دوہزار تیرہ میں نیوزویک نے پاکستان پہ ایک ٹائٹل سٹوری کی کہ دنیا کا سب سے خطرناک ملک عراق نہیں، پاکستان ہے۔ یہ دوہزار تیرہ تھا۔
:
آج دوہزار سولہ میں دنیا کا ہر میگزین، چاہے وہ فنانشل ٹائم ہو، اکانومسٹ ہو، وال اسٹریٹ جرنل ہو، یا بلوم برگ ہو ۔۔۔ وہ پاکستان کو ایشیا کی ایک ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہا ہے۔
:
ایک ایسا ملک جو دوہزار تیرہ میں خطرناک ترین ملک تھا اور دوہزار سولہ میں مستقبل کی ابھرتی معیشت ہے۔۔۔ کیا یہ تبدیلی نہیں ہے؟ تبدیلی اور کیا ہوتی ہے؟
:
ملک میں بہتری آ رہی ہے۔
دوہزار تیرہ میں کہا جا رہا تھا کہ پاکستان دوہزار چودہ میں دیوالیہ ہونے والا ہے۔ لیکن آج دنیا کا ہر مستند معاشی ادارہ پاکستان کی معاشی کایا پلٹ کے حق میں رطب اللسان ہے۔
:
الحمدللہ ۔۔۔پاکستان آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
:
اس سال پاکستان کی نمو شرح پچھلے آٹھ سالوں میں سب سے زیادہ 4.8 فیصد ہے۔ اگلے سال ہم ان شاءاللہ 5 فیصد سے آگے جانے کے لئے پرامید ہیں اور اس سے اگلے سال شرح نمو 6 فیصد تک لے کے جائیں گے۔ ان شاءاللہ۔
:
پاکستان کے پاس اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ فارن ریزرو موجود ہیں۔
دوہزار تیرہ میں پاکستان بدامنی اور دہشت گردی کی گھٹاٹوپ میں چھپا ہوا تھا۔ بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں آتے ہوئے گھبراتے تھے۔ آج پاکستان بدامنی اور دہشت گردی کی عفریت پر قابو پا چکا ہے۔ حالات کا دھارا مکمل طور پر بدلا جا چکا ہے۔
:
پاکستان کو دنیا کے innovation map پر جگہ دلانے کے لئے نوجوانوں کو دن رات کام کرنا ہو گا۔ پاکستان پہلے ہی ای-لانسنگ کے شعبے میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے۔
:
پاکستان اس وقت لامتناہی مواقع کی سرزمین بن چکا ہے۔ سی پیک کی صورت میں پچاس بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری پاکستان میں ہو رہی ہے۔ یہ سرمایہ کاری پاکستان کے سب سے قابلِ اعتماد اور آزمودہ دوست چین نے اس وقت کی جب دنیا کا کوئی ملک پاکستان میں دس ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے سے بھی ہچکچا رہا تھا۔
:
1947 سے لیکر 2013 تک تقریباً ستر سالوں میں پاکستان صرف سولہ یا سترہ ہزار میگا واٹ بجلی بنا رہا تھا ۔۔ لیکن گزشتہ تین سالوں میں ہم گیارہ ہزار میگا واٹ کے قریب بجلی کی پیداواری استعداد کا اضافہ کیا ہے۔
:
سب سے زیادہ سرمایہ کاری توانائی، رسل و رسائل اور انفراسٹرکچر (سڑکوں، ریلوے وغیرہ) پر ہو رہی ہے۔ یہاں پر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ انہیں صرف سڑکیں ہی بنانا آتا ہے ۔۔ ان عقل کے اندھوں کو نہیں پتہ کہ تعلیم بھی سڑک کے اوپر چل کر آتی ہے، صحت بھی سڑک کے اوپر سے چل کر آتی ہے، کاروبار بھی سڑک پر چل کر آتا ہے اور ترقی اور خوشحالی بھی سڑک کے اوپر سے چل کر آتی ہے۔
:
جہاں سڑک نہیں ہو گی، وہاں سکول کیسے کھلے گا، وہاں استاد کیسے جائے گا؟ جہاں راستہ نہیں ہو گا، وہاں ہسپتال کیسے کھلے گا؟ دنیا کے تمام ممالک جو ترقی کے معراج پر پہنچے ہیں انہوں نے سب سے پہلے نئے راستے بنائے ۔۔۔ علاقوں کو ایک دوسرے سے مربوط کیا ۔۔۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں کو ترقی اور خوشحالی کے راستے سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ ستر سالوں میں پہلی دفعہ گوادر کی بندرگاہ ساڑھے چھ سو کلومیٹر سڑک کے ذریعے کوئٹہ سے منسلک کی جا رہی ہے۔ بہت سے پچھڑے ہوئے علاقے اس سڑک کے ذریعے باقی پاکستان سے ملا دیے جائیں گے۔ بندرگاہ سے سامان کوئٹہ اور وہاں سے افغانستان، وسطی ایشیا اور دوسرے ممالک میں بھیجا جائےگا۔ پاکستان میں یہ سب تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔
:
ہمارے نوجوانوں کو اس اہم موقع کو اپنے امکانات کی نظر سے دیکھنا ہے۔ انہیں اس میں سے اپنے لئے نئے مواقع تلاش کرنے ہیں۔ پسماندہ علاقوں کو اس سڑک سے منسلک کرنے سے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ چین کے صنعتوں کے پیداواری اخراجات بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ دنیا کے بزنس سائیکل سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک خاص وقت میں آ کر ملکوں کے پیداواری اخراجات بڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ تب وہ ہائی ویلیو انڈسٹری میں چلے جاتے ہیں اورزیادہ پیداواری اخراجات والی لیبر انٹنسو انڈسٹری کو ان ممالک میں منتقل کر دیتے ہیں جہاں پیداواری اخراجات نسبتاً کم ہوتے ہیں۔ چین کے پاس سرمایہ بھی ہے اور ٹیکنالوجی بھی ہے جبکہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان اپنے محل وقوع اور پسماندہ علاقوں کو مربوط کرکے کم پیداواری اخراجات کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔
:
سی پیک ہمیں تین بڑے خِطوں سے ملا دیتا ہے۔ پاکستانی تاجروں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور چین، افغانستان اور وسطی ایشیا میں نئے رابطے اور کاروباری دوست تلاش کرنے چاہیئں۔ اگر سیاسی حالات بہتر ہوتے ہیں تو جنوبی ایشیا میں بھی کاروباری ساتھی تلاش کرنے چاہیئں۔ اس پورے خطے میں پاکستان کو پروڈکشن اور سروسز کا ایک حب بنایا جا سکتا ہے۔
:
پس نوشت: نوٹ: یہ سب وہ باتیں ہیں جو وفاقی وزیر احسن اقبال نے یونیورسٹی آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے زیرِ اہتمام انٹرنیشنل بزنس کانفرنس اینڈ ایگزیبیشن 2016 کی تقریب میں کیں اور مجھے بہت پسند آئیں، البتہ نیوزویک کی پاکستان کے خلاف سٹوری 2007 میں چھپی تھی، احسن اقبال صاحب سہواً 2013 کہہ گئے۔ اس تقریب کا اہتمام ایکسپو سنٹر لاہور میں کیا گیا۔
Author: عمران زاہد
-
پاکستان، 2013ء سے 2016ء تک – عمران زاہد
-
چور بھاگ رہا ہے – عمران زاہد
اکبر ایس بابر نامی ایک فرد ،جو تحریک انصاف کا بانی ممبر بھی ہے لیکن آج کل دربدر ہے، نے پچھلے سال 2015 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ایک درخواست جمع کروائی، جس میں تحریکِ انصاف کے فنڈز میں گھپلوں کی نشاندہی کی اور کمیشن سے اس کا جائزہ لینے کی استدعا کی۔ اپنی درخواست کے ساتھ انہوں نے کچھ دستاویزی ثبوت بھی جمع کروائے۔
:
پی ٹی آئی کے وکیل نے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی دستاویزات کو غلط ثابت کرنے کے ل یے بھرپور دلائل پیش کیے۔ اخبارات میں وہ دلائل بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ کافی سماعتوں کے بعد پچھلے سال آٹھ اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے ان دلائل کو رد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے فنڈز کی تفصیلی پڑتال کرنے کا حکم دے دیا۔
:
تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر بہت چیں بچیں ہوئی۔ اس فیصلے کے خلاف تحریکِ انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کر دی۔ اس رٹ میں تحریک انصاف نے نہ صرف الیکشن کمیشن کی کارروائی کو رکوانے کی استدعا کی بلکہ الیکشن کمیشن کے پارٹی فنڈز کی پڑتال کرنے کے اختیار کو ہی چیلنج کر دیا۔
:
پی ٹی آئی کے وکلاء کے روایتی تاخیری حربوں کی وجہ سے اس کیس کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس کی اگلی سماعت انتیس نومبر کو طے کی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن نے یکم دسمبر تک اس کیس پہ مزید کاروائی کو ملتوی کر دیا ہے۔
:
اکبر ایس بابر نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف عمران خان نے خود کو قوم کے سامنے احتساب کے لئے پیش کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور دوسری طرف وہ الیکشن کمیشن کے حسابات کی پڑتال کرنے کے قانونی اختیار کے ہی مخالف ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے اس موقف کو کرپشن کے خلاف دہرے معیار سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے عمران خان صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کے حسابات شفاف ہیں تو وہ الیکشن کمیشن کے زیرِ اہتمام پارٹی حسابات کے فرانزک آڈٹ کو ہونے دیں۔
:
مجھے یہ ساری کہانی آج ٹی وی پر عمران خان کے ایک بیان کو سن کر یاد آ گئی، جس میں وہ ایک عزم اور یقین سے فرما رہے تھے کہ اگر میاں نواز شریف چور نہیں ہے تو اسے تلاشی دینے میں کیا حرج ہے؟ ساتھ ہی انہوں نے فیصلہ سنانے کے انداز میں کہا کہ وہ چور ہے اسی لئے اپنے حسابات کی جانچ کروانے سے بھاگ رہا ہے۔
:
میں یہاں پر عمران خان صاحب سے سو فیصد متفق ہوں کہ چور اپنے حسابات کی جانچ پڑتال سے بھاگ رہا ہے۔
:
پاکستان زندہ باد
کرپشن مردہ باد -
کیا پاکستان بھارت جنگ ٹل گئی ہے؟ عمران زاہد
جنگ ٹلی نہیں، بس طریقہ تبدیل ہوا ہے
اس وقت بھارت پاکستان کے دریاؤں کا پانی روک چکا ہے۔ گزشتہ روز بھی بھارت کی جانب سے دریائے چناب میں معاہدے کے مطابق ساٹھ ہزار کیوسک روزانہ پانی کے بجائے صرف چھ ہزار کیوسک پانی چھوڑا گیا۔ اس سے پاکستانی فصلوں کپاس، گنا اور مکئی کے تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔
:
آج بھارتی وزیرِاعظم مودی نے سندھ طاس معاہدے کا جائزہ لینے کے لیے اہم اجلاس بلا لیا ہے۔ آکاش وانی نے اس اجلاس کی خبر دیتے ہوئے بتایا کہ ورلڈ بینک، جو اس معاہدے کا ضامن ہے، کی رپورٹ کے مطابق اسی (۸۰) فیصد پانی پاکستان کو مل رہا ہے اور بھارت خسارے میں جا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مودی سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔
:
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی دریا برہماپترا چین کے علاقے سے بھارت میں آتا ہے۔ بھارت کو خوف ہے کہ ان کے کسی ایڈونچر کے جواب میں چین ان کا پانی نہ روک لے۔
:
قائدِ اعظم رح نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شاہ رگ ہے۔ ان کے اس فرمان کی اہمیت بھارت کی اس سازش سے دوچند ہو جاتی ہے۔ پاکستان آنے والے سارے دریا کشمیر میں سے نکلتے ہیں۔ بھارت نے ہماری شاہ رگ کو دبوچ رکھا ہے۔ وہ جب چاہے خون کے بہاؤ کو منقطع کر سکتا ہے۔
:
ایسے میں پاکستان کو پانی کے مزید ذخیرے بنانے کی ضرورت ہے۔ کالاباغ ڈیم جیسے مفید ڈیم کی راہ میں جو سیاسی رکاوٹیں ہیں انہیں حکمت سے سلجھایا جانا چاہیے۔ یہ قوم کی زندگی و موت کا معاملہ ہے۔
:
علاوہ ازیں، ہتھیار باندھ کے رکھیے کہ یہ جنگ کشمیر کے لیے ہو نہ ہو، پانی کے لیے ضرور لڑنی پڑ سکتی ہے۔ -
جنرل پیٹن، دوسری جنگ عظیم کا عظیم کردار – عمران زاہد
دوسری جنگ عظیم کے موضوع پر ہالی وڈ نے بہت سی فلمیں بنائی ہیں جیسے کہ:
Guns of Navaron, The Bridge o river Kawai, Casablanca, U-571, Das Boot, The longest day وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب فلمیں ہی شاندار ہیں۔ آج بھی جب سینما میں لگتی ہیں تو اچھا خاصا بزنس کرتی ہیں۔ حال میں ہی ایک مووی جو بہت پسند آئی Patton ہے۔ یہ فلم 1970ء میں ریلیز ہوئی تھی۔جنرل پیٹن امریکہ کی طرف سے دوسری جنگ عظیم میں شریک تھا اور اپنی جارحانہ پیش قدمی اور تیز رفتاری کے لیے جانا جاتا تھا۔ غیر محتاط زبان کے استعمال کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی آنکھ میں کھٹکھتا بھی تھا۔ اس کی بدتمیزی اور بدکلامی کے سبب ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب اسے کمانڈ سے فارغ کرنے پر غور کیا جا رہا تھا۔ جنرل پیٹن کی بدکلامی ایسی مشہور تھی کہ آج کے مشہور امریکی صدارت کے امیدوار ٹرمپ کو بھی اس سے تشبیہہ دی گئی ہے۔
جنرل پیٹن نے شمالی افریقہ (تیونس وغیرہ) میں جرمنی اور اٹلی کی مشترکہ فوج، جو جرمنی کے جنرل رومیل کی کمانڈ میں تھی، کو ٹینکوں کی جنگ میں شکست دی۔۔ اس کے بعد سسلی سے یورپ کے میدانِ جنگ میں داخل ہوا۔ برٹش جنرلز امریکی جنرل کو کسی بڑے اعزاز سے محروم رکھنا چاہتے تھے، لہٰذا اس کو بڑا ثانوی قسم کا ٹاسک سونپا گیا تھا لیکن جنرل نے چالاکی سے کام لے کر ہائی کمانڈ کے احکام کی من مرضی کی تشریح کر کے سسلی کے قصبوں پالئیرمو (ُPalermo) اور مسینا (Messina) پر قبضہ کر کے برٹش جنرلوں کو پریشان کر دیا۔ ہائی کمانڈ نے جنرل کو مسینا سے دور رہنے کا کہا تھا لیکن جنرل نے بہانہ بنایا کہ وائرلیس پیغام ٹھیک طرح سے نہیں ملا، اس لیے پیغام دوبارہ بھیجا جائے۔ جب پیغام دوبارہ موصول ہوا اس وقت جنرل مسینا میں داخل ہو رہا تھا۔ جنرل کی ظریفانہ طبعیت کا اس کے اس پیغام سے پتہ چلتا ہے جو اس نے جواباً اپنی کمانڈ کو بھیجا:
Have taken Messina, Do you want me to give it back.سن چوالیس میں جب اتحادی فوجوں نے نارمنڈی کے ساحلوں پر دھاوا بولا اس وقت جنرل پیٹن زیرِعتاب تھا اور اسے بےضرر سی پوزیشن پر تعینات کر دیا گیا تھا۔ وہ چاہنے کے باوجود اس جنگ میں کوئی اہم کردار ادا کرنے سے قاصر تھا۔ جنرل کو بہت سے مواقع پر جب وہ جرمنی میں داخل ہو سکتا تھا، ایندھن اور سپلائی سے محروم رکھا گیا اور دوسروں کو اس پر ترجیح دی گئی۔ تاہم پھر بھی جنگ کے خاتمے تک بہت سے معرکے اس کے اعزاز پر ہیں۔ اس کو قدرت کی طرف سے مواقع ملے جن میں اس نے دل کھول کر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ جنرل پیٹن کی بہت زیادہ دلچسپی عسکری تاریخ سے تھی۔ اس کی تقریباً تمام جنگی چالوں میں تاریخی عسکری واقعات کی جھلک ملتی ہے۔
سن پنتالیس کے وسط میں ہٹلر کی خودکشی اور جرمن افواج کی پسپائی کے بعد یورپ میں جنگ کو خاتمہ ہو گیا اور جنرل جرمنی میں مقیم واپس امریکہ جانے اور کرسمس اپنے خاندان کے ساتھ منانے کا منصوبہ بنا رہا تھا کہ اس کے ساتھی جنرل نے اسے کھانے پر مدعو کیا تاکہ طبعیت کا تکدر دور کیا جا سکے۔ سڑک کے کنارے تباہ شدہ گاڑیوں کو دیکھ کر جنرل نے تبصرہ کیا کہ
”How awful war is. Think of the waste.“
چند لمحے بعد ہی اس کی اپنی کار ایک امریکی ٹینک سے جا ٹکرائی۔ باقی لوگوں کو تو ہلکی پھلکی چوٹیں آئیں، لیکن اس کے سر پر شدید چوٹ آئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں اس کے سر پر فریکچر آئے، اس کا حرام مغز شدید متاثر ہوا اور گردن سے نیچے سارے جسم اپاہج ہو کر رہ گیا۔ تیرہ چودہ دن بعد وہ سوتے ہوئے ہی اللہ کے پاس پہنچ گیا۔ بسترِ مرگ پہ اس نے تبصرہ کیا کہ
”This is a hell of a way to die.“جس جرنیل کو چار سالوں میں جنگ ہلاک نہ کر پائی وہ جنگ ختم ہونے کے صرف چار ماہ بعد ایک معمولی حادثے میں جاں بحق ہو گیا۔ اللہ کے رنگ نیارے۔
اس فلم میں جنرل پیٹن کا کردار جارج سی سکاٹ نے ادا کیا۔ بہترین اداکاری پر اسے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے چنا گیا لیکن اس نے اکیڈمی ایوارڈ کے گرد ہونے والی سیاست پر احتجاجاً یہ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔ -
موٹروے پولیس واقعہ اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم – عمران زاہد
پی ٹی آئی کے دوستوں کے سوشل میڈیا پر تازہ خیالات پڑھ کر میں نے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے ہیں۔ شکر ہے انھیں تین دن بعد ہوش آیا اور انہوں نے اپنا فرض پہچانا۔
:
1- موٹروے پولیس نااہل، نکمی، رشوت خور اور ملک دشمن ہے۔ اس کا خاتمہ ملک کے اہم ترین مفاد میں ہے۔
2- ہمارے نوجوان کپتان ایک خفیہ مشن پہ جا رہے تھے جنہیں روک کر موٹروے پولیس نے ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگا دیا۔ کیونکہ ان کو روکنے سے سو ڈیرھ سو بندے کے دہشت گرد حملے میں شہید ہونے کا خدشہ تھا۔
3- موٹروے پولیس والے 30 کمانڈوز سے مار کھا مسکرا مسکرا کر تصویریں کھنچوا رہے تھے، یہ ان کے جھوٹا ہونے کا بین ثبوت ہے۔ کیونکہ کمانڈوز کی مار کے بعد تو ان کی لاشیں ہی نظر آنی چاہیے تھیں۔
4- تصویر میں نظر آنے والا واقعہ بالکل نظر کا دھوکا ہے۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ فوجی جوان موٹروے پولیس والوں کی پٹائی نہیں کر رہے تھے۔ موٹروے پولیس والے انہیں گالیاں نکال رہے تھے۔
5- اور ہاں، اگر ہمارے جوانوں نے موٹروے پولیس والوں کی ٹھکائی کر بھی لی تو کیا ہوا، وہ اس کے مستحق تھے۔ انہیں کس نے حق دیا تھا کہ وہ انہیں روکیں۔
6- ہمارے مقدس جوانوں پر ملک کے کسی بھی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا، خصوصاً ٹریفک قوانین کا۔ اگر وہ کسی قانون کو رضاکارانہ تسلیم کر لیتے ہیں تو یہ سراسر ان کی بڑائی، قانون پروری اور عظمت ہے، ورنہ ان پر یہ سب لازم ہرگز نہیں۔
