Author: انصار عباسی

  • پاکستان کو گالی دینے والا نشان عبرت بن گیا-انصار عباسی

    پاکستان کو گالی دینے والا نشان عبرت بن گیا-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    پہلے بلوچستان کے عوام نے نریندر مودی کی پاکستان دشمنی کو گھروں سے باہر نکل کر خوب رد کیا اور اب مودی کے یار الطاف حسین کی غداری پر کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کے قائد کو نشان عبرت بنا دیا۔ کل تک وہ الطاف حسین جس کی مرضی کے بغیر وہاں پتا بھی نہیں ہلتا تھا، آج اس کی حق میں بولنے والی کوئی ایک آواز بھی نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اُس ایم کیو ایم نے جس کو الطاف حسین نے بنایا اور اُس کو اِس طرح سے چلایا کہ کوئی لیڈر کوئی ورکر اپنے قائد کی مرضی کے بغیر سانس نہیں لے سکتا تھا اُس پارٹی نے بھی اُسے نہ صرف رد کر دیا بلکہ یہ تک کہہ دیا کہ اب پارٹی کا الطاف حسین سے کوئی تعلق نہیں۔

    جس شخص کے ایک اشارے پر شہر بھر کو بند کر دیا جاتا تھا، جس کے کہے پر لاکھوں لوگ گھروں سے باہر نکل پڑتے رہے، اُسی الطاف حسین کی تصویروں کو کراچی حیدرآباد اور دوسرے علاقوں سے اتار دیا گیا، نائن زیرو کو تالے لگا دیئے گئے، ایم کیو ایم کے دفاتر کو گرادیا گیا ، گویا اُس کے تمام نشانوں کو مٹایا جا رہا ہے لیکن کوئی ایک فرد احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلا۔ کسی نے اعتراض تک نہیں کیا۔ بلکہ سچ پوچھیں تو کراچی کے لوگ اور مہاجر قوم خوش ہے کہ اُن کی ایک ایسے فرد سے جان چھوٹ گئی جس نے اُن کے حقوق کے نام پر کراچی کو ایک مافیا کی طرح چلایا۔ دہشتگردی، بھتہ خوری اور دوسرے سنگین جرائم میں ملوث رہا۔

    کراچی کے لوگوں بشمول وہ جن کاتعلق ایم کیو ایم سے تھا اُن کی گزشتہ تین دہائیوں سے یہ کیفیت تھی گویا کہ اُن کی جان کسی دیو کے ہاتھ میں قابو ہے۔ اپنے پرائے بے شک کسی کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا یا کسی دوسری پارٹی سے، کوئی کراچی میں محفوظ نہ تھا۔ ماضی قریب تک کوئی ایم کیو ایم کا رہنما یا ورکر یہ سوچ نہ سکتا تھا کہ پارٹی کو چھوڑ ے۔ کیوں کہ اس کا مطلب موت تھا۔ ایم کیو ایم میں تو الطاف حسین سے اختلاف کرنے والے کی جان بخشی نہ ہوتی تھی۔ کراچی آپریشن کے باعث گزشتہ ایک دو سالوں سے حالات کافی بدلے لیکن ایم کیو ایم الطاف حسین کے مافیا کے کنٹرول میں ہی رہی۔

    خوف کے اس عالم سے ایم کیو ایم کے اہم ترین رہنما بھی خالی نہ تھے۔ ذرائع کے مطابق چند روز قبل فاروق ستار جو ایم کیو ایم کے سینئر ترین رہنما ہیں نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین سے قطع تعلقی کے بعد تقریباً تین دہائیوں کے بعد وہ سکون کی نیند سوئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ایک اور اہم رہنما نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عرصے کے بعد وہ ایک انجانے خوف سے باہر نکلے ہیں اور انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے انہیں آزادکر دیا گیا ہو۔ الطاف حسین کو کمزور کرنے کی ماضی میں بہت کوششیں ہوئیں۔ سول حکومتیں، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں نے کئی حربے استعمال کیے لیکن الطاف حسین کا کراچی میں کنٹرول کمزور نہ ہوا۔ سب جانتے تھے، کہتے تھے کہ الطاف حسین کراچی کی دہشتگردی، قتل و غارت اور بھتہ خوری میں ملوث ہے۔ پولیس اور ملٹری آپریشن کیے گئے، ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کو بھی کمزور کیا گیا لیکن الطاف حسین کا ’’جادو‘‘ تھا کہ ٹوٹنے کا نا م نہیںلیتا تھا۔

    حالات کیسے بھی رہے الطاف حسین نے جس کو الیکشن لڑایا وہ جیت گیا۔ متنازعہ بیانات سے الطاف حسین کی تاریخ بھری پڑی ہے، کبھی اُس نے فوج کو گالی دی تو کبھی عدلیہ کو، کبھی ’’را‘‘ اور ہندوستان سے مدد مانگی تو کبھی برطانیہ کو جاسوسی کے لیے اپنا تعاون پیش کیا لیکن الطاف حسین کا ’’سحر‘‘ نہ ٹوٹا۔ حکومت، فوج، سیاستدان، میڈیا سب اس بات پر متفق تھے کہ الطاف حسین کے ہوتے ہوئے کراچی کے امن کو مکمل طور پر بحال نہیں کیا جا سکتا۔ بہت کوششیں ہوئی کہ الطاف حسین سدھر جائے لیکن ایسا بھی نہ ہوا۔

    مائنس ون فارمولے پربھی بہت بات ہوئی لیکن کوئی ایسا فارمولا بھی نہ چل سکا۔ پھراللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جو کروڑوں لوگوں کی خواہش تھی اُس کا سامان الطاف حسین نے خود پیدا کر دیا۔ الطاف حسین نے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کو گالی دی اور مردہ باد کا نعرہ لگا دیاجس کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر الطاف حسین کے لیے سب کچھ بدل گیا۔ وہ شہر جس میں اُس کا مکمل کنٹرول رہا، جہاں اُس کے نام پر لاکھوںووٹ دیئے جاتے تھے وہاں اب اُسے ایک غدار وطن کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے اور آج کوئی بھی فرد پاکستان کو گالی دینے والے الطاف حسین کے ساتھ کھڑا نہیں۔ اب تو الطاف حسین کی ایم کیو ایم پارٹی آئین کو تبدیل کر کے اُس کے نام تک کو نکالنا چاہتی ہے کیوں کہ ڈر ہے کہ کہیں اس نام کی نحوست سے یہ پارٹی بھی ختم نہ ہو جائے۔

  • الطاف حسین ’’محترم‘‘ کیسے-انصار عباسی

    الطاف حسین ’’محترم‘‘ کیسے-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور ہمارے لوگ ہیں کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اس غداری کے باوجود ایم کیو ایم کے رہنما کو ــ’’محترم‘‘ اور ’’صاحب‘‘ کہہ کر پکاررہے ہیں۔ گزشتہ روز ایک ٹی ٹی ٹاک شو میں وفاقی وزیر خرم دستگیر نے ایم کیو ایم کے رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’محترم الطاف حسین‘‘ نے معافی مانگ لی ہے۔ ہم بھی عجیب مخلوق ہیں۔ ایک شخص پاکستان کے خلاف نعرے لگا رہا ہے ، اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو گالیاں دے رہا ہے، پاکستان کو توڑنے کی بات کر رہا ہے اور ہمارے لیے وہ اب بھی ’محترم‘‘ اور ’’صاحب‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔

    خرم دستگیر کے ’’محترم‘‘ الطاف حسین نے دو روز قبل پاکستان کے خلاف پاکستان کے اندر اپنے ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے ایسی زبان استعمال کی جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس پر جب پاکستان بھر سے سخت ردعمل آیا تو الطاف حسین نے اپنے ایک بیان میں ہمیشہ کی طرح معافی مانگ لی۔ لیکن چند ہی گھنٹوں کے بعد گزشتہ روز الطاف حسین نے امریکا میں پارٹی ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف وہ زہر اگلا جو اُن کی گذشتہ تقریر سے بھی کئی ہاتھ آگے تھا۔ اس پاکستان مخالف تقریر کے کچھ حصے Whatsapp کے ذریعے مجھے موصول ہوئے جنہیں سن کر احساس ہوا کہ کس قدر اس شخص کے اندر پاکستان کے خلاف نفرت بھری پڑی ہے۔

    اس تقریر میں الطاف حسین بابر غوری اور کچھ دوسرے ایم کیو ایم کے رہنمائوں کی خوب ایسی تیسی اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ انہوں نے الطاف حسین کی دو روز قبل والی تقریر میں پاکستان مخالف نعرے لگانے پر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے ٹیوٹس (Tweets) کیے۔ بابر غوری جو امریکا میں ایم کیو ایم کی اس میٹنگ میں موجود تھے جس سے الطاف نے خطاب کیا کو مجبور کیا گیا کہ وہ پاکستان زندہ باد کا ٹیوٹ کرنے پر معافی مانگیں۔ اسی خطاب میں الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف اسرائیل، انڈیا، ایران، امریکا وغیرہ سے مدد لینے کی بھی بات کی۔ اس سے بڑی پاکستان دشمنی کیا ہو سکتی ہے۔

    اب الطاف حسین کو یہ بھی قبول نہیں کہ اس کے رہنما یا ورکرز پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کریں۔ یعنی اب الطاف حسین پاکستان زندہ باد کے نعرہ پر بھی بھڑک اٹھتا ہے۔ اور ایسا شخص پاکستان کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت کا ’’قائد‘‘ کہلاتا ہے۔ پاکستان کے خلاف الطاف حسین کی ہرزہ سرائی اور نعرہ بازی نے ایم کیو ایم کی لوکل لیڈرشب کو بھی پریشان کر دیا۔ جو کچھ الطاف حسین نے کہا اُس نے مہاجر قوم کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ہر فرد کے دل کودکھایا۔ فاروق ستار اور دوسرے کئی پارٹی رہنمائوں نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں الطاف حسین کی دو روز قبل پاکستان مخالف نعرہ بازی کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اب ایم کیو ایم پاکستان اپنے فیصلے خود کرے گی۔

    فاروق ستار نے الطاف حسین کی صحت اور ’’کیفیت‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب معاملات ایسے نہیں چل سکتے اور نہ ہی پاکستان مخالف کوئی بات یہاں کی جا سکتی ہے۔ فاروق ستار کی اس پریس کانفرنس پر مختلف لوگ مختلف تجزیہ دے رہے ہیں۔ کسی کے مطابق یہ سب ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی ڈرامہ بازی ہے، کچھ کا خیال ہے کہ الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرہ لگا کر پاکستان میں موجود پارٹی رہنمائوں اورمہاجروں کے دل کھٹے کر دیے اور اب الطاف حسین کو ایم کیو ایم کے اندر سخت مخالفت کا سامنا ہے۔

    ایم کیو ایم کی پالیسیوں سے اختلاف اپنی جگہ لیکن اگر الطاف حسین پاکستان مخالفت میں تمام حدیں پار کر چکے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایم کیو ایم کے تمام رہنمااور ورکرز بھی الطاف کے خیالات سے متفق ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو فاروق ستار اور دوسروں کو معافی مانگنے اور الطاف حسین کے بیان کی مذمت نہ دینا پڑتی۔ کراچی کے لوگ اور مہاجر جنہوں نے پاکستان کے قیام کے وقت بے پناہ قربانیاں دیں وہ کیسے پاکستان مخالف کسی سازش کو کامیاب ہونے دیں گے۔ میں ذاتی طور پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی اس بات سے متفق ہوں کہ فاروق ستار اور دوسرے ایم کیو ایم رہنما اپنے اور الطاف حسین کے درمیان فاصلہ پیدا کر رہے ہیں جس پر ان کی مدد کرنی چاہیے۔

    خورشید شاہ نے یہ بھی ٹھیک کہا کہ ایم کیو ایم میں مائنس ون فارمولہ کے علاوہ اب کوئی دوسرا حل نہیں۔ فاروق ستار اور دوسرے ایم کیو ایم رہنمائوں کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اب وہ اپنی تقریروں اور خطابات میں الطاف حسین کا ذکر نہ کریں۔ کیوں کہ جو شخص پاکستان دشمنی پر اتر آیا اور اُس کا بار بار اظہار کر رہا ہے وہ پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کا رہنما کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر الطاف حسین کو اُن کی پاکستان مخالف مہم کے باوجود یہاں قائد کے طور پر تسلیم کیا گیا تو اس سے فتنہ ختم نہیں ہو گا۔

    اس سلسلے میں وفاقی حکومت کا کردار بہت اہم ہو گا کہ وہ پاکستان کے اندر اور برطانوی حکومت کے ذریعے کس طرح الطاف حسین کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں ۔ جہاں تک کراچی کی عوام اور مہاجروں کا تعلق ہے، اُن کی حب الوطنی پر کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تو الطاف حسین کی پرتشدد اور پاکستان مخالف سیاست کا نتیجہ ہے کہ پاکستان سے محبت کرنے والوں اور کراچی کے اس تہذیب یافتہ پڑھے لکھے طبقہ کی پہچان کو گم کر دیا گیا۔

    ہم سب کو اس محب الوطن طبقہ کی پہچان کو واپس لانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کی مخالفت کرنے والا کوئی شخص مہاجروں کے نام پر پاکستان کو کمزور کرنے کی کسی بیرونی سازش کو یہاں کامیاب نہ کر سکے۔

  • مودی کو بلوچستان کا کرارا جواب-انصار عباسی

    مودی کو بلوچستان کا کرارا جواب-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    نریندر مودی کو بلوچستان کی عوام نے خوب منہ توڑ جواب دیا۔ بلوچستان کے متعلق مودی کے حالیہ متنازعہ بیان پر جس طرح صوبہ بھر میں عوام باہر نکلے اور پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کیا اس نے بہت سوں کی غلط فہمی دور کر دی ہو گی۔ صوبہ بھر کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے ہندوستان کے خلاف سخت احتجاج کیا اور مودی کے پتلے جلائے۔ کہیں کوئی ایک آواز ایسی نہ تھی جو مودی یا بھارت کے حق میں سنائی دی گئی ہو۔ ہاں توقع کے مطابق ہزاروں میل دور یورپ میں بیٹھ کر پاکستان دشمن قوتوں کی ایما پربلوچستان میں آگ بھڑکانے کی کوشش کرنے والے براہمداغ بگٹی نے مودی کے بیان کو ضرور سراہا لیکن صوبہ کے عوام نے بلند آواز میں پاکستان سے غداری کی بجائے اس سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار کیا اور جگہ جگہ قومی پرچم لہرائے ۔

    پاکستان سے محبت بلوچستان کے لوگوں کے خون میں رچی بسی ہے۔قیام پاکستان کے وقت بھی بلوچستان کے عوام کو بہت لالچ دی گئی کہ پاکستان کی بجائے ہندوستان کے حق میں فیصلہ دیں لیکن انہوں نے آج کی طرح اُس وقت بھی ہندوستان اور اُس کی نمائندہ جماعت اور اُن کے ایجنٹوں کو مایوس کیا۔اُس وقت کے حالات کے بارے میں ’’تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ۔ سر سید سے قائد اعظم تک‘‘ میں بلوچستان کے ایک نواب کے حوالے سے کچھ یوں لکھا گیا:

    ’’ہمارے چند نام نہاد مسلمان جو کانگریس کے ہاتھوں بک چکے ہیں، کئی روز سے انہوں نے معزز سرداروں کی موجودگی میں میرے سامنے یہ پیشکش کی کہ اگر بلوچستان کے سردار پاکستان کی اسلامی حکومت کا ساتھ نہ دیں اور ہندوئوں کی سلطنت قبول کر لیں تو کانگریس اس کفر کی غلامی کے عوض میں کئی کروڑ روپیہ ہم پر تقسیم کرنے کو تیار ہے اور اس قسم کا تحریری وعدہ پنڈت نہرو کی طرف سے …. خان پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ بلوچستان کے غیور افغان اور بلوچ سرداروں کا ایمان سونے سے نہیں خریدا جا سکتا۔ ہندو ساہو کاروں کے تمام حرام خزانے ہمارے ایک معمولی بلوچ اور پٹھان کا ایمان بھی نہیں خرید سکتے۔ یہ سن کر …. خان مایوس ہو کر چلے گئے۔ ہندو کانگریس نے سندھ ، پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کی آزادی روپیے سے خریدنا چاہی لیکن اسے وہاں سخت ذلیل ہونا پڑا۔ بلوچستان میں بھی یہ اسی قسم کی شرارت کر رہی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ بلوچستان کو دوسرے اسلامی صوبوں سے کاٹ کر سکھ اور گورکھا فوجوں کے غلبہ کے نیچے رکھا جائے اور پھر یہاں نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان اور ایران تک بھارت ماتا کا جھنڈا گاڑا جائے۔ میں پبلک کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان۔ پاکستان کا رخ مکہ مکرمہ کی طرف اورہندوستان کا بنارس کے بت خانے کی طرف۔اگر …. خان بنارس جانا چاہیں تو شوق سے جائیں ہم بلوچستان کے مسلمان کفر کے راستے پر لعنت بھیجتے ہیں۔ راہ صرف ایک ہی ہے خانہ کعبہ کی راہ۔‘‘

    کچھ بکنے والوں کو چھوڑ کر ماضی کی طرح آج بھی بلوچستان کی اکثریت پاکستان سے محبت کرتی ہے۔ ہاں ان کے گلے شکوے ہوں گے، ان کے دل بھی دکھے ہوں گے لیکن کوئی لالچ، کوئی بہکاوا ان کے دل میں پاکستان دشمنی پیدا نہیں کر سکتا۔یہ بات درست ہے کہ بلوچستان کے عوام کو جو حق ملنا چاہیے تھا وہ اُنہیں نہیں ملا جس کی وجہ سے وہاں ایک احساس محرومی پایا جاتا ہے جس کو دشمن اپنے مقاصد کے لیے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ بلوچستان کے اس احساس محرومی کی ذمہ داری وفاق کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے سرداروں اور نوابوں پر بھی برابر آتی ہے جن کو بار بار حکومت میں اعلیٰ ترین عہدے ملے لیکن انہوں نے بلوچستان کی پسماندگی کو دور کرنے اور عوام کو بنیادی سہولتیں دینے کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ ان میں سے اکثر صوبہ کی ترقی میں رکاوٹ ہی بنے رہے۔

    پاک چائنا راہداری منصوبہ دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس منصوبہ سے صوبہ کی قسمت بدلنے کے روشن امکانات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مودی سمیت پاکستان کے دشمن اس منصوبہ کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ پاکستان دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ریاست اور اس کے تمام اداروں کو ماضی کی اپنی کوتائیوں اور کمزوریوں کو دور کر کے مل کر بلوچستان کی تقدید بدلنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے وفاقی و صوبائی حکومت اور فوج اس بات کو یقینی بنائیں کہ صوبہ بلوچستان کا بجٹ عوام پر خرچ ہو نہ کہ کچھ مخصوص جیبوں میں چلا جائے۔ اس کے لیے کوئی اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی جائے یا کوئی اور سسٹم، عوام کا پیسہ عوام کی فلاح کے لیے خرچ کرنے کی فوری تدبیر کی جائے۔

    موجودہ صورتحال میں صوبائی سرکاری مشینری میں چیک اینڈ بیلنس سسٹم نہایت کمزور ہے اور یہی وجہ تھی کہ ایک سرکاری افسر کے گھر سے ستر اسی کروڑ روپیے کیش برآمد ہوئے۔ بلوچستان کے بارے میں ماضی قریب میں ایک خبر شائع ہوئی جس کے مطابق اربوں روپیے کے ترقیاتی فنڈ سرکاری محکموں کے ذریعے ترقیاتی اسکیموں پر خرچ کرنے کی بجائے، سیدھے سیدھے منتخب نمائندوں کو دے دیئے جاتے ہیں۔ جس کی مرضی ہو، دل چاہے تو خرچ کرے ورنہ جیب میں ڈال دے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والی بلوچستان کے عوام ایسے رویوں کی مستحق نہیں۔

  • شاباش خیبر پختون خواہ اسمبلی-انصار عباسی

    شاباش خیبر پختون خواہ اسمبلی-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    خیبر پختون خواہ اسمبلی کو خراج تحسین جس نے سود کے خاتمہ کے لیے قانون سازی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں چاہے وہ تحریک انصاف ہو یا پیپلز پارٹی، ن لیگ ہو، قومی وطن پارٹی یا عوامی نیشنل پارٹی سب نے ایک ایسے مسودہ قانون کی مکمل حمایت کی جس کا مقصدصوبہ بھر میں سود کے کاروبار کوخلاف قانون قرار دینا اور اس میں ملوث افراد اور نجی کمپنیوں کو دس سال تک سزا دینے کی تجویز ہے۔ خبر کے مطابق گزشتہ ہفتہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن فخر اعظم، قومی وطن پارٹی کے سلطان محمد خان اور تحریک انصاف کے محمود جان نے اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون خیبر پختون خواہ اسمبلی میں پیش کیا جس کی اسمبلی میں موجود تمام اراکین نے حمایت کی۔

    اس مسودہ قانون کو فوری پاس ہو جانا تھا لیکن فیصلہ یہ ہوا کہ مشاورت کے بعد مسودہ میں مزید بہتری لائی جائے اور دوبارہ اسمبلی میں پیش کر کے قانون سازی کی جائے۔ اسمبلی میں موجود حکومت اور اپوزیشن کے تمام رہنمائوں نے سودی کاروبار کے خاتمہ کے لیے اس کوشش کو سراہا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ خبر کے مطابق اسپیکر پختون خواہ اسمبلی اسد قیصر نے اراکین کو بتایا کہ انہیں کئی افراد
    نے شکایت کی کہ کس طرح سودی کاروبار میں شامل افراد اور نجی کمپنیاں لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

    اسد قیصر کے مطابق سودی کاروبار میں استحصال کی یہ حالت ہے کہ انہیں ایک شخص ملا جس نے شکایت کی اُس نے ایک فرد سے چار لاکھ روپیہ قرضہ لیا لیکن واپس چوبیس لاکھ روپیہ کرنا پڑے۔ یعنی چار لاکھ کے قرض پر اُس شخص کو بیس لاکھ روپیہ سود ادا کرنا پڑا۔ ایک اور شخص نے شکایت کی کہ اُسے سود پر آٹھ لاکھ کی گاڑی پچاس لاکھ میں فروخت کی گئی۔

    خیبر پختون خواہ اسمبلی نے اسی سیشن کے دوران ایک قرارداد بھی متفقہ طور پر پیش کی جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ قانون سازی کے ذریعے سودی کاروبار کو پاکستان بھر میں خلاف قانون قرار دیا جائے۔ سود کے خاتمہ کے لیے اگرچہ وفاقی حکومت کا کردار قلیدی نوعیت کا ہو گا لیکن خیبر پختون خواہ اسمبلی جو کرنے جا رہی ہے وہ نہ صرف ایک حوصلہ افزا اقدام ہے بلکہ دوسروں کے لیے قابل تقلید بھی۔ ہو سکتا ہے خیبر پختون خواہ اسمبلی کو دیکھ کر ہی دوسرے صوبے اور مرکز کو بھی احساس ہو جائے کہ سودی کاروبار کرنے والوں کے چنگل سے کس طرح انگنت شہریوں کو بچایا جائے۔

