Author: آصف محمود

  • میڈیا اے میڈیا ! کیا ایک چماٹ کافی ہے؟ آصف محمود

    میڈیا اے میڈیا ! کیا ایک چماٹ کافی ہے؟ آصف محمود

    آصف محمود چاند ماری کے لیے اگر چہ اس خاتون میزبان کو چن لیا گیا ہے جسے کراچی نادرا آفس کے باہر ایک ناگوار رویے کے نتیجے میں ایک ناگوار رد عمل کا سامنا کرنا پڑا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ سماج میں اس وقت محض کوئی ایک اینکر نہیں بلکہ میڈیا کا اجتماعی اخلاقی وجود زیر بحث ہے۔یہ فیصلہ اب اہلِ صحافت کو کرنا ہے کہ وہ تمام تیرگی کسی ایک اینکر کے نامہِ اعمال میں لکھ کر سرخرو ہو جاتے ہیں یا ان میں اتنی ہمت ہے کہ وہ اپنے اجتماعی اخلاقی وجود پر توجہ دے سکیں۔

    لمحۂ موجود کی صحافت، سطحیت سے ہم آغوش، مطالعے سے بیزار، خبر کے نام پر خواہشات کا دیوان، زبان و بیان کے اسالیب سے نا آشنا، بریکنگ نیوز کا طوفانِ بد تمیزی، ریٹنگ کی خاطرمعقولیت کا ابطال، کس کس کا رونا روئیں؟ اب میر انیس ہی آئیں تو کوئی مرثیہ ہو۔

    آپ نمایاں کالم نگاروں کی ایک فہرست بنا لیں اور خود فیصلہ کر لیں کیا کہیں کوئی معروضیت باقی رہ گئی ہے۔ کوئی نواز شریف کا حدی خواں ہے تو کوئی عمران کا قصیدہ گو۔بعض احباب کالم نہیں سیاسی آقاؤں کی پریس ریلیزیں لکھتے چلے جا رہے ہیں۔ خبطِ عظمت کا یہ عالم ہے کہ بیرونِ ملک مشاعروں پہ جائیں تو واپس آکر پورا احوال لکھتے ہیں کہ کس کس نے کب کب ہماری کیسے کیسے میزبانی کی۔گویا قوم ان نابغوں کے شب و روز نہ جان پائے تو سعادت سے محروم رہ جائے۔ کچھ وہ ہیں جو اردو کالم میں صدر اوبامہ کو مشورے دیتے ہیں۔ معلوم نہیں انہیں کس نے بتایا ہے کہ اوبامہ کی صبح ان کا کالم پڑھ کر ہوتی ہے؟ جس کے پاس ابھی اپنا پاسپورٹ نہیں وہ امورِخارجہ کا ماہر بنا پھرتا ہے، جس نے ساری زندگی کبھی کرکٹ کا بلا نہیں پکڑا وہ مصباح کو بتانا چاہتا ہے کہ اس کی پلاننگ کیا ہونی چاہیے۔ جسے پاکستان کے حدود اربعہ کا علم نہیں وہ خطے کی تزویراتی صورتحال پر صفحے سیاہ کرتا جا رہا ہے۔ بریکنگ نیوز کا ایک طوفان بدتمیزی ہے۔گدھا گاڑی کی بیل گاڑی سے ٹکر ہو جائے تو نہ صرف یہ بریکنگ نیوز بنتی ہے بلکہ پھولی سانسوں کے ہنگام کوئی صاحب ’کسی کیمرہ مین کے ساتھ‘ آپ کو گدھے اور بیل کے آباؤ اجداد کی رقابت کی کہانی بھی سنا دے گا۔ یہی نہیں اگلے چار روز اس پر ڈفلی بھی بجائی جائے گی کہ یہ خبر سب سے پہلے ہم نے بریک کی۔ سوال یہ ہے کیا صحافت اس چاند ماری کا نام ہے؟

    سماج صرف سیاست کا نام نہیں۔ سماج کے اور بھی بہت سے مسائل ہیں۔ مگر صحافت کو سیاست لاحق ہو چکی ہے۔ اخبار کا صفحہِ اول ہو یا ادارتی صفحہ آپ کو سیاست ہی ملے گی۔ فلاں نے یہ فرما دیا اور فلاں رہنما نے یہ فرما دیا۔ تعلیم، صحت،صفائی جیسے مسائل تو گویا تر جیح ہی نہیں۔ جبکہ آپ امریکہ، برطانیہ کے اخبارات دیکھیں سیاست کو وہاں اتنی ہی جگہ ملتی ہے جتنی دیگر ایشوز کو۔ قوم کی اگر تربیت نہیں ہو سکی اور تہذیب نفس کی کمی ہے تو اس کی ذمہ دار یہ صحافتی روش بھی ہے۔

    مکالمے کا کلچر ہماری تہذیبی روایات میں سے ایک ہے۔ آج ہمارے ٹاک شوز اس روایت کو چاٹ رہے ہیں۔ ہم اپنی نئی نسل کو بتا رہے ہیں کہ گفتگو کے آداب تو محض تکلفات ہیں۔ بات تو لڑ کر کرنی چاہیے جیسے ہمارے سیاست دان کرتے ہیں۔ زیادہ بہتر ہے منہ سے تھوڑا جھاگ بھی نکل آئے۔ ریٹنگ کے چکر میں اینکرز نے بھی ،الا ماشاء اللہ، سنجیدہ اسلوب گفتگو ترک کر دیا ہے۔ کامیاب شو اب وہ نہیں جس میں ڈھنگ کی کوئی بات ہو۔ کامیاب شو وہ ہے جو مجمع لگا سکے۔ چنانچہ جو اچھی ڈگڈگی بجا لے وہی کامیاب۔
    ذمہ داری کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ نرسوں نے لاہور میں اپنے مطالبات کے لیے جلوس نکالا تو ایک چینل نے اس کی فوٹیج پر گانا چلا دیا ’’جی ٹی روڈ تے بریکاں لگیاں نی بلو تیری ٹور ویکھ کے۔‘‘ معلوم نہیں ایسے لوگوں کو ماں کی آغوش میں کبھی تربیت لینے کا موقع ملا یا یہ کسی ورکشاپ پر تیار ہوئے؟

    ایک اور منظر بھی دل پر نقش سا ہو گیا ہے۔ ایک گھر میں لاش پڑی ہے۔ کسی ماں کے معصوم بچے کو عصمت دری کے بعد قتل کر دیا گیا ہے۔ ایک چینل کا رپورٹر وہاں موجود ہے۔ اس کو سٹوڈیو میں بیٹھی اینکر کہتی ہے کیا آپ ہماری مقتول کی ماں سے بات کروا سکتے ہیں۔ وہ مجہول شخص مائیک اس خاتون کے آگے کر کے پوچھتا ہے آپ کیا محسوس کر رہی ہیں؟۔ کاش کوئی شخص جوتا اتار لیتا۔ شاید احساسات کی کچھ ترجمانی ہو جاتی۔

    ایسا ہی ایک اور منظر۔ سیلاب کے دنوں میں میک اپ سے لدی ایک اینکر ایک آدمی کو روکتی ہے۔ اس آدمی کے ایک ہاتھ میں بیٹا اور دوسرے میں معصوم سی بچی ہے۔ وہ شخص پانی سے نکل کر ابھی ابھی خشک جگہ پر آیا ہے۔ محترمہ مائیک اس کے سامنے کر کے پوچھتی ہیں’’آج 14 اگست ہے، کیا آپ ہمیں قومی ترانہ سنائیں گے۔‘‘ وہ آدمی بےبسی سے کہتا ہے ’میرے بچے بھوکے ہیں کچھ کھانے کو ملے گا‘۔ بد ذوقی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ کاش اس آدمی کے پاؤں میں بھی ایک جوتا ہوتا۔

    میڈیا کو خود احتسابی کی آج شدید ضرورت ہے۔ زیادہ بہتر ہوگا معاشرے کے بجائے یہ احتساب ہم خود کر لیں۔ ورنہ یہ جاننے کے لیے تو کسی بریکنگ نیوز کی ضرورت نہیں کہ ہر آدمی کے پاؤں میں دو جوتے ہوتے ہیں۔

    یاد رکھیے غلط یا صحیح کی بحث سے قطع نظر یہ چماٹ آخری چماٹ نہیں ہے۔ حرکتیں ٹھیک کیجیے ورنہ تیار رہیے ایسی چماٹوں کے لیے۔

