Author: ایڈمن

  • کانٹ اور قربانی – ارشد زمان

    کانٹ اور قربانی – ارشد زمان

    ارشد زمان عمران شاہد بھنڈر فرماتے ہیں کہ:
    “عظیم جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ حضرت ابراہیم پر یہ اعتراض اٹھاتا ہے کہ جب یہودیوں کے خدا نے ابراہیم سے کہا کہ میرے لیے اپنی سب سے پیاری چیز کو قربان کر دو تو حضرت ابراہیم کو خدا سے یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ خدا مجھے امتحان میں کیوں ڈال رہے ہو؟ ابراہیم کا اپنے بیٹےاسحاق، اسماعیل کے گلے پر چھرا رکھنے کا عمل کانٹ کے نزدیک انسانوں کے حوالے سے ایک غیر اخلاقی عمل ہے۔ ابراہیم نے خدا کی جانب تو اپنی ذمہ داری پوری کر لی تھی مگر خدا سے سوال نہ کرکے نوع انسانی کی جانب اپنی ذمہ داری سے انحراف کیا تھا۔ دریدا نے اپنی کتاب “دی گفٹ آف ڈیتھ” میں کانٹ کے اس نکتے کو ازسر نو اٹھایا ہے۔ دریدا کی دلیل یہ ہے کہ ایک کی جانب ذمہ داری کی تکمیل دوسرے کی جانب غیر ذمہ داری کی شرط پر ہی ممکن ہے۔ یا تو آپ خدا رکھ لیں یا انسان”!
    کانٹ بیچارا فلسفی ہے اور وہ بھی عقل کا غلام، جو ہمیشہ ظاہر کے اگے سجدہ ریز ہوتا ہے۔
    عقل ہمیشہ ظاہر کو دیکھتا ہے جبکہ عشق باطن کا ادراک رکھتا ہے اس لئے جن لوگوں نے عقل کے چشموں سے حقائق کو دیکھنے کی کوشش کی ہے وہ ہمیشہ سراب کے پیچھے پیچھے ہی چل کر تھک ہار کر بیٹھ گئے ہے یا اپنے پیروکاروں کو اندھیروں میں بھگاکر نامعلوم منزل کو پانے کی سعی ناتمام سے دوچار کرایا ہے۔
    حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی زندگی کو عشق کے آئینے میں دیکھ کر ہی رب کی معرفت،عظمت اور اطاعت کی سمجھ آسکتی ہے۔
    حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی کا سفر عشق و محبت سے عبارت ہے اور خلیل اللہ کا جو لقب ملا ہے اسی عشق کا معراج ہے __ورنہ عقل کے تقاضے تو کچھ اور ہوا کرتے ہیں ___
    تازہ میرے ضمیر پر معرکہ کہن ہوا
    عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب
    *
    باب دادا اور پورے معاشرے کے رسم و رواج اور خداووں سے بغاوت اور بتوں تک توڑنا اور ہجرت کرنا___یہ عقل کا پیمانہ نہیں ___!
    *بڑھاپے میں عطا کردہ قابل قدر نعمت ،پیارا لخت جگر اور محبوب بیوی کو لق دق صحرا میں چھوڑنا __ عقل کے نزدیک قابل شک عمل ہے!
    جگر کے ٹکڑے کو زمین پر لٹا کر اس کے گردن پہ چھری پیرنا اور ذبح کرناعقل کے مطابق قابل تنقید ہے
    *
    گوشت، پوست کے بنے ہوئے زندہ انسان کا آتش نمرود میں کودنا ___ماورائے عقل ہے__
    عقل علم دیتا ہے، راستہ دکھاتا ہے اور منزل کے قریب بھی کرتا ہے لیکن منزل طے نہیں کراسکتا !
    گزر جا عقل سے آگے ورنہ
    چراغ راہ ہے منزل نہیں!
    عقل ہمیشہ اسباب اور نتائج کے بھول، بهلیوں میں گم ہو کر تنقید پہ آمادہ ہوتا ہے اور شکوک پیدا کرتا ہے
    عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
    عشق پہ اعمال کی بنیاد رکھ
    لیکن عشق ظاہر کو نہیں باطن کو دیکهتا ہے اور انسان کو قربانی پہ آمادہ کر دے دیتا ہے __”زندگی کے جس چاک کو عقل نہیں سی سکتی اس کو عشق اپنی کرامات سے بے سوزن اور بے غیر تار رفو سی سکتا ہے ”
    وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
    عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تار رفو
    عشق سوچتا بھی ہے، غور و فکر بھی کرتا ہے لیکن محض تصورات، خیالات اور خدشات کا اسیر بننا گوارا نہیں کرتا اسی لیے تو بے کراں فاصلوں کو ایک ہی جست میں طے کرنےکی طاقت رکھتی ہے
    عشق کی ایک جست نے طے کردیا قصہ تمام!
    عشق نتائج، عواقب سے بے پرواہ ہو کر محبوب کی رضا میں فنا ہو کر امر ہوا چاہتا ہے
    بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
    عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی !
    بس خلاصہ یہ ہے کہ اگر زندگی محض عقل کے سہارے جینا ہے تو حقیقت کو پانا مشکل ہی ناممکنات میں سے ہوگا
    کیونکہ عقل تصورات کا بت کدہ تو بناسکتی ہے لیکن زندگی کی صحیح رہبری و راہ نمائی سے قاصر ہے__
    اس لئے حقیقت کو پانے کے لئے اور دراصل محبوب تک پہنچنے کا راستہ ___عشق کا راستہ ہے
    عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق
    عشق نہ ہو تو شرع و دین بت کدہ تصورات!
    عشق و محبت کے راستے چل کر انسان __خلیل اللہ کے معراج کو پا لیتا ہے!
    خرد کی گھتیاں سلجھا چکا ہوں میں
    میرے مولا مجھے صاحب جنون کر دے

  • اہل کتاب کے ساتھ دوستانہ روابط کے لیے نکاح کی حلت سے استدلال – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    اہل کتاب کے ساتھ دوستانہ روابط کے لیے نکاح کی حلت سے استدلال – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے شاگردوں نے اہل کتاب عورتوں کے ساتھ نکاح سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ دوستانہ روابط رکھے جاسکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اہل کتاب خواتین کے ساتھ نکاح کی اجازت کا اصل مقصد اہل کتاب کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کرنا نہیں تھا، بلکہ ان کی خواتین کو اسلام کی قبولیت کا موقع دینا تھا ۔ اگر مقصد محض دوستانہ روابط بنانا تھا تو پھر اہل کتاب مردوں سے مسلمان عورتوں کے نکاح کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟

    اس مکتب فکر کے بعض لوگوں نے اس سے آگے بڑھ کر قرار دیا ہے کہ جن غیر مسلموں سے نکاح کی حرمت کا حکم تھا وہ صرف وہی تھے جن پر رسول اللہ ﷺ نے اتمام حجت کیا تھا۔ باقی رہے آج کل کے غیر مسلم تو یہ حکم ان کے لیے نہیں ہے۔ یہ رائے فقہائے اسلام کے اجماعی موقف کے خلاف تو ہے ہی لیکن یہاں اس رائے پر مولانا اصلاحی کے اصولوں کے تحت تنقید کی جاتی ہے:

    پہلے اس آیت کریمہ کے الفاظ پر غور کریں جس میں یہ اجازت دی گئی ہے:
    [pullquote]الْیَوْمَ أحلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أوتُواْ الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ أوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ إذَا آتَیْْتُمُوہُنَّ أجُورَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْ أخْدَانٍ وَمَن یَکْفُرْ بِالایْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (سورۃ المائدۃ، آیت ۵)[/pullquote]

    ”آج تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں، اور جن کو کتاب دی گئی ہے ان کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے۔ اور (حلال ہیں تمہارے لیے) پاک دامن عورتیں مسلمانوں میں سے اور پاک دامن عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی، بشرطیکہ ان کو قید نکاح میں لاکر ان کا مہر ادا کردو، نہ کہ بدکاری کرتے ہوئے یا آشنائی گانٹھتے ہوئے۔ اور جو ایمان کے ساتھ کفر کرے گا تو اس کا عمل ڈھے جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔“

    پہلے تو لفظ الیوم پر غور کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پچھلی آیات کی طرح یہ آیت بھی اس وقت نازل ہوئی جب اہل کتاب پر حجت تمام ہوچکی تھی۔ اس کے بعد الذین أوتوا الکتٰب کی ترکیب پر بھی غور کریں۔ جیسا کہ مولانا اصلاحی نے واضح کیا ہے، قرآن مجید میں یہ ترکیب بالعموم شرار اہل کتاب کے متعلق استعمال ہوئی ہے جبکہ خیار اہل کتاب کے لیے بالعموم الذین آتینٰھم الکتٰب کی ترکیب آئی ہے۔ اس کے بعد لفظ المحصنٰت پر غور کریں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شرار اہل کتاب کے زیر تسلط بعض پاکباز خواتین پائی جاتی تھیں۔پھر نکاح کے مقصد پر بھی نظر ڈالیں۔ کہا گیا کہ تمہارا مقصد شہوت رانی یا خفیہ آشنائی قائم کرنا نہ ہو، بلکہ پاکبازی اختیار کرنا ہو۔ اس کے بعد آیت کے آخری حصے پر نظر ڈالیں جس میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کہیں وہ ایمان کو چھوڑ کر کفر کی روش نہ اختیار کرلیں۔

    پس آیت کا مجموعی پیغام یہ ہوا کہ جس وقت شرار اہل کتاب پر حجت تمام کی گئی اس وقت بھی ان کے ہاں چند پاکباز خواتین پائی جاتی تھیں جن سے نکاح کی اجازت مسلمانوں کی دی گئی تاکہ وہ انہیں شرار اہل کتاب کے قبضے سے نکالیں اور انہیں کھلے ماحول میں اسلام کو سمجھنے کا موقع ملے تو شاید وہ اسلام قبول کرلیں۔ ماحول کا اثر مردوں پر بھی ہوتا ہے لیکن خواتین کی انفعالی طبیعت کی وجہ سے ان پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ملکہئ سبا کے متعلق بھی گواہی دی ہے کہ وہ ایک سلیم فطرت کی مالک اور سوچنے سمجھنے والی خاتون تھیں لیکن جب تک وہ اپنے قوم کے اندر رہیں ان کے اثر سے شرک پر قائم رہیں۔ جب انہیں اس ماحول سے نکلنے کا موقع ملا تو فوراً ہی انہوں نے اسلام قبول کرلیا:
    [pullquote]وَصَدَّہَا مَا کَانَتْ تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللّٰہِ إنَّہَا کَانَتْ مِن قَوْمٍ کَافِرِیْنَ (سورۃ النمل، آیت ۳۴)[/pullquote]

