ہوم << سیدنا حسین کو کسی’’اجتہادی گنجائش‘‘ کی ضرورت نہیں - آصف محمود

سیدنا حسین کو کسی’’اجتہادی گنجائش‘‘ کی ضرورت نہیں - آصف محمود

آصف محمود تو کیا اب عمار خان ناصر ہمیں بتائیں گے کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا اقدام درست تھا یا نہیں. جائز تھا یا حرام تھا اور نواسہ رسول ﷺ کے اس اقدام کی کوئی اجتہادی گنجائش نکلتی ہے یا نہیں؟ ٍٍ
’’ہم پرندے ہیں نہ مقتول ہوائیں پھر بھی
آ کسی روز کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں‘‘
محترم عمار خان ناصر کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو موضوع بنایا۔ اس تحریر کے چند بنیادی نکات یہ ہیں۔
1۔ ان کا کہنا ہے کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے خروج کیا۔
2۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس خروج کا مقصد اقتدار کا حصول تھا۔
3۔ عمار خان ناصر لکھتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ عوام کی اکثریت انہیں حکمران دیکھنا چاہتی ہے اور ان کی جدوجہد کی کامیابی کے امکانات بھی بظاہر موجود ہیں۔
4۔ اس کے بعد عمار خان ناصر ہمیں بتاتے ہیں کہ ائمہ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غیر عادل حکمرانوں کے خلاف خروج حرام ہے۔
ّ(یعنی جناب عمار خان ناصر نے آغاز اس بات سے کیا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے خروج کیا اور اختتام اس بات پر کیا کہ خروج حرام ہے)
5۔ ساتھ ہی ایک عجیب سے فکری تکبر کے ساتھ فرمایا کہ: ’’تاہم ان حضرات کے اقدام کے لیے ایک اجتہادی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے اور انہیں شریعت کے کسی صریح حکم کی دیدہ و دانستہ خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینا ممکن نہیں رہتا۔‘‘
(یعنی نواسہ رسول ﷺ کے اقدام کے لیے اجتہادی گنجائش اب گوجرانوالہ کے مجتہدین کرام پیدا کریں گے)
جہاں تک خروج کی بات ہے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے خروج نہیں کیا۔ اول بیعت کرنے سے انکار کیا یعنی ظالم حکمران کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد اتمام حجت کیا۔ ان کو آنے والے خطوط میں تکرار کے ساتھ لکھا گیا کہ ہم روز قیامت آپ کے نانا ﷺ سے آپ کی شکایت کریں گے کہ جب احکام دین کو پامال کیا جا رہا تھا تو حسین نے ہماری رہنمائی نہیں کی۔ آپ اتمام حجت کے لیے نکلے اور خاندان سمیت نانا ﷺ کے دین پر قربان ہو گئے۔ یہ خروج کہاں سے ہوگیا؟ معصوم بچوں اور خواتین کے ساتھ خروج نہیں ہوتا۔ خروج کے لیے نکلنے والوں کے ساتھ جنگجو ہوتے ہیں۔ خروج مقصود ہوتا تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اہل خانہ کو ساتھ لے کر مقتل آباد نہ کرتے بلکہ آواز دیتے اور پھر ان کے ساتھ ایک لشکر ہوتا جو میدان کا رخ کرنے سے پہلے گوجرانوالہ جا کر کسی سے یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا کہ قبلہ ہمیں حسین نے بلایا ہے، اب آپ رہنمائی فرما دیجیے کہ اس کی اجتہادی گنجائش نکلتی ہے یا نہیں۔ ابھی تو آپ کا کہنا یہ ہے کہ آپ کے آئمہ اہل سنت کا اتفاق ہے کہ غیر عادل حکمران کے خلاف خروج حرام ہے۔ لیکن اگر سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے جان قربان کرنے کے بجائے بیعت کر لی ہوتی تو آج آپ فرما رہے ہوتے کہ ظالم حکمران کی بیعت چونکہ اہل بیت سے ثابت ہے اس لیے واجب ہے۔
سیدنا حسین ؓ کی عظیم قربانی کو حصول اقتدار کی کوشش قرار دیتے وقت ’’مجتہدین کرام‘‘ کو ان کی زندگی کا ایک جائزہ تو لے لینا چاہیے۔ کیا شہادت سے قبل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کبھی حصول اقتدار کے لیے جوڑ توڑ کی کوئی کوشش کی؟ اور کیا ان کی شہادت کے بعد، جب مظلومیت کی طاقت بھی ساتھ تھی، کیا حضرت زینب ؓ نے ایسی کوئی کوشش کی جس کا مقصد حصول اقتدار ہو؟
محترم عمار خان ناصر صاحب! آپ جاوید غامدی صاحب کے خوشہ چین ہیں، خاندان نبوت سے عقیدت و محبت بےشک نہ رکھیے لیکن رائے قائم کرتے وقت فکری دیانت کا مظاہرہ کرنے کی توقع ہم آپ سے نہ رکھیں تو پھر کس سے رکھیں۔ بہر حال آپ نے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو ’’اجتہادی گنجائش‘‘ عطا فرمائی، آپ کا بہت شکریہ۔ بہت سے سخن ہائے گفتنی، میں فی الوقت خیال خاطر احباب کے لیے ناگفتہ چھوڑ رہا ہوں تاہم خاطر جمع رکھیے، فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے اور نبی رحمت ﷺ کے نواسے کو آپ کی ’’اجتہادی گنجائش‘‘ کی ضرورت نہیں ہے۔
نواسہ رسول کے بارے میں کہی گئی بے بنیاد بات کا ابطال اگر فرض کفایہ ہوتا تو ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب یہ فرض ادا کر چکے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ فرض عین تھا. اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا.