Author: آصف محمود

  • عمران خان صاحب، سماج پر رحم کیجیے – آصف محمود

    عمران خان صاحب، سماج پر رحم کیجیے – آصف محمود

    آصف محمود پڑھیے اور سر پیٹ لیجیے۔
    نرگسیت کے گھونسلے سے سر نکال کر خان صاحب نے فرمایا:
    ’’ ناراضی کس بات کی، مارچ کی دعوت دینے جا رہا ہوں، رشتہ لینے تو نہیں جا رہا‘‘۔
    گویااخلاقیات کے علمبرداروں نے اپنے کزن طاہر القادری کو بھی نہیں بخشا، حالانکہ کزنز کا ’دادا‘ ایک ہوتا ہے۔

    اختلاف ایک چیز ہے ،جسے گوارا کیا جانا چاہیے کہ یہ زندگی کا حسن ہے اور سماج میں شعوری بیداری کی علامت لیکن اخلاقیات سے گری ہوئی گفتگو پست ذہنیت کی علامت ہے۔ شیخ رشید جیسوں کی صحبت صالح نے اب معلوم نہیں عمران خان کو بدل دیا ہے یا صرف بے نقاب کیا ہے، تاہم وہ جو زبان استعمال کر ہے ہیں، وہ ان کے فکری افلاس اور اخلاقی بحران کا اعلان عام کر رہی ہے۔

    تحریک انصاف نے اور کچھ کیا یا نہیں بدتمیزی اور گالیوں کو ایک کلچر بنا دیا۔ ہماری صدیوں کی تہذیب و روایت ہے کہ مائیں، بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ اختلاف بھلے دشمنی تک بھی پہنچ جائے، مائوں بیٹیوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ عمران خان نے اس تصور کو بیچ بازار پامال کر دیا ہے۔ جب قائد محترم ہی تہذیب نفس سے محروم ہوں تو ٹائیگرز کا تو کیا ہی کہنا۔ بعض تو اسم بامسمی ہیں۔ دکھ ہوتا ہے کہ ان سے ہم نے کیا توقعات وابستہ کر لیں لیکن یہ کتنے چھوٹے اور کتنے بودے نکلے۔

    مریم نواز کے بارے میں تحریک انصاف کے عام کارکنان نے نہیں، مرکزی عہدیداروں نے جس زبان میں گفتگو فرمائی اور جس طرح کے ٹویٹ کیے، وہ بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کا اخلاقی بحران کتنا شدید ہو چکا ہے۔ جواب آں غزل کے طور پر ٹیرن خان کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی ویسی ہی بد تہذیبی اور بد اخلاقی کہلائے گی جس کا مظاہرہ تحریک انصاف کر رہی ہے۔

    عمران کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی عمر صالح کا غالب ترین حصہ ’چھڑے‘ کے طور پر گزرا ہے۔گھر، آنگن، چاردیواری میں پنپنے والے رشتوں کی لطافت سے وہ محروم ہی رہے۔ انہیں اس لطیف احساس کی بھی کوئی خبر نہیں کہ بیٹی کیا ہوتی ہے۔ ان کے گھر کا آنگن بیٹی کے قہقہوں اور اور اس کی شرارتوں سے محروم ہی رہا۔ انہیں خبر ہی نہیں باپ اور بیٹی کا رشتہ کیسا ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ رات گئے جب بیٹی ضد کرے ’’ بابا پیپسی کی بھوک لگی ہے‘‘ تو اس ضد کو پورا کرنے کے لیے گھر سے گاڑی نکالنا کتنا پیارا تجربہ ہوتا ہے۔بیٹی کی مسکراہٹ اور قلقاریوں میں کیسا امرت ہوتا ہے، انہیں معلوم نہیں۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ بیٹی کی آنکھ پر نم ہو جائے تو من کی دنیا کیسے اتھل پتھل ہو جاتی ہے۔ انہیں قدرت نے ایک باپ کی ذمہ داریاں نبھانے کا موقع بھی نہیں دیا۔ عالی ظرف جمائما بھابھی ہی بچوں کا باپ بھی بن گئیں۔ مقبول ترین آدمی کی زندگی کا یہ پہلو آدمی کو اداس کر دیتا ہے۔ وہ اس حوالے سے قابل رحم ہیں۔

    لیکن وہ ایک رہنما بھی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ لاکھوں دل ان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ وہ اگر تہذیب نفس سے بےنیاز ہو کر عامیانہ طرز گفتگو اختیار کریں گے تو یہ سماج کی اخلاقی بنیادیں کھود ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس سما ج پر رحم کیجیے۔

  • الیکشن کمیشن، عمران خان اور نون غنیت – آصف محمود

    الیکشن کمیشن، عمران خان اور نون غنیت – آصف محمود

    آصف محمود ٹیکسلا میں انتخابی ریلی سے خطاب کر کے، کہا جا رہا ہے کہ، عمران خان نے چوتھی مرتبہ الیکشن کمیشن کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ میرے پیش نظر سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کے اس ضابطے کو مسلسل پامال کرتے چلے جانا عمران خان کا ایک درست رویہ ہے؟

    میں قانون کا ایک طالب علم ہوں اور قانون کی عملداری پر یقین رکھتا ہوں۔ میں نے اس سوال پر بہت غور کیا اور میری رائے یہ ہے کہ عمران خان اور کیا کرتے؟جس قانون کی بنیاد ہی بد نیتی پر ہو اس پر عمل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کیا عمران خان اپنے ہاتھ اور بازو اس لیے کاٹ پھینکیں کہ نون غنیت گاہے قانون کی شکل میں ظہور کرتی ہے؟
    قانونی نون غنیت ملاحظہ فرمائیے۔

    ایک مسلمہ ضابطہ یہ ہے کہ انتخابات کے دوران اعلی حکومتی شخصیات انتخابی حلقے میں کوئی ایسی سرگرمی نہیں کریں گی جو انتخابی عمل پر اثر انداز ہو۔ حکومت چونکہ تجربہ کاروں کی ہے اس لیے سر جوڑے گئے کہ نواز شریف توکسی انتخابی حلقے میں جا نہیں سکتے تو کوئی ایسا راستہ نکالا جائے کہ عمران خان بھی نہ جا سکیں۔ چنانچہ نیا ضابطہ متعارف ہو گیا کہ جس حلقے میں الیکشن ہوگا وہاں کسی بھی جماعت کا سربراہ نہیں جا سکے گا۔ اس ضابطے کی شان نزول بادی النظر میں بد نیتی ہے۔ اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔گویا آپ روز بد نیتی پر مبنی قانون بنواتے رہیں اور عمران خان ساری عمر انہیں چیلنج کر کر کے دھکے کھاتا رہے اور پیشیاں بھگتتا پھرے؟

    قبلہ پرویز رشید عملا وفاقی وزیر برائے مذمت عمران خان بنے پھرتے ہیں اور اس پر ارشاد فرماتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو عمران کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی صاحب نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن تمام امیدواروں کو مساوی مواقع فراہم کرے۔ یعنی اگر ن لیگ کا سربراہ انتخابی جلسے میں نہیں جا سکتا تو عمران کو بھی نہ جانے دے۔
    ملک نہ ہوا نون غنوں کی خاندانی جاگیر ہو گئی۔
    مساوی مواقع، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!

    جب جہانگیر ترین کے انتخابی حلقے میں نواز شریف نے کروڑوں کی سکیموں کی رشوت ووٹرز کو پیش کی تھی، اس وقت کیا دونوں امیدواروں کے پاس مساوی مواقع تھے؟
    باقی جملہ نون غنوں کو جان لینا چاہیے کہ اگرتحریک انصاف کا سربراہ جلسے میں جا رہا ہے تو آپ بھی کوئی ایسا سربراہ بنا لیں جو وزیر اعظم نہ ہو تو وہ بھی چلا جایا کرے۔ عہدے بھی سارے آپ نے نکے اور وڈے بھا جی ہی کی جیب میں ڈالنے ہیں اور واویلا مچا کر قوانین کو ایک تماشا بنانا ہے۔

    پابندی سیاسی جماعت کے سربراہ پر نہیں اصل میں وزیر اعظم پر ہے کہ ان کے جانے سے انتخابی عمل متاثر ہوتا ہے۔ اب نون غنوں نے چونکہ پارٹی سربراہ اور وزیر اعظم کے عہدوں کو ایک ہی شخص کی جیب میں رکھنا ہے اس لیے نیا قانون بنا دیا کہ کسی بھی جماعت کا سربراہ جلسے سے خطاب نہیں کرے گا۔ ایسے میں عمران خان کیا کرے؟

    الیکشن کمیشن نے عمران خان کو تو نوٹس جاری کر دیے ہیں. کیا اس میں ہمت ہے کہ وہ ذرا ایک نوٹس نواز شریف کو بھی جاری کرے کہ جہانگیر ترین کے حلقے میں انتخابی عمل کے دوران بھاری مالیاتی پیکیجز کا لالچ ووٹرز کو انہوں نے کیوں دیا۔ (اس پیکیج کا رشوت ہونا اس سے بھی ثابت ہے کہ شکست کے بعد میاں صاحب نے وہاں ایک ٹکہ نہیں دیا جہاں کروڑوں کے وعدے فرما کر آئے تھے)۔

    باقی جہاں تک اس دھمکی کی الیکشن کمیشن کے پاس توہین عدالت میں چھ ماہ قید میں ڈالنے کا اختیار موجود ہے تو جناب صرف اتنا عرض کر دوں کہ سماج کو خوف کی لاٹھی سے نہیں، انصاف، دیانت اور مساوات سے چلایا جاتا ہے۔

  • معرکہ ستمبر اور سیکولر احباب کی نفسیاتی گرہیں –  آصف محمود

    معرکہ ستمبر اور سیکولر احباب کی نفسیاتی گرہیں – آصف محمود

    آصف محمود معرکہ ستمبر کے بارے میں کل تفصیل سے لکھا، لیکن میں سمجھتا ہوں اسے دیکھنے کا ایک اور زاویہ بھی ہے اور وہ بہت اہم ہے۔ یہ ہے معرکہ ستمبر پر انتہا پسند سیکولر بیانیہ۔ یہ معرکہ سیکولر حضرات کی چاند ماری کا تازہ میدان ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ قوم خواہ مخواہ خوشیاں منا رہی ہے، حالانکہ پاکستان کو اس جنگ میں شکست ہوئی تھی۔ میرے نزدیک اس موقف کا ابلاغ کسی تحقیقی عمل کے نتائج سے زیادہ ان احباب کی نفسیاتی گرہوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے: یہ گرہیں کب کھلیں گی؟

    سیکولر حضرات کا ایک مسئلہ ہے، یہ دنیا کے ہر معاملے میں معتدل رہیں گے، ہر ذی روح کی دل آزاری برائی تصور کریں گے، ہر مکالمہ پوری شائستگی سے کریں گے، ہر انسان کی آزادی کی بات کریں گے۔ لیکن جب معاملہ اسلام یا مسلمانوں کا آن پڑے گا، یہ اعتدال کا دامن بھی چھوڑ دیں گے اور تہذیب و شائستگی بھی۔ یہ موقع کی تلاش میں رہیں گے کہ کہاں مسلمانوں کے شعور اجتماعی کا مذاق اڑایا جائے، کہاں ان کا تمسخر اڑایا جائے، کہاں تحقیق کے نام پر ان کی دل آزاری کی جائے۔ چنانچہ کبھی تحقیق کے نام پر یہ پورے اہتمام سے ہمیں بتاتے ہیں کہ قرآن پاک کا قدیم ترین نسخہ نبی رحمت ﷺکی پیدائش سے پہلے کا ہوسکتا ہے تو کبھی یہ معرکہ ستمبر سے شکست برآمد کرکے خوشیاں مناتی قوم کو بد ذائقہ کرتے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ یہ تحقیق نہیں ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔

    فوج طالبان سے لڑے تو یہ خود اس کے قصیدے پڑھیں گے لیکن فوج بھارت کو ناکوں چنے چبوا دے تو یہ اس کی فتح مان کر نہیں دیں گے۔ اس نفسیاتی مسئلے کی تفہیم کے لیے معرکہ ستمبر کے بیانیے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ معرکہ ستمبر کا سارا بیانیہ مذہبی ہے۔ اس دور میں جو نغمے لکھے گے انھی کو دیکھ لیجیے: ’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا، اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو!، گئے جو ہوگے شہادت کا جام پی کر تم، رسول پاک ﷺ نے بانہوں میں لے لیا ہو گا، علی تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے، حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہوگا، تمہیں خداکی رضائیں سلام کہتی ہیں‘‘۔

    اب کوئی ایسا بیانیہ جس میں مذہب کا حوالہ ہو، ان صاحبان کے لیے قابلِ برداشت نہیں ہے۔ جہاں یہ مذہبی بیانیہ سامنے آئے گا، ان کے ہاں رد عمل پیدا ہوگا کیونکہ یہ اپنی نفسیاتی گرہ کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ ایک ایک کرکے ہر اس حوالے کو منہدم، غیر معتبر یا متروک کردیا جائے، جس کی مذہب سے کوئی نسبت ہو۔ انسائیکلوپیڈیا آف تھیالوجی میں سیکولرزم کی اسی نفسیات کا ذکر یوں کیا گیا ہے: ’’سیکولرزم آج کل ایک ایسا طریق عمل بھی سمجھا جارہا ہے جس کے ذریعے انسانی زندگی کے مختلف عناصر (جیسے رسوم، آرا، سماجی طرزِ عمل، حتیٰ کہ اشیاء اور بشر) یا مکمل حیاتِ انسانی کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنا تعین مذہب کے ذریعے نہ کرسکے‘‘۔ اب جہاں مذہب کا حوالہ آتا ہے، یہ اپنی نفسیات کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ جب انہوں نے دیکھا کہ قوم بھر پور طریقے سے یومِ دفاع منارہی ہے اور اس کا سارا بیانیہ مذہبی ہے اور یہ بیانیہ دو قوموں کے تصور کو مستحکم کررہا ہے تو انہوں نے اس جنگ میں شکست برآمد کرلی۔ یہ نفسیات کے تقاضوں کے ہاتھوں مجبور تھے۔

    ان احباب کے ہاں دوسری نفسیاتی گرہ یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں یہ اس وقت تک جمہوریت پسند اور آئین دوست ثابت نہیں ہوسکتے جب تک یہ فوج کی بطور ادارہ تضحیک نہ کرلیں۔ چنانچہ فوج کے بارے میں عوام میں پسندیدگی کے جذبات پیدا ہونے لگیں تو ان کو جمہوریت خطرے میں پڑتی نظر آتی ہے اور یہ میدان میں اتر آتے ہیں۔ لاشعوری طور پر یہ فوج بطور ادارہ اور فوجی آمر میں فرق نہیں کر پاتے۔ آمریت سے نفرت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ فوج کو بطور ادارہ بےتوقیر کیا جائے اور فوج سے محبت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آمروں کا ساتھ دیا جائے۔ یہ فرق روا رکھا جانا ضروری ہے۔ جہاں یہ فرق ختم ہوا، اعتدال بھی ختم ہوا اور خرابی نے جنم لیا۔ اب عجب تماشا یہ ہے کہ سیکولر احباب بھی، الا ماشاء اللہ، آمریتوں کے ساتھ ہنی مون مناتے رہے ہیں۔ مشرف دور میں کون کہاں کھڑا تھا، ایک فہرست بنا لیجیے، لگ پتا جائے گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسند ایک آمر کے دست و بازو رہے اور سیکولر انتہا پسند دوسرے آمر کے۔ آمریتوں سے یہ حضرات فیض یاب ہوتے رہے، لیکن ادارے کو سینگوں پر لے لیتے ہیں تاکہ جمہوریت دوستی کے باب میں سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

    تیسری گرہ بھی ہے۔ بعض احباب ہر معاملے میں ایک نئی بات کرکے لوگوں کو حیران کرنا چاہتے ہیں۔ یہ گرہ مذہبی طبقے میں بھی ہے اور سیکولر گروہ میں بھی۔ چنانچہ اس سوچ کے تحت بھی یاروں نے ستمبر کی جنگ سے شکست برآمد کرلی۔

    غلطیاں کہاں نہیں ہوتیں، ستمبر کی جنگ میں بھی ہوئیں اور انتہائی سنگین۔ آپریشن جبرالٹر سے گرینڈ سلام تک، قیادت کی دانش پر درجنوں سوالات اٹھتے ہیں لیکن ایک کامیاب دفاع کو شکست کہنا کیا ایک صحت مند رویہ کہلائے گا؟ کیا بھارت کا کوئی ایک حملہ کامیاب ہوسکا؟ کیا اس کے جرنیل لاہور جم خانہ میں جام سے شغل فرما سکے؟ کیا اس کی بحریہ کراچی کا رخ کر سکی؟ کیا لاہور اور چونڈہ میں عزم و ہمت کے انمٹ نقوش نہیں چھوڑے گئے؟ کیا دفاع کرنا کامیابی نہیں ہوتی؟

    اگر ایم ایم عالم کے کارنامے پر ہم فخر کرتے ہیں، چونڈہ کے معرکے پر اپنے شہدا کی تحسین کرتے ہیں، عزیز بھٹی کی قربانی کو یاد کرتے ہیں، سیسل چودھری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، اصغر خان اور نور خان کی قیادت کو سراہتے ہیں جنہوں نے پیشہ ورانہ مہارت سے ایک ادارے کو تشکیل دیا، اور اگر ہم چھ ستمبر کو یوم دفاع مناکر ملک کے دفاع کا عہد کرتے ہیں اور شہدا اور غازیوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ ہر چیز کی سند کالم نگاروں اور اینکر پرسنوں سے حاصل نہیں کی جاسکتی، کچھ گواہیاں دھرتی پر بہنے والا خون بھی دیتا ہے۔

    لیکن پھر بھی ضد ہے تو مان لیتے ہیں۔ چلیں، اب ایک نئی تاریخ لکھتے ہیں۔ ایک ’’روشن خیال‘‘ تاریخ۔ عزیز ہم وطنو، یہ ایم ایم عالم، عزیز بھٹی، اور گمنام قبروں میں دفن ہونے والے ماؤں کے لال ہم نے خواہ مخواہ ہی ہیرو بنالیے۔ اصل کہانی کچھ اور ہے۔ جب دشمن بی آر بی کے اس پار پہنچا تو پاکستان کی جانب سے ایک پروڈیوسر آگے بڑھے اور بھارتی کمانڈر کو کہا: ’’ناہنجار شور نہ کرو، ابھی اینکر صاحب کا شو ریکارڈ ہو رہا ہے‘‘۔ یہ تنبیہ کارگر ثابت ہوئی اور آزادی صحافت کے احترام میں دشمن واپس چلا گیا۔ جب ایک جونیئر بھارتی افسر نے واپسی کا حکم ملنے پر اپنے کمانڈر کو جم خانہ لاہور میں شراب سے جی بہلانے کا وعدہ یاد دلایا تو اس افسر نے اپنے جونیئر سے کہا: جوان ہمارے حصے کا یہ کام اب پاکستان کے’روشن خیال‘ دانشور سنبھال لیں گے۔

    ادھر چونڈہ میں بھی یہی ہوا۔ بھارت کی ٹینک اس لیے آگے نہ بڑھ سکے کہ چونڈہ کے اس پار چند روشن خیال دانشور بیٹھے تھے، بھارتی فوجی نے ٹینک سے سر نکال کر پوچھا کیا یہ چونڈہ ہے؟ تو روشن خیال دانشور نے جواب دیا: ’’ہم کسی چونڈہ کو نہیں جانتے، ہم صرف چنڈو خانے کو جانتے ہیں‘‘۔ چنانچہ دشمن نے اپنے غلط نقشوں کو آگ لگائی اور روتا پیٹتا واپس چلا گیا۔

  • معرکہ ستمبر، فتح ہوئی تھی یا شکست – آصف محمود

    معرکہ ستمبر، فتح ہوئی تھی یا شکست – آصف محمود

    آصف محمود یوم دفاع کے موقع پر دو گروہ آمنے سامنے ہیں۔ ایک کا دعوی ہے کہ چھ ستمبر کی جنگ میں شکست ہوئی تھی اور دوسرا گروہ اس دعوے کے ابطال کے ساتھ ساتھ اس موقف کے حاملین کی حب الوطنی پر بھی سوال اٹھا رہا ہے۔ پہلے گروہ نے اپنے موقف کے حق میں ائیر مارشل اصغر خان کا مئوقف پیش کیا تو یاروں نے اصغر خان کو بھی مجسمہ شیطانیت قرار دے دیا۔ سوال اب یہ ہے کہ معرکہ ستمبر میں فتح ہوئی تھی یا شکست؟
    چاند ماری، تعصب اور پوائنٹ سکورنگ سے ہٹ کر اگر معاملے کو دیانت اور تحمل کے ساتھ دیکھا جائے تو دونوں گروہوں کی بات میں وزن ہے۔

    اس جنگ کے دو مراحل تھے۔ ایک طرف فیصلہ ساز طبقہ تھا اور دوسری جانب جنگ لڑنے والے سرفروش تھے۔ دونوں پہلوئوں کو الگ الگ دیکھنے کی ضروت ہے۔ یہ جنگ فیصلہ سازوں کی فکری کم مائیگی کا شاہکار تھی۔ ابھی کل ہی جنرل خالد نعیم کہنے لگے کہ اس جنگ کا ایک ہی سبق ہے اور وہ یہ کہ : ’’جنگ کب اور کیسے نہیں لڑنی چاہیے‘‘۔ اصغر خان اور خالد نعیم ہی نہیں نصف درجن سے زائد جرنیلوں کو جانتا ہوں جن کا یہی موقف ہے کہ یہ جنگ ہمارے فکری افلاس کا شاہکار تھی۔ فیصلہ سازوں نے آزادی کشمیر کے لیے آپریشن جبرالٹر شروع کیا جو فنی اعتبار سے مجموعہ نقائص تھا۔ بغیر تیاری کے کمانڈوز کو رزم گاہ میں اتار دیا گیا، انجام سب کے سامنے ہے۔ فیصلہ سازوں کے ویژن اور صلاحیتوں کا عالم یہ تھا کہ کشمیر میں لڑائی شروع کرکے وہ اطمینان سے بیٹھے تھے کہ جواب میں بھارت بین الاقوامی سرحد پر حملہ آور نہیں ہوگا اور یہ معرکہ صرف کشمیر تک محدود رہے گا۔ یہ اندازے غلط نکلے اور بھارت نے لاہور وغیرہ پر حملہ کر دیا۔ اور ہم آج تک شور مچا رہے ہیں کہ بزدل دشمن نے رات کی تاریکی میں چوروں کی طرح حملہ کر دیا۔ اندازے ہمارے غلط ثابت ہوئے اور بجائے غلطی تسلیم کرنے کے ہم آج تک بھارت کو گالیاں دیتے ہیں کہ سالا چوروں کی طرح حملہ آور ہو گیا۔ اگر ہم خود کو فیلڈ مارشل بقلم خود بنا سکتے ہیں تو ہمیں دشمن کی جوابی چال کا اندازہ تو ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہم اگر فیلڈ مارشل ہو کر بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکے تو اس کا الزام کبھی بھٹو پر لگا دینا کہ اس نے کہا تھا کہ بھارت بین الاقوامی سرحد پر حملہ نہیں کرے گا یا بھارت کو طعنہ دینا کہ وہ چوروں کی طرح حملہ آور ہو گیا کوئی معقول رویہ نہیں ہے۔ جنگ تو ہوتی ہے چال کا نام ہے اور ویسے بھی ہم نے خود جبرالٹر آپریشن کون سا بھارت کو ایس ایم ایس کرنے کے بعد کیا تھا کہ پیارے پڑوسی تیار ہو جائو، ہم آپریشن جبرالٹر شروع کرنے والے ہیں۔

    ہمیں کچھ سوالات پر غور کرنا چاہیے تھا جو ہم نے نہیں کیا ۔
    1۔ جب ہم نے کشمیر میں جبرالٹر شروع کر دیا تو کیا وجہ ہے کہ لاہور سیکٹر میں فوج تعینات نہیں کی تھی۔ کیا یہ نااہلی نہیں تھی؟
    2۔ کیا وجہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ہمیں بتا ہی نہ سکی کہ بھارتی دستے پیش قدمی کر رہے ہیں۔ کم از کم ایک ڈویژن فوج کے ساتھ بھارت نے حملہ کیا اور ہماری انٹیلی جنس کے پاس اتنی بھاری موومنٹ کی کوئی اطلاع ہی نہ تھی اور ہم آج تک یہی کہہ رہے ہیں کہ کم بخت نے چوروں کی طرح حملہ کر دیا؟

    ہم بھارتی حملے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ صرف ہماری فضائیہ اس جنگ کے لیے تیار تھی۔ مجھے ایک ائیرمارشل نے بتایا کہ فیلڈ مارشل صاحب نے فوجی قیادت کو کہا تھا کہ جنگ کا کوئی خطرہ نہیں لیکن ائیرچیف نے میٹنگ سے واپسی پر فضائیہ کو جنگ کے لیے تیار ہونے کا حکم دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت لازمی طور پر حملہ کرے گا۔ چنانچہ جب بھارتی فوج نے حملہ کیا تو فضائیہ نے اسے ناکوں چنے چبوا دیے۔ برگیڈئیر انعام الحق جو ستمبر 65ء کے معرکے میں لاہور سیکٹر میں آرمی آپریشنز کے انچارج تھے، بتاتے ہیں کہ انہیں رینجرز نے فون کر کے بتایا کہ بھارتی ٹینک آ رہے ہیں ورنہ ہمیں کوئی انٹیلی جنس اطلاع نہیں تھی۔ برگیڈئیر یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہائی کمان نے نہ صرف بارڈر پر اضافی نفری نہ لگائی بلکہ جب کہا گیا کہ یہاں کم از کم بارودی سرنگیں ہی نصب کر دی جائیں تو اس کی اجازت بھی نہ دی گئی کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ بیس فیصد فوجی معمول کی چھٹیوں پر تھے، انہیں بھی واپس نہ بلایا گیا۔ چھمب چوڑیاں سیکٹر میں ہم نے یکم ستمبر کو کارروائی کی اور ابتدائی کامیابی کے بعد پینتیس گھنٹے کے لیے کارروائی معطل کر دی، چنانچہ میجر جنرل جوگندر سنگھ جو اس وقت ویسٹرن کمانڈ کے چیف آف سٹاف تھے، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں’’دشمن نے ہمیں بچا لیا‘‘۔ تو یہ تھا ہمارے اعلی سطح پر بیٹھے فیصلہ سازوں کی فکری صلاحیتوں کا عالم۔

    سابق سیکرٹری خارجہ جناب اکرم ذکی نے ایک روز مجھے بتایا کہ 66ء میں بیرون ملک ایک بھارتی ہم منصب سے ان کی نوک جھونک ہوگئی تو انہوں نے کہا کہ کبھی لاہور آئیں آپ کو ناشتہ کرائیں۔ ذکی صاحب بتاتے ہیں کہ اس کے جواب میں اس نے رک کر کہا کہ مسٹر ذکی 65ء کی لڑائی سے قبل ہم آپ سے واقعی خوفزدہ تھے لیکن اب ایسا نہیں۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے فیصلہ سازوں کی صلاحیت کا عالم کیا ہے، اس لیے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ اب ہم سے نہ لڑنا، نقصان اٹھائوگے۔ ذکی صاحب انگلیوں پرگن کے بتاتے ہیں کہ صرف پانچ سال بعد ہمیں مشرقی پاکستان میں شکست کا سامنا تھا۔ تو جناب ہمیں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ ستمبر پینسٹھ کی جنگ فیصلہ سازوں کے فکری افلاس کا شاہکار تھی۔

    تاہم یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بھارت پوری قوت سے حملہ کرتا ہے۔ ہماری کوئی تیاری نہیں۔ ہمیں بارڈر پر دستے تک تعینات نہیں کرنے دیے گئے۔بارودی سرنگیں بھی نصب نہیں کرنے دی گئیں لیکن جب دشمن نے پوری قوت کے ساتھ حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی اور میجر شفقت بلوچ جیسے جی داروں نے اپنے ساتھیوں سمیت قیادت کی نااہلی کا کفارہ اس شان سے ادا کر دیا کہ کمال ہی کر دیا۔ شفقت بلوچ کا کہنا ہے کہ 5 ستمبر کو انہیں باقاعدہ بتایا گیا کہ دشمن کے حملے کا کوئی خطرہ نہیں لیکن انہیں لگ رہا تھا کہ جنگ ہوگی اور میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ جان پہ کھیل جانا ہے۔ قیادت کی نااہلی کے باوجود ہمارا سپاہی اس شان سے لڑا کہ اس کا بانکپن لوک داستان بن گیا۔ فیصلہ ساز ہار گئے لیکن ہمارے جوانوں نے ملک کے دفاع کے لیے جان کی بازی لگا دی۔ نور جہاں نے ٹھیک ہی کہا تھا :’’اے وطن کے سجیلے جوانو !میرے نغمے تمہارے لیے ہیں‘‘۔ میرا ایمان ہے ہمارا یہ نغمہ بعد از شہادت کاتب تقدیر نے مجسم کر دیا ہو گا کہ:
    ’’ گئے جو ہوگے شہادت کا جام پی کر تم
    رسول پاک ﷺ نے بانہوں میں لے لیا ہوگا
    علی تمہاری شہادت پہ جھومتے ہوں گے
    حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہوگا
    تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں‘‘
    اس لیے ہم اپنے فیصلہ سازوں کی غلطی بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم اپنے ان پاک وجودوں کو سلام بھی ضرور پیش کریں گے جنہوں نے جان جیسی متاع عزیز قربان کر کے ہمارا مستقبل محفوظ کیا۔
    غازیوں اور شہیدوں کو ہمارا سلام
    افق کے اس پار جانے والو سلام تم پر!

  • قادری آ رہے ہیں – آصف محمود

    قادری آ رہے ہیں – آصف محمود

    آصف محمود طاہر القادری راولپنڈی میں نہیں رکیں گے۔ وہ اسلام آباد کا رخ ضرور کریں گے۔
    ہو سکتا ہے یہ میرا ضعف بصارت ہو لیکن مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک قصاص اور تحریک احتساب کا اصل مقصد وہ نہیں جو بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ مقصد کچھ اور ہے ۔ طاہر القادری صاحب مری روڈ سے اسلام آباد کا رخ ضرور کریں گے۔ یوں دارلحکومت میں وہی کھیل شروع ہو جائے گا جو اس سے قبل ناکام ہو چکا۔

    چند پہلو اس باب میں انتہائی قابل توجہ ہیں۔
    1۔ احتجاج ظاہر ہے جمہوری حق ہے لیکن کیا احتجاج کے نام پر دارالحکومت پر یلغار کرنے کے کلچر کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے۔ یہ سلسلہ چل نکلا تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ کیا اسلام آباد میں آ کر ڈیرے جمانے سے جیسا ماضی میں ہوا ہے، آپ دنیا میں اپنی ریاست کا مذاق نہیں اڑاتے۔
    2۔ اگر کوئٹہ میں ہونے والے دھماکوں کو سی پیک کے خلاف سازش تصور کیا جاتا ہے تو اسلام آباد پر اس طرح کی یلغار کو بھی ایسی ہی ایک سازش کیوں تصور نہیں جا تا۔ اگر ہم سی پیک کی کامیابی کے لیے ہر قیمت دینے کو تیار ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ان لشکریوں کو ایک پیغام تک نہیں بھیجا جا سکتا کہ احتجاج ضرور کیجیے لیکن ریاست کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
    3۔ منتخب وزرائے اعظم کو ہمیشہ اس ملک میں ولن بنا کر کیوں پیش کیا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔
    4۔ بطور ادارہ فوج بہت محترم ہے، اور ہمارا آخری دفاعی حصار بھی۔ اسی طرح پارلیمان بھی بہت محترم ہے اور قومی وحدت کی علامت بھی ہے۔ دونوں کا احترام لازم ہے، اور دستور کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
    5۔ یہ سوچ ختم ہونی چاہیے کہ نواز شریف ملک دشمن ہے اور اسے ملک کی سلامتی اور بقاء سے کوئی دل چسپی نہیں۔ حب الوطنی نصاب نہیں جس کے جملہ حقوق بحق پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ محفوظ ہوں۔ سوچنے کا انداز مختلف ہو سکتا ہے اور ایک جمہوری وزیر اعظم کو اس کا حق بھی ہے۔ اس پر تنقید بھی ضرور ہونی چاہیے لیکن اس کی حب الوطنی کا آملیٹ بنانے کی کوششوں کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے دودھ کے دانت اب گر جانے چاہییں۔
    6۔ جو چین آف کمانڈ سپاہی سے آرمی چیف تک ہوتی ہے وہی چین آف کمانڈ آرمی چیف سے وزیر اعظم تک قائم ہونے میں کیا چیز رکاوٹ ہے۔
    7۔ اس ملک کے نظام قانون و انصاف کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قادری صاحب کے لوگ مرے ہیں۔ حکومت نے نہیں مارے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ پھر کس نے مارے۔ قاتل پکڑنا کس کی ذمہ داری ہے۔ ریاست انسانی جان کی حرمت کے بارے میں اس طرح بے نیازی کا مظاہرہ کیسے کر سکتی ہے۔ کیا اس طرح سماجی توازن قائم رہ سکتا ہے اور انتہا پسندی ختم کی جا سکتی ہے۔
    اور آخری بات کسی کو اچھی لگے یا بری، یہ ہے کہ نواز شریف کی جمہوری حکومت اگر غیر فطری طریقے سے گھر بھیجی گئی تو یاد رکھیے معاملات سنبھالنا بہت مشکل ہو جائیں گے۔ جمہوری عمل کو آگے بڑھنے دیجیے۔ یہ راستہ کٹھن سہی لیکن راستہ یہی ہے۔ اور کسی راستے سے تبدیلی نہیں آ سکتی۔ تبدیلی کا یہی ایک فطری راستہ ہے جسے ارتقاء کہتے ہیں۔

  • سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف آئین کا مطالعہ تو کر لے – آصف محمود

    سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف آئین کا مطالعہ تو کر لے – آصف محمود

    آصف محمود سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے سفارش کی ہے کہ الطاف حسین کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے۔ یہ خبر پڑھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ دستور پاکستان کی کچھ کاپیاں ان معزز اراکین پارلیمنٹ کو بھجوا دوں تاکہ انہیں یہ تو معلوم ہو کہ آرٹیکل 6 ہے کیا اور اس کا اطلاق کس قسم کی صورت حال پر ہوتا ہے۔

    یہ مطالبہ اگر کسی ایسے ادارے یا تنظیم کی جانب سے آتا جو آئینی نزاکتوں سے آگاہ نہ ہوتے تو نظرا نداز کر دینے کے قابل تھا لیکن یہ مطالبہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کی اس کمیٹی کی جانب سے سامنے آیا ہے جس کا شعبہ ہی قانون و انصاف ہے اور اعترزاز احسن، بابر اعوان اور فاروق نائیک جیسے قانون دان جس کمیٹی کے رکن ہیں۔ اب اگر سینیٹ کی قانون و انصاف کی کمیٹی کی آئین فہمی کا عالم یہ ہے تو یہ ایک انتہائی افسوسناک صورت حال ہے۔

    دستور پاکستان کا آرٹیکل چھ ہائی ٹریزن یعنی صریح غداری سے متعلق ضرور ہے لیکن وہ اس کی تمام شکلوں اور تمام صورتوں کا احاطہ نہیں کرتا۔ یہ آرٹیکل غداری کی صرف اس صورت کا احاطہ کرتا ہے جو آئین شکنی کی مختلف شکلوں اس کی ترغیب اور اس میں معاونت پر مشتمل ہے۔ یعنی اس آٹیکل کا بنیادی طور پر صرف آئین شکنی سے تعلق ہے۔ ہائی ٹریزن ایکٹ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یہ ایکٹ صرف آرٹیکل چھ کی عملی شرح بیان کرتا ہے اور غداری کی کسی بھی دوسری شکل پر اس ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ قانون اور آئین سے لاعلم ایک عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ غداری کی کوئی بھی صورت ہو اس پر آرٹیکل چھ لگتا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ تاہم ایک عام آدمی کی بات الگ ہے لیکن اگر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی آئین فہمی کا حال بھی یہ ہو تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

    الطاف حسین کے جرائم تعزیرات پاکستان کی دفعہ 121 اور (a) 123 کے تحت آتے ہیں۔ دفعہ 121 میں لکھا ہے کہ جو آدمی پاکستان کے خلاف جنگ کرتا ہے یا اس کی ترغیب دیتا ہے یا اس کی کوشش کرتا ہے اسے سزائے موت یا عمر قید دی جائے گی اور ساتھ ہی جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔ اسی طرح دفعہ (a) 123 کا کہنا ہے کہ جو شخص پاکستان کو گالی دیتا ہے یا قیام پاکستان کے عمل کی مذمت کرتا ہے اور پاکستان کی سالمیت کے خاتمے کی کوشش یا تائید کرتا ہے تو اسے دس سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے اور ساتھ ہی جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔

    الطاف حسین کے جرائم جس نوعیت کے ہیں ان پر تعزیرات پاکستان کی یہی دو دفعات لاگو ہوتی ہیں۔ آرٹیکل چھ کا الطاف حسین کے جرائم سے کوئی تعلق نہیں۔ معلوم نہیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے کس دلیل اور کس منطق کے تحت الطاف حسین پر آرٹیکل چھ لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مقام حیرت ہے کہ ایوان بالا کے معزز اراکین جن کا بنیادی کام ہی دستور سازی ہے، دستور کی تفہیم کے باب میں اس رویے کا مظاہرہ کریں گے۔ اگر سینیٹ جیسے ادارے کے محترم اراکین کو آرٹیکل چھ کے دائرہ کار کا علم نہیں ہے اور اس کمیٹی میں ملک کے تین نامور قانون دان بھی شامل ہیں تو یہ جاننے کے لیے ہمیں کسی آئن سٹائن کی ضرورت نہیں کہ آئین کی بالادستی کا خواب اس سماج میں کبھی شرمندہ تعبیر ہو پائے گایا نہیں۔

  • ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کی ڈھینچوں ڈھینچوں، کٹ کٹ کٹاک اور ککڑوں کوں – آصف محمود

    ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کی ڈھینچوں ڈھینچوں، کٹ کٹ کٹاک اور ککڑوں کوں – آصف محمود

    آصف محمود اہل شکم جس تجربہ کاری اور ویژن کو ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کا نام دیتے ہیں، کیا آپ نے اس’’پنجاب سپیڈ ‘‘ کی ڈھینچوں ڈھینچوں ،کٹ کٹ کٹاک اور ککڑوں کوں سنی ہے؟ لیکن ٹھہریے پہلے ذرا یہ کافروں کی بات ہو جائے۔ پھر تجربہ کاری اور ویژن سے مالا مال پنجاب سپیڈ کی ڈھینچوں ڈھینچوں ،کٹ کٹ کٹاک اور ککڑوں کوں سنیں گے۔

    کبھی آپ نے سوچا یہ یہودی کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں؟ کینسر جیسے موذی مرض کی انہوں نے ویکسین بنا لی ہے۔اس ویکسین کا کمال یہ ہے کہ اس کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہے۔ یہ صرف کینسر کا باعث بننے والے خلیوں کو تباہ کرے گی۔ یروشلم کے حداش آئن کیرم یونیورسٹی ہاسپٹل اور حیفہ کے رامبام میڈیکل سنٹر میں اس ویکسین کے کامیاب تجربات ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کے ڈاکٹر لیور کیمرون کا کہنا ہے کہ بلڈ کینسر سمیت نوے فیصد کینسر کا کامیاب علاج اس ویکسین کے ذریعے ممکن ہے۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پر اپنے جی ڈی پی کا تیس فیصد سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ آبادی کے تناسب سے اسرائیل میں سائنسدانوں کی تعداد دنیا بھر کے تناسب سے دس گنا زیادہ ہے۔ بی بی سی کی 14اکتوبر 2012ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکنالوجی کا علم رکھنے والا ملک اسرائیل ہے۔ تل ابیب اس وقت دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا رہا ہے۔ نیوز ویک کا کہنا ہے کہ تل ابیب کا شمار دنیا کے دس بڑے سائنسی مراکز میں ہوتا ہے۔ گوگل کے چیئر مین ایرک شمریت کا کہنا ہے کہ اسرائیل امریکہ کے بعد دنیا کا سب سے بڑا ہائی ٹیک سنٹر ہے۔

    اسرائیل چونکہ صحرا پر مشتمل ہے، اس لیے اسے توانائی اور پانی کے بحران کا سامنا رہا۔ اس نے ہماری طرح دنیا کے آ گے دست سوال دراز نہیں کیا بلکہ اپنی خوشیاں خود تلاش کیں۔ بجلی کے بحران کا حل اس نے سولر واٹر ہیٹر کی صورت میں ڈھونڈا۔ آج اسرائیل کی پچھتر فیصد آبادی یہ ہیٹر استعمال کر رہی ہے اور دنیا بھر میں یہ ہیٹرز استعمال ہو رہے ہیں۔ اسرائیل میں پینتیس کمپنیاں یہ ہیٹر تیار کر کے دنیا کو فروخت کر رہی ہیں اور قومی آمدن میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ صحرا میں دور تک پانی پہنچانا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔پائپ موسم کی حدت سے لیک ہو جاتے تھے۔ اسرائیل نے یہ پراجیکٹ ہیبریو یونیورسٹی کے حوالے کیا۔ یونیورسٹی میں یہودیوں نے طلبہ تنظیموں کے ذریعے دنیا فتح کرنے کا ملا نصیر الدینی فارمولا لاگو نہیں کیا تھا بلکہ وہاں صرف علمی و تحقیقی کام ہوتا ہے چنانچہ دو سالوں میں یونیورسٹی نے اس کا حل نکال لیا۔ اب وہاں پانی کی لیکج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انٹر نیشنل واٹر ایسو سی ایشن نے اسرائیل کے اس کامیاب پراجیکٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: اسرائیل نے کمال کر دیا ہے۔ صرف اسرائیل کے اس واٹر پراجیکٹ پر آسٹریلیا میں آٹھ پی ایچ ڈی مقالے لکھے جا چکے ہیں۔گیارہ ممالک اسرائیل سے یہ ٹیکنالوجی خرید رہے ہیں۔

    صحرا میں زراعت کے منصوبے پر کام کرنا انتہائی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے، بالخصوص ہم پاکستانیوں کے لیے تو یہ ایک ناممکن کام ہے کیونکہ ہم سے ابھی تک چولستان کی ویرانیاں ختم نہیں ہو رہیں۔ اسرائیل نے نہ صرف اس چیلنج کو قبول کیا بلکہ اس نے کمال کر دکھایا۔ اس نے 1959ء میں ’ڈرپ اری گیشن‘کا کامیاب تجربہ کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ذرا وقت دیکھیں جب وہ یہ تجربہ کر رہا ہے۔یہ وہ دن تھے جب اسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ عرب دنیا ابھی اتنی کمزور نہیں ہوئی تھی اور اسرائیل کے لیے چار سو خطرات تھے کہ ایک طوفان اٹھے گا اور اس ناجائز ریاست کا وجود ختم ہو جائے گا۔ لیکن ان حالات میں بھی وہ اپنی زراعت پر توجہ دے رہے تھے اور انقلابی منصوبے بنا رہے تھے۔اس سے آپ اندازہ قائم کر سکتے ہیں کہ وہ کس بلا کے منصوبہ ساز ہیں اور خود پر ان کے اعتماد کا عالم کیا ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ ڈرپ اری گیشن سے اسرائیل نے اپنے صحرائوں کو قابل کاشت بنا لیا ہے۔ صرف قابل کاشت نہیں بنایا اس کی پیداواری صلاحیتوں نے دنیا بھر کے زرعی ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ دنیا کے زرخیز ترین علاقے میں کاشت ہونے والی فصلوں سے چار گنا زیادہ فصل اسرائیل اب اپنے صحرائوں سے اٹھا رہا ہے۔ یہ اوسط دنیا کے بہترین زرعی میدان رکھنے والے مملک بھی نہیں دے سکے۔ اسرائیل کے صحرائوں سے کاشت ہونے والے فصل پاکستان کے زرعی میدانوں سے حاصل ہونے والی فصل سے اوسطا پانچ گنا زیادہ ہے۔ اس غیرمعمولی کامیابی نے امریکہ اور آسٹریلیا کو مجبور کیا کہ وہ اسرائیل سے رجوع کریں چنانچہ آج امریکہ اور آسٹریلیا اسرائیل سے یہ ٹیکنالوجی اور آلات خرید رہے ہیں۔

    سپیس سائنس میں اسرائیل اس وقت دنیا میں دوسرے نمبر پر کھڑا ہے۔ پہلا سیٹلائٹ’ اوفیق ون‘اس نے 1988ء ہی میں بنا لیا تھا۔ سوئٹزر لینڈ کا ’ لارج ہائیڈرون کولیڈر سنٹر ‘ دنیا بھر میں ایک مقام رکھتا ہے۔ اس میں کام کرنا سائنسدانوں کے لیے ایک اعزاز ہوتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس وقت اسرائیل کے پچاس سائنسدان اس ادارے میں کام کر رہے ہیں۔ اسرائیل اس وقت دنیا میں ایرو سپیس پراڈکٹ بیچنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں بھی اسرائیل سب سے آ گے ہے۔ انٹل نے ڈوئل کور کور ڈو ٹیکنالوجی حیفہ ریسرچ سینٹر میں متعارف کرائی تھی۔ فلیش ڈرائیو آج ہماری زندگی کا اہم جزو بن چکی ہے، یہ بھی ایک اسرائیلی نے تیار کی تھی، اس کا نام ڈوو موون تھا۔
    بریسٹ کینسر کا علاج اسرائیل نے متعارف کروایا تھا۔ دنیا بھر میں جتنی ادویات تیار ہو رہی ہیں، اسرائیل اس میں سرفہرست ہے۔ اسرائیل کی ٹیوا فارما سوٹیکل کمپنی دنیا میں سب سے زیادہ ادویات تیار کر رہی ہے۔

    یروشلم پوسٹ نے چند روز قبل فخر سے یہ دعوی کیا :’’ ہم چنے ہوئے لوگ ہیں‘‘۔ اخبار کا کہنا تھا جن شعبوں میں ہم دوسرے نمبر ہیں وہاں امریکہ اس لیے پہلے نمبر پر ہے کہ امریکہ میں مقیم یہودی اس کی سائنسی تحقیق کو آ گے بڑھا رہے ہیں۔ گویا امریکہ کی سائنسی ترقی بھی یہودیوں کی مرہون منت ہے۔

    یہودیوں کی اس علمی ترقی سے جب آدمی حیرت زدہ ہو جاتا ہے تو تجربہ کاری اور ویژن سے مالامال پنجاب سپیڈ کی ڈھینچوں ڈھینچوں، کٹ کٹ کٹاک اور ککڑوں کوں آدمی کو ششدر کر دیتی ہے۔ دنیا کے تعلیمی ادارے علم و تحقیق کے نئے جہان آباد کر رہے ہیں۔ اسرائیل تو رہا ایک طرف بھارت کے تعلیمی ادارے بھی مختلف شعبوں میں علم و تحقیق کے سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں لیکن عالم یہ ہے کہ ایک طرف پی ایچ ڈی کے تھیسز چربہ سازی کا شاہکار پائے جاتے ہیں تو دوسری جانب تعلیمی ادارے مختلف قسم کے انقلابوں کی تجربہ گاہ بنا دیے گئے ہیں جہاں آپ کو ہر قسم کے قائدین انقلاب تھوک کے حساب سے ملیں گے۔ نہیں ملے گی تو علمی جستجونہیں ملے گی۔ رہی سہی کسر پنجاب سپیڈ کی ڈھینچوں ڈھینچوں ، کٹ کٹ کٹاک اور ککڑوں کوں نے پوری کر دی ہے۔ خبر یہ ہے کہ پنجاب حکومت لڑکیوں کے سکولوں میں علم و تحقیق کی نئی دنیا آباد کرنے کے لیے تین سو بیس ملین روپے کی خطیر رقم سے ایک پروگرام متعارف کرا رہی ہے۔ اس کے تحت ایک ہزار گرلز سکولوں کو چنا گیا ہے۔ ان سکولوں کو چار مرغیاں اور ایک مرغا مع پنجرہ عنایت فرمایا جائے گا۔ تجربہ کاری کا کہنا ہے کہ اس سے بچیوں کو کچن کے بارے تجربہ حاصل ہو گا۔ پنجاب سپیڈ کی اس افلاطونیت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ سکول میں بچیاں سیکڑوں کی تعداد میں ہوں گی مرغیاں چار ہوں گی، کچن کا تجربہ کہاں سے حاصل ہو گا۔ یہ کس ہستی کا پولٹری کا کاروبار ہے جسے اس افلاطونیت سے سہارا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تین سو بیس ملین کی یہ مرغیاں کس شخصیت کے پولٹری فارمز سے خریدی جائیں گی۔ اور پنجاب سپیڈ کو کس نے بتایا ہے کہ لڑکیاں صرف کچن میں کام کرنے کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ کیا پنجاب سپیڈ میں یہ ہمت ہے کہ ایسا واہیات پروگرام بیکن ہائوس، فروبلز یا سٹی سکول وغیرہ میں بھی متعارف کرا سکے۔ کیا ان بے ہودہ تجربات کے لیے صرف غریبوں کی اولاد نظر آتی ہے۔ یہاں اتفاق سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ پنجروں کے لیے سریا کس فائونڈری سے لیا جائے گا۔

    اہل اقتدار کی فکری معراج یہیں ختم نہیں ہو تی۔ کچھ عرصہ قبل حکومت پنجاب کا ایک اشتہار شائع ہوا جس کا عنوان تھا:’’ چھو لو آسماں‘‘۔ بادی النظر میں لگا قوم کی فکری اور سماجی ترقی کا کوئی غیر معمولی منصوبہ پیش کیا جا رہا ہے لیکن متن پر نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا عزیز ہم وطن گدھوں اور کتوں کی ریس لگانے والے ہیں۔ نور دین کے گدھے نے جب جیت کر ڈھینچوں ڈھینچوں کی ہو گی تو پنجاب سپیڈ نے آسمان چھو لیا ہو گا۔

    انتخابات سے چند روز قبل جناب احسن اقبال نے فرمایا تھا کہ پی پی کے پاس تجربہ ہے لیکن جذبہ نہیں، تحریک انصاف کے پاس جذبہ ہے لیکن تجربہ نہیں جبکہ ن لیگ کے پاس تجربہ بھی ہے اور جذبہ بھی۔ اس تجربے اور جذبے کو اب ایسی پنجاب سپیڈ لگی ہے کہ یہ ککڑوں کوں، کٹ کٹ کٹاک اور ڈھینچوں ڈھینچوں کر نے لگاہے۔
    کیا بات ہے پنجاب سپیڈ کی؟

  • الطاف حسین، ایک ہی حل ہے – آصف محمود

    الطاف حسین، ایک ہی حل ہے – آصف محمود

    آصف محمود الطاف حسین کے نامعقول اور مجہول خطاب کے بعداب میرے پیش نظر ایک ہی سوال ہے : ’’ ہماری ترجیح کیا ہے؟ اپنی انا کی تسکین یا ریاست کی سالمیت؟ ‘‘
    ملک کو دی گئی گالی قلب و ذہن میں ایسے ہی ترازو ہوتی ہے جیسے ماں کو دی گئی گالی۔ جذبات کا سلگ اٹھنا بالکل فطری امر ہے۔ تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ جب کسی فرد کو معاشرے میں سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے تو اس کے ساتھ عام مجرم کا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ انصاف کا تقاضا بھلے یہی ہو کہ قانون کسی امتیاز کے بغیر کامل قوت کے ساتھ بروئے کار آئے لیکن کار ریاست کے تقاضے بسا اوقات کچھ اورہوتے ہیں۔ یہ تقاضے نبھانا، ظاہر ہے کہ کوئی معمولی کام نہیں۔ حسیات کا خون کرنا پڑتا ہے، جذبات کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے اور خون کے گھونٹ پی کر خاموش رہنا پڑ سکتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ یہ وہ کوہ کنی ہے، ابوالاعلی مودودی کے الفاظ مستعار لوں تو فرہاد کا زہرہ جس کے تصور سے آب ہو جائے ۔

    الطاف حسین کا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ وہ جذبات کے زیر اثر غلط بات کہہ جاتے ہیں اور انہیں خود بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کہہ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک کائیاں آدمی ہیں جسے خوب معلوم ہے کہ وہ کیا کہنے جا رہا ہے۔ کل کا خطاب بھی محض جوش کلام نہ تھا۔ اس میں ایک جہان معنی پوشیدہ ہے۔
    الطاف حسین کیا چاہتے ہیں، یہ بالکل واضح ہے۔ ریاست کے بارے میں یاوہ گوئی اور ساتھ ہی رینجرز اور آرمی چیف کے بارے میں اخلاق و شائستگی سے گری ہوئی گفتگو۔ یہ شدت جذبات نہیں تھی۔ یہ کوئی اور ہی کہانی ہے۔ اس کہانی میں الطاف کا کردار فی الوقت ریاست کو اشتعال دلانا ہے تاکہ وہ قوت استعمال کرے۔ ہدایت کار کوئی اور ہے۔الطاف سے وہ یہ کام لینا چاہتا ہے۔ ایک بار یہ کام ہو جائے، اس کے بعد دیگر کردار بروئے کار آئیں گے اور کہانی کا انجام خدا نخواستہ کسے معلوم کیا ہو؟ چنانچہ آپ دیکھیں کہ کل خواتین کو آگے کیا گیا۔ اس وقت رینجرز یا پولیس طاقت استعمال کرتی تو الطاف حسین کے تیار کردہ ڈرامے کا پہلا ایکٹ کامیاب ہو جاتا۔ کہا جاتا کہ پنجاب کی رینجرز اور فوج مہاجر ماؤں بہنوں پر طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ مثالیں دے کر کہا جاتا کہ یہی بات اچکزئی کریں تو کچھ نہیں ہوتا، ہم کریں تو ہماری ماؤں بہنوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔
    چنانچہ اس وقت ریاست کو ٹھنڈے دل سے بروئے کار آنا چاہیے۔ حسیات کا خون کر کے، جذبات کا گلا گھونٹ کر اور خون کے گھونٹ پی کر۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی بھی الطاف کی سیاسی عصبیت موجود ہے۔ اس عصبیت کو بتدریج کمزور کرنا ہوگا۔ کوئی ایسا اقدام بھلے آئین اور قانون کی رو سے جائز ہی نہیں ناگزیر ہی کیوں نہ ہو، اگر اس عصبیت کو طاقتور کرنے کا باعث بنتا ہو تو اس سے اجتناب کرنا ہوگا۔

    دو مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک شیخ مجیب الرحمن کی اور دوسری جی ایم سید کی۔ ریاست نے دونوں سے مختلف طریقوں سے نبٹا۔ ایک سے نبٹتے نبٹتے حادثہ ہو گیا اور دوسرے کا آج سندھ میں نام لیوا ہی کوئی نہیں۔ ضیاء الحق نے جب جی ایم سید کو انگیج کیا تھا تو انہیں دشنام اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑا کہ ایک غدار کو پھولوں کے ٹوکرے بھیجتا ہے لیکن اس پالیسی کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔

    اس وقت الطاف حسین کی طاقت اس کو حاصل عصبیت ہے۔ مشتعل ہوئے بغیر اور کوئی ایسی کارروائی کیے بغیر کہ جس کی آڑ میں مودی کشمیر کے مطلع کے جواب میں کراچی کا مقطع کہنا شروع کر دے، ریاست کو ایک واضح وژن کے ساتھ بروئے کار آنا ہوگا۔ ایک دوٹوک فیصلہ کر کے اسے معمول کی کاروائی سے نبٹانا ہوگا۔ الطاف کو حاصل عصبیت کا خاتمہ بہت ضروری ہے اور لازم ہے یہ کام فطری طریقے سے ہو۔ کبھی الطاف، کبھی آفاق، کبھی عامر اور کبھی مصطفی کمال، یہ فطری نہیں، سب کے سب غیر فطری طریقے ہیں۔ متبادل طریقہ یہی ہے کہ موجود سیاسی عصبیت ( یعنی جماعت اسلامی، ن لیگ، پی پی پی، تحریک انصاف وغیرہ ) الطاف کی عصبیت کی جگہ لیتی جائے۔ آہستہ آہستہ دھیرے دھیرے۔ اور ایک وقت آئے کہ کراچی کو اس عذاب سے نجات مل جائے۔ رستہ کٹھن سہی مگر رستہ یہی ہے۔

  • فاروق ستار کی ایم کیو ایم – آصف محمود

    فاروق ستار کی ایم کیو ایم – آصف محمود

    آصف محمود فاروق ستار کی پریس کانفرنس کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا فی الوقت مشکل ہے۔
    الطاف حسین کی واپسی کا راستہ اب بھی انہوں نے کھلا رکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ناسازگار لمحات میں کیا گیا ایک ڈرامہ ہو تاکہ کچھ وقت حاصل کیا جائے اور جب یہ دباؤ کی لہر گزر جائے تو ایک روز کہا جائے کہ اب الطاف بھائی کی ذہنی حالت بہتر ہو گئی، اس لیے آج سے وہی دوبارہ اس جماعت کو چلائیں گے۔
    تاہم اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ یہ ایک صدق دل سے اٹھایا گیا قدم ہو اور اس قدم کے ذریعے واقعی ایم کیو ایم کو الطاف کے عفریت سے نجات کی کوئی صورت تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
    حقیقت کیا ہے اس کا فیصلہ فاروق ستار اور ان کے رفقائے کار کے رویے کریں گے۔ انہیں دوٹوک انداز میں سیاست اور جرم کو الگ الگ کرنا ہو گا۔ انہیں چاہیے کہ الطاف حسین کو جانے والی مالیاتی سرچشموں کی نشاندہی کریں۔ ایم کیو ایم کے اندر جو غنڈہ گرد عناصر ہیں ان کی بھی نشاندہی کریں۔ یہ عسکری گروہ ہی الطاف حسین کی اصل قوت ہے۔ اس قوت کا خاتمہ ضروری ہے۔ اسی قوت کے ذریعے الطاف حسین معاملات پر گرفت حاصل کرنے کی ایک کوشش بھی کر سکتے ہیں۔ اور کراچی میں خون کی نئی ہولی اور ٹارگٹ کلنگ کا نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
    تاہم ایم کیو ایم فاروق ستار یا کسی بھی اور رہنما کی قیادت میں ایک سیاسی جماعت کے طور پر زندہ رہنا چاہے تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ مہاجر ایک حقیقت ہیں جو ملک کے دارالحکومت میں ہجرت کر کے آن آباد ہوئے تھے اور ایک روز انہیں سندھ کا رہائشی بنا دیا گیا۔ اس کے بعد محرومیوں کی ایک طویل داستان ہے، جس کے خاتمے کے لیے مہاجروں کی سیاسی آواز کا زندہ رہنا ایک نعمت سے کم نہیں۔
    فاروق ستار مخلص ہیں یا شعبدہ بازی کر رہے ہیں ۔دونوں صورتوں میں وقت کا موسم بدل رہا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ معاملہ کا حل آپریشن کے بجائے سیاسی عمل میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ سیاسی قوت سیاست کرے اور مجرموں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نبٹا جائے۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہو۔ایک فطری انداز میں۔

  • کچھ فرق نہیں ان ساروں میں – آصف محمود

    کچھ فرق نہیں ان ساروں میں – آصف محمود

    آصف محمود جناب نواز شریف، محترم عمران خان اور قبلہ طاہر القادری صاحب۔ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جسے دوسروں سے بہت زیادہ مختلف قرار دیا جا سکے، طریق واردات کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تینوں ہی ایک جیسا مزاج رکھتے ہیں۔ مسیحا اور انقلابی ان میں سے کوئی بھی نہیں۔ گویا اب ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ اول: ہم جمہوریت کے تسلسل سے اپنا ستیا ناس کروا لیں۔ دوم : ہم جمہوریت ڈی ریل کروا کے اپنا سوا ستیا ناس کروا لیں۔

    ذرا قائدین انقلاب تو دیکھیے، عمران خان اور طاہر القادری۔ ذرا ان کے مربی تو دیکھیے، شیخ رشید اور چودھری شجاعت۔ ذرا ان کے رفقائے کار تو دیکھیے: جہانگیر ترین، اسد عمر، شاہ محمود قریشی۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ایسے لوگ انقلاب لایا کرتے ہیں۔ عمران خان کی حالت یہ ہے جب بھی کلام کرتے ہیں زبان حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ رہنما جب مطالعے کی عادت سے محروم ہو اور کتاب اس کی تہذیب نہ کر سکے تو پھر باقی صرف عمران خان رہ جاتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے وہ شیخ رشید سے متاثر پائے جاتے ہیں۔ اب تو ان کی گفتگو سے پتہ چلتا ہے وہ آداب گفتگو کے بعض حوالوں میں ان سے متاثر بھی ہیں۔ عینی شاہد ہوں اور سارے دکھ کے ساتھ بتا رہا ہوں کہ بھری محفل میں سیاسی مخالفین کا ذکر وہ ان کے جسمانی عیب گنوا کر کرتے ہیں۔ مخالفین پر تنقید میں وہی عامیانہ انداز وہ اپنا چکے ہیں جو شیخ رشید جیسوں کا طرہ امتیاز ہے اور عمران خان کو زیب نہیں دیتا۔ نواز شریف عمرہ پر گئے تو ان پر تنقید شروع کر دی، یہ یاد نہ رہا کہ نواز شریف کا عمرہ پر جانا زیادہ معیوب تھا یا برطانیہ کے گراؤنڈ میں ذاتی جہاز والے نومولود انقلابی کے ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھنا جسے اتنی حیا بھی نہیں کہ رمضان المبارک میں سر عام کھا رہا تھا اور قائد انقلاب کے پہلو میں بیٹھ کر کھا رہا تھا۔ نہ کھانے والے کو حیا آئی کہ ہوٹل سے کھا کر آ جاتا نہ قائد انقلاب کو خیال آیا کہ اسے سمجھا ہی دے۔ شاید خیال آیا ہو لیکن رئیس آدمی کی تجوری کے سائز کے خیال نے کچھ کہنے سے روک دیا ہو۔ جو لوگ ہماری مذہبی اور تہذیبی قدروں سے اس حد تک بے نیاز ہوں وہ یہاں انقلاب لائیں گے؟

    ملک میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں اپنی جماعت میں آج تک جمہوریت نہیں لا سکے۔ پارٹی میں انتخابات کرانے کا کریڈٹ ہر وقت لینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سیکرٹری جنرل کے منصب پر اسی جہانگیر ترین کو بغیر انتخابات کے لا کر بٹھا دیا۔ کے پی کے میں زبان زد عام ہے کہ حکومت بنی گالہ سے چل رہی ہے۔ پارٹی کے قائدین خود مجھے بتا چکے ہیں کہ انہوں نے کس طرح پارٹی انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنایا۔ عمران خان کو بھی بتایا جا چکا ہے لیکن ایسوں کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ پرانے رفقاء مسلسل کوڑے کی ٹوکری میں پھینکے جا رہے ہیں اور وہ نومولود انقلابی جن کی تجوریوں کے سائز بڑے ہیں راتوں رات معتبر ہوتے جا رہے ہیں۔ آدمی حیرت سے سر پکڑ لیتا ہے جب جاوید ہاشمی جیسوں کو نظرانداز کر کے عمران خان اسد عمر کی شان میں پوری غزل کہہ ڈالتے ہیں اور اس کا مطلع بھی یہ ہوتا ہے کہ اسد عمر اتنا امیر آدمی ہے اور مقطع بھی یہ ہوتا ہے کہ اسد عمر کی تجوری بہت بڑی ہے، وہ اتنا کما رہا تھا۔ کیا انقلابیوں کے رویے ایسے ہوتے ہیں۔ ایک سفید پوش بتائیے جسے عمران کی قربت نصیب ہو سکی ہو۔ نہ خان اعظم خود کبھی اپنے حلقے کے عوام سے ملے ہیں نہ ہی اسد عمر کا دامن اس برائی سے آلودہ ہے۔ اسد عمر تو باقاعدہ حلقے کے لوگوں کی تضحیک کرتے ہیں۔ حادثاتی طور پر ایک نشست جیت گئے ہیں اور اب لہجہ احسن اقبال جیسا ہو گیا ہے۔ انقلابیوں کو خوب علم ہے، تجوری سلامت رہے عوامی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قائد انقلاب کراچی سے بلا کر کسی بھی حلقے سے ٹکٹ دے دیں گے۔

    نہ عمران خان کے پاس ڈھنگ کا کوئی پروگرام ہے نہ شیخ الاسلام بقلم خود کے پاس۔ ہاں انا کے بت دونوں کی آستینوں میں موجود ہیں اور بہت بڑے ہیں۔ شیخ رشید اور چودھری برادران اس ملک میں اقتدار کے ایوانوں میں بڑے کروفر کے ساتھ رہ چکے ہیں۔ وہ تب کوئی توپ نہیں چلا سکے تو اب کون سی توپ چلا لیں گے۔ عمران اور شیخ رشید مل کر جب قوم کو نوید انقلاب دیتے ہیں تو ایک نجی چینل پر چلنے والا ڈرامہ ’ بلبلے‘ یاد آ جاتا ہے۔ اس میں ’ مومو‘ کہتی ہے: چلو کمرے میں چل کر آرام کرتے ہیں تو محمود صاحب کہتے ہیں وہ جو ہم کمرے میں چل کر کریں گے وہ آرام ہو گا۔ لوگ اب حیرت سے انگلیاں منہ میں دبا کر کھڑے ہیں کہ عمران خان اور شیخ رشید مل کر جو کریں گے وہ انقلاب ہوگا۔
    شیخ الاسلام صرف ایک مذہبی طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس طبقے کی بھی ایک مختصر سی پاکٹ ان کی بات سنتی ہے۔ ان سے کیا خاک انقلاب آئے گا۔ عمران کو سوچنا ہو گا کہ آج وہ اپنے وابستگان یا شیخ الاسلام بقلم خود کے مریدان با صفا سے مل کر نوا حکومت کا آملیٹ بناتے ہیں تو کل کلاں اگر عمران کی حکومت بن بھی گئی تو کیا یہی کام ن لیگ کے کارکن بھی نہیں کر سکتے۔ کیا جنون صرف تحریک انصاف کے پاس ہے اور باقیوں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں، لیکن یہ بہت آگے کی بات ہے. جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ یہ سارا کھیل اگر کامیاب بھی ہوگا تو اس سے فائدہ حاصل کرنے والے کم از کم عمران خان نہیں ہوں گے۔ کوئی اور ہی ہوگا۔

    لیکن اگر جمہوریت کا تسلسل رہتا ہے اور عمران خان کچھ کر گزرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو کیا اس سے کوئی خیر برآمد ہو نے کی توقع ہے؟ موجودہ حکومت کی بدترین پالیسیوں کے ہنگام اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ بٹ اور کشمیریوں کی چاندی ہے باقی کی قوم دہی کے ساتھ کلچہ کھا رہی ہے یا ان کی آنیاں جانیاں دیکھ رہی ہے۔ جن لوگوں کے جن اداروں کے ساتھ کاروباری مفادات وابستہ ہیں وہ ان اداروں کے مالک و مختار بنا دیے گئے ہیں۔ ایسے میں بجلی کہاں سے آئے؟ خواجہ آصف ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ بارش کی دعا کرو میں کچھ نہیں کروں گا۔ خواجہ صاحب ان کمپنیوں کے مفادات کو سوچیں جن میں وہ شیئر ہولڈر ہیں یا عوام کا سوچیں۔
    ہمارے لیے فی الوقت کوئی راہ جنات نہیں۔ جمہوریت کے تسلسل میں بھی کوئی خیر نہیں اور اس کے ڈی ریل ہونے میں بھی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اچھی لگے یا بری، حقیقت مگر یہی ہے۔