7- یہ سب کچھ مسلم لیگ نون کی حکومت را اور موساد کی مدد سے کروا رہی ہے۔ بلکہ یہ واقعہ اسٹیج ہی انہوں نے کروایا ہے تا کہ فوج کے خلاف نفرت پھیلائی جا سکے۔
:
ان خیالات کی ترویج کے لیے پورا انصافی سوشل میڈیا گینگ بمع لال ٹوپی والی سرکار اور دوسرے معروف گملوں میں لگے دانشور تندہی سے مصروفِ عمل ہیں۔ مجھے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ آپ لوگوں کا جو تھوڑا بہت پردہ اور بھرم تھا وہ سب کھل کے سامنے آ گیا ہے۔ پہلے بھی آپ لوگوں کو شکست و ہزیمت ملی ہے۔ آئندہ پہلے سے بڑھ کر ملے گی۔ یہ راستہ کامیابی کا راستہ ہرگز نہیں ہے۔ خان صاحب خود تو ناکامی کے غار میں گر ہی رہے ہیں، ساتھ ساتھ اپنے نوجوان فالوورز کی قسمت میں بھی ایسی مایوسی لکھ کر جا رہے ہیں کہ ان کی آئندہ آنے والی دو تین نسلیں بھی تبدیلی کے لفظ سے دور بھاگیں گی۔
:
ہاں وہ جو تفتیش اور انصاف کا وعدہ ہوا تھا، اس کی بات نہ کریں، کیونکہ اس کی بات کرنے والا را اور موساد کا ایجنٹ ہوتا ہے۔ اور جو یہ سب خرافات نہ مانے وہ بھی را اور موساد کا ایجنٹ ہے۔ -
افغاانستان، ایران اور بھارت کی مکروہ تکون – عمران زاہد
افغانستان، بھارت اور ایران کی بڑھتی ہوئی قربتیں ہمارے لیے انتہائی خوفناک منظرنامہ پیش کر رہی ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ ہمارے تعلقات میں بہتری آنے کے بجائے، روزبروز تناؤ آتا جا رہا ہے۔ اشرف غنی، مودی اور روحانی تینوں اس اتحاد کو اسٹریجک شراکت داری سمجھتے ہیں۔ بھارت ایران میں چاہ بہار کے ساتھ ساتھ افغانستان میں عسکری اور معاشی منصوبوں پر بھرپور سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بھارت اس اتحاد کو پاکستان کے تین اطراف سے گھیرنے کے منصوبے کے ساتھ ساتھ مغربی ایشیا میں معاشی نفوذ کے موقع کے طور پر بھی لے رہا ہے۔
اس سارے منظر نامے میں ہم چین کے ساتھ پینگیں بڑھا کر ہر طرح کے خطرات سے نچنت ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ ہماری قیادت اس پیچیدہ بساط پر دشمنوں کے بیسیوں مہروں میں گھری صرف راہداری منصوبے کی توپ سے شہ مات کرنے کا سوچ رہی ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ دوڑو زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔ جناب! معاملہ اتنا سیدھا سادہ نہیں رہا۔
ہماری حکومت نے برضا و رغبت ہمسائیوں کے باب میں خارجہ پالیسی کو عسکسری قیادت کو سونپ رکھا ہے۔ حکومت کی خارجہ معاملات میں عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ کوئی ڈھنگ کا وزیرِخارجہ تک تعینات نہیں کیا سکا۔ بہت سے خارجہ معاملات میں وزیرِ داخلہ کو بیان دینا پڑتا ہے۔ لیکن عسکری قیادت سے اس ضمن بہت زیادہ توقعات رکھنا بھی زیادتی ہوگی۔ عسکری ذہن کو حکم دینے یا حکم لینے کی تربیت دی جاتی ہے۔ خارجہ امور کے داؤ پیچ سے عسکری ذہن کلیتاً نابلد ہوتا ہے۔ ماضی میں عسکری حوالوں سے جنرل ضیاءالحق شاید وہ شاذ مثال ہیں، جو خارجہ امور میں عدیم النظیر مہارت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے چار میں سے تین ہمسائے ہمارے خلاف محاذ بنا چکے ہیں اور ہمارا سارا انحصار چوتھے ہمسائے پر ہو چکا ہے۔ جو بجائے خود ایک خطرناک بات ہے۔ چین کی اپنی مجبوریاں اور مفادات ہیں۔ جہاں تک اس کے مفادات اجازت دیں گے وہ ہمارے ساتھ کھڑا رہے گا، لیکن اس سے زیادہ اس سے کوئی توقع رکھنا زیادتی ہوگی۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ چین بتدریج بھارت سے بھی اپنے سیاسی اور معاشی تعلقات کونئی جہتیں دے رہا ہے۔ بقول اکرم ذکی، پہلے ہند چین بھائی بھائی کا نعرہ مقبول ہوا تھا، اب ہند چین بائے بائے (Buy, Buy) کا نعرہ مقبول ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو ایک عظیم تر معاشی اکائی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں سالانہ باہمی تجارت 100 ارب ڈالر کا ہندسہ چھونے کو ہے، جبکہ ہمارے پاس لے دے کے بیالیس ارب ڈالر کا معاشی راہداری منصوبہ ہے، جس کی تکمیل میں کئی برس درکار ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد سینکڑوں اربوں کا کاروبار اس راستے سے ہوگا۔
چین کے بھارت کے ساتھ ہی نہیں، ایران کے ساتھ بھی گہرے معاشی تعلقات ہیں۔ 2015ء کے آخر میں چینی صدر نے ایران کے دورے کے دوران، اگلے دس سال میں باہمی تجارت کو 600 بلین ڈالر تک بڑھانے کے منصوبے پر دستخط کیے ہیں۔ علاوہ ازیں گوادر کے التوا کی صورت میں ایران کی چاہ بہار کی بندرگاہ چین کے لیے گوادر کا نعم البدل بن سکتا ہے۔
:
ان حالات میں پاکستان کو اپنے ہمسائیوں سے دوستانہ تعلقات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اور نہیں تو کم از کم اس مکروہ اتحاد کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ ایران کے پاس تیل ہے، بھارت کے پاس سستی افرادی قوت ہے، ہمارے پاس کیا ہے؟ ہم صرف ذہانت سے ہی اپنا رستہ بنا سکتے ہیں۔ سمارٹ موو ہی ہماری بقا اور کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہے۔
:
افغانستان کا پاکستان سے محبت اور نفرت کا پیچیدہ رشتہ ہے۔ افغان جہاد کے دنوں میں خاد پاکستان میں دھماکے کرواتی تھی۔ اس کے بعد جب موقع آیا کہ ہم اپنی دوست حکومت قائم کروا لیں، ہم نے امریکی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مفلوج حکومت قائم کروائی، جس کا نتیجہ افغانستان میں خون خرابے اور باہمی مناقشوں کی صورت میں سامنے آیا۔ حتٰی کہ ہمیں ساری بساط الٹ کر نئی بساط بچھانی پڑی جس میں بادشاہ کا مہرہ طالبان کو بنایا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ہم نے اس بساط کو بھی الٹ دیا اور نئی بساط بچھائی جس میں بادشاہ کا عہدہ اپنے مخالفین کو بخشا۔ شاید ہمارے کارپرداز یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح سے مخالفتیں ختم ہو جائیں گی اور محبت کے زمزمے بہنا شروع ہو جائیں گے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ بہرحال ماضی سے آگے بڑھتے ہیں۔ابھی حالیہ دنوں میں افغانستان میں ایک مثبت پیش رفت گلبدین حکمت یار کی حزبِ اسلامی کا افغان حکومت سے معاہدہ ہے۔ پاکستان پندرہ سال پہلے اپنے دوستوں (طالبان) کی حکومت ختم کروا کے مخالفین کی حکومت قائم کروانے کا جو سیاسی گناہ کر چکا ہے، آج اس کے کفارے کا وقت ہے۔ گلبدین حکمت یار ہمیشہ پاکستان کے دوست رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ پاکستانی حکومت ہمیشہ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں میں شامل رہی ہے۔ اپنے محسنین اور مہمانوں کو دشمن بنانا تو کوئی ہم سے سیکھے۔ پاکستان میں تیس لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین موجود ہیں۔ بہت سے یہیں رچ بس گئے ہیں۔ یہاں ان کے گھربار اور کاروبار موجود ہیں۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ پاکستان مہمان نوازی کے بعد جب پیٹھ پھیرنے پر آتا ہے تو اپنی مہمان نوازی پر ہی مٹی ڈال دیتا ہے۔ چند ماہ سے افغان پناہ گزینوں کو پاکستان سے نکال باہر کرنے کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔ یوں باور کرایا جا رہا ہے کہ گویا پاکستان کے سب مسائل کی وجہ یہ پناہ گزین ہیں۔ بخدا، اپنی نیکی کو ضائع مت کیجیے۔ پناہ گزینوں کو واپس بھیجنا ہی ہے تو دھکے تو مت دیجیے۔ عزت و احترام اور گفت و شنید سے اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں افغاستان میں اپنے دوستوں کو سیاسی عمل میں شامل کروا کے حکومتی حلقوں میں اپنا رسوخ بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ایران کی پاکستان سے سردمہری کی وجوہات میں (سعودی ایران پراکسی وارکے پس منظر میں) پاکستان کا سعودیہ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا، ان کی چاہ بہار کے مقابلے میں گوادر بندرگاہ اور معاشی راہداری کا منصوبہ بنانا اور ایران، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن کو التوا میں رکھنا شامل ہے۔
پاکستان نے ایران اور سعودیہ کی پراکسی وار میں انتہائی محتاط موقف اپنایا ہے۔ حتٰی کہ یمن کے معاملے میں پاکستانی فوج سعودیہ بھیجنے سے انکار پر سعودی حکومت کو بھی دھچکا پہنچا۔ امارات کے وزیر نے تو برسرعام پاکستانی پالیسی پر تنفر کا اظہار کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری کمزور سیاست کے سبب ہمیں ایران سے بھی اس پالیسی پر کوئی داد نہ مل سکی۔
اب وقت ہے کہ ایران کو دیرینہ دوست اور ہمسایہ ہونے کی نسبت سے اعتماد میں لیا جائے۔ سعودی ایرانی کشمکش کو کم کروانے کے لیے ثالثی مہم شروع کی جائے۔ ایران بھی پاکستان کی معاشی راہداری میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کر چکا ہے۔ ایران سے پہلے وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی اس منصوبے میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کر چکی ہیں۔ ایران کی یہ خواہش پاکستان، چین اور ایران تینوں کے مفاد میں ہے۔ یہ تینوں فریقین کے لیے ایسی win-win صورتحال ہے کہ اس سے ایسی علاقائی معاشی اکائی وجود میں آئے گی جس سے ایران کے بہت سے مفادات بھی وابستہ ہوں گے۔ اس سے بھارت کے ایران پر بڑھتے ہوئے سائے یقیناً سمٹنا شروع ہو جائیں گے۔ ایران پر عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد پاک بھارت ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی دوبارہ شروع کرنا چاہیے۔ کسی استعماری طاقت کو اس سے تکلیف ہوتی ہے تو ہو، ہمیں اپنے مفادات میں قدم قدم آگے بڑھتے جانا چاہیے۔
اس تکون کا تیسرا اور اہم ترین ملک بھارت ہے۔ ہمارا اختلاف قدیم ہے اور اس کے جلد حل ہونے کی کوئی توقع نہیں ہے۔ اس سے دوستی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ دونوں ممالک میں کشمیر کا ایسا مسئلہ ہے کہ پاکستانی نقطہ نظر سے جس کا، بادی النظرمیں، جنگ کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ اس وقت تک جب تک ہم اس مسئلہ کو حتمی طور پر حل کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے، بھارت کو اس کے اندر ہی مصروف رکھنے کی پالیسی اپنانی پڑے گی۔ جب تک یہ پالیسی موجود تھی، پاکستان میں امن و شانتی تھی، پاکستان نے جب سے یہ پالیسی چھوڑی، پاکستان دہشت گردی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔
پاکستانی قیادت سے گزارش ہے کہ وزارت خارجہ کو بےوزیر رکھنے کے بجائے صاحبزادہ یعقوب سا کوئی وزیرِ خارجہ تعینات فرمائیے۔ صاحبزادہ کے ساتھ کوئی ضیاء الحق کی سوجھ بوجھ والا حکمران بھی تو ہو۔ خیر، جو میسر ہے، اسی پر گزارا کرنا پڑے گا۔ عسکری قیادت سے گزارش ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اس میں ارتکاز کی ضرورت ہے۔ خارجہ معاملات کو سیاسی حکومت کو سنبھالنے دیں۔ اگر یہ معاملات مکمل طور پر حکومت کے سر پر نہیں چھوڑے جا سکتے تو بھی دونوں قیادتوں کو مشورے اور میل ملاقاتوں کے ذریعے ایک صفحے پر آ جانا چاہیے ورنہ ہمارا دشمن اتنا بےرحم ہے کہ ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