    ”اور اس کو روک رکھا تھا ان چیزوں نے جن کو وہ اللہ کے ماسوا پوجتی رہی تھی۔ وہ ایک کافر قوم میں سے تھی۔“
    تاہم اہل کتاب خواتین سے نکاح کی اجازت کے ساتھ ہی مسلمانوں کو خبردار کیا گیا کہ کہیں الٹا وہی اسلام چھوڑ کر کفر کے مرتکب نہ ہوجائیں۔ یہیں سے یہ بات خود بخود واضح ہوگئی کہ کیوں مسلمان خواتین کو اہل کتاب مردوں سے شادی کی اجازت نہیں دی گئی؟

    یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر مولانا اصلاحی کی رائے خود ان کے اپنے الفاظ میں نقل کی جائے:
    ”ہمارے سلف صالحین میں سے ایک گروہ نے دار الحرب اور دار الکفر میں کتابیات سے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک اس کے جواز کے لیے دار الاسلام ہونا بھی ایک شرط ہے۔ مجھے یہ قول بہت ہی قوی معلوم ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات انہوں نے فحوائے کلام سے مستنبط کی ہے۔ میں اس کے ماخذ کے لیے لفظ ’الیوم‘ کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں وقت کے حالات کو بھی دخل ہے۔ اوپر ’الیوم یئس الذین کفروا‘ اور ’الیوم أکملت لکم‘ والی آیات بھی گزر چکی ہیں، اور ’فلاتخشوھم و اخشون‘ بھی ارشاد ہوچکا ہے، جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس دور میں کفار کا دبدبہ ختم ہوچکا تھا اور مسلمان ایک ناقابل شکست طاقت بن چکے تھے۔ یہ اندیشہ نہیں تھا کہ ان کو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی تو وہ کسی احساس کمتری میں مبتلا ہو کر تہذیب اور معاشرت اور اعمال و اخلاق میں ان سے متاثر ہوں گے، بلکہ توقع تھی کہ مسلمان ان سے نکاح کریں گے تو ان کو متاثر کریں گے اور اس راہ سے ان کتابیات کے عقائد و اعمال میں خوشگوار تبدیلی ہوگی اور عجب نہیں کہ ان میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہو جائیں۔ علاوہ ازیں یہ پہلو بھی قابل لحاظ ہے کہ کتابیات سے نکاح کی اجازت بہر حال علی سبیل التنزل دی گئی ہے۔ اس میں آدمی کے خود اپنے اور اس کے آل و اولاد اور خاندان کے دین و ایمان کے لیے جو خطرہ ہے، وہ مخفی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مسلمان مردوں کو تو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی لیکن مسلمان عورت کو کسی صورت میں بھی کسی غیر مسلم سے نکاح کی اجازت نہیں دی گئی، خواہ کتابی ہو یا غیر کتابی۔ یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اجازت صرف ایک اجازت ہے۔ یہ کوئی مستحسن چیز نہیں ہے۔“

    تقریباً اسی رائے کا اظہار جناب غامدی نے اپنی کتاب میزان کے باب ”قانون معاشرت“ میں کیا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں:
    ”آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ اجازت اس وقت دی گئی، جب توحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا اور مشرکانہ تہذیب پر اس کا غلبہ ہر لحاظ سے قائم ہوگیا۔ اس کے لیے آیت کے شروع میں لفظ ’الیوم‘ کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں وقت کے حالات کو بھی یقینا دخل تھا۔ لہٰذا اس بات کی پوری توقع تھی کہ مسلمان ان عورتوں سے نکاح کریں گے تو یہ ان سے متاثر ہوں گی اور اس طرح شرک و توحید کے مابین کوئی تصادم نہ صرف یہ کہ پیدا نہیں ہوگا، بلکہ ہوسکتا ہے کہ ان میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہوجائیں۔“

    تاہم افغانستان پر امریکی حملے کے تناظر میں جب غامدی صاحب سے انٹرویو لیا گیا تو اس میں انہوں نے اس کے برعکس یہ موقف اختیار کیا کہ اگر اہل کتاب سے دوستی ناجائز ہوتی تو ان کی خواتین سے نکاح کی اجازت کیوں دی گئی؟ انہوں نے مزید قرار دیا کہ دوستی کی ممانعت تو ان اہل کتاب کے لیے ہے جن پر رسول اللہ ﷺ نے حجت تمام کردی تھی:
    ”یہ بات جزیرہ نماے عرب کے ان یہود و نصاری کے بارے میں کہی گئی ہے جن پر رسالت مآب ﷺ نے اتمام حجت کیا تھا۔ یہ بات قومی حیثیت میں یہود و نصاری کے بارے میں نہیں کہی گئی۔ اگر اس کو اس کی قومی حیثیت سے متعلق کیا جائے تو پھر اہل کتاب خواتین سے نکاح کی اجازت کے کیا معنی ہیں؟ یہ نکاح کیا دوستی اور محبت کے جذبات کے بغیر ہوجائے گا؟“

    یہاں غامدی صاحب اپنے موقف کے اس تضاد کو محسوس نہیں کر پائے کہ اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کی اجازت اس موقع پر دی گئی جب اہل کتاب پر حجت تمام کی جاچکی تھی۔ اگر نکاح کی اجازت سے مراد دوستانہ روابط کی اجازت تھی تو پھر اسی موقع پر اور اسی سورۃ المائدۃ میں اہل کتاب سے دوستی کی ممانعت کیوں کی گئی؟ پس مولانا اصلاحی کے اصولوں کی روشنی میں صحیح موقف یہ ہے کہ اہل کتاب پر حجت تمام کئے جانے کے بعد ان سے دوستانہ روابط کی ممانعت کی گئی اور ساتھ ہی ان کی پاکباز خواتین کو اسلام کی قبولیت کا موقع دینے کے لیے مسلمانوں کو ان سے نکاح کی اجازت دی گئی۔ واللہ تعالیٰ أعلم!

  • کامیابی ہے منتظر حسیب اعجاز عاشرؔ

    آئو کسی مقصد کے لئے جیتے ہیں،آئو کسی مقصد کے لئے مرتے ہیں۔۔۔میری سوچ کا محور اسلام امت اور پاکستان۔۔۔سب کچھ نہ سہی کچھ نا کچھ ضرور کرنا ہے۔۔۔ہاں میرا دل بار بار مجھ سے کہتا ہے کہ ’’نوک نوک۔۔کامیابی ہے منتظر‘‘۔۔‘‘یہی وہ سوچ ،فکر،نظریہ ہے جو رضوان اللہ خان کو شب و روز بے چین کئے ہوئے ہیں۔بے فکر دنیا کی فکر میں ہے بے فکر لوگوں کو دیکھ کر فکر میںہے۔۔۔۔رضوان کے خیالات کو جانچنے ،پڑھنے،سمجھنے کا موقع ملے تو یہ بات خوب عیاں ہو گی کہ اتنی کم عمری میں ہی یہ نوجوان اپنے ایک اندر کمال خصوصیات رکھتا ہے۔بات کرتا ہے عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔لکھتا ہے تو بڑے بڑے لکھاریوں کوبھی حیرت زدہ کر دیتا ہے ۔کچھ کرنے کا عزم لئے ، کچھ کر گزرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔۔سنیئے یہ نوجوان کیا کہتا ہے ۔۔’’میںکون ہوں؟۔۔میرا مقصد بتائے گا‘‘
    رضوان اللہ خان ایک موٹیویشنل سپیکر ہیں اور بطور یوتھ اینرجائزر جانے جاتے ہیں، کالم نگار اور فیچر رائٹر ہونے کے ساتھ سوشل ایکٹیوسٹ بھی ہیں، رضوان اس وقت پاکستان کی مقبول و معرف ٹریننگ اینڈ کونسلنگ کمپنی ’’ہائی پوٹینشل آئیڈیاز‘‘ میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ نوجوان کالم نگاروں کی تنظیم پی ایف یو سی میں بھی بطور ڈائریکٹر پبلک ریلیشن اپنی ذمہ داری بھی باخوبی نبھا رہے ہیں۔اِس نوجوان کی حالیہ دنوں میں منظرعام پے آنے والی کتاب ’’نوک نوک۔۔کامیابی ہے منتظر‘‘ بارے یہ کہوں کہ اہل ذوق احباب کیلئے ایک نادر تحفہ ہے کتاب کی تعریف میں ناکافی ہے۔۔زیرنظر اِس کتاب پر مجھے تبصرہ ،تجزیہ،یا کوئی جائزہ نہیں لکھنا۔۔اور رضوان اللہ خان کے سوشل میڈیا پے لوگوں کے پوچھے گئے سوال کہ’’ہم کیا لکھیں؟ جو لکھتے ہیں لوگ اختلاف کرتے ہیں‘‘پر دیئے گئے اِس جواب نے، مجھے ویسے ہی لکھنے میں بہت محتاط بھی کر دیا ہے کہ ’’ ۱۔اگر تو آپ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے لکھنا چاہتے ہیں تو انہی لوگوں پر لکھیں اور تعریفوں کے پل باندھ دیجئے وہ خوش ہو جائیں گے۔۔۔۲۔اگر آپ خواتین میں مشہوری چاہتے ہیں تو غم،عشق اور اداسی کی چکی پیس کر تحریر لکھیں۔۔۔۔۳۔اگر آپ ریٹنگ چاہتے ہیں تو جتنا ہو سکے جھوٹ بولیں۔۔۔۔۴۔اگر آپ سب کے لئے قابل قبول بننا چاہتے ہیں تو جھوٹے اعتدال کا نعرہ لگا کر سچ بولنے سے پرہیز کریں۔۔۔۵۔اور اگر آپ صرف سچ، امید، مثبت پیغام، حق بات کا فروغ اور باطل سے پردہ اٹھانا چاہتے ہیں تو کسی بھی چیز کی پرواہ کئے بنا، لوگوں کے طعنوں سے ڈرنے بنا، ریٹنگ کی فکر کئے بنا، سب کو خوش رکھنے کی پالیسی کے بنا بس لکھتے چلے جائیں کیوں کہ میرے نزدیک ہر شے سے بہتر حق بات کرنا ہے‘‘۔۔۔ تو اس لئے بغیر کسی تمہیدکے اِسی کتاب کا مختصر تعارف پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوںجس میں رضوان نے اپنے اساتذہ سے سیکھے اسباق اور اپنی جواں عمری میں زندگی سے سیکھے ہوئے تجربات قارئین کے سامنے رکھنے کی بڑے اہتمام سے کامیاب کاوش کی ہے۔۔
    یہ کتاب بتائے گی کہ کیسے زندگی میں پریشانیوں اور ناکامیوں کے خوف سے خود کو بچاتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانا ہے،یہ کتاب آپ کو سیلف ایویرنس کے ساتھ آپ کی پوشیدہ صلاحیتیں اور زندگی کے عظیم مقاصد کو جاننے میں مدد دے گی،اس میں آپ سیکھیں گے کہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے گولز کس طرح سیٹ کئے جاتے ہیں اور کس طرح اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارا جاتا ہے، اپنی خود اعتمادی جگانے اور خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں یہ کتاب ایک معاون دوست کا کردار ادا کرتی ہے،یہ کتاب ناکامی کے اندھیروں میں کامیابی کی شمع جلاتی ہے، یہ کتاب نوجوانوں بالخصوص ’’سٹوڈنٹس‘‘کے لئے شاندار روڈمیپ ہے۔
    ــ سعید قاسم کے بنائے ہوئے شاہکار دیدہ ذیب سرورق کے ٹاپ پر لکھا ہے کہ’’ہر اس شخص کے لئے جو زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے‘‘مگر مطالعہ بتائے گا کہ یہ کتاب فقط اِس زندگی کی ہی نہیں بلکہ بعد ازموت زندگی میں بھی کامیابیوں کی ضامن ثابت ہوگی،انشاء اللہ تعالی۔۔والدِ محترم اور اُستادِ محترم کے نام انتساب میں لکھتے ہیں کہ ’’والدِ محترم عبدالروف خان جن کا خواب اپنی اولاد کو بڑا اور کامیاب انسان بنتے دیکھنا ہے اور اُستادِ محترم اختر عباس جن کی محبت،شفقت اور خلوص نے اس خواب کو تعبیر کرنے کا حوصلہ دیا‘‘بذریعہ ای میل موصول ہونے والے مداحوں ،جن میں ہارون وقار، عفاف ابراھیم، ڈاکٹر کامران اقبال، عمرحیات گلریز، جاوید میاں، شہزاد خان، ڈاکٹر فرید حیات اور فرید سجاد کے نام شامل ہیں، کے فیڈ بیک کو بھی کتاب کی زینت بنانے کی ایک نئی روایت رکھی گئی ہیں ۔جو قابلِ تحسین ہے۔کتاب میں ’’آپکا شکریہ‘ ‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں رضوان نے بڑے سلیقے اور احترام سے تمام محسنین سے اظہار تشکر بھی کیا ہے جن کی دعائیں اور ہمت افزائی انکے ساتھ ساتھ ہیں۔
    کتاب کا دیباچہ بعنوان ’’دھیمی سی پُرخلوص دستک‘‘ میں معروف ٹرینر،مصنف ،افسانہ نگار چیف انسپائرنگ آفیسر ہائی پوٹینشل آئیڈیاز محترم اخترعباس لکھتے ہیں کہ ’’کامیابی ہے منتظر‘‘ بے شک ایک دھیمی سی پرخلوص دستک ہے دستک دینے والا بھی ہمیں بہت عزیز ہے اور یہ دستک بھی۔یہ کتاب آپ کو آگے بڑھنے پر اکسانے میں مدد دے گی ۔نوجوان کالم نگار فرخ شہباز وڑائچ صدر پی ایف یو سی اپنے تاثرات بعنوان ’’پہلی محبت‘‘میں لکھتے ہیں رضوان کی آنکھوں میں کامیابی کی چمک اسے عام نوجوانوں سے ممتاز کرتی ہے،لگتا ہے یہ کچھ بدلنا چاہتا ہے یہ زندگیوں میں تبدیلی لانا چاہتا ہے،یہ نوجوان اپنی پہلی کتاب کے ساتھ آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے،پہلی کتاب ٹھیک ’’پہلی محبت‘‘کی طرح ہوتی ہے، مجھے یقین ہے آپ اس نوجوان کی پہلی محبت کے امتحان میں اسے ناکام نہیں ہونے دیں گے۔معروف سکالر شفیق احمد کمبوہ(جرمنی) کتاب پر اپنی آرا کا اپنے مضمون ’’نوک نوک۔۔ایک جائزہ‘‘میں کچھ یوں اظہار خیال کرتے ہیںکہ اپنی کتاب میں ہر جگہ مصنف نے زندگی میں حقیقی کامیابی کے حصول کے لئے کنایوں،استعاروں اور تلمیحات کا استعمال انتہائی خوش اسلوبی سے کیا ہے۔یہ کتاب دل شکستہ اور ناکامی کے خوف سے دو چار افراد کے لئے ایک قیمتی تحفہ ہے۔بلکہ تمام قارئین کے لئے دورِ حاضر کی مایوسیوں سے بھری زندگی میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔سحرین بخاری اپنے مضمون’’میرا تاثر‘‘میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیںکہ مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ فخر بھی کہ نہایت ذہین اور باادب رضوان اللہ خان نے معاشرہ میں مفید شہری ہونے کی ذمہ داری اُٹھاتے ہوئے ، اپنی کتاب میں کامیابی کے حصول کے حوالے سے راہنمااصولوں کا جائزہ لیا ہے۔’’حرفِ آغاز ‘‘ میں رضوان نے اپنی قلمی سفر میں دوستوں،معاون کاروں ،اساتذہ ،محسنوں کا ذکر بھی نہایت ادب سے کیا ہے اور آخر میں قارئین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اسی وقت خود کو بدلنے کا فیصلہ کیجئے اور ناکامی کا خوف دل سے نکالنے کا عزم لئے کامیابی کے اصول سیکھنے اور ان پر عمل کر کے کامیابی پانے کے لئے ’’کامیابی ہے منتظر‘‘ کا مطالعہ کیجئے ،بقول شاعر۔۔‘‘
    جو وقت کو مفت گنوائے گا۔۔۔وہ آخر کو پچھتائے گا
    کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا۔۔۔جو بوئے گا سو کھائے گا
    تو کب تک دیر لگائے گا۔۔یہ وقت بھی آخر جائے گا
    اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے۔۔۔پھر دیکھ، خدا کیا کرتا ہے
    کتاب کے پندرہ باب ہیں ’’’آخرکامیابی ہوتی کیا ہے؟، کامیابی کیسے حاصل ہوتی ہے؟، خواب سے حقیقت تک، من اپنے نوں۔۔پڑھ بندیا، خود پر بھروسہ کرنا سیکھیں!، آئو راستہ تلاش کریں، ناممکن تو کچھ بھی نہیں، اپنی صلاحتیں کو چمکائیں، گھبرائو نہیں۔۔قدم بڑھائو، تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرائو۔۔اے عقاب، اعتماد کی اہمیت ضرور جان لیجئے، یہ تو میری ذمہ داری ہے!، یہ تو آتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کو!، بزنس میں بنیں، مانگنے میں کنجوسی نہ کریں‘‘‘عنوانات کی کشش قارئین کو اپنی طرف راغب کرتی ہے،مضامین بامقصد ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔بڑی خوبصورتی اور نفاست سے انگلش لٹریچر کو سلیس اُردو اور عام فہم انداز میں اُردو ادب میںجس سلیقے سے پیش کیا گیا ہے،جو کہ ایک خوشگوار اضافہ ہے۔،قرانی آیات اور مقدس احادیثﷺ کو بھی بڑی عقیدت مندانہ انداز میں مضامین میں شامل کیا گیا،بلاشبہ رضوان کو اُردو سے زیادہ انگلش لٹریچر پر انگلش سے زیادہ عربی لٹریچر پر اور عربی سے زیادہ اُردو لٹریچر پر عبور حاصل ہے ۔کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رضوان کو کتابوں سے کس کدھر عشق ہے اور اُس کے مطالعہ کا دائرہ کار کتنا وسیع ہے۔
    کتاب کے آخرمیں کنٹکٹ ڈیٹیل کے علاوہ ایک صفحہ قارئین کے لئے لائف گولز اور تاثرات لکھنے کے لئے مختص کیا گیاہے۔جو رضوان کی بالغ النظری، دور اندیشی کی اعلی مثال ہے۔ستمبر ۲۰۱۶ میں۱۵۰ صفحات پر مشتمل کتاب ’’کامیابی ہے منتظر‘‘کو دارالمصحف نے شائع کیا،جسکی قیمت ۴۰۰ روپے مگر خصوصی رعایت پر ۳۰۰ پر بھی مصنف سے حاصل کی جا سکتی ہے۔تو اب سوچنا کیسا۔۔۔۔۔۔؟منتظر ہے۔۔۔’’کامیابی کا منتظر‘‘

  • جنگ، امن اور چرچل – محمد عرفان ندیم

    جنگ، امن اور چرچل – محمد عرفان ندیم

    سر ونسٹن چرچل برطانیہ کے مشہور وزیراعظم تھے، انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز ایک سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے کیا، وہ1901ء میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے 1965ء میں انتقال کرگئے۔ وہ ہوم سیکرٹری، نیوی اور فضائیہ کے سربراہ، وزیرجنگ، وزیر خزانہ اور اسلحے کے وزیر سے ہوتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے۔ 1936ء میں برطانوی وزیراعظم چیمبر لین نے ہٹلر کو خوش کرنے کی پالیسی اپنائی تو چرچل میدان میں کو د پڑا، یہی وہ وقت تھا جب چرچل کو برطانوی سیاست میں نمایاں ہونے کا موقع ملا۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو اسے ایڈ مرل کی حیثیت سے کابینہ میں شامل کر لیا گیا اور وہ مئی 1940ء میں برطانیہ کا وزیراعظم بن گیا۔ ہٹلر نے خود کشی کی اور 1945ء میں جنگ ختم ہوگئی، برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، چرچل قائد حزب اختلاف بن گیا. یہ وہ دور تھا جب روس اور مغربی اتحادیوں میں سرد جنگ عروج پر تھی، چرچل نے اس سرد جنگ میں روس اور مغربی اتحادیوں میں اختلافات بڑھانے میں اہم کر دار ادا کیا، وکٹری کا نشان اور روس کے خلاف ’’آہنی پردے ‘‘ کی اصطلاح بھی اسی نے ایجاد کی۔ 1951ء کے انتخابات میں قدامت پسند پارٹی کو دوبارہ منظم کیا، الیکشن ہوئے، قدامت پسند پارٹی جیت گئی، چرچل دوبارہ وزیر اعظم بنا اور 1955ء میں بڑھاپے کی وجہ سے سیاست سے الگ ہوگیا۔ ونسٹن چرچل کو سیاست کی دنیا کا امام کہا جاتا ہے، دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر اور جرمنی کی شکست میں اس نے اہم کردار ادا کیا. کہا جاتا ہے کہ اگر دوسری جنگ عظیم میں چرچل نہ ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہو تا۔ جرمنی کے بعد وہ روس کا بھی خاتمہ چاہتا تھا اور اس کے لیے اس نے مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر بھر پور لابنگ کی، امریکی صدر روزویلٹ نے اس لابنگ کی مخالفت کی جس کی وجہ سے روس بچ گیا۔ چرچل برطانوی نوآبادیات کی آزادی کا سخت مخالف تھا، اس نے صرف اس وجہ سے وزیراعظم بننے سے انکار کر دیا تھا کہ اسے بطور وزیراعظم ہندوستان کی آزادی کی تقریب کی صدارت کرنی پڑنی تھی۔چرچل اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کا سخت مخا لف تھا لیکن وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کا دلدادہ تھا، بلنٹ اس کا ایک عربی دوست تھا، چرچل اس کی پارٹیوں میں جاتا تو عربی جبہ اور لباس زیب تن کرتا، اسلامی تہذیب کی طرف اس کا رجحان اس قدر شدید تھا کہ اس کے گھر والوں کو اس کے مسلمان ہونے کا ڈر رہتا، چرچل نے ایک بار خط میں لکھا کہ وہ پاشا بننا چاہتا ہے جس پر اس کی بھابھی نے اسے ایک خط تحریر کیا جس میں لکھا ’’مہربانی کر کے آپ اسلام قبول نہ کریں، میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ آپ میں مشرقی تہذیب کو قبول کرنے اور پاشا بننے کے رجحانات پائے جاتے ہیں ‘‘

    ونسٹن چرچل کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک بار قوم سے خطاب کے لیے اسے ریڈیو اسٹیشن جانا تھا، وہ سڑک پر آیا اور ایک ٹیکسی والے کو اشارہ کیا کہ اسے برٹش براڈ کاسٹنگ ہاؤس جانا ہے، ٹیکسی ڈرائیور نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ چرچل کی تقریر سننے جا رہا ہے، چرچل یہ سن کو جھوم اٹھا اور جیب سے ایک پاؤنڈ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا، ٹیکسی ڈرائیور نے پاؤنڈ دیکھا تو بولا ’’بھاڑ میں جائے چرچل اور اس کی تقریر، آپ بیٹھیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں، آپ جیسا رحم دل اور نیک انسان مجھے کہاں ملے گا‘‘ چرچل نے بتایا کہ میں ہی چرچل ہوں اور مجھے ہی تقریر کرنے جانا ہے تو ٹیکسی ڈرائیور بہت شرمندہ ہوا اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی، چرچل نے اسے سمجھاتے ہو ئے کہا ’’کوئی بات نہیں، روپیہ پیسہ اکثر تعلقات اور رشتے بھلا دیتا ہے‘‘. چرچل ایک بار پاگل خانے گیا اور وہاں کھڑے ایک شخص سے پوچھا ’’آپ کا تعارف‘‘ اس شخص نے جواب دیا ’’میں پاگل خانے میں زیرعلاج تھا، اب صحت یاب ہوگیا ہوں اور آج گھر جا رہا ہوں ۔‘‘ اس نے چرچل کا تعارف پوچھا تو چرچل نے کہا ’’میں برطانیہ کا وزیراعظم ہوں‘‘، وہ شخص قہقہے لگانے لگا، آگے بڑھا اور بڑی ہمدردی کے ساتھ چرچل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’میاں فکر نہ کرو آپ بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے، یہ بہت اچھا ہسپتال ہے، یہاں آنے سے پہلے میں بھی خود کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتا تھا لیکن اب میں مکمل طور پر ٹھیک ہوں.‘‘

    بات دور نکل گئی ہم واپس آتے ہیں، چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کو شکست سے بچایا تھا، جنگ کے فورا بعد برطانیہ میں الیکشن ہوئے تو برطانوی عوام نے چرچل کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا. برطانوی عوام کا کہنا تھا کہ چرچل ایک جنگی ہیرو ہے اور اب ہمیں جنگ نہیں امن چاہیے، اس لیے چرچل برطانیہ کی تعمیر نو اور امن کے لیے موزوں امیدوار نہیں۔ برطانوی عوام نے مناسب وقت پر درست فیصلہ کیا تھا، برطانوی عوام جانتے تھے کہ چرچل ایک جنگجو ہے اور ایک جرنیل سے صرف جنگ کی امید ہی کی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چرچل اگر الیکشن جیت جاتا تو دنیا ایک نئی جنگ میں مبتلا ہوجاتی۔

    برطانوی عوام اور یورپ وہ سبق آج سے ستر سال پہلے سیکھ چکا تھا جو پاک انڈیا عوام، میڈیا اور حکمران ستر سال بعد بھی نہیں سیکھ سکے۔ پاکستان اور انڈیا کے عوام ہر دو ماہ بعد جنگ جنگ کھیلنے لگ جاتے ہیں، ایشیا کے اکثر خطے آج بھی جنگ کی لپیٹ میں ہیں ،کبھی شمالی اور جنوبی کوریا آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کبھی پاک بھارت فوجیں بارڈر پر آ جاتی ہیں، کبھی روس اور چین کے حالات خراب ہو جاتے ہیں اور کبھی عرب اسرائیل تنازع زور پکڑ لیتا ہے. یہ براعظم ایشیا کی بدقسمتی ہے کہ یہ ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے سانحات سے سبق نہیں سیکھ سکا. جنگ عظیم اول اور دوم میں بھی ایشیا میں کروڑوں افراد ہلاک ہوئے لیکن ایشیا نے پھر بھی سبق نہیں سیکھا اور آج ایک بار پھر ایشیا کے دو اہم ممالک، ان کا میڈیا اور ان کے عوام جنگ کے لیے پر تول رہے ہیں. یہ ثابت کرتا ہے کہ ایشیائی عوام کا شعور آج بھی 1945ء کے یورپی عوام سے بہت پیچھے ہے، ان لوگوں نے 1945ء میں سیکھ لیا تھا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی اور یہ پورے کے پورے ملک ہڑپ کر لیتی ہے لیکن ایشیائی عوام آج بھی جنگوں کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور یہ جنگوں کی پٹاری سے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔

    آپ دنیا کا نقشہ اپنے سامنے میز پر پھیلائیں اور دنیا کے 260 ممالک کی فہرست بنائیں، اس فہرست میں آپ ترقی یافتہ ممالک کو الگ کریں، آپ کو نظر آئے گا کہ ترقی یافتہ ممالک صرف اس لیے ترقی یافتہ ہیں کہ وہاں امن اور قانون ہے اور ان ممالک نے اپنے ہمسائیوں سے جنگ بندی کے معاہدے کیے ہوئے ہیں جبکہ ترقی پذیر اور تیسری دنیا صرف اس لیے پیچھے ہے کہ وہاں امن ہے نہ قانون اور یہ ممالک اپنے ہمسائیوں سے الجھے رہتے ہیں۔ آج پاکستان اور بھارت اپنا دفاعی بجٹ کم کر دیں تو اگلے دس سال میں ان ممالک سے غربت ختم ہو جائے گی اور اگلے پندرہ سال میں یہ ممالک ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک کہلائیں گے۔ میں پاک بھارت میڈیا، عوام اور حکمرانوں کے جنگی جنون کو دیکھتا ہوں تو سر پکڑ لیتا ہوں کہ ڈیڑھ سے پونے دو ارب آبادی والے خطے میں کوئی بھی ایسا نہیں جو جنگ کے بجائے امن کی بات کرے اور یہ بات سمجھ سکے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوا کرتیں بلکہ ہیروشیما اور ناگا ساکا جیسے وہ مسائل پیدا کرتی ہیں جن کے زخم ستر سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بھرتے۔

  • تلملاہٹ تو بنتی ہے نا؟ محمد کفیل اسلم

    کہا جاتا ہے اگر آپ اپنی کارکردگی کو ٹھیک ٹھیک ماپنا چاہتے ہیں تو اسکا اس سے بہتر طریقہ نہیں کہ آپ اسکے متعلق اپنے دشمنوں کی رائے جانیں۔ اگر آپ ترقی کررہے ہیں تو اسکی تلملاہٹ صفِ دشمناں میں ضرور سنیں گے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف اور پاک فوج کے سپہ سالار راحیل شریف کے خلاف آجکل بھارتی میڈیا پر جو ہذیان بکا جارہا ہے وہ اس بات کی خوب غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کے چند اقدامات نے انڈیا کو پریشان کررکھا ہے۔
    غیرجانبدار ہوکر دیکھا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے پاکستان کبھی کسی بیرونی معاملہ میں دراندازی تو درکنار خوامخواہ ہے بیانات دینے کا بھی قائل نہیں۔
    پاکستان خود روزِ اوّل۔سے عموماً اور پچھلی ایل دہائی سے خصوصًا بیرونی سازشوں، گٹھ جوڑوں، دراندازیوں، مداخلتوں اور اغیار کی چیرادستیوں کا بدترین شکار رہا ہے قطع نظر اسکے کے ہم خود بھی کسی حد تک اس کے ذمہ دار ہیں ۔
    گزشتہ دنوں بھارت کے مشہور جریدے “انڈیا ٹوڈے” کا سرِ ورق بھارتی حلقوں میں مچی افراتفری کا ایسا مظاہرہ تھا جس سے اندازہ ہورہا ہے کہ اب بارڈر پار لگی آگ کی شدت کتنی ہے۔ ٹائٹل پیج پر جرنل راحیل شریف کے گال پر خون آلود ہاتھ چھَپا دکھایاگیا ہے۔ یہ اب تک بھارتی صحافت کے حلقے کے پیٹ میں اٹھنے والی مروڑ کی انتہا تھی۔
    خیر سوال یہ ہے کہ مروڑ کیسی؟ وہ کونسی ضرب ہے جو بھارتی مفادات پر پڑی ہے جس پر اتنا ہیجان بپا ہے دلی میں؟
    1- پاک۔چائینا اکنامک کاریڈور کا تیزی سے تکمیل اور اس میں دیگر ممالک کی دلچسپی۔
    2- جموں کشمیر میں تحریکِ آزادی عروج کی طرف گامزن ہے ۔ پاکستان کا کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی بھارتی بربریت پر اقوامِ متحدہ میں میاں نواز شریف کی تقریر اور دنیا کے بڑے ممالک بشمول چین، ترکی اور سعودیہ عرب کی پاکستانی موقف کی تائید جس سے بھارت پر مزید دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔
    3- کراچی میں بلاتفریق سیاسی و مذہبی جماعتوں کیخلاف آپریشن۔ خاص طور پر بھارتی تربیت یافتہ سیاسی جماعت کیخلاف ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کاروائی۔ یہاں بھی بھارت کا بنا بنایا پلاٹ خراب ہوگیا۔ ساری سرمایہ کاری غارت گئی۔ کراچی میں بدامنی پھیلانے کیلئے یہ ہتھیار جو بھارت بہت عرصے سے استعمال کرتا آیا ہے وہ ہاتھ سے چلے جانے بلکہ چھِن جانے کا دُکھ۔
    اگر ان تمام عوامل کو ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو بحیثیت جانی دشمن بھارت کی تلملاہٹ تو بنتی ہے نا؟

  • پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    ملک جہانگیر اقبال بچپن میں جب مٹی میں کھیل کود کے بعد خیال آتا تھا کہ ابو جی نے دیکھ لیا تو ”چمپا پریڈ“ ہوجانی ہے تو فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوتے، ہاتھ جھاڑتے اور سائیڈ پر کھڑے ہو کر مٹی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر افسوس سے سوچتے ”افففف کتنے گندے بچے ہیں“. اپنے تئیں تو ہم معزز بن جایا کرتے تھے اور اگر اس دوران ابو جی دور سے آتے دکھائی دیتے تو ان ”گندے بچوں“ کو بظاہر مٹی میں کھیلنے سے منع بھی کرنے لگ جاتے تھے کہ چلو اسی بہانے ابو جی دیکھیں گے کہ ان کا بیٹا کتنا اچھا ہے، خود مٹی میں کھیلتا ہے نہ دوسرے بچوں کو کھیلنے دیتا ہے. مگر ابو جی جب آتے تو گھوم پھر کر شامت ہماری ہی آجاتی تھی کہ ہم نے بھی صرف ہاتھ ہی جھاڑے ہوتے تھے جبکہ کپڑوں پر لگی مٹی ہمارے ”مجرم“ ہونے کی گواہی دے رہی ہوتی تھی.

    کہنے کو تو یہ میرے بچپن کی بات ہے مگر یقیناً بہت سے دوستوں کے بچپن میں ایسے واقعات گزرے ہوں گے جب وہ خود کسی جرم میں شریک ہوں، ابو یا کسی اور بڑے کو آتا دیکھ کر سائیڈ پر کھڑے ہو کر شرارت کرنے والوں کو کوسنے کی اداکاری کر رہے ہوں، اور پھر بھی پکڑے جائیں.

    یہ صرف ”میرے“ بچپن ہی کی شرارت نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی قوم کے بچپن کی بھی شرارت ہے. اقوام صدیوں بعد کہیں جا کر راہ کا تعین کرتی ہیں، خود میں شامل مختلف گروہوں کو سمجھتی ہیں، جبکہ پاکستان کو تو بنے ہوئے ہی ابھی بمشکل صرف ستر سال ہوئے ہیں، اور یہ جن گروہوں پر مشتمل ہے ان کی زبان، ثقافت، رنگ، نسل، زمین اور پانی تک سب جدا جدا ہیں، اگر ان میں کوئی شے مشترک ہے تو وہ ”اسلام“ ہے جس نے اسے جوڑ کر رکھا ہوا ہے. اگر ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کو پاکستان میں سے نکال دیا جائے تو آپ اس قوم کا شیرازہ بکھرتا ہوا دیکھیں گے. فرض کریں کہ ہمارے درمیان ”اسلام“ کا رشتہ نہ ہو تو پنجابی اور پٹھان کیوں کر ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے؟ بلوچوں کو سندھیوں سے کیا لینا دینا؟ اور باقی پاکستان والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو اپنی زمین پر کیوں رہنے دیں؟ پاکستانی کوئی زمینی خطہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف اقوام کی باہمی رضامندی یا مکسچر سے طلوع ہونے والا مجموعہ اور ”ملک“ ہے. جہاں ہر قوم ہر ریاست ہر صوبے نے صرف اور صرف اس بات پر اتحاد کیا تھا کہ ”ہم مسلمان ہیں“، اس لیے ہمارا الگ سے ملک ہونا چاہیے جہاں ہم اکٹھے رہیں گے. وگرنہ پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان اور باقی اقوام اپنے اپنے علاقوں میں رہ ہی رہے تھے، پاکستان بنتا نہ بنتا، وہ اپنے علاقوں میں ہی رہتے. کیا ضرورت تھی کسی کو یوپی، بہار، دہلی، لکھنؤ، امرتسر وغیرہ میں اپنی آبائی زمین اور گھر چھوڑنے کی؟ کیا کوئی پکنک منانے جارہے تھے یہ لوگ؟

    جواب نہیں ملے گا.

    قیام پاکستان کے بعد روسی انقلاب سے متاثرہ دانشور اور امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے حامی سیکولرز پاکستان کی جڑوں میں آ کر بیٹھ گئے. اسلامی جمہوریہ پاکستان نام تو رکھ دیا گیا مگر ”اسلام“ کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے پاکستان تین طبقات میں بٹ گیا، ایک بیوروکریسی جو سیکولرز پر مشتمل تھی، دوم دانشوری جو کمیونسٹ عناصر کے نرغے میں تھی جبکہ تیسری کروڑوں کی تعداد میں موجود عوام جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف ”اسلام“ تھا، اس کی آواز مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز سے بھی باریک تھی. اس دور میں ”ادیب“ کہلوانے کے لیے آپ کو تقسیم پر نوحہ لکھنا اور انقلاب انقلاب کے منجن میں سرخ انقلاب سوویت سے امپورٹ کرنے کی خواہش کا دبے لفظوں میں پرچار کرنا ضروری تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ جب سیکولر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت لبرلزم کا جعلی منجن بیس پچیس سال پرانا ہو چکا تھا لہٰذا مشرقی پاکستان اپنی زبان کی بنیاد پر علیحدہ ہوگیا، دونوں حصوں کو جوڑ کر رکھنے والا صرف ایک اسلام کا ہی رشتہ تھا جسے پاکستان بننے کے بعد ہی فراموش
    کردیا گیا. جب اسلام ہی نہ رہا تو پیچھے جھوٹے وعدے، تسلیاں، برابر کی تقسیم کے وہ نعرے رہ گئے جو اپنی کشش صرف اور صرف نعروں میں ہی رکھتے تھے. اگر لوگوں کو ساتھ جوڑے رکھنا ہے تو کوئی ایک مشترکہ نقطہ ضرور ہونا چاہیے جس پر قوم کے مختلف گروہوں کو جوڑے رکھا جا سکے.

    پاکستان دو لخت ہوگیا تو یہ سیکولر لبرل لابی ہاتھ جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑی ہوگئی، کہ دیکھو جی پاکستان تو کبھی ترقی کر ہی نہیں سکتا کہ ان میں تو آپس میں ہی اتحاد نہیں، بندہ ان سے پوچھے کہ یہ جو پاکستان سے اسلام کو نکالنے کے داغ تمہارے کپڑوں پر لگے ہیں، پہلے اس کا تو جواب دو. جو پاکستان کی بنیاد تھی، تم نے اسے ہی کمزور کردیا، تمھیں کیا لگتا ہے کہ محض سیاسی نعروں کی بنیاد پر دو ایک دوسرے سے یکسر مختلف گروہوں کو ساتھ رکھا جاسکتا ہے؟

    اس کے بعد دور آیا سیاسی رسہ کشیوں کا یعنی ذولفقار علی بھٹو صاحب کا، یہاں شروع میں ملک کو استحکام دینے کے لیے اسلام کا سہارا لیا گیا، اسلامی تنظیموں کے مطالبات پہلی بار سنے گئے، اور بظاہر ایک نئی شروعات کی گئی لیکن یہاں اسلام کو جس طرح سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی اور پھر اسلام کو پاکستان کی اساس کے بجائے حکومت کی بقاء کے لیے استعمال کرنے کا دور ضیاء الحق تک چلا. ضیاء الحق کٹر اسلام پسند حکمران تھا مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی مخالفت سیکولر حضرات نے کم اور کمیونسٹ حضرات نے زیادہ کی، حالانکہ آمرانہ نظام کمیونزم یا سوشلزم سے بہت زیادہ قربت رکھتا ہے. کمیونسٹوں کی ضیاء الحق کی مخالفت کی وجہ ”پاکستان“ نہیں بلکہ وہ ”سرخ انقلاب“ تھا جو افغانستان تک پہنچ چکا تھا اور جلد یا بدیر اس کے پاکستان میں آنے کے سہانے سپنے دیکھے جانے لگے تھے. ضیاء الحق کی سوویت یونین کے خلاف تاریخی جنگ سے ان کے سپنے ٹوٹ گئے. ضیاء الحق کو جہاں ایک جانب افغانستان میں موجود مختلف اقوام کی نسل کشی اور بھٹو دور میں پاکستان میں پناہ حاصل کرنے والے افغان لیڈرز کی فکر تھی تو دوسری جانب اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کا مخالف طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے، اس اندازہ تھا کہ اگر سوویت یونین پاکستانی سرحد تک آگیا تو ان ”اپنوں“ کا اس کے بعد کا کردار کتنا بھیانک ہوگا؟ لہٰذا امریکہ، پاکستان، اور پشتون قبائل ان تینوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے روس سے جنگ کی. یہاں کوئی کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنا مقصد تینوں نے ہی حاصل کیا .

