Author: ایڈمن

  • ریاست خاموش تماشائی  : سیدراصدف

    ریاست خاموش تماشائی : سیدراصدف

    پاکستان میں ایک وزارت مذہبی امور ہوتی ہے… جس کا معزرت کے ساتھ بنیادی کام کسی ٹریول ایجنسی سے زیادہ کا نہیں ہے…
    حج اور عمرہ کے انتظامات کے علاوہ یہ وزارت کسی قسم کے متاثر کن کام سے عاری نظر آتی ہے……
    کیا امریکی مسلمان حج کرنے نہیں جاتے.. کیا بھارت سمیت دیگر غیر مسلم ممالک سے مسلمان حج اور عمرہ کرنےنہیں جاتے…؟؟؟
    کیا وزارت مذہبی امور کا صرف یہ کام رہ گیا ہے…؟؟؟
    اس خطے سے انگریز تو چلا گیا..مگر بدقسمتی سے اپنا طرز حکمرانی چھوڑ گیا… یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو… آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، ہر حکمران نے اس فارمولہ کو اپنایا ہے…. جتنا زیادہ مسلکی ، سیاسی اور معاشرتی حوالے سے ، عوام تقسیم در تقسیم رہے گی.. اتنا زیادہ حکمرانی ہموار ہو گی…..
    آپ سوشل میڈیا دیکھ لیجیے….ہر دوسرا پاکستانی مفتی ہے… ہیٹ سپیچ کا کھلم کھلا مظاہرہ تمام ہی مسالک کی جانب سے کیا جاتا ہے… مگر کوئی کاروائی کرنا والا نہیں ہے… ریاست کی سب سے بڑی ناکامی کا منہہ بولتا ثبوت…. جو جتنا زیادہ دوسرے مسلک کو تنقید کا نشانہ بنائے گا اتنا بڑا مومن تصور ہو گا…
    فرقہ ورانہ اختلاف کیا آج سے ہیں…؟؟ کئی سو سالوں سے جاری ہیں…وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شدت اور افسوس ناک بہودگی کا اضافہ ہو گیا ہے….. کیونکہ علما کی طرف سے کسی قسم کے موثر اقدامات کی مثال نہیں ملتی.. متنازعہ و غیر مستند تاریخ نسل در نسل کاپی پیسٹ ہوتی آ رہی ہے…
    آئین پاکستان کہتا ہے کہ.. جو کہ مسلمان ہونے کی بنیادی شرط بحکم اسلام بھی ہے… !
    ہر وہ پاکستانی مسلمان ہے جو، اللہ اور رسول صلی علیہ وسلم پر ایمان لائے..تمام انبیا ، فرشتوں اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو.. ختم نبوت یعنی حضرت محمد رسول صلی علیہ پر نبوت کا خاتمہ مانتا ہو….
    ادھر سوشل میڈیا پر ، یہ بھی کافر وہ بھی کافر…. اس کیا فائدہ ہو گا؟؟؟؟ یقینا صحابہ اکرام کی عزت ہر مسلمان کو کرنی چاہیے… مگر مدعا یہ ہے کہ.. یہ اختلاف آج کے نہیں ہیں…

    ایک طرف آپ آئین کو بھی مانتے ہیں.. دوسری طرف آئین کی خلاف ورزی بھی… دیکھیے..لوجیکل بات ہے کہ.. اگر آئین کی رو سے کوئی مسلمان ہے تو اسے کیسے خارج کر سکتے ہیں..؟؟؟؟
    جب یہ تعریف شامل کی جا رہی تھی تب کیوں اعتراض نہ ہوا..؟؟
    اگر دلائل مضبوط ہیں.. تو نعرہ بازی اور، عسکری تنظیموں کی آڑ لیے بغیر ، دوبارہ سے قانون کا سہارا لیا جائے…. جیسے فتنہ قادیانیت پر لیا گیا تھا…
    کافر کافر میں مشغول مکتبہ کے ، علما حضرات اسمبلی کا حصہ ہیں اور ماضی میں بھی رہے ہیں…
    ایک ترمیمی قرداد پاس کی جائے کہ… مسلمان وہ ہے جو رسول پاک صلی علیہ وسلم کے تمام اصحاب پر ایمان رکھتا ہو… نیز وہ تمام فرقہ ورانہ گمراہ کن کتب، جس میں حقائق مسخ شدہ پیش کیے گئے ہوں ان تمام پر پابندی لگا دی جائے… جھگڑا ہی ختم…. ہمت کریں.. کب تک عام پاکستانی ایک دوسرے کو ہلاک اور شہید کرتے رہیں گے….
    آئین پاکستان کی رو سے کسی قسم کا خلاف اسلام کام نہیں ہو سکتا ہے..
    چلیں آپ چھوٹے موٹے اختلاف سائیڈ پر رکھیے…. کچھ کام کھلم کھلا سراسر اسلام سے متصادم ہیں… ریاست خاموش تماشائی ہے….
    آئین کا آرٹیکل 19 کہتا ہے خلاف اسلام اور اساس پاکستان و دیگر حساس قومی ایشوز پر بولنا آزادی رائے تصور نہیں ہو گا…. عمل درآمد کدھر ہے…؟؟؟
    فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور برداشت لازم ہے… لیکن وہ عقائد اور مشقیں جو سراسر اسلام سے متصادم ہیں… ان کو کنٹرول کرنا اسی ٹریول ایجنسی کا کام ہے جو ورازت مذہبی امور کے نام سے اسلام آباد میں بیٹھی ہے….
    اب آپ آئین کے آرٹیکل 20 پر آئیے…..
    اس آرٹیکل کے تحت ہر مذہب کو امن ایمان اور اخلاق کے دائرہ کار کے اندر رہتے ، اپنے مذہبی عقائد پر عمل درآمد کی آزادی ہو گی… تمام مذاہب اپنے ادارے قائم کر سجتے ہیں…
    یہ آرٹیکل بہت عمدہ ہے..اور مذاہب کے درمیان برداشت tolerance کے لیے موثر ہے.. یہ ہی طرز ہمیں تاریخ اسلام سے بھی ملتی ہے…..

    مگر مدعا یہ ہے کہ.. عیسائی، سکھ اور دیگر مذاہب کے لیے تو یہ بہترین ہے… مگر مثال کے طور پر قادیانیت کے لیے یہ غیر موثر ہے…. اسی شق میں یہ اضافہ ہونا چاہیے کہ مذہبی آزادی یقینا مکمل ہے لیکن اسلام سے متصادم قطعی نہ ہو….
    سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ ایس ایم آر 1718 1993کے مطابق بھی قادیانی اپنے مذہب کی اشاعت نہیں کرسکتے… جو کہ بدقسمتی سے جاری ہے…مذہب قادیانیت سرے سے ہی اسلام سے متصادم ہے…

    مدعا یہ ہے کہ.. پہلے تو ہر شخص کو انفرادی سطح پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھانا ہر مسلک کے علما کا کام بھی ہے کہ.. ہمارا ایمان اختلافات پر بات کیے بغیر بھی مکمل ہے… ہمارا کام قرآن و سنت کے تابع اپنی زندگیاں گزارنا ہے…….
    ہم سے ہمارے اعمال پر سوال ہو گا… جن اختلافات پر آپ لوگ کھپ رہے یں..وہ ہمارے ایمان کا حصہ نہیں ہیں…

    ددوسرا مدعا قانون پر عمل درآمد ہونا ہے.. جب ہم کہتے ہیں کہ.. ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ اسلام سے متصادم نہیں ہے تو بالکل نہیں ہے…. مسئلہ صرف نفاد نہ ہونے کا ہے.. اسی طرح جہاں ترمیم کی ضرورت ہے وہاں موثر ترمیم سے بھی نظریں چرائی جاتی ہیں….

    آرٹیکل 33 کے تحت مملکت ، افراد کے درمیان عصبیت کی حوصلہ شکنی کرے… کسی قسم کی نسلی، صوبائی ، فرقہ ورانہ، سیاسی، علاقائی عصبیت سے روکے…

    آپ ذرا غور کیجیے…. ہمارے حکمرانوں کی طرز حکمرانی ہی آرٹیکل 33 کی نفی ہے… عوام کو درج بالا تمام امور میں تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی جاری و ساری ہے….

    یقین کیجیے پاکستان کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل ممکن نہ ہو… مسئلہ صرف حکمرانوں کی نیت میں اخلاص کی بدترین کمی کا ہے… ہم عوام ان بدنیتوں پر اندھا اعتماد کیے جاتے ہیں… جو خود تو محفوظ ہیں.. مگر کتنے پاکستانی ان کو محفوظ رکھنے کا صدقہ ہوئے….

    آئیں ہم سب عہد کرتے ہیں کہ.. ہم پاکستانی اپنے لیول پر عصبیت کا شکار نہ ہوں گے…. ہم اس بات پر اتفاق کریں گے.. جو ہم مشترک ہے..اور بطور مسلمان ہر اس عمل، اور بات سے اجتناب کریں گے جو اسلام سے متصادم ہے….. ہم بطور معاشرہ اس بہترین اکثریت کو پہنچیں گے جس کے بعد، ویسے ہی حکمران دینے کا وعدہ ہے…..

  • حضور والا غلطیوں کی گنجائش نہیں – راجہ بشارت صدیقی

    حضور والا غلطیوں کی گنجائش نہیں – راجہ بشارت صدیقی

    راجہ بشارت
    کسی زمانے میں چندر گپت موریہ ہندوستان پر حکومت کرتا تھا۔ اس کا ایک درباری ایک ہندو پنڈت چانکیا بھی تھا جس سے موریہ کبھی کبھی صلاح مشورہ کیا کرتا تھا۔ ایک روز بادشاہ چند درباریوں کے ہمراہ شکار کو نکلا۔ رات ہو گئی تو ایک جنگل میں پڑائو کیا۔ سپاہی خیمے لگانے اور کھانے پینے کے کام میں مصروف تھے۔ چانکیا بھی ادھر ادھر آ جا رہا تھا کہ اسے ایک جھاڑی سے کانٹا چبھ گیا۔ کانٹے کا لگنا تھا کہ چانکیا غصے میں آپے سے باہر ہو گیا۔ ملازم سے کہا کہ فوری ایک گلاس شربت لے آئو ۔ نوکر سمجھا کہ اندر چانکیا کو کانٹے سے بہت تکلیف ہوئی ہو گی۔ وہ جلدی سے شربت کا گلاس لے آیا۔ چانکیا نے شربت کا ایک گھونٹ چکھا اور باقی شربت جھاڑی اور اس کی جڑوں میں انڈھیل دیا ۔ ملازم نے ہاتھ جوڑ کر پوچھا حضور کیا اس شربت میں کوئی خرابی تھی یا مجھ سے کوئی خطا ہوئی کہ آپ نے شربت گرا دیا ؟ چانکیا بولا اس کا جواب صبح دوں گا۔

    دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کے کیڑے ہزاروں کی تعداد میں آئے اور صبح تک اس جھاڑی کو چٹ کر دیا۔ صبح چندر گپت موریہ نے حیرانی سے پوچھا رات یہاں ایک اچھی خاصی جھاڑی تھی اسے کیا ہوا؟۔ چانکیا نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ حضور اس نے میرے ساتھ دشمنی کی تھی اور میں نے اس کا ایسا بندوبست کیا کہ اس کا نام و نشان ہی مٹا دیا اور پھر اسے بتایا کہ میں نے جھاڑی کو کیسے تباہ کیا۔ چندر گپت اس کی سکیم سن کر بہت خوش ہوا اسے مشیر خاص کے عہدے پر ترقی دیدی۔

    چونکہ ہندو دھرم میں کسی صحیفے یا آسمانی کتاب کا کوئی تصور نہیں اس لئے ہندو چانکیا کے بتائے ہوئے اصولوں پر آج بھی عمل کرتے ہیں۔ چانکیا نے اپنی مشہور تصنیف ارتھا شاستر میں ہندوئوں کیلئے سیاسی فلسفے کے بنیادی اصول انتہائی تفصیل سے بیان کیے ہیں اور آج بھی ہندوستان کے پورے سیاسی نظام کا ڈھانچہ جنگ اور امن دونوں حالتوں میں انہی اصولوں پر استوار ہے۔ چانکیا کا نظریہ حکومت میکاولی سے چنداں مختلف نہیں۔ وہ بھی اپنے پیروکاروں کو چالاک ، سازشی ، کمینگی کی حد تک بدلہ لینے کی خواہشمند ہر لمحہ اوچھے ہتھکنڈے اور بددیانتی سے دشمن کو مات دینے پر تیار اور اس ہنر میں تاک دیکھنا چاہتا ہے یہ چانکیا کی ہی تعلیمات کا حصہ ہے کہ اپنے ہمسایہ کو ہمیشہ اپنا دشمن سمجھو ۔پاکستان ہندوستان کا ہمسایہ ہے چنانچہ چانکیا کے اقوال میں ہم کبھی ہندوستان کے دوست نہیں ہو سکتے۔

    ہندوستان کے ساتھ پاکستان کی کشیدگی قیام پاکستان کے وقت سے ہی جاری ہے اور ہندوستانی قیادت نے پاکستان کے وجود کو کبھی بھی خلوص دل سے قبول نہیں کیا کشمیر کے بنیادی مسئلے کا تصفیہ بھی ابھی حل طلب ہے۔ ہندوستان جنوبی ایشیاء کا چوہدری بننے کا خواب دیکھتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہمارے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے۔
    پاکستان ہمیشہ امن کا خواہاں رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات سدھارنے میں کئی ادوار میں کوششیں کی گئیں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے ہمیشہ امن کی خواہش کا اظہار کیا اور اسی خواہش کے نتیجے میں فروری 1998ء میں ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا تو کشیدگی کی برف پگھلنے کے نمایاں آثار دکھائی دیئے یہ نواز شریف کی اہم ترین کامیاب کوشش تھی، واجپائی کے اس دورے پر حکومت پاکستان مطمئن نظر آئی۔
    واجپائی چونکہ شاعر ہیں اور شاعر ہمیشہ دنیا کو امن کی نظر سے دیکھتا ہے جبکہ مودی ایک متعصب ہندو ہے وہ پوری طرح چانکیا کی فلاسفی پر عمل پیرا ہے ، ان کی سیاسی تربیت آر ایس ایس میں ہوئی اور آر ایس ایس کا ایجنڈا پاکستان دشمنی پر مبنی ہے۔ مودی جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے وہاں مسلمانوں کا قتل عام کروایا اور بڑی ڈھٹائی سے مسلمانوں کی موت کو کتے کی موت سے تشبیہہ دی تھی۔ قرین قیاس تھا کہ مودی کے وزیراعظم بننے سے مسلم دشمنی کم ہو جائے گی مگر افسوس کہ پہلے سے بھی زیادہ مسلم دشمن ثابت ہوئے ۔ مودی نے دنیا کو دکھانے کیلئے پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ لاہور ایئرپورٹ پر وزیراعظم پاکستان نے مودی کے استقبال کیلئے دونوں بانہیں کھول دیں ، نواز شریف مودی کی چالاکیوں کو سمجھ نہ سکے اور وہ ٹریپ ہو گئے۔ چانکیا کی تعلیمات کا ایک اور لازمی اصول غداری ، دغا بازی اور قتل و غارت کے ذریعے دو طاقتور گروپوں کو آپس میں لڑانا ہے اور اس نے اپنی تنصیف میں بارہا اپنے چیلوں کو ان اصولوں پر کاربند رہنے کی ہدایت کی ہے۔
    مودی نے چانکیا کے اصولوں کے عین مطابق پاکستان کی صفوں میں ایسے لوگ چنے جنہوں نے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے اور پاکستان کو نہ ماننے کی باتیں بھی کیں۔ بلوچستان میں حالات خراب کرنے کیلئے اس نے اپنے لے پالک رکھے ہوئے ہیں ، سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے اپنے لے پالکوں کے علاوہ انڈین نیوی کا حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادیو کو بھی بھیجا گیا۔ بلوچستان 770کلو میٹر طویل ترین ساحل رکھتا ہے ، سی پیک منصوبہ مکمل ہو گیا تو چینی صوبے سنکیانگ کا ریلوے اور ٹرکوں کا بلوچستان ، ازبکستان ، تاجکستان، قازقستان ، ترکمانستان اور وسط ایشیاء کی دوسری ریاستوں کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم ہو جائے گا جس سے اس خطے میں امن اور خوشحالی کا دور دورہ آئے گا۔متعصب ہندو کبھی بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان خوشحال ہو اس نے بلوچستان کی سیاسی قیادت میں سے ضمیر فروش خریدے جو ہندوستان میں سیاسی پناہ کی درخواست دیتے ہیں اور کبھی پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ہیں ان ضمیر فروشوں میں سے کچھ تو نواز حکومت کے اتحادی ہیں مجال ہے کہ بادشاہ سلامت ان کے خلاف دو الفاظ بھی بولیں۔

    ہندوستان ہمیں دنیا میں تنہا کرنے کی باتیں کر رہا ہے ادھر ہمارے وزیراعظم اور ان کے سیاسی ’’بوزنے‘‘ چانکیا کے پیروکاروں کو منہ توڑ جواب دینے کی بجائے حماقتوں پر حماقتیں کر رہے ہیں۔ قومی سلامتی کے اہم راز کسی ’’بوزنے‘‘ میں سرل المیڈا تک پہنچائے۔ خبر کا بریک ہونا تھا کہ دنیا میں پاکستانی فوج کے خلاف ہا ہا کار مچ گئی۔ انٹرنیشنل میڈیا ہماری بہادر فوج کو روگ آرمی کا نام دے رہا ہے بوزنے کی اس حرکت سے فوج میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ نواز حکومت کی اس حماقت پر چانکیا کے پیروکاروں کی خوشی سے باچھیں کھل گئی ہیں پتا نہیں جس وقت بوزنے نے یہ خبر دی تو اس وقت اس کی عقل گھاس چرنے گئی ہوئی تھی۔
    ہم پاکستانی چاہے وردی میں ہوں یا سول لباس میں پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی پاسبانی ہمارا اولین فرض ہے۔ چانکیا کی تعلیمات کے مطابق ہم ہمیشہ ہندوستان کے اول درجے کے دشمن رہیں گے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے وطن کے خلاف ہندوستان کی مذموم سرگرمیوں،سازشوں اور منصوبہ بندیوں کا منہ توڑ جواب دیں۔

  • پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    میں انصاف ہوں.
    آج عدالت میں کھڑا تھا.
    مقدمے کی دوبارہ سماعت ہو رہی تھی.
    جج صاحب نے فیصلہ سنایا.
    ”شواہد نا کافی ہیں … پھانسی نہیں دی جا سکتی ..“
    یہ سن کر میں بے اختیار اپنے بال نوچنے لگا.
    دونوں بھائی تو کب کے پھانسی پر لٹک چکے تھے.
    دراصل مجھے پھانسی ہو چکی تھی.

  • من من کے پاؤں – محمد یعقوب آسی

    من من کے پاؤں – محمد یعقوب آسی

    (۱)
    ’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘ اور …. پھر زبان کانپ گئی، لفظ کھو گئے! حاضری؟
    اور وہ بھی اللہ کے حضور! ایسی ہوتی ہے، حاضری؟
    بدن کو کفن کی طرح سفید چادروں میں لپیٹ لینے سے کیا ساری کالک دھل جاتی ہے؟
    شاید ہاں، شاید نہیں! مگر … یہاں شاید اور مگر کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے!
    یہی شاید اور مگر ہی تو حضوری کو حجاب بنا دیتے ہیں۔ بدن اور وجود کا احساس کتنی بڑی رکاوٹ ہے!
    اے اللہ میں حاضر ہوں! اگر میں حاضر ہوں تو پھر میں کیوں ہوں!؟
    حاضری میں میرا بدن کیا کر رہا ہے! اور کیوں؟
    کس لئے؟
    یہ پاؤں، من من کے پاؤں مجھے ہلنے نہیں دے رہے۔
    میرے اللہ! مجھے سر تا پا دھڑکن بنا دے اور میرا وجود میرے اشکوں میں تحلیل کر دے! پھر شاید میں لبیک کہہ سکوں۔
    یہ قیامت ہی تو ہے!
    حشر کا عالم اس سے کیا مختلف ہو گا؟
    ایک بسیط خلا جس میں سر ہی سر ہیں، آنکھیں ہی آنکھیں ہیں، اشک ہی اشک ہیں، دھڑکنیں ہی دھڑکنیں ہیں۔ رنگ و نسل، عمر اور طبقہ کہاں سے در آئے گا، یہاں تو صنف بھی صنف نہیں رہتی۔ یہاں ہوش کسے ہوتا ہے کہ کوئی میرے ساتھ ٹکرا کر گزرا ہے یا گزری ہے! یا میں کسی کالے گورے عربی عجمی مرد سے جا ٹکرایا ہوں یا کسی عورت سے! کچھ پتہ ہی نہیں رہتا۔ بس ایک چادر باقی رہ جاتی ہے۔ گہرے سیاہ رنگ کی چمکتی دمکتی اور دل میں اترتی، روح پر چھاؤں بن کر پھیلتی ہوئی ایک بسیط چادر، جو میرے بائیں طرف تنی ہے اور میرے ساتھ ساتھ چل رہی ہے، اور بس! حاضری تو تب ہو کہ میں نہ رہوں، صرف وہ چادر رہ جائے۔ پھر ممکن ہے میری صدا بھی بسیط ہو جائے۔ لبیک کی کاف تک کا فاصلہ جتنا طویل ہو جائے حاضری بھی اتنی ہی طویل اور عمیق ہو جائے! مجھے، میرے جسم اور میری روح کو اپنے اندر سمو لے تب میرے اندر سے ایک پکار اٹھے! لب بَے …. ک۔ لاشریک لک!
    یہ تو محشر بھی نہیں ہے! کچھ اور ہے۔ محشر میں تو سنتے ہیں کہ شور ہو گا ایسا شور کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔ نفسی! نفسی! نفسی! مگر نہیں یہاں کبھی کبھی ایک بھنبھناہٹ سی ابھرتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ بہت ساری آوازیں ’’لبیک‘‘ کہنے کی کوشش میں گھٹ کر رہ گئی ہیں۔جیسے آواز کو بھی پاؤں لگ گئے ہوں، من من کے پاؤں! میری آواز اِن پاؤں کے بوجھ سے آزاد ہونے کی کوشش میں بلند ہو جاتی ہے۔ اور ’’لب بے … …‘‘ کاف تک پہنچنے سے پہلے ایک پکار میں بدل جاتی ہے۔ دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں، من من کے پاؤں اشکوں کے سمندر میں بہہ جاتے ہیں۔ وہی حشر کا سماں؟ کہ ہر کوئی اپنے اپنے پسینے میں ڈوب رہا ہے! میری پکار بھی اس میں ڈوب کر ہچکی بن جاتی ہے۔ لبیک کہنے کے لئے لام، با، یا، کاف کی ضرورت نہیں رہتی! لبیک اللّٰھم لبیک!
    (۲)
    کائنات کے سارے رنگ سیاہ چادر میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں اور مجھے شکمِ مادر کی صورت اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں۔ جہاں نہ کوئی خوف ہوتا ہے، نہ تاریکی ڈراتی ہے، نہ آنکھیں ویران ہوتی ہیں بلکہ ایک سرمدی سکون اور خودفراموشی ہوتی ہے جو مجھے دنیا جہان کے غم و آلام سے محفوظ اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں زندگی پھوٹتی ہے۔ دعائیں لہو میں دوڑتی اور دل میں دھڑکتی ہیں، بے چینیاں آنکھوں میں بھی ٹک نہیں پاتیں توآبِ نمکیں کی صورت جسم سے نکل بھاگتی ہیں۔ ہم کلامی اور خود کلامی کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے بلکہ کلام ہی نہیں بچتا۔ کس کس نے کیا کہا کہا تھا! میرے لئے غلافِ کعبہ سے لپٹ کر دعا کیجئے گا؛ میری بچی ذرا سی بلند آواز سن کر ڈر جاتی ہے، اس کے لئے سکونِ قلب مانگئے گا؛ درخواست کیجئے گا کہ مجھے بھی بلا لیا جائے؛ میرے لئے مال و دولت میں برکات کی دعا کیجئے گا۔ سب کا کہا بجا! سب کی خواہشات کا خلوص تسلیم مگر …. صدا کہاں سے آئے، لفظ کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں کہ اللہ! میرے چاہنے والوں کی مشکلات کو بھی آسان فرما دے؛ میرے احباب کو بھی سکونِ قلب سے نواز اور اُن کو بھی جسمانی طور پر حاضری کا شرف عطا فرما۔ لبیک! ان الحمد، و النعمت لک والملک؛ تیرا ایک ایک بندہ جہاں بھی ہے تیری نظر میں ہے اور تیرے کرم کی پناہ میں ہے۔
    مگر، بندہ جو ٹھہرا! اکرام اور شرف کا سودائی، تیرا مہمان بننے کی خواہش کے ساتھ جیتا ہے۔ کم مایہ انسان کی اس آرزو کو کیا کہئے کہ اللہ کو اپنا میزبان دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جب خود کو تیرے گھر میں پاتا ہے تو اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے! یہ بھی تو قیامت ہے! جب ایک ایک عضو بولے گا اور زبان کو تالا لگا دیا جائے گا۔ اللہ اکبر! مجھ جیسے بے مایہ شخص کو بھی یہ تجربہ ہوا کہ سوچ کا خانہ تک خالی ہو گیا۔ اللہ کریما! اس خلا میں جو اچھی بات جو اچھا خیال جو اچھا جذبہ بھر دے، تیری عنایت ہے۔ لفظ بھی تو خود ہی عطا کرے گا۔ نہیں بھی کرے گا تو تجھے لفظوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اللہ کریما! سب کی ایک ایک آرزو، ایک ایک تمنا تیرے سامنے کھلی ہے۔ ہر ایک کی ہر وہ آرزو پوری کردے جو آرزو کرنے والے کے حق میں اچھی ہے، آرزو مند کو اتنا ادراک کہاں کہ کیا مانگنا ہے! وہ تو ہر آرزو کی تکمیل چاہے گا، یہ تو ہی جانتا ہے کہ نادان بچے کی طرح کون اپنی ہی آرزو کے ہاتھوں انگلیاں کٹوا بیٹھے! میرے مالک کبھی مجھے میرے حوالے نہ کرنا۔ یا حی یا قیوم برحمتک استغیث!
    (۳)
    میں کیوں ہوں؟ کس لئے ہوں! یہ بھی تیری مشیت ہے۔ تو کہ ایک خفیہ خزانہ تھا، مگر خود پر عیاں تھا۔ شجر حجر، نباتات و اشجار، چاند سورج ستارے سیارے، ہوائیں فضائیں، حشرات و وحوش، انعام و مواشی، اور وہ ہر ہر شے جو تیرے ایک حرفِ کن کا کرشمہ ہے تجھے جانتی پہچانتی تھی۔ پر تیری مشیت اور مرضی تو کچھ اور تھی۔ تو نے چاہا کہ کوئی تجھے اپنی آزاد خواہش کے تحت پہچانے اور مانے جب کہ اسے ماننے نہ ماننے کا اختیار بھی ہو اور ادراک بھی ہو! تونے ذی شعور مخلوقات کو پیدا فرمایا اور مجھے (انسان کو) احسنِ تقویم کے مقام پر فائز کیا۔ مجھے یہ جو تو نے قفسِ عنصری میں محدود کر دیا ہے یہ بھی تیری عنایت ہے، نہیں تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا!
    اپنا پنجرہ اپنے کندھوں پر اٹھائے تیرے گھر کی دہلیز پر پہنچتا ہوں تو ایک عظیم الشان دیوار سامنے آ جاتی ہے سیاہ غلاف میں لپٹی ہوئی بلند و بالا عمارت کے گردا گرد ہزاروں لاکھوں سر ہیں جو میرے سامنے دائیں طرف سرک رہے ہیں۔سیاہ رنگ کی چادر کے اوپر کی طرف ایک پٹی میں سنہرے حروف جگمگا رہے ہیں۔ لبیک! ہاں لبیک! اور پھر؟ لبیک! تیرا جلال حاوی ہو جاتا ہے! مجھے تو کچھ کہنا تھا! اپنے رب سے مکالمہ کرنا تھا! کیا کہوں! یا اللہ کیا کہوں۔ میری نگاہیں تو چادر میں گڑی ہیں اور لفظ شاید کوئی ترتیب پا ہی نہیں سکے، اور پا بھی سکے ہیں تو دل سے حلقوم تک کے راستے میں کہیں کھو گئے ہیں۔ دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے اور لبیک سے اگلے الفاظ ہونٹوں کی بجائے آنکھوں سے ابل پڑتے ہیں۔ میرے سامنے چادر پھیلی ہوئی ہے۔ پردہ! انسانی آنکھ میں تیرے نظارے کی ہوس تو ہے پر تاب نہیں ہے۔ میں کیا، میری اوقات کیا! وہ جلیل القدر عصا بردار پیغمبر جسے یعقوب کے بگڑے ہوئے بیٹوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا اسے بھی تو تجھے دیکھنے کی تڑپ تھی! ایسی تڑپ کہ مجھے اس کا ہزارواں لاکھواں حصہ بھی نہیں ملا ہو گا۔ اس عزمِ مجسم سے ارشاد ہوا تھا: تو مجھے نہیں دیکھ پائے گا! میں کیا! میری حیثیت کیا! تیرے گھر پر لپٹی کالی چادر میرا پردہ رکھ لیتی ہے، اور میرے دیکھتے دیکھتے چہار جانب یوں پھیل جاتی ہے کہ نہ کہیں کوئی افق باقی رہتا ہے نہ کوئی منظر، میرے بے نطق الفاظ ہیں، بے ترتیب دھڑکنیں ہیں اور بے محابا بہتے ہوئے اشک ہیں۔ اللّٰھم اہدنی فی من ہدیت! و عافنی فی من عافیت! و تولّنی فی من تولّیت! و بارک لی فی ما اعطیت! و قنی شر ماقضیت! و انّہٗ لا یذلّ من والیت! و لا یعزّ من عادیت! استغفرک و اتوب الیک! تبارکت ربنا و تعالیت! میرے مالک تو مجھے عطا کر دے۔میں ایسا فقیر ہوں کہ تو مجھے جو بھی عطا کرے میں اس پر شکرگزار ہوں۔ میں بخشش کا طالب ہوں اور تیرے در پر آن پڑا ہوں۔ میرے اللہ میں تیرے گھر کی دہلیز پر کھڑا ہوں اور میرے پاؤں من من کے ہو گئے ہیں۔
    تیرے جلال کی قسم مجھے کھڑا ہونا محال ہے، تیرا ایسا دبدبہ ہے کہ جی میں آتی ہے بھاگ جاؤں! مگر کہاں؟ اے میرے مولا! میں تجھ سے بھاگ کر تیری طرف آتا ہوں۔ اور میرا سر بھی ہزاروں لاکھوں سروں کے اس قافلے کا حصہ بن جاتا ہے جومیرے سامنے میرے دائیں طرف کو سرک رہا ہے۔ میں چل پڑتا ہوں، مگر نہیں! میں کہاں چل پڑتا ہوں! میری نگاہیں تیری پھیلتی ہوئی چادر میں کسی غیر مرئی نقطے کی تلاش میں ہیں۔ چادر پھیل رہی ہے! طواف کا دائرہ بھی پھیل رہا ہے۔ سروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ میرے من من کے پاؤں حرکت کرنے لگتے ہیں، آنسوؤں کی رفتار اور مقدار بڑھنے لگتی ہے، دھڑکنیں سینے کی بجائے کانوں میں گونجتی ہیں۔ اور پھر میں تیری بے پایاں رحمتوں کی پناہ میں آ جاتا ہوں۔