مکرر عرض کروں گا کہ مخالفین کے پاس وسائل ہیں، ہمارے پاس استعمال کرنے کے لیے صرف ذہانت بچی ہے۔ دل کھول کر اس خزانے کو استعمال کر لیجیے۔ کوئی بہت توپ ذہانت بھی درکار نہیں ہے۔ بس یہی ذہانت عامہ ہی کافی ہے۔
-
افواہ – عمران زاہد
کالج کے دنوں میں بینکوں کے نظام کو پڑھانے والے سر ثناء اللہ قمر صاحب نے فرمایا تھا کہ کوئی بھی بینک چند گھنٹوں میں دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ ایک ایسی افواہ جس کی وجہ سے سب کھاتہ دار ایک ہی دفعہ اپنے ڈپازٹ نکلوانے کے لیے بینک پر ٹوٹ پڑیں، بینک کو دیوالیہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ بینکوں نے ایک اندازے کے مطابق ٹوٹل ڈپازٹ کا کچھ فیصد حصہ روزانہ لین دین کے لیے رکھا ہوتا ہے اور باقی رقم کھاتہ داروں کو منافع دینے کے لیے اِدھر اُدھر انویسٹ کیا ہوتا ہے۔
:
اتنے بڑے اربوں کھربوں کا کاروبار کرنے والے بینکوں کی جان ایک جھوٹی افواہ منٹوں میں ختم کر سکتی ہے۔
:
معاشیات کے استاد شاہد صدیق صاحب نے ڈیمانڈ اور سپلائی پڑھاتے ہوئے بتایا کہ بعض اوقات مصنوعی بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسے یہ افواہ پھیل جائے کہ فلاں چیز مہنگی ہونے والی ہے تو لوگ اس چیز کو بلاضرورت خرید کر سٹاک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بازار میں اس چیز کی قلت ہو جاتی ہے۔ جنگوں وغیرہ میں یہ صورتحال پیش آتی ہے کہ لوگ غیریقینی صورتحال کے سبب کھانے پینے کی چیزیں خرید کر ذخیرہ کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے مارکیٹ میں وہ چیز غائب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ 1965ء کی جنگ شاید وہ واحد جنگ ہے جب لوگوں نے چیزوں کو ذخیرہ کرنے کے بجائے اپنے اپنے ذخیروں کو باہر نکال کر رضاکارانہ طور پر تقسیم کرنا شروع کر دیا تھا۔ چوری چکاری کا مکمل خاتمہ ہو گیا تھا اور کسی بھی چیز کی قیمت میں اضافہ نہ ہوا بلکہ تاجروں نے اپنے منافع کی شرح کم کر دی تھی۔
:
اسی طرح بچوں کو وسیع پیمانے پر اغوا کرنے کی افواہوں نے بھی معاشرے کی نفسیات کو بری طرح متاثر کیا۔ چند دن پہلے تک ایک خوف پھیلا ہوا تھا کہ بچے دھڑا دھڑا اغوا ہو رہے ہیں، اغواکار بچوں کو ہاتھوں میں سے چھین چھین کر اغوا کر رہے ہیں۔گھروں میں کام والی مائیاں ادھر ادھر کے واقعات سنا کر گھروں میں مزید سنسنی پھیلا رہی تھیں اور ہمارا میڈیا اکا دکا انفرادی واقعات پر مرچ مصالحہ لگا کر اسے ایسی شکل دے رہا تھا کہ گویا کوئی یاجوج ماجوج معاشرے میں پھر رہے ہیں جو بغیر کسی ڈر خوف کے بچوں کو اغوا کر رہے ہیں۔ ہمارے اینکروں نے اپنی ساری عقل و دانش ان واقعات پر انڈیل دی۔ سوشل میڈیا کے جیالوں نے اس افواہوں کے اس بازار میں اپنا حصہ ڈالا اور نیٹ سے دوسرے ملکوں کے اغوا شدہ بچوں کی تصویروں کو پھیلا کر آگ پر مزید تیل چھڑکا۔
:
ان افواہوں کا نتیجہ یہ تھا کہ بچوں کے پارک ویران ہو گئے ۔۔ تفریح گاہیں ویران ہو گئیں۔ ماں باپ نے یہ خوف بچوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔ بچے جب آپس میں بات چیت کرتے تو ان کی باتوں میں بھی اغوا کے واقعات ہی سننے کو ملتے۔ سکول کھلنے سے پہلے یہ افواہیں پھیلنی شروع ہو گئیں کہ حکومت چند ہفتے مزید چھٹیاں بڑھانا چاہتی ہے۔ میرے ایک جاننے والے نے بتایا کہ ان کے کچھ عزیز بیرون ملک سے آنا چاہتے تھے مگر انہوں نے بچوں کے اغوا کی خبروں کی بنیاد پر اپنی ٹکٹیں منسوخ کروا دیں۔
:
ان افواہوں کے ردعمل میں لوگوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دیا۔ بے شمار مردوں اور خواتین کو لوگوں نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ تقریباً تمام مشکوک افراد تفتیش کرنے پر بےگناہ ثابت ہوئے۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ اغوا کے شک کی بنیاد پر اصلی والدین کو لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنا دیا۔ میڈیا نے سنسنی خیر خبریں دیں کہ ایک ہی خاندان کی پانچ لڑکیاں غائب ہو گئیں۔ اور چند دن بعد پتہ چلا کہ وہ خود ناراض ہو کر گھر سے چلی گئیں تھیں۔ ایک ہجومِ بدتمیزی میڈیا پہ پھیلا ہوا تھا۔
:
اب سکول کھل چکے ہیں۔ بچے سکول آ جا رہے ہیں اور بچوں کے اغوا کی افواہیں دم توڑ چکی ہیں۔ اکا دکا انفرادی واقعات تو پہلے بھی ہوتے تھے اور اب بھی ہو رہے ہوں گے۔ لیکن وہ خوف مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ اکثر دیدہ ور پہلے دن سے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ سب افواہیں ہیں لیکن ان کی باتوں کو حکومت کی مخالفت کے جنون میں نہ سنا گیا بلکہ الٹا ٹھٹھا اڑایا گیا۔ اپوزیشن والوں کو ابھی 35 پنکچروں والے جھوٹ پہ ہونے والی شرمندگی شاید بھول گئی ہے کہ وہ ہر انٹ شنٹ کو حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ وہ شاید اس کہاوت پہ یقین رکھتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں ہر حربہ جائز ہے۔
:
جن جن میڈیا گروپوں نے اس افواہ سازی میں حصہ لیا۔ خبروں کو twist کر کے معاشرے میں خوف پھیلایا۔ جن جن بڑے لوگوں نے سنی سنائی کو آگے پھیلا کر صدقہ جاریہ کا حصہ بننے کا شوق پورا کیا اور جن لوگوں نے فرضی واقعات گھڑے وہ سب ہماری لام عین نون تے کے مستحق ہیں۔
:
دوستوں سے درخواست ہے کہ آئندہ کوئی الٹی پلٹی افواہ آپ تک پہنچے تو بہتی رو کا حصہ بننے کے بجائے اپنا دماغ استعمال کریں اور بغیر کسی تحقیق کے ایسی باتوں کو آگے نہ پھیلائیں۔ ویسے بھی ہمارے دین میں سنی سنائی باتوں کو بغیر تصدیق کے آگے بڑھانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ دینی لحاظ سے گناہ ہونے کے علاوہ یہ قانونی طور پر جرم بھی ہے۔
:
حکومت کا فرض ہے کہ عوام میں افواہوں کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانے والے بڑے بڑے کھڑپینچوں کے خلاف قانونی کاروائی کرے، ان کا محاسبہ کرے، اور انہیں قرارواقعی سزا دے تاکہ آئندہ کسی کو افواہیں پھیلانے کی جرات نہ ہو۔ -
کراچی میں سیاسی جماعتوں کی ناکامی – عمران زاہد
ایم کیوایم ایک شعلہ مستعجل ہے۔ ایم کیو ایم مخالف جماعتوں کی ناقص حکمت عملی ہے جس کے سبب کراچی کا ووٹر ان کی طرف مائل نہیں ہو سکا اور مائل ہوا بھی تو الیکشن کے دن ایم کیو ایم کے غنڈوں کے ڈر سے پولنگ اسٹیشن پہ نہ آ سکا۔ اس پہ مستزاد پولنگ پہ ان کے اپنے کارکنوں کی تعیناتی اور جعلی ووٹوں کی بھرمار۔ ایم کیو ایم کے ووٹر کو اپنی طرف مائل کرنا اور اپنے ووٹر کے دل سے غنڈوں کا ڈر ہٹانا فوج اور رینجر کا کام نہیں ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کو خود ہی کرنا ہوگا۔ کوئی وجہ نہیں کہ دوسری جماعتیں ایم کیو ایم سے سیٹیں جیت نہ سکیں۔
اس وقت ایم کیو ایم کراچی کے مسائل کا حل نہیں، مسائل کا حصہ ہے۔ کراچی والوں نے بہت بھگت لیا۔ مزید تجربہ کرنا چاہیں گے تو مزید بھگتیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کو کراچی کے اصل مسائل پر بات کرنا ہوگی۔ کوٹہ سسٹم اگر ضروری ہے تو اس کی کوئی مدت ہونی چاہیے تاکہ اس مدت میں دیہی سندھ میں تعلیم اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جا سکے۔ پانی، کچرے، مواصلات اور کون سا شعبہ ایسا ہے جس میں کراچی والے مسائل کا شکار نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اس پر بات کرنی ہو گی۔ کراچی والوں اور دوسرے علاقے کے لوگوں کو امید کی کرن دکھانی ہو گی۔ یقین کیجیے امید کی یہ کرن رینجرز کے آپریشن سے زیادہ موثر ہو گی۔
الطاف حسین جیسے لوگ نظرانداز کیے جانے کے قابل ہیں۔ نہ ان کے خیالات اور نہ ان کی تقریریں تبصرہ کرنے کے لائق ہیں۔ پیمرا پہلے ہی ان پر میڈیا میں دکھانے پر پابندی عائد کر چکا ہے۔ یہ یقیناً ایک قابلِ تحسین قدم ہے۔
میں دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے دنوں میں کراچی اور کراچی والوں سے مکمل مایوسی کا اظہار کر چکا ہوں۔ تب کراچی کا کوڑھ خانہ کے نام سے مضمون لکھا تھااتنی مایوسی اور اتنے گھپ اندھیرے کے باوجود بہت دور سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی کی کرن نظر آتی ہے، امید ہے کہ رہ رہ کے جی اٹھتی ہے۔ نہ جانے ہم اس کنارے پر پہنچنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ جب کوئی حوصلہ ہار دے تو اللہ اسے حادثوں سے روشناس کراتا ہے۔ حادثوں میں انسان کو اپنی فطری جبلت کے تحت بقا کی جدوجہد میں تن من دھن لڑا دیتا ہے۔ قومیں حادثات کی بھٹی سے نکل کر کندن بنتی ہیں۔
میری دعا ہے کہ اللہ کراچی کو اور پورے پاکستان کو حادثات سے محفوظ رکھے۔ اس کی نوبت ہی نہ آنے دے اور کراچی والوں کو اپنے مستقبل کی درست راہ سجھائے اور کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنا دے۔ آمین۔
-
عالمی نشریاتی ادارے، جھوٹوں کا گروہ – عمران زاہد
کیا فارن پالیسی، کیا نیویارک ٹائم، کیا ٹیلیگراف، نیوزویک، کیا فاکس نیوز ، کیا بی بی سی اور کیا سی این این ۔۔۔۔ سب جھوٹوں اور منافقوں کا گروہ ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایسی بھٹیاں ہیں جہاں مطلب کا سچ ڈھالا جاتا ہے اور لوگوں کے اذہان میں انڈیلا جاتا ہے۔ لاکھوں عراقی اور افغانی مروا دیے تاکہ انہیں جمہوریت سکھائی جا سکے، دونوں خودمختار ممالک کو کھنڈرات بنا دیا گیا ۔۔۔۔۔۔ صفحے کے صفحے سیاہ کر ڈالے کہ ہم وحشیوں اور گنواروں کو جمہوریت کا سبق سکھانے آئے ہیں، انہیں تہذیب یافتہ بنانے آئے ہیں۔۔۔ لیکن جہاں جہاں جمہوریت ہے وہ انہیں ہضم نہیں ہو رہی کہ وہاں اسلام پسند برسراقتدار آ گئے ۔۔۔۔۔۔۔ سورج کی طرح چمکتا دمکتا سچ انہیں قبول نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ان کے تاریک نظریات سے میل نہیں کھاتا ۔۔۔ سب جان لیں کہ انہیں جمہوریت نہیں چاہیے، الحاد چاہیے، لادینیت چاہیے، کفر چاہیے ۔۔۔۔۔ اس مقصد کے لئے مسلم ممالک میں انہیں بادشاہ یا فوجی آمر ہی موزوں ہیں۔ جمہوریت صرف ایک جواز ہے جو انہیں ان آمروں پر حملہ کرنے کے لیے چاہیے جو ان کے اشاروں پر چلنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
:
کیا ہم بھول جائیں کہ جب الجزائر اور مصر میں فوجی بغاوتیں ہوئیں تو امن و امان کے نام پہ انہوں نے باغیوں کا ساتھ دیا تھا ۔۔۔۔۔ وہاں کے عوام آج تک اپنا جمہوری حق نہ پا سکے، لیکن ان دانش فروشوں کے پیٹ میں کوئی تکلیف نہیں اٹھتی ۔۔۔۔۔ ترکی میں جمہور نے اپنا رستہ کیا بنایا کہ ان کے بین تھم نہیں رہے ہیں۔ اب ترکیوں نے جمہوریت کے باغیوں کو الٹے پاؤں پھیر دیا تو ان کا سیاپا ختم نہیں ہو رہا ۔۔۔۔ انہیں سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے اسلام کا ہوا نظر آ رہا ہے ۔۔۔ کہتے ہیں creeping islam …. اسلام جمہوریت کے پردے میں رینگتے ہوئے داخل ہو رہا ہے۔۔۔ صیحیح پہچانا ۔۔۔ اسلام آپ کے گھروں کے اندر رینگ آیا ہے۔ بہت سخت جان ہے یہ۔
:
او عقل کے اندھو ۔۔!
