ چکے تھے صحابہ کرامؓ سرعام تبلیغ تو درکنار عبادت نہیں کرسکتے تھے چھپ کر دین اسلام کی تبلیغ وعبادت کی جاتی تھی ،صحابہ کرامؓ کی تعداد اس وقت انتالیس تھی ایک رات بیت اللہ کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبر اسلام ﷺ نے عجیب دعا کی اپنے پروردِگار سے،مانگا بھی تو عجب شئے مانگی ،کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے اسلام کی بڑھوتری کی دعا کی جاتی ،اہل مکہ کے ایمان لانے کی دعا کیجاتی دنیائے عالم میں اسلام کی اشاعت کی دعا کی جاتی یا اہل مکہ کے ظلم وستم کی بندش کے لیے ہاتھ اٹھائے جاتے لیکن میرے عظیم پیغمبر ﷺ نے دعا کی کہ:’’ اے اللہ ! عمر وابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا‘‘۔
نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اللہ ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبر اسلام ﷺ کی دعاکو شرف قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغ برہنہ لیے جارہے تھے راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا جس نے پوچھا کہ عمر خیریت کہاں کا ارادہ ہے کہنے لگے محمد (ﷺ) کو قتل کرنے جارہاہوں اس نے نئے دین کااعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق کردی ہے کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کردوں بنو زہرہ سے تعلق والے شخص نے کہا کہ عمر اگر تم نے ایسا کیا تو کیا ’’بنو ہاشم وبنو زہرہ ‘‘تم سے انتقام نہیں لیں گے کہنے لگے لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہوچکے ہو انہوںنے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو تمہاری بہن وبہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں ۔
جلال میں نکلنے والا عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے یہاں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ان کے بہنوئی وبہن کو سورۃ طہٰ پڑھا رہے تھے باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی اندر سے پوچھاگیا کون۔۔؟عمر نام سنتے ہیں سیدنا خباب ؓ چھپ گئے عمر نے آتے ہی پوچھا تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ ہم آپس میں باتیں کررہے تھے کہنے لگے میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو بہنوئی نے کہا کہ عمر ؓ وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے تو جس دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر،بہن چھڑانے آئی تواتنی زور سے اس کے چہرہ پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرہ سے خون نکل آیا بہن کے چہرے پہ خوں دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ اچھا لائو دیکھائو تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے بہن نے کہا کہ تم اس کے آداب ہیں پہلے تم وضو کرو پھر دیکھائوں گی انہوںنے وضو کیا اور سورۃ طہٰ پڑھنی شروع کی یہ پڑھتے جارہے تھے اور کلام الہٰی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جارہے تھی خباب بن ارت ؓ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے عمر کل رات نبی کریم ﷺ نے بارگاہ خداوندی میں دعا کی تھی کہ :’’اللّٰھمّ اعزّ الاسلام باحد الرجلین امّا ابن ھشام وامّا عمر بن الخطاب ‘‘اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ:’’اللّھمّ ایّد الاسلام بابی الحکم بن ھشام وبعمر بن الخطاب‘‘اے اللہ ! عمر وبن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا ،یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی تائید فرما‘‘اے عمر میرے دل نے گواہی دی تھی کہ یہ دعا ئے پیغمبر ﷺ عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہوگی ،اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ:’’کان رسول اللہ ﷺ اذا رایٔ عمر بن الخطاب او ابا جھل بن ھشام قال اللھم اشدد دینک باحبّہما الیک ‘‘ یعنی جب کبھی رسول اللہ ﷺ عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب العزت کے حضور دست دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے اے اللہ !ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ پسند یدہ ہے اس سے اپنے دین کو قوت عطافرما۔(طبقات ابن سعد)
سیدنا خباب بن ارت ؓ سے سیدناعمر ؓ کہنے لگے کہ اچھا تو مجھے بتائو محمد ﷺ کہاں ہیں میں ان سے ملنا چاہتا ہوںانہوں نے بتایا کہ صفاپہاڑی پر واقع ارقم ؓ کے مکان میں قیام پذیر ہیں ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل پڑھے درہ پر مقیم صحابہ کرام ؓ نے جب دیکھا کہ عمر آرہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے تو گھبرائے ہوئے آنحضرت ﷺ کو بتایاوہیں اسداللہ ورسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب ؓ بھی تھے وہ فرمانے لگے آنے دو اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کاکام تما م کردوں گا۔
جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسلام ﷺ پر نزول وحی جاری تھی چند لمحوں بعد آپ نے عمر ؓ سے فرمایا:’’ اے عمر! تم کس چیز کا انتظا رکررہے ہو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو ‘‘۔ بس یہ سننا تھا کہ فوراً کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے اصحاب رسولؓ نے عمر ؓ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ صحن کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادی مکہ گونج اٹھی پھر نبی رئوف رحیم ﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینہ مبارک پر دست اقدس رکھا اور دعا فرمائی :اللّھم اخرج مافی صدوہٖ من غلٍ واید لہ ایماناً ،یا اللہ ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔(مستدرک للحاکم)قبول اسلام کی وقت بعض مورخین کے نزدیک آپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال تھی۔مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسر قرآن جناب علامہ طنطناوی ؒ نے عجیب جملہ کہا ہے کہ :’’حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا آغاز ہوا ۔
مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :قال رسول اللہ ﷺ لما اسلم اتانی جبرائیل فقال استبشراھل السماء باسلام عمر ‘‘ یعنی حضور سرورِکائنات ﷺ نے فرمایا کہ جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ آسمان والے عمر ؓ قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں ۔(مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)
ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے نبیﷺ !کیا ہم حق پر نہیں ہیں ،آپﷺ نے اثبات میں جواب دیا تو فرمانے لگے کہ پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں میں قربان جائوں اپنے آقا ومولاﷺ پر کہ انہوں نے ایسے ہی عمر ؓ کو نہیںمانگا تھابلکہ دوررس نگاہ نبوت دیکھ رہی تھیں کہ اسلام کو عزت وشوکت عمرؓ کے آنے سے ہی نصیب ہوگی ۔
حضور اکرمﷺ نے صحابہ کرامؓ کو دو صفوں میں تقسیم کیا ایک صف کے آگے اسد اللہ ورسولہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مراد رسولؐ،شہ کار رسالت ؐ،پیغمبر اسلام ﷺ کے لیے عطائے خداوندی یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل رہے تھے مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفار مکہ نے دیکھا نظر پڑی حمزہ ؓ پر اور عمر ؓ پر تو بڑے غمگین ہوئے لیکن کس میں جرات تھی کہ کوئی بولتا اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاک ﷺ نے فرمایا تھا کہ:’’ان اللّٰہ جعل الحق علیٰ لسان عمر وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل ‘‘ اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمر کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے حق وباطل میں اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ فرق کردیا ہے ۔(طبقات ابن سعد)
جناب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’واللّٰہ ما استطعنا ان نصلّی عندالکعبۃ ظاھر ین حتٰی اسلم عمر ‘‘اللہ کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ لائے ۔(مستدرک اللحاکم)
اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا ،اور ہم کھلے بندوں اسلام کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت اللہ میں بیٹھتے تھے ہم بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے بدلہ لیتے تھے ۔
کچھ اسی قسم کے تاثرات فقیہ الامت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بھی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ: ’’عمرؓ کا اسلام قبول کرنا ہماری کھلی فتح تھی، اور عمر ؓکا ہجرت کرنا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرت خاص تھی ، اور آپ ؓ کی خلافت تو ہمارے لیے سراپا رحمت تھی میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ہم بیت اللہ کے قریب بھی نماز ادا نہیں کرسکتے تھے لیکن جب عمر ؓ اسلام لائے تو آپ ؓ نے کفار سے مقابلہ کیا یہاں تک کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے دینے لگے ۔(طبقات ابن سعد)
سیدنا امام عمر سلام اللہ علیہ کی شان رفیعہ میں چند فرامین رسالتمآبﷺ پیش کرتا ہوں جس سے آپ امام عمر سلام اللہ علیہ کی عظمت ومنقبت اور مقام رفعت کا اندازہ کرسکیںگے نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ:’’اے ابن خطاب !اس ذات پاک کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے جس راستے پہ آپ کو چلتا ہواشیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے وہ راستہ چھوڑ کر دوسراراستہ اختیار کرتا ہے ۔(صحیح بخاری)
