Author: انصار عباسی

  • ٹرمپ نے وہ کہا جو اوبامہ اور بش نے ہمارے ساتھ کیا-انصار عباسی

    ٹرمپ نے وہ کہا جو اوبامہ اور بش نے ہمارے ساتھ کیا-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    تجزیے، سروے، پیشن گوئیاں اور اندازے سب ہار گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے۔ امریکیوں نے ایک ایسے شخص کو اپنا صدر منتخب کر لیا جس کے بارے میں امریکا میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک متعصب، منفی، بدکردار اور بدزبان شخص ہے جو مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے اور اگر ایسا شخص امریکی صدر بن گیا تو امریکا میں اقلیتوں کے لیے خطرہ ہو گا اور وہاں شدت پسندی زور پکڑے گی۔ پی پی پی کی رہنما شیری رحمان سمیت ہمارے کچھ لوگوں کی رائے میں امریکا ٹرمپ کی جیت کے بعد مایوسی کی حالت میں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی اکثریت نے ایک ٹرمپ کو اُس کی تمام تر خرابیوں کے ساتھ اپنا صدر منتخب کیا اور وہ اس انتخاب پر جشن بھی منا رہے ہیں۔ ہاں ہمارے ہاں بہت سو لوگ صدمہ میں ضرور ہیں۔ اُن کے لیے ہیلری کلنٹن تو جیسے پاکستان کی کوئی اپنی امیدوار تھیں اور ٹرمپ کوئی دشمن۔ چند ہفتوں پہلے میں نےسوشل میڈیا میں امریکی صدارتی امیدواروں کے حوالے سے لکھا تھا کہ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف اُس سے زیادہ کیا کچھ کر سکتا ہے جو خصوصاً 9/11 کے علاوہ بش اور ابامہ نے کیا۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل و غارت بش اور ابامہ کے ادوار میں ہوا۔

    ٹرمپ اس سے زیادہ بُرا کیا کرے گا۔ ٹرمپ سے پہلے امریکا نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں تباہی و بربادی پھیلا دی جس میں ہمارے ـ’’اپنی‘‘ ہیلری کلنٹن کا بھی ان جرائم میں اہم حصہ رہا۔ پاکستان کو امریکا نے ہمیشہ دھوکہ دیا، استعمال کیا۔ 9/11 کے بعد ہمارے ملک کو دہشتگردی کا نشانہ بنوایا، یہاں ڈرون حملے کیے اور سینکڑوں افراد بشمول عورتوں اور بچوں کو مارا، ایبٹ آباد حملہ کیا، سلالہ میں ہمارے کئی فوجیوں کو شہید کیا، پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا اور یہاں افراتفری پھیلانے کا سامان پیدا کیا۔ اب ٹرمپ اس سے زیادہ پاکستان کو کیا نقصان پہنچائے گا۔ تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیری مزاری نے کیا خوب کہا کہ ہیلری وہ شیطان ہے جسے ہم جانتے ہیں جبکہ ٹرمپ وہ شیطان ہے جسے ہم نہیں جانتے۔ خاص بات یہ کہ دونوں (ہیلری اور ٹرمپ)پاکستان ہو یا مسلمان اُن کے خیر خواہ نہیں۔ ٹرمپ اور دوسروں میں جو فرق ہے وہ صرف اتنا کہ ٹرمپ کی مسلمانوں سے نفرت اُس کی زبان پر ہے جبکہ دوسروں نے اپنے اندر چھپا کر رکھی ہے۔ اس لیحاظ سے تو ٹرمپ دوسروں سے بہتر ہے کیوں کہ جو اُس کے دل میں ہے وہ اس کی زبان پر بھی ہے۔ٹرمپ اپنی زبان سے مسلمانوں کے خلاف تعصب کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کوامریکا میں داخل نہیں ہونے دے گا، وہ کہتا ہے کہ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام پر سخت نظر رکھے گا تا کہ وہ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں نہ جائے اور یہ بھی کہ وہ ہندوٗں اور بھارت کا دوست ہے۔ تو کیا یہ سب کچھ ابامہ اور بش نے اپنے اقدامات سے ثابت نہیں کیا۔

    نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے امریکا نے پاکستان کو استعمال کیا، پاکستان کے اندر دہشتگردی کی لعنت کو دھکیلا۔ پاکستان کے احسانوں کا بدلا یہ دیا کہ پہلے افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کو بڑھایا اور اب مکمل طور پر اپنا جھکائو بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف کر دیا۔ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کو شک کی نظر سے ہی امریکا دیکھتا رہا جبکہ بھارت کے ساتھ نہ صرف نیوکلئیر انرجی تعاون کا معاہدہ کیا بلکہ اُسے نیوکلئیر سپلئیرز گروپ میں شامل کرنے کے لیے اپنی مہم چلا رہا ہے۔ جو کچھ ابامہ اور ہیلری نے بھارت کے لیے گزشتہ آٹھ سالوں میں کیا اُس کو ٹرمپ نے زبان دی۔ ہاں اس الیکشن میں جیت سے امریکیوں کا چہرہ ضرور بے نقاب ہو گیا جس پر ٹرمپ کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے۔ امریکیوں کے بارے میں اب بہت سوں کی یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ وہ بہت شاندار اور کھلے دل کے لوگ ہیں۔ امریکی ووٹرز نے اس تاثر کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ امریکی انتظامیہ کے مسلمان اور اسلام مخالف تعصب اور پالیسیوں کا امریکی عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ امریکی لوگ تو بڑے غیر متعصب ہوتے ہیں۔ ٹرمپ الیکشن جیتنے کے بعد کیا کریں گے اس پر بحث بعد میں ہو گی لیکن اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ اُن کی جیت نے امریکی ووٹرز کے اندر کے بغض خصوصاً مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کو سب پر ظاہر کر دیا۔

    میری ذاتی رائے میں جو امریکا میں ہوا وہ اچھا ہوا۔ ٹرمپ کی جیت امریکا کو اُسی طرح کمزور کرسکتی ہے جس طرح Brexit کے نتیجے میں برطانیہ اور یورپ کو خطرات کا سامنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کمزور امریکا اور منقسم یورپ مسلمانوں پر پہلے جیسا ظلم ڈھانے کے قابل نہیں ہوں گے اس لیے امریکی الیکشن نتائج اور Brexit سے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس ماحول میں مسلمانوں کو بھی ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے، اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کوتاہیوں کو دور کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم امریکا و یورپ کی غلامی میں ہی اپنا مستقبل محفوظ رکھنے کے دھوکہ میں پڑے رہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک آپس میں تعاون اور رابطوں کو بڑھائیںتاکہ غیروں کی سازشوں کا مل کر مقابلہ کیا جاسکے۔

  • نواز شریف اور عمران خان دونوں احتساب سے بھاگ رہے ہیں-انصار عباسی

    نواز شریف اور عمران خان دونوں احتساب سے بھاگ رہے ہیں-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    چاہے نواز شریف ہوں یا عمران خان یقین کر لیں کہ احتساب کے نام پر صرف سیاست ہو رہی ہے۔ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنے کے دعوے بھی سب دکھلاوا اور سیاسی چالیں ہیں۔ ورنہ جب عمل کا وقت آتا ہے تو سب اپنے کہے سے بڑی آسانی سے پھر جاتے ہیں اور عوام کا حال یہ ہے کہ کوئی نوٹس بھی نہیں لیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں احتساب کا ایک ایسا نظام جو بغیر کسی ڈر اور خوف کے ہر کرپٹ کو پکڑے، اُس کے لیے نہ کوئی کوشش کر رہا ہے اور نہ ہی یہ ہمارے سیاستدانوں کا مقصد ہے۔ تمام تر سیاسی چالوں اور ایک دوسرے کے خلاف دائو پیچ کا مقصد وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنا یا اُسے اپنے لیے محفوظ بنانا ہے۔ویسے تو وزیر اعظم نواز شریف صاحب کا کہنا ہے کہ احتساب کا عمل اُن سے اور اُن کے خاندان سے شروع کریں۔ عمران خان صاحب بھی کہتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں کیوں کہ اُن کے پاس تو چھپانے کو کچھ ہے ہی نہیں۔

    رہی بات آصف علی زرداری صاحب کی تو وہ کہتے ہیں کہ اُن کا احتساب بہت ہو چکا لیکن کچھ ثابت نہ ہوااور محض الزامات کی بنیاد پر انہیں گیارہ سال جیل میں گزارنا پڑے۔ کاش جو یہ سب کہہ رہے ہیں سچ ہوتا۔ لیکن حقیقت میں کوئی بھی احتساب کے حق میں نہیں۔ صرف دوسرے کے احتساب کی بات ہوتی ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب اُن کی سیاست کے لیے ایسا کہنا اور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ عوام کو بیوقوف بنانے کا یہ ڈرامہ نجانہ کب تک جاری رہے گا۔ اگر سچ جاننا ہے تو عوام کو چاہیے کہ صرف یہ دیکھ لیں کہ الیکشن کمیشن میں کیا ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف اور کچھ دوسری سیاسی جماعتوں نے پاناما لیکس کی بنا پر الیکشن کمیشن کے سامنے وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے ریفرنس دائر کیے۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے بھی اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف نااہلی کے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوا ئے گئے۔ اس سے قبل بھی الیکشن کمیشن کے پاس عمران خان کی نااہلی کا ایک ریفرنس دائر ہے۔ ان ریفرنسوں میں ان رہنمائوں کو کرپشن، ٹیکس چوری، اثاثہ جات چھپانے اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ ن لیگ والے کہتے ہیں کہ میاں صاحب کے خلاف الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ تحریک انصاف کہتی ہے کہ عمران خان کی ایمانداری پر تو کوئی ویسے ہی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ جو یہ کہتے ہیںاگر سچ ہے، اگر سب اپنے آپ کو احتساب کے سامنے پیش کرنے کے لیے واقعی تیار ہیں، اگر اُن کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر الیکشن کمیشن کے ذریعے ان دونوں رہنمائوں کے پاس سنہری موقع ہے کہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو جھوٹا قرار دلوائیں۔ زرہ سنیے کہ ہو کیا رہا ہے۔

    گزشتہ ماہ کے اوائل میں خان صاحب کے وکیل الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور سوال یہ اٹھا دیا کہ الیکشن کمیشن تو ایسے معاملات کو سننے کا قانونی اختیار ہی نہیں رکھتا۔ چیف الیکشن کمشنر نے خان صاحب کے وکیل کو بولا کہ ایک طرف تو تحریک انصاف وزیر اعظم کے خلاف کمیشن کے سامنے ریفرنس دائر کر کے مطالبہ کرتی ہے کہ نواز شریف کو نا اہل قرار دیا جائے لیکن دوسری طرف عمران خان کے خلاف ایسے ہی ایک ریفرنس کے متعلق یہ قانونی نقطہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کمیشن کے پاس تو اختیار ہی نہیں کہ اس معاملہ کو دیکھے۔ چیف الیکشن کمشنر نے تحریک انصاف کے وکیل سے پوچھا کہ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔ جہانگیر ترین کے وکیل جب الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تو اُنہوں نے بھی الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اس ریفرنس کو تو کمیشن سن ہی نہیں سکتا۔ وزیر اعظم کے خلاف دائر ریفرنس کے سلسلے میں حکومتی وکیل نے بھی یہی کہا اور سوال اٹھا دیا کہ الیکشن کمیشن تو یہ معاملہ سن ہی نہیں سکتا۔ یعنی دونوں ن لیگ اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے رہنمائوں کی نااہلی کے لیے تو قانونی طور پر الیکشن کمیشن کو جائز ادارہ سمجھتے ہیں لیکن جب اپنے اپنے رہنما کی باری آتی ہے تو کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو یہ اختیار ہے ہی نہیں۔

    اور پھر جو میاں صاحب نے کہا تھا کہ میں احتساب کے لیے تیار ہوں اور جو عمران خان نے کہا تھا کہ احتساب اُن سے شروع کرو کیوں کہ اُن کے پاس تو چھپانے کو کچھ ہے ہی نہیں، اگر وہ سب سچ تھا تو پھر یہ چھپنا کیسا، الیکشن کمیشن کے اختیار کو ہی چیلنج کرنے کی کیا وجہ، جو دوسروں کے لیے پسند کرتے ہو اپنے لیے کیوں ناجائز سمجھتے ہو۔ جو لوگ جانتے ہیں اُن کے مطابق اگر ن لیگ اور میاں نواز شریف فیملی کے لیے پاناماپیپرز کے متعلق معاملات نازک ہیں تو عمران خان صاحب کے ٹیکس اور آف شور کمپنی کے مسائل بھی کچھ آسان نہیں جبکہ جہانگیر ترین کا معاملہ بھی گڑبڑہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر احتساب سے بھاگنے کا کیا جواز ہے۔ کیسوں کا سامنا کرو اور مخالفین کو جھوٹا ثابت کرنے کے اس موقع کو ضائع مت کرو۔

    اگر تکنیکی اور قانونی بہانہ بازی پر زور رہا تو پھر ہمارے نظام میں کسی کرپٹ کو سزا مل ہی نہیں سکتی۔ اس نظام کو درست کرنے کی بات کیوں نہیں ہو رہی، اس کے لیے عملی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جا رہے۔ سب کچھ پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ، نیب، ایف بی آر، ایف آئی اے کے سامنے ہونے کے باوجود ہمارے اداروں کو کچھ نظر نہیں آتا۔ پاکستان کا المیہ دیکھیں کہ ہمارے پاس کوئی ایسا نظام نہیں جو خود بخود کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے معاملات میں بغیر کسی سیاسی دبائو کے میرٹ کے مطابق کرپٹ کو پکڑے اور اسے سزا دے چاہے اُس کا تعلق حکومت سے ہو، اپوزیشن سے یا کسی اورادارے سے۔ یہاں تو تکنیکی بنیادوں پر ہی ایک ہر کو کلین چٹ دے دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں تو قانون، قا عدے بنائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ مشکوک اور کرپٹ لوگوںکو بچ نکلنے کا موقع مل جائے۔ اس سسٹم کو تبدیل کرنے کے لیے سب نعرہ تو لگاتے ہیں، اپنے اپنے پارٹی منشور میں بھی بات کرتے ہیں لیکن حقیقی تبدیلی کے لیے کوئی عملی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ سیاست صرف کرسی کے حصول کی جنگ بن کر رہ گئی ہے۔

  • اسکول پڑھائی کے لیے یا نشہ آوری کے لیے-انصار عباسی

    اسکول پڑھائی کے لیے یا نشہ آوری کے لیے-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    ہم بچوں کوا سکول کالج پڑھنے لکھنے کے لیے بھیجتے ہیں تاکہ اُن کا مستقبل بنے لیکن ہمیں خبر بھی نہیں اور ہمارا ہر دوسرا بچہ منشیات کا عادی بن رہا ہے۔ گھر میں، خاندان میں کوئی سگرٹ بھی نہیں پیتا لیکن بچے چرس، ہیروئین اور دوسری منشیات کے عادی بن رہے ہیں اور اس کے لیے مواقع اسکول فراہم کر رہے ہیں۔ یعنی جن تعلیمی اداروں میں ہم اپنے بچوں کو اُن کے روشن مستقبل کے لیے بھیجتے ہیں وہیں اُن کے اور اس قوم کے مستقبل کو تاریک کرنے کا مکروہ دھندا جاری ہے۔ گزشتہ ہفتہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ اسلام آباد کےا سکولوں میں 53 فیصد بچے منشیات کے عادی ہیں۔ معصوم بچوں کو نشہ فروخت کرنے والوں میں کچھ اساتذہ کے ساتھ ساتھ پہلے سے نشہ کے عادی طلباء و طالبات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بریفنگ کے مطابق اسکول کے باہر کھوکھے اور ریڑھی والے بھی اسکول کے بچوں کو منشیات کی فروخت کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اگر یہ سنگین حالت اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی ہے تو دوسرے شہروں اور قصبوں میں رہنے والوں کا کیا حال ہو گا۔

    کسی قوم اور ملک میں اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ بے خبری میں پوری نسل کو مکمل تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس خبر پر ملک میں ایک بھونچال آ جانا چاہیے تھا لیکن نہ میڈیا نے اس مسئلہ پر کوئی خاص توجہ دی نہ ہی سیاست دانوں اور حکمرانوں نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس سے بڑی دہشتگردی، اس سے بڑا ظلم، اس سے بڑی زیادتی کسی قوم کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ ہمارے بچوں کے مستقبل کو تاریک کیا جا رہا ہے اور ہم یوں بیٹھے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ چئیرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ عبدالرحمن ملک صاحب اگرچہ خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس مسئلہ پر توجہ دی، اسے کمیٹی میں اٹھایا اور حکومت سمیت تمام متعلقہ اداروں سے منشیات کی لعنت کے خلاف جہاد کرنے کی اپیل کی اور اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیش کیں۔ ملک صاحب نے اپیل کی کہ حکومت، فوج، سیاسی جماعتوں، سول سوسائیٹی کے علاوہ ہر شہری کو منشیات کے خلاف جنگ میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ ملک صاحب نے تجویز پیش کی کہ نہ صرف پیمرا کو ٹی وی چینلز کو قومی مفاد میں پابند کیاجائے کہ وہ منشیات کی لعنت کے خلاف قوم میں آگاہی پھیلانے کے لیے ایک بھرپور مہم چلائیں بلکہ منشیات فروشوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن کیا جائے۔

