جہانگیر بدر انتقال کر گئے. انا للہ و انا الیہ راجعون.
سپریم کورٹ میں بھٹو ریفرنس کی سماعت ہو رہی تھی. مجھے بھی اس کیس میں وفاق کی جانب سے معاون وکیل مقرر کیا گیا تھا، اس لیے ہر سماعت پر میں سپریم کورٹ میں موجود ہوتا تھا.
ایک روز جب سماعت ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، پیپلز پارٹی کے وزیر راجہ ریاض کے بھائی راجہ نعیم نے مجھے کہا کہ پیچھے چلو تمہیں ایک مزے کی چیز دکھاتا ہوں.
میں ان کے ساتھ اٹھ کر پیچھے آگیا.
جہانگیر بدر کو دیکھ رہے ہیں؟ انہوں نے سوال کیا. لیکن وہ خود جہانگیر بدر کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے. ان کے نظریں سامنے ججز کی نشستوں کی طرف تھیں.
جی دیکھ رہا ہوں.
وہ کیا کر رہے ہیں؟
ٹیب پر کچھ پڑھ رہے ہیں.
جہانگیر بدر ٹیب پر کچھ پڑھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ جیسے کتاب کا صفحہ الٹتے ہیں ویسے ہی ٹیب پر آگے بڑھتے جا رہے تھے.
غور سے دیکھیں، نعیم نے کہا، وہ ٹیب کو انگلی سے آپریٹ کر رہے ہیں یا انگوٹھے سے؟
انگوٹھے سے……. . میں نے انہیں بتایا.
کیا وہ ساتھ ساتھ انگوٹھے پر تھوک بھی لگا رہے ہیں؟
میں نے دیکھا وہ تھوڑی دیر بعد انگوٹھے کو زبان پر لگاتے اور پھر ٹیب پر گھماتے لگتے. یہ ایسے ہی تھا جیسے بعض لوگ نوٹ گنتے گنتے انگلی زبان سے لگا کر گیلی کرتے ہیں.
ہاں لگا رہے ہیں.
نعیم نے مسکراتے ہوئے کہا : بس یہی دکھانا تھا. اب آپ یہ بتائیں کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
خود بتاؤں یا انہی سے پوچھ کر بتاؤں؟
ان سے پوچھ کے بتا دیں تو زیادہ بہتر ہے. نعیم نے جواب دیا اور ہم دونوں قہقہہ لگا کر خاموش ہو گئے. ججز کمرہ عدالت میں داخل ہو چکے تھے.
کچھ دن بعد سپریم کورٹ بار روم میں کچھ وکلاء کے ساتھ گپ شپ ہو رہی تھی، جہانگیر بدر بھی موجود تھے. ماحول خاصا خوشگوار اور بےتکلف تھا. میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا قصہ سنا کر پوچھ لیا. جہانگیر بدر َصاحب خلق خدا اب یہ جاننا چاہتی ہے کہ آپ ٹیب کو تھوک کیوں لگاتے ہیں.
قہقہے پھوٹ پڑے لیکن سب سے اونچا قہقہہ جہانگیر بدر صاحب کا تھا.
تکلفات اور تصنع سے قدرے بے نیاز ایک سادہ اور جینیوئن جہانگیر بدر مجھے ہمیشہ اچھے لگے. سرمایہ دارانہ سیاست میں وہ کارکن سیاست کی چند نشانیوں میں سے ایک تھے. بھٹو مرحوم کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ مجبوریوں کے ساتھ ساتھ عوامی رومان کو کسی حد تک زندہ رکھا اور جہانگیر بدر جیسے غریب کارکن کو بھی عزت دی.
جہانگیر بدر نے بھی اس عزت کی لاج رکھی. دھوپ چھاؤں زندگی کا حصہ ہے، جہانگیر بدر ہر دو صورتوں میں اپنی جماعت کے ساتھ رہے.
اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے. آمین
Author: آصف محمود
-
جہانگیر بدر انتقال کر گئے – آصف محمود
-
علامہ اقبال کی اوپن یونیورسٹی سے چھٹی – آصف محمود
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایک پرچے میں پوچھےگئے بےہودہ سوال کی طرف دوستوں نے توجہ دلائی تو میں نے اسے بےبنیاد پروپیگنڈہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا. میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک تعلیمی ادارے میں اس قدر بےہودگی اور اخلاق باختگی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے. ابھی میری رسول بخش بہرام صاحب سے بات ہوئی جو اوپن یونیورسٹی کے ریجنل ڈائریکٹر ہیں. میں نے ان سے اس پرچے کی بابت سوال کیا اور انہوں نے جو جواب دیا اس نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے.
فرمانے لگے: جی آصف صاحب! ہم نے پوچھا ہے کہ بہن کی فزیک بتائیں، اس میں حرج کیا ہے؟
میں نے آج اپنے ٹاک شو میں بھی ان صاحب کو فون پر لیا اور انہوں نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ اسی موقف کا اظہار کیا.پروگرام کا لنک
یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے. بے ہودگی کے یہ مظاہر اتفاقات زمانہ کے باب میں درج نہیں کیے جا سکتے. اقبال کے نام سے منسوب ایک تعلیمی ادارے سے اس چاند ماری کا آغاز بھی محض اتفاق نہیں ہے. یوم اقبال کی چھٹی کے خاتمے کے بعد اب یہ اقبال کی چھٹی کا اعلان ہے. دل مان کر نہیں دیتا کہ یہ واردات کسی شخص کی انفرادی واردات ہوگی. جس دیدہ دلیری سے ریجنل ڈائریکٹر اس حرکت کا دفاع کر رہے تھے، اس سے میری یہ رائے مزید مضبوط ہوئی ہے کہ یہ انفرادی فعل نہیں ہے. یہ نصاب اور درس گاہوں کو سیکولر کرنے کی کوششوں کی اولین دستک ہے.
اس معاملے کو ایک دوسرے رخ سے بھی دیکھا جانا چاہیے. کچھ این جی اوز جو ہماری اقدار کے درپے ہیں، وہ باقاعدہ لوگوں کو ایسی حرکتوں کا معاوضہ دیتی ہیں. اس معاوضے کی تپش صحافت میں بھی محسوس ہوتی ہے اور اب تعلیمی اداروں میں دکھائی دے رہی ہے. جو کچھ ہو رہا ہے بلاوجہ نہیں ہو رہا نہ ہی اسے محض اتفاق کہا جا سکتا ہے.
-
اقبال ؒ کی چھٹی؟ آصف محمود
یومِ اقبال کی چھٹی ختم کر دی گئی ہے، غالبا اب اقبال ؒ کی چھٹی مقصود ہے۔
ارشادِ تازہ ہے کہ ہمارامستقبل ایک لبرل پاکستان ہے۔حضرت قائدِ اعظم کی ایک عدد تقریر کے ایک پیراگراف سے تو سیاق و سباق سے ہٹ کر سیکولرزم برآمد فرما لیا گیا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ایسی کوئی واردات اقبال ؒ کے ساتھ نہیں ہو سکتی، چنانچہ قومی یادداشت سے اقبالؒ کو محو کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ آج چھٹی ختم ہوئی ہے، کل نصاب مشقِ ستم بنے گا، چند سال بعد کہیں اقبالؒ کا ذکر ہوا تو بچے پوچھیں گے: کون سا اقبال؟ ہم جو اس وقت تک خاصے لبرل ہو چکے ہوں گے، کندھے اچکا کر جواب دیں گے، ارے بیٹا! اپنی سوچ کو گلوبلائز کرو، کوئی رابرٹ فراسٹ کی بات کرو، کچھ ڈبلیو بی ییٹس اور ایملی ڈکنسن کو ڈسکس کرو، یہ کیا تم سیالکوٹ کے ایک مقامی شاعر کو لے کر بیٹھ گئے ہو۔معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ حاکمِ وقت پر اچانک ’ کام کام اور بس کام‘ کی حقانیت آشکار ہوگئی ہو اور اس نے یومِ اقبال کی چھٹی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہو۔ بات کہیں پیچیدہ ہے۔ یہ یومِ اقبا ل کی چھٹی کے خاتمے اعلان نہیں، یہ اقبالؒ کی چھٹی کا اعلان ہے۔
یہ فیصلہ، معلوم یہ ہوتا ہے کہ، مقامی سیاست کی بصیرت سے نہیں پھوٹا، اس کی جڑیں کہیں اور ہیں۔ یہ ان کاوشوں کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے جن کا مقصد پاکستان کی نظریاتی سمت تبدیل کرنا اور ہر اس علامت کو مٹا دینا ہے جسے مذہب سے کوئی نسبت ہے یا جو مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے پورے قد کے ساتھ کھڑے ہونے کی اہلیت رکھتی ہے۔یہ بدگمانی بے سبب نہیں۔ اگلے روز ایک وزیرِ مملکت کی جانب سے یومِ اقبال پر ایک پروگرام کے انعقاد کا فیصلہ ہوا۔ ایک ہی دن بعد دوسرا پیغام ملا کہ یہ پروگرام منسوخ کر دیا گیا ہے، کیونکہ ایک اہم کام آ گیا ہے۔ میں سکتے کے عالم میں سوچتا رہا: کاش اہم کام کے ساتھ وہ اجناسِ نایاب بھی آ جاتیں جن کا خواجہ آصف صاحب نے ذکر فرمایا تھا۔ یہ اتفاقِ رائے اسی ایجنڈے کا حصہ معلوم ہوتا ہے جس کے تحت اس ملک کو لبرل بنانے کا اعلان فرمایا گیا ہے۔
قومی مشاہیر کے دن منانے کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ آپ یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ اس دن اور اس فکر سے ہماری وابستگی کا عالم کیا ہے۔ یہ دن مناتے وقت بھلا سیکشن آفیسر وزیر اعظم اور صدرِ محترم کو بتائے بغیر برسوں پرانی فائل جھاڑ کر ان کی طرف سے رسمی بیان ہی کیوں نہ جاری فرمادیا کریں، قومی نفسیات پر اس کا ایک اثر پڑتا ہے۔اس لیے مکرر عرض ہے کہ یہ محض ایک چھٹی کے خاتمے کا اعلان نہیں، یہ پاکستان کی فکری بنیادیں کھود ڈالنے کا اعلان بھی ہے۔
ساری دنیا اپنے مشاہیر کے دن مناتی ہے۔ ہنگری میں 20 اگست کوسینٹ سٹیفن ڈے منایا جاتا ہے اور تعطیل ہوتی ہے، آئرلینڈمیں 17 مارچ کوسینٹ پیٹرک ڈے پر تعطیل ہوتی ہے، یہ دن سکاٹ لینڈ اور ویلز میں بھی منایا جاتا ہے اور چھٹی ہوتی ہے، سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے سینٹ اینڈریو ڈے منانے اور چھٹی کرنے کا بل بھی پاس کیا ہے، جاپان میں شہنشاہ اکیہیٹو کے یوم پیدائش پر 23 دسمبر کو تعطیل ہوتی ہے، ہر جنوری کی تیسرے سوموار کو امریکہ میں مارٹن لوتھر ڈے منایا جاتا ہے اور عام تعطیل ہوتی ہے، اٹلی، آسٹریا، سپین، جرمنی اور فرانس میں 26 دسمبر کو سینٹ سٹیفن ڈے پر چھٹی ہوتی ہے۔ سپین میں 24 جون کو سینٹ جونز ڈے اور 19 مارچ کو سینٹ جوزف ڈے پر چھٹی ہوتی ہے۔ بیلجیم میں تو سینٹ ویلنٹائن ڈے پر بھی چھٹی ہوتی ہے، بھارت میں 2 اکتوبر کو گاندھی جی کے یومِ پیدائش پر تعطیل ہوتی ہے۔ کامن ویلتھ کے کئی ممالک میں ابھی تک ’کوئینز برتھ ڈے‘ منایا جاتا ہے اور چھٹی کی جاتی ہے۔ جب یہ سب اپنے اپنے دن منا سکتے ہیں تو پاکستانی حکومت کو کیا مسئلہ ہے۔ اگر اتنا ہی کام کا شوق ہے تو جناب نواز شریف اورشہباز شریف کیا یکم مئی کی ’یومِ مزدوراں‘ کی چھٹی ختم کرنے کی ہمت کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں کر سکتے۔ ختم کرنا تو دور کی بات وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔سارا مسئلہ وہی ہے جس کا ذکر رچرڈ ڈائر نے اپنی کتاب ’وائٹ‘ میں کیا تھا۔ سفید فام تہذیب کے نام انسانیت کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ وہ بات کریں گے تو یہ بات ساری انسانیت سے متعلق ہو گی، تیسری دنیا کے لوگ بات کریں گے تو اس بات پر رنگ، نسل کی چھاپ لگا دی جائے گی۔ چنانچہ لبرلزم کے نام پر جو خوبصورت اصطلاحات استعمال کی جا رہی ہیں، یہ عام آدمی کو الجھن میں ڈال دیتی ہیں، ’ تحمل، برداشت، آزادی، مساوات جیسی اصطلاحات کی کوئی کیسے مخالفت کرے۔ چنانچہ مسلمان بات کرتا بھی ہے تو اسلوب معذرت خواہانہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے ساتھ واردات ہوتے دیکھتا ہے لیکن بول نہیں سکتا۔
لبرلزم، تحمل، برداشت، آزادی، مساوات۔ ان کی تشریح پر کیا صرف سفید فام تہذیب کا حق ہے؟ سفید فام تہذیب کسی دوسری تہذیب کے زندہ رہنے کا حق تو تسلیم کر نہیں رہی، مساوات کہاں سے آ ئے گی؟ اُن کی تہذیب کا ’لیبر ڈے‘ منانا ہم پر فرض، ہم لیکن اپنا اقبال ڈے نہیں منا سکتے؟ جنابِ وزیر اعظم یہ کون سا لبرلزم ہے؟ ہماری مبادیات کی توہین کرتے رہو، ہم برداشت کرتے رہیں، کیا یہ لبرلزم ہے؟ ہم اپنی اقدار کے بارے میں حساسیت کا مظاہرہ کریں اور ان سے دست بردار نہ ہوں تو ہم شدت پسند؟ اور ساری متاع گنوانے پر رضامند ہو جائیں تو ہم لبرل؟ ہر چیز کا تعین سفید فام تہذیب کرے گی۔ اس کے آگے ’تحمل‘ ، ’برداشت‘ سے سرنڈر کر دو تو لبرل، اپنی شناخت پر اصرار کرو تو شدت پسندی۔ مغرب کی اقدار ہیں ہماری نہیں۔ ہمیں جینے کا حق نہیں؟
کیا ہم یومِ اقبال کی چھٹی کے خاتمے کو وزیر اعظم کے ’لبرل پاکستان‘ کا نقشِ اول سمجھیں؟ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ دستورِ پاکستان اس ریاست کی شناخت کو طے کر چکا ہے۔ وزیر اعظم کے پاس یہ شناخت بدلنے کا کوئی میندیٹ نہیں۔ کیا انہیں معلوم ہے کہ وہ آئین کی مبادیات کا ابطال کر رہے ہیں۔ یہ ابطال کوئی مولوی کرتا تو آئین شکن قرار دیا جا چکا ہوتا۔ کیا انہیں معلوم بھی ہے لبرلزم کیا ہے؟ نہیں معلوم تو کسی پڑھے لکھے آدمی سے پوچھ لیا کریں۔ ہر اصطلاح کا ایک مفہوم ہوتا ہے۔ کیا وزیر اعظم پاکستان حقوقِ انسانی کے بارے میں ہیلری کلنٹن کے اس مؤقف سے متفق ہیں جس کا اظہار انہوں نے اقوام متحدہ سے ایک عہد کی صورت میں یوں کیا کہ: ’’ہم جنس پرستی حقوقِ انسانی ہے اور حقوق انسانی ہم جنس پرستی ہے۔‘‘
یہ ملک اسلامی جمہوریہ ہے اور رہے گا۔ اور اس کا فکری امام اقبال ہے اور رہے گا۔
’’یہ چمن یونہی رہےگا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے‘‘ -
عمران خان! میں معذرت چاہتا ہوں – آصف محمود
ایک جہاں کی رعونت اوڑھ کر نشریاتی فضلے سے آلودگی پھیلانے والے میڈیا کو تو حیا نہیں آنی، لیکن مجھ پر ایک معذرت واجب ہے. میں عمران خان اور تحریک انصاف کے کارکنان سے معافی چاہتا ہوں.
میرے جیسے لکھنے والے کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں خبروں کے لیے اخبارات اور چینلز پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے کہ فی الوقت یہی کسی خبر کے بنیادی ذرائع ہیں. ہم یہ کرتے ہیں کہ ان اخبارات اور ٹی وی چینلز سے جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے، اس پر تنقید و تبصرہ کر دیتے ہیں، یا اس کا کسی نئے زاویے سے تجزیہ کر دیتے ہیں. ہر خبر اپنی شہادت پر دینا ہماری استعداد میں نہیں ہے. یہ ممکن نہیں کہ ہم معمول کی کسی خبر پر تبصرہ کر رہے ہوں اس خبر کی صداقت کی شہادت بھی دے سکیں. یہ ایک اعتماد ہوتا ہے کہ ایک اخبار یا چینل ایک واقعے کو اپنے رپورٹر کے ذریعے جس طرح رپورٹ کر رہا ہے، کم و بیش یہ درست ہوگا. جب تک کوئی خبر انتہائی غیر معمولی نہ ہو یا اسے بادی النظر میں قبول کرنا مشکل امر نہ ہو تب تک خبر کے ان بنیادی ذرائع پر بھروسہ کیا جاتا ہے.
عمران خان جس روز سپریم کورٹ گئے، ان کے حوا لے سے ایک خبر مختلف چینلز پر چلی. کہا گیا کہ انہیں سیکورٹی اہلکار نے پاس دینے کے لیے روکا تو انہوں نے اس کا بازو پکڑ کر ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم جانتے نہیں میں کون ہوں. اس خبر کے ساتھ ایک ویڈیو بھی چلائی گئی. بادی النظر میں چینلز کے رپورٹرز کی اس خبر پر شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ رپورٹرز کا ایک لشکر جرار تھا جو اس موقع کی کوریج کے لیے سپریم کورٹ میں موجود تھا. چنانچہ جب خبر بار بار چلنا شروع ہوئی تو اعتماد کے اسی رشتے سے اسے درست سمجھا. اب ظاہر ہے کہ یہ ایک تکلیف دہ رویہ تھا اس لیے عمران کے اس رویے کے خلاف لکھا بھی اور بولا بھی.
بعد میں معلوم ہوا کہ یہ واقعہ انتہائی شرمناک اور غیر ذمہ دارانہ طریقے سے رپورٹ ہوا. حقیقت اس کے برعکس تھی. میڈیا تو سر بازار می رقصم ہے. اس سے معذرت کی توقع ایک کار لاحاصل ہے. میں البتہ نادم ہوں اور معذرت چاہتا ہوں. ابوالکلام آزاد نے کہا تھا : سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا. زندہ ہوتے تو جان پاتے صحافت کےتو سینے میں دل رہا نہ آنکھ میں حیا.
یہ سوچنا اب عام آدمی کا کام ہے کہ جو میڈیا رپورٹرز اور کیمروں کی یلغارانہ موجودگی میں بھی درست خبر نہ دے سکا، اس کے بانکے جب ایران توران کی خبریں لاتے ہیں تو ان میں کتنی صداقت ہوتی ہو گی.
-
دھرنا منسوخی، عمران خان کی کامیابی کیسے؟ آصف محمود
شام سے ایک ہی سوال دریچہ دل پر دستک دے رہا ہے، کیا عمران خان ناکام ہوئے؟ پانامہ لیکس پر عمران خان کی ساری جدوجہد کا حاصل کیا ہے؟ وہ کامیاب ہوئے یا بری طرح ناکام؟ عمران خان کو میں نے کبھی’گنجائش‘ نہیں دی بلکہ بعض اوقات تو کچھ زیادہ ہی شدت سے میں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے، میری رائے میں وہ اپنی جدوجہد کے باب میں کامیاب اور سرخرو ہیں۔ اور یہ کامیابی اتنی غیر معمولی ہے کہ وہ مبارک کے مستحق بھی ہیں۔ ایک ایسے عالم میں جب ان کے تازہ فیصلے پر طنز و تشنیع کے تیر برسائے جا رہے ہیں، اپنے اس ناقد کی جانب سے وہ مبارک قبول فرمائیں۔
عمران خان کی کامیابی کیا ہے؟ میں عرض کر دیتا ہوں۔
1۔ ان کی پہلی کامیابی یہ ہے کہ نظام کی خرابیوں کے خلاف انہوں نے عوام میں جو شعور پیدا کیا اسے آخری مرحلے میں اداروں کی مضبوطی کے قالب ڈھال دیا۔ ایسا نہیں کیا کہ لوگوں کو نظام سے متنفر کر کے کسی انتہا کی طرف دھکیل دیا ہو۔ انقلابی تصورات کے حامل گروہ بالعموم اسی انتہاء کا شکار ہو جاتے ہیں اور بغاوت پر اتر آتے ہیں یا پھر وہ اپنے تصورات کی ایک الگ دنیا آباد کر کے اس میں یوں بسیرا کرتے ہیں کہ معاشرے کے لیے اجنبی ہو جاتے ہیں۔ عمران اس نظام کو چیلنج بھی کر رہا ہے لیکن ان دونوں انتہاؤں سے بھی اپنے وابستگان کو بچا رہا ہے۔ وہ نظام کی خرابیوں کو للکار رہا ہے لیکن اس کی یہ للکار کسی انارکی کی شکل اختیار کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کی بات مان کر اداروں کی طاقت میں اضافہ کر رہی ہے۔ وہ نظام کی خرابیوں کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن کسی غیر فطری طریقے سے نہیں بلکہ ایک آئینی طریقے سے اور اداروں کو مضبوط کر کے۔ اس توازن کو قائم رکھنا کیا یہ معمولی کامیابی ہے۔
2۔ بعض ناقدین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ عمران نے حاصل کیا کیا؟ یہ سب کچھ تو وزیر اعظم پہلے ہی آفر کر رہے تھے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ ٹی او آرز پر حکومت مان کر نہیں دے رہی تھی۔ اسے اپنے ٹی او آرز پر اصرار تھا۔ اس نے معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجا تو ٹھوس اعتراضات کے ساتھ عدالت نے واپس بھجوا دیا۔ ایسے میں بات آگے کیسے بڑھتی۔اس وقت سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ ٹی او آرز وہ خود بھی بنا سکتی ہے۔ میں نے دو ہفتے قبل عمران خان سے سوال کیا کہ حکومت آپ کا وہ کون سا مطالبہ مان لے تو آپ اسلام آباد دھرنا منسوخ کر سکتے ہیں۔ ان کا جواب تھا ’’حکومت ا پنے ٹی او آرز پر اصرار نہ کرے، اپوزیشن کے ٹی او آرز مان لے تو دھرنا منسوخ کیا جا سکتا ہے‘‘۔ اس وقت جب دھرنا منسوخ ہوا ہے عملا یہی صورت حال ہے کہ اب معاملہ حکومتی ٹی او آرز کے تحت نہیں دیکھا جائے گا۔ کیا یہ عمران خان کی کامیابی نہیں ہے؟
3۔ عمران خان نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ اس کا مقصد تصادم یا لاشے گرا کر جمہوریت کا بستر گول کرنا نہیں بلکہ احتساب کی ایک بامعنی صورت گری ہے۔ انا کا قیدی بن جاتا تو تصادم کرانا اس کے لیے مشکل نہ تھا کہ ہر رہنما اپنے حصے کے بےوقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے لیکن عمران نے دھرنا منسوخ کر کے بتا دیا کہ وہ یہ سب نواز شریف کی نفرت میں نہیں بلکہ بامعنی احتساب کے لیے کر رہا ہے۔ اب احتساب کی ایک صورت نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ اگرچہ اس میں بہت سے قانونی اور فنی مسائل ہیں لیکن بہرحال ایک سمت میں سفر شروع ہو گیا ہے اور قوموں کی زندگی میں تبدیلی دھیرے دھیرے ارتقاء سے آتی ہے، کسی راتوں رات آنے والے انقلاب سے نہیں۔ یہ سفر کبھی بار آور ثابت ہوا تو عمران خان کا شمار اس کے اولین نقوش میں ہو گا۔
احتساب کا جو سفر اب شروع ہوا ہے، یہ اگر سست روی کا شکار ہو جاتا ہے تو کٹہرے میں قاضی ہوگا، عمران خان نہیں۔
عمران خان پر تنقید ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی، لیکن فی الوقت اسے دل کی گہرائیوں سے مبارک۔
ویل پلیڈ عمران خان۔ تم ہارے نہیں ہو، تمہارا سفر امید کا سفر ہے۔ تمہاری پہاڑ جیسی غلطیوں کے باوجود یہ سفر جاری رہنا چاہیے۔ -
کتے، مرد اور پردہ نشین – آصف محمود
قلم کے کتے؟
سیرل المیڈا نے انتہائی نامعقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے احتجاجی کارکنان کے لیے ”کتے“ کا لفظ استعمال کیا ہے. اپنے کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ اگر راحیل شریف کو یقین نہ ہوا کہ نواز شریف کو ان کی محدود دائرے میں واپس جانے اور وہیں رہنے پر قائل کیا جا سکتا ہے تو نواز شریف پر احتجاجی کتے چھوڑ دیے جائیں گے. سوال یہ ہے کہ کیا کسی سیاسی جماعت کے کارکنان کو احتجاجی کتا کہنا ایک معقول طرز عمل ہے. سیاسی کارکنان سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں، آپ ان پر تنقید بھی کر سکتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ یہ اہل سیاست ہی ہیں جو سخت اور نازیبا تنقید بھی برداشت کر جاتے ہیں لیکن ان کو احتجاجی کتا کہنا بیمار نفسیات کا مظہر ہے. یہ زبان و بیان گلی کے کسی آوارہ لونڈے کا نہیں ڈان اخبار کے معزز کالم نگار کا ہے جن کے بارے میں ہمیں بڑی وارفتگی سے بتایا جاتا رہا کہ صاحب کوئی معمولی صحافی نہیں آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں. اب جب ایک بات آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ لکھ رہے ہیں تو وہ کیسے غلط ہو سکتی ہے؟ زیادہ امکان یہی ہے کہ ٹاٹ سکولوں سے پڑھے میرے جیسے لوگ اس اصطلاح میں پنہاں نزاکتوں کو نہیں سمجھ پائے ہوں گے. ہم دیہاتی لوگ اگر آکسفورڈ سے پڑھے ہوتے تو ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ اصطلاح استعمال کرنا گالی نہیں ہوتی. اب تحریک انصاف کا کوئی کارکن جوابا کہہ دے کہ احتجاجی کتے تو معلوم نہیں کوئی چھوڑے گا یا نہیں لیکن قلم کے کتے چھوڑے جا چکے ہیں تو کہیں آزادی صحافت خطرے میں تو نہیں پڑ جائے گی.
……………………………………..
کسی مرد کو بلاؤ
کیا بنی گالہ میں بیٹھی پردہ نشین بیبیوں میں اتنی جرات بھی نہیں ہے کہ حکومتی درندگی کے شکار اپنے دو کارکنان کے جنازوں کو کندھا دینے چلے جائیں؟ ان کی آنیاں جانیاں صرف پریس کا نفرنسو ں تک محدود ہیں. بنی گالہ میں بیٹھی قیادت کو آج سڑکوں پر کارکنان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا. شاہ محمود قریشی کو ملتان سے کارکن لانے چاہیے تھے. علیم خان کو لاہور ہونا چاہیے تھا. جہانگیر ترین کو لودھراں سے جلوس لے کر چلنا چاہیے تھا. اسد عمر کو اپنے حلقے میں کہیں ہونا چاہیے تھا جیسے شیخ رشید اپنے حلقے میں موجود ہیں. لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ قائدین انقلاب زرق برق ملبوسات پہنے بنی گالہ میں آ کے بیٹھ گئے. تھوڑی دیر بعد کولہے مٹکاتے ایک قائد انقلاب آتا ہے اور پریس کانفرنس جھاڑ کر چلا جاتا ہے. حال یہ ہے کہ پورے ملک سے صرف ایک پرویز خٹک ہے جو قافلہ لے کر چلا ہوا ہے. باقی سب مجنوں بنی گالہ میں موج فرما رہے ہیں. مغلوں کے زوال کے زمانے میں محل میں سانپ آگیا. ساری کنیزیں چلانے لگیں ”کسی مرد کو بلاؤ“. ایک شہزادہ بھی وہیں تھا وہ بھی چلا رہا تھا: کسی مرد کو بلاؤ. بنی گالہ کے در و دیوار کو زباں ملے تو چیخ چیخ کر کہیں: کسی مرد کو بلاؤ. -
عمران خان! اب شادی کر لو – آصف محمود
تحریک انصاف کے کارکن ساری رات بنی گالہ کے باہر بیٹھے رہے اور خان اعظم نے ایک بار بھی ان کا حال نہ پوچھا. کارکنان میں خواتین بھی تھیں. کم از کم ان کے لیے تو بنی گالہ کے گیٹ کھولے جا سکتے تھے.
مکرر عرض ہے کہ عمران خان نرگسیت کے عارضے کا شکار ہیں جو اپنی ذات کے گنبد میں قید ہیں. وہ سمجھتے ہیں ساری دنیا ان سے محبت کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہے اور وہ کسی کی محبت کا جواب دینے کے پابند نہیں. وہ خود ساختہ دیوتا ہیں.
کسی نجیب آدمی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ کارکنان اس کے دروازے پر پولیس تشدد کا نشانہ بن رہے ہوں اور وہ اندر بیٹھا رہے. عمران خان کارکنان کو اندر بلا سکتے تھے. ان کی دلجوئی کے لیے چائے پانی کا انتظام نہ بھی کر سکتے تو رات کا ایک پہر کم از کم ان کے ساتھ ضرور گزار سکتے تھے لیکن انہوں نے کارکن کو ہمیشہ انسان کے بجائے ٹائیگر ہی سمجھا. کارکنان کو بے یار و مددگار چھوڑ کر قیادت جس طرخ زرق برق ملبوسات میں میڈیا ٹاک تک محدود رہی، اس کے بعد ان نابغوں کو انقلاب کے بجائے پہلی فرصت میں الماس بوبی سے رابطہ کرنا چاہیے. وہ انہیں ایک فہرست بنا کر دے کہ کہاں شادی ہے اور کہاں ولادت باسعادت ہوئی ہے. یہ وہاں پہنچ جائیں اور مل کر گنگنائیں:
”اج میرا نچنے نوں دل کردا.“پاکستانی سیاست میں سب کچھ چل سکتا ہے بزدل قیادت نہیں چل سکتی.
ساحر لدھیانوی نے کہا تھا :
تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لوعمران خان کو اب شادی کا سوچنا چاہیے. اسد عمر اور شاہ محمود قریشی جیسے لوگ کارکنان کی دل جوئی کے لیے حوصلے کا مظاہرہ بھلے نہ کر سکیں، اچھے باراتی ضرور ثابت ہوں گے.
-
عمران خان نون غنیت کی سان پر – آصف محمود
ابھی تک عمران خان نے کون سا قانون توڑا تھا کہ اسے نون غنیت کی سان پر لے لیا گیا.
یوتھ کنونشن پہلے سے طے تھا اور دفعہ 144 بعد میں لگائی گئی. بالعموم ان حالات میں جلسہ ہونے دیا جاتا ہے اور ذمہ داران کے خلاف مقدمہ قائم کر لیا جاتا ہے.
سعد رفیق صاحب نے آج پریس کانفرنس میں جس بد کلامی کا مظاہرہ کیا اس سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی ذہنی کیفیت کیا ہے. صاحب نے اپنی بد کلامی کا جواز یہ پیش کیا کہ انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے. اگر مجبوری جواز بن جائے تو مشرف بھی یہی کہتے ہیں کہ انہیں مجبور کر دیا گیا تھا کہ صاحب کو واش روم میں بند کر دیا جائے.
ن لیگ انتظامی قوت کے نام. پر اگر انتقام لینا چاہتی ہے تو حسب استطاعت اس کی مزاحمت کی جائے گی. یہ جمہوری ملک ہے کسی کی موروثی بادشاہت نہیں ہے.
اسلام آباد بند کرنے کے اقدام کی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن فی الوقت یہ ایک پر امن کنونشن تھا. یہ لوگ اسلام آباد بند کرنے نہیں آئے تھے. ان پر طاقت کا استعمال جمہوری نہیں آمرانہ رویہ ہے.
ویسے بھی حکومت اسلام آباد بند کرنے کے معاملے پر عدالت جا چکی تھی اور عدالت عمران کو طلب کر چکی تھی. عمران کے وکلاء وہاں جواب دینے کو تیار ہیں. عدالت نے آج کے آرڈر میں پر امن سیاسی اجتماع کے حق کی تو ثیق کی ہے. اس کے بعد اس تشدد کا کیا جواز ہے؟
دنیا بھر میں آج مظلوم کشمیریوں نے یوم سیاہ منایا. اقوام. متحدہ کے دفتر کے باہر بھی مظاہرہ ہوا. کم از کم آج کے دن ہمارے سیاسی بیانیے کا موضوع کشمیر ہونا چاہیے تھا. -
پنجابی شاؤنزم، حقیقت یا افسانہ – آصف محمود
جب بلوچستان کی محرومیوں کی بات کی جائے تو پنجابی اہل دانش ایسے شمشیر بکف ہو کر جواب دیتے ہیں گویا کسی حریف کا تذکرہ ہے. اس رویے کو بدلیے. بلوچستان کا پاکستان میں رقبے کے لحاظ ہی سے نہیں نام کے اعتبار سے بھی زیادہ حصہ ہے. پ ا ک س ت ا ن کے سات حروف میں سے چار حروف یعنی ”ستان“، اس صوبے کے نام سے آئے ہیں. اس لیے اس حوالے سے ہونے والی بحث پر حریفانہ انداز میں پوزیشن لینے کی ضرورت نہیں. یہ پاکستان بمقابلہ بھارت نہیں ہے. یہ دو بھائیوں کا معاملہ ہے. ایک کے لہجے میں کچھ تلخی بھی آ جائے تو حریفانہ کشمکش نہیں بلکہ خیر خواہانہ رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے.
بلوچستان کی محرومیوں پر پنجاب میں ایک روایتی فکر پائی جاتی ہے جس کے دو پہلو ہیں. ایک یہ کہ بلوچستان کے مسائل کے ذمہ دار وہاں کے نواب اور سردار ہیں جو کرپٹ ہیں. دوم پنجاب کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں. یہ دونوں مؤقف درست نہیں.
بلوچستان کے تمام علاقے نوابوں کے کنٹرول میں نہیں. وہاں دوسری جماعتیں بھی ہیں. قومی اسمبلی میں ان کی نشستوں کا تناسب دیکھ کر معاملہ سمجھا جا سکتا ہے. وہاں جے یو آئی کے مڈل کلاس کے لوگ بھی ہیں جو جیت کر آتے ہیں اور ڈاکٹر عبد المالک کی پارٹی بھی ہے جو نوابوں اور وڈیروں پر مشتمل نہیں ہے اور ان کو ووٹ ملتے ہیں. اب جہاں نواب نہیں ہیں وہاں کیا ترقی ہوئی ہے؟
یہ کہنا کہ نواب اور وڈیرے کرپٹ ہیں یہ ایک خلط مبحث ہے. اگر بلوچستان میں ترقی اس لیے نہیں ہوسکی کہ وہاں کے نواب اور سردار کرپٹ ہیں تو پنجاب میں کون سے عمر بن عبد العزیز کے عمال حکومت بیٹھے ہیں. لاہور والوں کے کارناموں کا تو شور مچا ہے اور پانامہ پانامہ ہو رہی ہے. اگر کرپشن ہی ترقی میں واحد رکاوٹ ہے تو لاہور میں ستے خیراں کیوں ہیں؟
پھر یہ کہ اگر وہاں کے نواب کر پٹ ہیں تو کیا اس بنیاد پر وہاں کے عام آدمی کی بات ہی اب نہ کی جائے. کیا ان کرپٹ سرداروں کے چنگل سے نکال کر عوام کو بنیادی سہولیات دینا وفاق کی ذمہ داری نہیں. اب اگر کوتاہی وفاق کی ہے تو کیا وفاق میں اکثریت پنجاب کی نہیں؟ تو جناب گلہ تو ہو گا اور گاہے تلخ بھی. تاؤ کھانے کی ضرور ت نہیں. صوبائیت کی لعنت سے بلند ہو کر سوچنا ہوگا کہ بلوچستان کے پاکستانی تک زندگی کے لوازمات کیسے پہنچائے جائیں.
-
سب سے پہلے چین؟ آصف محمود
صحافت اور پھر اردو صحافت، اب میر انیس ہی آئیں تو کوئی مرثیہ ہو۔ جذباتیت اور سطحیت کا آسیب اوڑھے بقلم خود قسم کے علاموں نے امورِخارجہ کو بھی کارِ طفلاں بنا دیا۔اب اگر سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند دوستی کے ذکر پر فرطِ جذبات سے لوگوں کی پلکیں نم ہو جائیں اور دلوں میں اٹھتی جوانیوں کی پہلی پہلی محبتوں کی کسک اٹھنے لگے توحیرت کیسی؟ ہماری نسل کو تو نیم خواندہ علاموں اور انڈر میٹرک تجزیہ نگاروں نے بتایا ہی یہی ہے کہ ہیر رانجھا، سسی پنوں، لیلی مجنوں اور شیریں فرہاد جیسی لوک داستانوں میں نیا اضافہ پاک چین دوستی ہے۔ جب فکر کی پختگی کا عالم یہ ہو تو پھر اس بات پر بھی کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ آپ سے کسی نجی چینل کا معروف اینکر سوال کرے: یہ کیسی دوستی ہے کہ چین بھارت سے این ایس جی پر بات چیت کے امکانات کھلے رکھے ہوئے ہے۔ کل شام ایک ٹاک شو میں جب مجھ سے یہی سوال ہوا تو کم از کم مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
پاک چین دوستی کو ہمارے ہاں اولین محبتوں کے مبالغے سے بیان کیا جاتا ہے۔ اس مبالغے کے زیر اثر اچھے خاصے معقول آدمی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر کبھی برا وقت آیا تو چین ہم پر فدا ہو جائے گا، برسوں سے یکطرفہ ممنونیت کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ ہماری گردنیں ہر وقت چین کے احسانات تلے دبی ہیں۔ ہر علامہ دیوان لکھتا ہے کہ چین نے ہمارے لیے یہ یہ کیا اور پھر اس لوک داستان میں رنگ بھرنے کے لیے اردو صحافت کے یہ افلاطون پاکستان کی بےوفائیوں اور کم ہمتی کا مرثیہ بھی پڑھ دیتے ہیں اور پھر گلوگیر لہجے میں کہتے ہیں: دیکھیں اس سب کے باوجود چین نے ہمارے لیے اتنا کچھ کیا۔
ان مہ و سال میں بہت سے موہوم تصورات مرحوم ہو چکے ہیں۔ جوں جوں تعلیم اور شعور آئے گا ان بقلم خود علاموں کی پھیلائی فکری آلودگی بتدریج ختم ہوتی چلی جائے گی اور نفسیاتی گرہیں کھلتی چلی جائیں گی۔ پاک چین دوستی بھی ایک ایسا موضوع ہے جسے محبت کی لوک داستان کے بجائے امور خارجہ کا ایک پہلو تصور کر کے سمجھنا چاہیے۔ قوموں کے درمیان پیار، محبت اور وفا نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ قوموں کے درمیان صرف مفادات ہوتے ہیں۔ دو ممالک کا تعلق گاؤں کی پگڈنڈی یا کالج کی سیڑھیوں پر پروان چڑھنے والی دوستی یا محبت نہیں ہوتی، یہ ایک خالصتا مفادات کے لیے استوار رشتہ ہوتا ہے جو مفادات کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ چین سے پاکستان کے بلاشبہ بہت اچھے اور مثالی ہیں مگر یہ کسی لوک داستان کا نام نہیں۔ اپنی نفسیاتی گرہیں کھول کر ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
پہلی بات یہ ذہن نشین کرنے کی ہے کہ چین کی ترجیح معیشت ہے۔ یہ ایک تاجر قوم ہے۔ اب تجارت کی اپنی نفسیات ہے۔ تجارت میں حساب سود و زیاں بڑا معنی رکھتا ہے۔ تاجر اگر سگا بھائی بھی ہو تب بھی وہ حساب سود و زیاں سے بے نیاز نہیں ہوتا، ایک قوم کیسے اس سے بے نیاز ہو سکتی ہے؟ اس دوستی کی بنیاد یہی حساب سود و زیاں رہے گا۔ یہ لیلی مجنوں کی لوک داستان نہیں بن سکتی۔
دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ پاک چین دوستی میں زیادہ توجہ اس نقطے پر دی گئی ہے کہ چین نے ہمیں کیا دیا۔گاہے یوں لگتا ہے کہ ہم ایک بے وفا محبوب ہیں جس کی بار بار کی بےوفائیوں کے باوجود چین ایک سچے عاشق کی طرح اس پر فدا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ چین نے ہمارے لیے بہت کچھ کیا ہوگا تو جواب میں ہم نے بھی بہت کچھ کیا ہوگا۔ تبھی تو یہ دوستی قائم ہے۔ ہم جوابی امکانات کی دنیا جب تک آباد رکھیں گے یہ دوستی قائم رہے گی۔ قوموں کے تعلقات میں یک طرفہ ٹریفک نہیں چلا کرتی۔ احترام بجا لیکن ضرورت سے زیادہ یکطرفہ ممنونیت جو احساس کمتری میں مبتلا کر دے، اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ چین نے ان حالات میں پاکستان میں ڈیویلپمنٹ کا کام کیا تو کیا یہ صرف اس نے دوستی کی لاج رکھی۔ ایسا نہیں۔ یہ محض دوستی نہیں یہ چین برازیل اور میکسیکو کی معاشی پالیسی کا ایک بنیادی نقطہ بھی ہے کہ جنگی اثرات سے متاثر ممالک میں سرمایہ کاری کی جائے۔ اس کے اپنے فوائد ہیں جن کے بیان کے لیے ایک الگ نشست چاہیے۔
تیسری بات یہ کہ سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند دوستی ابھی تک سرکاری سطح پر ہے۔ عوام الناس میں روابط نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمیں چین کے صدر، وزیراعظم ، وزیرخارجہ، وزیرداخلہ، وزیر تعلیم، چیف جسٹس میں سے شاید ہی کسی کا نام آتا ہو۔ ہم سے کتنے ہیں جو چین کے آٹھ شہروں کا نام گنوا سکتے ہیں۔ کتنے ثقافتی وفود آتے جاتے ہیں۔ سول سوسائٹی کے روابط کا عالم کیا ہے؟ افغانستان سے ہمارے کتنے رشتے تھے، مذہب کا رشتہ تھا، ہماری ایک صوبے کی ثقافت ملتی تھی، سرحد کے آر پار رشتہ داریاں تھیں، لیکن جب ان پر برا وقت آیا تو ہم یہ کہہ کر ایک طرف کھڑے ہو گئے کہ سب سے پہلے پاکستان۔ خدانخواستہ کبھی ہم پر برا وقت آیا تو چین بھی کہہ سکتا ہے: سب سے پہلے چین۔ اپنی تعمیر بھی خود کرنا پڑتی ہے اور اپنی جنگ بھی خود لڑنا پڑتی ہے۔ کوئی کسی کی آگ میں نہیں جلتا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ہم کسی دوست کو بھلے وہ سمندروں سے گہرا اور ہمالہ سے اونچا ہی کیوں نہ ہو یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم سے دوستی رکھنی ہے تو بھارت کو چھوڑ دو۔ بھارت کی کنزیومر مارکیٹ کو نہ چین نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ ہی ہمارا کوئی اور دوست ملک۔ ہر ملک اپنے مفادات کو دیکھے گا۔ یہ گاؤں کی دوستی نہیں ہوتی جہاں ایک کی محبت میں لوگ دوسرے سے تعلقات خراب کر لیتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک طویل عرصہ ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے دونوں ملکوں میں گونجتے تھے اور تارا پور کے بھارتی ایٹمی ری ایکٹر کو ایندھن ایک عرصے سے چین فراہم کر رہا ہے۔ بےشک ان کے میزائلوں کا تعارف یہ ہو کہ یہ بیجنگ اور دلی تک مار کرتے ہیں، ان کی تجارت کا حجم کئی گنا بڑھ چکا ہے۔
پانچویں بات یہ کہ امریکہ سے ہماری بےزاری اپنی جگہ لیکن عسکری اعتبار سے چین ہمارے لیے اس کا متبادل نہیں بن سکتا۔ یاد رہے کہ امریکہ کے صرف پینٹاگون کا بجٹ چین کے کل دفاعی بجٹ سے تین گنا زیادہ ہے۔
چھٹا اور آخری نقطہ یہ کہ اگر کبھی چین دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا جیسے آج امریکہ ہے تو اس کا رویہ کیسا ہوگا۔ یاد رہے کہ چین اس خطے میں سب سے پہلا ملک تھا جس نے اسلامی دہشت گردی کے خلاف ’ شنگھائی فائیو‘ بنائی۔ اس کے مقاصد میں لکھا ہے کہ اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ۔ (اصطلاح قابلِ توجہ ہے)۔
ان نقاط کے اٹھانے کا مطلب چین کی دوستی پر انگلی اٹھانا ہرگز نہیں ہے۔ بلاشبہ چین ایک بہترین دوست ہے اور اس سے دوستی میں امکانات کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔ ان گزارشات کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم امورِ خارجہ کو سنجیدگی سے سمجھیں۔ جس طرح جنگ صرف جرنیلوں پر نہیں چھوڑی جا سکتی اسی طرح امورِ خارجہ ’ معروف تجزیہ نگاروں‘ پر نہیں چھوڑے جا سکتے۔ دودھ کے دانت اب گر جانے چاہییں۔