Author: کاشف نصیر

  • بھارت کا جشن اور پاکستان میں اقتدار کے پجاری – کاشف نصیر

    بھارت کا جشن اور پاکستان میں اقتدار کے پجاری – کاشف نصیر

    کاشف نصیر ہمارا حال یہ ہے کہ نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا جی بھر کر مذاق اڑانے کے بعد ہم پھر سے اندرونی سیاست میں مشغول ہوگئے ہیں۔ ہمارے دو فوجی شہید ہوئے لیکن ان شہدا کا کیس عالمی سطح پر اٹھانے، ایل او سی کی خلاف ورزی پر شور کھڑا کرنے اور دنیا سے ہندوستان کے لیے مذمت نہ سہی، اپنے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کروانے سے زیادہ ہمارا زور اس بات پر ہے کہ کس طرح زور سے ہنسا جائے۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر جھوٹی سچی ویڈیوز اور من گھڑت دعوے شیئر کرنے کے بعد ہم ایک بار پھر اقتدار کے پجاری لیڈروں کے لیے باہم دست و گریباں ہیں۔

    ہندوستان نے جو دعوی دنیا کے سامنے رکھا ہے، اس کے لیے انداز وہی تھا جو سرجیکل اسڑائیک کے لیے اختیار کیا جاتا ہے حالانکہ برسر زمین بات اس کے بالکل برعکس تھی۔ ہم لاکھ سچائی پیش کریں لیکن ہمارے سامنے ایک ملک خود جارحیت کا دعوی کر رہا ہے اور دنیا خاموش ہے۔ کیا ہمارے پالیسی سازوں نے ایسی کسی صورتحال کے لیے کاؤنٹر اسڑیٹیجی بنا رکھی تھی؟

    دوسری طرف ہندوستانی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر جشن کا سماں ہے۔ کوئی مبارکباد دے رہا ہے تو کوئی وصول کر رہا ہے۔ اور یہ جشن کیوں نہ ہو؟ کسی حقیقی حملے کے بغیر وہ سفارتی اور صحافتی محاذ پر ہمیں شکست دے چکے ہیں! درج ذیل میں سے کون سی کامیابی ہے، جو مودی سرکار نے نہیں سمیٹی؟

    1۔ بھارتی عوام اور میڈیا مطمئن ہے کہ بدلہ لے لیا گیا۔
    2۔ کسی بھی محدود یا وسیع جنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
    3۔ عالمی برادری کی خاموشی گویا تائید سمجھی جارہی ہے۔
    4۔ بھارتی دعوی بھلے غلط ہو لیکن روایت بن گئی ہے کہ LOC عبور کرکے کارروائی کا حق ہے۔
    5۔ بھارت کے اندر سے کشمیریوں کے لیے اٹھنے والی انصاف پسند آوازوں پر حب الوطنی کا تالہ ڈال دیا گیا ہے۔
    6۔ نریندر مودی پر نہ صرف تنقید بند ہوگئی ہے بلکہ اس وقت وہ اپنی مقبولیت کی بلند ترین سطح پر کھڑے ہیں۔
    7۔ یوپی انتخابات میں بی جے پی کی پوزیشن مظبوط ہوگئی ہے۔
    8۔ تحریک آزادی کشمیر کو عالمی دہشت گردی کے ساتھ گڈمڈ کردیا گیا ہے۔

  • افغان حکومت اور حزب اسلامی کا معاہدہ – کاشف نصیر

    افغان حکومت اور حزب اسلامی کا معاہدہ – کاشف نصیر

    کاشف نصیر کابل حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان دو سال سے جاری مذاکرات کے بعد آج معاہدے پر باضابطہ دستخط ہوگئے ہیں۔ دستخط کی تقریب امن کونسل کے دفتر میں منعقد ہوئی جہاں دونوں اطراف کے نمائندوں نے حتمی مسودے پر دستخط کیے جبکہ اشرف غنی اور حکمتیار کے دستخط ابھی باقی ہیں۔ امریکہ نے اپنے ابتدائی ردعمل میں اس معاہدے کو خوش آمدید کہا ہے جبکہ کابل حکومت کے اہم ستون عبداللہ عبداللہ نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

    معاہدے کی رو سے کابل حکومت تمام اہم فیصلوں میں حزب اسلامی سے مشاورت کی پابند ہوگی، اسیر کارکنان رہا کردیے جائیں گے، جنگجو فدائین کو سرکاری فوج میں جگہ ملے گی، تمام مقدمات واپس لے لیے جائیں گے اور طویل جنگ میں ہمدردوں کو پہنچنے والے مالی نقصان کی زر تلافی ادا کی جائے گی۔ اس کے بدلے میں گلبدین حکمتیار کابل حکومت کی قانونی حیثیت کو قبول کرکے ملک کے سیاسی عمل میں شامل ہوجائیں گے اور حزب اسلامی کے تمام عکسری ڈھانچوں کو ختم کردیا جائے گا۔

    کہا جارہا ہے کہ معاہدے کی غیراعلانیہ دفعات کے مطابق امریکہ جلد گلبدین حکمتیار کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دے گا۔ یوں حکمتبیار کے منظرعام پر آنے کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ختم ہوجائے گی۔ پاسپورٹ مل جائے گا اور وہ باآسانی غیرملکی سفر کرسکیں گے۔

    افغانستان کی موجودہ صورتحال میں حزب اسلامی ملک کے کسی بھی علاقے میں اپنا اثر و رسوخ نہیں رکھتی ہے۔ اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ سیاسی عمل کا حصہ بن کر حکمتیار ایک بار پھر پختون صوبوں میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ یہ فیصلہ 2001ء میں کرتے تو شاید آج ملک کے صدر ہوتے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ کابل پر ان کی حریف قوتوں کی گرفت انتہائی مظبوط ہے۔ دوسری طرف حکمتیار کے مزاج میں سیاسی تنوع بالکل بھی نہیں ہے اور وہ اتحاد کرنے اور جلد ہی توڑ دینے کے لیے مشہور ہیں۔ اس لیے یہ امید رکھنا کہ وہ بدلے ہوئے کابل میں زیادہ عرصے گزارا کرلیں گے، بہت مشکل ہے۔

    تنازعات کا پرامن تصفیہ تلاش کرنا قابل ستائش ہے لیکن اصولوں پر سمجھوتہ کبھی بھی عزیمت کا راستہ قرار نہیں دیا جاتا۔ اگر حکمتیار کو امریکی فوج کے انخلا کی بنیادی شرط کے بغیر سیاسی عمل کا حصہ بننا تھا تو وہ یہ کام پہلے بھی کر سکتے تھے. نہیں معلوم کہ وہ 2001ء میں غلط تھے یا آج غلط ہیں۔

  • قربانی کے نام پر تماشا – کاشف نصیر

    قربانی کے نام پر تماشا – کاشف نصیر

    کاشف نصیر مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر پاکستان کے تمام امراء درست زکواہ ادا کریں تو وطن عزیز میں کوئی تنگ دست باقی نہیں رہے گا۔ لیکن بدقسمتی سے درست ادائیگی کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ اس بنیادی فریضے کے مقابلے میں آپ قربانی کا معاملہ دیکھیں تو شدید حیرت ہوتی ہے، اتنا جوش و خروش، بھاگ دوڑ اور انتظام کسی اور عبادت میں نظر نہیں آتا۔

    گو فقہائے کرام کے مابین قربانی کے واجب اور سنت ہونے کی بابت اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک عظیم عبادت ہے۔ افسوس کہ اسراف، کھیل تفریح، نمود و نمائش اور مقابلہ بازی کے باعث آج یہ اپنی اصل روح سے خالی صرف ایک رسم رہ گئی ہے۔ مطلوب تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس فقید المثال جذبے کی یاد تازہ کرنا تھی جو بندے کو عشق حقیقی کی چاہ میں ہر دوسری محبت سے بےگانہ کردے لیکن ہم کن دھندوں میں لگے ہوئے ہیں۔ جانور بعد میں اترتا ہے، قیمت پہلے پوچھی جاتی ہے۔ منڈیوں کا رخ کرلیں تو الایمان و الحفیظ، کہیں فلمی ستاروں کا نام چل رہا ہے، کہیں کیٹ واک اور کہیں میوزک اینڈ وارئٹی شو۔

    یہ دس اور بیس لاکھ کی گائے اور پانچ لاکھ کا بکرا۔ کچھ کہو تو کہتے ہیں کہ ہم خدا کے سامنے خوب سے خوب تر پیش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خدا نے ایسی پیشی مانگی بھی ہے یا نہیں۔ صاحب اگر اتنا ہی شوق ہے تو اوسط درجے کے زیادہ جانور قربان کر دیں جیسا کہ خود رسالت ماب صلی اللہ و علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے اوسط درجے کے سو اونٹ قربان کیے تھے۔ یوں بھی آپ کی کافی واہ واہ ہوسکتی ہے۔

    خدمت کے نام پر جانوروں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوتی ہیں، وہ الگ تماشہ ہے۔ دیہاتی اور پہاڑی جانوروں کو کئی کئی دنوں اور ہفتوں پہلے شہری ماحول میں لاکر پریشان کردیا جاتا ہے۔ کہیں ساری ساری رات اوباش لڑکے ان بےچاروں کو گھماتے پھرتے ہیں تو کہیں دو ہزار واٹ کے برقی قمقمے ان کے سروں پر منڈلاتے ہیں۔ پھر کہیں یہ بھاگ نکلتے ہیں تو تفریح کا ایک نیا سامان پیدا ہوجاتا ہے۔ شرع کے برخلاف ایک جانور کے سامنے ہی دوسرے جانور کو گرادیا جاتا ہے اور مذبح گاہ قربانی کی سیج کے بجائے جائے تماشا نظر آتی ہے۔ پچھلے دنوں ناظم آباد میں اونٹ کی قربانی کچھ یوں ہوئی کہ ہڈیوں کو خاص ترتیب میں نکالا گیا اور اگلے روز اسکا ڈھانچہ بناکر نمائش کے لیے پیش کردیا گیا۔ گویا یہ تکریم ہے اس جانور کی جسے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

    دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ علمائے دین کی اکثریت ان امور میں حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہے۔ کوئی ان خرابیوں کی طرف نشان دہی کردے تو اسے سیکولر اور ملحد ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر متحرک عالم دین برادرم محمد اسحاق عالم کی اس موضوع پر تحاریر پڑھ کر کافی خوشی ہوئی تھی۔ کل مولانا طارق جمیل نے بھی ایک ویڈیو پیغام میں یہی بات کی ہے۔ اللہ کرے یہ اظہار حق قربانی اور ایثار کی اصل روح کو ہمارے معاشرے میں بحال کردے۔

  • مولانا فضل الرحمان کی سیاست – کاشف نصیر

    مولانا فضل الرحمان کی سیاست – کاشف نصیر

    کاشف نصیر مولانا فضل الرحمان اعلی سیاسی بصیرت کے حامل معتدل مزاج مذہبی رہنما ہیں۔ اپنے 35 سالہ دور امارت میں انہوں نے اکثر ڈٹ کر اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کی اور اسی سبب جمہوری حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں رہا، پاک افغان دفاع کونسل اور اس کے باطن سے جنم لینے والی ایم ایم اے کی تشکیل ہو، سترھویں آئینی ترمیم ہو یا 2007ء کے صدارتی انتخابات، پرویز مشرف دورحکومت میں مولانا کی فوج سے قربت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