    اس کے ساتھ ساتھ تمام اسکولوں کالجوںمیں ایک ایسا مانیٹرنگ سسٹم بنایا جائے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی فروخت اور اس کے استعمال کو ناممکن بنایا جاسکے۔ ملک صاحب نے یہ بھی تجویز کیا کہ طلباء و طالبات کوٹیسٹ بھی کیا جائے تا کہ معلوم ہو سکے کہ کون کون نشہ کی لعنت کا شکار ہو چکااور کس طرح نشہ کے عادی طلباء و طالبات کا علاج کیا جائے۔یہ بھی کہا گیا کہ جن تعلیمی اداروں کے بارے میں یہ رپورٹ آئے کہ وہاں کے بچے منشیات کا استعمال کر رہے ہیں تو ایسے اداروں کو بند کر دیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت بغیر وقت ضائع کیے صوبوں کے ساتھ مل کر اس لعنت کے خاتمہ کے لیے جنگ کا آغاز کرنا چاہیے اور یہ حکمت عملی بنانی چاہیے کہ کس طرح ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے ماحول کو منشیات کے اثر سے مکمل طور پر پاک کیا جائے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ منشیات کی فروخت ہمارے معاشرہ میں عام ہے۔ نہ صرف منشیات کے اڈوں کو بند کرنے کے لیے ملک بھر میں کریک ڈائون کیا جائے بلکہ اس گھنائونے کاروبار میں شامل افراد کو بھی نشان عبرت بنایا جائے۔

    اس کے ساتھ ساتھ شیشہ سینٹروں کو بھی ملک بھر میں بند کیا جائے کیوں کہ شیشہ کے بہانے بھی قوم کے بچوں کو منشیات کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ اس سلسلے میں پہلے ہی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایات دے چکی ہے۔ عدالت اعظمیٰ نے وزارت تجارت کو بھی احکامات جاری کیے ہیں کہ شیشہ کی درآمد پر پابندی لگا دی جائے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان اہم ترین معاملات میں حکومت سو رہی ہے۔ جو کچھ سینیٹ قائمہ کمیٹی نے منشیات کے استعمال کو روکنے اور اس لعنت سے تعلیمی اداروں کو پاک کرنے کے لیے تجویز کیا اور جو کچھ عدالت اعظمیٰ نے شیشہ کے استعمال پر پابندی کے بارے میںکہا، یہ تو بنیادی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں لاکھوں افراد منشیات کے عادی ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس کے لیے حکومت کو ایک نیشنل ایکشن پلان بنانا چاہیے۔ اس معاملہ کا تعلق چوہدری نثار علی خان کی وزارت سے ہے۔وزیر داخلہ سے درخواست ہے کہ خدارا اس معاملے میںسردمہری مت دکھائیں۔ اگر کوئی سمجھے تو یہ مسئلہ تو دہشتگردی سے بھی زیادہ سنگین ہے۔

  • بھارت کے لیے حافظ سعید کو بُرا کہنے والے-انصار عباسی

    بھارت کے لیے حافظ سعید کو بُرا کہنے والے-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1 آپ نے کتنی مرتبہ ٹی وی چینلز میں بیٹھے ’’سیانوں‘‘ کو اپنے تبصروں اور تجزیوں میںبھارت میں سمجھوتہ ایکسپریس دہشتگردی کے واقعہ میں سگندلی سے جلاکر مارے جانے والے لاتعداد پاکستانیوں کے مجرم بھارت کو کوستے سنا۔ اس دہشتگردی کے واقعہ سے انڈین فوج کے ڈانڈے ملے اور ایک با وردی کرنل اس جرم میں ملوث پایا گیا لیکن ہمارے کتنے پروگرامز میں انڈین فوج کو دہشتگردی سے جوڑا گیا۔ ہندو شدت پسند تنظیم Abhinav Bharat جسے ریٹائرڈ بھارتی فوجیوں نے قائم کیا اور جس کا سمجھوتہ ایکسپریس دہشتگردی کے واقعہ سے تعلق جوڑا گیا کیا اُس کے بارے میں کبھی ہم نے اپنے ٹی وی چینلز میں سنا کہ یہ تنظیم اور اس کے اراکین انڈین نان اسٹیٹ ایکٹرز کے طور پر بھارتی فوج کی ایما پر مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف کس طرح دہشتگردی کر رہے ہیں۔ براہمداغ بگٹی کو کئی سالوں سے بھارت پاکستان کے خلاف بلوچستان میں دہشتگردی پھیلانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

    براہمداغ کھلے عام پاکستان توڑنے کی بات کرتا ہے اور بھارتی پیسے سے بلوچستان میں دہشتگردی کے ذریعے سیکڑوں معصوم پاکستانیوں کو مروا چکا ہے۔ براہمداغ بگٹی کابھارت کی شہریت حاصل کرنے کی درخواست اور پاکستان کے خلاف کام کرنے کے عزم نے اس غدار کابھارت سے گٹھ جوڑ دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا لیکن ایسے بلوچ غداروں کے خلاف بھی میڈیا کے ہمارے ’’سیانے‘‘ کم کم ہی زبان کھولتے ہیں۔ وہ اگر کھل کر کسی کے خلاف بات کرتے ہیں، گلا پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہیں، روز روز ایک ہی بات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں تو اُس وقت جب نشانہ پر حافظ سعید اور جماعۃ دعوۃہوں۔ بھارت کہتا ہے کہ حافظ سعید اور جماعۃ دعوۃ دہشتگرد ہیں۔ ہمارے ’سیانے‘ بھی یہی زبان بولتے ہیں۔ بھارت کہتا ہے کہ ممبئی حملہ کے پیچھے حافظ سعید ہیں، ہمارے سیانے بھی اسی بات پر یقین کرتے ہیں حالانکہ امریکا تک نے کہہ دیا کہ ممبئی حملوں کے متعلق پاکستان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں۔بھارت کہتا ہے کہ حافظ سعید کیوں پاکستان میں آزاد گھومتے ہیں اور اُن کی تنظیم کو فلاحی کام کرنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے۔ ہمارے ’’سیانے‘‘ بھی یہی کہتے ہیں کہ حافظ سعید کو پکڑا کیوں نہیں جا رہا اور اُن کی فلاحی تنظیم پر کریک ڈائون کرنے میں کیوں ہچکچاہٹ ہے۔

    بھارت کی طرح ہمارے سیانے بھی حافظ سعید اور اُن کی تنظیم کو دہشتگردی سے جوڑتے ہیں۔ بغیر کسی ثبوت کے بھارت الزام لگاتا ہے کہ ہماری فوج اور آئی ایس آئی نان اسٹیٹ ایکٹرز کوبھارت کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ ہمارے سیانے بھی مودی کے انڈیا کی نقل میں پاکستان کی فوج اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کا ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔ فوج اور حکومت کو طعنے دیئے جاتے ہیں کہ گڈ طالبان (یعنی جماعۃ دعوۃ اور وہ افغان طالبان جو پاکستان مخالف نہیں) کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا۔ حافظ سعید اگر کوئی جلسہ جلوس نکالیں تو کہا جاتا کہ ہے کالعدم تنظیموں کو حکومت اور فوج پال رہی ہے اور یہ نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی ہے۔بھارت کا کیس لڑنے والے ہمارے ’’سیانے‘‘ دن رات جھوٹ بولتے ہیں کہ حافظ سعید اور اُن کی تنظیم کا شمار پاکستان کی کالعدم تنظیموں میں شامل ہے۔ اس بارے میں نیکٹا (National Counter Terrorism Authority) کے ویب سائٹ کو دیکھ لیں حقیقت سامنے آ جائے گی۔ گزشتہ سال سیکریٹری خارجہ نے سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ جماعۃ دعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کالعدم تنظیموں میں شامل نہیں ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی پابندی عائد ہے۔ پاکستان کی عدالتوں نے حافظ سعید کو بھارت کی طرف سے لگائے گئے الزامات سے بری کیا لیکن ہمارے ’’سیانوں‘‘ اور مودی سرکار کے حافظ سعید اور اُن کی تنظیم سے متعلق لب و لہجہ میں کوئی فرق نہیں۔ اگر کوئی پاکستانی یا کوئی تنظیم کسی دوسرے ملک میں دہشتگردی کرتی ہے تو اُسے ضرور پکڑیں، اُسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور سزا دلوائیں لیکنبھارت کے پروپیگنڈےکی بنیاد پر پاکستان سے محبت کرنے والوں کو صرف اس لیے نشانہ بنایا جائے کیوں کہبھارت ان پر ہر الزام تھوپتا ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہے۔ پاکستان کے اندر حافظ سعید اور ان کی تنظیم کے لوگ فلاحی کاموں کی وجہ سے جانتے ہیں۔ حافظ سعید کھل کر کشمیر کی آزادی کی بات کرتے ہیں اور یہ وہ بات ہے جو بھارت کو ہضم نہیں ہوتی۔

    آخر میں ایک افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ ڈان اخبار کی خبر کے بعد کچھ ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ سول اور ملٹری ایک دوسرے کے سامنے آ جائیں۔ اس سلسلے میں میڈیا میں کچھ لوگ سول اور فوج کو لڑانے کے چکر میں ہیں۔ کچھ سیاستدان بھی جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں اور اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اُن کو اس سے کچھ مل جائے گا۔