  • فساد اور دہشت گردی کا منبع و سرچشمہ سیکولربیانیہ – ابو سعد ایمان

    فساد اور دہشت گردی کا منبع و سرچشمہ سیکولربیانیہ – ابو سعد ایمان

    ابو سعد ایمان
    انیسویں اوربیسویں صدی کی طویل غلامی کے دوران تمام دنیا کے مسلمان اپنا نظریہ حیات/بیانیہ گم کربیٹھے ۔ اخلاق، کردار، دیانت، عدالت، شجاعت، رحمدلی، باہمی خیرخواہی اور میرٹ کی بجائے بداخلاقی، بدکرداری، بددیانتی، بے انصافی، بزدلی، بے رحمی ، باہمی بغض و نفرت اور بدعنوانی وتعصب ہمارے مذہبی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی اور رویوں پر غالب آگئے۔ہم اپنی بدعملی ، بدکرداری، بددیانتی ، بداخلاقی، بدعنوانی ، بے انصافی اور بے رحمی کی پاداش میں پاکیزہ، متوازن اور سلامتی کے بیانیہ سے محروم ہوکر ایک ناپاک، سخت غیرمتوازن اور فسادی بیانیہ کی دلدل اور شکنجے میں بری طرح پھنس گئے۔

    اس وقت عملی طور پر ہمارے اعصاب پر ایک “ناپاک، جھوٹا،دھوکہ آمیز اور فسادی ” بیانیہ مسلط کردیا گیا ہے۔ جو ناپاک اور فسادی بیانیہ اس وقت مشرق و مغرب میں نشر کیا جارہا ہے اور ذہنوں پر مسلط کردیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ “دنیا کی موجودہ تباہی ، بدامنی اور دہشت گردی کے ذمہ دار مسلمان ہیں اور مسلمانوں کو خونی، درندہ اور امن کا دشمن ان کے مذہب کی تعلیمات کی بعض تعبیرات بنارہی ہیں۔ جدید دنیا کا یہ وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جسے مسلمانوں کا “دماغ” ایک ثابت شدہ حقیقت اور کسی حد تک ناقابل انکار سچ مان کر اس کا حل ڈھونڈنے میں گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے کوشاں ہے ۔ گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں اس حل کی تلاش میں بہت تیزی آگئی ہے۔

    اگر یہ کہا جائے کہ آج تمام دنیا کے مسلمان نبی اکرمﷺ کے عطا کیے ہوئے کامیابی کے اصل نظریہ اور اصل بیانیے کو پوری قوت سے تھامے ہوئے ہیں تو یہ سب سے بڑا جھوٹ ہوگا، لیکن اس سے بھی بڑا جھوٹ یہ ہے کہ “دنیا کی موجودہ بدامنی اور دہشت گردی کے براہ راست ذمہ دار مسلمان اور قرآن و سنت کی رائج الوقت تعلیمات و تعبیرات ہیں”۔
    یہ کہنا کہ مسلمان اس وقت مذہب کے جس بیانیہ کے علمبردار ہیں اس کا سب سے بڑا نقصان اور سب سے بڑا منفی پہلو “پرامن دنیا کو قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا نشانہ بنانا ” ہے، اور یہ کہ دنیا کی بدامنی اورخون ریزی اور دہشت گردی کا براہ راست ذمہ دار موجودہ “مسلم مذہبی بیانیہ” ہے ایک بدترین جھوٹ اور بھیانک ترین فریب ہے۔ہم جب تک اس جھوٹ اور اس دھوکہ سے جان نہیں چھڑائیں گے ہم اپنے اصل گمشدہ بیانیہ کی دوبارہ یافت کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔

    موجودہ مسلم مذہبی بیانیہ کو دہشت گردی اور خون ریزی کا منبع و سرچشمہ قرار دے کر انہیں “جہادو قتال” کی قرآنی ونبویﷺ تعلیمات سے منحرف کرکے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرنا، درحقیقت مسلم دنیا کو اسلام کی عطا کی ہوئی طاقت ور ترین “دفاعی قوت” کو پاش پاش کرکے اسےمحکومی، غلامی اور محتاجی کے پاتال میں دفن کرنے کی ناپاک سکیم کا حصہ ہے۔

    سوال کیا جاسکتا ہے کہ جب ساری دنیا کے سیاسی قائدین ، میڈیا اور مسلم لبرل صحافی، سیاستدان، دانشور اور بعض مذہبی سکالر تک بیک آواز یہ اعلان نشر کررہے ہیں کہ دنیا کی دہشت گردی اور بدامنی کا براہ راست سبب اور ذمہ دار مسلمانوں کا موجودہ رائج الوقت “مذہبی بیانیہ” ہے توآپ اس الزام سے اپنی برات کیسے ظاہر کرسکتے ہیں اور آپ کے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے کہ موجودہ عالمی دہشت گردی اور خون ریزی کا ذمہ دار مسلمانوں کا رائج الوقت “مذہبی بیانیہ” نہیں ہے۔ یہ سوال اپنے حل کے لیے دو بنیادی سوالات کا جواب چاہتا ہے۔

    پہلا سوال یہ کہ دنیا کے کسی بھی خطہ و ریاست میں مسلمانوں کا “مذہبی بیانیہ” جو کچھ بھی ہے کیا کہیں نافذ بھی ہے؟ کیا دنیا کے کسی ایک بھی ملک میں مسلمانوں کا جہاد و قتال پر مبنی مذہبی بیانیہ نافذ ہے؟ صاف ظاہر ہے اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ جب دنیا کی کسی ایک بھی ریاست میں مسلمانوں کا جہاد و قتال پر مبنی بیانیہ نافذ و رائج نہیں ہے اور پوری دنیا کے کسی ایک ملک میں بھی اس “مذہبی بیانیہ” کو ریاستی طاقت اور مسلح قوت حاصل نہیں ہے تو پھر اس مذہبی بیانیہ پر ساری دنیا کی دہشت گردی کا الزام اور بہتان کیسے تھوپا جاسکتا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس وقت ساری دنیا پر کون سا بیانیہ نافذ و رائج ہے؟ اس سوال کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ اس وقت ساری دنیا کے ملکوں پر مغرب کا تیار کیا ہوا “سیکولرمادہ پرستانہ بیانیہ” نافذ و رائج ہے۔ مغرب اپنے سیکولر مادہ پرستانہ نظریہ کو تاریخ انسانی کا طاقتور ترین اور کامیاب ترین بیانیہ قرار دیتا ہے، وہ اسے انسانی ترقی اور کامیابی کی معراج ثابت کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تاریخ انسانی کا یہ “طاقتور ترین اور کامیاب ترین “سیکولر بیانیہ جو ساری دنیا پر رائج و نافذ ہے سارے عالم کو بھیانک ترین دہشت گردی اور خون ریزی سے تحفظ دینے میں بری طرح ناکام کیوں ہے؟ تاریخ انسانی کی سب سے زیادہ خونریزی اور دہشت گردی سیکولرمادہ پرستانہ بیانیہ کے نفاذ ہی کے دور میں کیوں ہورہی ہے؟