    سود کی لعنت کا مسئلہ کسی ایک صوبہ کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے۔ اس لعنت نے کئی افرادکی جانیں تک لے لیں، خاندان کے خاندان اجڑ گئے، اچھے خاصے کھاتے پیتے افراد کو سود نے گھر سے بے گھر اور مانگنے پر مجبور کر دیا۔ سود کے بھنور میں پھنسے مجبور افراد مختلف قسم کی معاشرتی برائیوں کے علاوہ جرائم تک میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ سود کے خاتمہ کے لیے جو کام ایک صوبائی اسمبلی کرنے جا رہی ہے وہ پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ کو بہت پہلے کر دینا چاہیے تھاکیوں کہ جو آئین سود کے خاتمہ کی بات کرتا ہے وہ آئین اسی پارلیمنٹ کا بنایا ہوا ہے۔

    اگر ایک صوبائی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن پارٹیاں اس بارے میں اتفاق کر سکتی ہیں تو یہی اتفاق وفاق اور دوسرے صوبوں اور متعلقہ اسمبلیوں میں ممکن کیوں نہیں ہو سکتا۔ میری رائے میں نجی طور پر سودی کاروبار کرنے والے افراد اور کمپنیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اور نجی بنکوں کو بھی سود سے پاک بنکاری کرنے کے بارے میں قانون سازی کی جائے۔ اس سلسلے میں خیبر پختون خواہ اسمبلی کے پاس سنہری موقعہ ہے کہ وہ سود کے خاتمہ سے متعلق مجوزہ قانون سازی میں خیبر بنک کو بھی شامل کر دے۔ کوئی صوبہ وفاقی قانون کے مطابق چلنے والے بنکوں کے بارے میں تو فیصلہ نہیں کر سکتا لیکن صوبہ کے ماتحت چلنے والے بنکوں کے ضابطہ کار اور پالیسی کو بنانے اور اُسے تبدیل کرنے کا حق اُسے حاصل ہے۔ اگر پاکستان کے ایک صوبہ کو سود سے پاک کر دیا جائے تو یہ عمل اُسے دوسرے صوبوں اور علاقوں کے مقابلہ میں نکھار دے گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ صوبہ خیبر پختون خواہ اسمبلی کو اس کوشش میں کامیاب کرے اور دوسروں کو بھی اپنی اپنی حدود میں سود کے خاتمہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  • دوسرے پاک، ہمیں خراب-انصار عباسی

    دوسرے پاک، ہمیں خراب-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    کوئٹہ میں حالیہ دلخراش دہشت گردی کے واقعہ کے بعد انڈین ’را‘ کے ملوث ہونے اور پاک چین راہداری منصوبہ کو نشانہ بنانے کی بات کی گئی تو کچھ لوگوں نے یہاں فوری اعتراض اٹھایا کہ انڈیا اور ’را‘ کی بات کیوں کی جا رہی ہے۔ کہا گیا کہ ثبوت پیش کریں۔ ثبوت تو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ’را‘ کا افسر کلبھوشن یادیو کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے لیکن کیا کریں ہمارے کچھ لوگوں کو نظر نہیں آتا۔ ثبوت تو نریندر مودی کا اپنا بیان ہے کہ ہندوستان نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر پاکستان توڑا لیکن اس پر ہماری زبانیں بند ہیں۔ ثبوت تو کراچی اور بلوچستان میں پکڑے گئے لاتعداد ایسے ملزمان ہیں جنہوں نے پولیس اور سکیورٹی اداروں کو بیان دیئے کہ اُن کی ’را‘ نے تربیت کی، پیسہ دیا تاکہ پاکستان میں دہشتگردی کی جائے اور کراچی اور بلوچستان کے امن کو تباہ کیا جائے۔ ثبوت تو لاتعداد JITرپورٹس میں بھی موجود ہیں لیکن جب فیصلہ ہی کر لیا جائے اپنوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اور دوسروں کو شک کا فائدہ دینا ہے تو پھر غیروں سے کیا گلہ۔ ہماری ہاں ایک طبقہ نے عجیب رویہ اپنا رکھا ہے۔

    ہندوستان میں کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہو اور الزام پاکستان پر لگادیا جائے تو اس پر اندھا یقین کر لیتے ہیں اور اپنی باتوں میں، اپنے بیانات سے، ٹی وی ٹاک شوز میں طنز کے تیر اپنے ہی اداروں اور لوگوں پر لگاتے ہیں جیسے جو ہندوستان نے کہا وہ بالکل سچ ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر بھارتی اور دوسری غیر ملکی ایجنسیوں کی پاکستان کے اندر دہشتگردی پھیلانے کی سازش کی بات کی جائے تو کہتے ہیں دوسروں پر الزام مت لگائو اپنے آپ کو ٹھیک کرو۔ اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی بات درست لیکن غیر ملکی ایجنسیوں کو معصوم اور سارا ملبہ اپنے ہی اداروں پر ڈالنے کا رجحان قابل مذمت ہے۔

    حالیہ سالوں میں یہ رجحان بڑھ گیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ اس طبقہ کی میڈیا میں خوب حوصلہ افزائی ہے۔ بھارت امریکا اور کچھ دوسرے ممالک افغانستان کی سرزمین کو پورے طریقہ سے پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیںلیکن سوال یہاں صرف یہی اٹھایا جاتا ہے کہ ہم افغان طالبان کو امریکا ااور بھارت کی خواہش کے مطابق کچلنے میں اُن کی مدد کیوں نہیں کرتے۔ کوئی پوچھے جب افغان طالبان ہمیں کچھ نہیں کہتے توہم اُن کو بھی اپنا دشمن کیوں بنا لیں۔ افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے دوسرے ممالک کی ڈبل گیم پر تو اس طبقہ کو کوئی اعتراض نہیں لیکن اُن کو اس بات پر تکلیف ضرور ہے کہ پاکستان اپنے بچائو کے لیے کوئی تدبیر کیوں کر رہا ہے۔ ان کا مشورہ یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن افغانستان کو جس طرح چاہیں ہمارے خلاف استعمال کریں، سازشیں بنیں، پاکستان کے اندر دہشتگردی کی کارروائیاں کروائیں لیکن ہم اگر چاہیں کہ ہمارا بھی کوئی افغاستان میں ہمدرد ہو تو ایسا کرنا تو جرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ہندوستان حافظ سعید صاحب کے خلاف بات کرتا ہے اور انہیں ممبئی حملہ کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے تو ہمارے ہی کچھ لوگ ہندوستان کی زبان بولتے ہوئے حافظ سعید اور اُن کی فلاحی تنظیم کو خوب کوستے ہیں انہیں گڈ طالبان کا طعنہ دیتے ہوئے حکومت اور فوج سے سوال کرتے ہیں کہ گڈ طالبان کو کیوں نشانہ نہیں بنایا جاتا۔

    اس کے برعکس سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ جس میں سیکڑوں پاکستانیوں کو شہید کیا گیا جس میں ہندوستان کی فوج کے افسران بھی شامل تھے اس واقعہ پر تو ہمارے یہ سیانے بات ہی نہیں کرتے۔ ان کا بس چلے تو حافظ سعید کو فوری ہندوستان کے حوالے کر دیں لیکن سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرموں کی پاکستان حوالگی کی بات کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی یہ کہے کہ ہمارے انٹیلیجنس اور سکیورٹی اداروں کو اپنا کام بہتر بنانا چاہیے، باہمی تعاون کو بڑھانا چاہیے اور ’را‘ اور دوسری غیر ملکی ایجنسیوں کی سازشوں کو ناکام بنانا چاہیے اس پر تنقید برائے اصلاح ہو تو بہتر ہے لیکن اگر اس موقع پر کوئی یہ چاہے کہ اپنے اندر کا بغض اور عناد کو نکالا جائے تو ایسا کرنا پاکستان کے مستقبل کے لیے بہتر نہیں۔ جہاں تک دہشتگردی کا تعلق ہے تو یہ ماننے کی بات ہے کہ پہلے کے مقابلہ میں حالات بہت بہتر ہوئے چاہے وہ کراچی ہو، بلوچستان یا ملک کا کوئی دوسرا علاقہ۔ اس سلسلے میں فوج، پولیس، ایف سی، رینجرز، انٹیلیجنس اداروں وغیرہ کا کردار بہت اہم رہا۔ بجائے اس کے کہ ہم کوئٹہ سانحہ کے بعد ان سب کو بـُرا بھلا کہنا شروع کر دیں، ہمیں مثبت انداز میں اپنے اندرموجود کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے تا کہ دہشتگردی کے ناسور کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ جو لوگ اس موقع پر بدلے اتارنے کی روش روا رکھے ہوئے ہیں انہیں چاہیے کہ اس کے لیے کسی اور وقت کا انتظار کر لیں۔

  • ہاں سازش تو کہیں ہے-انصار عباسی

    ہاں سازش تو کہیں ہے-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    آج کے اخبار ات میں ایک خبرپڑھی تو بہت دکھ ہوا۔ لیکن جب میں نے تصدیق کےلیے متعلقہ افراد سے بات کی تو معاملہ بالکل مختلف نکلا۔ گزشتہ چند ہفتوں سے میں اس معاملےپر لکھنا چاہتا تھا لیکن کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر ہوتی گئی۔ آج کے تقریباً تمام اخبارات میں اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالےسے ایک خبر شائع ہوئی۔ خبر کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نےوفاق کی جانب سے تعلیمی اداروں میں قرآن پاک کی تعلیم کےلیے تیار کردہ نصاب پر اعتراض کر دیاجس کی وجہ جہادسے متعلق آیات نصاب میں شامل نہ کرناہے۔ ان خبروں کے مطابق کونسل کے ممبران کی اکثریت کاموقف تھا کہ جہادسے متعلق 484 آیات میں سے کسی ایک آیت کو نصاب میں شامل نہ کرنا ایک سازش ہے۔ مجھے چونکہ حکومت کی طرف سےا سکولوں کالجوں میں مسلمان طلبا و طالبات کو قرآن حکیم ناظرہ اور ترجمہ کے ساتھ پڑھانےکےفیصلے کےبارےمیں علم تھا اور اس بارے میں میں نے کچھ عرصہ قبل ایک خبر بھی جنگ اورنیوز میںشائع کی تھی، اس لیے نظریاتی کونسل کے حوالےسے یہ خبرپڑھ کر دکھ ہوا کہ یہ کیا ہو گیا۔

    دکھ اس بات پر تھا کہ حکومت کس طرح قرآن پاک کے کسی بھی حصہ کو اسکولوں کالجوں کے نصاب سے نکال سکتی ہے۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک کےپریشر میں حکومت نے واقعی یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ جہادسے متعلق قرآنی احکامات کو نصاب میں شامل نہ کیا جائے۔ لیکن اس بارے میں جب میں نے متعلقہ وزیر مملکت جناب بلیغ الرحمنٰ سے بات کی تو معلوم ہوا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔

    بلیغ الرحمنٰ جنہوں نے قرآن پاک کو اسکولوں کالجوں میں پڑھانے کی حکومتی پالیسی کے بننے میں کلیدی کردار ادا کیاتھا، کا کہنا ہے کہ نصاب میں سے قرآن پاک کا کوئی ایک لفظ بھی وہ نکالنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے تحت اسکول کے بچوں کو مکمل قرآن پڑھایا جائے گا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلی سے پنجم جماعت تک کے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھایا جائے گا۔ چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک کے طلبہ کو قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جائے گا۔ ترجمہ پڑھانےکےلیے قرآن پاک کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ مکی سورتوں کو چھٹی سےلے کر دسویں جماعت تک کے طلبہ کوپڑھایا جائے گا جبکہ گیارویں اور بارہویں جماعت کے بچوں کو مدنی سورتیں ترجمعہ کے ساتھ پڑھائی جائیں گی۔ بلیغ الرحمنٰ کا کہنا تھا کہ چونکہ مدنی سورتوں میں جہاد سمیت دوسرے قرآنی احکامات کا ذکر ہے اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ بچے جب نسبتاً سمجھ کے قابل ہوں تو انہیں قرآن پاک کے اس حصہ کا ترجمہ پڑھایا جائے۔ مکی سورتوں کا نصاب تیار ہو چکاہے جسے اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے رکھا گیا جبکہ مدنی سورتوں کا نصاب تیاری کے عمل میںہے۔

    سوچا حکومتی وزیر ہونے کی حیثیت سے ہو سکتا ہے بلیغ الرحمنٰ کوئی بات چھپا رہے ہوں تو نظریاتی کونسل کے ایک ممبر کے علاوہ ایک سینئر افسر سے بات کی تو دونوں حضرات نے میڈیا کی خبروں کے بالکل برعکس مجھے بتایا کہ کونسل نے تو حکومت کی اس پالیسی سے اتفاق کیا ہے۔ دونوں حضرات نے جہادسے متعلق قرآن پاک کے حصہ کو نصاب سے نکالنے کی بات کی تصدیق نہیں کی اور وہی بات کی جو بلیغ الرحمنٰ صاحب نے کی۔ کونسل نے ترجمہ میں بہتری کی کچھ تجاویز دیں اور ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا ہے حکومت جلد از جلد مدنی سورتوں سے متعلقہ نصاب کو بھی تیار کرے تا کہ قرآنی تعلیم کا یہ سلسلہ جلد از جلد شروع ہو سکے۔ جو خبر بدھ کے روز کے اخبارات میں شائع ہوئی اور جو کچھ متعلقہ وزیر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے دو معتبر ذرائع نے مجھ سے کی، اُن دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

    آج کے خبارات کی خبروں میں جہاد کی آیتوں کو نکالنےکے حوالے سے ـ’’سازش‘‘ کی بھی بات کی گئی۔ یقینا ًسازش تو کہیں ہے لیکن شاید اُس کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کے اس قابل تحسین فیصلےپر عمل درآمد کو روکا جائے۔ اگر ہمارے بچوں نے قرآن پاک پڑھ لیا، اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو سمجھ لیا تو پھر اس پر تکلیف تو ملک کے اندر اور ملک سےباہر بیٹھے بہت سوں کو ہو گی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ مختلف مکاتب فکر کےبڑےبڑے علمائے کرام سے حکومت نے متعلقہ نصاب کے سلسلے میں رابطہ کیا اور تقریباً ہر ایک نے نصاب میں شامل کیےگئے ترجمہ کواصولی طورپر منظور کرتےہوئےحکومت کے اس عمل کو سراہا۔ ترجمہ کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں علم فاونڈیشن کے متعلقہ افراد نے منگل کے روز نظریاتی کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کی اور بہتری سے متعلق تجاویز حاصل کیں۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ تمام تر سازشوں کے باوجود حکومت کس طرح اس فیصلےپر عمل درآمد کرتی ہے۔ بلیغ الرحمنٰ صاحب کے مطابق وفاقی حکومت تواس سلسلے میں کافی سنجیدہ ہے جبکہ صوبوںنےابھی اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ میری وزیر اعظم نواز شریف صاحب سے گزارش ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے وہ ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے فوری طورپر وفاقی اسکولوں کالجوں میں اس نصاب کو پڑھانے کا حکم صادر کریں۔ جہاں تک صوبوں کا تعلق ہے تو پنجاب اور بلوچستان میں تو ن لیگ ہی کی حکومت ہے جبکہ خیبر پختون خوا میں اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے جماعت اسلامی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ امید کرتےہیں کہ سندھ میں بھی اسکولوں کالجوں کے بچوں کو قرآن پڑھایا جائے گا۔ یقین جانیں اس اقدام سے یہاں بہت بہتری آئے گی

  • پارلیمنٹ یہ کیا کرنے جا رہی ہے؟؟-انصار عباسی

    پارلیمنٹ یہ کیا کرنے جا رہی ہے؟؟-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1
    جو طوفان بدتمیزی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر برپا ہے اس کی روک تھام کے لیے موثر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ جسے چاہیں بغیر کسی ثبوت کے بدنام کر دیں، پگڑیاں اچھالیں، کسی کا چہرہ کسی دوسرے کے جسم سے جوڑ کر اپنی مرضی کا اسکینڈل بنا دیں، اپنی من پسند کے جھوٹے دستاویزی ’’ثبوت‘‘ بنا کر اپنے مخالف یا جسے بھی آپ نشانہ بنانا چاہیں اُس کی عزت کو تار تار کر دیں، فحش تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کریں، گویا جو دل میں آئے کریں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کھلی چھٹی۔

    سب سے سنگین جرم جس کے لیے اسی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو استعمال کیا جاتا ہے اُس کا تعلق لوگوں کے ایمان سے ہے۔ مختلف مذاہب اور اُن سے تعلق رکھنے والی مقدس ہستیوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ان کی بے حرمتی کی جاتی ہے ۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر اسلام مخالف مواد کو پھیلایا جاتا ہے اور انتہائی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے اور انہی وجوہات کی بنا پر سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ نفرت اور شر پھیلانے والوں کے لیے اپنے مذموم عزائم پورا کرنے کا خوب موقع فراہم کرتے ہیں۔ چند سال پہلے پاکستان میں یوٹیوب کو انہی وجوہات کی بنا پر بند بھی کیا گیا جسے دوبارہ پی ٹی اے کی اس یقین دہانی پر کھول دیا گیا کہ حکومت پاکستان کی شکایت پر یوٹیوب انتظامیہ ایسے مواد کوپاکستان میںبلاک کر دے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی اے روزانہ موصول ہونے والی شکایتوں کی بنیاد پر بڑی تعداد میں اسلام مخالف انٹرنیٹ سائٹس کو بلاک کر چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

    سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے جڑے جرائم کی روک تھام کے لیے اب ہماری پارلیمنٹ ایک سائبر کرائم ایکٹ بنا رہی ہے۔ اس قانون کے ایک مسودہ کو قومی اسمبلی نے پاس کر کے سینیٹ کو بھجوایا جس نے اس بل میں کئی تبدیلیاں کر کے اس بل کو پاس کر کے دوبارہ قومی اسمبلی کو بھجوا دیا جہاں اب سینیٹ کی طرف سے ترمیم شدہ بل کو دوبارہ پاس کیا جائے گا اور اس طرح پاکستان میں پہلا باقاعدہ سائبر کرائم ایکٹ نافذ ہو جائے گا۔

    cyber crime bill 2016

    اس قانون کے بنانے میں ن لیگ کی حکومت تو کریڈٹ لے ہی رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ سینیٹ کی طرف سے ترمیم شدہ مسودہ قانون کو مجھے دیکھنے کا موقع ملا جس میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کئی جرائم کو شامل کیا گیا اور سزائیں بھی تجویز کی گئیں لیکن میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ دو انتہائی اہم معاملات کو اس مسودہ قانون میں یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ سب سے اہم معاملہ مقدس ہستیوں کی ناموس کے متعلق ہے۔ مسودہ قانون میں کسی عام فرد کی عزت اور اُس کی reputation کے تحفظ کے لیے ایسے اشخاص کے لیے سزائیں تجویز کی گئیں ہیں جو کسی دوسرے فرد کی اجازت کے بغیر اس کی تصویر انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر جاری کرے گا، اُسے بدنام کرے گایا بغیر تحقیق کوئی ایسی پوسٹ دوسروں سے شیئر کرے گا۔ لیکن پورے مسودہ قانون میں مذہبی مقدس ہستیوں کے ناموس کے تحفظ کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا میں یہ سب سے سنگین جرم ہے جس کا مقصد لوگوں کے مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں انتشار اور افراتفری پھیلانا ہوتا ہے۔ اتنا بڑا جرم کیسے ہماری پارلیمنٹ اور وہاں موجود سیاسی پارٹیوں کی نظر سے اوجھل ہو گیا اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ ایک عام فردہو یا کوئی سیاستداں ، حکمران یا کوئی دوسری عوامی شخصیت ان سب کی reputation اور عزت کے تحفظ کے لیے سائبر کرائم کے قانون میں خصوصاً دفعات شامل کی گئیں لیکن مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرانے والوں کا کوئی حوالہ ہی نہیں۔

    اس بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گستاخی کرنے والوں کے متعلق پہلے سے قانون موجود ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی عام و خاص کو بدنام کرنے اور اس کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے یا دھوکہ دہی کرنے کے متعلق ہتک عزت سمیت کئی دوسرے قوانین پہلے سے موجود نہیں۔اسی طرح سائبر کرائم قانون کا مسودہ انٹرنیٹ پر فحش مواد (Pornographic material) کو پھیلانے والوں کے لیے بھی کوئی سزا تجویز نہیں کرتا۔ مسودہ قانون بچوں کے متعلق فحش مواد کی روک تھام کی بات تو کرتا ہے اور سزا بھی تجویز کرتا ہے لیکن باقی سب کے لیے کھلی چھٹی ہے۔ فحش مواد کی سائٹس کو انٹرنیٹ پر چلانے والوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلانے والوں کو قانوناً پکڑا جانا چاہیے، انہیں سزائیں دی جانی چاہیے لیکن معاشرے کو تباہ کرنے والی یہ بیماری بھی ہماری پارلیمنٹ اور اس میں بیٹھے تقریباً چار سو ممبران میں سے کسی ممبر کو نظر نہیں آئی۔

  • وسیع تراصلاحاتی ایجنڈہ خواب تھا خواب رہے گا-انصار عباسی

    وسیع تراصلاحاتی ایجنڈہ خواب تھا خواب رہے گا-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1
    وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت خوش ہے کہ ہم نے میٹرو بس چلا دی، میٹرو ٹرین بنانے کا بھی فیصلہ کر لیا، موٹر وےکے جال کو ملک بھرمیں پھیلایاجا رہاہے، بجلی پیدا کرنےکےنئے پلانٹ لگ رہے ہیں، پاک چائینا راہداری کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے، رنگ روڈز، پل ، انڈرپاس بنائےجارہےہیں۔لیکن جب کوئی حکمرانوں سے سوال پوچھتا ہے کہ آپ نے اپنے ڈھائی سالہ دور میں اداروں کو مضبوط بنانےکےلیے کون کون سی اصلاحات کیں تو اُن کی سٹی گم ہو جاتی ہے۔ وہ آئیں بائیں شائیں کرنےلگتے ہیں۔