  • اپنی ہی نسل کی تباہی کا تماشہ دیکھنے والی قوم-انصار عباسی

    اپنی ہی نسل کی تباہی کا تماشہ دیکھنے والی قوم-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    ایک جاننے والے کا فون آیا۔ پریشان تھے۔ کہنے لگے میری بیٹی ساتویں جماعت میں ایک انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتی ہے۔ اس عمر میں بھی اب بچوں کو پڑھائی کے لیے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو لازم بنا دیا گیا ہے ورنہ جو اسکول تعلیم دے رہا ہے اُس کا حصول ممکن نہیں۔ بچی کے والد کا کہنا تھا کہ وہ دفتر میں تھے تو گھر سے بیوی کا فون آیا اور کہنے لگی کہ بیٹی نے مرد اور عورت کے درمیان جنسی تعلق کے بارے میں ایک سوال کر دیا جس کے بارے میں اُس بچی کو سمجھ نہ تھی لیکن ماں کے لیے جواب دینا ممکن نہ تھا۔ ماں نے بچی سے پوچھا یہ سوال کس نے بتایا تو پتا چلا کہ انٹرنیٹ پر اسکول کے دیئے ہوئے کام کے متعلق مواد تلاش کر تے ہوئے خود سے بیہودہ سائٹس کے لنکس کمپیوٹر اسکرین کی سائیڈز پر ظاہر ہونے والے سسٹم کا نتیجہ ہے۔ بچی نے وہ لنکس تو نہ کھولے لیکن اُن پر درج ایک ایسی عبارت کو پڑھ کر ماں سے سوال کر دیا جس کا مطلب وہ بچی نہ جانتی تھی۔ پریشان باپ مجھ سے پوچھنے لگا کہ وہ ماں باپ اب کیا کریں۔ ہم اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں، ہمارے بچے بھی تعلیم میں دلچسپی لیتے ہیں لیکن اُنہیں انٹرنیٹ کے ذریعے ایک ایسے دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے جو ان کی تربیت، تعلیم اورکردار سب کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

    وہ صاحب کہنے لگے اسکول والوں سے کوئی پوچھے کہ اتنے چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لیے کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کا استعمال کیوں لازم بنا دیا گیا۔ اب والدین کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ہر وقت بچوں کے سر پر کھڑے رہیں کہ کہیں اُن کا بچہ خود سے کمپیوٹر اسکرین پر کھلنے والی بیہودہ سائٹس کو کھول نہ لیں۔ انٹرنیٹ کی حالت تو یہ ہےکہ آپ کوئی اخبار پڑھنے کے لیے سائٹ کھولے تو اسکرین کی سائٹ پر گندے اشتہارات ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔انٹرنیٹ کو اس طرح کا بنا دیا گیا ہے کہ اس کو استعمال کرنے والے کو ہر وقت دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنا مثبت کام چھوڑ کر بیہودگی کی طرف آئے۔ ان حالات میں بچے بچارے کیا کریں اور یہ وہ خطرہ ہےسے جس کا ہم سب کو سامنا ہے۔ ہم اپنے بچوںکو سمجھا سکتے ہیں، انہیں اچھے بُرے کی تمیز بتا سکتے ہیں لیکن جب گناہ کی دعوت کا انداز اتنا عام اور بے ہودگی پھیلانے کی کھلی چھٹی ہو تو خطرہ یہی ہوتا ہے کہ بچوں کی تعلیم پر منفی اثرات پڑیں گے اور اُن کی کردار سازی میں خربیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے وزارت تعلیم اور تعلیمی اداروں کو سوچنا چاہیے لیکن میری نظر میں اس کا اصل علاج حکومت کے پاس ہے جس پر اُس کی توجہ نہیں۔

    کتنے عرصہ سے میں یہ لکھ رہا ہوں، موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں سے اعلیٰ ترین سطح پر گزارشات کر چکا ہوں کہ خدارا پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے اسلام مخالف (گستاخی سے متعلق) اور جنسی مواد کو پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے لیے مکمل بلاک کیا جائے لیکن افسوس نہ پچھلے حکمرانوں نے سنا نہ ہی موجودہ حکمرانوں نے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا۔ حال ہی میں سائیبر کرائم کا قانون بنایا گیا جس کے متعلق میرا سب سے بڑا اعتراض ہی یہی تھا کہ اس قانون میں مقدس ہستیوں کی گستاخی اور جنسی بیہودگی جیسے سنگین جرائم کو قانون میں شامل ہی نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسے سنگین جرائم کرنے والوں کے لیے کوئی سزا رکھی گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہماری حکومتیں ایسے معاملات کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتیں باوجود اس کے کہ سب کو معلوم ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ جس گندگی اور بیہودگی کی تعلیم انٹرنیٹ کے ذریعے دی جاتی ہے اُس پر عمل کرنے کے معاشرہ میں جنسی کاروبار کے اڈوں کے ساتھ ساتھ منشیات اور جوئے کے اڈوں کی معاشرہ میں بھرمار ہے لیکن کوئی روکنے والا نہیں۔ ایک خبر کے مطابق صرف لاہور شہر میں ایک ہزار نو سو چھ (1906) ایسے اڈے چل رہے ہیں جن میں جنسی کاروبار ہوتا ہے، منشیات بیچی جاتی ہیں اور جوا کھیلا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ لاہور پنجاب کا دارالحکومت ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گورننس اورحکومتی عمل داری کے لحاظ سے یہ بہترین جگہ ہے۔ اگر لاہور کی یہ حالت ہے تو باقی پاکستان کا کیا حال ہو گااس کا انداز ہ آپ لگا سکتے ہیں۔

    ایک اور خبر کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک جائزے سے یہ پتا چلا ہے کہ پاکستان میں ہر روز تقریباً بارہ سو (1200) کم عمر بچے تمباکو نوشی کا آغاز کر تے ہیں۔ اس سروے میں ملک بھر کے اسکولوں کے تیرہ سے پندرہ سال کے آٹھ ہزار طلباء و طالبات کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے دس اشاریہ سات فیصد تمباکو نوشی کے عادی تھے جبکہ گیارہ فیصد نے بتایا کہ وہ بھی جلد ہی سگرٹ نوشی شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ سروے میں شامل بچیوں میں سے بھی چھ فی صد سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا پائی گئیں۔ یعنی اب تو تعلیم دلوانا بھی رسک بن گیا اورا سکول کالج بھی بے حیائی اور نشے کو پھیلانے کا ذریعہ بن گئے لیکن کوئی روکنے والا نہیں۔ حکومت، پارلیمنٹ، عدالتیں کوئی اس طرف توجہ نہیں دے رہا۔ سیاسی پارٹیوں کو یہ سب نظر ہی نہیں آتا جبکہ معاشرہ بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی ہی نسل کی تباہی کا سامان بھی پیدا کر رہے ہیں اور تماشہ بھی دیکھ رہے ہیں۔

  • ایک قاتل ہی صرف shining India میں وزیر اعظم بن سکتا ہے-انصار عباسی

    ایک قاتل ہی صرف shining India میں وزیر اعظم بن سکتا ہے-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    اُڑی حملہ کے بعد مودی سرکار اور انڈین میڈیا نے ہمیشہ کی طرح بغیر کسی تفتیش یا ثبوت کے فوراً ملبہ پاکستان پر ڈال دیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ ذمہ دار پاکستان ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو سبق سیکھانے کی بات کرنے لگے، کہا گیا کہ سرجکل ا سٹرائیک ، ہاٹ پرسوٹ اور کولڈا سٹارٹ ڈاکٹرائین جیسی تمام تجاویز زیر غور ہیں۔ مودی سرکار کے وزراء اور انڈین میڈیا کی منہ سے جیسے آگ نکل رہی ہو۔ جنگی جنون کا سماں پیدا کیا گیا لیکن حملہ کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر پاکستان کے متعلق سب جھوٹ ایک ایک کر کے سامنے آنے لگے۔ پہلے دن بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ اسلحہ پاکستانی تھا لیکن بعد میں اس بیان سے پھر گئے اور بولا کہ میڈیا نے غلط رپورٹ کیا۔ حملہ والے دن بولا کہ حملہ آور پاکستان سے گئے تھے اور اُن کا تعلق ایک پاکستانی کا لعدم تنظیم سے ہے لیکن بعد میں ان الزامات کو بھی پی گئے۔ نہ حملہ آوروں جنہیں مار دینے کا دعویٰ کیا کی تصاویر دکھائیں نہ اس حملہ میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی فوجیوں کی لاشوں کو دکھایا گیا۔ مبینہ حملہ آوروں کو واقعہ کے دوسرے ہی دن دفنا بھی دیا گیا جس پر انڈیا کے اندر بھی سوال اٹھنے لگے کہ اتنی جلدی کیا تھی۔ پٹھانکوٹ واقعہ کے حملہ آوروں کی لاشوں کو چار ماہ بعد دفنایا گیا تھا۔

    رپورٹس کے مطابق 2001میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے کرنے والوں کو مارے جانے کے ایک ماہ بعد سپرد خاک کیا گیا تھا۔ ان حالات میں اُڑی حملہ ایک ایسا انڈین ڈرامہ لگتا ہے جس کا مقصد کشمیر میں ہندوستانی فوج کے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کو ثبوتاژ کرنا مقصودتھا۔ لیکن اللہ کی مہربانی سے انڈیا کے ڈرامہ کو دنیا میں کسی نے سنجیدگی سے نہ لیا، کشمیر کا مسئلہ بھی خوب اجاگر ہوا۔ اب تو ہندوستان کے اندر مودی سرکار اور انڈین میڈیا کی طرف سے پاکستان کو دنیا میں اکیلا کرنے کی باتوں کا بھی خوب مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ تمام تر انڈین پروپیگنڈہ کے باوجود نہ امریکا نے اُڑی حملہ پر مودی سرکار کے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کا ساتھ دیا اور نہ ہی کوئی دوسرا اہم ملک یا عالمی تنظیم بھارتی جھوٹ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوئے۔ بلکہ ہندوستان میں موت کی سی کیفیت اُس وقت چھا گئی جب اُڑی حملہ کے چند دن بعد ہی روسی فوج کا دستہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پاک فوج کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے پاکستان آ پہنچا۔ ہندوستان نے کہا کہ اُس کے دہائیوں پرانے دوست ملک روس نے اُڑی حملہ کے بعد اپنے فوجی دستے پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا۔ لیکن روسی فوجی دستہ پروگرام کے مطابق گزشتہ ہفتہ پاکستان پہنچ گیا اور بھارت کا یہ جھوٹ بھی دنیا بھر کے سامنے آشکار ہو گیا۔ ہندوستان کے برعکس پاکستان حکومت، فوج اور میڈیا نے بلعموم ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ۔ پاکستان نے ماضی کی طرح اپنی پالیسی دہرائی کہ ہم ہندوستان کے ساتھ مسائل کا حل بات چیت سے چاہتے ہیں لیکن بھارت کو یہ واضح کر دیا کہ اگر پاکستان پر کسی بھی قسم کا حملہ کیا گیا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا اور اس کے لیے پاکستان کی فوج اور عوام کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہندوستان کی طرف سے ممکنہ حملہ کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے پاک فوج نے اپنی تمام تر تیاریاں مکمل کر لیں اور ان تیاریوں میں ہندوستان کی طرف سے کسی بھی سرجیکل اسٹرائیک کا جواب دینے کے لیے ہندوستان کے اندر اُن اہداف کا بھی تعین کر لیا گیا جنہیں جواباً پاکستان فوج نشانہ بنائے گی۔

    پاکستان میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ہندوستان پاکستان پر کسی بھی قسم کے فوجی حملہ کی جرات نہیں کر سکتا۔ ہاں یہ خطرہ ضرور ہے کہ ہندوستان پاکستان کے کسی علاقہ خصوصاً بلوچستان میں دہشتگردی کی کوئی کارروائی کروا سکتا ہے اور اس کے لیے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا جائے گا۔ پاکستان کو اکیلا کرنے کے خواہاں مودی کو حسینہ واجد اور اشرف غنی کے علاوہ کوئی اور نہیں مل رہا۔ ایرانی صدر نے تو یہاں تک کہہ دیا وہ پاکستان اور ایران کی سلامتی کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ ایرانی صدر نے تو وزیر اعظم نواز شریف سے پاک چین اقتصادی راہداری میں بھی حصہ دار بننے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ یاد رہے کہ مودی سرکار اس منصوبہ کی سخت مخالف ہے اور اب انڈیا میں یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ ایرانی صدر اگر پاک چین اقتصادی راہداری میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں تو پھر ہندوستان کو ایران کی چاہ بہار بندگاہ میں اربوں روپیے لگانے کی کیا ضرورت ہے۔

    اُڑی واقعہ کے بعد ہندوستان میں موجود پاکستانی فنکاروں کو دھمکیاں مل رہی ہیں اور انہیں بھارت چھوڑنے کا بھی کہا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہندوستان میں موجود مسلمانوں کے لیے بھی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں ہندوستان سے کتنے ہی کشیدہ حالات ہونے کی صورت میں ایسی جنونیت نہیں پائی جاتی۔ ہمیں تو ہمارا دین یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہم اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا ہر حال میں خیال رکھیں اور اُن کی جان و مال کی حفاظت کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی غیر ملکی مہمان پاکستان آئے چاہے وہ ہندو مذہب کا پیروکار ہو اور اُس کا تعلق ہندوستان سے ہو ہمیں اُن کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ہمیں دہشتگرد کہنے والے ہندوستان کا یہ حال ہے کہ گجرات کے مسلمانوں کے قاتل کو انہوں نے اپنے ملک کا وزیر اعظم بنا ڈالا۔ مودی نے اپنے ملک کے شہریوں کو صرف مسلمان ہونے پر قتل کروایا اور وزیر اعظم کے عہدہ تک پہنچ گیا۔ ایک قاتل صرف نام نہاد shining India میں ہی وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ باقی رہا کہ ہم پاکستانیوں کو کیا کرنا چاہیے تو اس بارے میں سوشل میڈیا میں ایک پیغام پڑھنے کو ملا جس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پیغام کے مطابق: ’’اگر آپ کو واقعی بھارت پر غصہ ہے تو اپنی جنگ کا آغاز ابھی کریں، تمام انڈین گانے، ڈرامے، فلمیں اور انڈین رسومات کو بھی اپنی زندگی سے نکال باہر پھینک دیں۔ دشمن ہمیں ہتھیاروں سے تو شکست نہیں دے سکتا لیکن ہماری نوجوان نسل کو اپنے طریقوں پہ ڈال کر نظریاتی شکست دے رہا ہے۔‘‘

  • اُنکی بدہضمی، میری بے چینی-انصار عباسی

    اُنکی بدہضمی، میری بے چینی-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    دو روز قبل چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو کبھی ایک سیکولرا سٹیٹ بنانے کے حامی نہ تھے بلکہ وہ اس ریاست کو قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق چلانا چاہتےتھے۔ چیف جسٹس کے خطاب کے اس حصہ کوپاکستان کے میڈیا نے عمومی طورپر دبا دیا یا خبر کے اس حصہ کو پی ہی گئے۔

    اُسی روز خیبر پختونخوا اسمبلی نے متفقہ طورپر صوبے میں سودی کاروبار کے خاتمےکےلیے ایک قانون پاس کیا لیکن اس خبر کو بھی عمومی طورپر میڈیانے کوئی خاص اہمیت نہ دی۔ چھ ستمبر کے موقع پر اپنے خطاب میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مشرف دور کی امریکا نوازپالیسیوں کا ذکر کیے بغیر پاک فوج کا اسلام سے کچھ اس طرح تعلق جوڑا جو ہمیشہ سے ہماری فوج کی پہچان رہا۔ آپریشن ضرب عضب کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کا نام ہم نے رسول پاکﷺ کی تلوار سے اس لیے منسوب کیا تھا کہ اپنی بقاء کی اس جنگ میں ہمارا ہر قدم اللہ کے حکم اور نبیﷺ کی سیرت کے مطابق اٹھے۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ یہ تلوار صرف مظلوموں اور معصوموں کے دفاع اور فساد فی الارض کے خاتمے کےلیے اُٹھ سکتی ہے۔ میڈیا نے عمومی طورپر اس اہم بیان کی بھی نمایاں تشہیر نہ کی۔ جو اصول آرمی چیف نے بیان کیا اگر اُس پر جنرل مشرف نے عمل کیا ہوتا تو نہ صرف ہم ایک مسلمان ملک پر حملے کےلیے کسی غیر مسلم طاقت کا ساتھ دینےکے گناہ میں شامل ہونے سے بچ جاتے بلکہ 9/11 کے بعد جو مارا ماری پاکستان میں ہوئی اُس سے بھی بچا جا سکتا تھا۔

    آرمی چیف کے اس بیان نے پاک فوج کے اسلام سے نہ ٹوٹنے والے اُس رشتہ کی تجدید کی جسے مشرف نے امریکا کی ایما پر دھندلانے کی کوشش کی تھی۔ آرمی چیف کا یہ بیان پاکستانی میڈیا پر مسلط سیکولر طبقے کی بدہضمی کاباعث تھا اسی لیے اس کو بھی دبانے کی ہی کوشش کی گئی۔ چند ہفتہ قبل کور کمانڈر سدرن کمانڈنے کہا تھا کہ پاکستان کا مستقبل ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست ہے جس کی بات کرنے میں شرمانے کی ضرورت نہیں اور جہاں تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت ہو گی۔ اُس موقع پر میں نے اپنے ایک کالم میں کمانڈر سدرن کمانڈ کے اس بیان پر سراہا اور امید ظاہر کی کہ دوسرے بھی اسلام کی بات کرنےمیں ہمت پکڑیں گے کیوں کہ پاکستان اور اسلام ایک دوسرے کےلیے لازم و ملزوم ہیں۔ مشرف دور سے پاکستان کو اُس کی اسلامی اساس سے دور کرنے اور سیکولر بنانے کے ایجنڈہ پر جو کام ہو رہا ہے اور جس میں میڈیا کا بھی اہم کردار ہے اُسے ناکام بنانےکےلیے اسلامی پاکستان کے حق میں زیادہ سے زیادہ آوازیں اٹھنی چاہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی11 ستمبر 1947 کی تقریر کو اپنے مقاصدکے حصول کےلیے استعمال کرنے والے سیکولر طبقے کو چیف جسٹس نے خوب جواب دیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ قیام پاکستان کی بنیاد اس نظریہ پر رکھی گئی کہ برصغیر کے مسلمانوں کےلیے ایک علیحدہ ملک ہوجہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکیں، جہاں شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں، جہاں ذات پات، رنگ نسل، عقیدہ و مذہب کی بنیاد پر زیادتی اور نا انصافی نہ ہو، جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے عقائد پر عمل کرنے میں آزاد ہوں۔ چیف جسٹس نے قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اپنے اس خطاب میں محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ آج سے آپ سب آزاد ہیں، ریاست پاکستان میں آپ سب اپنے مندروں میں ، اپنی مساجد میں اور دیگر عبادت گاہوں میں جانےکےلیے آزاد ہیں۔ آپ چاہے کسی بھی مذہب سے ہوں، اس سے ریاست کی کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے،

    ہم اس بنیادی اصول پر کاربند ہیں کہ ہم ایک ہی ریاست کے شہری ہیں اور برابر حیثیت کے شہری ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس تقریر میں قائد اعظم کا مقصد ہرگز یہ نہ تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ملک ہو گا بلکہ اُن کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور ریاست قرآن و سنت کی روشنی میں غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قائد اعظم کی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین پاکستان میں مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ نہ صرف قراداد مقاصد بلکہ آئین کے دوسرے حصوں میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا نظام قائم کیا جائے گا جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طورپر اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزار سکیں اور جہاں اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذاہب پر قائم رہ سکیں اور اس کے مطابق عمل کر سکیں۔

    جب کوئی اسلامی نظام کی بات کرتا ہے تو ایک مخصوص سیکولر طبقہ سوال اٹھاتا ہے کہ اسلامی پاکستان میں پھر اقلیتوں کا کیا مستقبل ہو گا۔ اس کا جواب آئین میں موجود ہے اور اس کی وضاحت چیف جسٹس صاحب نے بھی اپنے تازہ بیان میں کر دی۔ اگر اسلام سے بغض رکھنے والا یہ سیکولر طبقہ اسلام کوپڑھ لے تو سب واضح ہو جائے گا۔ لیکن جب نیت ہی خراب ہو تو کوئی کیا کہے۔ ورنہ میثاق مدینہ کو ہی پڑھ لینےسے پتا چل جاتا ہے کہ ایک اسلامی فلاحی ریاست میں اقلیتوں کو کس قدر اپنے مذاہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے پاکستان کی نظریاتی اساس اور اس ملک کے اسلامی آئین کی درست تشریح کی۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہم کب اس آئین پر عمل کریں گے تا کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

    چلیں شکر ہے کہ کم از کم سود کے معاملے پر خیبر پختونخوا اسمبلی نے چند روز قبل ایک قانون پاس کیا جس کے تحت صوبہ بھر میں پرائیویٹ سود کا کاروبار کرنا ایک جرم تصور ہو گا۔ امیدہے کہ اس قانون کا دائرہ کار سرکاری اور نجی بینکوں تک بھی بڑھایا جائے گا جس کے لیے شاید وفاقی حکومت کا کردار اہم ہے۔ چلیں اللہ کا شکر ہے کہ ایک صوبے کی اسمبلی نے اللہ اور رسولﷺ کے ساتھ جاری جنگ کو روکنے کا اہتمام کیا۔ اسلام کے خلاف یہ کھلی جنگ دوسرے صوبوں اور وفاق کی سطح پر کب روکی جاتی ہے اس کا بے چینی سے انتظار رہے گا۔

  • ایم کیو ایم پاکستان کو دیوار سے مت لگائیں-انصار عباسی

    ایم کیو ایم پاکستان کو دیوار سے مت لگائیں-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    فاروق ستار کی سرپرستی میں ایم کیو ایم نے الطاف حسین سے قطع تعلقی کر لی، متحدہ کے بانی کو اپنے آپ سے اور پارٹی سے علیحدہ کر لیا جس کے لیے پارٹی آئین کو بھی بدل دیا گیا ۔ انتظامیہ کی طرف سے کراچی، حیدرآباد اور سندھ بھر کے دوسرے شہروں سے الطاف حسین کی تصاویر کو اتار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے پچاس سے زیادہ دفاتر کو گرا دیا گیالیکن کوئی احتجاج ہوا نہ کوئی شکایت۔ گزشتہ عید الاضحی کے موقع پر فاروق ستار نے اعلان کیا کہ ماضی کے برعکس ایم کیو ایم قربانی کی کھالیں جمع نہیں کرے گی بلکہ کراچی و حیدرآباد کے شہریوں سے کہا کہ وہ یہ کھالیں ایدھی یا اپنی مرضی کی کسی دوسری مذہبی و فلاحی تنظیم کو دے دیں۔

    ایم کیو ایم پاکستان کی لندن ایم کیو ایم سے قطع تعلقی کے بعد وسیم اختر کراچی کے مئیر منتخب ہوئے۔ اپنے انتخاب کے بعد متحدہ کے دوسرے رہنمائوں کی طرح انہوں نے بھی الطاف حسین اور لندن ایم کیو ایم کی بجائے ایم کیو ایم پاکستان سے اپنے آپ کو جوڑا۔ کچھ لوگ شروع دن سے شک کر رہے ہیں کہ لندن ایم کیو ایم اور پاکستان ایم کیو ایم ایک ہی ہیں اور یہ سب کچھ الطاف حسین کی ایما پر ہی ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ فاروق ستار کہہ اور کر رہے ہیں یہ بس ایک حکمت عملی ہے تا کہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو موجودہ مشکل سے نکالا جائے۔اس پر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ جو وہ کہہ رہے ہیں اس کے برعکس اگر کچھ ہے تو ثابت کر دیں۔ فاروق ستار نے کہا کہ قطع تعلقی کے بعد اُن کا الطاف حسین یا ایم کیو ایم لندن سے کوئی رابطہ نہیں۔ اگریہ درست نہیں، اگر یہ سب ڈرامہ بازی ہے تو حکومت کے لیے اس جھوٹ کو پکڑنا کوئی مشکل نہیں۔ ایجنسیوں کی مانیٹرنگ سے بڑی آسانی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کیا لندن ایم کیو ایم اور پاکستان ایم کیو ایم آپس میں رابطہ میں ہیں اور کیا سب کچھ الطاف حسین کی اشارہ پر ہی ہو رہا ہے۔

    بظاہرفاروق ستار اور ایم کیو ایم کے دوسرے رہنما متحدہ کو الطاف حسین کے سائے سے نکالنے کی کوشش میں ہیں تا کہ اس پارٹی کو تشدد اور دہشتگردی کے ماضی سے پاک کیا جائے۔ لیکن اس سب کے باوجود محسوس ایسا ہوتا ہے کہ فاروق ستار کی قیادت میں چلنے والی ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کی بڑی مثال سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کے گھر پولیس کا چھاپہ اور اُ ن کی گرفتاری کا واقعہ تھا۔ یہ بات اگرچہ خوش آئند ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس گرفتاری کا فوری نوٹس لیتے ہوئے خواجہ اظہار الحسن کو رہائی دلائی۔ اس معاملے پر وزیر اعظم نواز شریف نے بھی سندھ حکومت کا ساتھ دیا۔ اس کارروائی پر متعلقہ پولیس افسر رائو انوار کو وزیر اعلیٰ سندھ نے معطل کر دیا۔ رائو انوار کا اگرچہ یہ کہنا ہے کہ یہ کارروائی اُنہوں نے خود سے کی اور اس کی وجہ خواجہ اظہار الحسن کے خلاف ماضی میں درج مقدمات تھے لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہو سکتی ہے۔ ٹی وی چینلز پر اس گرفتاری کے جو مناظر دکھائے گئے اور اس کارروائی کے لیے جس وقت اور جس شخصیت کا چنائو کیا گیا اُس کا فائدہ ماسوائے پاکستان سے غداری کے مرتکب الطاف حسین کے کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا۔ خواجہ اظہار الحسن سندھ کی ایک اہم سیاسی شخصیت ہیں۔

    اگر اُن کے خلاف کوئی مقدمات تھے تو انہیں پہلے کیوں نہ پوچھا گیا۔ رائو انوار کے مطابق خواجہ اظہار الحسن ٹارگٹ کلرز کے چیف ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو ثبوت کے ساتھ عدالت میں اظہار الحسن کو ایسا ثابت کریں۔ ورنہ پہلے یہی کچھ عامر خان کے بارے میں کہا گیا لیکن بعد میں انہیں چھوڑ دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم الطاف حسین کے زیر نگرانی دہشتگردی، بھتہ خوری، ٹارکٹ کلنگ وغیرہ جیسے جرائم میں ملوث رہی اور اس کے لیے اس پارٹی کا باقاعدہ ایک عسکری ونگ کام کر رہا تھا جس کو کچلنے میں رینجرز، پولیس اور ایجنسیوں نے بہت اہم کر دار ادا کیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کی ایک سیاسی حیثیت ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ جس نے قتل کیایا دوسرے سنگین جرائم میں ملوث رہا اُسے ضرور پکڑیں لیکن ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کیوں کہ سنگین الزامات لگا کر پکڑنا اور پھر رہا کر دینا پکڑے جانے والوں کو مظلوم بنا دیتا ہے۔ جہاں تک ایم کیو ایم کی سیاسی حیثیت کا تعلق ہے تو اسے سیاسی انداز میں ہی چیلنج کیا جانا چاہیے ورنہ ایم کیو ایم پاکستان کے تمام تر تعاون کے باوجود اگر اس کو دیوار سے لگانے والی پالیسی ختم نہ کی گئی تو الطاف حسین مافیا کراچی میں پھر سر اُٹھانے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔

    حکومت، فوج، رینجرز، پولیس اور ایجنسیوں کو صر ف اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کراچی کی سیاست سے تشدد اور جرائم کو مکمل علیحدہ کیا جائے۔ ایم کیو ایم پاکستان اگر تشدد، زور زبردستی اور مار کٹائی کی سیاست کو چھوڑ کر صاف ستھری سیاست کرنے کی خواہاں ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ روز کراچی کے منتخب مئیر وسیم اختر نے الطاف حسین کے پاکستان مخالف بیان کو غداری قرار دیتے ہوئے فاروق ستار کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور ڈی جی رینجرز سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ بڑے ہیں کسی بات پر ناراض ہیں تو خدا کے واسطے ناراضی بھول جائیں۔

    وسیم اختر آج کل 12 مئی کے کیس کے سلسلے میں جیل میں ہیں جبکہ 12 مئی کے واقعہ کے فوری بعد اسلام آباد کے ڈی چوک میں مکے لہرا کر اپنی طاقت کا اظہار کرنے والے جنرل پرویز مشرف سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جنرل مشرف نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو خوب استعمال کیا اور اس کے لیے انہیں دہشتگردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ کی کھلی چھٹی دی گئی جس کے نتیجے میں الطاف حسین مافیا کراچی میں بہت مضبوط ہو گیا۔ آج ہمارے پاس موقع ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی قیادت کو چانس دیں کہ وہ الطاف حسین کے پھیلائے گند کو صاف کرنے میں دوسروں کی مدد کریں۔ سیاسی میدان کو تمام سیاسی جماعتوں کے لیے کھلا چھوڑ دیں اور کراچی کے عوام کو فیصلہ کرنے دیں کہ وہ کس جماعت کو اپنی نمائندگی کے لیے چنتے ہیں۔

  • موٹروے واقعہ کو فوج و سول کی لڑائی مت بنائیں-انصار عباسی

    موٹروے واقعہ کو فوج و سول کی لڑائی مت بنائیں-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    موٹروے پولیس اور فوج کے چند افسران کے درمیان ہونے والا حالیہ ناخوشگوارواقعہ ایک احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ جس کا قصور ہے اُسے سزا ضرور ملنی چاہیے اور اس سلسلے میں کسی رعایت کی کوئی گنجائش نہیں لیکن مہربانی کر کے اسے فوج اور سول یا فوج اور عوام کے درمیان لڑائی میں بدلنے کی کوشش نہ کریں اور ایسا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جرم کسی نے بھی کیا، اُسے ایک ملزم کی طرح لیں، صفائی کا موقع دیں، انصاف کے تقاضے پورے کریں لیکن چند افراد کے اقدام کو اداروں سے نہ جوڑا جائے۔ پولیس نے واقعہ کی ایف آئی آر کاٹ دی، اب اُسے آزادانہ تفتیش کرنے دیں۔ فوج نے بھی انکوائری کا اعلان کر دیا ہے اور یقین دہانی کرائی ہے کہ انصاف کیا جائے گا۔

    موٹروے پولیس کی رپورٹ کے مطابق تیز رفتاری پر روکے جانے پر بھاگنے والے دو افراد کو پیچھا کر کے روکا گیا تو وہ فوج کے کپتان نکلے۔ پولیس سے تلخ کلامی پر ایک کپتان نے اپنے کسی سینئر میجر کو فون کیا جو کوئی دو درجن کے قریب فوجی جوانوں کو فوجی گاڑیوں میں لے کر موقع پر پہنچ گیا ۔ موٹروے پولیس کے مطابق نہ صرف اُن پولیس والوںکی موقع پر پٹائی کی گئی بلکہ انہیں فوجی گاڑیوں میں بٹھا کر اٹک قلعہ لے جایا گیا جہاں انہیں چار پانچ گھنٹہ محبوس رکھا۔ متعلقہ میجر اور دو کپتانوںکا واقعہ کے متعلق کوئی بیان موجود نہیں لیکن مجھے ملنے والی ایک آڈیو میں مبینہ طور پر ایک کپتان واقعہ کی تصدیق کرتا ہے۔ اُس کے مطابق موٹر وے پولیس کی طرف سے بدتمیزی کرنے پر یہ سب کچھ کیا گیا۔سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، اس کا پتہ تو پولیس اور فوج کی انکوائری سے ہی پتا چلے گا لیکن اگر موٹر وے پولیس (جس کا عمومی طور پر تاثر بہت اچھا ہے) نے بدتمیزی بھی کی تو فوجی کپتانوں کو اور اُن کے سینئر میجر کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی اختیار نہ تھا۔ اگر موٹر وے پولیس نے کچھ غلط کیا یا زیادتی کی تو اُن کے خلاف قانونی تقاضوں کے مطابق متعلقہ حکام سے شکایت کی جانی چاہیے تھی لیکن انہیں زدو کوب کرنا، اٹھا کر اٹک قلعے لے جانا اور کمرہ میں بند کرنا ایسا عمل ہے جو نہ صرف خلاف قانون ہے بلکہ فوج کے ڈسپلن کی بھی خلاف ورزی ہے۔

    جو لوگ فوج کو جانتے ہیں اُن کے خیال کے مطابق سول میں اس طرح کی غیر قانونی کارروائی کرنے والے افسران کا عموماً کیرئیر ختم ہو جاتا ہے۔ اکثر ان ڈسپلنری کیسوں کے نتائج کا اعلان نہیں کیا جاتا لیکن کئی افسروں کو ماضی میں اُن کے اس طرح کے رویوں پر فوج سے نکالا گیا اور بہت سوں کے کیریئرز تباہ ہو گئے۔ میری ذاتی رائے میں سول میں indiscipline کرنے والوں کی سزا کا باقاعدہ میڈیا کے ذریعے اعلان کیا جانا چاہیے تا کہ انہیں دوسروں کے لیے مثال بنایا جائے اور عوام کو بھی یہ پیغام دیا جائے کہ ایسے عناصر کی فوج میں کوئی جگہ نہیں۔ فوج میں ایک طبقہ ایسا ضرور ہے جو سول میں قانون کو ہاتھ لینے والے فوجی افسران کے لیے نرم رویہ رکھتا ہے اور انہیں معاف کرنے کی بات کرتا ہے۔ سوشل میڈیا اور کچھ whatsapp گروپس میں بھی ایسی باتیں کی جارہی ہیںجو اُسی طرح قابل مذمت ہیں جس طرح عوام میں ایک طبقہ (خصوصاً جو فوج کے ادارے سے ہی بغض رکھتا ہے) چند فوجی افسران کے ذاتی اقدام کو فوج کے ادارے کے ساتھ جوڑ کر اس ادارے کے خلاف ہی اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا ہے۔ بغض کی بات میں نے اس لیے کی کہ فوج کی کچھ پالیسیوں سے اختلاف کی بنیاد پر ہمارے ہاں ایک طبقہ حد سے تجاوز کر جاتا ہے اور ہمیشہ اس موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ فوج کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔

    تنقید برائے اصلاح کی بجائے تنقید برائے تنقید کے مواقع ڈھونڈے جاتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ صحافیوں نے تو اس واقعہ کا سہارا لیتے ہوئے فوج اور سول حکومت کو لڑانے کی بھی کوشش کی اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ اس واقعہ کے حوالے سے فوج کو نشانہ بنانے والے در اصل حکومتی سوشل میڈیا ٹیم ہے جسے وزیر اعظم ہائوس سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ کچھ افراد جنہوں نے اپنا تعلق فوج سے ظاہر کیا اُن کا کہنا تھا کہ جو کچھ فوج کے ایک میجر اور دو کپتانوں نے کیا وہ فوج کی عزت اور ادارہ کے وقار کے لیے لازم تھا۔ کچھ کا گلہ یہ تھا کہ عوام اس معاملہ میں فوج کو کیوں سپورٹ نہیں کر رہی۔افسوس کہ کچھ طبقات اس معاملہ کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں جبکہ یہ قانون کی خلاف ورزی کا ایک واقعہ ہے جسے اسی انداز میں لینا چاہیے۔ اگر آج فوج کے کچھ افراد نے اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کیا تو ایسا ہی عمل پولیس اور بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والےکئی افراد نے بھی ماضی میں کیا۔ کتنے سیاستدانوں کو دوسروں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتے ہوئے میڈیا نے دکھایا۔ ہمارے کئی صحافی بھائی بھی ٹریفک پولیس کو روکنے پر انہیں بے عزت کر دیتے ہیں۔

    اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ جرم کرنے والوں یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو نہ تو اداروں کے ساتھ جوڑا جائے اور نہ ہی اداروں سے تعلق رکھنے والے ذمہ داروں کو ایسے افراد کو کسی بھی قسم کا تحفظ دینا چاہیے۔ فوج سے متعلق ایسے واقعات کی بنیاد پر یا چند جرنیلوں کی آئین سے غداری کی وجہ سے کیا ہم اُن ہزاروں فوجیوں کی قربانی کو بھلا سکتے ہیں جنہوں نے اس ملک کے دفاع اور دہشتگردی سے عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت ماضی کو سامنے رکھ کر ایسی پالیسی بنائے کہ نہ تو کچھ جرنیل مل کر نظام کو تحس نہس کر سکیں اور نہ ہی کوئی عام فوجی افسر فوج کی طاقت کو اپنے ذاتی مقاصد یا دشمنی کے لیے عوام ہی کے خلاف استعمال کر سکے۔ بات یہ یقینی بنانے کی ہے کہ کوئی ایسی صوتحال پیدا نہ ہو کہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا ہو اور بڑھے۔ کسی کے حوالے سے ایک پیغام سوشل میڈیا میں پڑھنے کو ملا جس کے مطابق اگر کسی قوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو تو اس کے عوام اور فوج میں نفرت کے بیج بو دو، وہ قوم خود بخود تباہ و برباد ہو جائے گی۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ کسی ایسے بیج کو یہاں پھلنے پھولنے نہ دیا جائے۔

  • سیکولر ’’سیانے‘‘ اب شرعی امورکا بھی فیصلہ کریں گے-انصار عباسی

    سیکولر ’’سیانے‘‘ اب شرعی امورکا بھی فیصلہ کریں گے-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    رویت ہلال ایک شرعی اور فقہی مسئلہ ہے لیکن اس کو بھی میڈیامیں بیٹھے ہمارے کچھ ’’سیانوں‘‘ نے تماشا بنا دیا۔ فرماتے ہیں زمانہ بدل گیا، سائنس ترقی کر گئی، اب تو سب معلوم ہو جاتا ہے کہ چاند کب پیدا ہوا یا کب پیدا ہو گالہذا رمضان و ذی الحج کے موقع پر چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ نہ کوئی حوالہ دیا کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے، شریعت کا کیا حکم ہے، نہ کھوج لگانے کی کوشش کی کہ رویت ہلال کے مسئلہ پر کیوںمختلف مکاتب فکر میں اتفاق ہے، نہ تکلیف محسوس کی کہ یہی پتا لگا لیا جائے کہ چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً ہر مسلمان ملک رویت ہلال کے ذریعے ہی کیوں اسلامی مہینوں کا تعین کرتا ہے۔

    میڈیا نے رویت ہلال کمیٹی کے محترم سربراہ اور پاکستان کے صف اول کے عالم دین مفتی منیب الرحمن کا مذاق بھی اڑایا۔ کچھ ’’سیانوں‘‘ نے تو رویت ہلال کے مسئلہ کو اپنے طنز کا نشانہ بھی بنایا۔ اور پھر توقع کے مطابق مطالبات بھی سامنے آنے لگے کہ رویت ہلال کمیٹی کو ہی ختم کر دیا جائے، اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کو بھی قائم رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ابھی ہمارے سیکولر’’سیانوں‘‘ کے مشورہ ختم نہ ہوئے تھے تو ایک ’’اسلامی اسکالر‘‘ کو کہا گیا کہ وہ اس مسئلہ پر اپنی رائے پیش کریں۔ ’’اسلامی اسکالر‘‘ صاحب نے جو ’’سیانوں‘‘ نے پہلے کہا اُس پر مہر لگا دی۔ اُن کی منطق یہ تھی کہ دوسرے سب (یعنی علماء کرام) رویت ہلال کے متعلق ایک حدیث مبارکہ کو ٹھیک سمجھ نہیں پائے ۔ ہاں البتہ وہ خود سب ٹھیک سمجھ گئے۔

    ان ’’اسلامی اسکالر‘‘ صاحب سے پوچھا تو یہ جانا چاہیے تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اُن کی بات تمام مکاتب فکر اور علماء کرام سے مختلف ہے اور سیکولر ایجنڈے پر پوری اترتی ہے لیکن یہ سوال نہ کیا گیا۔ انصاف تو یہ تھا کہ پاکستان کے علماء کرام میں سے کچھ بڑے ناموں کو موقع دیا جاتا تاکہ وہ اس مسئلہ پر شرعی پوزیشن پیش کرتے تا کہ عوام کو مسئلہ کی اصل حقیقت کا علم ہوتالیکن شاید کوشش ہی یہ تھی کہ سننے والوں کو گمراہ کیا جائے۔ اس مسئلہ پر بولنے کے لیے وقت جن ’’اسلامی اسکالر‘‘ کو دیا گیا وہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے فیصلہ کے خلاف ہیںاور Blasphemy Law کے متعلق بھی تحفظات رکھتے ہیں۔ یہ ’’ اسلامی اسکالر‘‘ صاحب ویسے تو پارلیمنٹ کو مکمل اختیار دینے کے قائل ہیں کہ جو مرضی آئے قانون بنائیں لیکن اس بات پر سخت معترض ہیں کہ پاکستان کے آئین میں قرارداد مقاصد کو کیوں شامل کیا گیا۔ قارئین کرام کی یاد دہانی کے لیے ہمارے آئین میں درج قرارداد مقاصد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کو قرآن و سنت کے مطابق چلانے کا وعدہ کرتا ہے۔

    رویت ہلال یعنی چاند دیکھنے کا مسئلہ خالصتاً شرعی ہے لیکن اس پر تبصرہ اور فیصلہ صادر کرنے کے لیے میڈیا میں ایسے افراد کو بلایا جاتا ہے جو پاکستان کو ایک لبرل اور سیکولر اسٹیٹ بنانے کے لیے بارہا اپنی آواز بلند کر چکے ہیں۔ اسلامی مسائل اُن کے سامنے رکھے جا رہے ہیں جو کہتے ہیں کہ قرارداد مقاصد کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان میں موجود دوسری اور کئی اسلامی شقوں کو نکال دیا جائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نظریہ پاکستان کو نہیں مانتے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے خلاف ہیں۔ ایسے ’’سیانوں‘‘ اور من پسند ’’اسکالروں‘‘ کو بٹھا کر اسلامی اور شرعی معاملات میں فتوے سازی کرانا انتہائی نامناسب اقدام ہے۔ ویسے تو ہر معاملہ میں مختلف رائے کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی بات کی جاتی ہے اور اسے صحافتی اصول مانا جاتا ہے۔

    لیکن اسلامی اور شرعی معاملات میں بولنے اور رائے دینے کے لیے علم ، فہم اور قابلیت رکھنے والے قابل احترام علماء حضرات کی رائے پیش نہ کرنا کیسی صحافت ہے اور کیسے صحافتی اصول ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے طبی معاملات میں ڈاکٹرز کے سوا باقی سب کی رائے پیش کی جائے۔ اسی طرح معاملہ اگر دفاع اور سیکورٹی کا ہو تو دفاعی تجزیہ نگاروں، فوج، پولیس اور ایجنسیوں کے پروفیشنلز کی بجائے رائے دینے کے لیے کسی تاجر کو بلا کر دفاعی اور سیکورٹی معاملات کے متعلق حکمت عملی کے بارے میں رائے لی جائے۔دکھ اس بات کا ہے کہ کسی ایسے عمل کو جو دین سے جُڑا ہو اس کو طنز کا نشانہ بنایا جائے۔ بھئی بہت زیادہ مسئلہ ہے تو اچھے انداز میں اپنی رائے دے دو اور پھر دوسروں کی بات بھی سن لو۔ اسلام دین کے ساتھ یا دینی احکام کے ساتھ طنز اور مذاق سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ ہمیں ایسی مجالس میں بیٹھنے سے بھی روکتا ہے جہاں دین کے احکامات کا انکار یا مذاق اڑایا جاتا ہو۔ ہمیں تو دوسروں کے دین یا اُن کی مقدس شخصیات کو بھی بُرا بھلا کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ محترم مفتی منیب الرحمان کا کہنا ہے کہ آج کے میڈیا کے ہاتھوں اسلام اور پاکستان دونوں مظلوم بن چکے ہیں۔ میں مفتی صاحب سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