    مولانا فضل الرحمن اور ان کے والد گرامی مفتی محمود کو ایک دوسرے کی ضد قرار دینا ہرگز درست نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا سیاست میں مفتی محمود کا عکس ہیں۔ جس سیاسی اور مذہبی فکر کی راہ مفتی صاحب نے متعین کی، مولانا آج تک اسی کی آبیاری کر رہے ہیں۔ صرف اسٹیبلشمنٹ سے دوری ہی نہیں، قوم پرست اور بائیں بازو کی سیاسی قوتوں سے اتحاد بھی مفتی صاحب کی فکر تھی۔ جس زمانے میں بھٹو صاحب کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کے گرد گھومتی تھی، اس وقت انہوں نے نیپ سے مل کر دو صوبوں میں حکومت قائم کی۔ وہ نیب کی محبت میں اس انتہائی حد تک گئے کہ بلوچستان حکومت کی برطرفی کے خلاف احتجاجا تخت پشاور سے استعفی دے دیا۔ البتہ مولانا کی سیاست میں عزیمت کے بجائے مصلحت اور مفاہمت کا رنگ غالب ہے۔

    مفتی محمود صاحب کی بھٹو مخالف تحریک اور افغان جہاد کے حق میں فتوے کو صرف وہ شخص ہی پرو اسٹیبلشمنٹ سیاست قرار دے سکتا ہے جس نے ستر کی سیاست اور خطے کی تاریخ کا دقیق نظر سے مطالعہ نہ کیا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھٹو صاحب مقبول رہنما تھے لیکن انہوں نے اس مقبولیت کو جس طرح اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا، تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ نیپ پر پابندی، بلوچستان میں آپریشن اور لاہور و کراچی میں ریاستی جبر کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ان حالات میں 77ء کی تحریک فطری ردعمل تھا۔ بھٹو صاحب کے استبداد کا شکار ہر سیاسی کارکن اس ردعمل کا حصہ تھا۔ تحریک سے فائدہ اٹھا کر جب فوج نے اقتدار سنبھالا تو مفتی محمود یا ان کی جماعت اس کا حصہ نہیں تھی حالانکہ ان کے دوست ولی خان نے ضیاء الحق سے مفاہمت کرکے مراعات حاصل کیں۔ دوسری طرف افغان جہاد بھٹو صاحب کا برین چائلڈ تھا جسے فوج نے مستعار لیا۔ اس کی حمایت بھی ہوسکتی ہے اور مخالفت بھی لیکن اس بنیاد پر سیاسی فکر کا تعین نہیں ہوسکتا۔

    جمیعت علمائے اسلام کو ہمیشہ مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمان کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے جبکہ شاید و باید ہی اسے کو مفتی محمود اور مولانا شبیر احمد عثمانی علیہ رحمہ کے تناظر میں دیکھا گیا ہو۔ حالانکہ فکر و سیاست کا اصل اور بنیادی اختلاف ان دونوں بزرگوں کی سیاست کا مطالعہ کرنے سے سامنے آتا ہے۔ مولانا عثمانی رح جمیعت علمائے ہند کے حریف، قائد اعظم اور مسلم لیگ کے حلیف، دو قومی نظریے کے داعی اور تحریک پاکستان کے رہنما تھے جبکہ مفتی محمود نے امارت حاصل کرتے ہی جمیعت کی اس شناخت کو یکسر تبدیل کر دیا۔ انہوں نے عثمانی اور مدنی اختلاف میں فکر مدنی کا پرچم بلند کیا اور اسی واسطے وہ نہ صرف نیپ کے حریف ہوئے بلکہ جمیعت اور پاکستان کے تعلق کو بھی نقصان پہنچایا۔

    لیکن اس تبدیلی فکر کے باوجود جمیعت سے حسن ظن کا تعلق بنانے اور مولانا سے عقیدت رکھنے کی بےشمار وجوہات ہیں۔ اول مدارس کے تنگ نظر اور متعصب ماحول میں مولانا ایسا جہاندیدہ قائد کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ دوسرا دستور کی اسلامی روح کی حفاظت کی تحریکوں میں جمیعت ہمیشہ ہر اول دستے کا حصہ رہی ہے اور تیسرا مذہبی قوت کو اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کی بھٹی پر چڑھنے سے بچانا مولانا کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ لیکن جمیعت اور مولانا کے مسائل بھی بہت ہیں۔ سب سے اہم مسلکی شناخت پر اصرار، مدارس کے روایتی ماحول کے دفاع، اصلاحی رویے کی مخالفت، آمرانہ طرز عمل، انتظامی صلاحیتوں کا فقدان، سینئر لیڈر شپ کی عدم منصوبہ بندی اور قبائلی علاقوں کے پسماندہ فکر مولویوں کو محض چاپلوسیوں کی بنیاد پر اہم عہدوں سے نوازنا۔ اسی تناظر میں مولانا کے بعد جمیعت کی شکل اور سیاست کے بارے میں ابھی سے سوال اٹھایا جا رہا ہے.

  • ڈرامے کا ڈراپ سین – کاشف نصیر

    ڈرامے کا ڈراپ سین – کاشف نصیر

    کاشف نصیر عامر لیاقت حسین نے کافی حد تک بھانڈا پھوڑ دیا ہے. دوسری طرف پریس کانفرنس کو ابھی چند گھنٹے نہیں گزرے کہ بیانات بدلنے لگے ہیں. پہلے کہا گیا کہ پارٹی پاکستان سے چلائیں گے، اب خبر ہے کہ مشاورت میں لندن آفس بھی شامل تھا جبکہ قائد تحریک کو صرف وقتی آرام کا مشورہ دیا گیا ہے.
    ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ کوئی مائنس الطاف حسین بات نہیں ہوئی ہے. بس ڈیمج کنٹرول کی شاندر سیاسی پرفارمنس نے پارٹی کو بچالیا ہے. البتہ اتنی جلدی فاروق بھائی اینڈ کمپنی اپنا ہی راز خود کھول دے گی، یہ امید نہ تھی. ہم تو ایک سال سے کہہ رہے تھے کہ عامر لیاقت مردار کا گوشت نوچنے آئے ہیں، آپ کو سمجھ نہ آئی. ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ عامر خان جھاڑو پھیرنے کے واسطے بھیجے گئے ہیں مگر آپ کو یہ بھی سمجھ نہیں آئے گی.
    گزارش یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما اور کارکنان قوم کے جذبات کو اتنا ہلکا نہ لیں. خود آپ کے مہاجر ووٹرز نے آپ کو تنہا چھوڑ دیا ہے جبکہ فوج اور سیاسی اکابرین آپ کو مزا چکھانے کے لیے بدستور یکسو ہیں. صرف فوجی قیادت ہی نہیں, وزیر اعظم کا بیان بھی بہت واضع اور بھرپور ہے. اپوزیشن پہلے ہی آپ سے نالاں تھی.
    ملک میں کوئی سیاسی جماعت اور مکتب فکر ایسا نہیں جو آپ سے ہمدردی رکھتا ہو. کیا مذہبی لوگ اور کیا سرخے، لبرل اور قوم پرست، سب آپ سے زخم کھائے ہوئے ہیں. میڈیا کا کوئی گروپ آپ کو کاندھا دینے اور کوئی دانشور آپ کے حق میں لکھنے پر رضامند نہیں ہے. اس کیفیت کو آپ نے سمجھا اور شاندار سیاسی کوشش سے قابو بھی کرلیا. لیکن پھر آپ صبر اور تقیہ برقرار نہ رکھ سکے، ضبط ٹوٹ گیا اور دل کا چور باہر آنے لگا.
    صاحبو! یہ کوئی معمولی بات نہیں ہوئی ہے. الطاف حسین ایک عظیم جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، جس کی کوئی معافی نہیں بنتی. دنیا میں ایسی کوئی بیماری نہیں جس میں کوئی اپنے وطن کو مغلظات سے نوازے اور دشمن کو مدد کے لیے پکارے. سیدھی سی بات ہے کہ یہ قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا تھا. ایم کیو ایم کے رہنما اگر ملک اور مہاجروں سے ذرا سا بھی مخلص ہیں تو انہیں واقعی میں الطاف حسین سے جان چھڑا لینی چاہیے.

  • فاروق ستار نے ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو کیسے بچایا؟ کاشف نصیر

    فاروق ستار نے ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو کیسے بچایا؟ کاشف نصیر

    کاشف نصیر فاروق ستار نے انتہائی کامیابی سے متحدہ قومی موومینٹ کو پابندی کے عتاب سے بچا لیا ہے. ایک طرف انہوں نے وقتی طور پر الطاف حسین سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے تو دوسری طرف انہوں نے الطاف حسین کی واپسی کا دروازہ بهی کهلا رکها ہے. اس نئے کهیل کا جواب اس سوال میں پوشیدہ ہے کہ آیا کارکنان فاروق ستار کے ساته کهڑے ہوں گے یا قائد کے جانثار بروئے کار آئیں گے.

    آپ دیکهیں گے کہ تمام کارکنان ساته کهڑے رہیں گے, رہنما بهی سر ہلائیں گے اور کچه عرصے لندن آفس بهی خاموش رہے گا. اگر یہ سیاسی چال نہ ہوتی تو لندن آفس بهی فورا” حرکت میں آتا, عزیزآباد سے خواتین بهی باہر نکلتیں اور دوسرے رہنما بهی اس عمل کو قبضہ سے تعبیر کرتے. بند دفاتر کو کهلوانے, ملک گیر پابندی سے بچنے اور کل ہونے والے مئیرز الیکشن کو بچانے کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہ تها. آپ اسے سیاست کہیں یا منافقت, فاروق ستار کے ہاتهوں کہانی کا ڈراپ سین ہوچکا ہے.

    فاروق ستار کی سیاسی حکمت علمی سے جہاں ایم کیو ایم پابندی سے بچ گئی ہے وہیں مصطفی کمال کی سیاست کو بهی شدید دهچکا پہنچا ہے. کل رات تک جو لوگ جوق در جوق پاکستان ہاوس کی طرف جارہے تهے, آج وہ واپس پلٹنا شروع پوگئے ہیں. کوئی کہ سکتا ہے کہ مصطفی کمال کے ساته ہوگیا ہے, ہم کہیں گے کہ اصل ہاته کراچی کی عوام کے ساته ہوا ہے جسے دوبارہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم پر گزارا کرنا پڑے گا. بظاہر لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بهی ماموں بنادیا گیا ہے لیکن ذرائع کہتے ہیں مطالبہ بس اتنا ہی تها.

    ایم کیو ایم لیکن ابهی بهی اپنی سابقہ پوزیشن پر واپس نہیں آئی ہے, آپریشن جاری رہے گا, ہاته پاوں ایسے ہی بندهے رہیں گے اور تشدد میں ملوث کارکنان کی گرفتاری کا سلسلہ بهی بدستور چلتا رہے گا. دوسری طرف الطاف حسین کی عدم موجوگی میں انکے نام سے پارٹی چلتی رہے گی. حالات کا رخ بدلتے ہی الطاف حسین واپس منظر عام پر اجائیں گے. انڈر ولڈ کی سیاست ایسے ہی چلتی ہے.

  • آزادی صحافت کا سراب – کاشف نصیر

    آزادی صحافت کا سراب – کاشف نصیر

    کاشف نصیر آزادی صحافت گو ایک خوبصورت عنوان ہے لیکن درحقیقت اسے مختلف صحافتی اداروں کے مالکان اور ذہن ساز قوتیں بوقت ضرورت اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کچھ مولوی مذہب کا نام لے کر، کچھ وکلاء قانون کی بالادستی کا علم بلند کرکے، کچھ مقامی رہنما عصبیت کی آگ بڑھا کر، کچھ سیاسی قائدین جمہوریت کا راگ الاپ کر اور کچھ فوجی سالار حب الوطنی کا شوشہ چھوڑ کر دراصل اپنے ذاتی، سیاسی، گروہی یا کاروباری مقاصد کےلیے قوم اور قومی جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔

    اصل صورتحال یہ ہے کہ بول کو بولنے سے پہلے خاموش کروانا ہو تو یہ تمام مالکان یکجا ہوکر ایوان وزیراعظم اور دوسرے مظبوط اداروں میں ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ایک گروپ پلاٹ بناتا ہے، دوسرا اس پر عمارت کھڑی کرتا ہے اور تیسرا اس کو خوب سجاتا سنوراتا ہے۔ لیکن جب بول کا سفینہ سمندر برد ہوتا ہے تو ہم ان حلیفوں کو ایک بار پھر حریف بن کر باہم دست و گریبان ہوتے دیکھتے ہیں۔ جیو کو بند کروانا ہو تو اے آر وائی ایک بے ضرر قوالی کو توہین مذہب کانام دیتا ہے اور جب اے آر وائی کی باری آتی ہے تو جیو اسی جذبہ بے مثل سے سرشار نظر آتا ہے۔ غرض کون سا میڈیا گروپ ہے جو اس کشمکش سے لاتعلق ہو۔ صرف مالکان ہی نہیں بلکہ ان کی جی حضوری میں شب و روز ایک کرتا سرکردہ صحافیوں کا ایک بڑا طبقہ بھی اس سوداگری میں برابر کا حصہ دار ہے۔

    ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کے لیے بےقرار ان میڈیا گروپس کی داخلی حالت چند استثنائیات کے سوا تقریبا مشترک ہی ہے۔ جونیئر رپورٹرز، جونئیر پروڈیوسرز اور سب ایڈیٹرز کی تنخواہیں دوسرے تجارتی اداروں کے مقابلے میں کلرکوں کے مساوی ہیں۔ پھر ان میں سالہا سال سے کوئی اضافہ نہیں کیا جاتا۔ ٹائپسٹ، ڈیزائنرز، کیمرہ مین ، ڈرائیورز اور ٹیکنیشن ہوں یا ایڈمن، فنانس اور سپلائی چین کے غیرصحافتی ملازمین ، کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مستقل ملازمین کو مسلسل کانٹریکٹ پر لایا جا رہا ہے، نوکریاں غیر محفوظ ہیں۔ کئی گروپ مہینوں تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کرتے۔ ویج بورڈ ایوارڈ کا معاملہ آئے تو بڑے سے بڑا صحافتی ادارہ ہو یا ملین میں تنخواہ وصول کرنے والے سرکردہ اینکر، ہر ایک خاموش نظر آتا ہے۔ بلوچستان، کراچی اور لاپتہ افراد کے حقوق کی جنگ لڑنے، سیاسی جماعتوں کو لتاڑنے، عالمی قوتوں پر گرجنے اور جی ایچ کیو کو چیلنج کرنے والے جید ترین صحافی بھی مالکان کے روبرو بےبسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔

    اس شدید گھٹن کے ماحول میں کام کی جگہ لابنگ، میرٹ کی جگہ سفارش، دیانت کی جگہ فریب اور تخلیقی عمل کی جگہ تخریبی سرگرمیاں مقبول ہیں۔ صحافت کسی تعلیمی قابلیت سے مشروط نہ ہونے کے سبب پہلے ہی ایک عجیب و غریب پیشہ بن چکا ہے، جو رہی سہی کسر تھی اسے رینٹنگ کی ڈور نے پورا کردیا ہے۔ مالکان کی طرف ٹی آر پی کا دبائو بذات خود آزادی صحافت اور معیار صحافت کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک نجی چینل کے پروڈیوسر نے دو مزدوروں کو اجرت کے عوض چند آوارہ کتے ذبح کرکے فروخت کرنے کا ڈرامہ فلمایا اور پھر اس ڈرامے کو بریکنگ نیوز بناکر ریٹنگ کی دولت سے مستفید ہوئے۔ میں بھوجا ائیرلائن کے حادثے کے بعد ایک افسوسناک مطالبے کا عینی گواہ ہوں۔ ایک بڑے گروپ کا پروڈیوسر اپنے رپورٹر کو فوری طور پر ائیرپورٹ پہنچنے او ر ایک ایسا پیکج تیار کرنے کا حکم دے رہا تھا جس میں کوئی جواں سال خاتون دھاڑیں مار کر آہ و فغاں کر رہی ہوں۔

    مالکان کےآجرانہ مفاد اور جبر ہی نہیں، ذہن ساز قوتوں کی خاموش یلغار بھی اپنے نکتہ عروج پر ہے۔ ہر ادارے کی طرف نظر ڈورائیں، ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری نظر آئے گی۔ نئے ملازمین کے انٹرویوز میں اسکریننگ اور موجودہ ملازمین کی منظم ترقی کے ذریعے اس نظام کو دوام بخشا جاتا ہے۔ ادارت کا حال یہ ہے کہ خبر سے لے کر رپورٹ اور کالم سے لے کر ٹاک شوز میں سینسر کی داخلی قینچی بےدردی سے بروئے کار آتی ہے۔ پیشہ ورانہ دیانت سے بنائےگئے بےشمار پیکج بغیر کسی وجہ کے روک لیے جاتے ہیں اور کئی پراجیکٹ پر کام کرنے سے منع کر دیا جاتا ہے۔ اس سینسرشپ میں ادارتی ذمہ داری اور ریاستی قوانین کا نہیں، ذہن ساز قوتوں کی پالیسی کا طوطی بولتا ہے۔ بہترین اخبار نویس اور پروڈیوسر وہ ہے جو اس تقاضے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بڑی خبر کو عام اور عام خبر کو عامتہ الناس کے حواس پر طاری کرنا جانتا ہو، جسے ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنا کر لانچ کرنا آتا ہو اور جو منفی پروپیگنڈے کے تما م اسرار و رموز سے واقف ہو۔

