میں وہ ہوں جس نے سید الکونین نبی الاکرم ﷺ کے ہاتھوں سے تین مرتبہ جنت خریدی ہے۔ یہ قول حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہے۔
حضور اکرم ﷺ کے خلیفہ راشد حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کی شخصیت اپنے وجود میں ان گنت محاسن کی جامع ہے۔ آپ کا شمار ان خوش نصیب افراد میں ہوتا ہے جو انبیائے کرام کے بعد برگزیدہ ترین ہیں ۔آپ کو ہر وہ اعزاز حاصل ہے جو اسلام میں کسی بھی شخص کے لیے فضیلت و تقرب کا باعث ہو سکتا ہے۔ آپ خلفائے راشدین میں سے ہیں، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، آپ کو اصحاب بدر میں شمار کیا گیا۔ بیعت ِرضوان کے انعقاد کا سبب بھی آپ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو شہزایوں سے آپ کا نکاح ہوا اور آپ ذوالنورین کہلائے۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے چھ سال چھوٹے تھے۔ عام فیل کے چھ برس بعد۵۷۶ء میں مکہ میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام عفان، دادا کا ابوالعاص، اور پڑدادا کا امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف تھا۔ پانچویں پشت عبدمناف پر ان کا نسب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرے سے جا ملتا ہے۔ آپ کا شجرۂ مبارکہ یہ ہے، محمد بن عبد اﷲ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔ حضرت عثمان کی والدہ اروی بنت کریز کو قبول اسلام کی سعادت حاصل ہوئی، نانی ام حکم بیضا بنت عبدالمطلب آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی تھیں۔ زمانہ جاہلیت کی جنگوں میں قریش کا قومی علم 'عقاب' ان کے خاندان بنو امیہ کے پاس رہتا تھا۔
حضرت عثمان رضی اﷲعنہ نے زمانۂ جاہلیت ہی میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ بڑے سلیم الفطرت تھے، جاہلیت کی کسی برائی سے دامن آلودہ نہ ہوا۔ جوان ہونے پر قریش کے دوسرے معززین کی طرح تجارت کو اپنا پیشہ بنایا پھر عمر بھر سوتی کپڑے کا کاروبار کرتے رہے۔ شرافت، امانت اور راست باز ی کی وجہ سے ان کا کاروبار خوب چمکا۔ ایک ممتاز اور دولت مند تاجر ہونے کی وجہ سے غنی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ عثمان ۳۴ برس کے تھے کہ اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم اﷲ کی بعثت ہوئی۔ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ترغیب پر اسلام قبول کیا۔ ان کے چچا حکم بن ابوالعاص نے انھیں رسیوں سے باندھ دیا اور کہا کہ جب تک تم یہ نیا دین ترک نہ کرو گے، میں تمہیں ہرگز نہیں چھوڑوں گا مگر جب عثمان نے ثابت قدمی دکھائی تو حکم کو چھوڑنا پڑا۔
جلد ہی نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے اپنی بیٹی رقیہ کی شادی ان سے کر دی۔ حضرت عثمان نے اسلام لانے کے بعد بھی تجارت جاری رکھی۔ اور اسلام کی خدمت کے لیے اپنا مال وقف کر دیا۔ اور ان کی سخاوت مسلمانوں کے کام آنے لگی۔ وہ رفاہی کاموں میں پیش پیش تھے. مدینۂ منورہ میں پینے کے پانی کی قلت ہوئی تو ایک یہودی اپنے کنویں بئر رومہ کا میٹھا پانی منہ مانگے داموں فروخت کرنے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی کہ کون بئررومہ خرید کر اس کا ڈول مسلمانوں کے ڈول میں شامل کرے گا کہ اس بدلے میں اسے جنت میں اس سے بہترمل جائے؟ '(ترمذی:۲۷۰۳) حضرت عثمان یہودی کے پاس گئے، وہ پورا کنواں بیچنے پر آمادہ نہ ہوا تو انھوں نے ۱۲ ہزار درہم کے بدلے میں نصف کنواں خرید لیا۔ایک دن یہودی اسے استعمال کرتا، دوسرے دن وہ حضرت عثمان کے توسط سے مسلمانوں کے تصرف میں ہوتا۔ اپنی باری پر مسلمان دو دن کا پانی ایک بار ہی نکال لیتے۔ اس سے یہودی تنگ آ گیا اور ۸ ہزار درہم لے کر باقی نصف بھی دے دیا۔ اب یہ کلی طور پر عامۃ المسلمین کے لیے وقف تھا۔ بعد میں انھوں نے اور بھی کئی کنویں کھدوا کر مسلمانوں کے لیے وقف کیے، مثلاً بئر سائب، بئر عامر اور بئر اریس۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ غزوات کے مواقع پر بھی بہت زیادہ خرچ کرتے۔ غزوۂ تبوک کا موقع آیا تو سخت قحط سالی تھی۔ اسلامی لشکر بےسر وسامان تھا، اسی لیے اسے جیش عسرت کا نام دیا گیا۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعوت عام دی، جو جیش عسرت کے لیے سامان مہیا کرے گا، اسے بدلے میں جنت ملے گی۔ (بخاری :فضائل اصحاب النبی) اس موقع پر حضرت عثمان نے سامان حرب سے لدے ہوئے ۹۵۰ اونٹ اور۵۰ گھوڑے خدمت نبوی میں پیش کیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم اس فیاضی سے اس قدر خوش ہوئے کہ دیناروں کو دست مبارک پر اچھالتے جاتے اور فرماتے: ما ضر عثمان ما عمل بعد ہذا الیوم، آج کے بعد عثمان کچھ بھی کریں، کوئی عمل انھیں نقصان نہ پہنچائے گا(ترمذی:)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بہت حیا دار تھے۔ حیا کی وجہ سے ان کی جوانی بےداغ رہی اور وہ مفاخرت سے دور رہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان میری امت میں سب سے بڑھ کر اور سچی حیا رکھنے والے ہیں۔ (مسنداحمد:۱۳۹۹۰) ان کی حیاکی وجہ سے لوگ بھی ان سے حیا کرتے۔ اور نبی مکرم ﷺ بھی ان کی بہت حیا کرتے تھے۔ ایک بار نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سیدہ عائشہؓ کی چادر اوڑھے اپنے بستر پر آرام فرما رہے تھے۔ شاید چادر چھوٹی تھی کہ آپ کی ران کا کچھ حصہ ڈھکنے سے رہ گیا۔ کسی کام سے حضرت ابوبکر آئے، آپ اسی حالت میں ان سے ملے۔ حضرت عمر نے آکر اجازت مانگی تو آپ اسی طرح استراحت فرماتے رہے۔ اتفاق سے کچھ دیر بعد حضرت عثمان بھی تشریف لے آئے۔ آپ نے اپنے کپڑے درست فرمائے، بدن اچھی طرح ڈھانکا اور پھر ان سے ملاقات فرمائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے استفسار کرنے پر فرمایا، عثمان بہت حیا والا ہے اور اللہ بھی ان سے بہت حیا کرتا ہے تو میں کیوں نہ کروں؟
حضرت عثمان غنی اپنے رشتہ داروں سے بے حد شفقت کرتے۔ یہ ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کے لیے عام معافی کا اعلان فرمایا، البتہ چند افراد کا نام لے کر فرمایا کہ یہ عام معافی میں شامل نہیں۔ چاہے وہ کعبہ کے پردوں میں چھپے ہوں، انھیں قتل کر دیا جائے۔ ان میں سے ایک حضرت عثمان کا رضاعی بھائی عبداﷲ بن سعد (ابن ابی سرح) تھا جو اپنے دادا ابو سرح کی نسبت سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ یہ مسلمان تھا تو وحی کی کتابت کرتا تھا، پھر مرتد ہو کر مکہ واپس چلا گیا اور مشہور کر دیا کہ وہ وحی میں آمیزش کیا کرتا تھا۔ مسلمان مکہ میں داخل ہوئے تو یہ عثمان کے پاس چلا گیا، انھوں نے اسے پناہ دی۔ جب شہر میں امن قائم ہوگیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور اس کے لیے امان طلب کی۔ آپ نے طویل خاموشی فرمائی، پھر امان دے دی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد آپ نے اپنے پاس موجود صحابہ سے فرمایا: میں نے اتنی لمبی خاموشی اس لیے اختیار کی کہ تم میں سے کوئی آگے بڑھ کر اس کی گردن اڑا دے۔ دل میں ابن ابی سرح کے بارے میں یہ خواہش ہوتے ہوئے آپ نے حضرت عثمان سے حیا کی اور اس دشمن دین کو معاف فرما دیا۔
تبصرہ لکھیے