اسلام تو بغیر ترکی کے بھی آئے گا۔ بغیر کسی اردگان اور بغیر کسی حکومت کے بھی آ جائے گا۔ اپنے گھروں کی خبر لو بے خبرو ۔۔۔ اسلام تمہارے گھروں میں گھسا چلا آ رہا ہے ۔۔۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اسلام ایک ایک گھرمیں داخل ہو کر رہے گا چاہے کوئی خوشی سے قبول کرے یا ذلیل ہو کر اطاعت کرے۔
:
یہ کہتے ہیں کہ معاشرہ تقسیم ہے۔ حکومت سب کو ساتھ لے کر نہیں چل رہی۔۔ فوج اس کی ضمانت دے گی۔ کیا امریکہ، برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں معاشرے تقسیم نہیں ہیں؟ کیا وہاں حکومتیں سب کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں؟ وہاں فوج کے آنے کے سندیسے کیوں نہیں سناتے؟
:
:
ہم 2014 میں مصر میں فوج کے خونی انقلاب پر روئے تھے۔ ہمارے ہزاروں ساتھی شہید ہوئے تھے۔ ان پہ ٹینک چڑھا دیے گئے تھے۔ الرابعہ پر خون کی ندیاں بہا دی گئی تھیں۔ اس وقت تم ہم پہ ہنس رہے تھے۔ ہم دل گرفتہ تھے اور رو رہے تھے۔
آج 2016 میں ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر ہم ہنس رہے ہیں اور تم رو رہے ہو۔ اب ان شاءاللہ تم روتے ہی رہو گے۔ کیونکہ تمہارا اگلا ہر قدم پسپائی ہے اور ہمارا ہر قدم فتح کا ہے۔
لا الہ اللہ ، بسم اللہ ، اللہ اکبر -
ترک بغاوت ناکام بنانے میں ٹیکنالوجی کا کردار – عمران زاہد
پچھلی رات جب فوج کے ایک حصے نے ترک حکومت کے خلاف بغاوت برپا کی، اس وقت اردگان سالانہ چھٹیوں پر دارالحکومت سے باہر ایک تفریحی مقام انطالیہ میں قیام پذیر تھے۔ فوج نے تمام سرکاری ذرائع ابلاغ پہ قبضہ جما لیا تھا۔ فضا میں گن شپ ہیلی کاپٹرز کی توپوں کی گونج تھی اور فیس بک ٹوئٹر جیسے تمام ذرائع بھی پہنچ سے باہر تھے۔ پلان کا اہم ترین حصہ اردگان کی آواز کو عوام تک پہنچنے سے روکنا تھا۔ بغاوت کا پلان اتنا فول پروف تھا کہ اردگان واقعی قوم سے رابطہ کرنے میں ناکام رہا تھا۔ باغی اپنی جگہ پر مطمئن تھے کہ فضاؤں اور زمین پر ان کا مکمل قبضہ ہے۔ کوئی پتہ بھی ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا۔ بیرونی حکومتوں نے ان کی حمایت میں محتاط انداز میں خیرسگالی کے بیان نشر کرنا شروع کر دیے تھے۔ غیر ملکی میڈِیا کامیاب بغاوت کی بریکنگ نیوز دے چکا تھا۔ ہمارے ملک کے دانش فروش بھی سرشاری کے عالم میں ترک صدر کو سابق صدر اور وزیر اعظم کو سابق وزیراعظم کے لقب سے یاد کر رہے تھے۔ لیکن تقدیر دور کھڑی ان کی حماقت پر مسکرا رہی تھی۔
:
اس وقت اردگان نے آئی فون کے فیس ٹائم فیچر کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ فیس ٹائم سکائپ اور گوگل ہینگ آؤٹ کی طرح کی ایپ ہے جو صرف ایپل کی مصنوعات پر چلتی ہے۔ فیس ٹائم کے ذریعے ایک آئی فون سے دوسرے آئی فون پر ویڈیو کال کی جا سکتی ہے۔
:
سی این ین ترک کی اینکر وہ پہلی ہستی تھی جس نے بغاوت کے بعد اردگان کی جھلک اپنے فون پر دیکھی۔ اس نے فوراً فون کا رخ ٹی وی کیمرہ کی طرف کیا، چھوٹا مائک فون کے پاس کیا اور یوں اردگان کی تصویر اور آواز ترکی کی فضاؤں میں پھیل گئی۔
:
اردگان نے کہا:
“میں اپنے لوگوں سے کہتا ہوں کہ سب کے سب باہر نکلو اور گلی کوچوں کو بھر دو اور باغیوں کو سبق سکھا دو۔ باغی کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ جلد یا بدیر انھیں ہٹا دیا جائے گا۔ میں خود انقرہ کے تقسیم چوک میں اس تحریک کا حصہ بننے آ رہا ہوں۔ ہم ذمہ داروں کوقرار واقعی سزا دیں گے۔”
:
اس پیغام کے نشر ہونے کی دیر تھی کہ لوگ جوق در جوق باہر نکلے اور اس کے بعد انہوں نے لاالہ ،بسم اللہ، اللہ اکبر کی گونج میں جو تاریخ ساز مزاحمت کی اور باغی فوجیوں کو گلیوں میں گھسیٹ گھسیٹ کر گرفتار کیا، وہ اب تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ لیکن سی این این ترک کو اس کا فوری طور پر یہ خمیازہ بھگتنا پڑا کہ باغی ان کےاسٹوڈیو میں گھس آئے اور ان کی نشریات کو بند کر دیا۔
:
عرب بہار کے موقع پر بھی ٹیکنالوجی نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت ٹوئٹر نے باہم ابلاغ کی سہولت مہیا کی تھی اور اس دفعہ فیس ٹائم نے باغیوں کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
:
اللہ تعالٰی نے قران میں سچ فرمایا کہ
[pullquote]وَيَمكُرونَ وَيَمكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيرُ المـٰكِرينَ (سورۃ الانفال)
[/pullquote]وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے.