کوئٹہ میں حالیہ دلخراش دہشت گردی کے واقعہ کے بعد انڈین ’را‘ کے ملوث ہونے اور پاک چین راہداری منصوبہ کو نشانہ بنانے کی بات کی گئی تو کچھ لوگوں نے یہاں فوری اعتراض اٹھایا کہ انڈیا اور ’را‘ کی بات کیوں کی جا رہی ہے۔ کہا گیا کہ ثبوت پیش کریں۔ ثبوت تو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ’را‘ کا افسر کلبھوشن یادیو کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے لیکن کیا کریں ہمارے کچھ لوگوں کو نظر نہیں آتا۔ ثبوت تو نریندر مودی کا اپنا بیان ہے کہ ہندوستان نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر پاکستان توڑا لیکن اس پر ہماری زبانیں بند ہیں۔ ثبوت تو کراچی اور بلوچستان میں پکڑے گئے لاتعداد ایسے ملزمان ہیں جنہوں نے پولیس اور سکیورٹی اداروں کو بیان دیئے کہ اُن کی ’را‘ نے تربیت کی، پیسہ دیا تاکہ پاکستان میں دہشتگردی کی جائے اور کراچی اور بلوچستان کے امن کو تباہ کیا جائے۔ ثبوت تو لاتعداد JITرپورٹس میں بھی موجود ہیں لیکن جب فیصلہ ہی کر لیا جائے اپنوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اور دوسروں کو شک کا فائدہ دینا ہے تو پھر غیروں سے کیا گلہ۔ ہماری ہاں ایک طبقہ نے عجیب رویہ اپنا رکھا ہے۔
ہندوستان میں کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہو اور الزام پاکستان پر لگادیا جائے تو اس پر اندھا یقین کر لیتے ہیں اور اپنی باتوں میں، اپنے بیانات سے، ٹی وی ٹاک شوز میں طنز کے تیر اپنے ہی اداروں اور لوگوں پر لگاتے ہیں جیسے جو ہندوستان نے کہا وہ بالکل سچ ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر بھارتی اور دوسری غیر ملکی ایجنسیوں کی پاکستان کے اندر دہشتگردی پھیلانے کی سازش کی بات کی جائے تو کہتے ہیں دوسروں پر الزام مت لگائو اپنے آپ کو ٹھیک کرو۔ اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی بات درست لیکن غیر ملکی ایجنسیوں کو معصوم اور سارا ملبہ اپنے ہی اداروں پر ڈالنے کا رجحان قابل مذمت ہے۔
حالیہ سالوں میں یہ رجحان بڑھ گیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ اس طبقہ کی میڈیا میں خوب حوصلہ افزائی ہے۔ بھارت امریکا اور کچھ دوسرے ممالک افغانستان کی سرزمین کو پورے طریقہ سے پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیںلیکن سوال یہاں صرف یہی اٹھایا جاتا ہے کہ ہم افغان طالبان کو امریکا ااور بھارت کی خواہش کے مطابق کچلنے میں اُن کی مدد کیوں نہیں کرتے۔ کوئی پوچھے جب افغان طالبان ہمیں کچھ نہیں کہتے توہم اُن کو بھی اپنا دشمن کیوں بنا لیں۔ افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے دوسرے ممالک کی ڈبل گیم پر تو اس طبقہ کو کوئی اعتراض نہیں لیکن اُن کو اس بات پر تکلیف ضرور ہے کہ پاکستان اپنے بچائو کے لیے کوئی تدبیر کیوں کر رہا ہے۔ ان کا مشورہ یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن افغانستان کو جس طرح چاہیں ہمارے خلاف استعمال کریں، سازشیں بنیں، پاکستان کے اندر دہشتگردی کی کارروائیاں کروائیں لیکن ہم اگر چاہیں کہ ہمارا بھی کوئی افغاستان میں ہمدرد ہو تو ایسا کرنا تو جرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ہندوستان حافظ سعید صاحب کے خلاف بات کرتا ہے اور انہیں ممبئی حملہ کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے تو ہمارے ہی کچھ لوگ ہندوستان کی زبان بولتے ہوئے حافظ سعید اور اُن کی فلاحی تنظیم کو خوب کوستے ہیں انہیں گڈ طالبان کا طعنہ دیتے ہوئے حکومت اور فوج سے سوال کرتے ہیں کہ گڈ طالبان کو کیوں نشانہ نہیں بنایا جاتا۔
اس کے برعکس سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ جس میں سیکڑوں پاکستانیوں کو شہید کیا گیا جس میں ہندوستان کی فوج کے افسران بھی شامل تھے اس واقعہ پر تو ہمارے یہ سیانے بات ہی نہیں کرتے۔ ان کا بس چلے تو حافظ سعید کو فوری ہندوستان کے حوالے کر دیں لیکن سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرموں کی پاکستان حوالگی کی بات کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی یہ کہے کہ ہمارے انٹیلیجنس اور سکیورٹی اداروں کو اپنا کام بہتر بنانا چاہیے، باہمی تعاون کو بڑھانا چاہیے اور ’را‘ اور دوسری غیر ملکی ایجنسیوں کی سازشوں کو ناکام بنانا چاہیے اس پر تنقید برائے اصلاح ہو تو بہتر ہے لیکن اگر اس موقع پر کوئی یہ چاہے کہ اپنے اندر کا بغض اور عناد کو نکالا جائے تو ایسا کرنا پاکستان کے مستقبل کے لیے بہتر نہیں۔ جہاں تک دہشتگردی کا تعلق ہے تو یہ ماننے کی بات ہے کہ پہلے کے مقابلہ میں حالات بہت بہتر ہوئے چاہے وہ کراچی ہو، بلوچستان یا ملک کا کوئی دوسرا علاقہ۔ اس سلسلے میں فوج، پولیس، ایف سی، رینجرز، انٹیلیجنس اداروں وغیرہ کا کردار بہت اہم رہا۔ بجائے اس کے کہ ہم کوئٹہ سانحہ کے بعد ان سب کو بـُرا بھلا کہنا شروع کر دیں، ہمیں مثبت انداز میں اپنے اندرموجود کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے تا کہ دہشتگردی کے ناسور کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ جو لوگ اس موقع پر بدلے اتارنے کی روش روا رکھے ہوئے ہیں انہیں چاہیے کہ اس کے لیے کسی اور وقت کا انتظار کر لیں۔
تبصرہ لکھیے