مولانا فضل الرحمان اعلی سیاسی بصیرت کے حامل معتدل مزاج مذہبی رہنما ہیں۔ اپنے 35 سالہ دور امارت میں انہوں نے اکثر ڈٹ کر اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کی اور اسی سبب جمہوری حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں رہا، پاک افغان دفاع کونسل اور اس کے باطن سے جنم لینے والی ایم ایم اے کی تشکیل ہو، سترھویں آئینی ترمیم ہو یا 2007ء کے صدارتی انتخابات، پرویز مشرف دورحکومت میں مولانا کی فوج سے قربت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمن اور ان کے والد گرامی مفتی محمود کو ایک دوسرے کی ضد قرار دینا ہرگز درست نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا سیاست میں مفتی محمود کا عکس ہیں۔ جس سیاسی اور مذہبی فکر کی راہ مفتی صاحب نے متعین کی، مولانا آج تک اسی کی آبیاری کر رہے ہیں۔ صرف اسٹیبلشمنٹ سے دوری ہی نہیں، قوم پرست اور بائیں بازو کی سیاسی قوتوں سے اتحاد بھی مفتی صاحب کی فکر تھی۔ جس زمانے میں بھٹو صاحب کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کے گرد گھومتی تھی، اس وقت انہوں نے نیپ سے مل کر دو صوبوں میں حکومت قائم کی۔ وہ نیب کی محبت میں اس انتہائی حد تک گئے کہ بلوچستان حکومت کی برطرفی کے خلاف احتجاجا تخت پشاور سے استعفی دے دیا۔ البتہ مولانا کی سیاست میں عزیمت کے بجائے مصلحت اور مفاہمت کا رنگ غالب ہے۔
مفتی محمود صاحب کی بھٹو مخالف تحریک اور افغان جہاد کے حق میں فتوے کو صرف وہ شخص ہی پرو اسٹیبلشمنٹ سیاست قرار دے سکتا ہے جس نے ستر کی سیاست اور خطے کی تاریخ کا دقیق نظر سے مطالعہ نہ کیا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھٹو صاحب مقبول رہنما تھے لیکن انہوں نے اس مقبولیت کو جس طرح اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا، تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ نیپ پر پابندی، بلوچستان میں آپریشن اور لاہور و کراچی میں ریاستی جبر کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ان حالات میں 77ء کی تحریک فطری ردعمل تھا۔ بھٹو صاحب کے استبداد کا شکار ہر سیاسی کارکن اس ردعمل کا حصہ تھا۔ تحریک سے فائدہ اٹھا کر جب فوج نے اقتدار سنبھالا تو مفتی محمود یا ان کی جماعت اس کا حصہ نہیں تھی حالانکہ ان کے دوست ولی خان نے ضیاء الحق سے مفاہمت کرکے مراعات حاصل کیں۔ دوسری طرف افغان جہاد بھٹو صاحب کا برین چائلڈ تھا جسے فوج نے مستعار لیا۔ اس کی حمایت بھی ہوسکتی ہے اور مخالفت بھی لیکن اس بنیاد پر سیاسی فکر کا تعین نہیں ہوسکتا۔
جمیعت علمائے اسلام کو ہمیشہ مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمان کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے جبکہ شاید و باید ہی اسے کو مفتی محمود اور مولانا شبیر احمد عثمانی علیہ رحمہ کے تناظر میں دیکھا گیا ہو۔ حالانکہ فکر و سیاست کا اصل اور بنیادی اختلاف ان دونوں بزرگوں کی سیاست کا مطالعہ کرنے سے سامنے آتا ہے۔ مولانا عثمانی رح جمیعت علمائے ہند کے حریف، قائد اعظم اور مسلم لیگ کے حلیف، دو قومی نظریے کے داعی اور تحریک پاکستان کے رہنما تھے جبکہ مفتی محمود نے امارت حاصل کرتے ہی جمیعت کی اس شناخت کو یکسر تبدیل کر دیا۔ انہوں نے عثمانی اور مدنی اختلاف میں فکر مدنی کا پرچم بلند کیا اور اسی واسطے وہ نہ صرف نیپ کے حریف ہوئے بلکہ جمیعت اور پاکستان کے تعلق کو بھی نقصان پہنچایا۔
لیکن اس تبدیلی فکر کے باوجود جمیعت سے حسن ظن کا تعلق بنانے اور مولانا سے عقیدت رکھنے کی بےشمار وجوہات ہیں۔ اول مدارس کے تنگ نظر اور متعصب ماحول میں مولانا ایسا جہاندیدہ قائد کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ دوسرا دستور کی اسلامی روح کی حفاظت کی تحریکوں میں جمیعت ہمیشہ ہر اول دستے کا حصہ رہی ہے اور تیسرا مذہبی قوت کو اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کی بھٹی پر چڑھنے سے بچانا مولانا کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ لیکن جمیعت اور مولانا کے مسائل بھی بہت ہیں۔ سب سے اہم مسلکی شناخت پر اصرار، مدارس کے روایتی ماحول کے دفاع، اصلاحی رویے کی مخالفت، آمرانہ طرز عمل، انتظامی صلاحیتوں کا فقدان، سینئر لیڈر شپ کی عدم منصوبہ بندی اور قبائلی علاقوں کے پسماندہ فکر مولویوں کو محض چاپلوسیوں کی بنیاد پر اہم عہدوں سے نوازنا۔ اسی تناظر میں مولانا کے بعد جمیعت کی شکل اور سیاست کے بارے میں ابھی سے سوال اٹھایا جا رہا ہے.
تبصرہ لکھیے