    جدید دنیا میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے۔ اس دعوے کی بنیاد پر جس طرح جمہوریت کو سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت سے مشروط کیا جاتا ہے، اسی طرح آزادی صحافت کا عنوان بھی صحافتی اداروں میں پیشہ ورانہ داخلی آزادی سے منسلک ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں بالعموم اور تیسری دنیا کے ممالک میں بالخصوص صحافت تیزی سے ریاستی اداروں کی گرفت سے نکل کر مالکان اور ذہن ساز قوتوں کے چنگل میں پھنستی جا رہی ہے۔ صحافت کا یہ ارتقائی سفر دراصل ایک ایسے سراب پر آ کر روک گیا ہے جہاں صحافت ایک ان دیکھی قوت کی تابعدار ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ کچھ لوگ اس سراب سے نکل کر مالکان اور ذہن ساز قوتوں کے ہاتھ روکیں تاکہ صحافت حقیقی معنوں میں آزاد ہو سکے۔

  • سشما سوراج کا قیامت تک انتظار – کاشف نصیر

    سشما سوراج کا قیامت تک انتظار – کاشف نصیر

    تاریخ گواہ ہے کہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں لاکھوں نہ سہی، ہزاروں شہریوں کے خلاف لڑاکا طیارے اور توپخانے بروئے کار لائے گئے۔ ہم کس کس بات کو جھٹلائیں اور کہاں کہاں اپنے ریاستی استبداد کے لیے تاویل اور جواز کی راہ لیں؟ بہت سے حقائق ایسے ہیں جن پر ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ درحقیقت اس باب میں ہمارا قومی بیانیہ بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ ہندوستان کی نیشنل اوپینین۔ ایک کی غلطی دوسرے کی غلطی کا جواز نہیں ہوسکتی۔

    نوےکی دہائی میں آپریشن کے نام پر شہر قائد کو پامال کیا گیا اور یہ سلسلہ رینجرز کے ذریعے تاحال جاری ہے۔ دوسری طرف زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب لال مسجد کا سانحہ وقوع پزیر ہوا۔ خود سابق چیف آف اسٹاف جنرل شاہد عزیز اور سابق ایڈیشنل ڈی جی آئی ایس آئی جنرل جمشید گلزار کیانی کے مطابق وہاں فاسفورس کیمیکل استعمال کیے گئے تھے۔ کیانی دور میں سوات آپریشن ہوا۔ دہشت گردی کے جواب میں قیدیوں اور مبینہ طالبان کے عزیزوں، دوستوں، پڑوسیوں یہاں تک کہ ضعیف والدین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، اس کی کچھ لیک ویڈیوز آج بھی یوٹیوب پر موجود ہیں۔ کشمیری اپنے لاپتہ افراد کے لیے قابض “ہندو فوجیوں” کو کوستے ہیں، ہماری آمنہ مسعود جنجوعہ اپنے خاوند کے لیے کس کو روئیں؟ ہم افضل گرو کی لاش کے لیے کیسے آواز بلند کریں، ہمارے سر تو خود اکبر بگٹی کے مرقد پر شرمندگی سے جھکے ہوئے ہیں۔

    یقینا ہندوستان کی مذہبی اقلیتیں مظلوم ہیں۔ ایودھیا کی بابری مسجد ہو یا امرتسر کا گولڈن ٹیمپل، سانحہ گجرات ہو یا ممبئی، بہار اور کلکتہ کے مسلم کش فسادات، ریاستی اداروں میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو یا مسلمانوں کی نسبت عمومی نفرت، یہ تمام حقیقتیں سیکولر ہندوستان کے فریب کو آشکار کرتی ہیں۔ لیکن کیا ہم نے اسلامی جمہوریہ کو مذہبی اقلیتوں کے لیے ایک مثالی مملکت کا نمونہ بنایا ہے؟ کیا ہماری مذہبی اقلیتیں ہم سے خوش ہیں؟ ملک کے واحد یہودی قبرستان پر ہم نے پلازہ تعمیر کردیا ہے۔ ہندو برادری سندھ اور پنجاب میں اپنے کئی تاریخی مندروں کی تباہی اور زبوں حالی پر آئے دن شکایتیں کرتی ہے۔ جن دنوں بابری مسجد کا سانحہ پیش آیا، ان دنوں پاکستان میں بےشمار قدیمی اور تاریخی مندروں پر حملے ہوئے۔ مسیحی دوست بھی امتیازی رویے پر پریشان رہتے ہیں۔

    بلوچستان ایک متنازع خطہ نہیں ہے۔کسی بھی اعتبار اور زاویہ نگاہ سے اس کا کشمیر کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح کشمیر کی تحریک آزادی اور بلوچ سرداروں کی مسلح لڑائی میں بھی کوئی مماثلت نہیں ہے۔ ایک طرف عام کشمیری ہیں جو اپنے پیدائشی اور انسانی حق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور دوسری طرف کچھ سردار ہیں جو حکومت پاکستان اور فوج کے ساتھ اپنے اختلافات کی بنا پر ریاست کے خلاف میدان میں اتر آئے ہیں۔ لیکن کیا بلوچستان کو کشمیر سے جوڑنے کاجواز ہم نے فراہم نہیں کیا؟ 70 کی دہائی میں بھٹو صاحب نے بلوچ سرداروں کو دھوکہ دیا لیکن خوش قسمتی سے بعد کے حکمرانوں نے حالات سنبھال لیے۔ مشرف صاحب نے واپس آکر وہی پرانی غلطیاں کیں۔ بگٹی صاحب کا قتل ہمیشہ باغی سرداروں کے لیے جدوجہد کا ایک استعارہ بنا رہے گا۔ برہمداغ بگٹی اور حیربیار بھی مشرف کے تراشے ہوئے بت ہیں، ہندوستان اور افغانستان کے نہیں۔