    اب تک حکومت کاسارا زور ترقیاتی منصوبوں تک محدود رہا جبکہ عوام کی زندگیوں میں بہتری لانےاور ان کے حقوق کے حصول کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل جامع اصلاحاتی ایجنڈا کوئی اہمیت حاصل نہ کر سکا۔ حکومت اپنے بقیہ دور حکومت میں اس سلسلے میں کیا کرتی ہے اس کےلیے سال 2016 ہی حکمرانوں کو یہ موقع فراہم کرتاہے کہ وہ اس انتہائی اہمیت کے حامل اس فرض کو نبھائیں اس سے پہلے کہ بہت دیرہو جائے۔ عوام کو اگر بہتر سفری سہولتوں کی ضرورت ہے، وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا جلد از جلد خاتمہ چاہتے ہیں، انہیں اونچی عمارتیں ، خوبصورت پل، ائیر کنڈیشنڈ بسوں یا جدید ٹرین سسٹم چاہیے تو اس سے کہیں زیادہ لوگ جلد انصاف کی فراہمی کےلیے ترس رہے ہیں۔ وہ پولیس اور سول سروس کے موجودہ نظام سے انتہائی تنگ ہیں۔ انہیں جھوٹے مقدمات اور جعلی ایف آئی آرز کا سامنا ہے۔ وہ عزت کے ساتھ میٹرو میں سفر تو کرتےہیں لیکن جب وہ اس سفر کے بعد تھانہ کچہری یا کسی سرکاری دفتر میں پہنچتے ہیں تو انہیں ذلیل کر دیاجاتاہے۔ اُن کو جائز کام کےلیے بھی سفارش یا رشوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرکاری ادارے اپنا کام ذمہ داری سے ادا کرنے کی بجائے عوام کی مشکلات اور شکایات کے حل کےلیے کچھ ایسا طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں کہ جیسے اپنا کام کر کے وہ لوگوں پر احسان کر رہے ہوں۔ لوگ اچھی تعلیم ، بہتر طبی سہولت، قانون کی حکمرانی، میرٹ کے قیام اور سفارش کا خاتمہ چاہتے ہیں جس کے لیے institutional reform )اداروں کی مضبوطی کے لیے اصلاحات ) کی اشد ضرورت ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کے دبائو کےنتیجے میں حکومت نے 2014 میں انتخابات کے سسٹم میں اصلاحات کےلیے کمیٹی بنائی جس نے 2015 میں کافی کام کیا اور امید یہ ہے سال 2016 میں ان اصلاحات کو عملی جامع پہنانے کے لیے قانونی اور آئینی ترامیم اتفاق رائے سے پارلیمنٹ سے منظور کروا لی جائیں گی۔ اس سے کم از کم انتخابی عمل کو صاف شفاف بنانے میں مدد ملے گی۔ جہاں تک وسیع تر اصلاحاتی ایجنڈے کا تعلق ہے اُس پر کچھ نہ کچھ کام تو ہوا لیکن جو اہمیت اور ترجیح ان کو ملنی چاہیے تھی وہ نہ مل سکی۔

    2016 میں اگر نواز شریف حکومت کا رویہ پہلے والا رہا تو پھر موجودہ دور حکومت میں گورننس اور سرکاری اداروں کی کارگردگی میں بہتری کی امید رکھنا بے کار ہو گا۔ نئے سال کے دوران بہت کچھ ہو بھی سکتا ہے لیکن اس کےلیے اپوزیشن خصوصاً عمران خان صاحب کو اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کرنےکے لیے خیبر پختون خوا پر توجہ دینےکے ساتھ ساتھ وفاق حکومت پرپریشر ڈالنا ہو گا۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہو گا۔ اگر اپوزیشن اور میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور اصلاحات کے نفاذکےلیے ایک مہم چلاتے ہیں تو 2016 پاکستانیوں کی قسمت بدلنے کے لیے بہت اہم ہو گا۔ اصلاحات کے لیے پولیس اور سول سروس کو فوری طور پر غیر سیاسی اور بیرونی مداخلت سے پاک کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا نظام وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے جہاں ہر افسر کو اس کی اہلیت، تجربہ اور ٹریننگ کے مطابق اُس ادارے اور پوسٹ پر تعینات کیا جائے جہاں وہ بہترین پرفارمنس دےسکے۔ سول سروس اور پولیس میں بیرونی یا سیاسی مداخلت کی وجہ سے پاکستان کو ایک ایسے المیہ کا سامنا ہے جہاں کوئی سرکاری ادارہ اپنا کام بہتر انداز میں اس لیے کرنےسے قاصر ہے کیوں کہ صحیح جگہ میں صحیح افسر (right man for the right post) کی تعیناتی کی بجائے افسروں کو ان کے تعلقات اور حکمرانوں سے وفاداری کی بنا پر حکومتی عہدے دیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی سطح پر پالیسی میکنگ اور فیصلہ سازی کا عمل تبا ہ ہو چکا ہے جبکہ ہر افسر عوام کی بجائے حکمرانوں اور طاقت ور طبقوں کو خوش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کی زیر نگرانی پلاننگ کمیشن سول سروس ریفارمزپر کچھ عرصہ سے کام تو کر رہا ہے لیکن خطرہ یہ ہے کہ ان کی تیار کردہ اصلاحاتی رپورٹس کہیں ماضی کے سول ریفارمز کمیشن اور کمیٹیز کی تیار کردہ موٹی موٹی جلدوں میںلپٹی رپورٹس کی طرح سرکاری الماریوں کی زینت ہی نہ بن کر رہ جائیں۔اس کے ساتھ ساتھ جلد انصاف کو یقینی بنانے اورایف آئی آرکے نظام کی اصلاح کےلیےپاکستان کے کرمنل جسٹس سسٹم میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ن لیگ نے اپنی 2013 کی الیکشن مہم میں وعدہ کیا کہ وہ جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانےکےلیے ضروری اصلاحات لائے گی لیکن اب تک تو ایسا نہ ہو سکا۔ کیا یہ کام 2016 میں ممکن ہو گا؟ اس بارے میں صورت حال غیر یقینی ہی رہے گی۔

    2014 اور 2015 کے دوران وفاقی وزارت قانون کے اُس وقت کے سیکرٹری بیرسٹر ظفراللہ خان نے کرمنل جسٹس سسٹم کی بہتری، جلد انصاف کی فراہمی، جھوٹے اور غیر اہم مقدمات کی روک تھام کےلیے موجودہ قوانین میں تبدیلیوںکے ساتھ ساتھ کچھ نئے قانون تجویز کئے۔ وزیر اعظم صاحب کو ایک سے زیادہ بار بریفنگز بھی دی گئیں لیکن یہ اہم ترین کام حکمرانوں کی وہ توجہ حاصل نہ کر سکا جو میٹرو منصوبے کو نصیب ہوا۔ 2016 میں کیا نواز شریف حکومت ان مجوزہ قوانین اور ترامیم پر حتمی نتیجے تک پہنچ پائے گی؟؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

    کرپشن کے خاتمےکے لیے پی پی پی اور ن لیگ نے 2007 میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ سیاسی مصلحتوں کے شکار نیب کو ختم کر کے بلاامتیاز احتساب کے لیے ایک آزاد اور خودمختار کمیشن بنایا جائے گا۔ آٹھ سال گزر گئے جس کے دوران پی پی پی نے اپنا دور حکومت مکمل کیا اور ن لیگ نے حکومت میںاپنے ڈھائی سال پورے کر لیے لیکن دونوں پارٹیاں اپنا یہ وعدہ وفا کرنے میں ناکام رہیں۔ نویں سال میں کیا آزاد اور خودمختار کمیشن بن جائے گا؟؟ یہ ممکن نظر نہیں آتا اور اس کی ایک بنیادی وجہ 2014 کی لندن سازش ہے جس نے حکمراں پارٹی کو یہ باور کرا دیا ہے کہ اُسے پی پی پی کو کسی صورت ناراض نہیں کرنا۔ یعنی پی پی پی کے گزشتہ دور کی کرپشن کو بھول جانا بہتر ہے بصورت دیگر ن لیگ کسی نئی سازش کی صورت میں اپنی حکومت شاید قائم نہ رکھ سکے۔

    یہاں ٹیکس ریفارمزکے متعلق پاکستان کے اندر سے زیادہ بیرونی دنیا ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کا دبائو ہے جس کی وجہ سے وزارت خزانہ اور ایف بی آر آہستہ آہستہ ٹیکس اصلاحات کو نافذ کرنے میں مصروف ہیں۔ کسی انقلابی اقدام کی تو یہاں توقع نہیں لیکن 2016 کے دوران ملک میں ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔ مضبوط پارلیمنٹ ہمیشہ سے یہاں ایک خواب رہا۔ پارلیمنٹ کو ہمیشہ ربرا سٹمپ کے طورپر حکومتوں اور حکمرانوں نے استعمال کیا۔ پارلیمنٹ کی مضبوطی کا تعلق قومی اسمبلی یا سینیٹ میںکی جانے والی تقریروں سے کم اورپارلیمانی کمیٹیوں کو ایسے اختیار دینے سے زیادہ ہے جو پارلیمنٹ و حکومت اور اس کے اداروں پرایک ایسے نگراں کا کردار ادا کرنے کا حق دیتا ہے جس کے ذریعے عوامی فلاح اور مفاد کو ہر فیصلے میں فوقیت دی جاتی ہے ۔ افسوس کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نہ گزرے کل مضبوط تھی اور نہ ہی وہ آنے والے کل میں اس کی مضبوطی کی کوئی توقع ہے۔

    نوٹ: میرا یہ کالم جنگ گروپ کے سالانہ میگزین ’’کیسا ہو گا 2016 ‘‘ میں شائع ہوا۔ میری توقع کے مطابق نواز شریف کی حکومت اصلاحات اور اداروں کی مضبوطی کے لیے نہ پہلے سنجیدہ تھی نہ اب ہے۔ حکومت کا سارا زور تختیاں لگانے اور سڑکیں بنانے پر ہے۔ بغیر اصلاحات اور نظام کی بہتری کے عوام کی زندگیوں میں بہتر تبدیلی کیسے آئے گی یہ وہ سوال ہے جس کی پاکستانی حکمرانوں کو نہ پہلے فکر تھی نہ اب ہے۔

  • کشمیری بھائیو معاف کرنا ہم انڈین میڈیا کے نشہ میں دھت ہیں. انصار عباسی

    کشمیری بھائیو معاف کرنا ہم انڈین میڈیا کے نشہ میں دھت ہیں. انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1 مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی بدترین ریاستی دہشتگردی کا شکار کشمیری مسلمان پاکستان کے پرچم کولہراتے ہوئے کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ صرف چند ہفتوں میں پچاس سے زیادہ کشمیری نوجوانوں کو انڈین فوج نے اس لیے شہید کر دیا کیوں کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ اپنا رشتہ ختم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ہندوستان اور اُ س کی فوج کی کشمیریوں کی پاکستان سے محبت کے خلاف نفرت کا اظہار ایک حالیہ ویڈیو (جو سوشل میڈیا میں ان دنوں شیئر کی جا رہی ہے) سے ظاہر ہوتا ہے جس میں چند ہندوستانی فوجی شہید کشمیریوں کے جسد خاکی کو چھریوں کے وار کر کے اس انداز میں بے حرمتی کر رہے ہیں کہ انسانیت شرما جائے۔

    ہندوستان کی نفرت در اصل پاکستان کے خلاف ہے جس کا اظہار وہ کشمیریوں پر اپنے ظلم و ستم ڈھا کر کر رہا ہے۔ کشمیریوں کا جرم یہ ہے کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں۔ لیکن ہم سے اور ہمارے کشمیری بھائیوں سے اس قدر نفرت کرنے والے ہندوستان کے متعلق ہماری پالیسی انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ انڈیا جو ہمارے کشمیری بھائیوں بچوں کا قاتل ہے، ہماری بہنوں بیٹیوں کی بے حرمتی کر رہا ہے اُسے ہم نے کھلی چھٹی دی ہوئی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر اپنی فلموں، ڈراموں، اشتہاروں کے ذریعے ہمیں اندر سے اس طرح کھوکھلا کر کے رکھ دے کہ ہمیں اُس کے ظلم و ستم پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔

    جوہم سے اتنی نفرت کرتا ہے کہ ہم سے محبت کرنے والے شہید کشمیریوں کی لاشوں کو چھریوں کے وار کر کر کے چھلنی کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے، ہم اُسی ظالم ہندوستان کی فلموں ڈراموں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہم ہندوستان کے فلمی اداکار اور اداکارائوں کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔ ہماری بے حسی کی یہ حالت ہے کہ وہ انڈیا جو اپنے ملک میں کسی پاکستانی ٹی وی چینل کو دکھانے کی اجازت نہیں دیتا ہے اور جس نے مقبوضہ کشمیر میں تمام ٹی وی چینلز پر پابندی عائد کر دی ہے، ہم اُسی انڈیا کے ٹی وی چینلز کو غیر قانونی طور پر پاکستان بھر میں دکھاتے ہیں جس پر نہ حکومت کارروائی کرتی ہے اور نہ ہی فوج اس مسئلہ پر بولتی ہے، بچوں کے لیے بھی ہمارے ہاں دکھائے جانے والے کارٹون چینلز میں غیر قانونی ہندی چینلز سر فہرست ہیں۔ اب تو ہماری خبریں بھارتی فلموں اور اُن کے سپر اسٹارز کی خبروں کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں جبکہ اشتہارات تو اب زیادہ تر ہندوستان کے ہی یہاں چلائے جاتے ہیں۔

    یہ سب کچھ حکومت اور فوج کے علم میں ہے لیکن کوئی بولتا ہی نہیں۔ ہندوستان اپنے میڈیا کے پروپیگنڈے کے ذریعے ہم پاکستانیوں سے ہماری پہچان چھین رہا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ہندوستان اپنے میڈیا کے ذریعے ہمارے معاشرہ اور ہمارے بچوں کی اس انداز میں ذہن سازی کر رہا ہے کہ ہم اپنے آپ کو غلط اور ہندوستان کو آئیڈیالائز کرنا شروع کر دیں اور یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں پر ہندوستان کے ظلم و ستم کے خلاف ہماری آواز میں وہ دم خم نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا مسئلہ ہو تو ہمارے ہاں اس کام کے لیے صرف اسلامی جماعتیں اپنے کارکنوں کے ساتھ جلسے جلوس منعقد کرتی ہیں جن کو ہمارا میڈیا دکھانے سے بھی گریز کرتا ہے کہ کہیں ہندوستان ناراض نہ ہو جائے۔

    ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما صرف خاص موقعوں پر کشمیریوں کے حق میں وہی گھسے پٹے بیانات دیتے ہیں جنہیں ہم سالہا سال سے سن رہے ہیں لیکن کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا جاتا۔ ہماری تو یہ حالت ہے کہ ہندوستان پاکستان میں اگر کسی کو کشمیریوں کی مدد کرنے پر دہشتگرد کہہ دے تو ہم بھی وہی کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ بلکہ اب تو دو قومی نظریہ کے حامی اخبارات میں بھی ایسے ایسے مضامین شائع کیے جا رہے ہیں جو کشمیرکے شہیدوں کی شہادت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ہم زبانی کلامی کشمیریوں سے ہمدردی کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن ہمارے دل اور دماغ میں ہندوستان ہی چھایا ہوا ہے۔ ہم اپنی تاریخ، دو قومی نظریہ اور پاکستان کے قیام کے اصل مقصد کو بھلا کر shining India کے اُس فراڈ کو سچ سمجھ بیٹھے ہیں جو ہمیں ہندوستان کا میڈیا دکھاتا ہے اور جسے دیکھے بغیر ہم اب زندہ نہیں رہ سکتے اور اسی لیے ہماری حکومت ہو، فوج، پارلیمنٹ یا عدالت کوئی ہندوستان کے میڈیا کے پاکستان پر اس حملہ کو روکنے کے لیے تیار نہیں