    اس جنگ کے بعد کمیونسٹ حضرات کی کمر تو ٹوٹ گئی اور سیکولر لابی کی طرح وہ بھی اپنے کپڑے جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑے ہوگئے، اور نوے کی دہائی میں سیاست میں ہونے والی رسہ کشی اور عدم استحکام دیکھ کر پاکستانی قوم پر تف کرنے لگے جبکہ اس دوران وہ اپنے کپڑوں پر لگنے والے ان داغوں کو نظر انداز کرتے رہے جو انھوں نے پاکستان سے زیادہ سوویت یونین سے وفاداری نبھا کر اپنے کپڑوں پر ملے تھے.

    پھر دور آیا مشرف صاحب کا یعنی لبرلزم کا، جس طرح پچھلی بار لبرلزم ہمارا مشرقی پاکستان کھا گیا تھا، ٹھیک اسی طرح اس لبرلزم نے سندھ، بلوچستان اور قبائلی پٹی پر شورش پیدا کی، سب سے پہلے پاکستان بہت خوب نعرہ ہے مگر بنا اسلام کے پاکستان کا کوئی وجود ہی نہیں تو نعرہ کس کام کا ؟ لیکن اس دوران مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والوں کا بھی بھیانک روپ سامنے آیا جس میں مذہب کو بطور بلیک میلنگ اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا یعنی عملی طور پر اسلام کا دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا. سول سوسائٹی کے طور پر یا تو اسلام کو پاکستان میں دیکھ کر ناک بھوں چڑھانے والے لوگ تھے یا پھر اسلام پسندوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے.

    نتیجہ کیا نکلا؟ ہر صوبے میں شورش، دنیا میں بدنامی، صوبائیت کا فروغ، قوم پرستی کا عروج.

    اس دور سے لے کر اب تک پاکستانی قوم نہیں بن سکے، سیاست سے لے کر ایک عام فرد کی سوچ تک میں صوبائیت کی بو رچ بس گئی. جب اسلام سے زیادہ شخصیات طاقتور ہوئیں تو کالے کوے بھی سفید ہونے لگے، یہاں کے مذہبی حضرات سیاست کرنے لگے ہیں جبکہ سائنسدان حضرت مذہبی بحث و مباحثہ، غرض اپنے پروفیشن سے زیادہ اپنے عقائد کی ترویج پہلا مقصد بنا چھوڑا ہے. مذہبی انتہا پسندی نے اگر پاکستان کے اندر بدنام کیا تو لبرل حضرات نے پاکستان سے باہر جا کر پاکستان کو بدنام کیا. ایک طویل فہرست ہے کہ کون کس طرح کے فراڈ میں ملوث ہے.

    اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان ایسے ہی بنا دیا گیا؟ کوئی اصول اور ضابطہ نہیں طے کیا گیا؟

    پاکستان بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا. قائد اعظم کی 22 مارچ 1940ء کی تقریر ہو یا علامہ اقبال کا جمہوریت کا وہ نظریہ جو مغربی جمہوریت سے ہزار گنا بہتر تھا، یا پھر وہ قرارداد مقاصد ہو جس نے پاکستان کی بنیاد رکھ چھوڑی تھی. اگر اس پر کاربند رہتے تو لبرلزم میں جعلی پن ہوتا نہ مذہب میں انتہا پسندی. پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم کے معتمد لیاقت علی خان کی قرارداد مقاصد پیش کرنے کے دوران تقریر کا اگر متن ہی پڑھ لیا جائے تو سب باتیں واضح ہوجاتی ہیں کہ پاکستان کو کن اصولوں پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا. لیاقت علی خان نے کہا تھا:
    ”جناب والا! آپ کو یاد ہوگا کہ قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوسرے رہنمائوں نے ہمیشہ یہ واضح اور غیر مبہم اعلانات کیے کہ پاکستان کا اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا طریق زندگی اور ضابطہ اخلاق موجود ہے جو ہندوؤں سے الگ ہے۔ انہوں نے باربار اس امر پر بھی زور دیا کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خدا اور بندہ کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہو جسے مملکت کے کاروبار میں کسی قسم کا دخل نہ ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عمرانی اخلاق کے متعلق مخصوص ہدایات ہیں اور اسلام روز مرہ پیش آنے والے مسائل کے متعلق معاشرہ کے طرزِ عمل کی راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام صرف ذاتی عقائد اور اخلاق کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے پیروؤں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں جس کا مقصد حیات صالح ہو۔ یونانیوں کے برخلاف اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی اساس لازماً روحانی اقدار پر قائم ہے۔ ان اقدار کو اہمیت دینے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقہ پر ہمنوائی کریں کہ ایک ایسا نیا عمرانی نظام قائم ہوجائے جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو، جن میں جمہوریت، حریت، رواداری اور عمرانی عدل شامل ہیں۔ ان کا ذکر تو میں نے تمثیلاً کیا ہے کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن اور سنت نبویﷺ پر مشتمل ہیں، محض اس پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اللہ اور اسوہ رسول ﷺ ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمہ ہیں۔ ان کے متعلق مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی فرقہ نہیں ہے جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو۔“

    جناب والا! یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ کارناموں سے پھر پور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے قومی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارباب نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں جو زمانہ کی دستبرد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون میں شعر و شاعری، فنِ تعمیر اور جمالیاتی ذوق کے لیے اسے خراج تحسین ادا کیا گیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہ قوم راہ عمل پر گامزن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آجائیں تو وہ اپنی شاندار کامیابیوں کی سابقہ عظیم الشان روایات کو پھاند کر ان سے بہتر کام کر دکھائے گی۔ یہ قرارداد مقاصد اس ماحول کے پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے جس میں قوم کی روح پھر بیدار ہو جائے گی۔ ہم لوگوں کو قدرت نے قوم کی اس نشاۃ ثانیہ کے زبردست ہنگامہ میں حصہ لینے کے لیے خواہ وہ حصہ کتنا ہی حقیر اور غیر اہم ہو، منتخب کیا ہے اور ہم ان زبردست گوناگوں مواقع سے جو ہمیں حاصل ہیں، محو حیرت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مواقع سے خردمندی اور دور اندیشی کے ساتھ فائدہ اٹھائیں اور مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اس اللہ کے فضل وکرم سے جس کی رحمت سے پاکستان قائد ہوا ہے، ہماری یہ کوشش ہماری برے سے بڑی توقعات سے برھ کر بار آور ہوگی۔ قوم کی نشاۃ ثانیہ کا باب ہر روز نہیں کھلتا اور ہر روز قدرت مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انہیں شاندار مستقبل کی طرف بڑھنے کی باربار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر تحریر ہو۔ (لیاقت علی خان 12مارچ 1949)

    دوستو! پاکستان برا نہیں ہے. ہمارے اپنے ہی کپڑوں پر داغ ہیں. قصور پاکستان کا نہیں ہے، ہم خود ہی مٹی سے کھیلتے آئے ہیں. پاکستان کو قائم رکھنا ہے تو اس کی اصل اساس کو سامنے رکھ کر ہی آگے بڑھنا ہے. ورنہ ملک جہانگیر اقبال پنجابی کسی ولی افضل خان پٹھان کے دکھ درد میں شریک کیوں ہوگا؟ میر باز بلوچ کو اللہ بخش سندھی سے کیسی ہمدردی؟ اور وقاص دہلوی مہاجر کے لیے کوئی وحید عباسی ہزارے وال کیوں اپنا نوالہ چھوڑے؟ سوچیے گا ضرور، کیوں کہ سوچنے پر فی الحال کوئی حکومتی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا.
    پاکستان زندہ باد

  • مسیحا اعظم ﷺ – پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

    مسیحا اعظم ﷺ – پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

    عبداللہ بھٹی مشرکین مکہ کی شدید مخالفت، دشمنی، ظلم و جبر، ترغیب اور پرکشش پیشکشوں کے باوجود اسلام کا نور تیزی سے پھیلتا جا رہا تھا. مشرکین مکہ کسی صورت بت پرستی اور اپنے آبائو اجداد کا مذہب چھوڑنے کو تیا ر نہیں تھے اور خدا کا پیغام ماننے کے بجائے اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کے سامنے ماتھا رگڑنا افضل سمجھتے تھے۔ اسلام کے دشمنوں میں سرفہرست ابوجہل نے اسلام اور پیارے آقا ﷺ کو نقصان پہنچانے کی بہت کوشش اورسازشیں کیں لیکن ربِ کعبہ کے فضل و کرم سے اُس کی ہر کوشش و یورش ناکام ہوئی، اُس کی شدید دشمنی کے باوجود سیدالانبیاء ﷺ کا نام دن بدن سورج کی طرح جزیرہ عرب میں پھیلتا اور مسلمانوں کی تعداد میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا تھا. ابوجہل کی ساری کوششیں رائیگاں جا رہی تھیں اور ناکامی کی وجہ سے بےحد جلن، شکست اور توہین کی آگ میں دن رات جل رہا تھا.

    ابوجہل دن رات اسلام اور پیارے آقا پاک ﷺ کو ختم کر نے کے منصوبے بناتا رہتا تھا. آخر اُس نے ایک اور سازش کا منصوبہ بنایا. اُس کا ایک دوست حبیب ابن مالک تھا جو یمن کا رہنے والا تھا، ایک پہلوان اور اپنے قبیلے کا سردار بھی تھا. ابوجہل جب ہر طرف سے ناکام ہوگیا تو اُس نے اپنے یمنی دوست کو پیغام اور مدد کے لیے پکارا کہ تم میرے کیسے دوست ہو، میرے اوپر مشکل آگئی ہے، تم میری مدد کو نہیں آئے؟ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اِس لیے فوری طور پر چلے آئو. دوست کی پکار سن کر حبیب یمنی فوری طور پر چلا آیا اور آکر ابوجہل سے پوچھا کہ کون سی مشکل آن پڑی ہے جو تمہارے جیسا سردار اور مضبوط آدمی بھی پریشان ہوگیا؟ ابوجہل نے پریشان لہجے میں کہا کہ محمد (ﷺ) نے نبوت کا دعوی کر دیا ہے اور کہتا ہے کہ خدا ایک ہے، اس سے بڑی مشکل اور کیا ہوگی کہ وہ ہمارے خدائوں کو نہیں مانتا اور ایک خدا کی بات کرتا ہے. ہمارے آبائواجداد کے مذہب کو ترک کر دیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سارے خدا جھوٹے ہیں، یہ کسی کو کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں، ہم نے اُس کے پیغام کو روکنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن وہ دن بدن طاقتور ہوتا جا رہا ہے، اُس کو ماننے والوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وہ غلام اور آقا کو برابری کا حق دیتا ہے، اس طرح تو ہمارا مذہب اور کلچر تباہ ہو جائے گا. حبیب یمنی نے ساری بات سننے کے بعد کہا تم پریشان نہ ہو، اِس کا حل یہ ہے کہ تمام سردارانِ قریش کا اجلاس بلائو اور محمد(ﷺ) کو بھی اُس جلسے میں بلائو. میں وہاں ان سے کچھ سوالات کروں گا.

    نبی کریم ﷺ کو جلسے میں شرکت کی دعوت دی گئی، آپ سرکار ﷺ شرکت کے لیے تشریف لائے. رات کا وقت تھا، چودھویں کی رات کی وجہ سے آسمان پر چاند پوری آب و تاب کے ساتھ روشن تھا. سرور کونین ﷺ کی آمد سے پہلے ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو جب محمد (ﷺ) یہاں آئیں تو اُن کے احترام میں کوئی بھی کھڑا نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی اُن سے عزت و احترام سے پیش آئے گا. تمام مشرکین نے ابوجہل سے ایسا ہی کر نے کا وعدہ کیا۔ لیکن جس کی عزت ربِ ذوالجلال کرانا چاہے، اُسے کون کم کر سکتا ہے، جیسے ہی سرتاج الانبیاء ﷺ اجلاس میں تشریف لائے تو سب سے پہلے جس شخص نے کھڑے ہو کر آپ ﷺ کا استقبال کیا، وہ ابوجہل تھا. ابوجہل کو احتراما کھڑا ہوتے دیکھ کر باقی سردار بھی اپنی اپنی جگہوں پر احتراماً کھڑے ہو گئے. اجلاس ختم ہوا تو تمام لوگوں نے ابوجہل سے کہا کہ تم نے ہمیں تو کھڑا ہو نے سے منع کیا تھا لیکن خود سب سے پہلے محمد (ﷺ) کے احترام میں کھڑے ہوگئے تو ابوجہل کہنے لگا کہ جب محمد (ﷺ) تشریف لائے تو میرا احترام میں کھڑا ہونے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن جیسے ہی محمد (ﷺ) اجلاس میں آئے تو کسی قوت نے میرے دونوں کان پکڑا کر مجھے کھڑا کر دیا. میں نے کھڑا نہ ہو نے کی پوری کوشش کی لیکن مجھے یوں محسوس ہوا کہ اگر میں کھڑا نہ ہوا تو میرے دونوں کان جڑ سے اکھاڑ دیے جائیں گے، اس طرح مجھے زبردستی کھڑا کر دیا گیا۔

    نبی رحمت ﷺ جب قریش کے اجلاس میں تشریف لائے تو حبیب ابن مالک کی جیسے ہی نظر محبوب خدا ﷺ کے چہرہ انور پر پڑی تو دل میں سوچا کہ ایسا نورانی چہرہ کسی جادوگر یا جھوٹے کا ہو ہی نہیں سکتا، یہ ہستی ضرور اللہ تعالی کی جانب سے مبعوث کی گئی ہے لیکن پھر بھی رسول اقدس ﷺ سے سوال کیا کہ آپ ﷺ کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟ تو شافع دوجہاں، نبی رحمت مجسم ﷺ دلنواز تبسم سے فرمایا اس بات کی کہ اللہ ایک ہے، وہ وحدہ لاشریک ہے اور میں محمد ﷺ اللہ کا رسول ہوں۔ پیارے آقا پاک ﷺ کے لہجے کی مٹھاس، شفیق تبسم اور سچائی سے حبیب ابن مالک متاثر ہو رہا تھا لیکن پھر بھی ہمت کر کے بولا کہ جس طرح ماضی کے تمام رسولوں کو اللہ تعالی نے مختلف معجزے عطا کیے تھے، اسی طرح اگر آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں تو آپ ﷺ کے پاس کون سا خاص معجزہ ہے تاکہ اس معجزہ کو دیکھ کر ہم آپ ﷺ کے دعوے کی سچائی کو مان سکیں تو آقائے دوجہاں ﷺ نے پراعتماد اور ٹھوس لہجے میں فرمایا کہ اے حبیب تو بتا، تجھے کیا چاہیے جس سے تم میری اور خدا کی سچائی کو مان جائو؟ شاہ عرب سرتاج الانبیاء اور سرور دوجہاں ﷺ کی بات سن کر حبیب ابن مالک نے دل ہی دل میں سوچا کہ اگر واقعی محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں تو میں ان سے دو باتوں کا مطالبہ کرتا ہوں کہ ایک ظاہری طور پر اور دوسری باطنی طور پر کیونکہ اللہ کے نبی دل کی بات کو بھی بوجھ لیتے ہیں. حبیب ابن مالک کی ایک معذور بیٹی تھی جو پیدائشی معذور تھی، چل پھر نہیں سکتی تھی، ہر وقت بےحس و حرکت لیٹی رہتی تھی، اپنی بیٹی کی معذوری کی وجہ سے حبیب ابن مالک بہت اداس اور پریشان رہتا تھا. اس نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنی بیمار اور معذور بیٹی کی بات اپنے دل میں ہی پوشیدہ رکھوں گا. اگر محمد ﷺ واقعی اللہ کے سچے رسول ﷺ ہوئے تو آپ ﷺ میرے دل کی بات جان جائیں گے، جب حبیب ابن مالک سوچنے لگا تو تمام مہمان اُس کے منہ کی طرف دیکھنے لگے کہ یہ کیا سوچ رہا ہے، اور اب یہ محمد ﷺ سے کیا بات یا مطالبہ کر ے گا؟

    آخر حبیب ابن مالک نے سکوت کو توڑا اور آسمان پر چودھویں کے چاند کی طرف دیکھا اور کہا کہ میرا ایک مطالبہ تو یہ ہے کہ آپ ﷺ چاند کے دو ٹکڑے کر دیں. رسول دو جہاں ﷺ نے حبیب کی بات سنی تو آپ ﷺ کے چہرے کا ابدی تبسم اور بھی گہرا اور روشن ہوگیا. آپ ﷺ نے فرمایا کہ آئو سب لوگ میرے ساتھ صفا پہاڑ پر چلو اور پھر تمام لوگ صفا پہاڑ پر آگئے اور پھر پہاڑ پر کھڑے ہو کر سرورکائنات ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا تو سب نے حیران کن منظر دیکھا کہ آسمان کی بلندیوں پر روشن چاند نے سرورکو نین ﷺ کے اشارے پر لبیک کہتے ہوئے خود کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور پھر ان ٹکڑوں کا درمیانی فاصلہ بڑھتا چلا گیا کہ ایک ٹکڑا پہاڑ کے ایک طرف تو دوسرا پہاڑ کے دوسری طرف چلا گیا. چاند نبی کریم ﷺ کے اشارے پر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا تھا، کافی دیر کے بعد حبیب بولا کہ اب چاند کو دوبارہ جوڑ دیں تو سردارالانبیاء ﷺ نے اشارہ کیا اور چاند کے ٹکڑے آپس میں مل گئے. پھر سرور عالم ﷺ نے فرمایا کہ اے حبیب تمہارا دوسرا مطالبہ کیا ہے؟ حبیب آپ ﷺ کا معجزہ دیکھ کر ایمان لانے کا فیصلہ کر چکا تھا، بولا آپ ﷺ خو د ہی معلوم کرلیں کہ میرے دل میں کیا ہے؟ تو آقا کریم ﷺ نے فرمایا تو سن تیرے دل میں کیا ہے؟ تیری ایک بیٹی ہے جو پیدائشی معذور ہے اور تو چاہتا ہے کہ وہ تندرست ہو جائے، گھر جا، وہ تندرست ہوگئی، اُس کی معذوری ختم ہو چکی ہے. حبیب نے یہ سنا تو فورا کلمہ توحید پڑھ کر اسلام کے رنگ میں رنگا گیا اور بھی بہت سارے لوگوں نے کلمہ پڑھ لیا۔ حبیب گھر پہنچا، دروازے پر دستک دی تو اُس کی بیٹی نے ہی دروازہ کھولا، اس کی زبان پر بھی کلمہ شریف کا ورد تھا. حبیب پوچھا کہ بیٹی تجھے یہ کلمہ کس نے پڑھایا تو بیٹی بولی ابا جان آپ جس پاک ہستی کے پاس گئے تھے، وہ یہاں تشریف لائے تھے، انہوں نے اپنا دست مبارک رکھا تو مجھے مکمل شفا ہوگئی اور پھر مجھے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیا. حبیب نے وقت پوچھا تو بیٹی نے جو وقت بتایا اُس وقت حبیب سرور دوجہاں ﷺ کے ساتھ صفا پہاڑ پر کھڑا تھا۔ سبحان اللہ

  • قوم مذہب سے ہے. کامران امین

    قوم مذہب سے ہے. کامران امین

    کامران امین نیشنلزم کےنام پر لوگوں کو دیے جانے والے دھوکوں میں سب سے اہم دھوکہ یہ نعرہ ہے کہ قومیں وطن سے تشکیل پاتی ہیں۔ لیکن تقدیر نے ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ مارنےکے لیے روز اول سے ہی الٹا کھیل کھیلا ہے۔ انسان کی 5 ہزار سالہ معلوم تاریخ میں یہ رشتہ اتنا کمزور رہا ہے کہ جب زمین کے ایک ٹکرے نے چارہ اگلنا بند کیا تو انسانوں نے اپنی اس ماں کو خیرباد کہا، بوریا بستر اٹھایا اور نیا وطن بنا لیا۔

    حالیہ تاریخ میں قیام پاکستان قومیت پر مذہب کی برتری کا پہلاثبوت تھا جب ایک ہی وطن کے رہنے والے لوگوں نے جن کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا اور اوڑھنا بچھونا تقریباً ایک ہی جیسا تھا لیکن صرف مذہب کی بنا پر انہوں نے کہا کہ ہم ساتھ نہیں رہ سکتے اور 2 نئے ملک منصہ شہود پر آئے۔ اس کے ایک سال بعد ہی مذہب کے نام پر ایک اور ریاست اسرائیل نے جنم لیا۔ دنیا بھر میں یہودی کہیں بھی ہو وہ اسرائیل کا شہری ہے، اس کی ساری ہمدردیاں اور سرمایہ اسرائیل کے نام پر وقف ہوتا ہے۔ جدید دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جن کی تشکیل میں مذہب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مقرقی تیمور اور جنوبی سوڈان اس کی واضح مثال ہے جہاں ایک ہی جغرافیائی محل وقوع اور ایک زبان، ایک جیسے رسوم و رواج رکھنے والوں نے ایک وطن میں رہنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ چونکہ تم مسلمان اور ہم عیسائی ہیں، اس لیے ہم ایک ملک میں نہیں رہ سکتے، ہمیں الگ وطن چاہیے۔

    برما میں ایک ہی وطن کے رہنے والے مسلمان محض اس لیے شہریت سے محروم ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور حکمران بودھ۔ یہ تو مذہب کی بات تھی، اب تو دنیا میں مسلک کے نام پر بھی ملک بننے لگے ہیں۔ آئرلینڈ صرف اس لیے منصہ شہود پر آیا کہ ان کا مسلک برطانیہ کے سرکاری مسلک سے مختلف تھا۔ عراق میں دولت اسلامیہ کا ظہور اس کی نئی کڑی ہے۔ ان سارے ثبوتوں کے ہوتے ہوئے کون نادان اس بات سے انکاری ہے کہ مذہب قوم کی تشکیل نہیں کرتا؟

    سیکولر حضرات قیام بنگلہ دیش کو نیشنلزم کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں، اگر بنگلہ دیش کا قیام مذہب کی ہار تھی تو مغربی بنگال اور مشرقی بنگال ایک کیوں نہ ہوگئے؟ صرف اس لیے کہ دونوں خطوں میں لوگ الگ الگ مذہب کے پیروکار ہیں اس لیے باوجود ایک جغرافیائی محل وقع اور ایک ہی زبان ہونے کے دونوں خطے الگ الگ وطن ہیں۔ کیا یہ مثالیں آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی نہیں ہیں؟

  • بھارت میں مسلم دشمنی عروج پر – محمدبلال خان

    بھارت میں مسلم دشمنی عروج پر – محمدبلال خان

    محمد بلال خان اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر اور جمہوری ریاست ہونے کا دعویدار پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت اپنے عمل کے ذریعے اپنے ہر مؤقف کو جھوٹا ثابت کرتا آ رہا ہے۔
    اس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری مملکت ہے، مگر دنیا میں قومیت پرستی، اور لسانی عصبیت میں دوسرا نمبر رکھنے والا بھارت نہ صرف ایک فرقہ وارانہ ذہنیت کا حامل ملک ہے، بلکہ عدم برداشت، شرپسندی اور تعصب پسندی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔

    بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 20 سے 30 کروڑ کے درمیان ہے، اور وہاں کی سب سے بڑی اقلیت ہے، مگر ریاستی انتہاپسندی اور ہندو دہشت گردی کا شکار ہے. بی جے پی کی متعصب حکومت مسلمانوں کو ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی، اس سے وابستہ ہندو دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں کو ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔
    سرکاری سطح پر مسلم دشمنی کی وجہ سے مسلمانوں کو رمضان میں روزے رکھنے اور مساجد جانے سے روکا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہریانہ کے ایک سکول میں عید ملن پارٹی منعقد کرنے پر مقامی ہندو انتہا پسندوں نے سکول پر دھاوا بول دیا. پنچایت نے ایک سکول پر عید کی تقریب منعقد کرنے پر ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا اور سکول کے باہر دھرنا دے کر مسلم طلبہ اور اساتذہ کو سکول سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا گيا۔ سکول کی مینیجر ہیما شرما نے ایک اخبار کو بتایا کہ ’پنچایت کے مطالبے کے بعد سکول کی واحد مسلم ٹیچر ملازمت چھوڑ کر دہلی میں رہنے پر مجبور ہوئی ہیں۔‘

    بھارت میں یوں تو مسلمانوں کے خلاف فسادات ہوتے رہے ہیں لیکن مرکز میں مودی حکومت آنے کے بعد سے اس میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گيا ہے۔ مقامی ہندو انتہا پسندوں کا مسلمانوں کو ملک بدر ہونے کے لیے مجبور کرنا اور ہندو رہنماؤں کی طرف سے مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑنے کے بیانات دینا اب ایک معمول بن گیا ہے۔ ڈاکٹر ذاکرنائک جیسی معتدل آواز کو بھی برداشت نہیں کیا جارہا جن کے صرف ہندوستان میں کروڑوں فالوورز ہیں. دنیا بھر میں پیغامِ محبت بانٹ کر تقابلِ ادیان میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے اس اسکالر کو بھی دہشت گرد قرار دے کر ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس سے بھارت کا متعصب، انتہا پسند اور عدم برداشت پر مبنی چہرہ مزید عیاں ہوگیا ہے۔

  • علامہ اقبال کا پیغام خودی – عمیر بخاری

    علامہ اقبال کا پیغام خودی – عمیر بخاری

    علامہ اقبال کے نظریات، اشعار کی صورت میں پیغامات اور ان سب کے مطالب عام شخص کی سمجھ سے بالا ہیں۔ اقبال نے شاعری بحر اور وزن کی خوبصورتی پر داد وصول کرنے کے لیے نہیں کی ، بلکہ اقبال فرماتے ہیں: ’’میرا شاعری سے کوئی خاص رشتہ یا تعلق نہیں ، بس کچھ مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے اظہار کے لیے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کیا ہے۔‘‘
    اقبال کا مقصد خاص اصلاح تھا۔ ان کی دور اندیشی اور باریک بینی میں امت محمدیہ ﷺ کے درد کا بیج بو دیا گیا تھا۔ اس درد نے انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ’’پیغام خودی‘‘ لے کر اٹھے او رآخردم تک اس پیفام کومسلمانوں میں عام کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ مسلم نوجوان کو اسی پیغام کی طرف بلاتے رہے جس میں اس کی کامیابی کا راز مضمر تھا۔ خودی کیا ہے؟ میاں بشیر احمد کارنامئہ اسلام میں لکھتے ہیں:
    ’’اقبال کا خیال ہے کہ انسان ضبط نفس، اطاعت اور نیابت الہی کی تین منزلیں طے کرتا ہواخودی کی انتہائی منزل کو پہنچ جاتا ہے، تاہم ان منازل کے ارتقاء میں اسے مذہب کی رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ ‘‘
    اگر خودی کی ان تین منازل کو سمجھیں تو قرآن میں متعدد بار تقوی کا حکم ہے اور معیاری زندگی میں پرہیزگاری یعنی تقوی اقبال کے نزدیک ’’ضبط نفس‘‘ ہے۔ جب انسان تمام تر نفسانی خواہشات سے کنارہ کش ہو کر پرہیزگاری کی جانب آئے گا تو وہ مکمل دفاع کو یقینی بنا چکا ہوگا۔ اس کا ایک مظہر ہمیں جنگوں میں نظر آتا ہے۔ دو آرمڈ فورسز میدان جنگ میں برسر پیکار ہیں۔ ایک فورس نے دوسری پر حملہ کر دیا تو دوسری فورس جوابی کاروائی کے بجائے دفاع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ جب دفاع مضبوط ہو جاتاہے اور قدم جم جاتے ہیں تو فتح کی طرف پیش قدمی ہونے لگتی ہے اور یلغار کا رخ بدل جاتا ہے۔
    یوں لگتا ہے جیسے انسان نے یہ طریقہ جنگ فصلوں پر حملہ آور ہونے والے کیڑوں سے سیکھا ہو۔ اڑتے ہوئے فصلوں کی جانب آنے والے یہ کیڑے دو دستوں کی صورت میں صف بستہ ہوتے ہیں۔ دفاع پر مامور کیڑے حملہ آور کیڑوں کو اپنے حصار میں لیے ہوتے ہیں۔ جب کسانوں کی فوج کیڑوں کی فوج پر سپرے یا کسی دوائی سے حملہ کرتی ہے تو جواب میں دفاعی دستہ صرف دفاع کو یقینی بناتا ہے اور کامیابی کی صورت میں حملہ آوروں کو جگہ دیتا جاتا ہے۔ یوں حملہ آور آسانی سے ہدف کو ٹارگٹ کر لیتے ہیں۔
    بالکل اسی طرح اقبال کے نظریے کے مطابق جب انسان ضبط نفس کے ذریعے نفسانی، شہوانی اور شیطانی حملوں سے مکمل دفاع کو یقینی بنا لیتا ہے تو انسان ضبط نفس کی منزل طے کرتا ہوا مقام اطاعت پر پہنچ جاتا ہے۔اس مقام پر پہنچ کر وہ اطاعتِ خداوندی اور اطاعتِ رسول (طعیوااللہ واطیعوا الرسول )کو زاد راہ بنا لیتا ہے۔ فرائض و واجبات کی پابندی اور حرام و حلال میں تمیز کو شاملِ سرشت کرلینا اطاعت خداوندی ہے، جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں سنن عادیہ اور سنن نبویہ دونوں شامل ہیں۔ اطاعت خداوندی اور اطاعت رسول پر کامیابی انسان کو منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اور یوں انسان اپنی اصل کا نگہبان بھی بن جاتا ہے۔
    انسان اس دنیا میں خدا تعالی کا نائب بن کر آیا۔ اس سے پہلے خلافت و نیابت کا تاج جنات کے سر پر تھا، مگر وہ فسادات میں حد سے تجاوز کر گئے اور ناکام رہے۔ پھر انسان کو یہ فرض سونپا گیا، چنانچہ جو بھی شخص اپنے اس منصب پر کما حقہ فائز ہونا چاہتا ہے اور اقبال کا شاہین بننا چاہتاہے اسے خود داری اپنانی پڑے گی،خود ہی کو خودی کا عملی نمونہ بنانا ہوگا۔ ایسا شخص جب ضبط نفس سے روح کی صفائی اور اطاعت سے جسم کو پرنور کر لیتا ہے تو وہ قلب و روح کو منور کرتا ہوا نائب کے منصب پر فائز ہو کر خودی کی انتہائی منزل کو پہنچ جاتا ہے۔