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ :’’حضور پاک ﷺ فرماتے ہیں میں نے حالت خواب میں دودھ پیا یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے آثار میرے ناخنوں میں نمایاں ہونے لگے پھر میں وہ دودھ عمرؓ کو دے دیا اصحاب رسولؓ نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ !اس خواب کی تعبیر کیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا:’’علم‘‘۔
اسی طرح امام بخاری ؒنے ایک اور روایت بھی اپنی صحیح میںدرج کی ہے کہ :’’ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نیند میں تھا میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اور انہوںنے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے نیچے تک ،اور پھر عمر کو پیش کیا گیا انہوں نے ایسی لمبی وکھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین پر گھٹتی جارہی تھی ،اصحاب رسول ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے نبی کریم ﷺنے فرمایا :’’دین ‘‘۔
اسی طرح بڑی ہی مشہور ومعروف حدیث نبویہ ؐ ہے کہ :نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا‘۔یعنی اگر سلسلہ نبوت جاری رہتا تو سیدنا امام عمر رضی اللہ عنہ بھی منصب نبوت سے سرفراز کیے جاتے ۔
ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ :’’رسول مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے جو امم گزری ہیں ان میں محدث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے ‘‘۔
اسی حدیث مبارکہ میں لفظ’’محدث‘‘کی تشریح میں صاحب فتح الباری علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ یوں تحریر فرماتے ہیں کہ :’’المحدث الملھم وھو من القی فی روعہ شئی من قبل الملاء الاعلیٰ ومن یجری الصواب علیٰ لسانہٖ بغیر قصد ‘‘یعنی محدث وہ ہے جس کی طرف اللہ کی طرف سے الہام کیاجائے ملاء اعلیٰ سے اس کے دل میں القاء کیا جائے اور بغیر کسی ارادہ وقصد کے جس کی زبان پر حق جاری کردیا جائے یعنی اس کی زبان سے حق بات ہی نکلے ۔
ایک بار سیدنا امام عمر رضی اللہ عنہ شفیع اعظم نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی تو نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا :’’یا اخی اشرکنا فی صالح دعاء ک ولا تنسنا‘‘ اے میرے بھائی ! اپنی نیک دعائوں میں ہمیں بھی شریک کرنا اور بھول نہ جانا۔
سلسلہ احادیث سے آخری حدیث پیش کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ بہت دراز ہے اور دامن صفحات میں جگہ کم ،بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی حدیث ہے کہ :’’ ایک دفعہ حضور پرنور ﷺ احد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے ہمراہ ابوبکر ؓ ،عمرؓ اور عثمان ؓ بھی تھے احد کاپہاڑ لرزنے لگے توحضور انورﷺ نے اپنا قدم مبارک احد پر مارتے ہوئے فرمایا اے احد!ٹھہر جا تجھ پر اس وقت نبی ،صدیق اور شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔
اس کے بعد سیدنا امام عمر رضی اللہ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ:’’ اللھم ارزقنی شھادۃ فی سبیلک وموتافی بلد حبیبک ‘‘ اے اللہ ! مجھے اپنی راہمیں شہادت کی موت دینا اور موت آئے تو تیرے حبیب ؐ کے شہر میں آئے ۔
آخری ایام ہائے حیات میں آپؓ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے ۔اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے اس وقت ایک درّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے اس روز بھی آپؓ نے ایساہی کیا نماز ویسے ہی آپؓ نے شروع کی تھی صرف تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لولو (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا ایک زہر آلود خنجر لئے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا اس نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجر سے لگائے آپؓ بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر بجائے آپؓ کی امامت کے مختصر نماز پڑھکر سلام پھیرا ابولولو نے چاھا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے مگر نمازیوں کی صفیں مثل دیوار کے حائل تھیں اس سے نکل جاناآسان نہ تھا اس نے اور صحابیوںؓ کو بھی زخمی کرنا شروع کردیا تیرہ صحابی زخمی ،جن میں سے سات جاں بر نہ ہوسکے اتنے میں نماز ختم ہوگئے اور ابولولو پکڑ لیا گیا جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا ۔(خلفائے راشدین ،از لکھنویؒ)
بالآخر آپ کی دعائے شہادت کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور دیارِ حبیب ؐ میں بلکہ مصلیٰ رسولؐ پر آپ کو 27 ذوی الحجہ بروز چہار شنبہ(بدھ ) آپ کو زخمی کیا گیا اور یکم محرم بروز یک شنبہ (اتوار)آپؓ نے شہادت پائی شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی ،حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبویؐ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں آپ ؓ کی قبر بنائی گئی ۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ
تبصرہ لکھیے