  • وہ آنکھیں بھی نیلی تھیں – آصف محمود

    وہ آنکھیں بھی نیلی تھیں – آصف محمود

    آصف محمود چائے والے ایک پشتون کی تصویر زیر بحث ہے اور اب میڈیا میں اس کی نیلی آنکھوں پر غزلیں کہی جا رہی ہیں۔ ہردفعہ جب اس کی وجاہت اور خوبصورتی پر کوئی مصرعہ اٹھاتا ہے، میرے اندر کچھ ٹوٹ سا جاتا ہے اور ایک آواز لہو رلا دیتی ہے: ’ زماں کونترے زماں کونترے‘۔

    یہ اسلام آباد کا ڈی چوک تھا۔ ڈرون حملوں کے متاثرین نے یہاں ایک کیمپ لگا رکھا تھا۔ میں اس کیمپ سے اپنا ٹاک شو ریکارڈ کرنے وہاں پہنچا تو ایک گاڑی سے محمد علی درانی نکلے اور اظہارِ یک جہتی کے لیے ان بچوں کے بوسے لینے لگ گئے جن کے جسمانی اعضاء ڈرون حملوں میں ضائع ہو چکے تھے۔ میں نے ایک بچے سے، جس کی دونوں ٹانگیں اور ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی، پوچھا تم اس آدمی کو جانتے ہو؟ اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ میں نے وزیرستان کے عبدالکریم سے کہا کہ اس بچے کو بتاؤ کہ یہ مولوی صاحب پرویز مشرف کے وزیر تھے۔ درانی صاحب کی التجائیہ نظروں کے باوجود عبدالکریم نے پشتو میں بچے کو ساری صورت حال بتا دی۔ اس بچے نے جو جوب دیا وہ سن کر ہم سکتے کے عالم میں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ بچے نے کہا:
    ”میں انہیں کسی اسلامی جماعت کا رہنما سمجھ رہا تھا، یہ مشرف کے وزیر نکلے، لیکن کوئی بات نہیں، یہاں یہ ہمارے مہمان ہیں۔“
    میں نے بہت سے لوگوں سے پختونوں کی مہمان نوازی کا سن رکھا تھا لیکن یہ اتنے زیادہ اعلی ظرف کے حامل ہوں گے، اس کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ آپ ذرا تصور کر کے دیکھیے ایک چودہ پندرہ سال کا بچہ، جس کی دونوں ٹانگیں کٹ چکی ہوں، ایک آنکھ ضائع ہو چکی ہو، اتنی اعلی قدروں کا مظاہرہ کرے۔ میں کتنی ہی دیر حیرت سے اسے تکتا رہا۔

    درانی چلے گئے تو میں نے ریکارڈنگ شروع کر دی۔ ریکارڈنگ کے دوران میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی بچی مسلسل بولے چلے جا رہی تھی۔ وہ عبد الکریم کی قمیض پکڑ کر کھینچتی اور کہتی ”ذماں کونترے ذماں کونترے“۔ میں نے کیمپ کے مہتمم اور مترجم عبدالکریم سے پوچھا یہ بچی کیا کہنا چاہ رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایک ڈرون حملے میں اس کے مکان کا ایک حصہ جزوی طور پر تباہ ہو گیا ہے۔اس حصے میں انہوں نے کبوتر رکھے ہوئے تھے وہ سب مر گئے۔اس لئے یہ مجھے کہہ رہی ہے کہ آپ کو بتاﺅں کہ اس کے کبوتر بھی مار دیے گئے۔’زماں کونترے زماں کونترے‘( میرے کبوتر، میرے کبوتر)۔ میں نے اس معصوم سی بیٹی کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ اسے اردا نہیں آتی تھی اور میں پشتو نہیں جانتا تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں بول رہی تھیں اور میں آنکھوں کے سارے شکوے سمجھ رہا تھا۔ مجھے عباس تابش یاد آ گئے؛
    ”اس کو کیا حق ہے یہاں بارود کی بارش کرے
    اس کو کیا حق ہے مرے رنگلے کبوتر مار دے“
    پروگرام تو ختم ہو گیا لیکن ایک عرصہ اس بچی کی آواز میرے کانوں میں گونجتی رہی”زماں کونترے ، زماں کونترے“۔

    مجھے صرف اتنا کہنا ہے ، اس بچی کی معصوم آنکھیں بھی بہت نیلی تھیں۔ میں بتانا چاہتا ہوں، جس بچے کی دونوں ٹانگیں کٹ چکی تھیں، اس کی آنکھ میں جھیلوں کے عکس تھے، پشتونوں کے خوبصورت بچے اور کسی پری دیس سے اتری دیومالائی کشش والی کتنی ہی معصوم بیٹیاں ڈرون حملوں میں مار دی گئیں۔ کیا کوئی جانتا ہے ان میں سے کتنی آنکھیں جھیلوں جیسی گہری اور آسمان جیسی نیلگوں تھیں، کتنی پلکوں میں قوس قزح کے رنگ تھے، کتنے معصوم اس حال میں مار دیے گئے کہ ان کے ہونٹوں سے ماں کے دودھ کی خوشبو بھی، ابھی جدا نہیں ہوئی تھی۔

    نیلی آنکھوں کے بچاریو! کبھی اس قتل گاہ میں بند ہونے والی معصوم آنکھوں کو بھی دیکھنا، وہ آنکھیں بھی نیلی تھیں۔

  • شیعہ سنی اختلاف، جھگڑا کس بات کا ہے؟ آصف محمود

    شیعہ سنی اختلاف، جھگڑا کس بات کا ہے؟ آصف محمود

    آصف محمود شیعہ اور سنی میں جھگڑا کس بات کا ہے؟ لہو رنگ زمینی حقیقتوں کے باوجود میرے پیش نظر چند دنوں سے یہی ایک سوال ہے۔
    میں شیعہ نہیں ہوں ۔اللہ نے مجھے دو بیٹیوں کی نعمت کے بعد بیٹے سے نوازا تو میں نے اس کا نام علی رکھا۔ ہمارے گھر میں آنے والا پہلا ننھا وجود میری بھتیجی کا تھا، اس کا نام فاطمہ ہے۔ میری چھوٹی بہن کے خاوند کا نام حسن ہے۔ اپنے خاندان میں ادھر ادھر نظر دوڑاؤں تو شبیر، عباس، حسن اور حسین کے ناموں کی ایک مالا سی پروئی نظر آتی ہے۔ حسین ؓ کا ذکر آئے تو دل محبت اور آنکھیں عقیدت سے بھر جاتی ہیں۔ میری پہلی کتاب شائع ہوئی تو اس کا انتساب میں نے ’اپنے آئیڈیلز سیدنا عمر ؓ اور سیدناحسین ؓ ‘ کے نام کیا۔ یہ کتاب سی ٹی بی ٹی پر تھی اس کے صفحۂ اوّل پر میں نے یہ شعر لکھوایا:
    جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو دوستو
    قائم رہو حسین کے انکار کی طرح

    میری شریکِ حیات کا تعلق اعوان قبیلے سے ہے۔ وہ بھی شیعہ نہیں لیکن ان کے ہاں یہ روایت ایک فخر کے ساتھ بیان کی جاتی ہے کہ ان کی نسبت سیدنا علی ؓ سے جا ملتی ہے۔خواجہ معین الدین چشتی نے کس وارفتگی سے کہا تھا:
    ’’حقاکہ بنائے لا الٰہ است حسین۔‘‘
    والہانہ پن تو دیکھیے اقبال کہتے ہیں:
    اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے
    اِک ضرب ید اللہی ، اک سجدہِ شبیری

    مجھے بچپن کے وہ دن آج بھی یاد ہیں جب ہم سب مسجد میں اہتمام سے جایا کرتے تھے جہاں ہمارے خاندان کے قابلِ قدر بزرگ پروفیسر صفدر علی واقعہ کربلا سناتے، نہ سنانے والا شیعہ تھا نہ سننے والے اہلِ تشیع، لیکن دکھ اور درد ہڈیوں کے گودے میں اترتا محسوس ہوتا تھا۔ دیوبندیوں کے حسین احمد مدنی ہوں یا جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد، نام ہی پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ’’ہمارے ہیں حسین ؓ، ہم سب کے ہیں حسین ؓ ۔‘‘ ہمارے تو بابائے قوم ہی محمد علی جناح ہیں، سفر آخرت پہ روانہ ہوئے تو جنازہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا۔ سوچتا ہوں پھر جھگڑا کیا ہے؟ سوائے بدگمانی کے؟ شیعہ بھائی دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا اہلِ بیت کی محبت کے یہ مظاہر ہمیں ایک مالامیں نہیں پرو سکتے؟ کیا یہ بدگمانی مناسب ہے کہ ہر غیر شیعہ کو یزیدی سمجھا جائے؟ کیاآج پاکستان میں کوئی ایک آدمی بھی ہے جس کی ماں نے اس کا نام یزید رکھا ہو؟ سپاہِ صحابہ میں بھی ہمیں علی شیر حیدری کا نام ملتا ہے۔ کیا اتنی نسبتوں کے صدقے ہم مل جل کر نہیں رہ سکتے؟

    بات اب کہہ دینی چاہیے، گھما پھرا کے بات کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اصل مسئلے کو زیرِبحث اب لانا ہی پڑے گا۔ اس کو مخاطب کیے بغیر محض امن امن کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ نفرتوں کی آگ دہلیز تک پہنچ چکی ہے۔ کیا گھر جل جانے کا انتظار ہے؟ اہلِ تشیع بھائی کیسے ہمیں اہلِ بیت کی محبت میں خود سے پیچھے سمجھ سکتے ہیں۔
    حسین ؓ میرے بھی اتنے ہیں جتنے ان کے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ محبتوں کا انداز جدا جدا ہے لیکن ’حسین مِنی وانا من الحسین‘ کے ارشاد مبارک کے بعد کونسا دل ہوگا جس میں حسین ؓ کی محبت نہ ہو گی۔ رہے ان کے اختلافی معاملات تو اتنی مشترک محبتوں کے صدقے کیا ان معاملات کو اللّٰہ پر نہیں چھوڑا جا سکتا؟ کیا ایک دوسرے کی دل آزاری ضرور کرنی ہے؟ زندہ معاشروں میں اختلافات ہوتے ہیں، ان اختلافات کو ایک دائرے میں رہنا چاہیے اور ان اختلافات کے ساتھ زندہ رہنے کا ڈھنگ آنا چاہیے۔ مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب یہ اختلافات بدگمانی میں ڈھل جاتے ہیں۔ بدگمانی پھر حادثوں کو جنم دیتی ہے۔ اختلافات تو امام خمینی اور بنی صدر میں بھی ہو گئے تھے۔ اور ابھی کل کی بات ہے ہم نے حسین موسوی، ہاشمی رفسنجانی، محسن رضائی، اور مہدی کروبی کو احمدی نژاد صاحب کے خلاف احتجاج کرتے دیکھا۔

    سنی حضرات کو بھی اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ شیعہ کے آئمہ کرام سے کیا ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ کیا امام زین العابدین سے ہمیں کوئی نسبت نہیں؟ کیا امام جعفر صادق سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں؟ کبھی ہم نے غور کیا یہ ہستیاں کون تھیں؟ کس عظیم اور مبارک خانوادے سے ان کا تعلق تھا؟ یہ ہمارے ہی بزرگ تھے۔ یہ بھی ہماری ہی شان اور آبرو ہیں۔ ہم نے انہیں کیوں بھلا دیا؟ ہم نے انہیں کیوں نظر انداز کر دیا؟ ان کی تعلیمات ہمیں کیوں نہیں بتائی جاتیں؟ ان کی دینی خدمات سے ہم محروم کیوں؟ان کے فہم دین سے ہم فیض کیوں نہیں حاصل کرتے؟ ہم ان کے علمی کام سے اجنبی کیوں ہیں؟ یہ بیگانگی کیوں ہے؟ دین کے فہم کے باب میں انہوں نے بھی تو زندگیاں صرف کر دیں، یہ بھی تو ہمارا اجتماعی اثاثہ ہیں۔ کیا ہماری باہمی نفرتیں اور جھگڑے اب اتنے منہ زور ہو گئے ہیں کہ ہم نے اپنے بڑے بھی بانٹ لیے، ہم نے ان سے بھی منہ موڑ لیا، ہم اپنے ہی چشمہ ہائے علم سے محروم ہو گئے؟

    میری ہر دو اطراف کے بزرگان سے التجا ہے: آئیے اس کلمے کی طرف جو ہم سب میں مشترک ہے۔

  • سیرل المیڈا، ریاستی ادارے اور نون غنیت – آصف محمود

    سیرل المیڈا، ریاستی ادارے اور نون غنیت – آصف محمود

    آصف محمود سیرل المیڈا صاحب کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔ احباب با جماعت کچھ اس ادا سے نوحہ کناں ہیں کہ فضا سوگوار ہو گئی ہے۔ یہ رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔ چاہوں تو میں بھی ’ آزادی صحافت ‘ کے نام پر ایسی بغلیں بجاؤں کہ آپ پر وجد طاری ہو جائے لیکن میں چیزوں کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہوں۔ باوجود اس کے کہ آمریت سے نفرت اور آئین سے محبت کو میں اپنا فکری زاد راہ سمجھتا ہوں، مجھے نہ سیرل المیڈا صاحب سے کوئی ہمدردی ہے نہ ہی میں اس مرحلے پر ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ نہ چیزیں اتنی سادہ ہیں نہ ہم سب نون غنے ہیں کہ دربار عالیہ سے اشارہ ہو اور ہم بغلیں بجانا شروع کر دیں۔

    یہ آزادی صحافت کا مقدمہ ہی نہیں ہے۔ نون غنوں نے تجربہ کاری سے البتہ اسے’’ آزادی صحافت‘‘ کا مسئلہ بنا دیا ہے۔اصل مقدمہ ہی کچھ اور ہے۔
    ایک انتہائی اعلی سطحی میٹنگ ہوتی ہے، ملک حالت جنگ میں ہے، تو اس کی خبر اتنی تفصیل سے کسی صحافی کو کیسے دے دی جاتی ہے۔ خبریں لیک ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ خبر لیک نہیں ہوئی، یہ اہتمام سے جاری کی گئی جیسے میٹنگ کے منٹس جاری کیے جاتے ہیں۔ کیوں؟

    اس خبر کا حاصل کیا ہے؟ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
    1۔ اپنی فوج کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی اور بھارت کے موقف کی تائید کی گئی کہ خطے میں اصل مسئلہ پاکستان کی فوج ہے۔
    2۔ دنیا کو بتایا گیا کہ ہمارا تو فوج کے ساتھ شدید مسئلہ چل رہا ہے۔ ہم امن چاہتے ہیں لیکن فوج امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اہتمام سے خبر میں بتایا جاتا ہے کہ کسی اور نے نہیں خود شہباز شریف نے ڈی جی آئی ایس آئی سے کہا کہ ہم ان کالعدم تنظیموں کے لوگوں کو پکڑتے ہیں لیکن آپ چھڑا لے جاتے ہیں۔ یہ ایک اہتمام تھا تاکہ کل کلاں حالات خراب ہو جائیں تو دنیا سے کہا جائے کہ ہمیں تو اس بات کی سزا ملی کہ ہم امن چاہتے تھے اور اسی بات پر ہمارا فوج سے تنازعہ ہوا۔
    3۔ ملک میں ایک ماحول بنا دیا گیا کہ حکومت فوج کو سیدھی ہو گئی ہے۔ اب جو صحافی نون غنوں کے خلاف لکھے گا، وہ ’بوٹ پالش‘ کا طعنہ سنے گا اور جو سیاست دان احتجاج کرے گا، اس کی یہ کہہ کر بھد اڑا دی جائے گی کہ ’’ کسی طاقت‘‘ کے اشارے پر سب کچھ کر رہا ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ عمران خان تیس اکتوبر کو نکلا تو اسی طعنے کی زد میں ہو گا۔

    دنیا بھر میں حکومتیں اپنے اداروں سے بات کرتی ہیں، ان کے درمیان اختلافات بھی چلتے ہیں لیکن اتنی اہم میٹنگ کی یوں لمحہ لمحہ تفصیل کبھی ’لیک‘ نہیں کی جاتی۔ ہاں! جب سالوں بعد ڈاکومنٹس ڈی کلاسیفائی ہوں تب سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔ یہاں سب کچھ فورا کیسے اور کیوں سامنے آگیا۔ دوست طعنہ زن ہیں کہ ایٹمی ریاست ایک خبر سے ہل گئی۔ جی نہیں خبر سے نہیں وہ اس بات سے ہل گئی کہ اتنی اہم میٹنگ کے منٹس کیسے لیک ہو گئے۔ کیا ایک ایٹمی قوت کی حامل حکومت اتنی غیر سنجیدہ ہوتی ہے؟ ہمارے اداروں سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی۔ بہت سے معاملات اصلاح احوال کے طالب بھی ہوں گے لیکن یہ خبر اصلاح احوال کی طلب سے زیادہ نفسیاتی گرہوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ کیا ’را‘ یا دیگر تنظیمیں کسی پراکسی میں شامل نہیں۔ کیا وہ صرف بھگوان کی پرارتھنا کرتے ہیں، اور کچھ نہیں کرتے۔ کیا کبھی کسی اور ملک میں اس انداز سے اپنے اداروں پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے؟ شہباز شریف سے کوئی پوچھے کالعدم تنظیموں کے لوگ صرف آئی ایس آئی چھڑا کر لے جاتی ہے یا قبلہ رانا ثناء اللہ صاحب بھی سفارش لے کر آ جاتے ہیں۔ اداروں کو سینگوں پر لینے والے اپنے نامہ اعمال کی سیاہی کب دیکھیں گے؟

    یہ ساری واردات نون غنوں کی ہے۔ آزادی صحافت کا یہ مسئلہ نہیں۔ البتہ ہم یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ وہ مخصوص صحافی کون کون سے ہیں جنہیں مشاورت اور دیگر خدمات کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور خبریں لیک کی جاتی ہیں تو کن کو کی جاتی ہیں؟

    باقی رہ گئے سیرل المیڈا تو ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوا۔ ای سی ایل پر نام ڈالنا بھی حکومت کی نون غنیت کے علاوہ کچھ نہیں۔ اسے بھی حکومت کی ایسی واردات سمجھا جائے جس کا نشانہ وہ نہیں جو نظر آرہا ہے۔ سیرل المیڈا تو بہانہ ہے۔ نشانہ تو اپنے ادارے ہیں۔ عالمی سطح پر انہیں مزید ناخوشگوار صورت حال سے دوچار کر دیا گیا ہے۔

    ہمارے ادارے دودھ کے دھلے یقیناًنہیں۔ ان سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ فارن پالیسی بنانے کا حق پارلیمان کا ہے لیکن یہ خبر اصلاح احوال کی کوشش نہیں، ایک واردات تازہ ہے۔

  • کیا کارپوریٹ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون کہلا سکتا ہے؟ آصف محمود

    کیا کارپوریٹ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون کہلا سکتا ہے؟ آصف محمود

    آصف محمود ایک ایسے وقت میں جس سماج کی پور پور لہو ہو چکی ہے، اپنے ناتراشیدہ میڈیا کی شوخیاں دیکھتا ہوں تو ایک سوال دامن گیر ہو جاتا ہے: کیا کارپوریٹ میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جا سکتا ہے؟

    ابھی کل کی بات لگتی ہے کوئٹہ لہو میں نہا گیا۔ اداسی کی لہر تھی جو وجود میں اتر گئی۔ کیا اہلِ سیاست، کیا اہلِ مذہب سب کو میں نے اداس دیکھا۔ دن امیدو یاس کی ملی جلی کیفیات میں گزر گیا۔ پھرسائے ڈھلنا شروع ہوئے اور مارگلہ کے دامن میں شام اتر آئی۔ ٹی وی آن کیا کہ کیا چل رہا ہے، اہلِ دانش کیا مضامین باندھ رہے ہیں، وہاں مگر وہ طوفانِ بدتمیزی تھا کہ چند ہی لمحوں میں سماعتیں چٹختی محسوس ہوئیں اور پھر ابلیس یاد آیا۔ یاد کیا آیا پوری شدت سے یاد آیا۔ میں رات گئے سوچتا رہا اس وقت ابلیس کیا کر رہا ہو گا۔ اگر وہ پاکستانی چینلز دیکھ رہا ہے تو لازماگنگنا بھی رہا ہو گا: ’’باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک۔‘‘

    سماج سکتے کی کیفیت میں تھا لیکن چینلز پر مسخرہ پن جاری تھا۔ ادھر ادھر سے بھانڈ اکٹھے کر کے بٹھاے گئے تھے جو معاشرے کی نفسیاتی کیفیات سے لاتعلق ہو کر جگتیں مار رہے تھے اور بغلیں بجا رہے تھے۔ میک اپ ذدہ سپاٹ قسم کے روبوٹ چہرے، بلاوجہ کی بتیسیاں، مصنوعی قہقہے،سفلانہ فیشن کی جملہ بے ہودگی، مطالعے اور تحقیق کے ذوق سے محروم اینکر جو حاملہ گیدڑ کی طرح چیخیں مارتے ہیں اور اسے اپنا بانکپن سمجھتے ہیں۔ جو اس بات سے یکسر بےنیاز تھے کہ وہ اس عالم میں مسخرہ پن جاری رکھے ہوئے ہیں جب کوئٹہ اپنے مقتولوں کی تدفین میں مصروف ہے۔ برس بیت گے امام الہند نے کہا تھا: سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ آج محسوس ہوتا ہے صحافت کا سینہ بھی دل سے خالی ہو چکا ہے۔ سینے میں دل نہیں رہے، آنکھوں سے حیا اور وضع اٹھ گئی، اب صرف ڈگڈگیاں بجتی ہیں۔

    ایک چینل پر رپورٹ چل رہی تھی، کوئٹہ کچہری میں لاشے بکھرے تھے، وکالت کا چند روز قبل آغاز کرنے والی ایک بیٹی بھی لقمہ اجل بن گئی، اس کا دکھی باپ اور خون روتی ماں، دل لہو سے بھر گئے۔ دل سے آہ نکل گئی لیکن کارپوریٹ میڈیا ایک لمحے میں نئی جست بھر چکا تھا۔ سکرین پر اب تھرکتے جسم تھے اور بوس و کنار کرتے روشن خیال خواتین و حضرات۔ دیکھنے والے ابھی قتل عام کے سکتے میں تھے اور چینل ایک اور قلانچ بھر کر ایک نیا بے ہودہ منظر دکھا رہا تھا۔ یہ مناظر دیکھے تو متلی سی ہونے لگی۔ کراہت آنے لگی۔ میں سوچنے لگا ہماری کچھ روایات اور اقدار ہوتی تھیں وہ کیا ہوئیں؟ آج بھی پڑوس میں لاشہ پڑا ہو تو محلے میں قہقہہ نہیں گونجتا۔ ہم تو جذبات و احساسات کا احترام کرنے والے لوگ تھے۔ ہمارے ہاں جنازہ جا رہا ہو تو لوگ اپنی سواری روک کر اس سے اتر کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حادثات ہمارے ہاں معمول بن گئے۔ بلاشبہ میڈیا نے اپنے مختلف پروگرامز تو دکھانے ہیں وہ ان کو روکنا شروع کر دے تو حادثہ تو روز ہو رہا ہے، وہ کب تک ان کو روکے رکھے۔ لیکن جس روز حادثہ کی نوعیت ایسی ہو کہ پورا سماج سکتے کی کیفیت میں ہو، کم از کم اس روز تو ایسے پروگرامز سے اجتناب کیا جا سکتا ہے جو دل آزاری کا باعث بنیں۔

    ہمارے ارباب صحافت کی بےشرمی کا عالم یہ ہے کہ اخبارات کا اوپر والا آدھا صفحہ مذہب کے لیے مختص ہوتا ہے اور اس میں پردے کے شرعی احکامات بتائے جاتے ہیں تو نیچے بپاشا باسو کے بوس و کنار اور کرینہ کپور کے زیرو سائز کے فضائل میں نصف صفحہ مختص ہوتا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب ایک ہی ہے: کارپوریٹ میڈیا کی اپنی ضروریات ہیں۔ اسے آپ سے، آپ کی روایات سے، آپ کی اقدار سے، آپ کے احساسات سے، آپ کے دکھ درد سے، آپ کے جذبات سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اس کا اولین مقصد اپنے کارپوریٹ مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ یہ مفاد کرینہ کے زیرو سائز کی تشہیر سے پورا ہو یا ودیا بالن کے کسی نئے معاشقے کی تفصیل سے، اسے ہر قیمت میں اس مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔ کہیں سے کسی پراجیکٹ کے لیے دھن برسنا شروع ہو جائے تو میڈیا کو اس پراجیکٹ کی شان نزول سے کوئی واسطہ نہیں، اسے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ مطالبہ کرنے والے کی تجوری کا سائز کیا ہے۔ اگر وہ تجوری اتنی بھاری بھر کم ہو کہ کارپوریٹ مفادات کا تحفظ کر سکے تو پھر میڈیا کو بالعموم ’فروعی‘ باتوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ پوری دل جمعی سے نئے ٹاسک پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے۔

    یہ کارپوریٹ میڈیا کے کمالات ہیں کہ وہ عامر لیا قت حسین جیسے کردار کو عالم دین کہہ کر متعارف کراتا ہے۔ مذہب تک کو اس میڈیا نے کمرشلائز کر دیا ہے۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آتا ہے تو میڈیا اس مہنیے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اسے ایک تہوار کا رنگ دے دیتا ہے کیونکہ یہ اس کے کارپوریٹ مفادات کا تقاضا ہوتا ہے۔ رمضان اللّٰہ اور اس کے بندے کے تعلق کو از سر نو استوار کرنے کے اہتمام کا نام ہے۔ اعتکاف کا فلسفہ کیا ہے؟ یہی کہ بندہ دنیا سے ایک طرف ہو کر یہ دن اپنے اللہ کے لیے وقف کر دے، لیکن کارپوریٹ میڈیا آخری عشرے کے تقدس کو عید کی تیاریوں کے نام پر پامال کر دیتا ہے۔ یہ مختلف مذہبی ایام کی مناسبت سے اپنا کارپوریٹ کلچر بدلتا رہتا ہے۔ اسے ان ایام سے کچھ نہیں لینا، اسے ان ایام سے صرف اپنا کارپوریٹ مفاد دیکھنا ہوتا ہے۔

    اب سماج کو سوچنا ہوگا کہ کیا آزادی صحافت کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ اپنی جملہ اقدار اور روایات سمیت میڈیا کے چند ناتراشیدہ احباب کے ہاں رہن رکھ دیا جائے؟ پورا معاشرہ میڈیا کے ہاتھوں لاشعوری طور پر پسپائی اختیار کر رہا ہے اور یہ ایک انتہائی بیمار نفسیات کا حامل رویہ ہے۔ ایک زندہ معاشرے میں میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن ایک زندہ معاشرہ اپنی جملہ اکائیوں کی نفی کر کے سب کچھ میڈیا کے قدموں میں نہیں ڈال سکتا۔ بہت خطرناک رویے ہماری دہلیز پر دستک دے رہے ہیں، ہمیں فکری بلوغت کا ثبوت دینا ہوگا۔ اہلِ دانش کسی بھی سوسائٹی کا اہم ترین جزو ہوتے ہیں۔ آج یہ اہم ترین طبقہ پسپا ہو چکا ہے۔ اب میڈیا خود ’ اہلِ دانش‘ بن چکا ہے۔ میڈیا نے دانشور کی ایک نئی تعریف وضع کر لی ہے۔ اب دانشور صرف وہ ہے جو کالم لکھتا ہے یا ٹاک شو کا میزبان ہے، اس کی علمی قابلیت، اس کی تحقیق، اس کا متعلقہ شعبے میں تجربہ، یہ سب قصہ ماضی ہو چکا۔ اب معیشت ہو یا امور خارجہ، متعلقہ شعبوں کے ماہرین، پروفیسرز، ڈاکٹرز کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ میڈیا کے اپنے ’’سینئر تجزیہ نگار‘‘ ہیں جو دنیا کے تمام امور کے ماہر ہیں۔ یہ آپ کو بتائیں گے کرکٹ کیسے کھیلتے ہیں، یہی آپ کی رہنمائی کریں گے کہ بلا سود معیشت کی بنیاد کیسے رکھی جائے گی، یہی آپ کو سمجھائیں گے کہ امریکہ سے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ قلم سے ازار بند ڈالتے ڈالتے جس نے دو کالم اور تین نظمیں لکھ لیں وہ محقق، ادیب اور دانشور بن گیا۔ اب وہ تیسرے درجے کے اخبار میں چوتھے درجے کے اسلوب میں کالم لکھ کر اوبامہ کو بھی مشورے دیتا پایا جاتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔

    میڈیا کے بارے میں سماج کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اگر معاشرے کی فکری طور پر موت واقع نہیں ہو چکی تواس سوال پر ابھی سے غور کر لینا چاہیے۔ سوال وہی ہے: کیا کارپوریٹ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون کہلا سکتا ہے؟

  • سیدنا حسین کو کسی’’اجتہادی گنجائش‘‘ کی ضرورت نہیں – آصف محمود

    سیدنا حسین کو کسی’’اجتہادی گنجائش‘‘ کی ضرورت نہیں – آصف محمود

    آصف محمود تو کیا اب عمار خان ناصر ہمیں بتائیں گے کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا اقدام درست تھا یا نہیں. جائز تھا یا حرام تھا اور نواسہ رسول ﷺ کے اس اقدام کی کوئی اجتہادی گنجائش نکلتی ہے یا نہیں؟ ٍٍ
    ’’ہم پرندے ہیں نہ مقتول ہوائیں پھر بھی
    آ کسی روز کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں‘‘

    محترم عمار خان ناصر کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو موضوع بنایا۔ اس تحریر کے چند بنیادی نکات یہ ہیں۔
    1۔ ان کا کہنا ہے کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے خروج کیا۔
    2۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس خروج کا مقصد اقتدار کا حصول تھا۔
    3۔ عمار خان ناصر لکھتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ عوام کی اکثریت انہیں حکمران دیکھنا چاہتی ہے اور ان کی جدوجہد کی کامیابی کے امکانات بھی بظاہر موجود ہیں۔
    4۔ اس کے بعد عمار خان ناصر ہمیں بتاتے ہیں کہ ائمہ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غیر عادل حکمرانوں کے خلاف خروج حرام ہے۔
    ّ(یعنی جناب عمار خان ناصر نے آغاز اس بات سے کیا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے خروج کیا اور اختتام اس بات پر کیا کہ خروج حرام ہے)
    5۔ ساتھ ہی ایک عجیب سے فکری تکبر کے ساتھ فرمایا کہ: ’’تاہم ان حضرات کے اقدام کے لیے ایک اجتہادی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے اور انہیں شریعت کے کسی صریح حکم کی دیدہ و دانستہ خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینا ممکن نہیں رہتا۔‘‘
    (یعنی نواسہ رسول ﷺ کے اقدام کے لیے اجتہادی گنجائش اب گوجرانوالہ کے مجتہدین کرام پیدا کریں گے)

    جہاں تک خروج کی بات ہے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے خروج نہیں کیا۔ اول بیعت کرنے سے انکار کیا یعنی ظالم حکمران کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد اتمام حجت کیا۔ ان کو آنے والے خطوط میں تکرار کے ساتھ لکھا گیا کہ ہم روز قیامت آپ کے نانا ﷺ سے آپ کی شکایت کریں گے کہ جب احکام دین کو پامال کیا جا رہا تھا تو حسین نے ہماری رہنمائی نہیں کی۔ آپ اتمام حجت کے لیے نکلے اور خاندان سمیت نانا ﷺ کے دین پر قربان ہو گئے۔ یہ خروج کہاں سے ہوگیا؟ معصوم بچوں اور خواتین کے ساتھ خروج نہیں ہوتا۔ خروج کے لیے نکلنے والوں کے ساتھ جنگجو ہوتے ہیں۔ خروج مقصود ہوتا تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اہل خانہ کو ساتھ لے کر مقتل آباد نہ کرتے بلکہ آواز دیتے اور پھر ان کے ساتھ ایک لشکر ہوتا جو میدان کا رخ کرنے سے پہلے گوجرانوالہ جا کر کسی سے یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا کہ قبلہ ہمیں حسین نے بلایا ہے، اب آپ رہنمائی فرما دیجیے کہ اس کی اجتہادی گنجائش نکلتی ہے یا نہیں۔ ابھی تو آپ کا کہنا یہ ہے کہ آپ کے آئمہ اہل سنت کا اتفاق ہے کہ غیر عادل حکمران کے خلاف خروج حرام ہے۔ لیکن اگر سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے جان قربان کرنے کے بجائے بیعت کر لی ہوتی تو آج آپ فرما رہے ہوتے کہ ظالم حکمران کی بیعت چونکہ اہل بیت سے ثابت ہے اس لیے واجب ہے۔

    سیدنا حسین ؓ کی عظیم قربانی کو حصول اقتدار کی کوشش قرار دیتے وقت ’’مجتہدین کرام‘‘ کو ان کی زندگی کا ایک جائزہ تو لے لینا چاہیے۔ کیا شہادت سے قبل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کبھی حصول اقتدار کے لیے جوڑ توڑ کی کوئی کوشش کی؟ اور کیا ان کی شہادت کے بعد، جب مظلومیت کی طاقت بھی ساتھ تھی، کیا حضرت زینب ؓ نے ایسی کوئی کوشش کی جس کا مقصد حصول اقتدار ہو؟

    محترم عمار خان ناصر صاحب! آپ جاوید غامدی صاحب کے خوشہ چین ہیں، خاندان نبوت سے عقیدت و محبت بےشک نہ رکھیے لیکن رائے قائم کرتے وقت فکری دیانت کا مظاہرہ کرنے کی توقع ہم آپ سے نہ رکھیں تو پھر کس سے رکھیں۔ بہر حال آپ نے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو ’’اجتہادی گنجائش‘‘ عطا فرمائی، آپ کا بہت شکریہ۔ بہت سے سخن ہائے گفتنی، میں فی الوقت خیال خاطر احباب کے لیے ناگفتہ چھوڑ رہا ہوں تاہم خاطر جمع رکھیے، فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے اور نبی رحمت ﷺ کے نواسے کو آپ کی ’’اجتہادی گنجائش‘‘ کی ضرورت نہیں ہے۔

    نواسہ رسول کے بارے میں کہی گئی بے بنیاد بات کا ابطال اگر فرض کفایہ ہوتا تو ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب یہ فرض ادا کر چکے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ فرض عین تھا. اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا.

  • دانشور کسے کہتے ہیں؟ آصف محمود

    دانشور کسے کہتے ہیں؟ آصف محمود

    آصف محمود بہت دنوں سے ایک سوال کی دستک سن رہا ہوں۔سوال یہ ہے: دانشور کسے کہتے ہیں؟ ہمارے ہاں دانش کے نام پر یاجوج ماجوج کے جو لشکری سرِ شام ٹی وی چینلز پرسماج کو سینگوں پر لے لیتے ہیں یا صبح دم اخبارات کے صفحات پر کالم کی صورت میں دست سوال دراز کرتے پائے جاتے ہیں، کیا ان کے نام دانشور کی تہمت دھری جا سکتی ہے؟ خیالِ خاطراحباب سے قلم بوجھل ہونے کا احتمال نہ ہوتا تو میں سیدھا سادا سوال کرتا، کیا نیم خواندہ ادیب اور صحافی کو دانشور کہا جا سکتا ہے؟

    دنیا بھر میں مختلف شعبہ جات کے مختلف ماہرین موجود ہیں۔ آپ امریکہ اور برطانیہ کی مثال لے لیں۔ یہاں آپ کو ہر شعبہ کے الگ الگ ماہرین ملیں گے۔ کوئی مشرق وسطیٰ کے امور پر دسترس رکھتا ہوگا تو کسی کو جنوبی ایشیاء کے معاملات کا ماہر سمجھا جاتا ہوگا۔ کچھ لوگ انتہا پسندی پر اتھارٹی ہوں گے تو کئی حضرات دہشت گردی کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہوں گے۔ کسی نے امور خارجہ کی تفہیم میں زندگی گزار دی ہوگی تو کوئی سماج کے داخلی معاملات پر دسترس رکھتا ہوگا۔ کوئی معیشت کی نزاکتوں کا ماہر ہوگا تو کوئی سماجی ایشوز پر مغز ماری کر رہا ہوگا۔ یہاں کی یونیورسٹیاں دانش کے مراکز میں تبدیل ہو چکی ہیں جہاں اہلِ دانش متعلقہ شعبوں میں علم و تحقیق میں مصروف ہوتے ہیں۔ اہلِ دانش نے وہاں اپنے اپنے متعلقہ شعبوں میں عمریں کھپا دی ہیں اور اس طویل ریاضت کے بعد جب یہ پروفیسرز اور ڈاکٹرز رائے دیتے ہیں تو اس رائے میں ایک جہانِ معنی پو شیدہ ہوتا ہے۔ ان ممالک میں آپ کو مختلف اقسام کے تحقیقی ادارے ملیں گے۔ کوئی ادارہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خدوخال پر غور و فکر کر رہا ہوگا، کسی کے پیش نظر معاشی چیلنجز ہوں گے، کہیں ماہرین اگلے عشرے میں درپیش تزویراتی چیلنجز سے نبٹنے کے لے سر جوڑے بیٹھے ہوں گے تو کہیں اس بات پر غور ہو رہا ہوگا کہ مسلم دنیا میں اپنے لیے مزید امکانات کیسے پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ ان اداروں میں ہونے والی تحقیق سے نہ صرف وہاں کا میڈیا فیض یاب ہوتا ہے بلکہ وہاں کی حکومتیں بھی پالیسی سازی کے لیے ان اہلِ دانش سے رہنمائی حاصل کرتی پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ آپ ان کے ٹی وی چینلز یا اخبارات دیکھ لیں آپ کو متنوع موضوعات پر ایسا ایسا ’’ایکسپرٹ اوپینین‘‘ ملے گا کہ ایک خوشگوار حیرت ہوگی۔ مکالمے کی ایک فضا میں وہاں اہل دانش دلائل کے ساتھ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے پائے جائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں کرنٹ افیئرز کا شعبہ ابھی گلیمرائز نہیں ہوا۔ اس میں داخل ہونے کے لیے اضافی اور ’ہم نصابی سر گرمیاں‘ نہیں، متعلقہ شعبے کی مہارت ہی کافی ہے۔

    لیکن پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ یہاں ہر اس آدمی کے ساتھ دانشور کا سابقہ لگ چکا ہے جس نے ایک افسانہ، دو نظمیں اور تین کالم لکھ رکھے ہوں یا دو چار ٹاک شوز میں میزبانی کر چکا ہو، چنانچہ احباب کا تعارف یوں بھی ہوتا ہے’’معروف ادیب، محقق، کالم نگار، دانشور‘‘، بس یوں سمجھیے کہ حبیب جالب کا طنزیہ تخیل ہمارے سماج میں مجسم ہو گیا ہے اور قلم سے ازاربند ڈالتے ڈالتے جس نے دو لکیریں کھینچ دیں یا سکرین پر بیٹھ کر واہی تباہی کہہ لی وہ دانشور بن گیا۔ ہمارے ہاں ’’ایکسپرٹ اوپینین‘‘ کا رواج ہی نہیں۔ مذہبی مسئلہ ہو، فقہی معاملہ ہو، معاشی نقطہ درپیش ہو، کوئی تزویراتی بحث ہو رہی ہو، دنیا کا کوئی بھی موضوع ہو، چند اینکرز اور کالم نگار آپ کو اس پر بلا تکان بولتے نظر آئیں گے۔ یہی اس ملک میں اب ’دانشور‘ ہیں۔ ان میں سے آپ کو ایسا شاید ہی ملے جو کہے کہ بھائی مجھے اس شعبے کا علم نہیں، آپ کسی متعلقہ آدمی سے بات کر لو۔ ایسا کرنا تو ان کی شان کے خلاف ہے۔ چنانچہ یہ آپ کو فارن پالیسی بھی بنا کر دیں گے، بجٹ بھی تیار کر کے دیں گے، احتساب کا فارمولا بھی آپ ان سے لیں، خطے کی تزویراتی کشمکش کا حل ان کی جیب میں پڑا ہے، کرکٹ کے کپتان کو دینے کے لیے بھی ان کے پاس کئی’ماہرانہ مشورے‘ موجود ہیں۔ پہاڑی بکرے جس طرح ہر جھاڑی میں منہ مارتے یہ آپ کو ہر موضوع پر رہنمائی کرتے ملیں گے۔ پوری جہالت اور سارے خبطِ عظمت کے ساتھ۔

    باقی رہ گئے اہلِ دانش اور متعلقہ شعبوں کے ماہرین، ڈاکٹرز، پروفیسرز وغیرہ تو ان کی کسی کو کیا ضرورت ہے؟ جب رونق میلا لگانے کے لیے شیخ رشید صاحب اپنے علم، تحقیق، مہارت اور تجربے کے ساتھ ٹی وی چینلز کو ہر وقت دستیاب ہوں تو کارپوریٹ میڈیا کو کیا پڑی ہے کسی موضوع پر وہ سنجیدہ علمی گفتگو کرتا پھرے۔ صاحب کی زنبیل میں دنیا کے ہر موضوع پر رہنمائی موجود ہے۔ شاید ان کی یہی خوبیاں اور کمالات دیکھتے ہوئے ایک نجی ٹی وی نے انہیں اینکر کی پیش کش کر دی تا کہ ان اہل علم حضرات کی صف میں ایک اور محقق اور سینئر تجزیہ نگار کا اضافہ ہو جائے۔ ویسے ہمارے سماج میں سینئر تجزیہ نگار ہونے کا تعلق کسی کے علمی مرتبے سے نہیں بلکہ اس اتفاق سے ہے کہ ان کے والدہ اور والدہ محترمہ دوسروں سے بہت پہلے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے تھے۔ وہی بات جو مرزا غالب نے بچپن میں ایک بوڑھے سے کہی، جب گلی میں کھیلتے ہوئے ایک عمر رسیدہ آدمی نے غالب کو ڈانٹا کہ بزرگوں کا حیا کیا کرو، غالب نے مسکرا کر کہا: بڑے میاں بوڑھے ہو گئے ہو، بزرگ نہیں۔ بڑے میاں کی شکایت پر جب گھر میں مرزا کی طلبی ہوئی تو کہنے لگے: میں نے نہیں، یہ تو شیخ سعدی نے کہا تھا ’بزرگی بہ عقل نہ بہ سال‘، میں نے تو صرف دہرایا ہے۔

    ہمارا معاشرہ سنجیدگی اور علمی رویوں سے بہت دور جا رہا ہے۔ پہلے علمائے کرام کا جلیل القدر منصب جب عام مولویوں کے ہاتھ آیا تو لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے انہیں نے سماج کو فکری طور پر آلودہ کر دیا۔ اب ابلاغ کے جدید طریقے ان بقلم خود قسم کے ’دانشوروں‘ کے ہاتھ لگے ہیں تو انہوں نے دانش کے نام پر اخبارات میں اور ٹی وی سکرینوں پر جو ’سر بازار می رقصم‘ شروع کر رکھا ہے، اس کے تصور سے بسا اوقات متلی ہونے لگتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ حکومتوں کو جب مشاورت اور مکالمے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ بھی انہی کالم نگاروں اور اینکر پرسنوں کو دانشور سمجھ کر مدعو کرتی ہے۔ اب اگر مشاورت کا علمی معیار یہ ہے تو پالیسیاں کیسی بنیں گی؟ ویسی ہی بنیں گی ناں جیسی اب تک بنتی آئی ہیں۔ اور ان کے نتیجے میں قوم کا آملیٹ بنتا رہے گا۔

    ہمیں اگر ایک سنجیدہ اور بالغ نظر سماج تشکیل دینا ہے تو ہمیں علمی رویوں کی قدر اور مکالمے کے کلچر کا احیاء کرنا ہوگا۔ چونکہ اس وقت ابلاغ کا مؤثر ترین ذریعہ ٹی وی چینلز اور ان کے ٹاک شوز ہیں اس لیے ان شوز کا مزاج بدلنا بہت ضروری ہے۔ ابھی تک ان شوز میں جو کچھ ہو رہا ہے، ایک نیم خواندہ سماج میں اس سے ایک تماشا ضرور لگ جاتا ہے اور ریٹنگ بڑھ جاتی ہے لیکن علم کی دنیا میں ان رویوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ یونیورسٹیوں سے ہمیں ایسے حقیقی اہلِ علم کو آگے لانا ہوگا جنہوں نے علم و تحقیق میں عمریں گزار دیں اور ان سے رہنمائی لینی ہوگی۔ بہت تماشا ہو گیا۔ اب ڈگڈگی بند کیجیے۔ ہمیں سنجیدہ، علمی، باوقار اور بامقصد مباحث کی ضرورت ہے۔

  • آزادی رائے کو بھونکنے دیں؟ آصف محمود

    آزادی رائے کو بھونکنے دیں؟ آصف محمود

    آصف محمود محمود خان اچکزئی پھر بولے، پھر سلیم احمد مرحوم کی یاد آئی. 80 کی دہائی میں انہوں نے لکھا تھا:
    ”آزادی رائے کو بھونکنے دو.“
    زندہ ہوتے تو حاضر ہوتا اور پوچھتا: کب تک اور کتنا.
    قومی اسمبلی میں خان صاحب نے فرمایا کہ فاٹا کی حیثیت کو مت چھیڑیں ورنہ یہ بین الاقوامی ایشو بن جائے گا.
    فاٹا کی حالت ہمارے سامنے ہے. ایف سی آر کے نام پر لاقانونیت. مروجہ آئینی سکیم میں وہاں سپریم کورٹ کو حق نہیں کہ کسی کی داد رسی کر سکے. پولیٹیکل ایجنٹ یہاں کا ان داتا ہے. اور بہت سے مسائل ہیں. چنانچہ اسے قومی دھارے میں لانے اور بنیادی حقوق دینے کی خاطر فاٹا ریفارمز کمیٹی بنائی گئی. ایک طویل مشاورت کا عمل ہوا جو جاری ہے. بہت سی تجاویز زیر غور ہیں کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے یا کے پی کا حصہ بنایا جائے. عمران خا ن کی تجویز ہے کہ ایک مرحلے پر اسے کے پی کا حصہ بنا دیا جائے. یہ معاملات آگے کو بڑھ رہے تھے کہ اچانک اچکزئی صاحب اپنی آزادی رائے سمیت بیچ میں کود پڑے.
    سوال یہ ہے کہ کیا ان کا تعلق فاٹا سے ہے؟
    کیا وہ فاٹا سے منتخب رکن اسمبلی ہیں؟
    کیا وہ فاٹا کے نمائندے یا ترجمان ہیں؟
    فاٹا کے بارے میں فاٹا کے منتخب نمائندوں کی مرضی سے اور فاٹا ریفارمز کمیٹی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد اگر منتخب پارلیمان کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس پر اتنا سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ٹھیک ہے آپ مشورہ دیں، رائے دیں لیکن کس استحقاق کی بنیاد پر آپ کی بات کو حرف آخر سمجھ لیا جائے؟ فاٹا پاکستان کا علاقہ ہے، آپ کی جاگیر کا پائیں باغ نہیں.
    نیز یہ کہ یہ معاملہ بین الاقوامی ایشو کیسے بن جائے گا؟ اچکزئی کے کس ممدوح ملک کو اس سے تکلیف ہوگی کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ بن جائے گا؟ افغانستان کو یا بھارت کو؟ کس کی شہ پر یہ دھمکی دی جا رہی ہے؟
    اچکزئی کس کی زبان بول رہے ہیں؟ کس کی شہ پر ان کا دہن مبارک آگ اگل رہا ہے؟ پاکستان کا ایک داخلی مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ کیسے بن جائے گا؟
    سلیم احمد نے ٹھیک کہا ہوگا مگر کب تک اور کتنا؟

  • رسیدیں نکالو! آصف محمود

    رسیدیں نکالو! آصف محمود

    آصف محمود اب تو احباب باقاعدہ گرہ لگاتے ہیں کہ عمران خان نے آصف محمود کے خواب توڑے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ بھائی توڑے ہیں، بالکل توڑے ہیں، ان کی کرچیاں راہوں ہی میں نہیں بکھری پڑیں وجود میں پیوست بھی ہو چکی ہیں لیکن اب کیا ہم سپنوں کا شہزادہ نواز شریف اور آصف زردای کو بنا لیں؟ یا ان کے ایسے ولی عہدوں کو دل میں مکیں کرلیں جو موروثی سیاست کے طفیل ’ قائد محترم‘ بنے پھرتے ہیں اور گاہے ’ جناب سپیکر‘ کے گال بھی تھپتھپا دیتے ہیں لیکن اگر وطن عزیز میں میرٹ ہو تو شایدیہ ایل ڈی اے میں گیارہویں گریڈ کی سرکاری نوکری بھی نہ لے سکیں؟

    عمران خان سے ہمارا شکوہ کچھ اور ہے۔ اس جماعت کو اور اس کے قائد کو ہم جہاں دیکھنا چاہتے ہیں، یہ وہاں نہیں ہے۔ اس کے اخلاقی وجود کو ہم جن آلائشوں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں وہ لمحہ لمحہ یہاں سکہ رائج الوقت بنتی جا رہی ہیں۔ ہم نے پلکوں میں خواب بن لیے تھے لیکن ہمیں زمینی حقائق کا پیر ہن اوڑھایا جانے لگا ہے، صاف چلی شفاف چلی کو ہم نے مقدس آدرش جان لیا تھا لیکن ہمیں بتایا گیا یہ تو فقط ایک سیاسی نعرہ تھا، ہم نے چاہا تھا کہ سونامی اس ملک کو لاحق سب موذی روایات اڑا کے لے جائے، معلوم ہوا اس کی سرکش لہریں لال حویلی کے نیم سنجیدہ در و دیوار کو بوسے دے رہی ہیں۔ مخلص دوستوں کے بجائے جب عمران کو مسخروں اور ابن الوقتوں کے ہجوم میں گھرا دیکھتے ہیں تو دل اداس ہوتا ہے اور خواب ٹوٹتے ہیں۔ لیکن یہ ہماری تنقید ہے اور ہمیں اس کا حق ہے۔ تخت لاہور کے نون غنے کس منہ سے تنقید کرتے ہیں۔ چھلنی تو بولے سو بولے چھاج کیوں بولے جس میں سو چھید؟

    ساری خرابیاں ایک طرف، اور ان کا دفاع بلا شبہ ممکن ہی نہیں۔ تنقید کی ہے اور کرتے رہیں گے اور کسی تعلق خاطر کو خاطر میں لائے بغیر کرتے رہیں گے لیکن ٹوٹے خوابوں کے ملبے پر پڑی ساری خرابیوں کے باوجود عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نون غنہ سوچ اور اس کے میمنہ میسرہ پر کھڑے جمہوریوں اور اہل جبہ و دستار سے بہت، بہت، بہت بہتر ہے۔ کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگوا تیلی۔

    یہ تصور تکلیف دہ ہی نہیں، شرف انسانی کی توہین بھی محسوس ہوتا ہے کہ حقوق انسانی کے اس عہد جدید میں ہماری آئندہ نسلوں کے قائد قبلہ بلاول زرداری اور عالی مرتبت حمزہ شہباز ہوں گے۔ کیا کبھی آپ نے ان عالی دماغوں کو خطاب کرتے سنا ہے؟ کیا لوگوں میں توہین کا احساس بھی جاتا رہا؟

    کرپشن، دھوکہ، نوسربازی، چوربازاری، شعبدہ بازی اور اس طرح کی جملہ بیماریوں کے خلاف ہمیں کسی جماعت کے کارکنان میں اضطراب ملتا ہے تو وہ تحریک انصاف ہے یا جماعت اسلامی۔ باقیوں نے تو، الا ماشاء اللہ، ان خرابیوں کو اپنی زلف دراز کا حسن قرار دے کر قبول کر لیا ہے۔ یہ اضطراب غنیمت ہے۔ یہ اس رومان کی آخری نشانی ہے جو تحریک انصاف سے وابستہ تھا۔ یہ اضطراب تحریک انصاف کو اپنی ساری خامیوں سمیت دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ اضطراب سیدنا عمرؓ کی اس فکر کی تذکیر بھی ہے کہ لوگو!تمہیں تمہاری ماؤں نے آزاد پیدا کیا تھا۔

    اس اضطراب کا خاتمہ سماج کی موت ہو گی۔ حالات ہمارے سامنے ہیں۔ اہل اقتدار کا ایک شکنجہ ہے جس نے ریاستی اداروں کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ چودہ لاشیں گر جائیں تو مجرم دندناتے رہتے ہیں۔ امور کی تقسیم وزیراعظم اور وفاقی وزیر برائے اپوزیشن جناب خورشید شاہ کے ہاتھوں میں ہے۔ اب پتا چلا ہے کہ دیوانے ہی نہیں دو فرزانے بھی مل بیٹھیں تو خوب گزرتی ہے۔ اس’ جمہوری بانٹ‘ ( میں اسے بندر بانٹ نہیں کہوں گا کیونکہ میں بے زبان جانور کی توہین کا قائل نہیں) میں اگر کوئی حقیقی اپوزیشن یعنی عمران خان کی بات ہی نہ سنے اور اس کے جائز مطالبات کا تماشا بنا دے تو کیا وہ احتجاج بھی نہ کرے؟ یہ نظام ،ارتقائی عمل کے تحت تبدیلی چاہتا ہے۔ کیونکہ اس نظام کے خدوخال ایسے ہیں کہ جو اس کی برائیوں سے منہ کالا نہ کرے، یہ اس کے ہاتھ میں کاسہ انصاف پکڑا کے اسے رسوا کر دیتا ہے اور وہ بے چارہ ساری عمر انصاف کی تلاش میں دھکے کھاتا رہتا ہے اور انصاف پھر بھی اس کی دسترس میں نہیں آتا۔

    ایسے میں آدمی کیا کرے؟
    گلے میں ارسطوئے زمانہ حمزہ شہباز شریف اور لقمان وقت بلاول زرداری کی غلامی کا طوق ڈال کے نسلیں ان کے ہاں گروی رکھوا دی جائیں یا آواز اٹھائی جائے؟
    جی ہاں، بے شک عمران نے میرے خواب توڑے ہیں، لیکن اس برفاب سماج میں آواز بھی صرف وہی اٹھا رہے ہیں۔ ہم اپنے خوابوں کا بھی پہرہ دیں گے لیکن عمران کی آواز میں آواز بھی ملائیں گے۔ عمران خان دیوتا نہیں انسان ہیں، ان کی غلطیوں پر ساری دیانت کے ساتھ تنقید بھی جاری رہے گی لیکن وہ اس سماج میں ایک صدائے حریت بھی ہیں:
    ’’ لوگو اٹھو!تمہیں تمہاری ماؤں نے آزاد پیدا کیا ہے‘‘۔ اس سدا پر کان وہی بند کر سکتا ہے جو بہرہ ہو، یا غلامی پر رضامند۔
    پانامہ لیکس ہی نہیں، جملہ وارداتوں کا حساب تو مانگا جائے گا۔ یہ حساب تو دینا پڑے گا۔ عمران کی ایک ہزار ایک کامیاں آپ کی ایک واردات کا بھی جواز نہیں بن سکتیں۔
    رسیدیں نکالو!

  • سرجیکل سٹرائکس کا بھارتی دعوی – آصف محمود

    سرجیکل سٹرائکس کا بھارتی دعوی – آصف محمود

    آصف محمود سرجیکل سٹرائیک کے بھارتی دعوی کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے.

    1.بھارت نے Along LoC کا لفظ استعمال کیا ہے. Across LoC کا لفظ استعمال نہیں کیا. گویا اس نے سرکاری سطح پر بین الاقوامی قانون کی نزاکتوں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور کہا ہے کہ کارروائی لائن آف کنٹرول کے اس پار یعنی مقبوضہ کشمیر میں ہوئی ہے.

    2.لیکن ساتھ ہی اس نے سرجیکل سٹرائیک کا لفظ استعمال کر دیا. اور اپنے میڈیا کو آنکھ مار دی کی فتح کے پھریرے لہرا دو اور بھارتی میڈیا نے لہرا دیے.

    3.گویا بھارت نے عالمی برادری کے لیے یہ موقف رکھا کہ جو ہوا اس کے زیر قبضہ علاقے میں ہوا اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور بھارتی عوام کے جذبات کی آسودگی کے لیے اپنے میڈیا کے ذریعے سرجیکل سٹرائیک کا تاثر دے دیا. بھارت کا آفیشل. موقف کسی بھی بین الاقوامی فورم پر وہی تصور ہوگا جو ڈی جی ایم او کی پریس کانفرنس میں سامنے آیا. بھارتی میڈیا بالکل ایک دوسری بات کر رہا ہے جو صرف مودی کی جھوٹی فتح کا مضحکہ خیز ابلاغ ہے.

    4.بھارتی میڈیا نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ جناب مودی اگر سب کچھ Along LoC ہوا تو یہ سرجیکل سٹرائیک کیسے ہو گیا؟ کیونکہ وہ پاکستان کے معاملے میں یکسو ہے. کسی نے نہیں کہا کہ یہ سوال کی حرمت کا سوال ہے.