    کیاانیسویں اور بیسویں صدی میں ساری دنیا کی کمزور اقوام پر حملے کرکے ان ملکوں پر جنگ اور غلامی کو مسلمانوں نے مسلط کیا؟ کیا بیسویں صدی میں پہلی عالمی جنگ مسلمانوں کے مذہبی بیانیہ کی تخلیق تھی؟ کیا دوسری عالمی جنگ(جس میں دس کروڑ انسان ہلاک ہوئے) مسلم مذہبی بیانیہ نے تخلیق کی؟ کیا جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کا کارنامہ مسلم مذہبی بیانیہ نے سرانجام دیا؟ جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی اور قتل عام کا خالق ہٹلرکیا مسلمان تھا؟ کیا بیسویں صدی میں رنگ، نسل، وطن ، زبان اور مذہبی تعصبات کی بنیاد پر جنگوں کے ناختم ہونے والے سلسلے مسلمان ممالک نے برپا کیے؟ کیا مشرق و مغرب کے کروڑوں انسانوں کو کمیونزم کے نام پر قتل کرنے والا بیانیہ مسلم مذہبی بیانیہ تھا؟ کیا کشمیر کو گزشتہ ساٹھ سالوں سے غلام بناکر ان کو بدترین ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنانے والی بھارتی ریاست “مسلم مذہبی بیانیہ” کی علمبردار ہے؟ کیا بوسنیا اور سربیا میں مسلمانوں کی بدترین نسل کشی مسلم مذہبی بیانیہ کی علمبردار ریاستوں کا کام ہے؟ کیا برما،رنگون اور میانمار میں مسلمانوں کی دل دہلا دینے والی نسل کشی مسلم مذہبی بیانیہ کی حامل ریاست کا کارنامہ ہے؟ کیا عراق پربغیر کسی ثبوت کے محض جھوٹے الزام کے تحت حملہ کرنے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادینے والا امریکہ اور اس کے عالمی اتحادی مسلم مذہبی بیانیہ کے علمبردار ہیں؟ کیا الجزائر کی منتخب مسلم نظریاتی قیادت کو مغرب کے پالتوغدار فوجی طالع آزماؤں کے ذریعے تہہ تیغ کرنے والے “مسلم مذہبی بیانیہ” کے علمبردار تھے، کیا مصر میں اخوان المسلمون کی جائز، جمہوری اور قانونی حکومت کا تختہ الٹ کر مصر میں دہشت گردی، بدامنی، فساد اور انارکی کا بیج بونے والا مغرب کاپالتوغدار فوجی طالع آزما جنرل “مسلم مذہبی بیانیہ” کا علمبردار ہے؟ گزشتہ کم و بیش تین چار سالوں سے شام میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے والا شام کا حکمران کیا “مسلم مذہبی بیانیہ” کا علمبردار ہے؟
    کیا افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور اس کو بدترین تباہی اور بربادی سے دوچار کرنے والے دو عالمی طاقتیں روس اور امریکہ “مسلم مذہبی بیانیہ” کی علمبردار ہیں؟
    کیا چیچنیا میں مسلمانوں کا بدترین قتل عام کرنے والا روس مسلم مذہبی بیانیہ کا علمبردار تھا، کیا فلسطین میں مسلمانوں کی جان، مال اور آبروپر بدترین دہشت گردانہ حملے کرنے والی اسرائیل کی فوج مسلم مذہبی بیانیہ کی حامل ہے؟
    کیا پانامہ، چلی، برازیل اور دیگر لاطینی امریکی کالے عیسائی ممالک کے وسائل کو لوٹنے کے لیے انہیں بدترین بدامنی، ہلاکت، خانہ جنگیوں اور دہشت گردی کا نشانہ بنانے والا امریکہ “مسلم مذہبی بیانیہ” کا علمبردار رہا ہے؟ کیا دنیا کو تباہی اور دہشت گردی کا شکار کرنے والامہلک ترین اسلحہ اور تیکنیکیں مسلم مذہبی بیانیہ کے حامل گروہ بیچ رہے ہیں؟
    کوئی بدترین احمق اور پرلے درجے کا ڈھیٹ ہی ہوگا جو اوپر بیان کی گئی ڈیڑھ سو سالہ بدترین تباہی، بربادی، خون ریزی اور دہشت گردی کا ذمہ مسلم مذہبی بیانیہ پر قائم کسی فرضی اور خیالی ریاست یا گروہ کو سمجھتا ہو؟ جبکہ جو بات سورج کی طرح عیاں ہے وہ یہ ہے کہ تباہی، بربادی، خون ریزی اور دہشت گردی کا درج بالا ڈیڑھ سو سالہ کارنامہ ان ریاستوں نے سرانجام دیا ہے جو جدید مغربی سیکولرمادہ پرستانہ بیانیہ کی علمبردار ہیں۔

    یہ تو رہی مغربی سیکولر مادہ پرستانہ بیانیہ کے خونچکاں کارناموں کی تفصیل اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیے۔ کیا جدید دنیا کا کوئی ایک مسلمان ملک بھی عالم مغرب میں کسی ملک سے جنگ کرنے گیا ؟ جدید دنیا کی تاریخ اس کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ پوری دنیا کے مسلمان ممالک بدترین دہشت گردی کا شکار ہیں، نیز جن ملکوں میں مغربی خفیہ ایجنسیوں اور عالمی مغربی طاقتوں کا عمل دخل جتنا زیادہ ہے وہ ممالک اسی تناسب سے زیادہ تباہی، بربادی، دہشت گردی اور خون ریزی کا شکار ہیں۔
    درج بالا حقائق کی بنیاد پرایک معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا عامی انسان بھی بآسانی یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں بدترین فساد، خون ریزی اور دہشت گردی کا سب سے بڑا ذمہ دار عالمی مغربی سیکولرمادہ پرستانہ بیانیہ ہے۔ نہایت حیرت ناک اور تعجب انگیز بات یہ ہے کہ دستیاب حقائق و ثبوت سے حاصل ہونے والے نتائج کے برعکس پوری دنیا کی سیاست، میڈیا اور نام نہاد دانش ور مسلسل یہ ناپاک پیغام نشر کررہے ہیں کہ ساری دنیا میں دہشت گردی کا ذمہ دار “مسلم مذہبی بیانیہ” ہے۔
    اس سے بھی زیادہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ جس مسلم مذہبی بیانیہ کو محض جھوٹ، دھوکہ اور فریب کے تحت دہشت گردی کا ذمہ دار بتلایا جارہا ہے، اس کے کم و بیش تین بنیادی اور مرکزی عناصر بیان کیے جاتے ہیں (1) برصغیر کے دیوبند مکتب فکر کے مدارس کی سوچ، (2) سید مودودی کی اسلامی فکر، (3) عالم عرب کے اخوان المسلمون کی سوچ۔ یہ تین وہ بنیادی عناصر ہیں جنہیں دہشت گرد مسلم مذہبی بیانیہ کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ ان تینوں اسلامی سکول آف تھاٹ کوجدید دنیا میں تمام تر دہشت گردی کا منبع و سرچشمہ قرار دینا ایسے ہی ہے جیسے بیسویں صدی میں ساری دنیا کے کمزور ممالک کو اسلحہ کے زور پر انہی مسلم مکاتب فکر نے غلام بنایا ہو، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے ذریعے انسانیت کی Mass Destruction انہی مسلم مکاتب فکر کا کارنامہ ہو، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم انہی مسلم مکاتب فکر نے گرائے ہوں، کشمیر، فلسطین، چیچنیا، رنگون، میانمار، بوسنیا، سربیا، عراق، افغانستان اور شام میں مسلمانوں کو بدترین ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے یہی مسلم مکاتب فکر ہوں۔ساری دنیا کے وسائل پر یہی مسلم مکاتب فکر قابض ہوں، دنیا کی جدید ترین جنگی مہلک ٹیکنالوجی کے بلاشرکت غیر مالک یہی مسلم مکاتب فکر ہوں، دنیا کے جدید ترین انتظامی علوم و تجربات پر انہیں مسلم مکاتب فکر کو اجارہ داری حاصل ہو، ساری دنیا کی سیاسی حکومتیں انہی مسلم مکاتب فکر سے راہنمائی حاصل کرتی ہوں اور انہی کے ایجنڈے پر چلتی ہوں۔

    حقائق کا یہ بیان “مسلم مذہبی بیانیہ” کو دہشت گردی کا منبع و سرچشمہ قراردینے کی سوچ کو ایک شیطانی اور مکارانہ سوچ اور بدترین بے ہودہ یاوہ گوئی قرار دیتا ہے۔ لیکن افسوس ہم اس بدترین شیطانی سوچ اور بے ہودہ یاوہ گوئی کو پوری فرمانبرداری اور تابعداری سے ایک سنجیدہ حقیقت سمجھ کر اپنے دماغوں کو اس کا حل نکالنے میں الجھا دیتے ہیں۔

    مسلمانوں کا اس وقت رائج الوقت اصل بیانیہ جنہوں نے دنیا میں ان کی عزت، سکون اور امن برباد کرکے رکھ دیا ہے وہ کرپشن کا بیانیہ ہے، وہ بدعنوانی کا بیانیہ ہے، وہ بے انصافی کا بیانیہ ہے، وہ بددیانتی کا بیانیہ ہے، وہ لاقانونیت کا بیانیہ ہے، وہ مغرب کی اندھی پیروی کا بیانیہ ہے، وہ سنگدلی بے رحمی اور تعصبات کا بیانیہ ہے، وہ ہر حال میں مغرب کے سیکولرغالب طاقتوں کی چاپلوسی اور انہیں خوش کرنے کے لیے اپنی عزت نفس، اپنی خودداری، اپنی حیا ، اپنی اقدار، اپنی روایات، اپنی زبان اور اپنا ایمان تک قربان کردینے کا بیانیہ ہے۔ان سارے بدنما بیانیوں کا اگر ایک نام دیا جائے تو وہ ہے “خدا اور آخرت کو بھلا دینے کا بیانیہ”۔ جب مسلمان اللہ کو اور آخرت کو بھول گئے تو نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے دشمنوں کے رحم و کرم پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا ، اب دشمن اپنے رب کو بھلا دینے والی اس قوم کو کہتے ہیں تم ہمارا کہنا مانو یہ کہتے ہیں ہم حاضر ہیں ہم آپ کا کہنا مانیں گے، دشمن کہتا ہے ہماری پالیسیوں کا اپنے اپنے ملکوں میں نافذ کرو، ہم کہتے ہیں آپ کی پالیسیاں ہی ہماری ترقی کی ضامن ہیں، دشمن کہتا ہےقرآن کی جہاد و قتال کی آیات سے دہشت گردی کی بو آتی ہے ہم کہتے ہیں جی جی ہم سمجھ گئے واقعی آپ کی ناک نے کمال کیا ، دشمن کہتا ہے تمہارے اندر قرآن و سنت کی روشنی میں اصلاح، تعمیر اور احیا کی آواز جو گروہ لگا رہے ہیں وہ دہشت گرد ہیں، ان سے اپنی بے زاری کا اظہار کرو ہم کہتے جی جی بہت بہت شکریہ آپ نے ہمیں ہمارے ناسوروں سے آگاہ کیا ہم ان سے بے زاری کا اعلان کرتے ہیں، دشمن کہتا ہے تمہارے قرآن اور اسلام کی فلاں فلاں تعبیر اور تشریح دہشت گردی کا منبع و سرچشمہ ہے ہم کہتے ہاں جی بالکل ہم اس تعبیر کو بدلنے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں لگادیتے ہیں۔دشمن کہتا ہے جہاد، قتال، ریاست، سیاست اور اسلامی قانون کے بغیر والے اسلام کی بات کروکیونکہ یہی اصل اسلام ہے ہم کہتے ہیں واہ واہ آپ نے ہمیں ہماری اصل متاع یاد دلا دی بہت شکریہ اب ہم جہاد، قتال، ریاست، سیاست اور اسلامی قانون کے بغیر والے اسلام ہی کو اصل اسلام چیخ چیخ کر کہتے رہیں گے۔

    اللہ اور آخرت کو بھلا دینے کا یہ وہ بیانیہ ہے جو پوری دنیا کے عوام و خواص پر غالب آچکا ہے ۔یہی وہ بیانیہ ہے جواس وقت مسلم دنیا کی تمام تر تباہیوں، بربادیوں، زوال اور خونچکاں ناکامیوں کا سبب بن چکا ہے۔ یہ وہ بدترین بیانیہ ہے جس نے مسلم دنیا سے اس کی اصل شناخت ، اصل مقام اور اصل پہچان چھین لی ہے ۔ جب ہماری کوئی شناخت ہی نہ رہی، جب ہمارا کوئی مقام ہی نا رہا ، جب ہماری کوئی عزت اور اوقات ہی نہ رہی تو عالمی ابلیسی طاقتوں نے نہایت مکاری اور عیاری سے ہمارے گلے میں “دہشت گرد” کا شناختی کارڈ لٹکا دیا ہے۔”اللہ اور آخرت “کو بھلادینے کےبنیادی جرم کا ارتکاب ہم نے کیا اور اس جرم کی سزا ہمیں یہ ملی کہ اس مادی دنیا کی جس ترقی، خوشحالی اور کامیابی کے لیے ہم نے “اللہ اور آخرت” کو بھلایا اسی دنیا کی ترقی، خوشحالی اور کامیابی کے دروازوں اور سرچشموں پر قابض عالمی ابلیسی طاقتوں نے “دہشت گردی” کا شناخت نامہ ہمارے سینوں پر لگادیا۔
    آج ساری دنیا کی سیاست، میڈیا اور نام نہاد دانش بیک آواز مسلم دنیا کی پہچان اور شناخت “دہشت گردی” کو قرار دے رہی ہے اور ہماری نام نہاد سیاسی، مذہبی اور صحافتی دانش اس شناخت کو ایک آفاقی سچائی کے طور پر تسلیم کرنے اور کرانے میں لگی ہوئی ہے۔ ساری دنیا کی سیاست، میڈیا اورنام نہاد دانش مسلم دنیا میں ہونے والی بدامنی، خون ریزی اور بدامنی کو اس مسلم “مذہبی بیانیہ” کا نتیجہ قرار دے رہی ہے جو بیسویں صدی کے بدترین زوال کے دور میں مسلم دنیا کو غلامی، بے یقینی، فکری پسماندگی اور بے مقصدیت سے نکال کر “اللہ اور آخرت ” کو نصب العین بناکر رسول اکرمﷺ” کا دین تھامنے کی زوردار دعوت دیتی ہے۔ اور ہم اس عالمی ابلیسی مغربی پکار کی تعمیل میں تابعدارانہ انداز میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور تاریخ انسانی کے بدترین جھوٹے اور دجالی بیانیہ کو جدید دنیا کی سب سے بڑائی سچائی کے طور پر تسلیم کرلیتے ہیں۔

    اللہ، آخرت اور رسول عربیﷺ کی شریعت سے بے وفائی اور غداری کے جرم کی پاداش میں آج ساری دنیا کے کردہ ناکردہ گناہوں کی ملزم مسلم دنیا بن چکی ہے، عالمی ابلیسی طاقتیں مسلم دنیا میں تباہی پھیلاتی ہیں، خفیہ اور اعلانیہ پالیسیوں کے ذریعے، جنگوں کے ذریعے اور معاشی منصوبوں کے ذریعے مسلم دنیا میں بدترین خون ریزی اور دہشت گردی پھیلائی جاتی ہے، دہشت گردی کی پرورش کی جاتی ہے اور پھر اس کا الزام بھی اس “دیوبندی، مودودی اور اخوانی مسلم بیانیہ” پر عائد کردیا جاتا ہے جو درحقیقت جدید دنیا میں مغربی طاقتوں کی عالمی ابلیسی دہشت گردی کا مقابلہ شریعت محمدیﷺ کی اطاعت اور اتباع کے ذریعے کرنے پر یقین رکھتا ہے، جو مسلمانوں کی کامیابی کو شریعت محمدیﷺ کی خالص اطاعت سے مشروط قرار دیتا ہے۔دیوبندی بیانیہ ، مودودی بیانیہ اور اخوانی بیانیہ کی “خرابی “اس کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے کہ یہ شریعت میں تحریف کا شدت سے مخالف ہے، یہ شریعت محمدیﷺ کی محکمات، اصولیات اور بنیادوں کو ناقابل تغیر سمجھتا ہے، یہ بیانیہ انہی محکمات، اصولیات اور بنیادوں پر مسلم دنیا کی تعمیرپر یقین رکھتا ہے جو نبی اکرمﷺ سے متواتر چلی آرہی ہیں۔ اس مسلم بیانیہ کی یہ وہ سب سے بڑی “خرابی” ہے جس کی بنیاد پر ساری دنیا کی ابلیسی طاقتیں اس بیانیہ کو “برائی کی جڑ” قرار دیتی ہیں اور اسے دہشت گردی کا ماخذ و سرچشمہ بیانیہ کا نام دے ڈالتی ہیں۔

    سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا مسلم دنیا میں بعض مسلم عناصر مسلح کاروائیوں پر یقین نہیں رکھتے؟ کیا مسلم دنیا میں بعض مسلم گروہ مسلح کاروائیوں کے ذریعے دہشت گردی نہیں پھیلا رہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جی بالکل مسلمانوں میں مسلح کاروائی کے ذریعے اپنی بات منوانے اور دہشت گرد تنظیمیں کام کررہی ہیں لیکن ایک تو “دہشت گردی ” کے جرم کے مرتکب عناصر کی تعداد پاکستان کی کل آبادی کے تناسب سے انتہائی حقیر ہےاور دہشت گردی کے جرم کے مرتکب مسلم عناصر فی کروڑ ایک لاکھ بھی نہیں ہے یعنی ایک فیصدسے بھی کہیں کم تر عناصر دہشت گردی کے جرم میں ملوث ہیں اور اس ایک فیصدی سے بھی کم تر دہشت گرد عناصر میں کثرت ان عناصر کی ہوچکی ہے جو عالمی سیکولر استعماری طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں کے براہ راست یا بالواسطہ ایجنٹ ہیں،اس کے برعکس کرپشن، ناانصافی، ظلم، بددیانتی، بدعنوانی، اختیارات کا ناجائز استعمال،جھوٹے مقدمات میں فریق مخالف کو پھنسوانے، مادہ پرستی، ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور اس کا بے دریغ ضیاع جیسے معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی کے لیے تباہ کن جرائم پچاس فیصد سے زائد آبادی کا اڑھنا بچھونا بن چکےہیں۔یقیناً دہشت گردی بھی ہمارا مسئلہ ہے لیکن دہشت گردی سے ہزار گنا بڑا مسئلہ کرپشن، لوٹ کھسوٹ، ظلم، ناانصافی اور بددیانتی کاعفریت ہے جس نے پاکستانی معاشرے کو بدترین فساد، بے چینی اور روگ میں مبتلا کر رکھا ہے۔
    دوسری بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی لہر بھی بالواسطہ طور پر بھی اور بلاواسطہ طور پر بھی درحقیقت اسی ظلم، ناانصافی، کرپشن، بدعنوانی، وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور بددیانتی کا نتیجہ ہے جو ہماری سیاسی، مذہبی، عدالتی، سرکاری، غیرسرکاری اوربعض سیکورٹی اداروں تک کی زندگی کا ناگزیر حصہ اور سب سے بڑا ہنر بن چکی ہے۔اس تناظر میں اصل ضرورت کرپشن،ظلم،ناانصافی، بدعنوانی اور بددیانتی کے اس بھیانک ،ہولناک، اذیت ناک اور عفریت نما بیانیہ سے نجات حاصل کرنا ہے جس نے ہمارے معاشرے کا سکون، امن، چین اور استحکام برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ یقیناً دہشت گردی کے روگ سے بھی ہمیں نجات حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن دہشت گردی کی بیماری کا علاج کرپشن، ظلم، ناانصافی اور بددیانتی کے عفریت نما روگ کے علاج سے مشروط ہے جبکہ ہم نے دہشت گردی کے مرض کے علاج کی آڑ میں اس سے ہزار گنا بھیانک روگ اور عفریت سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم پاکستان کے وجود کو کھانے والے سب سے بڑے عفریت “کرپشن اور ناانصافی”سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے “دہشت گردی” جیسے مسائل کو ایک آڑ کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

    انہی معروضات سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلم دنیا میں بعض مسلم گروہوں کی مسلح کاروائیوں کے نتیجے میں ساری مسلم دنیا دہشت گردی کی ثابت شدہ مجرم قرار دی جاسکتی ہے ، مسلم اصلاحی، تعمیری اور احیائی فکر کو عالمی استعمار کے استیلا کے خلاف فکری مزاحمت کرنے اور مسلم ممالک پر حملہ آور عالمی طاقتوں کے خلاف مسلح دفاع پر یقین رکھنے کی بنا پر”دہشت گردی کا منبع و سرچشمہ” قرار دیا جاسکتا ہے تو پھر دنیا کی 90فیصد فساد ، خون ریزی اور دہشت گردی جو غیر مسلم دنیا کی طرف سے ہورہی ہے ، جو رنگ، نسل، زبان ، علاقائی تنازعات اور سیکولرسرمایہ دارانہ غلبہ کے نتیجے میں ہورہی ہے، جو خون ریزی عالمی سیکولرسرمایہ داریت کی بدترین اجارہ داری اور تسلط کی راہ ہموار کرنے کے لیے کی جارہی ہے، جو خون ریزی عالمی سیکولرسرمایہ دارممالک کے معاشی مفادات کے لیے کی جارہی ہے ، جو خون ریزی غریب اور پسماندہ ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کی جارہی ہے وہ مسلم دنیا میں مسلم مسلح کاروائیوں کے مقابلے میں 90 فیصد بڑی دہشت گردی ہے۔
    عالمی سیکولرمادہ پرستانہ فکر کے علمبردار مغربی ممالک پچھلے ڈیڑھ سوسال سے پوری دنیا کو تہہ تیغ کررہے ہیں، دنیا کے امن کی بدترین پامالی میں ملوث پائے گئے ہیں، دنیا کو دو عالمی جنگوں کا تحفہ دے چکے ہیں، ساری دنیا کے پسماندہ اور غریب ممالک بلا استثنا مشرق کے مسلم ممالک اور لاطینی امریکہ اور افریقہ کے مسیحی ممالک سب میں جنگ، خون ریزی، انتشار، انارکی اور خانہ جنگیاں برپا کرواکر ان کے وسائل کو بے دریغ لوٹ رہے ہیں، ہیروشیما، ناگاساکی، عراق اور افغانستان میں کروڑوں انسانوں کی جان، مال اور آبرووں پر بدترین دہشت مسلط کرچکے ہیں، لیکن عالمی تباہی اورانسانیت کی Mass Destruction پھیلانے کے باوجود عالمی سیکولرمادہ پرستانہ فکر کوکس دلیل اور کس بنیاد پر”دہشت گردی سے پاک بیانیہ” قرار دیا جائے، جو دلیل 90 فیصد کمتر جرم کے ملزم (مسلم امہ اور اسلامی فکر )کو “دہشت گرد” ثابت کرتی ہے، آخر وہی دلیل 90 فیصد بڑے جرم کے ملزم (سیکولرسرمادارانہ مادہ پرستانہ فکر) کو “دہشت گرد” ثابت کرنے سے کیوں انکار کردیتی ہے؟

  • مسیحا یا ملک الموت : شیخ محمد ہاشم

    مسیحا یا ملک الموت : شیخ محمد ہاشم

    شیخ محمد ہاشم
    ڈاکٹر صاحب کو جب ہم نے بہت ہی کم وقتوں میں امیر بنتے دیکھا تو ہم نے ڈاکٹر صاحب سے ان کی ترقی کا راز پوچھا تو مسکراکر مولویوں کی طرح فتوے کے انداز میں گویا ہوئے “میاں محبت ،جنگ اور کاروبارمیں سب کچھ جائز ہے” ڈاکٹر صاحب مسکرا رہے تھے اُن کے اس محاورے کو سمجھنے میں ہمیںکچھ وقت لگا تب ہم حیرت کے عالم میں انھیں ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہے تھے ہم سکتے میں تھے اس ایک محاورے نے ہمارے سامنے ان کی شخصیت کو برہنہ کر دیا تھا ہمیںاس ڈاکٹری فتوے نے سناٹے میں لا کر کھڑا کر دیا ہر سو ویرانی دکھائی دینے لگی اس محاورے کو سننے سے قبل ہمارے تحت ُالشعور میں ڈاکٹر کا روپ ایک مسیحا کی مانند تھا زندگی بچانے والے تمام شعبے کے لوگ ہمیںسفید کوٹ میں ملبوس فرشتے کے ہیولے دکھائی دیتے تھے ہم اس شعبے سے جڑے افراد کی تعظیم میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے رہے لیکن اس ایک محاورے نے ہماری سوچوں کو منتشر کر دیا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جن ڈاکٹر صاحب کو میرے رب نے زندگی بچانے والے فرشتے کے روپ میں ایک ذمہ داری سونپی ہے ایساا علیٰ مقام دیا ہے، وہ صرف چند سکوں کے خاطراس ذمہ داری کو کاروبار میں منتقل کر چکے ہیں تب ہم پر اُن کی ترقی کے راز آشکار ہونے شروع ہوئے ہم نے مزید کھوج لگانے کی کوشش کی کہ ڈاکٹر صاحب کے کاروبار میں اتنی برکت اتنی تیزی سے کیسے پیدا ہو گئی کہ اتنے کم وقتوں میں یہ امیروں کی صفوں میںکیسے کھڑے ہو گئے ؟ تو جناب ایسے ایسے انکشافات نے جنم لئے کہ ہمارے پیروں تلے زمین نکلنا شروع ہو گئی۔

    اس وقت دوائیوں کی ملٹی نیشنل اور نیشنل کمپنیاں سب سے زیادہ نا جائز منافع کما رہی ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ وہ ڈاکٹروںکو فراہم کر رہی ہیںسیمنارکے نام پر ڈاکٹروںکو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ ہماری کمپنی کی جتنی زیادہ دوائی لکھیں گے اُتنا زیادہ کمیشن کمائیں گے اس کے علاوہ تحائف جس میں الیکٹرونک اشیاء سے لے کر کار ،بچوں کی تعلیمی فیسیں ،اور دنیا بھر کا دورہ بھی شامل ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ عمرہ کا ٹکٹ بھی دیا جاتا ہے اب واللہ ا علم بصوا ب کہ اس صورت میں عمرہ جائز ہے کہ نہیں یا محبت، جنگ اور کاروبار میں مذہبی فرائض بھی جائز قرار ہو گئے ہو ؟آپ حیران ہو ں گے کہ ضمیر سے عاری ڈاکٹر حضرات دل کے عارضے میں مبتلا مریض کو دل کی ادویات کے ہمراہ معدے کی دوائی بھی شامل کر دیتے ہیں تاکہ دوائی لکھنے کی مد میں کمیشن دستیاب ہو سکے اس تجویز کردہ معدے کی دوائی کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہوتی ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ معدے میں گیس کے سبب درد کی شکایت میں مبتلا مریض جب ڈاکٹرز کے پاس آتے ہیں تو انھیں کہا جاتا ہے کہ یہ درد، دل کی دھڑکن درست نہ چلنے کے باعث ہے، ECGکروایا جاتا ہے جو کہ دل کی دھڑکن کو درست ثابت کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ دھڑکن کی رفتار اس وقت تو درست ہے لیکن یہ مرض آپ کو لاحق ہے اب آپ کو میری تجویز کردہ دوائی تمام عمر کھانی ہے ورنہ ملک عدم سدھار جائو گے۔ مریض بے چارے کے پاس ڈاکٹر کی بات ماننے کے سواکوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔

    پاکستان میں موجود 240 نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے منسلک کوٹ ، پینٹ،ٹائی میں ملبوس نوجوان لڑکوں کا ڈاکٹر ز کے کلینک اور ہسپتال کے گرد تانتا بندھا رہتا ہے ایک گائناکولوجسٹ لیڈی ڈاکٹر کو ان بیگ تھامے لڑکے سے ہم نے بانگ دہل یہ کہتے سُنا ہے کہ آپ کی کمپنی کی اس میڈیسن کے علاوہ میں کوئی دوسری میڈیسن نہیں لکھوں گی ،لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کی کمپنی اس کے عوض مجھے کتنا کمیشن دے سکتی ہے؟کمیشن کے عوض ان لالچی دیوتاوں کویہ بھی جانچنے کی قطعی ضرورت نہیںکہ اس کمپنی کی میڈیسن کامیعارکیاہے ۔ اس قسم کے لوگ ڈاکٹروںکے روپ میں ملک الموت بن چکے ہیں ۔ ہسپتال،ڈاکٹرز،میڈیسن کمپنیاں زندگی بچانے کی ضمانت سمجھے جاتے تھے لیکن اب یہ منعفت بخش کاروبار کا روپ دھار چکے ہیں ہسپتالوں میں طبی امداد دے کر گھر رخصت کرنے کا تصور بھی مند مل ہوتا جا رہا ہے غریب کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کا محکمہ صحت نہ جانے کن ہوائوں کے دوش پر اُڑ رہا ہے اس کا وجود ہے بھی کہ نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی ہوئی لیکن ادویات کی قیمتوں کے اضافے نے ہوش اُڑا کر رکھ دیا ،نادار و بے سہارا افراد کے پاس موت کو گلے لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ان فرشتہ صفت ڈاکٹروں کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو اپنے فرائض سے غافل نہیں ہیں وہ واقعی مسیحا ہیں ان کی قدر و منزلت ہمارے دل اور معاشرے میں اسی طرح ہے جس طرح ہونی چاہئے اللہ ان کے دلوں میں انسانیت اور غرباء کی فکر اور قدر میں اضافہ فرمائیں آمین ، پاکستان کے وزیر اعظم اور انصاف کے رکھوالے غریبوں کا درد ضرور رکھتے ہیں اسی لئے تو وہ بے چارے اپنی ہر تقریروں میں غریبوں کے مستقبل کو روشن رکھتے ہیں ۔لیکن جو کچھ طب کے پیشے سے منسلک افراد غریبوں کے ساتھ کررہے ہیں یہ دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران حیران ہو رہے ہوتے ہیں کہ اتنے غریب اب تک کیوں زندہ ہیں۔

  • چیزیں قبول کرنے سے آسان ہو جاتی ہیں: ندا اشرف

    چیزیں قبول کرنے سے آسان ہو جاتی ہیں: ندا اشرف

    زندگی آپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کا وعدہ کبھی نہیں دے سکتی۔بلکہ انسان ہر قدم پر آزمائش میں مبتلا ہوتا رہتا ہے۔مگر زندگی ان پر آسان ہو جاتی ہے جو ان چیزوں کو قبول کر لیتے ہیں جنہیں وہ بدل نہیں سکتے۔ایک اندازے کے مطابق 90فیصد ہمارے معاملات درست راہ پر گامزن ہوتے ہیں ، جبکہ 10فیصد میں کسی قسم کی کوتاہی یا کمی بیشی کا سامنا ہوتا ہے اور ہم ان 10فیصد کی وجہ سے ذہنی دبائو اور پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔درحقیقت ہم ان 10فیصد کو قبول نہیں کر رہے ہوتے!!

    ماضی کیا کوئی تلخ واقعہ ، یا شخص یا کوئی کمزوری یا شرمندگی جیسے گرد وغبار والے خیالات سے بسا اوقات لوگوں کا ذہن بھر جاتا ہے ۔با نسبت ان چیزوں کو بدلنے کے لیے لڑنے کے بجائے ان چیزوں کو قبول کرنے والا انسان خوش اور پرامن ہو جاتا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ جو چیزیں آپ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے ان میں اولین لوگوں کے روئیے اور گزرا ہوا وقت ہے۔اس کے بعد جسمانی خدوخال اور ساخت ہیں ، جنہیں بہتر تو کیا جا سکتا ہے مگر تبدیل نہیں۔ تاہم چیزوں کو قبول کرنا بھی اختیاری عمل ہے اور ہر مشکل سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں،ایک تو یہ کہ جو ہو رہا ہے اسے مان لیا جائے اور مثبت راہ اختیار کر کے ذہنی سکون اور آمادگی حاصل کی جائے ، اور دوسرا اس کے خلاف سراپا مہم بن کر پریشانی کو بڑھایا جائے ، کیونکہ یہ صورتحال فطرت کے مخالف ہے۔ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو آئے دن بدل رہی ہے ، ایسے میں انسان کسی ایک پریشان کن خیال یا چیز کے ساتھ جامد نہ ہو ۔بلکہ ’’تسلیم‘‘ کرنا ہی ایسی صفت ہے ، جو اپنی چھائوں تلے انسان کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ متحرک بھی رکھتی ہے۔محض خود پر معمولی سا غور و فکر کر کے آپ اپنی زندگی کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔
    چنانچہ اس چیز کو سمجھ لیں کہ قوانین فطرت کے تحت جو کچھ بھی انسان کے ساتھ ہوتا ہے وہ پہلے سے متعین اور لکھا جا چکا ہے۔نبی اکرمﷺ کا فرمان مبارک ہے، ــ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے ہی لکھ دی تھیںاور اللہ کا عرش پانی پر تھا‘‘۔(صحیح مسلم،کتاب القدر،حدیث2653)
    اچھا یہ ہے کہ اپنی زندگی میں ہونے والے ہر معاملے کے پیچھے مقصد اور سبق کو تلاش کریں اور بہتر چیزوں کے لیے سرگرداں ہو جائیں۔
    انسانی مزاج کا خاصا ہے کہ وہ ہمیشہ چاہتا ہے کہ اس کے معاملات درست ہی رہیں، حالانکہ وقت کی اونچ نیچ انسان کو سیکھنے اور بہتر جینے کا قابل بناتی ہے۔ایک راستہ بند ہونے سے ہی باقی راستے سامنے آتے ہیں۔جب انسان کو کوئی تکلیف یا کسی فرد سے کوئی دکھ پہنچتا ہے تو ہمارا عمومی طرز عمل ہے کہ کوسنا شروع کر دیتے ہیں یا اللہ سبحان وتعالیٰ سے گلے شکوے پر آجاتے ہیں،اس طرح انسان اس عادت میں مبتلا ہوتا ہی چلا جاتا ہے۔زندگی میں آنے والے ہر ایسے وقت کواپنے لیے چیلنج بنائیں کہ مبتلائے آزمائش میں ’’آزمائش ‘‘ کا سامنا کرنا ہے۔یاد رکھیں یہی وہ مومن کی صفت ہے کہ جس کا ذکر اس حدیث مبارکہ میں ملتا ہے،
    ’’سیدنا صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مومن کا بھی عجب حال ہے ، اس کے ہر معاملے میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور یہ بات سوائے مومن کے کسی کوحاصل نہیں ،اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی اور اس نے شکر ادا کیا تو اس میں بھی ثواب ہے ،اور جو اس کو نقصان پہنچا اس پر صبر کیا ، تو اس میں بھی ثواب ہے‘‘۔(مختصر صحیح مسلم ،حدیث2092)
    دراصل غم اور خوشی ہی وہ کیفیات ہیں ، جسے مومن ’’قبول‘‘ کر رہا ہوتا ہے۔خود کو ہر مشکل کے لیے تیار رکھیں کیونکہ نقصان بھی برداشت کیا جا سکتا ہے، جب آپ انا پر جمے رہتے ہیں تو مزاحمتی طاقت بھی کم ہو جاتی ہے ۔چاہے کیسا بھی نقصان ، ناکامی اور غیر متوقع حالات سے دوچار ہو نا پڑے ، جو چیز آپ کے بس میں نہیں ہے اسے قبول کرنے سے حقیقی خوش اور سکون ملتا ہے۔
    ہمارا ایک المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے سمندر میں غوطہ لگانے کی سعی بھی نہیں کرتے اور لوگوں کو یا ماضی کو یا کسی تلخ واقعہ کو الزام دیتے رہتے ہیں بغیر یہ سوچے سمجھے کہ ہماری توقعات بھی کتنی زیادہ تھیں۔مایوسی سے بچنے کا سب سے عمدہ نسخہ یہ ہے کہ لوگوں سے توقعات نہ رکھیں ، اپنی توقعات اللہ تعالیٰ سے وابسطہ کرلیں۔آپ ﷺ کا فرمان مبارک ہے، ’’ تم میں سے کسی کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے نیک گمان (حسن ظن)رکھتا ہو‘‘۔(سنن ابن ماجہ ، حدیث 4167، تخریج:صحیح)
    آپ کی غلطیاں آپ کے مقصد کی تعمیر کرتی ہیں ، اس غلطی کو بھلا دیں جو آپ کو ’’Hurt‘‘ کرتی ہے اور ’’Guilt‘‘ دیتی ہے۔لیکن اس غلطی سے حاصل کیئے سبق کو کبھی نہ بھولیں کیونکہ یہ اس غلطی یا واقعہ کو موجود ہونے کا سبب اور مقصد تھا۔رب کائنات کی اس مشیت کے تحت کہ جس پر آپ ﷺ ہمیں آگاہ فرما چکے ہیں کہ ’’ کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا ، یہاں تک کہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لے آئے ، اور یہ یقین کر لے کہ جو کچھ اسے لاحق ہوا ہے چوکنے والا نہ تھا ، اور جو کچھ چوک گیا ہے اسے لاحق ہونے والا نہ تھا‘‘۔
    (جامع الترمذی ، حدیث 2144,تخریج :صحیح)
    ہماری موجودہ حالت اس وقت ایسے جمود کا شکار ہو چکی ہے کہ ہر طرف نفرت ، غم و غصہ ، قتل وغار ت اور نفاق ،حسد جیسے منفی طرز کے رجحان زیادہ ہیں۔اس صورت میں منفیت کو چھوڑ کر ’’ممکنات‘‘ کے پہلو کو مدنظر رکھیں۔کامیابی اور ترقی کی امید اگر آپ کی ممکنات میں سے ہے تو اس کے لیے ’’Efforts‘‘ لگانا شروع کر دیں اور یہ امید کی طرف پہلا قدم ہے۔یہ سمجھنا کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں؟ یا اگر ایسا نہ ہوتا ‘اِس بند دروازے کی طرح ہے جو انسان کو آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے۔ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’طاقت ور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور و ناتواں مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے ، اور ہر ایک میں بھلائی ہے ، تم اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں فائدہ پہنچائے اور عاجز نہ بنو ، اگر مغلوب ہو جائو تو کہو اللہ تعالی کی تقدیر ہے۔جو اْس نے چاہا کیا ، اور لفظ ’’اگر مگر‘‘ سے گریز کرو ، کیونکہ ’’اگر مگر‘‘ شیطان کے کام کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
    (سنن ابن ماجہ ، حدیث 4168، تخریج:صحیح)
    چناچہ نفع بخش چیزوں کی حرص کرنا ’’ممکنات‘‘کو ترجیح دینا ہے۔
    حاصل کلام یہ کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہی آپ کا اثاثہ ہے، ممکن ہے کہ جن چیزوں پر آپ کو افسوس ہے یا آپ ان پر اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں ، وہ ان سے بہتر ہر گز نہ ہوں جو آپ کے پاس موجود ہے۔یہی سے شکر پیدا ہوتا ہے۔اور کاملیت کسی کو نہیں ملتی یہ صفت خداوندی ہے!

  • پسماندہ علاقوں میں انصافیوں کا راج : شمس الرحمن کوہستانی

    پسماندہ علاقوں میں انصافیوں کا راج : شمس الرحمن کوہستانی

    شمس الرحمن
    وہ ارض و کوہستاں جہاں معدنیات ، جنگلات، جڑی بوٹیاں ،زرعی اجناس ، برقی پیداوار ،سیاحت ، قدرتی حسن ، حسین حیاتیات کی بہتات تو ہے مگر حکمرانوں کی دلچسپی نہیں ۔ اُن کی دلچسپی ہے توذاتی مالی معاملات اور مفادات میں جہاں سے انہیں اگلے الیکشن کیلئے کمائی ملے ۔ پسماندہ علاقوں کے پوشیدہ خزانے او روسائل یہاں کے غریبوں کے زندگیاں بدلنے کی ضمانت مگر نااہل حکمرانوں نے اب تک ان وسائل کو بروئے کار لانے کاشائد سوچا نہ ہو۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام امید کی کرن لیکر تحریک انصاف کی حکومت کا جشن منارہی تھی کہ اُن کی زندگیوں میں تبدیلی آئے گی مگرپولیس اور تعلیم کے علاوہ دیگر زندگی کے مسائل جوں کے توں ہیں۔پسماندہ علاقوں کی بیوروکریسی سب اچھا ہے کی پالیسی پر عمل پیراں ہے اور جواب طلبی کے مواقع پر غلط بیانی سے ایک پل بھی نہیں کتراتی ۔ڈھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ گزشتہ روزایک پسماندہ علاقہ پٹن کوہستان میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک نے کوہستان کی ضلعی انتظامیہ سے صحت کے مسائل پر پوچھا تومتعلقہ ڈی ایچ او نے سب اچھا ہے کی رٹ لگائی تو پی ٹی آئی کے کارکن نے داسو کے ہسپتال میں ایک انجکشن اور گولی نہ ہونے کی شکایت کرکے کچا چٹھا کھول دیاگو کہ سوال حقیقیت پر مبنی نہ سہی مگر اس اہم معاملے کا وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا۔ اس پسماندہ صوبے کے دور افتادہ علاقے میں انصافیوں کی حکمرانی میں بدعنوانی کے سنگین الزامات لگ رہے ہیں اور نوکریاں بکنے کی گواہی خود تحریک انصاف کے کارکن دے رہیں ۔ ٹھیکوں میں اقرباء پروری اور گھپلوں کی بھی سخت بازگشت ہے ۔ جس کا اظہار آج پٹن کے سرکٹ ہاوس میں خود انصافیوں نے اپنی حکومت کے سامنے کھل کر کیا۔

    صحت اور تعلیم کے مسائل پر جب راقم نے صوبے کے چیف ایگزیکٹیو سے سوال کرنے کی سعی کی تو ساتھ بیٹھے مشیروں نے ٹال دیا اور جواب نفی میں سرہلا تے ہوئے ملا ،راقم کو ضمیر نے جھنجوڑدیا، صحافی ہوں عوامی مسلئے پر خاموش نہیں رہ سکتا وقت کے حکمرانوں سے سوا ل کر نا فرض ہے چاہے جس کی قیمت کچھ بھی چکانی پڑے!ہماری بچیوں کے مسقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے اور ہماری ماوں بہنوں کو سہولیات سے محروم رکھنے والوں کو بے نقاب کیا تو صوبے کے چیف ایکزیکٹو نے نوٹس لیتے ہوئے فوری رپورٹ طلب کی۔
    یہ عجیب بات ہے کہ جب کوئی مسلہ بیان ہو گا تو ایکشن لیاجائیگا ، یہ حکام جو سالہا سال ہمارے پبلک کے ٹیکس پر تنخواہ لیتے ہیں اُن کا کام عوامی مسائل کا ادراک ہے جس کا بیشتر کو علم ہی نہیں۔ ان میں بیشتر تو صرف تنخواہ لینے پسماندہ علاقوں میں آتے ہیں ۔

    اہم بات یہ ہے کہ ہم نے جن لوگوں کو منتخب کیا ان کا محور اپنی ذات ہے اور انہیں عوام کی بہت کم فکر ہے ۔ ایک بات یہاں واضح کردوں کہ کوہستان کی تاریخ میں پہلی بار پٹن اصلاحی کمیٹی نے اتفاق کی صورت میں دو ممبران اسمبلی چنے جن کا نصب العین دو مقاصد تھے ، ایک پورے کوہستان کو بجلی کی فراہمی اور دوسرا لوئیر کوہستان کا قیام ۔ تاحال دونوں مقاصد ادھورے ہیں ۔آزاد تجزیہ اگر کیا جائے تو عوام کی اکثریت منتخب نمائندوں کی کارکردگی سے نالاں ہے اور ہر کوئی بیزار نظر آتاہے ۔ منتخب نمائندوں کا اپنی اصلاحی کمیٹی کو بھی بائی پاس کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔جو سپاسنامہ تیار کیا گیا اس پر مقامی لوگوں نے جلسے کے بعداعتراضات اُٹھائے۔

    خیر یہاں بات پسماندہ اضلاع اور علاقوں کی محرومیوں کی ہے۔عمران خان نے بارہا کہا کہ سڑکوں کی تعمیر سے کمیشن بنتے ہیں قومیں نہیں بن سکتیں، ان کا موقف رہاہے سرمایہ اپنی قوم پر لگائیں ۔ مگر پسماندہ اضلاع میں اُن کی حکومت نے انسانوں پر بھی سرمایہ کاری نہیں کی۔ یہاں پر فنڈز لیپیس ہوجاتے ہیں استعمال ہی نہیں ہورہے مقامی لوگوں کا موقف ہے کہ جو فنڈز استعمال ہورہے ہیں وہ اُن کے چہیتوں کے ذریعے ہورہے ہیں جن سے کوئی پوچھنے والا نہیں اُس میں میرٹ اور انصاف کہاں؟ گزشتہ روز پٹن کے بڑے جلسے سے قبل وزیراعلیٰ کو اپنے سابق ساتھی اور حکومت کے موجودہ سینئر وزیر سکندر شیرپاو کے اعلان کی زیادہ فکر ہوئی انہوں نے اُس کے اعلان کی تکمیل کیلئے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہا کہ نہروں پر زیادہ پیسے لگائیں جس سے زیادہ زمینیں آباد ہوں۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو کہا کہ بلدیات کو جو 80کروڑ روپے ملے ہیں وہ اُن کے قریبی دوست اور کوہستان سے سابق ایم این اے کی مشاورت سے استعمال کریں۔

    شایدانصاف کی راج نیتی کو صرف تصویر کا ایک رُخ دکھایا گیا ہے ۔ خٹک صاحب شائد بھول چکے ہیں پسماندہ ضلع کوہستان کے چھتیس یونین کونسل دیگر بھی ہیں جن میں بسنے والوں کے بھی مسائل ہیں ۔ آپ نے تیسری بار پٹن کا دورہ کیا ، آپ نے بڑے بڑے اعلانات بھی کئے۔آپ نے ہائی سکول پٹن کو سکنڈری سکول کا درجہ دیکر احسن اقدام کیا، آپ وہاں پر سڑکیں بھی بنائیں آپ پٹن کو گل و گلزار کردیں ہم آپ کے احسان مند ہیں کیونکہ پٹن بھی ہمارا ہے ۔ مگر دیگر علاقوں کو بھی توجہ دیناآپکا فرض ہے ناں! آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں سیلاب اور زلزلوں نے بستیاں اُجاڑ دی ہیں؟ آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں ملبے میں دبے بائیس افراد کی جگہ کو حکومتی بے بسی کے باعث اجتماعی قبرستان قراردے دیا گیاہے؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں کوئی کالج یونیوسٹی فعال نہیں یہاں کا بچہ بچہ سکول کی فیس کو ترستا ہے ؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں کی عوام بجلی سے محروم ہیں؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ بنکڈ، رانولیا، دوبیر، کولئی ، پالس، جلکوٹ ،شناکی ، کندیا ، سیو،کیال ، پٹن اور جیجال کے سیلاب متاثرین بے یار ومد د گار ہیں اور بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہیں ؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں میٹرک کے بعد نوجوان مزدوری پہ مجبور ہیں انہیں اعلیٰ تعلیم کیلئے درگاہیں نہیں؟
    آپکو نہیں معلوم کہ اس جدید دور میں بھی یہاں کی نسل ٹیکنکل ایجوکیشن سے محروم ہیں ؟
    آپ کو شائد نہیں معلوم کہ ہماری مائیں اور بہنیں لیڈی ڈاکٹرز کیلئے ترس رہی ہیں ؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ پیچیدہ امراض میں ہماری مائیں اور بہنیں علاج معالجے کی سہولت نہ ہونے کی پیش نظر راستوں پر جان دے بیٹھتی ہیں ؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ ہماری بچیاں تعلیم سے محروم ہیں ؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ پسماندہ علاقوں کی پگڈنڈیاں ، راستے اور سڑکیں ملیامیٹ ہیں ؟
    آپ بخوبی جانتے ہیں داسو ڈیم میں متاثرین اپنی جائیدادوں سے محروم ہورہے ہیں اُن کے انتہائی جائیز مطالبات ہیں جن کو آپ سنجیدگی سے نہیں لے رہے ؟
    یہاں جو دو ممبران اسمبلی ہیں ایک شیر کاشیدائی جوآزاد بھی جیت کر شیر کا ہوگیا اور دوسرا قوموں کی لڑائی میں مصروف ہے۔ اگر آپ اچھے حکمران ہیں اور حقیقی منصف ہیں تو آپ اس قوم سے خود انصاف کریں اور آپکو ان کے مسائل کا ادراک ہونا چاہیے ۔آپ حق حکمرانی ادا کریں ورنہ آپکا حال بھی ماضی کے سیاستدانوں جیسا ہوگا۔آپ میری اس ناقص تحریر کو اپنے لئے تنقید نہیں اصلاح سمجھئے گا ! میرا خدا گواہ ہے اس کے پیچھے کوئی سیاسی مقاصد نہیں ! یہ ہر پسماندہ علاقے کے فرد کی پکار ہے ۔
    کسی نے کیا خوب کہا تھا ۔۔۔۔
    بے نام سے سپنے دکھلا کر ۔۔۔ اے دل ! ہرجائی نہ پھسلا کر
    یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا۔۔۔ اے چاند یہاں نہ نکلا کر۔
    ناں ڈرتے ہیں ناں نادم ہیں ۔۔۔۔ ہاں کہنے کو وہ خاد م ہیں
    یہاں الٹی گنگا بہتی ہے ۔۔۔ اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
    یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا۔۔۔ اے چاند یہاں نہ نکلا کر۔
    اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین ۔

  • ایک لڑکی کی روح کی فریاد – نوشابہ عبدالواجد

    ایک لڑکی کی روح کی فریاد – نوشابہ عبدالواجد

    میں! آسمانوں میں قائم خداوندہ کریم کی بارگاہ میں روح کی شکل دے کر وجود میں لائی گئی ہوں اور مجھے اُس قطار میں کھڑا کیا گیا ہے، جو عنقریب اولاد بن کر دنیا میں جانے والی ہے۔ اُس دنیا میں جو ہمارے لیے ہی تخلیق کی گئی اور جس کا وجود ہم سے ہی ہے۔

    اولاد کی قطار میں کھڑی، اللہ کے فرمان کا انتظار کرتے ہوئے، میں دنیا میں آنے والی زندگی کو اپنی آنکھوں کے پردے پر چلتا دیکھ رہی ہوں اور خوف ذدہ ہوں کہ اللہ کا فرمان میرے لیے کیا فیصلہ لے کر آ رہا ہے ۔ انسانی شکل حاصل کرنے کے لیے مجھے کسی نہ کسی ماں کے شکم کی ضرورت ہو گی ۔۔۔کون ہو گی میری ماں؟ مسلمان یا کسی اور عقیدے سے تعلق رکھنے والی؟ میں یہ جانتی ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور میرے تحتِ شعور میں دینِ اسلام محفوظ ہے، مگر مجھے کس عقیدے کو ماننا ہے اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ میرے ہونے والے والدین کس عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی تو مجھے اپنی فطرت کے مطابق ماحول مل جائے گا، جہاں میں باآسانی اپنے تحتِ شعور میں محفوظ دینِ اسلام کو سمجھ پاؤں گی اور اگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا تو میرے لیے اپنی فطرت کے خلاف ساری زندگی گزارنا مشکل ہو گا اور اگر میں خود دینِ اسلام کی کھوج میں نہ نکلی تو ایک اضطرابی روح بن کر رہ جاؤں گی۔

    انتظار کے لمحوں میں نِت نئے سوالات میرے ذہن میں آ رہے تھے کہ اُسی وقت ایک خواہش نے میرے اندر جنم لیا کہ کاش! اللہ تعالی مجھ سے پوچھے کہ کیا میں اولاد بن کر دنیا میں جانا چاہتی ہوں؟ اور پوچھے جانے پر میں جواب دوں۔ نہیں کبھی نہیں۔
    اللہ تعالی میرا یہ جواب سُن کر مجھ سے ایک بار پھر پوچھے آخر کیوں؟ تب میں اپنا حالِ دل بیان کرتے ہوئے کہوں۔

    اے اللہ! میں اس بات پر فخر کرتی ہوں کہ دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں ہے جہاں مجھے مانگا نہ جاتا ہومگر جب میں اپنے مانگے جانے کی وجوہات پر نظر ڈالتی ہوں تو دل برداشتہ ہو کر یہ خواہش کرتی ہوں کہ مجھے اولاد بن کر اِن مانگنے والوں کے گھروں میں نہیں جانا۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی آپ نے مجھے ان مانگنے والوں کو دینے کے لیے ہی بنایا ہے، مگر یہ مجھے کیوں مانگ رہے ہیں؟؟؟

    ذرا دیکھیں تو۔

    کوئی مجھے اس لیے مانگ رہا ہے کہ اُن کو صاحبِ اولاد ہونے کا سرٹیفکیٹ چاہیے، تاکہ وہ دنیا میں اَکڑ کر چل سکیں۔ کوئی مجھے اس لیے مانگ رہا ہے کہ اُن کو اپنی نسل اور وراثت چلانی ہے۔ کوئی مجھے اس لیے مانگ رہا ہے کہ اُن کو اپنی ادھوری خواہشات کو پورا کرنا ہے، تو کوئی مجھ میں اپنے بڑھاپے کا سہارا دیکھ رہا ہے۔
    اے میرے رب! ہر کوئی مجھ میں اپنا مفاد دیکھ رہا ہے ، کوئی بھی مجھے اُس مقصد کے لیے نہیں مانگ رہا جس کے لیے میری تخلیق ہوئی ہے۔ مرد اور عورت پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مجھے پیدا کرکے آپ کے آگے جھکنے والوں کی تعداد میں ایک اور عاجز بندے کا اضافہ کریں۔ معاشرے کو ایک مکمل انسان بنا کردیں تاکہ وہ دین اور انسانیت کے اُصولوں کو آگے لے کر چل سکے۔

    یا اللہ! صرف یہ ہی وجہ نہیں ہے، جس نے میرے اندر دنیا میں جانے کی خواہش کو کم کر دیا ہے۔ ۔ ذرا میرے وجود کا آغاز دیکھیں، جب میں اپنی ماں کے شکم میں ہوتی ہوں تب بھی اپنی ماں کے رحم و کرم پر ہوتی ہوں، اگر ماں چاہے تو مجھے ایک صحت مند انسان بنا کردنیا میں لانے کا ذریعہ بن جائے اور اگر نہ چاہے تو میری بے بسی کا فائدہ اُٹھا لے۔

    میں یہ بات جانتی ہوں کہ میرے اور میرے والدین کے درمیان احسان کا رشتہ ہے کیونکہ جہاں بے بسی ہوتی ہے وہیں تو احسان ہوتا ہے۔ مگر کیا میرے ہونے والے والدین یہ جانتے ہیں کہ میرے اور ان کے درمیان کون سا رشتہ ہے؟

    اے میرے مالک! میں اپنی ماں کہ شکم میں جتنی بےبس ہوں اُتنی ہی لاچار دنیا میں آنے کے بعد بھی ہوں گی۔ زبان، آنکھ، کان اور عقل سب ہونے کے باوجود کسی چیز پر میرا کوئی اختیار نہیں ہو گا، والدین کی آغوش میں ایسے سمٹی رہوں گی کہ کوئی یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ ایک دن اکیلے دنیا فتح کر سکتی ہوں۔

    اللہ کون ہے؟ وہ دین جومیرے تحتِ شعور میں محفوظ ہے وہ کیا ہے؟ یہ بات جاننے اور سمجھنے سے پہلے میرے والدین ہی میرے لیے سب کچھ ہوتے ہیں، اندھادہند ان کے پیچھے چلنا شروع کر دیتی ہوں یہ بھی نہیں جانتی کہ وہ میرے ساتھ اچھائی کر رہے ہیں یا بُرائی۔ بس ایک اندھا یقین کہ وہ مجھے کامیاب بنا رہے ہیں۔۔۔

    یااللہ! افسوس تو اس بات کا ہے کہ مجھے حاصل کرنے کے لیے والدین ہر حد سے گزر جاتے ہیں، مگر مجھے حاصل کرنے کے بعد وہ میری بھلائی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ میرا نام رکھنے سے لے کر زندگی کے بڑے بڑے فیصلوں میں اپنی پسند نا پسند کو ترجیحی دیتے ہیں۔ میرے لیے صحیح کیا ہے اور غلط کیا ، اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے۔
    میرے مالک! ذرا سوچئیے،اِن مانگنے والے والدین کو پرورش اور تربیت میں فرق بھی نہیں پتہ۔ پرورش میں میری جسمانی نشوونما شامل ہے اور تربیت میں میرے عقائد، اخلاقیات، رسم ورواج اور نفسی شعور کا علم شامل ہے، مگر آج کل کے والدین پرورش کو تربیت کا نام دے کر تربیت کی اہم ذمہ داری میں کوتاہی کر رہے ہیں۔۔۔ بہترین کھانا کھلانے، اعلٰی اسکولوں میں تعلیم دلانے اور بہترین جگہ پر رکھ کر پرورش کرنے کو بہترین تربیت کا نام دیتے ہیں۔والدین کی یہ لاپرواہی اور لاعلمی دیکھ کرکس کا دل کرے گا کہ وہ اولاد بن کر اِن مانگنے والوں کی زندگیوں کا حصہ بنے ۔

    اے میرے رب! آج کل کے والدین یہ بھول گئے ہیں کہ اُن کو یہ منصب اُن کی صلاحیتوں پر نہیں ملتا ہے بلکہ یہ آپ کا فضل ہے، آپ مانگنے والے کو وہ سب دیتے ہیں جو وہ مانگ رہے ہیں، کیونکہ ہرمانگی جانے والی چیز پر ہی تو مانگنے والے کا حساب لیا جائے گا ۔۔۔۔ میرا وجود تو والدین کا منصب حاصل کرنے والوں کے لیے کڑا امتحان لے کر آتا ہے۔ والدین کا امتحان میرے لیے بھی آزماش کا سبب بنتا ہے، کیونکہ وہ مجھے جو بنا کر دنیا کے حوالے کرتے ہیں وہاں ہرقدم پر میری جنگ خود سے ہوتی ہے۔ ٹھوکریں میرا مقدر بنتی ہیں اگر میری تربیت آپ کے بتائے اُصولوں پر نہ ہوئی ہو۔

    یا اللہ! شکوہ تو یہ ہے کہ والدین یہ جانتے ہیں کہ ہر کام کو بہترین طریقے سے کرنے کے لیے اُس کے بارے میں علم حاصل کرنا ضروری ہے، اس لیے وہ ہر کام کو کرنے سے پہلے اُس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرتے ہیں، تاکہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہوں اور اپنی ساری خواہشات کو پورا کر سکیں، مگرآج کے والدین اولاد کی تربیت کرنے کے لیے کوئی بھی علم حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھتے، مجھے اپنی تجربہ گاہ سمجھتے ہیں جہاں وہ صرف تجربے کرتے نظر آتے ہیں۔ والدین یہ نہیں جانتے کہ اُن کو میری تربیت کیسے کرنی ہے، اپنی زندگی سے جو سیکھا وہ سیکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ والدین یہ بھی نہیں جانتے کہ انھوں نے اپنی زندگی سے صحیح سیکھا ہے یا غلط ۔ جس چیز کا وہ علم رکھتے ہیں اُسے بھی سیکھانے میں کوتاہی کرتے ہیں کیونکہ انسان ایک ایسی ذات ہے جو عمل سے سیکھتی ہے بولے جانے والے لفظوں سے نہیں اور آج کے والدین عمل سے سیکھانے پر یقین نہیں رکھتے۔۔۔۔اے اللہ! میری کہی سب باتوں کا ملطب یہ نہیں ہے کہ میں والدین کی خالص محبت کو مانتی نہیں ہوں، مگر میں اس بات پر حیران و پرشان ہوں کہ والدین مجھے اچھی زندگی دینے کے لیے کسی کی بھی حق تعلفی کر سکتے ہیں، چوری ، ڈاکہ اور قتل جیسے سنگن جُرم کر سکتے ہیں، حرام ذریعے سے کما کر میری ضروریات پوری کر سکتے ہیں لیکن مجھے بااخلاق بنانے کے لیے اپنے اخلاق کو بلند نہیں کر سکتے، مجھے نمازی بنانے کے لیے خود نمازی پرہیزگار نہیں بن سکتے، مجھے خوش کلام بنانے کے لیے آپس کی گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑوں سے اجتناب نہیں کر سکتے ، ہر بُری عادت جو میرے لیے نقصان دہ بن سکتی ہے میری بھلائی کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔۔۔آج کل کے والدین کی محبت بھی اُن کی طرح گمراہ ہو گئی ہے۔۔۔۔ اولاد کی محبت میں والدین جو کچھ کر رہے ہیں اُس سے نہ اُن کی زندگی بن سکتی ہے اور نہ میری ۔
    یا اللہ! میں یہ جانتی ہوں کہ بلوغت میری عمر کا وہ مرحلہ ہے جہاں مجھ میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت آ جائےگی، مگر چودہ سال والدین کی اندھی تقلید مجھے حقیقت سے اتنا دور کر دے گی کے میں اپنے ضمیر کی آواز، جو میرے تحتِ شعور میں محفوظ دینِ اسلام کی ترجمانی کرے گی، سننے سے قاصر ہوں گی ۔ میں چاہ کر بھی اس بات پر یقین نہیں کر پاؤں گی کہ میری زندگی میں آنے والی آزمائش اور ناکامیوں کی وجہ میرے والدین کی غلط تربیت اور غلط فیصلے ہیں ۔۔۔ ایک بار پھر میں ایسے دو راہے پر آ کر کھڑی ہو جاؤں گی جہاں خود کو ایک بار پھر بہت بے بس محسوس کروں گی ۔ میری پوری زندگی غلط تربیت اور غلط فیصلوں کی وجہ سے برباد ہو جائے گی۔ پتہ نہیں اُس لمحے میں خود کو سنبھال پاؤں گی بھی کے نہیں؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں پوری زندگی والدین کے بتائے ہوئے غلط راستوں پر بھٹکتے گزار دوں۔
    رب العزت! والدین یہ سمجھتے ہیں کہ شعور آنے کے بعد اولاد اپنے صحیح اور غلط اقدامات کی خود ذمہ دار ہے ، کسی حد تک تو ہم اولاد کو ذمہ دار کہہ سکتے ہیں، کیونکہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر حق کا راستہ اپنانا خود بندے کی ذمہ داری ہے، مگر اولاد کی بربادی کے زیادہ ذمہ دار والدین ہوتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو عیسائی، یہودی اور مُشرکین کی اولاد شعور کی عمر کو آتے ہی اللہ اور اُس کے رسول کے بتائے راستے پر چلنے لگتی اور اپنے والدین کا بتایا اور سیکھایا ہر سبق بھول جاتی ۔ والدین شاید یہ نہیں جانتے کہ غلط تربیت کے اثرات اتنے مہلک ہوتے ہیں کہ ان سے چھٹکارا حاصل کرتے کرتے کبھی ساری زندگی گزر جاتی ہے مگر چھٹکارا نہیں ملتا۔

    اے میرے مالک! میں جب اپنے سے پہلے دنیا میں جانے والی اولاد کا بُرا حال دیکھتی ہوں تو خواہش کرتی ہوں کہ یا تو آپ مجھے صرف اُن والدین کو نوازیں جو میری تربیت کرنے کے قابل ہوں یا آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا میں اولاد بن کر دنیا میں جانا چاہتی ہوں اور میرا جواب وہی ہو ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ نہیں کبھی نہیں

  • حضرت امیرمعاویہ : معاویہ آزاد

    حضرت امیرمعاویہ : معاویہ آزاد

    حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں ، آپ رضی تعالی عنہ کی بہن حضرت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ اور ام المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔

    آ پ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی، تاریخ اسلام کے روشن اوراق آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار و کارناموں اور فضائل ومناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔

    حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی قیامت کے دن معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس طرح اٹھائیں گے کہ ان پر نور ایمان کی چادر ہو گی”کنزالاعمال” ایک موقعہ پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قا ئم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا۔( جا مع ترمذی)

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ میری امت میں سب سے زیادہ بردبار اور سخی ہیں۔(تطہیرالجنان)۔ حضرت امیر معاویہ رضی تعالی عنہ سروقد ، لحیم وشحیم، رنگ گورا، چہرہ کتابی ،آنکھیں موٹی گھنی داڑھی، وضع قطع، چال ڈھال میں بظاہر شا ن وشوکت اورتمکنت مگر مزاج اور طبیعت میں زہد و تواضع، فرونتی، حلم برد باری اور چہرہ سے ذہانت اور فطانت مترشح تھی۔

    حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مبارکبا د دی اور ”مرحبا۔۔۔۔۔۔” فرمایا ”(البدایہ والنہایہ ص ٧١١ج٨)” حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے اس لئے انہیں خا ص قرب سے نوازا ۔ فتح مکہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔

    قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ”کتابت وحی” ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ ” کاتب وحی ” تھے ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کا تب وحی بنایا تھا۔۔۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا (ازالتہ الخفا ازشاہ ولی اللہ)

    حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط تحر یر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفرو خضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے۔

    چنانچہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں تشریف لے گئے تو سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پیچھے پیچھے گئے۔ راستہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وضو کی حاجت ہوئی پیچھے مڑ ے تو دیکھا، معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پانی لئے کھڑے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے متاثر ہوئے چنانچہ وضو کیلئے بیٹھے تو فرمانے لگے ” معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں کے ساتھ درگزر کرنا ”۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے امید ہو گئی تھی کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی صادق آئے گی۔

    حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی خدمت اور بے لوث محبت سے اتنا خوش تھے کہ بعض اہم خدمات آپ کے سپرد فرمادی تھیں ۔ علامہ اکبر نجیب آبادی” تاریخ اسلام” میں رقمطراز ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدرات اور ان کے قیام وطعام کا انتظام واہتمام بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر دیا تھا۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں آپ نے مانعین زکوة، منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سر انجام دیئے ۔

    عرب نقاد رضوی لکھتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ کسی کا خون بہانا پسند نہیں کرتے تھے مگر آپ اسلامی ہدایات کے مطابق مرتدین کے قتل و قتال میں کسی کے پیچھے نہ ہوتے ایک روایت کے مطابق مسلیمہ کذّاب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔

    خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں اس میں حضرت امیر معاویہ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے اس جنگ میں غرضیکہ آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔

    خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہاد وفتوحات میں مصروف رہے اور آپ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس ، الشام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ ، روڑس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کردئیے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے اس کو اب سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہئے ”فتح قبرص” کی خواہش آپ کے دل میں مچل رہی تھی یورپ وافریقہ پر حملہ اور فتح کیلئے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔

    بحرروم میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کیلئے بہت بڑا خطرہ تھا اسے فتح کیے بغیر شام ومصر کی حفاظت ممکن نہ تھی اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔

    حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہ نے بڑے جوش خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کردی اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کردیا جس کے جواب میں جزبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔

    28ہجری میں آپ پوری شان وشوکت تیاری وطاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ جس میں تقریباً پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے قبرص کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔

    اس لشکر کے امیروقائد خود امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے آپ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کیلئے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیم اجمعین جن میں حضرت ابو ایوب انصاری ، حضرت ابوذرغفاری، حضرت ابودردا، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت شداد بن اوس، سمیت دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین شریک ہوئے۔

    اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا، تجربہ کار رومی فوجوں اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بد ترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر میں جنگ کریگا۔

    پہلی بشارت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلی بحری لڑائی لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کر کے رومیوں کو زبردست شکست دی تھی اور دوسری بشارت سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں اس وقت پوری ہوئی جب لشکر اسلام نے قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کرکے اس کو فتح کیا۔

    اس جنگ میں حصہ لینے کیلئے شوق شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وتابعین دنیا کے گوشہ سے دمشق پہنچے، ان میں حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سیدنا حسین بن علی، اور میزبان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، اور دیگر مدینہ منورہ سے تشریف لاکر اس لشکر میں شریک ہوئے جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی تھی۔

    سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار دور حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلفائے راشد ین کے تر قیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اس مندرجہ ذیل نئے امور کی داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا۔

    1 ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
    2 ۔سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔
    3 ۔آبپاشی اور آبنوشی کیلئے دور اسلامی میں پہلی نہر کھدوائی۔
    4 ۔ ڈاکخانہ کی تنظیم نو کی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔
    5۔ احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
    6۔ آپ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے آپ نے پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
    7 ۔ خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔
    8 ۔ انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔
    9۔ آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔
    10 ۔ آپ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کئے۔
    11 ۔ سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
    12 ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔

    حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 163احادیث مروی ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آئینہ اخلا ق میں اخلاص ، علم وفضل، فقہ واجتہاد، تقریر وخطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی، مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، فیاضی وسخاوت، اور خوف الہٰی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔

    ان وصیتوں کے بعد 22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے۔
    رضي الله عنه وأرضاه