    میاں صاحب کی حکومت نے مشرف دور کی بے شمار غلطیوں کا ازالہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مسئلہ مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔ بلوچستان کو اس وقت بقیہ پاکستان سے زیادہ حکومت کی توجہ درکار ہے۔ اس محروم صوبے کی پسماندگی اور غربت کا خاتمہ لاہور اور راولپنڈی کی میڑو سے زیادہ ضروری ہے۔ فوج کی واپسی، اے، بی اور سی ایریاز کا خاتمہ اور پولیس، تعلیم، کاروبار اور انفراسٹریکچر میں انقلابی بہتری بلوچوں کے غم کا مداوا ہے۔ کراچی میں الطاف حسین کو را کا ایجنٹ بنا کر بھی اسی غلطی کا اعادہ ہو رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ فوج اور اس کے ماتحت نیم فوجی اداروں پر مزید انحصار کرنے کے بجائے، پولیس پر سرمایہ خرچ کیا جائے۔ فوج پر ضرور پیسہ لگائیں لیکن قبائل، بلوچستان اور کراچی کے لیے نہیں سری نگر کے لیے تاکہ سشما سوراج کو قیامت کا انتظار نہ کرنا پڑے۔

  • اردو بلاگنگ کو درپیش چیلنجز – کاشف نصیر

    اردو بلاگنگ کو درپیش چیلنجز – کاشف نصیر

    کاشف نصیربرادرم رمضان رفیق سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرنے والے ہمارے چند دوستوں میں سے ایک ہیں- دو روز قبل ان کی ڈینمارک سے کال آئی تو ہمارے یہاں رائج اردو بلاگنگ اور انکی کتاب “بے لاگ” کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا. بلاگستان میں آزاد یا انفرادی بلاگنگ کے زوال، بڑے میڈیا گروپس کے بلاگز سیشن، نظریاتی ڈھول باجے کے ساتھ سوشل میڈیا کی ارباب دانش کو اپنے سحر میں اڑا لے جانے والی ویب سائٹس اور ٹی وی چینلز کا ضمنی منجن بن جانے والی ہماری عمومی کیفیت پر وہ شدید مضطرب تھے. آج صبح معروف کالم نگار برادرم آصف محمود کی بھی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں انھوں نے انھی چیلنجز میں سے ایک “نظریاتی کشکمش” کو موضوع بنایا تھا.

    میں نظریاتی مباحث کے ہرگز خلاف نہیں. سماج کی نشوونما میں نظریات بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن بطور قوم مسلسل نظریاتی کشکمش میں الجھے رہنا ہرگز فائدے کا سودا نہیں ہے. ہمارے یہاں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں سوشلزم اور اسلامزم کے افکار پر طلبہ انجمن سے لے کر لیبر یونین تک اور طبقہ علماء سے لے کر ارباب ادب تک ایک رسہ کشی کا ماحول تھا، اب لبرلزم اور اسلامزم کی جنگ اپنے زوروں پر ہے- برسرزمین اس ساری مشق کا حاصل یہ ہے کہ نہ کبھی سوشلسٹ اقتدار میں آسکے نہ اسلام پسند اور مستقبل میں لبرلز کے بھی کوئی آثار نہیں ہیں- ہماری معروضات یہ ہیں کہ لوگ نظریات پر ووٹ نہیں دیتے لیکن ناجانے کیوں اہل دانش پھر بھی نظریات کے ترانے کو صبح و شام بجانا خود پر واجب سمجھتے ہیں. ہمارے سامنے ترکی اور ملائیشیا ایسے سماج کی مثالیں ہیں، وہاں عملیت پیش پیش ہے اور نظریات پس منظر میں مستعد.

    پاکستان میں بلاگنگ کو نظریاتی جنگ کے علاوہ جو چیلنجز درپیش ہیں، ان میں سب سے بڑھ کر انفرادی و موضوعاتی بلاگنگ کا زوال اور مین اسٹریم میڈیا کے منفی اثرات ہیں. کوئی 12 سال ہوتے ہیں کہ اردو بلاگنگ کا سلسلہ شروع ہوا. اس زمانے میں ہم کئی ایسے بلاگ دیکھتے تھے جو اپنے اردگرد کی حقیقی زندگی کو موضوع بحث بناتے یا تخلیقی دنیا میں تخیل کی پرواز بھرتے. فیس بک کے پہلے کی یہ دنیا عجیب تھی، لکھنا ہر ایک کا یارا نہ تھا. زیادہ تر لکھنے والے آئی ٹی ماہرین ہوا کرتے تھے، زبان و بیان کے اعتبار سے وہ کوئی عمدہ ترین تخلیق کا باعث ہرگز نہ تھے لیکن ابلاغ اور تحریر کے میدان میں انھوں نے گلی محلوں اور گائوں دیہات کے شب و روز کو شامل کیا. ہماری بدقسمتی ہے کہ رفتہ رفتہ ایسے بلاگ اجڑتے گئے اور ان کی جگہ تنازعات کی تجارت شروع ہوگئی. جتنی تیزی سے انٹرنیٹ ہماری اربن مڈل کلاس میں پھیلتا گیا، اتنی ہی تیزی سے ہمارے شہری زندگی کا مزاج یہاں بھی کثرت سے نظر آنے لگا. اب بلاگنگ گلی محلے، کالج یونیورسٹی اور نوکری کاروبار کے مسائل سے فرار اختیار کرکے نیوز ہیڈ لائن کے چٹخاروں پر مغز ماری، تنازعات کی دکان داری اور سیاسی رسہ کشی کا نام ہے.

    اربن مڈل کلاس اپنے مسائل سے کس قدر لاتعلق ہے، اس کا اندازہ یوں لگالیں کہ پچھلے دنوں میں نے ٹریفک مسائل، مرکزی داخلہ پالیسی، درختوں کی کٹائی اور کے الیکڑک ایسے موضوعات پر کافی محنت کرکے بلاگ تحریر کیے لیکن ان پر ٹریفک نہ ہونے ہے برابر تھی. دوسری طرف میری نظریاتی موضوعات پر سرسری تحاریر کو بھی اس سے کئی گنا زیادہ ٹریفک ملتی ہے. مغربی ممالک میں بلاگنگ پروفیشنلزم کے دور میں داخل ہوچکا ہے، طب سے لے کر طبیعات تک اور مذہب سے لے کر معیشت تک ہر موضوع پر مقامی زبانوں میں کام ہورہا ہے. اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی اہداف طے کریں. کیا ہمیں لکھتے ہوئے ٹریفک اور لائیکس کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے یا سماج کی حقیقی ضرورتوں کو؟ کیا ہمیں نیوز ہیڈلائنز اور وائرل ٹیگز پر کام کرنا ہے یا اپنے روزمرہ کے مسائل پر؟ اسپشلائزیشن کے دور میں ہمیں موضوعاتی بلاگنگ کو جلا بخشنی ہے یا ہر ایک کو جنرل فزیشن بنادیا جائے؟ انفرادی بلاگ کے ذریعے آزادی اظہار کے دیے روشن کریں یا میڈیا گروپس کا ایندھن بن کر ایڈیٹر کی کینچی سے گزریں؟ اور یا بیانیے کے عنوان سے عملیت کا گلا گھونٹ کر تنازعات کی روٹی کھائیں؟
    اسمارٹ فون کی آمد کے بعد لکھنے اور پڑھنے کا رجحان ماضی کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکا ہے. ایس ایم ایس، واٹس ایپ اور فیس بک کی بدولت قارئین اور لکھاری دونوں کی کمی نہیں رہی. یہی وجہ ہے کہ اخبارات کی محدود دنیا میں لکھنے والے ٹریڈ مارک دانشور بھی اب انٹرنیٹ کے لامحدود اسکوپ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہیں -گویا بلاگنگ کے لیے بھی یہ بہترین وقت ہے. ان حالات میں میں رمضان رفیق ایسے عملیت پسند لوگوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے. کرک نامہ ہمارے پاس پروفیشنل بلاگنگ کی ایک زندہ مثال ہے. یہی وقت ہے کہ ان مثالوں کی پیروی کرتے ہوئے دلیل، عقلیت، عملیت پسندی اور پروفیشنلزم کا پرچم بلند کیا جائے۔

  • فیس بک اب آزاد نہیں رہا – کاشف نصیر

    فیس بک اب آزاد نہیں رہا – کاشف نصیر

    مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالیہ کشیدہ حالات پر اہل کشمیر اور پاکستانیوں کا ردعمل ہمیشہ کی طرح فطری تھا اور اس فطری جذبے کی عکاسی سوشل میڈیا پر بھی بھرپور انداز میں نظر آئی۔ لیکن کچھ دنوں سے فیس بک پر ان جذبات کو سینسر کرنے کوشش ہو رہی ہے۔ ابتدا میں عام فیس بک صارفین شکایت کر رہے تھے، پھر مختلف پیج ایڈمنز نے بھی یہی گلہ کیا اور اب سینئر صحافی اور مشہور شخصیات بھی اس پابندی کا شکار ہو رہے ہیں۔ نہ صرف حریت پسند مقتول کمانڈر برہان وانی کی تصاویر بلکہ کشمیر میڈیا سروس کی کئی خبروں اور حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی کی تازہ پریس کانفرنس کو بھی فیس بک سے ہٹادیا گیا ہے۔

    برطانوی اخبار گارجین نے اس معاملے پر فیس بک انتظامیہ کا ایک بیان شائع کیا ہے۔ بیان میں ادارے کا کہنا ہے کہ ان کی ویب سائٹ پر دہشت گردوں کی حمایت اور تحسین پر کسی مبنی مواد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہمارے ذرائع کے مطابق اس حیران کن اور سمجھ سے بالاتر بیان کے پس پردہ دراصل فیس بک ہیڈ کوارٹر میں کام کرنے والے ہندوستانی ملازمین کی سرتوڑ کوششیں ہیں۔ یہ ملازمین جہاں ایک طرف لابنگ کرکے اپنے ادارے سے برہان وانی کو دہشت گرد قرار دلوانے میں کامیاب ہوگئے ہیں وہیں متعلقہ پوسٹوں کو فیس بک سے ہٹانے کے معاملے میں بھی وہی مسلسل پھرتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

    کسی غیرملکی ادارے میں اپنی پیشہ ورانہ حیثیت کو اپنے “ریاستی بیانیے” کی ترویج کے لیے استعمال کرنا ہرگز کوئی قابل فخر بات نہیں ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جب آپ کا ریاستی بیانیہ انتہائی متنازع اور حق خودارادیت کے بنیادی انسانی حق کے سراسر منافی ہو۔ ہندوستانی آئی ٹی ایکسپرٹس فیس بک جیسے ادارے بیٹھ کر جس طرح آزادی اظہار رائے کے مسلمہ تصور کو پامال کررہے ہیں اور یہ ادارہ خود جس طرح اپنے ان ملازمین کی ہاں میں ہاں ملارہا ہے، وہ سوشل میڈیا پر آزادی فکر کے ضمن میں یقینا ایک انتہائی افسوس ناک امر ہے۔

    دوسری طرف یوں لگتا ہے کہ حکومت پاکستان کشمیر سے متعلق “ریاستی بیانیے” کا دفاع کرنے اور اس معاملے میں مشہور سوشل میڈیا ویب سائٹس کو جانبدارانہ کردار سے باز رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ چلیں سول حکمران نہ سہی، سوشل میڈیا پر انہیں ڈس کریڈٹ کرنے کی مہم میں شب و روز مصروف عمل “وقار سوشل میڈیا سروس” اور پاکستانی سوشل میڈیا کے خودساختہ ٹھیکےدار “بولو بھی” ایسے ادارے ہی کچھ بول دیتے۔