Author: ایڈمن

  • کشمیر کی اہمیت  اور ہم  : عبداللہ عالم زیب

    کشمیر کی اہمیت اور ہم : عبداللہ عالم زیب

    عبداللہ عالم زیب
    کچھ دن قبل تحریک جوانان ِپاکستان کے چیئرمین اور جناب جنرل حمید گل مرحوم کے فرزند ارجمند جناب عبد اللہ حمید گل صاحب سے مسئلہ کشمیر کی بابت گفت وشنید ہورہی تھی باتوں باتوں میں ،
    میں نے عبداللہ گل صاحب سے عرض کیا کہ روس جیسی سپر پاور کو ہم نے افغانستان سے مار بھگایا لیکن ستر سال ہونے کو ہیں ہم سے کشمیر کامسئلہ حل نہیں ہو پا رہا آخر وجہ کیا ہے ۔۔۔۔؟؟
    فرمانے لگے ؛ کہ سن 1962ءمیں جب جنرل ایوب خان نے چین کا دورہ کیا تو اس وقت ان سے چینی حکام نے کہا کہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ کشمیر آپ کے لیئے کتنا اہم ہے ۔۔ ؟
    اس کی آزادی میں ہم اپ کا بھر پور ساتھ دیں گے تو صدر صاحب کہنے لگے کہ میں سوچ کر بتادوں گا کہ کشمیر ہمارے لیئے کتنا اہمیت رکھتا ہے ۔۔ پاکستان آمد کے بعد ان کی طرف سے کوئی جواب نہ مل سکا ۔
    اسی طرح محترمہ بینظیر صاحبہ جب وزیر اعظم تھی تو انہوں نے کشمیر کے ایشو پر ایک اجلاس کا اہتمام کیا اجلاس میں جنرل حمید گل صاحب مرحوم سے ان کی رائے پوچھی گئی تو جنرل صاحب نے بی بی مرحومہ سے وہی سوال دہرایا کہ : بی بی یہ بتایا جائے کہ کشمیر آپ کے لیئے کتنا اہم ہے ۔۔۔؟؟تو بی بی نے کہا کہ جنرل صاحب کشمیر ہمارے لیئے اہم ہے لیکن اسلام آباد ہمارے لیئے کشمیر سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔
    ساتھ بیٹھے نوجوان تجزیہ نگار جناب شعیب مغل صاحب سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی پالیسی کے حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے ایک بڑی ہی پیاری مثال سے بات سمجھائی ۔
    کہنے لگے کہ اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی پالیسی بندر بانٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ، جس طرح بندر ایک روٹی پر دوبلیوں کے بیچ فیصلہ کرتے کرتے ساری روٹی خود کھا گیا ، بعینہ اسی طرح اقوام متحدہ بھی مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت تنازعہ میں بندر بانٹ سے کام لے رہی ہے ،
    قارئین کرام : بدقسمتی سے زمین کے بعض خطے یا خطوں میں آباد بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر دوسرے ممالک کا سیاسی دارومدار ہوتا ہے ، ان خطوں یا ان لوگوں کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر یا ان کو حق آزدی دلانے کا نعرہ لگا کر وہ معاشرے کی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور جب معاشرے کی ہمدردی حاصل ہوجائے تو ان کی سیاست کو چار چاند لگ جاتے ہیں ، بات کو مزید واضح کرنے کی خاطر عرض کرتا چلوں کہ مسئلہ کشمیر پر شاید ہم نے سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا گوارا نہیں کیا ، اس لیے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اباء واجداد بھی یہی سنتے سنتے دنیا سے چلے گئے کہ : مسئلہ کشمیر ، مسئلہ کشمیر ۔ ۔ ۔ ۔
    اب ہم بھی یہ بات سن سن کر مانوس ہوگئے ہیں اسی لیئے تو کبھی بھی اس کے بارے میں جاننے ، اس مسئلے کو سمجھنے یا اسے حل کرنے کے بارے میں ہم نےسوچنے ، یا اسے حل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔
    لیکن اگر ہم انصاف کو مد نظر رکھ کر اس مسئلے کا جائزہ لیں تو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ اس کا حل ہمیں ناممکن دیکھائی دے رہا ہے ۔
    کشمیری عوام کی آزادی کے لیئے جد وجہد بلا شبہ قربانیوں کی ایک لمبی داستان ہے ، لیکن ہمار ا بھی تو کوئی فرض بنتا ہے نا ۔۔۔۔؟
    میرے خیال میں ہم اس لیے اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں کہ شاید کشمیر کا مسئلہ حل کر کے ہمیں دنیا کی ہمدردی ( جو ہم کشمیر کے نام پر حاصل کر رہے ہیں ) سے محرومی کا خوف ہے ۔
    یا شاید اس مسئلے کے حل سے پاکستان وہندوستان کی سیاست پر برا اثر پڑنے کا خدشہ ہے ۔۔۔۔
    یا شاید ہمیں کشمیر کی اہمیت کا اب تک صحیح اندازہ نہیں ، صرف نعرو ں کی حد تک ہے کہ : کشمیر بنے گا پاکستان، پاکستان سے رشتہ کیا ؟؟ لا الہ لا اللہ محمد رسول اللہ
    یا صرف اتنا ہم کہتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ ،، ۔ کشمیر پاکستان کا بازو ہے
    تعجب تو یہ ہے کہ ہماری شہ رگ کسی اور کے پاس ہے اور ہم زندہ بھی ہیں ، ہمارا بازو کٹا ہوا ہم سے الگ ہے اور ہم خود کو مکمل تصور بھی کرتے ہیں ، ، ،
    اسی لیے تو آ ج تک ہمارے حکمرانوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کشمیر ہمارے لیئے کتنی اہمیت رکھتا ہے ،
    مجھے تو یہی سمجھ آرہاہے کہ یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہمیں کشمیر میں آئے روز شہادتوں پر کوئی سروکار نہیں ، اس لیئے تو آج تک ہم نے اس مسئلے کو مسئلہ ہی رہنے دیا ۔
    یہ اور بات ہے کہ کشمیر جل رہا ہے ، ماؤں ، بہنوں کی عصمت لوٹی جارہی ہے ، نوجوان شہید ہورہے ہیں ، بہت سارے معذور ہورہے ہیں ، انڈین آرمی ظلم کی ہر حد سے تجاوز کر رہی ہے ۔۔۔۔
    یہ اور بات ہے کہ بارود برستے ہوئے بھی وہ پاکستان کا جھنڈا ہاتھ سے گرنے نہیں دیتے ۔ ۔ ۔ ۔
    یہ اور بات ہے کہ جب بھی ان کا احتجاج ہوتا ہے یا وہ کوئی ریلی نکالتے ہیں تو وہ صرف ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان ۔۔۔۔۔۔
    یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے شہیدوں کو پاک پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کرتے ہیں ، ، ، ، ،
    یہ اور بات ہے کہ وہ ہم سے ڈھیر ساری امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    اور ہم ہیں کہ ہمیں آج تک کشمیر کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہورہا ہے ۔
    شاید ہمارے گھر محفوظ ہیں اس لیئے ہمیں کشمیریوں کے گھر جلنے کا کچھ احساس نہیں ،
    سب کے گھر جلنے کا کچھ تو مجھے غم ہو محسوس ۔ ۔ ۔۔ میرے گھر کو بھی ذرا آگ لگا دی جائے

  • کنوارگی کے فوائد و نقصانات پہ زریاب اور فیصل کے درمیان مکالمہ . فیصل اقبال گوپےراء

    کنوارگی کے فوائد و نقصانات پہ زریاب اور فیصل کے درمیان مکالمہ . فیصل اقبال گوپےراء

     فیصل اقبال گوپےراءزریاب شادی شدہ ھے اور کنوارگی کے فوائد گنواتا ھے جبکہ فیصل کنوارھے اور ان فوائد کا انکار کرتا ھے
    زریاب : فی زمانہ جو کنوارہ ہے وہ زندگی کی تمام رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کا حق رکھتا ہے
    فیصل:جی بالکل ، انسان اگر حرام حلال کی تمیز بھول جائے تو اس چند روزہ زندگی میں لطف ہی لطف ۔ان رعنائیوں کی ویسے ذرا ‘تفصیل’ ھوجاتی تو ھمیں تعاقب کرنے میں آسانی ھوتی !
    زریاب: کنوارہ کسی بھی شادی میں سلامی دینے کا مستحق نہیں ہوتا
    فیصل : کہاں رھتے ھو بھائی ۔یہاں ھم نے سلامی جیسی فضول رسم کا بائیکاٹ کیا ھے تو باوجود کنوارہ ھونے کے لوگ لٹھ لے کر پیچھے پڑے ھیں ھمارے 🙁
    زریاب : کنوارے کا کوئی سُسرال نہیں ہوتا
    فیصل : یہ فائدہ ھے یا نقصان ویسے ؟ دیکھا گیا ھے کہ جو عزت سسرال میں ملتی ھے اسکے کیا کہنے ۔اس پروٹوکول سے محروم ھونے کی خواھش کفران نعمت ھے ویسے بی ٹی ڈبلیو.
    زریاب : کنوارے کے دونوں تکیے اس کی اپنی ملکیت ہوتے ہیں.
    فیصل : اخیر ھوگئی بھائی ۔چار پیسے خرچ کے دو تکیے اور لے آو۔ویسے ایک دوشیزہ پہ آپ تکیے کو ترجیح دیتے ھیں۔اس سے آپ کے ذوق کا اندازہ کیا جاسکتا
    زریاب :کنوارے کو کبھی تنخواہ کا حساب نہیں دینا پڑتا
    فیصل : حساب تو ویسے بھی نہیں دینا پڑتا۔بندہ اگر سلسلہ زن مریدیہ سے وابسطہ ھو تو اور بات ھے
    زریاب :کنوارے کو دوستوں میں بیٹھے ہوئے کبھی فون نہیں آتا کہ ’’آتے ہوئے چھ انڈے
    اور ڈبل روٹی لیتے آئیے گا‘‘۔
    فیصل :لگتا ھے جناب کی ماں بہن نہیں ورنہ بیوی کو تو پھر بھی انسان ٹال سکتا ھے ۔ماں کے ایسےحکم جو دن رات آتے ھیں انکو اگنور کرنا ناممکن ھے !
    زریاب :کنوارے کو کبھی دوپٹہ رنگوانے نہیں جانا پڑتا
    فیصل : خدا گواہ ھے کہ جتنے ڈوپٹے میں نے کنوارگی میں رنگوا چھوڑےھیں آپ نے اس سے آدھے بھی نہیں رنگوائے ھوں گے ۔اماں جی کے ،بہن جی کے
    زریاب :
    کنوارے کا کوئی سالا نہیں ہوتا لہذا اُس کی موٹر سائیکل میں پٹرول ہمیشہ پورا رہتا ہے
    فیصل :دوست تو ھوتے ھیں نا اور وہ زیادہ کمینے ھوتے ھیں ۔۔سالا تو پھر رشتے کا لحاظ رکھ لیتا ھے
    زریاب :کنوارے کو کبھی روٹیاں لینے کے لیے تندور کے چکر نہیں لگانے پڑتے
    فیصل :ھاں ھاں ماں باپ بہن بھائیوں کو تو بھوک ہی نہیں لگتی نا !!
    زریاب :کنوارے کو کبھی فکر نہیں ہوتی کہ کوئی اُس کا چینل تبدیل کرکے ’’میرا سلطان‘‘ لگا دے گا‘
    فیصل : پی ٹی سی ایل سمارٹ ٹی وی کی ایپ کررکھی ھے ھم شادی سے قبل ہی۔یہ کوئی اشو نہیں
    زریاب :کنوارے کو کبھی کہیں جانے سے پہلے اجازت نہیں لینی پڑتی
    فیصل : ماں جی سے لینی پڑتی ھے اور میرا گمان ھے کہ اگر سلسلہ زن مریدیہ والوں سےبیعت نہ کی تو شاید شادی کےبعد کسی سے بھی نہ لینی پڑے ، وہ اللہ رکھی ماں جی کو ھینڈل کرلیا کرے گی
    زریاب :کنوارے کو کبھی اپنے موبائل میں خواتین کے نمبرزمردانہ ناموں سے save نہیں کرنے پڑتے.
    فیصل : یہ تو کنوارے کو بھی نہیں کرنے چاھیئے.کسی سے غیر شرعی رشتہ نہیں رکھنا چاھیئے.اگر کوئی شرعی حاجت ھو تو اور بات ھے
    زریاب :کنوارے کو کبھی کپڑوں کی الماری میں سے اپنی شرٹ نہیں ڈھونڈنی پڑتی
    فیصل : واحد فائدہ ابھی تک یہی نظر آیا۔ لیکن یہ فائدہ اتنا بھی بڑا نہیں کہ شادی ہی نہ کی جائے ۔ ذرا سی قسمت اچھی ھوئی تو وہ کپڑے ڈھونڈ کر ریڈی بھی کردیا کرے گی
    زریاب :کنوارے کو کبھی ٹوتھ پیسٹ کا ڈھکن بند نہ کرنے کا طعنہ نہیں سننا پڑتا
    فیصل :چیزوں کو سلیقے سے رکھنا اچھی عادت ھے اسکا شادی سے تعلق نہیں
    زریاب :اسے کبھی دیگچی کو ہینڈل نہیں لگوانے جانا پڑتا
    فیصل :لگتا ھے شادی سے پہلے آپ قبرستان رھتے رھے ھو۔کچن کے چھوٹے موٹے کام تو ازل سے ھیں
    زریاب : کنوارے کو کبھی اپنے براؤزر کی ہسٹری ڈیلیٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی
    فیصل :ایسی ضرورت کبھی بھی نہیں ھونی چاھیئے۔ظاہری اور چھپے ھوئے دونوں گناہ چھوڑ دینے چاھیئں
    زریاب : کنوارے کو کبھی کسی کو منانا نہیں پڑتا
    فیصل : پیار میں اتنا تو چلتا ھے پھر
    زریاب :اسے کبھی کمرے سے باہر جاکے سگریٹ نہیں پڑتا‘
    فیصل :سگرٹ ویسے بھی مضر صحت ھے
    زریاب :کنوارے کو کبھی چھت کے پنکھے صاف نہیں کرنے پڑتے
    فیصل : کرنے پڑتے ھیں بھائی اگر گندگی میں رھنے کا شوق نہیں ھے تو
    زریاب : کنوارے کو کبھی ’’پھول جھاڑو‘‘ خریدنے کی اذیت سے نہیں گذرنا پڑتا‘
    فیصل : ہر ماہ خریدتا ھوں۔شادی سے پہلے بھی گھر کو صاف ستھرا رکھنا چاھیئے
    زریاب :کنوارے کو کبھی پیمپرزنہیں خریدنے پڑتے
    فیصل :بھانجے بھانجیوں بھتجے بھتیجوں کے اکثر خریدتا رھتا ھوں جی
    زریاب : کنوارے کوکبھی الاسٹک نہیں خریدنا پڑتا‘
    فیصل :میں خود بھی الاسٹک پہنتا ھوں(شرماتے ھوئے)
    زریاب : کنوارے کو کبھی سالگرہ کی تاریخ یاد نہیں رکھنی پڑتی‘
    فیصل : سالگرہ ویسے بھی میں نہیں مناتا۔شجرہ سلف سے پیوستہ 🙂
    زریاب : کنوارے کو کبھی دال ماش اور کالے ماش میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی
    فیصل :ہرماہ آتی ھے بھائی گھر کی گروسری کرتے ھوئے
    زریاب : کنوارے کو کبھی نیل پالش ریموور نہیں خریدنا پڑتا‘
    فیصل : بارھا خریدا ھے بھئی
    زریاب : کنوارے کو کبھی گھر آنے سے پہلے موبائل کے سارے میسجز ڈیلیٹ کرنے کی فکر نہیں ہوتی
    فیصل : ایسے الٹے میسجز کرتے کیوں ھو ویسے ؟
    ‘۔?
    اگلی قسط کے لیئے فیصل کی شادی کا انتظار کیجیئے

  • ایک شام کشمیر کے نام – سید ثمر احمد

    ایک شام کشمیر کے نام – سید ثمر احمد

    img_20161022_1901341 ’تم حرمِ کعبہ میں دعا کرنا کہ خدا میرے بیٹے کو شہادت عطا فرمائے اور پورا ہندوستان اس کے باعث ہِل کے رہ جائے‘، مظفر وانی حج پہ جانے والی اپنی عزیزہ سے درخواست کر رہے تھے۔ برہان مظفر وانی کی شہادت نے فی الواقع پورے ہندوستان کو ہلا ڈالا ہے۔ تحریکِ انتفاضہ میں جتنی جان اب ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہندوستان Humanitarian Disaster کی طرف بڑھ رہا تھا ، جس وجہ سے عالمی پریشر نے جنم لیا اور انڈیا کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔ جنازہ مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں سب سے بڑا تھا۔ قریباََ 85لاکھ کی آبادی والے کشمیر میں 10 12لاکھ کشمیری نمازِ جنازہ میں ہر رکاوٹ اور کرفیو کے باوجود موجود تھے۔ لاہور چیمبر آف کامرس کے خنک کمرے کے باہر 22 اکتوبر کی اداس شام گہری ہو رہی تھی۔ مرتضیٰ شبلی مرصّع، مسجع اردو اور خالص انگلش لہجے میں روانی اور تہذیب سے لڑیوں میں حقائق کے تلخی پِرو رہے تھے، کہیں کہیں پرکشش فارسی انداز میں مولائے روم اور اقبال کے شعر بھی پڑھتے جاتے۔

    آج اس انتفاضہ کو 106 دن ہو چکے ہیں۔ 110 لوگ کم ازکم نشانہ بن چکے ہیں۔ 50%افراد وہ جو راہ چلتے؍ گھروں میں شہید ہوئے ہیں۔جس طرح اسرائیل اندھا کرنے کے لیے گنز کا استعمال کرتا ہے اسی طرح انڈیا نے بھی سفّا کانہ اندازمیں اب تک تقریباََ 1500افراد کو جزوی یا مکمل طور پہ نابینا بنادیا ہے۔ 15000سے زائد افراد زخمی ہیں جن میں سے 1500کے قریب Life changing inguriesکا شکار ہو بن چکے ہیں۔ 15000سے زائد گرفتا ر ہیں اور 500افراد سے زیادہ بدنامِ زمانہ Public safty act کے تحت بغیر وجہ بتائے ، پرچہ کاٹے جانوروں کی طرح جیلوں میں ٹھونس دیے گئے ہیں۔ 2000سے زائد عوامی ریلیاں جن میں مظاہرین کی تعداد 20000 سے 200000 تک رہی اب تک نکالی جا چکی ہیں۔ خود ہمارے گھر تین بار حملہ ہوچکا ہے ۔ میرے والدین کشمیر میں نامعلوم مقام پر بھاگ چکے ہیں۔ مرتضٰی بتا رہے تھے اور ہم ادب کی چاشنی میں گھلے سنگین حقائق کو حلق سے اتارنے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔ سلسلہئِ کلام جاری تھا…

    یہ جان لینا چاہیے کہ موجودہ تحریک میں حرّیت کانفرنس کا کوئی کردار نہیں اور یہ اب نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جنہیں نمازیں پڑھنے سے بھی روکا گیا۔ اس انتفاضہ میں پاکستان کا بھی کوئی کردار نہیں۔ تین ہفتے کی زبردست مزاحمت اور بڑے پیمانے پہ شہادتوں کے باعث عالمی برادری کی خاموشی ٹوٹی۔پھر اْڑی حملہ ہوگیا اور پاکستان بھارت میں براہِ راست ٹکرائو شروع ہوگیا۔ کشمیر میں اکثر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب خود بھارت کا رچایا گیا ڈرامہ تھا، اس کی مختلف یقینی وجوہات بھی ہیں جیسے:
    ٭ایسا ہونا خود انڈیا کے لیے بین الاقوامی طور پہ حمایت لینے اور توجہ ہٹانے کے لیے فائدہ مند ہے
    ٭بِل کلنٹن کی 1996/97میںانڈیا آمد کے وقت بھی سکھوں پہ حملے شروع کردیے گئے تھے اور الزام پاکستان پر لگا دیا گیا تھا
    ٭انڈیا پچھلے 30سالوں میں دودرجن کے قریب اس طرح کے اسٹیج سجاتا رہا ہے جن کے راز بعد میں طشت ازبام ہوتے رہے ہیں
    ٭سمجھوتہ ایکسپریس کا سازشی سانحہ بھی اسی سلسلے کی سیاہ کڑی تھی
    ٭اْڑی ایک گیریژن سٹی ہے جہاں ہر ایک کشمیری کے مقابلے میں 5فوجی موجود ہیں۔ ایک ایسے شہر میں یہ ہونا بھی عجیب ہے
    سمجھ لینا چاہیے کہ انڈیا اس تمام عمل سے تین طرح کے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے…ورلڈ کمیونٹی کو بلیک میل کرنا…پاکستان کو ڈرانا…رائے عامہ کو گمراہ کرنا۔ امریکہ کے پاکستان ڈیسک کا انچارج بھی ایک انڈین ہے……ہال میں بسکٹ اور سینڈوچز تقسیم کیے جارہے تھے۔ حاضرین ہمہ تن گوش تھے۔شبلی پانی پینے کے بعد پھر گویا ہوئے…

    ہم مایوسی کا شکار ہوچکے تھے۔ ہرطرف مایوسی ہی دِکھتی تھی۔ پاکستان سے بھی امیدیں ختم ہوچلی تھیں۔ہندوستان میں ایک مستحکم بیانیہ موجود ہے کہ اصل مسئلہ پاکستان ہے۔ اگر وہ خرابی پیدا نہ کرے تو کشمیر کوئی پرابلم ہی نہیں… لیکن امیدوں کے دیے اچانک روشن ہوگئے ہیں۔ کشمیر میں 38000کے قریب عسکری تھے جن میں سے 18000نے سرنڈر کر دیا۔ 2010ء تک مشرف دور میں پالیسی شفٹ کے نتیجے میں انڈین انٹیلی جنس کے ذرائع کے مطابق عسکریوں کی تعداد قریب قریب ختم ہو چکی تھی۔ گو عوامی حمایت بڑے پیمانے پہ موجود تھی۔یہ لوگ مجاہدین کو پناہ مہیا کرتے، ان کے خرچے اٹھاتے۔ مجاہدین کے جنازوں میں 70000 تک مجمع پہنچ جاتا۔وہاں پاکستان، حزب المجاہدین اور لشکرِ طیبہ کے نعرے لگتے ہیں۔ اس وقت کشمیر میں سب قیادت یکسو نظر آتی ہے۔

    یہ تاثر خود بھارت میں مضبوط ہوتا چلا جارہا ہے کہ انڈین آرمی اس مسئلے کو حل نہیں ہونے دیتی۔ مختلف وجوہات میں یہ بھی شامل ہیںکہ مقبوضہ وادی میں بھیجے گئے فوجیوں کو تنخواہیں اور مراعات زیادہ ملتی ہیں۔ایک عام فوجی کی تنخواہ 22000ہے لیکن وادی میں بھیجے جانے کی صورت میں 26000۔ اس کے علاوہ بھارتی فوج کمبل سے لے کے چھوٹی چیزوں تک وادی سے چراتی ہے۔ جنرل مشرف نے وادی کی Demilitrizationکی بات کی تو اسے فوراََ رد کردیا گیا…چائے سَرو ہوئی تو سردی کا احساس کچھ کم ہوگیا۔ نرم لہجے کے مالک مرتضٰی شبلی کی دھیمے لہجے میں آگ گفتگو آگے بڑھی…

    پاکستان کی واضح حمایت سے جدوجہدِ آزادی کو پشت پناہی کو دلاسا حاصل ہوا ہے۔ نوازشریف ان دنوں ہمارے ہاں بہت مقبول ہیں۔ جس دن پاکستان کی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس اور اسمبلی سیشن تھا لوگ گھروں میں ٹیلی ویژن سکرین کے آگے بیٹھے رہے۔ جنرل راحیل شریف کا خطاب بھرپور شوق سے سنا گیا۔ بگڑتی صورتحال کے باعث وادی بھر میں فوراََ ریاست کی طرف سے پاکستانی چینلز پر پابندی عائد کردی گئی۔ حالات بالکل بدل گئے ہیں۔ لوگ شہید ہوتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں پر خوف ان کے چہروں کے ساتھ دلوں سے بھی ختم ہو گیا ہے۔ وہ آگے بڑھتے ہیں ، گرتے ہیں، پھر اٹھتے ہیں۔ اب لوگ سرِعام پاکستانی جھنڈے اٹھائے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ہم بچپن سے یہ جھنڈے دیکھتے آئے ہیں لیکن اب یہ Love affairاوپن ہوگیا ہے۔ہم نے نعرے سنے ہیں…’بھوکا ننگا ہندوستان۔ جان سے پیارا پاکستان‘۔ اس تحریک نے شہری علاقوں کے ساتھ دیہاتوں میں بھی جڑیں پکڑ لی ہیں۔اتنے بڑے پیمانے کے موومنٹ کو دیکھتے ہوئے فاروق عبداللہ نے جون میں کہا تھا کہ کشمیری تو پاکستان ہیں…سوالوں کا لمبا سلسلہ شرکا کی موضوع سے وابستگی کا پتہ دے رہا تھا۔ پانی کا گھونٹ بھرا اورجواب شروع ہوئے…

    ہم سمجھتے ہیں آزاد کشمیر حکومت بہرحال بہتر ہے۔ یہاں کوئی سڑکوں پہ قتل تو نہیں ہوتانا؟ کوئی خواتین کو اٹھا کے تو نہیں لے جاتا۔ کرپشن ہوگی مگر تشدد تو نہیں۔ فوج کی اتنی بڑی تعداد اور پھر اس کی بدمعاشی تو قائم نہیں۔راج ناتھ کسی ریاست کے اندرونی معاملات میں بیان جاری نہیں کرسکتا لیکن کشمیر پر کھل کے بولتا ہے۔

    ہم پاکستانی میڈیا کے کردار سے مطمئن نہیں۔ آپ صرف اتنا کردیں کہ کشمیر کو ایک پروفیشنل ایشو کے طور پہ لے لیں۔ کیا اس میں خبریت کے تمام تقاضے پائے نہیں جاتے؟میڈیا صرف اپنی پروفیشنل ذمہ داریاں پوری کرے ۔ انڈیا ایک بڑی طاقت ہے ، اس کے بارے میں معلوماتی رپورٹنگ کریں جذباتی نہیں۔ یہی رپورٹنگ کارآمد ہوسکتی ہے۔ اس اہم نشست کے اختتامی مراحل شروع ہوچکے تھے…

    مضبوط پاکستان ہی ہمارے لیے خواہش اور دلچسپی کا باعث ہے۔ دریائے نیل کا منبع ایتھوپیا میں ہے۔ وہ کمزور ملک تھا۔ ڈیم بنانا چاہا تو مصر نے جہازوں کے ذریعے اس پہ بم برسائے اور ڈیم کی تعمیر آگے نہ بڑھنے دی…ملّا زناوی وہاں کے لیڈر تھے۔ انہوں نے ملک کو مستحکم کیا ۔ آج ایتھوپیا ڈیم بنا رہا ہے اور مصر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس لیے مضبوط پاکستان ہی امید کی علامت ہے

    یونیفائیڈ میڈیا کلب کی طرف سے منعقدہ ’کشمیر انتفاضہ‘ ورکشاپ ختم ہوچکی تھی۔ کرنے کو بہت کچھ صحافیوں کے لیے چھوڑ گئی تھی۔ فرسٹ ہینڈ نالج اور لائن آف ایکشن ۔ کوئی چاہے تو پروفیشن سمجھ لے چاہے تو ذمہ داری،ذات کی ترقی جان لے یا پاکستان کی ناگزیر تکمیل ، جاب کا تقاضا سمجھ لے یا امت کا قرض ۔پر یہ پڑھے لکھے صحافی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ذہن بدل سکتے ہیں۔ سوچنے کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ گر کوئی کرنا چاہے۔
    روایتیں کچھ چلا چلے ہم
    تم ان کو آگے بڑھائے رکھنا

  • شریعت مطہرہ ٬ آخری نصاب : ﺫیشان علی

    شریعت مطہرہ ٬ آخری نصاب : ﺫیشان علی

    ذیشان علی
    ادھر آؤ عمیر بیٹا٬ آج کیا پڑھ کر آیا ہے میرا شہزادہ؟؟ صحن میں بیٹھے یوسف صاحب اپنے پوتے سے مخاطب ہوئے۔ننھےعمیر نے صبح ٩ سے١ بجے تک کی ساری داستان سنائی٬جس میں گُڈمورننگ ٹیچر سے گُڈبائےٹیچر تک شامل تھا ۔لمحہ بھر میں عمیر کی اپنے دادا سے گفتگو مکمل ہوئی تو عمیر اپنی دادی جان کے پاس چلاگیا۔

    یوسف صاحب نے دامن کا ایک سرا پکڑا اور اپنی عینک صاف کرنے لگا٬ اسی اثناء مجھے یوسف صاحب کی کہی ایک پرانی بات یاد آئی٬من میں آیا اسی سے متعلق بات ہوجائے شاید یہی بہتر موقع تھا۔

    یوسف صاحب؟؟ جی بیٹا بولو٬ جی وہ آپ کہا کرتے تھے کہ میں اپنے گھرانے کے کسی بھی فرد کو او لیول یا کیمبرج اسکول سسٹم کا نصاب نہیں پڑھواؤنگا٬لیکن عمیر..!!!

    یوسف صاحب کے ماتھے پر جھریوں کے نشان ابھر آئے اور ترچھی نظروں سے مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگے٬ (جیسے میں نے ان سے یہ پوچھ بیٹھا کہ واقعی جمعے کہ نماز فرض ہے کہ نہیں..؟؟ ) خیر یہ انکا سایک الگ مسئلہ ہے چھوڑیے اسے، پھر اچانک انکے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور کہنے لگے٬ بیٹا وہ پرانا نصاب تھا زمانہِ قدیم سے تعلق تھا اسکا٬ یہ الگ دور ہے٬ اس دور کیلئے یہی نصاب بہتر ہے٬ تاکہ زمانہ کے مطابق سوچ سکے اور آگے بڑھ سکے۔

    یوسف صاحب نے جیسے ہی سانس لی میں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے انکی بات کاٹی اور ان سے مخاطب ہوا کہ آپ بلکل ٹھیک کہ رہے ہیں جناب٬میں بھی یہی کہتا ہوں کہ ہر دور کا الگ نصاب ہوتا ہے٬جو اس پر نہیں چلےگا اسے ان گنت پریشانیوں سمیت کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑیگا۔

    حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آج تک تقریبا ً٣١٣ رسول آئے٬ ہر ایک پر مکمل کتاب یا صحیفے نازل ہوئے اگر کسی نے اس نصاب سے روگردانی کی ہے تو وہ کافراور مرتد ہی کہلایا ہے٬ ساتھ ہی ناکامی اور پشیمانی ان کا مقدر ہوئی ہے-

    چونکہ حضرت محمد مصطفیؐ اللہ پاک کے آخری نبی ہیں انکے بعد کوئی نہیں آنے والا٬ انکی لائی ہوئی تعلیمات جوکہ اٹل اور آخری نصاب ہے اسی کے مطابق ہمیں تیاری کرنی ہے اور آخرت کے امتحان میں کامیاب اور سُرخرو ہونا ہے٬ لہذا اسی پر عمل کیا جائے گا٬ا ب اگر کوئی کہتا ہے کہ میں یہ نہیں مانتا یامیں الگ نصاب کی پیروی کرونگا تو مطلب وہ تکفیر کر رہا ہے، لہذا ایسے شخص کو کافر کہنے میں مجھے کوئی حرج نہیں-

  • اسلام اور پسند کی شادی : فرہاد علی

    اسلام اور پسند کی شادی : فرہاد علی

    مشہور قصہ ہے کہ کسی گاوں میں چار دوست رہتے تھے مگر سب کے سب اندھے تھے ۔ انہوں نے
    کبھی ہاتھی نہیں دیکھا تھا ایک دن انہوں نے شہر جا کر چڑیا گھر میں ہاتھی دیکھنے کا
    پروگرام بنایا ۔ چڑیا گھر جا کر ہاتھی کے قریب گئے ۔ چونکہ دیکھ نہیں سکتے تھے اس لئے
    ٹھٹول ٹھٹول کر ہاتھی کا جائزہ لینے لگے ۔ ہر ایک ہاتھی کے مختلف حصوں پر ہاتھ پھیرنے
    لگا ۔ ایک نے ہاتھی کے پیر چھو کر اعلان کیا کہ یہ تو ستون کی طرح ہے ۔ دوسرے نے سونڈ
    ہاتھ میں لے کر کہا کہ یہ تو اژدہے کی طرح کا جانور ہے ۔ تیسرے کے ہاتھ دم آئی تو وہ اس
    کو رسی جیسا سمجھنے لگا جبکہ چوتھا اس کے کان کو چھو کر اس کو ہاتھ کے پنکھے جیسا ثابت
    کرنے لگا ۔

    ظاہر ہے ان میں سے ہر ایک کا اندازہ غلط تھا کیونکہ ہاتھی کا ہر حصہ ان کی نظروں کے
    سامنے نہیں تھا ۔ یہی حال ہم نے آج اسلام کا بنا رکھا ہے کسی کو اس صرف خلافت نظر آتی
    ہے تو کسی کو صرف جمہوریت ، کوئی اس کو صرف اخلاقیات کا دین سمجھ رہا ہے تو کوئی صرف
    مسجد تک محدود کرنے پر مصر ہے ۔ غرض جس کو اسلام کا جو پہلو راس آتا ہے اس کو لے کر
    بیٹھ جاتا ہے اور دوسرے پر طنز و تشنیع اور گالم گلوچ کی گولہ باری شروع کردیتا ہے ۔

    یہی طرزِ عمل پسند کی شادی کے معاملہ میں اختیار کیا گیا ہے ۔ جن حضرات کو عالمی میڈیا
    کے زیر اثر اسلام کا صرف یہ پہلو پسند آیا کہ اسلام پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے
    انہوں نے باقی تمام پہلووں اور اسلام کے معاشرتی احکام و مزاج اور معاشرے پر اس کے
    اثرات کو یکسر نظر انداز کردیا ۔

        اسلام کے ہر حکم میں معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کا خصوصی طور پر خیال رکھا
    

    جاتا ہے چنانچہ حدیث کی تمام مشہور کتابوں میں یہ واقعہ منقول ہے کہ مشرکین نے جب خانہ
    کعبہ کو ازسرنو تعمیر کیا تو انہوں نے آپس میں یہ عہد وپیمان کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر
    میں حرام پیسہ نہیں لگائیں گے چنانچہ حلال کی کمائی ختم ہوگئی اور ایک حصہ باقی رہ گیا
    جس کو خانہ کعبہ کے چوکور کمرے کے باہر چھوڑ دیا گیا ۔ اس کے ارد گرد چھوٹی سی دیوار
    کھینچی گئی اور اس کو ہم حطیم کہتے ہیں جو کہ خانہ کعبہ کا حصہ ہے مگر عمارت سے باہر ہے
    ۔ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ میرا دل
    کرتا ہے کہ خانہ کعبہ کو ان بنیادوں پر تعمیر کروں جن پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
    تعمیر کیا تھا (حطیم کو تعمیر میں شامل کرنے کی طرف اشارہ تھا ) لیکن تمہاری قوم کا نیا
    ایمان اس ارادہ کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ ہے ۔

    حضور ﷺ خود موجود ہیں ۔ جان نچھاور کرنے والے صحابہ کرام ایک اشارہ آبرو کے منتظر ہوتے
    ہیں ۔ حضور ﷺ کے عمل پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا مگر پھر بھی ضعیف الایمان لوگوں
    کا خاص خیال رکھا گیا ۔ اس لمحے حضورﷺ نے اپنی دیرینہ خواہش کو معاشرے کی رعایت پر
    قربان کردیا ۔

    اب پسند کی شادی کا معاملہ لیجئے اس معاملہ میں ہمارے دور کے حضرات حدیث سے مثالیں پیش
    کرتے ہیں لیکن یہاں وہ صرف ان احادیث کو دیکھتے ہیں اسلام کے عمومی مزاج کو پس پشت ڈال
    دیتے ہیں اگر صرف ان احادیث کو لے کر پسند کی شادی کو ثابت کریں گے تو یہ حضرات ان
    احادیث کے بارے میں کیا کہیں گے جو ولی کے اختیار کے بارے میں ہیں ؟ انہیں احادیث کی
    روشنی میں بعض ائمہ کرام تو ولی کے بغیر نکاح کے انعقاد ہی کے قائل نہیں ہیں ۔چونکہ
    لڑکی کے اولیاء نے اسی معاشرے میں اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے اسی لئے ان کی رعایت کا خاص
    اہتمام کیا گیا ہے تاکہ نادان اور نسبتا کم تجربہ رکھنے والی جذباتی لڑکی کی وجہ سے یہ
    لوگ معاشرے میں رسوا نہ ہوں ۔ اس لئے اسلام نے بالغ لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ان کے اولیاء
    کو ظلم سے بچایا ہے ۔آخر ایسا کیوں فرض کیا گیا ہے کہ ہر لڑکی کا فیصلہ صحیح اور اس کے
    اولیاء کا فیصلہ غلط ہوتا ہے ۔

    جب اولیاء کو نظر انداز کرکے کوئی لڑکی شادی کرے گی اور آپ اس کی حوصلہ افزائی کریں گے
    تو اس سے معاشرے پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ شادیاں عموما ناکام ہوتی ہیں
    کیونکہ جذباتی جوڑے کے درمیان لڑائی جھگڑے کی صورت میں صلح صفائی کرنے والا کوئی نہیں
    ہوتا ۔ اگر لڑکا ظالم ہو یا اس کے گھر کے افراد لڑکی کو بےجا تنگ کر رہے ہوں تو ان پر
    لڑکی کے اولیاء کی طرف کوئی دباو نہیں ہوتا چنانچہ لڑکی خاموشی سے ظلم سہتی رہتی ہے نیز
    ہمارے معاشرے میں عام طور پر ایسی لڑکی کو وہ عزت نہیں ملتی جو والدین کی مرضی سے شادی
    کرنے والی لڑکی کو ملتی ہے ۔ علاوہ ازیں ایسی صورتوں میں بات غیرت کے نام پر قتل تک
    پہنچ جاتی ہے ۔ اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو ان تمام خرابیوں کی جڑ معاشرے پر مرتب
    ہونے والے اثرات کو دانستہ یا نادانستہ طور پر نظر انداز کرنا ہے ۔

    پسند کی شادی کے معاملہ میں اسلام سے دلائل دینے والے اس وقت کے عرب معاشرے اور ہمارے
    موجودہ معاشرے کی نفسیات میں پائے جانے والے فرق کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جس سے غلط
    فہمیاں جنم لیتی ہیں ۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلام سے پہلے اور بعد میں وہاں عورتیں
    نکاح کا پیغام خود بھیجتی اور قبول یا رد کردیتی تھیں ۔ یہ اس معاشرے کی عام سی بات تھی
    اور اس کے محرکات آج کے محرکات سے یکسر مختلف ہوتے تھے ۔ ایسے میں حضرت خدیجہؓ کے عمل
    سے یہ تاثر دینا کہ یہی عمل ہر معاشرے میں اختیار کیا جاسکتا ہے ناانصافی اور لاعلمی پر
    مبنی ہے ۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ایسی عورتوں کو اس معاشرے میں کبھی غلط نہیں سمجھا
    گیا جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسی لڑکیوں کے بارے میں جو سوچ عام ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔
    چنانچہ جب معاشرے میں رائج اس سوچ کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا اور گھر سے نکل کر شادی
    کرنے والی لڑکیوں کے لئے اسلام کی تعلیمات سے دلیل ڈھونڈا جائے گا تو اس صورت میں یہ ان
    لڑکیوں کے ساتھ ظلم بھی ہے اور ان کی زندگیوں سے کھلواڑ بھی ۔

    خدارا ! اسلامی تعلیمات کو یوں اپنے نظریات کے لئے کتر و بیونت کی بھینٹ نہ چڑھائے اور
    نہ من پسند پہلو کو لےکر دوسرے پہلووں کونظر انداز کریں ورنہ اس کے نقصانات معاشرے میں
    بے چینی ،انتشار اور پریشانی کی صورت میں ظاہر ہوں گے جیسا کہ اس کے نتائج ہم روز
    دیکھتے ہیں ۔

  • بیٹی کی شادی از  انجینئر عمر حسین

    بیٹی کی شادی از انجینئر عمر حسین

    بیٹی کی شادی کے لئے ان کے پاس دو راستے تھے، یا تو ایک دینی مزاج رکھنے والے پڑھے لکھے مگر not well established لڑکے سے شادی کر دیں، یا پھر دین سے دور مگر امیر اور well established لڑکے سے کردیں۔۔۔۔!!
    انہیں پتا تھا کہ رزق دینے والا اللہ ہے، لیکن انہوں نے well established لڑکے کا انتخاب کیا، بات چلی اور پکی ہو گئی، شادی کی تاریخ بھی آن پہنچی،،، چونکہ وہ دین سے دور تھا، تو شادی میں نکاح کے خطبہ کے علاوہ کچھ بھی اسلام کی جھلک نظر نا آئی، لڑکے والوں نے جہیز سمیت دیگر مطالبات بھی رکھے جو پورے کرنے پڑے، خیر ہنسی خوشی شادی ہو گئی،، لیکن شادی کے اگلے مہینے لڑکے کی نوکری ختم ہوئی پھر ان کا خاندانی کاروبار ڈوب گیا، قرضے اتارتے اتارتے، وہ سڑک پر آگئے۔۔۔۔۔! چونکہ اس لڑکے اور اس کے خاندان کا دینی مزاج بھی کوئی خاص نہیں تھا، چنانچہ تازہ شادی کے باوجود گھریلو ناچاکی بھی پیدا ہو گئی۔
    ۔
    دوسری طرف دینی مزاج رکھنے والے مگر not well settled لڑکے کو ایک دینی مزاج رکھنے والی لڑکی کا ہی رشتہ مل گیا، ان کی بھی شادی ہو گئی، لیکن نا تو جہیز ہوا نا ہی مہندی، نا بارات آئی۔۔۔۔۔ سادہ طریقہ سے سنت نبوی ﷺ کے مطابق ،مسجد میں جمعہ کے وقت نکاح ہوا، تمام اخراجات سادگی کے ساتھ لیکن دولہے کے خاندان کی طرف سے ہی ادا ہوئے ۔ بغیر کسی بوجھ اور تکلف کے لڑکی کو رخصتی بھی ہو گئی۔ مغرب کے بعد ولیمہ تھا،جس میں سادگی سے لڑکے اور لڑکی کے قریبی عزیزوں نے شرکت کی. اگلے ہی ہفتے لڑکے کو اچھی خاصی تنخواہ پر نوکری مل گئی؛ چونکہ شادی کی بنیاد مکمل طور پر سنت نبوی ﷺ پر تھی، دونوں میاں بیوی اور سسرال میں محبت و الفت بھی خوب پیدا ہوئی۔۔۔ اور ہنسی خوشی زندگی گزرنے لگے۔

    میرے نبی محمد مصطفیٰ ﷺ اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سچ ہی فرمایا تھا۔۔ کہ
    رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ::: اگر تم لوگوں سے کوئی ایسا شخص رشتہ طلب کرے جس کا دین اور کردار تم لوگوں کو اچھا لگے تو اس کی(اپنی لڑکی، بہن بیٹی جس کا اس نے رشتہ طلب کیا ہو ، اس سے)شادی کر دو ، اگر تُم لوگ ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ ہو جائے گا اور بہت بڑا فساد ہو جائے گا ) سُنن الترمذی و سنن ابن ماجۃ

    وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا خرچ کم سے کم ہو۔ (بیہقی)

    حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے آسان ہو(مسند احمد)

    ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ ، اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے کے بارے میں تُم لوگوں کو جو حُکم دِیا ہے اُس میں اُس کی اطاعت کرو ، اللہ نے تُم لوگوں سے تونگری(رزق میں برکت) دینے کا جو وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرے گا ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا

    وَقَالَ عُمَرُ ، عَجِبْتُ لِمَنِ ابْتَغَى الْغِنَى بِغَيْرِ النِّكَاحِ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:
    اور عُمر (رضی اللہ عنہ ُ ) نے فرمایا ، میں اس کے بارے میں حیران ہوں جو نکاح کیے بغیر تونگری (غنیٰ /رزق میں برکت ) چاہتا ہے ، جبکہ اللہ عَز ّو جَلَّ تو کہتا ہے کہ، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا(معالم التزیل فی تفسیر القران، المعروف بالتفسیر البغوی)

    عن عبداللہ بن مسعود،،،التَمِسُوا الغِنَى فِي النِّکاح ،،، يَقُولُ اللہُ تَعالیٰ ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: ابن مسعود (رضی اللہ عنہ ُ)کے بارے میں روایت ہے کہ (انہوں نے فرمایا )نکاح میں تونگری تلاش کرو ،،، اللہ تعالیٰ کہتا ہے،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں(تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا ، ( تفسیر الطبری)

    اللہ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے یہ جو خبر کروائی ہے حق ہے کہ
    لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا :::اگر تُم لوگ اللہ پر توکل کا حق ادا کرتے ہوئے توکل کرو تو یقیناً وہ تم لوگوں کو اُس طرح رزق دے گا جِس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ خالی پیٹ صُبحُ کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ ہوتے ہیں(سُنن ابن ماجہ)

    بیٹی کی شادی کے لئے ان کے پاس دو راستے تھے، یا تو ایک دینی مزاج رکھنے والے پڑھے لکھے مگر not well established لڑکے سے شادی کر دیں، یا پھر دین سے دور مگر امیر اور well established لڑکے سے کردیں۔۔۔۔!!

    انہیں پتا تھا کہ رزق دینے والا اللہ ہے، لیکن انہوں نے well established لڑکے کا انتخاب کیا، بات چلی اور پکی ہو گئی، شادی کی تاریخ بھی آن پہنچی،،، چونکہ وہ دین سے دور تھا، تو شادی میں نکاح کے خطبہ کے علاوہ کچھ بھی اسلام کی جھلک نظر نا آئی، لڑکے والوں نے جہیز سمیت دیگر مطالبات بھی رکھے جو پورے کرنے پڑے، خیر ہنسی خوشی شادی ہو گئی،، لیکن شادی کے اگلے مہینے لڑکے کی نوکری ختم ہوئی پھر ان کا خاندانی کاروبار ڈوب گیا، قرضے اتارتے اتارتے، وہ سڑک پر آگئے۔۔۔۔۔! چونکہ اس لڑکے اور اس کے خاندان کا دینی مزاج بھی کوئی خاص نہیں تھا، چنانچہ تازہ شادی کے باوجود گھریلو ناچاکی بھی پیدا ہو گئی۔
    ۔
    دوسری طرف دینی مزاج رکھنے والے مگر not well settled لڑکے کو ایک دینی مزاج رکھنے والی لڑکی کا ہی رشتہ مل گیا، ان کی بھی شادی ہو گئی، لیکن نا تو جہیز ہوا نا ہی مہندی، نا بارات آئی۔۔۔۔۔ سادہ طریقہ سے سنت نبوی ﷺ کے مطابق ،مسجد میں جمعہ کے وقت نکاح ہوا، تمام اخراجات سادگی کے ساتھ لیکن دولہے کے خاندان کی طرف سے ہی ادا ہوئے ۔ بغیر کسی بوجھ اور تکلف کے لڑکی کو رخصتی بھی ہو گئی۔ مغرب کے بعد ولیمہ تھا،جس میں سادگی سے لڑکے اور لڑکی کے قریبی عزیزوں نے شرکت کی. اگلے ہی ہفتے لڑکے کو اچھی خاصی تنخواہ پر نوکری مل گئی؛ چونکہ شادی کی بنیاد مکمل طور پر سنت نبوی ﷺ پر تھی، دونوں میاں بیوی اور سسرال میں محبت و الفت بھی خوب پیدا ہوئی۔۔۔ اور ہنسی خوشی زندگی گزرنے لگے۔

    میرے نبی محمد مصطفیٰ ﷺ اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سچ ہی فرمایا تھا۔۔ کہ
    رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ::: اگر تم لوگوں سے کوئی ایسا شخص رشتہ طلب کرے جس کا دین اور کردار تم لوگوں کو اچھا لگے تو اس کی(اپنی لڑکی، بہن بیٹی جس کا اس نے رشتہ طلب کیا ہو ، اس سے)شادی کر دو ، اگر تُم لوگ ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ ہو جائے گا اور بہت بڑا فساد ہو جائے گا ) سُنن الترمذی و سنن ابن ماجۃ

    وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا خرچ کم سے کم ہو۔ (بیہقی)

    حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے آسان ہو(مسند احمد)

    ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ ، اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے کے بارے میں تُم لوگوں کو جو حُکم دِیا ہے اُس میں اُس کی اطاعت کرو ، اللہ نے تُم لوگوں سے تونگری(رزق میں برکت) دینے کا جو وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرے گا ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا

    وَقَالَ عُمَرُ ، عَجِبْتُ لِمَنِ ابْتَغَى الْغِنَى بِغَيْرِ النِّكَاحِ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:
    اور عُمر (رضی اللہ عنہ ُ ) نے فرمایا ، میں اس کے بارے میں حیران ہوں جو نکاح کیے بغیر تونگری (غنیٰ /رزق میں برکت ) چاہتا ہے ، جبکہ اللہ عَز ّو جَلَّ تو کہتا ہے کہ، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا(معالم التزیل فی تفسیر القران، المعروف بالتفسیر البغوی)

    عن عبداللہ بن مسعود،،،التَمِسُوا الغِنَى فِي النِّکاح ،،، يَقُولُ اللہُ تَعالیٰ ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: ابن مسعود (رضی اللہ عنہ ُ)کے بارے میں روایت ہے کہ (انہوں نے فرمایا )نکاح میں تونگری تلاش کرو ،،، اللہ تعالیٰ کہتا ہے،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں(تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا ، ( تفسیر الطبری)

    اللہ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے یہ جو خبر کروائی ہے حق ہے کہ
    لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا :::اگر تُم لوگ اللہ پر توکل کا حق ادا کرتے ہوئے توکل کرو تو یقیناً وہ تم لوگوں کو اُس طرح رزق دے گا جِس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ خالی پیٹ صُبحُ کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ ہوتے ہیں(سُنن ابن ماجہ)

  • دینی مدارس وجامعات پراعتراضات، کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟ مولانامحمدجہان یعقوب

    دینی مدارس وجامعات پراعتراضات، کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟ مولانامحمدجہان یعقوب

    جہان یعقوب ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ عدم برداشت ہے، مجموعی طور پر ہماری سوسائٹی سے برداشت و تحمل مزاجی رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی چیزکا جائزہ ایک مخصوص عینک سے لیتے ہیں اور رائے پہلے قائم کرچکے ہوتے ہیں جس میں کسی قسم کی تبدیلی کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے، اگرچہ زمینی حقائق کی روشنی میں ہماری وہ رائے غلط اور قابل اصلاح ہو، مگر ہم اپنی ہی رائے پر بے جا اصرار کرتے ہیں۔ ہمارا تیسرا المیہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی چیز کا منفی پہلو دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے ہم اکثر عدل و انصاف کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اس میں رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والے اداروں بالخصوص میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔ لیکن سارا نزلہ میڈیا پر بھی نہیں گرایا جاسکتا، کیونکہ اﷲتعالیٰ نے ہر انسان کو عقل و شعور کی نعمت عطا فرمائی ہے۔ جس سے کام لے کر درست نتیجے تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اسلام نے ہمیں انتہاپسندی نہیں ،حقیقت پسندی کا درس دیا ہے۔

    ہمارایہ دعویٰ نہیں کہ دینی مدارس ،جن میں ناظرہ قرآن مجید سے لے کر حفظ تک اور ابتدائی دینی تعلیم سے لے کر عالم ومفتی سطح کی تعلیم دینے والے تمام مدارس شامل ہیں،ہر قسم کی کمی و کوتاہی سے پاک ہیں ،نہ ہمارایہ دعویٰ ہے کہ مدارس میں اصلاح طلب کوئی بات نہیں ، لیکن یہ ضرور ہے کہ مدارس پر کیے جانے والے اکثر اعتراضات ایسے ہیں ،جنھیں عدل و انصاف کی میزان پر تولا جائے اور غیرجانب داری کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ان کی کوئی منطقی وواقعی حیثیت و حقیقت نظر نہیں آتی۔اس تحریرمیں ہماری کوشش ہوگی کہ مدارس پر ہونے والے بڑے بڑے اعتراضات کوسامنے رکھتے ہوئے حقیقت واقعہ سامنے لائی جائے۔

    مدارس ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ادارے ہیں، ان کا نظم و نسق ملکی قوانین کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے،ارباب مدارس حکومت کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔جس کے نظائر توبے شمار ہیں ،ان میں سے چند کے ذکر کوکافی سمجھتے ہوئے ہم زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔پرویز مشرف کے دور میں غیر ملکی طلبہ کاپاکستانی مدارس میں داخلہ این اوسی کے ساتھ مشروط کیا گیا،اس پر عمل کرتے ہوئے مدارس نے اپنے داخلہ فارم کے ساتھ دیگر دستاویزات کے ساتھ این اوسی لازمی کردی،بعد ازاں مزید قدغنیں لگائی گئیں تومدارس میں ان طلبہ کے داخلے کے دروازے سرے سے بند کردیے گئے،اب سوائے معدودے چند مدارس کے،کسی مدارسے میں غیر ملکی طلبہ نہیں اور جن مدارس میں ہیں،ان کی انتظامیہ کے پاس باقاعدہ وزارت خارجہ وداخلہ کے اجازت نامے موجود ہیں۔آرمی پبلک اسکول پر سفاکانہ حملے کے بعدجب ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے متفقہ طور پر دہشت گردوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا،تواہل مدارس نے اس کا خیرمقدم کیا،دہشت گردوں کے خلاف جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا، مدارس نے اس کی حمایت کی۔ مدارس کی رجسٹریشن سے لے کر جیوٹیکنگ تک، ہر قانون کومدارس نے بسر وچشم تسلیم کیا اورکسی قسم کی مزاحمت نہیں کی۔ آئے روز ایجنسیاں معلومات لینے کے لیے مدارس میں آتی ہیں،کسی مدرسے نے کبھی کسی ایجنسی کو نہیں روکا اور فوج وپولیس ہویاسول ایجنسیاں،سب کوخوش آمدیدکہا، کہ آپ ملک کی سرحدوں کے محافظ ہیں، آپ کو اس سلسلے میں ہماری طرف سے جو تعاون چاہیے ہم اس کے لیے تیار ہیں۔

    مدارس نے دورجدید کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نصاب تعلیم میں اصلاح و ترمیم سے کبھی انکار نہیں کیا۔ الحمدﷲ!تمام وفاق ہائے مدارس کی باقاعدہ نصاب کمیٹیاں ہیں، جو ضرورت کے تحت نصاب میں تبدیلی کرتی رہتی ہیں۔ مدارس کے نصاب میںسائنس وریاضی، معاشرتی علوم و مطالعہ پاکستان اور اردو و انگریزی نصاب کا لازمی حصہ ہیں۔مدارس میں باقاعدہ اسکول وکالج سسٹم قائم ہے،جس کا متعلقہ بورڈزسے الحاق ہے۔حال ہی میں انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں پنجاب بورڈ سے تینوں امتیازی پوزیشنیں لینے والے مدارس کے طلبہ تھے۔ مدارس کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی دے رہے ہیں۔ بڑے بڑے مدارس میں باقاعدہ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹس قائم ہیں، جو ٹیکنیکل بورڈ زسے منظورشدہ ہیں اور کورس کی تکمیل پر بورڈ زان طلبہ وطالبات کاامتحان لے کرباقاعدہ سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔ مدارس اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے اپنے طلبہ و طالبات کو جدید تعلیم سے بھی روشناس کرارہے ہیں،مدارس نے اپنے طلبہ و طالبات پر جدید تعلیم کے دروازے کبھی بند نہیں کیے،یونیورسٹیز میں جاکر دیکھا جاسکتاہے مدارس کے سیکڑوں طلبہ و طالبات M.A، ایم فل اور PH.D کررہے ہیں۔ مدارس میں ماس کمیونیکیشن کی تعلیم بھی دی جاتی ہے،میڈیاورکشاپس کے ساتھ ساتھ کئی مدارس میں اس کے باقاعدہ شعبے قائم ہیں۔مدارس کے سیکڑوں فضلااس وقت الیکٹرانک وسوشل میڈیامیں سرگرم خدمت ہیں ،پرنٹ میڈیامیں ان کی تعدادہزاروں سے متجاوز ہے،تقریباًہر مدرسے کا ہفت روزہ،ماہانہ یا سہ ماہی آرگن، علما و طلبا کے اخبارات میں شایع ہونے والے کالم و مضامین اورتصنیفی وتالیفی خدمات اس پر شاہد عدل ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اردو زبان کی خدمت میں مدارس عصری درس گاہوں سے کہیں آگے ہیں۔

    مدارس پرایک اورالزام بھی بہت عرصے سے لگایا جارہا ہے،وہ ہے دہشت گردی کا الزام،حالاں کہ آج تک کسی مدرسے میں جہادی ٹریننگ ثابت نہیں کی جاسکی۔ کسی مدرسے سے کسی قسم کاکوئی اسلحہ برآمد نہیں ہوا۔ کسی مدرسے نے کسی بھی عسکریت پسند گروہ کی حمایت نہیں کی۔ ہاں!یہ ضرورہے کہ ملک کے عظیم تر مفاد میں اہل مدارس نے ہمیشہ ریاست کا تعاون کیا ہے۔یہ نوے کے عشرے کی بات ہے،جب ریاست نے افغان جہاد اورروس کے سرخ ریچھ کوشکست دینے کے لیے مدارس سے نفری مانگی تھی، مدارس نے یہ نفری فراہم کردی،ان لوگوں کوجہادی ٹریننگ دی گئی،انھوں نے افغانستان میں اپنی کارروائیوں سے روس کوٹکڑے ٹکڑے کردیا، تب یہ لوگ مجاہد کہلاتے تھے۔ اب نائن الیون کے بعد، اگر ریاست کی پالیسی بدل گئی ہے اورنئی پالیسی کے مطابق یہ لوگ مجاہد سے دہشت گردکی سطح پر آچکے ہیں، تو ان لوگوں کے ہاتھ روکنا ریاست کا کام ہے نہ کہ مدارس کا۔ اس کا الزام مدارس کو دینا انصاف کے تقاضوں کے یک سر خلاف ہے۔اس کے باوجود مدارس سے پڑھے ہوئے کسی بھی فرد نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی انفرادی یااجتماعی طور پر کوشش کی ہے، تو ہمیشہ مدارس نے اس کے مقابلے میں ملکی قانون کوترجیح دی ہے۔ یہ بات بھی اب کوئی سربستہ راز نہیں رہی ہے کہ عسکریت پسند جماعتوں میں مدارس سے زیادہ کالجوں، یونیورسٹیوں کے لوگ ہوتے ہیں، آپ لشکر جھنگوی اورٹی ٹی پی سے جماعت الدعوہ ،حر کت المجاہدین اورجیش محمد تک،سپاہ محمد سے مجلس وحدت المسلین تک، خود تجزیہ کرکے دیکھ لیجیے، آپ ہم سے اتفاق ہی کریں گے، لیکن یہ انوکھی منطق ہے کہ اس بنیاد پر کالجز اور یونیورسٹیز پر دہشت گردی کا الزام نہیں لگایا جاتا۔بایں ہمہ، ملک کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مدارس کی مشترکہ تنظیم اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ نے ہمیشہ حکومت اور اداروں کو یہ پیشکش کی ہے کہ آپ کو کسی بھی مدرسے میں کوئی مشتبہ دہشت گرد کے بارے میں علم ہے تو ہمیں بتلائیں، ہم اسے آپ کے حوالے کریں گے۔ آپ کو کسی بھی مدرسے کے حوالے سے یہ تحقیق ہے کہ وہ مدرسہ قابل اعتراض سرگرمیوں میں ملوث ہے، تو ہمیں بتائیں ہم اس مدرسے سے لاتعلقی کا اعلان کردیں گے۔ انصاف سے بتلائیے! مدارس اس سے بڑھ کر کیا کرسکتے ہیں؟

    حکمراں طبقے کی طرف سے بڑے زوروشور سے یہ بات کی جاتی ہے کہ ہم مدارس کو ’’مین اسٹریم لائن ‘‘او’’ر قومی دھارے ‘‘میں لانا چاہتے ہیں۔ مدارس اس بات کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن اس کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ سرکاری ملازمتوں میں ہمارے طلبہ و طالبات کے لیے کوئی کوٹہ مختص نہیں،حکومت نے ہمارے اداروں سے پڑھے ہوئے ٹیلنٹڈافراد کو استعمال کرنے کے لیے کون سا موقع فراہم کیا ہے؟ اہل مدارس اوران طلبہ وطالبات کے سرپرست،سبھی یہ چاہتے ہیں کہ یہ لوگ، جن کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے، مدارس سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد’’ مین اسٹریم لائن‘‘ میں جائیں اور ملک و قوم کی خدمت کریں، لیکن جب وہاں خود ہی دروازے بند کردیے گئے ہیں، تو اس میں قصور کس کا ہے؟ کسی بھی کالج/یونیورسٹی میں جاکر معلوم کیجیے ہمارا کتنا بڑا طبقہ عصری تعلیم حاصل کررہا ہے،لیکن فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہونے کے باوجود وہ ملازمتوں سے محروم رہتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا کس کا کام ہے؟ کیا مدارس سے وابستہ ہونا اتنا بڑا جرم ہے کہ انہیں جائز اور قانونی حقوق سے بھی محروم کردیا جائے؟

    مدارس پر ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ اپنے ہاں پڑھنے والوں کی ایسی وضع قطع بناتے ہیں کہ وہ اپنے اس گیٹ اپ میں معاشرے کے لیے اجنبی نظرآتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ داڑھی پردہ اور کرتہ شلوار، مدارس کا مخصوص گیٹ اپ نہیں، یہ ہمارے نبی ﷺ کا عطاکردہ گیٹ اپ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ مغربی لباس پہنیں مولوی کو برداشت ہے، وہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا،کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ آپ کا انسانی حق ہے، جو آپ سے سلب نہیں کیا جاسکتا، پھر اگر مولوی اور طالب علم داڑھی اور کرتے شلوار کا استعمال کرتا ہے تو آپ اسے یہ انسانی حق دینے کے لیے آمادہ کیوں نہیں ہیں؟ پردہ مسلمان عورت کا پیدائشی حق اور دینی فریضہ ہے، آپ مسلمان عورت کو یہ حق دینے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں؟ کیایہ تنگ نظری نہیں کہ مولوی ومدرسہ تو آپ کی وضع قطع پر کوئی قدغن نہیں لگاتا اور آپ کو ان کی وضع قطع تک برداشت نہیں۔

    جہاں تک مدارس کے نظام میں خامیوں کا تعلق ہے تو اس سے انکار نہیں۔ ہزاروں طلبہ و طالبات کو چوبیس گھنٹے قیام و طعام اور صحت و تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں میں اگرخال خال کسی انتظامی خامی اور کمی کانظر آناکوئی انوکھی بات نہیں۔اخلاقی کمزوریاں بھی ہوسکتی ہیں،کیایہ سب کچھ ہاسٹلز میں نہیں؟ جہاں بھی اتنا بڑا مجمع ایک ساتھ رہے گا،وہاں اکّا دکّا کمزوریاں ہونالازمی امرہے، لیکن مدارس میں اس کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کے باوجود اس سلسلے میں مدارس میں بہتر سے بہتر انتظامات بھی کیے جاتے ہیں۔

    ہاں! ارباب مدارس پر ایک اعتراض،جوپورے زور وشور سے کیاجاناچاہیے،وہ یہ ہے کہ مدارس اپنے فضلاکومعاشی استحکام فراہم کرنے میں ناکا م ہیں،مدارس میں انتظامیہ اور عملے کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے۔اہل اہتمام کاشاہانہ کروفراوروہاں خدمات انجام دینے والوں کی ناگفتہ بہ مالی حالت،یہ ایک بہت بڑاسوالیہ نشان ہے۔مدارس کواس پر سنجیدگی سے غور کرناچاہیے کہ وہ آٹھ سے دس سال تمام علوم وفنون پڑھنے کے باوجوداپنے فاضل کو،جوان کے ہاں خدمات انجام دیتاہے،ایک چپراسی کے برابربھی مشاہرہ نہیں دیتے۔اس کے برعکس یہ بھی دیکھنے میں آتاہے کہ جولوگ عصری درس گاہوں کے پڑھے ہوئے ہیں اوران اداروں میں کوئی خدمت انجام دیتے ہیں،ان کامشاہرہ بھی معقول ہے ۔المیہ ہے کہ عربی وفارسی کی دقیق ترین کتابیں پڑھانے والوں ،جنھوں نے اس مقصد کے لیے اپنی عمریں وقف کی ہوتی ہیں،کی خدمات کی یہ قدرہے کہ ان کوایک مزدورکے برابربھی مشاہرہ نہیں ملتا،دوسری طرف مہتمم حضرات اوران کے چمچوں کے بیرونی دورے،پرتعیش زندگی،شاہانہ لائف اسٹائل ،بلاشبہ یہاں بھی امیرشہر اورغریب شہر والی وہ تفریق نظر آتی ہے،جوعارف شفیق نے اس شعر میں بیان کی ہے
    غریب شہر توفاقے سے مرگیا،عارف
    امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی
    اسی طرح مدارس کوایک قدم اور بھی اٹھاناچاہیے،وہ یہ کہ ان کی حب الوطنی کسی شک وشبہ سے بالاترہے،تاہم اگر وہ مشاہیر کے ایام پرتعطیل کرلیاکریں،توان کی حب الوطنی کوچارچاند لگ جائیں گے۔

    یاد رکھیے! ان مدارس اور علمائے کرام کے دم سے اﷲ تعالیٰ کا دین زندہ ہے، مدارس علوم دینیہ کے مراکز ہیں، انہیں قائم رہنے دیجیے، یہ دین اورقرآن وسنت کی نرسریاں ہیں،ان کی آبیاری کیجیے،حکیم الامت شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒکے اس خطبے میں موجودپیغام کوسمجھنے کی کوشش کیجیے،انھوں نے کہاتھا:

    ’’ان مکتبوں کے اس طرح رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو اس میں پڑھنے دو، اگر یہ مُلّا اور درویش نہ رہے تو پتا ہے کیا ہوگا؟ جو ہوگا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگرہندوستانی مسلمان ان دینی مدارس کے اثر سے محروم ہوگئے، تو بالکل ایسا ہوگا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی 800برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا ،اسلام کے ماننے والوں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا‘‘۔

  • مشاہیر کے ایام پر تعطیل ؟ . مولانامحمد جہان یعقوب

    مشاہیر کے ایام پر تعطیل ؟ . مولانامحمد جہان یعقوب

    محمد جہان یعقبجمہوری معاشرے کا حسن ہے کہ اس میں مشاہیر کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے ایام ولادت ووفات کو منایاجاتاہے۔پاکستان میں بھی اس کے قیام کے بعد سے تاہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔مشاہیر کے دنوں کو منانے کی وطن عزیزمیں ایک سب سے زیادہ رائج صورت یہ ہے کہ ان کے ایام وفات وولادت پر عام تعطیل کا اعلان کیا جاتاہے۔اس دن تعلیمی اداروں سمیت دفاتر کو تالالگتاہے۔یوں مشاہیر کے یہ ایام تفریح وآرام یا میل ملاقات کے ایام بھی بن جاتے ہیں کہ چھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملازمت پیشہ لوگ اس دن اپنے بچوں کے ساتھ تفریح پر نکل جاتے ہیں یااپنے جاننے والے دوست احباب اور بزرگوں سے ملاقات کی غرض سے ان کے ہاں چلے جاتے ہیں۔ان ایام میں چھٹی کایہ اضافی فائدہ ہے ،ورنہ اس کا جو اصل مقصدہے یعنی مشاہیر کو خراج عقیدت پیش کرنا،یہ بھی کسی نہ کسی حد تک یوں پوراہوجاتاہے کہ ان کی شخصیت اور خدمات کے حوالے سے ٹی وی چینلز پروگرام نشر کرتے ہیں،مذاکرے اور سیمینارزمنعقد کیے جاتے ہیں ،تقریبات کا اہتمام ہوتاہے،اور کم ازکم درجے میں اتنا توضرور ہوتاہے کہ خلاف معمول چھٹی ہوجانے پر بچے اپنے بڑوں سے پوچھتے ہیں کہ آج ویک اینڈ بھی نہیں ،پھربھی چھٹی کیوں ہے؟جس کے جواب میں انھیں چھٹی کی وجہ بننے والی شخصیت سے متعارف کرادیاجاتاہے۔چھٹی کے ان فوائد کے پیش نظر ان کی کسی نے مخالفت نہیں کی اور وطن عزیزکے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ان چھٹیوں کے قائل ہیں ۔
    ذوالفقار علی بھٹو کے بعدمیاں محمد نواز شریف وطن عزیزکے وہ دودسرے جہاندیدہ وانقلابی سربراہ ہیں جن کا نام تاریخ میں جہاں دوسرے متعددحوالوں سے یاد رکھاجائے گا،وہاں چھٹیوں کے حوالے سے بھی ان کی ’’اصلاحات‘‘بھلائی نہ جاسکیں گی۔یہ میاں صاحب کی خوبی ہے کہ انھوں نے دوسرے ایشوزکی طرح اس معاملے میں بھی اصلاحات فرمائیں۔ورنہ دوسرے حکم رانوں نے اس جانب توجہ نہ دی۔اپنے پہلے دورحکومت میں میاں صاحب نے جمعے کی چھٹی ختم کرکے اس کی جگہ اتوار کی عام تعطیل کافیصلہ کیا۔اس پر کئی حوالوں سے اعتراضات بھی کیے گئے ۔ایک قوی اعتراض تویہ سامنے آیاکہ چوں کہ جمعے کی چھٹی ذوالفقار علی بھٹوکا کارنامہ ہے،جس کی وجہ سے وہ تاریخ میں یاد رکھے جاتے،اس ڈر سے میاں صاحب نے اس کارنامے کی شکل مسخ کردی ہے۔مذہبی ودینی طبقات کی طرف سے جمعۃ المبارک کے تقدس واحترام اور فضیلت وانفرادیت کو سامنے رکھتے ہوئے اعتراضات کیے گئے۔قصہ کوتاہ ہرقسم کے اعتراضات ہوامیں تحلیل ہوکر رہ گئے اور میاں صاحب نے اپنے فیصلے کو برقراررکھا۔اسی طرح گزشتہ سے پیوستہ برس انھوں نے ترجمان حقیقت علامہ محمد اقبال ؒ کے یوم ولادت کی عام تعطیل ختم کرنے کا اعلان کیا۔اس اعلان کو جانے کیوں ٹھنڈے پیٹوں ہضم کیا گیا اور سیاسی ایوانوں میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی،شاید اس لیے کہ علامہ اقبال ؒ کے نظریات کے برعکس آج کل سیاست دانوں کی اکثریت لبرل ازم کی دل دادہ ہے۔خیر وجہ یہ تھی یا کوئی اور،بہر حال یہ فیصلہ بھی نافذالعمل ہوگیا۔اس موقع پر پیپلز پارٹی اپنے بانی قائد کو بھی بھول گئی،کہ یوم اقبال ؒ کی تعطیل بھی ان کا فیصلہ تھا۔سب سے پہلے بھٹو صاحب نے 1977 کو سالِ اقبال ؒکے طور پر منانے کا فیصلہ کیاتھا، پاکستان میں یوم اقبالؒ کی تقریبات اس وقت تک 21اپریل کویعنی شاعر مشرق کے یوم وفات پر ہوا کرتی تھیں ،مگر قومی سطح پر فیصلہ ہوا کہ اب 9نومبر کو یوم اقبال کے طور پر منایا جائے گا۔ہم یہ عرض کررہے تھے ’’وسیع ترقومی مفاد‘‘میں پی پی کویہ بات یاد نہ رہی اور اس نے میاں صاحب کے اس فیصلے کی،جوانھوں نے امرکاواپسی کے فوری بعد کیا تھا،قبول کیا۔چھٹیوں کے حوالے سے تیسری انقلابی اصلاح جومیاں صاحب نے کی ،وہ گزشتہ برس قلیتو ںکے مذہبی تہواروں پرچھٹی کی قراردادکی منظوری ہے،اب وطن عزیزمیں یوم پاکستان،یوم دفاع،یوم قائداعظم کی طرح ہولی،ایسٹر اوردیوالی بھی قومی دن ہیں ،ان میں بھی تعطیل کی جاتی ہے اور ذرائع ابلاغ ان تہواروں کے حوالے سے معلوماتی پروگرام نشر کرتے ہیں۔اس قراردادپر بحث کرتے ہوئے اوروں کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیراطلاعات جناب پرویز رشید کابھی یہ مانناتھا کہ پاکستان میں چھٹیوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔اس کایہ حل نہ نکالاگیاکہ اس قراردادکومسترد کیاجاتا،بلکہ یہ انوکھاحل پیش کیاگیاکہ پاکستان میں چھٹیوں کے معاملہ پر نظرثانی کرکے اقلیتوں کے تہواروں کی چھٹیوں کے لیے راہ نکالی جائے،سووہ راہ نکالی گئی اور اس کی زد میں مسلمانوں کے بڑے مذہبی تہواریعنی عیدین کی چھٹیاں آئیں۔
    جب بھی دین اسلام کی کسی اہم شخصیت کے ایام ولادت یاوفات وشہادت قریب آتے ہیں تویہ آواز اٹھتی ہے کہ ان کے دن کو بھی سرکاری سطح پر منایاجائے اور عام تعطیل کااعلان کیا جائے۔اٹھارہ ذی الحجہ حضرت سیدنا عثمان غنی ؓکا یوم شہادت ہے۔اس مناسبت سے ایک بار پھر یہ آواز اٹھائی گئی۔مطالباتی جلوس نکالے گئے۔ریلیاں نکالی گئیں۔اگرچہ مطالبہ کرنے والے بھی بخوبی یہ بات جانتے ہیں کہ ان کے اس مطالبے کو وفاقی حکومت کبھی بھی منظور نہیں کرے گی۔اس کی وجوہات کیاہیں؟یہ بات نہیں کہ حضرت عثمان غنی ؓ کی شخصیت اس کا استحقاق نہیں رکھتی،یہ بھی وجہ نہیں کہ وہ کوئی متنازع شخصیت ہیں،یہ وجہ بھی نہیں کہ ان کی چھٹی منظور کرنے سے ملک کسی قسم کی انارکی کا شکار ہوجائے گا۔ایسی کوئی وجہ نہیں،اس کے باوجودیہ چھٹی نہیں دی جاسکتی،یہ مطالبہ منظور نہیں کیا جاسکتا،یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔
    مطالبہ کرنے والوں سے اس کامدعامعلوم کریں تووہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اسے کوئی دین کا حصہ نہیں سمجھتے۔ہم ایک جمہوری معاشرے میں رہتے ہیں اور جمہوری طریقے سے ایک مطالبہ پیش کرتے ہیں۔اگرشکاگوکے غیر مسلم مزدوروں کی قربانی کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تعطیل کی جاسکتی ہے توایک خلیفہ راشد اور نبی اکرم ﷺ کے دوہرے دامادکے لیے یہ اقدام کیوں بروئے کار نہیں لایاجاتا؟ان کی چھٹی سے جب ملک کو معاشی طور پر نقصان نہیں ہوتایاہوتاہے مگر ان کی محبت میں گواراکرلیاجاتاہے،تویہاں پیمانے کیوں بدل جاتے ہیں؟ان کی بات میں کتناوزن ہے یہ ہم قارئین ہر چھوڑتے ہیں،ہمارانقطہ نظر مگر مشاہیر کے ایام پر تعطیل کے حوالے سے ذرامختلف ہے،وہ یہ کہ ان کے ایام پر دفاترمیں توچھٹی ہو،لیکن تعلیمی اداروں میں چھٹی نہ ہو،بس معمول کے تعلیمی وتدریسی عمل کو معطل کرتے ہوئے اس دن اور اس شخصیت کی اہمیت اجاگر کی جائے۔اس سلسلے میں ہم صرف عصری تعلیمی اداروں کی بھی بات نہیں کرتے،شکوہ ارباب وفاکے طور ہر اہل مدارس سے بھی یہ گلہ کرتے ہیں ،کہ آپ کے ہاں بھی اس حوالے سے غفلت کی جاتی ہے۔اگر سرکاران دینی شخصیات کے ایام پر تعطیل نہیں کرتی توآپ کے ہاں اس حوالے سے کون سی بیداری پائی جاتی ہے؟آپ کی حب الوطنی شک وشبہ سے کوسوں دور،لیکن یوم پاکستان،یوم دفاع،یوم قائد جیسے قومی تہواروں پر آپ کے ہاں چھٹی کیوں نہیں کی جاتی،چھٹی نہ سہی،ان دنوں کے حوالے سے کون سی آگہی فراہم کی جاتی ہے؟الاماشاء اللہ!اس سال یوم پاکستان کی مناسبت سے مدارس میں ہونے والی ہلچل کوسراہاجاناچاہیے،جونہیں ہوسکا،لیکن مدارس کو بھی اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانی ہوگی۔
    حاصل یہ کہ حضرت عثمان غنی ؓ ہوں یاکوئی اور دینی شخصیت،ان کے ایام کو سرکاری سطح پر منانے کااہتمام کیا جاناچاہیے۔ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے معلوماتی پروگرامزاور اخبارات کے خصوصی ایڈیشن ایک اچھاآغاز ہیں،اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں بھی تقریبات منعقد کی جانی چاہییں،چاہے وہ اسکولز،کالجز اور یونیورسٹیز ہوں یامدارس۔سیاسی جماعتوں کو بھی اس سلسلے میں تقریبات کا انعقادکرنا چاہیے،کیوں کہ خلفائے راشدینؓ،صحابہ کرامؓ ،اہل بیت اور بزرگان دین رحمھم اللہ ،کسی خاص طبقے کے نہیں ،ہم سب کے ہیں ۔

    مولانامحمد جہان یعقوب
    ریسرچ اسکالر وانچارج شعبہ تخصص فی التفسیر،جامعہ بنوریہ عالمیہ
    ڈپٹی ایڈیٹر: ہفت روزہ’’ اخبارالمدارس ‘‘کراچی،پاکستان

  • عنوان: اسلام فوبیا اور امریکہ مخالف نطریات  : کامریڈ فاروق بلوچ

    عنوان: اسلام فوبیا اور امریکہ مخالف نطریات : کامریڈ فاروق بلوچ

    جیسے جیسے ہم ایک سے بڑھ کے ایک سماجی، سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں، دنیا میں اسلام فوبیا بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے. جواب میں مسلم دنیا کے اندر امریکہ مخالف مہم میں بھی شدت آئی ہے. اسلام یا مسلمانوں سے نفرت کرنے والے لوگ اور امریکہ سے نفرت کرنے والے لوگ ایک دوسرے سے اجنبی ہیں، نہ ایک دوسرے سے شناسا ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے سے کوئی واسطہ ہے. اجنبیوں سے نفرت کی یہ روایت دراصل لبرل ازم کی ناکامی ہے. اور مزید گہرائی میں جائیں تو یہ لبرل ازم ہی کی پھیلائی ہوئی نفرت ہے. اسلام فوبیا دراصل تمام مسلمانوں سے بلاسبب و بلاوجہ ڈرنا اور نفرت کرنا ہے. اِسی طرح امریکی ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے امریکی عوام کیخلاف بڑھتی ہوئی نفرت بھی بےبنیاد ہے.

    لبرل ازم “اسلام فوبیا” کی وجہ سے دوہرے منافع میں ہے. ایک فائدہ تو یہ ہے کہ عراق، افغانستان، پاکستان، یمن اور شام میں جاری سامراجی جنگوں کا عالمی سطح پہ ایک صاف اور آسان جواز مل رہا ہے. دوسرا یہ کہ محنت کشوں اور غریبوں کو مذہبیت کی بنیاد پہ تقسیم کر کے اُن کو یک جا ہو کر طاقت بننے سے روکا جا رہا ہے. اِس کی تازہ مثال پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ بےبنیاد کشیدگی کے دوران پاکستانی اور بھارتی عوام کے مابین پائی جانے والی نفرت میں دیکھی جا سکتی ہے. کیسے میڈیا کے زور سے ریاستی سرپرستی میں انسانی آبادیوں سے نفرت سکھائی جاتی ہے. وگرنہ بھارت اور پاکستان کی عوام کی آپس میں لڑائی یا نفرت کی کوئی وجہ بنتی ہی نہیں ہے.

    امریکہ میں دائیں بازو کا رجحان اور سابقہ نوآبادیاتی ممالک کی کرپٹ حکمران اشرافیہ سامراج کی گھناؤنی سامراجیت کو جواز فراہم کرنے کیلیے تیسری دنیا کے ممالک اور خاص طور پر اسلامی ممالک میں پائی جانے والی امریکی مخالفت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں. بالکل اِسی طرح مسلم دنیا کے شدت پسند عناصر اپنی رجعتی پالیسیوں کے جواز کے طور پر امریکہ اور مغرب میں پائی جانے والی اسلام دشمنی کو پیش کرتے ہیں. تاہم جدلیاتی مادیت کے علمبردار مارکس وادیوں کو اِن مظاہر کے پیچھے طبقاتی اختلاف کو اجاگر کرنا چاہئے، کیونکہ اِس بےبنیاد تقسیم کے نتائج دنیا کی ورکنگ کلاس کو بھگتنے پڑتے ہیں.

    ہمیں یہ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ نسلی، قومی، جنسی اور مذہبی خطوط پر استحصال اور تقسیم حکمران طبقے کا آزمودہ ترین، قدیم ترین اور کامیاب ترین طریقہ کار ہے. یہ تعصبات محنت کش اور غریب طبقے کی بنیاد نہیں ہیں، بلکہ یہ تعصبات سرمایہ دار طبقہ اپنے منظم طریقے کو استعمال کرتے ہوئے اوپر سے نیچے کی پرتوں تک پہنچاتا ہے اور یوں یہ تعصبات منظم نظریات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں. اِس کے ثبوت موجود ہیں سی آئی اے اور NYPD انٹیلیجنس یونٹ کیسے اور کیونکر یہ “فرائض” سرانجام دیتے رہے ہیں. Weird.com نے ایف بی آئی کا ایک تربیتی ڈاکومنٹ “Leak” کیا تھا جس میں ایجنٹوں کو سکھایا گیا کہ کیسے ہر مسلمان پہ شک کرنا ہے، خاص طور پر کسی بھی متقی مسلمان کیسے خطرناک ہو سکتا ہے.

    ہم مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ مذاہب کوئی جامد نظریہ نہیں ہے کیونکہ سماجی تعلقات کی مادی بنیادیں ہی کسی بھی سماج کی اقدار جس میں مذہب بھی شامل ہے کا تعین کرتی ہیں. لہذا مذہب دنیا میں موجود تنازعات کی “بنیادی وجہ” (ROOT CAUSE) نہیں ہے. بلکہ اِن تنازعات کی بنیاد طبقاتی اختلافات ہیں. تنازعات کو جان بوجھ کر مذہبی بنیاد مہیا کی جاتی ہے. ہم دیکھ سکتے ہیں کہ 2008ء کے بعد سے امریکی سیاست کے مرکزی دھارے میں مسلمانوں کے خلاف گفتگو میں ایک واضح اضافہ ہوا ہے. حتی کہ اوباما کو اپنی صدارتی مہم کے دوران “مسلمان” ہونے کے “الزام” کا سامنا کرنا پڑا تھا. اوباما میں ایسی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ وہ اپنی مہم کے دوران “مذہب” کو ذاتی معاملہ ہی کہہ دیتا، بلکہ اوباما نے اپنے عیسائی ہونے کی گواہی دی. یوں مسلمانوں کو امریکی سماج میں بیگانہ کر دیا گیا.

    اُس کے بعد سے رو امریکی میڈیا میں اسلام فوبیا کی باقاعدہ سے مہم جاری ہو گئی. گلین بلیک کانگریس کے مسلمان اراکین سے باضابطہ ٹی وی پہ بیٹھ کر بحث کے دوران ثبوت مانگتا تھا کہ وہ مسلمان دہشت گردوں سے روابط میں نہیں ہیں، حالانکہ کانگریس کے تمام مسلمان اراکین نے جنگ کے حمایت میں ووٹ دیا. سابقہ صدارتی امیدوار ہرمن کین اور موجودہ صدارتی امیدوار ڈونلڈٹرمپ کی علی الاعلان اسلام دشمنی بھی تو ڈھکی چھپی نہیں ہے. یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر وہ کامیاب ہوگئے تو ADMINISTRATION میں کسی بھی مسلمان کو کوئی ذمہ داری نہیں دی جائے گی. ہرمن کین نے تو مساجد کی تعمیر تک پہ بھی پابندی عائد کرنے کی بات کی تھی. جبکہ ٹرمپ کی رائے میں اسلام کوئی مذہب نہیں ہے، بلکہ یہ محض ایک نظریہ ہے. یہ لبرل ایسے عوام کو مذہب اور مذہبی عقائد کی بنیاد پہ تقسیم کرتے ہیں.

    ایسی ہی طرز پہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں “امریکہ مخالف” خیالات کو پھیلا کر محنت کشوں کو لاعلم اور الجھا کر رکھا گیا ہے، تاکہ عوام چھوٹے چھوٹے جھوٹے اور بےبنیاد نان ایشوز میں الجھے رہیں اور اِن استحصال زدگان کی کوئی عالمگیر جڑت وجود میں ہی نہ آ سکے. مغربی، امریکی اور یورپی سماج میں موجود اسلام فوبیا کا وہی طریقہ واردات ہے جیسے تیسری دنیا کے ممالک خاص طور پر اسلامی ممالک میں امریکہ مخالف رجحانات پائے جاتے ہیں. یہاں تک کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے ترقی پسند عناصر بھی امریکہ دشمنی کے جھوٹے نعروں کے سامنے دبکے ہوئے نظر آتے ہیں.

    پوری دنیا کی معیشت بحرانوں کا شکار ہے، اور فلاحی بحٹ میں مسلسل کٹوتیاں کی جا رہی ہیں، محنت کش طبقے میں بےچینی بڑھ رہی ہے، لہذا یہ استحصال زدہ طبقہ اپنے حقوق کی جنگ شروع کرے گا. میں وثوق سے کہتا ہوں کہ لبرل طبقہ اپنے بورژوازی (سرمایہ دارانہ) اقتدار کے تحفظ کیلیے محنت کشوں اور غریبوں کی عالمی جڑت میں دراڑ ڈالنے کیلیے اِس مسئلے کو مزید بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا. ہم مارکس وادیوں پہ یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ ہم طبقاتی شعور پہ زور دیتے ہوئے محنت کش طبقے کی عالمگیر جدوجہد کی طرف مائل کریں.

  • مولانا مودودیؒ کی عصری مجالس کی سیر 1 ۔ معظم معین

    مولانا مودودیؒ کی عصری مجالس کی سیر 1 ۔ معظم معین

    معظم معین امولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی بلاشبہ بیسویں صدی کی ممتاز علمی شخصیت تھے۔ ان کے کام اور فکر نے جہاں پڑھے لکے ذہن کو اپنی طرف کھینچا وہاں عام آدمی بھی ان کی فکر اور دعوت سے متاثر ہوا۔ اپنی بے انتہا علمی اور سیاسی مصروفیات کے باوجود مولانا مودودی جب بھی اپنی رہائش گاہ 5-اے ذیلدار پارک اچھرہ لاہور میں موجود ہوتے تو نماز عصر کے بعد ان کے ہی گھر کے باغ میں ایک عام نشست ہوتی جس میں ہر طبقے اور ہر ذہنی سطح کے افراد شریک ہوتے اور یکساں فیض پاتے۔ یہ نشستیں اب تاریخ کا حصہ ہیں جن کی روداد محترم مظفر بیگ صاحب نے ایک کتاب میں سمو دی ہیں جس کا نام ‘5-۔اے ذیلدار پارک ‘ ہے۔ البدر پبلیکیشنز سے شائع ہونے والی یہ کتاب ایک خاصے کی چیز ہے۔ اس میں ساٹھ اور ستر کی دہائی کے پاکستان کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے شرافت اور حمیت کی سیاست جو اب ناپید ہو چکی ہے اس کی عظمت رفتہ بھی دکھائی دیتی ہے۔ مولانا مودودی کی شخصیت کا سحر پڑھنے والے پر آشکارا ہوتا ہے اور معاصر علمی شخصیات کے ساتھ مولانا کے تعلق پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اس دور کے عظیم عالمی و ملکی واقعات پر مولانا مودودی کے تبصرے بھی موجود ہیں۔ ہر طرح کے لوگوں کے سوالات کے جواب مولانا ایسے سمجھانے والے اور عام فہم اندازمیں دیتے کہ معاملے کی ساری نزاکت سوال کرنے والے کے ذہن میں واضح ہو جاتی۔ علمی زعم یا معمولی سوالوں پر سیخ پا ہونے کا انداز جو ہمارے مذہبی اسکالر ز کا طرہ امتیاز بن چکا ہے اس سےمولانا کا دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔
    موجودہ دور میں مولانا مودودی کے متعلق بے شمار غلط فہمیاں اور ابہام پائے جاتے ہیں جن میں سے بیشتر جان بوجھ کر پھیلائے گئے ہیں۔ہمارے دور کے نوجوانوں کی اکثریت جانے بغیر مولانا کی ذات پر کیچڑ اچھالتی نظر آتی ہے۔ اس کالم میں ہم آپ کو اس کتاب کے چند حصوں کی سیر کرائیں گے جس سے مولانا مودودی کی شخصیت ،ان کے انداز فکر اور اس دور کی سیاست کو سمجھنے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔

    ایک موقع پر ایک صاحب نے کہا مولانا آپ کی کراچی اور لاہور آمد پر “پیر مودودی” اور اس قسم کے دوسرے نعرے لگائے گئے ۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہےَ؟ تو مولانا نے جواب دیا میں ان تمام خطابات سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ میں نے اپنے لئے کبھی ان چیزوں کو پسند نہیں کیا ۔ میں چاہتا ہوں کہ خدا کے دین کی تھوڑی بہت جو خدمت میں کر سکتا ہوں وہ آخری وقت تک کروں اور میرے حق میں دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لے ۔ اس سے زیادہ میں اور کسی چیز کا طالب نہیں ہوں۔

    قائد اعظم ؒ کے بارے میں مولانا مودودیؒ سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے تحریک پاکستان کے دوران بارہا کہا تھا کہ پاکستان کا نظام اسلام کے مطابق چلایا جائے گالیکن ایسا کچھ ہو نہ سکا۔ اس پر مولانا مودودی نے کہا میں سمجھتاہوں کہ قائد اعظم ؒ نے اس سلسلے میں جو کچھ کہا اس میں وہ پوری طرح مخلص اور ایماندار تھے لیکن جو چیز اس مرحلے پر نہ سمجھی جا سکی وہ یہ تھی کہ کس قسم کی ٹیم اور کیسی سیرت کردار کے لوگ یہ مقصد پورا کر سکتے ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جب پاکستان بنا تو قائد اعظم اپنے اخلاص اور دیانت کے ساتھ اس ملک کے سب سے مظلوم انسان تھے اور یہی عالم مرکزی اسمبلی میں مولانا شبیر احمد عثمانی کا تھا۔ (اگست 1974)

    ایک موقع پر مولانا ابو الکلام آزاد کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے کہا ” مولانا آزاد ایک شریف النفس اوروسیع ظرف انسان تھے۔ وہ ان حضرات میں سے تھے جو گالیاں سنتے تو ہیں لیکن کبھی کوئی ان کی زبان سے کسی کے لئے گالی نہیں سنتا۔” (1974)

    ایک موقع پر ایک عرب طالبعلم نے مقامی اخبارات میں شائع ہونے والی فحش اور عریاں تصاویر کے متعلق عربی میں سوال کیا کہ کیا ایسی صورت میں اخبارات و جرائد کا مطالعہ جائز ہے؟ تو مولانا نے عربی میں ہی جواب دیاکہ آپ حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لئے اخبارات کا مطالعہ کریں جہاں تک مذکورہ تصاویر کا تعلق ہے اس کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔

    ایک اور سوال سے مولانا کی بصیرت ظاہر ہوتی ہے جب فلم انڈسٹری کے ایک صاحب نے سوال کیا کہ جس عورت کی کمائی حلال طریقے سے جمع کی ہوئی نہ ہو کیا وہ حج پر جا سکتی ہے؟ مولانا نے جواب دیا ” بہتر تو یہ ہے کہ حج کے لئے حلال آمدنی اکٹھی کی جائے لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو آپ اسے حج سے روکنے والے نہ بنیں۔ رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص کے بارے میں عرض کیا گیا کہ وہ رات کو چوری کرتا ہے اور دن کو نماز پڑھتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو یا تو چوری اس سے نماز چھڑوا دے گی یا نماز اس سے چوری چھڑوا دے گی۔”

    سوال کیا گیا کہ کیا انسان اپنے جسم کا کوئی عضو مرنے کے بعد عطیہ کر سکتا ہے؟ مولانا نے جواب دیا کہ “اصل سوال یہ ہے کہ آپ اپنے جسم کے مالک خود کب ہیں؟مذہب ہی نہیں قانون بھی آپ کو اپنے جسم کا مالک قرار نہیں دیتا۔اگر آپ اپنے جسم کے مالک ہیں تو پھر آپ کو خود کشی کی اجازت کیوں نہیں۔ اب جس جسم پر آپ کو اپنی زندگی میں اختیار حاصل نہیں مرنے کے بعد کیوں ہو گا۔ ایسی کوئی اجازت قانون دیتا ہے تو وہ قانون کا سقم ہے مذہب کانہیں۔”

    بہت سے سوالات آج کے حالات کے تناظر میں بھی اہمیت کے حامل ہیں ۔

    قادیانیت سے تائب ایک نوجوان نے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے آنجہانی والد کی قبر پر جا کر دعا کر سکتے ہیں؟ مولانا مودودی نے جواب دیا “آپ قبر پر تو جا سکتے ہیں لیکن دعائے مغفرت نہیں کر سکتے۔” نوجوان نے سر جھکا لیا۔ مولانا نے مزید فرمایا” آپ اس مسئلے کو اس طرح سمجھ لیجئے کہ اگر آپ اپنے والد کی زندگی میں انتقال کر جاتے تو آپ کے والد ہرگز آپ کے جنازے میں شریک نہ ہوتے اور نہ دعا کرتے۔”

    ایک نوجوان نے سوال کیا کہ یہ جو طوفان اٹھتے ہیں سیلاب اور زلزلے آتے ہیں کیا انہیں عذاب الٰہی قرار دیا جا سکتا ے؟ جواب دیا اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ ان کی حیثیت عذاب کی نہ بھی ہو’ یہ تنبیہات ضرور ہوتی ہیں۔انسان کے دماغ میں یہ جو غرہ ہے کہ اس نے بڑی ترقی کر لی ہے ایک زلزلہ آ کر اس پر واضح کر دیتا ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔ زلزلہ آنے سے ایک سیکنڈ پہلے بھی یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ زلزلہ آنے والا ہے۔ نوجوان نے کہا سوات کے لوگ عموماً نماز روزے کے پابند ہیں پھر وہاں کیوں زلزلہ آیا۔ مولانا نے جواب دیا “جاننا چاہئے کہ اللہ کے اچھے بندوں پر جو مصیبتیں آتی ہیں وہ ان کے درجات بلند کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ بظاہر مصیبت ایک جیسی ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا معاملہ نافرمان بندوں کے ساتھ وہ نہیں ہوتا جو اپنے فرمانبردار بندوں کے ساتھ ہوتا ہے۔”
    پوچھا گیا کہ کہا جاتا ہے امت محمدیہ ﷺ پر کوئی عذاب نہیں آئے گا اس کا کیا مفہوم ہے؟ مسلمانوں پر آفتیں تو آتی رہتی ہیں۔ جواب دیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا کوئی عذاب نہیں آئے گا کہ یہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔

    ایک مرتبہ گھر کے باغ کے چند درختوں کو کٹوا دیا گیا۔ مولانا نے دیکھا تو پوچھا کیوں کٹوائے گئے؟ بتایا گیا کہ ان کے پھل کو کیڑا لگ گیا تھا۔ مولانانے جواب دیا
    “ان کے پھل کو کیڑا لگ گیا تھا ان کے سائے کو تو کیڑا نہیں لگا تھا۔”

    ایک نوجوان نے سوال کیا جو صاحب ایمان اچانک کسی حادثے میں مر جائے یا کسی ناگہانی آفت زلزلے وغیرہ یا مظلومانہ طریقےسے مارے جائیں کیا انہیں شہید کہا جا سکتا ہے؟ مولانا نے جواب دیا جی ہاں! کہا جا سکتا ہے اگرچہ اس کا درجہ وہ نہیں جو جہاد فی سبیل اللہ میں شہادت پانے والے کا ہے۔نوجوان نے پوچھا پھر انہیں شہید سمجھنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ جواب ملا اللہ تعالیٰ نے اپنے صاحب ایمان بندوں کو جو رعایات دے رکی ہیں ان میں سے ایک رعایت یہ بھی ہے۔ لیکن بہرحال اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرے گا کہ کون صاحب ایمان ہے اور کون نہیں۔ وہی بہتر جانتا ہے۔

    ایک صاحب نے کہا کیا یہ حقیقت نہیں کہ خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے جو حکومت میں ہوتا ہے؟ مولانا نے جواب دیا یہ تو آپ نے بڑی عجیب بات کہہ دی کیا حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کی کشمکش میں اللہ تعالیٰ فرعون کے ساتھ تھا؟ خدا حق کے ساتھ ہوتا ہے’ محض اقتدار کے ساتھ نہیں۔

    ایک صاحب نے سوال کیا کیا اسلام نیشنیلٹی کے خلاف ہے؟ جواب دیا اسلام نیشنیلٹی کا نہیں نیشنلزم کا مخالف ہے۔ نیشنیلٹی تو انسانوں کی تقسیم کا فطری اظہار ہے۔ اسلام کی نگاہ میں قوم ہونا کوئی جرم نہیں قوم پرست ہونا جرم ہے۔

    ایک نوجوان نے سوال کیا کہ آج یہودی جس طرح عالمی سیاست پر اثر انداز ہو رہے ہیں اس کا سبب کیا ہے؟ مولانا نے جواب دیا اس کی ایک وجہ امریکی سرپرستی ہے۔ آج امریکہ میں برسراقتدار آنے کی کوشش کرنے والے کسی گروہ کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ یہودیوں کے ووٹوں کو نظر انداز کر سکے۔ چناچہ ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے وہ ان کے مطالبات پورے کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا ہوا ہے۔ لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو ہمیشہ قائم رہ سکے۔ امریکہ کے ہوشمند انسانوں کو اس کااحساس ہو رہا ہے کہ ہم یہودیوں کی خاطر کس سطح پر اتر آئے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کب لیکن جلد یا بدیر امریکہ میں بھی یہودیوں کا وہی انجام ہوسکتا ہے جو جرمنی میں ہوا۔ وہاں انہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد جو کردار ادا کیا اور جرمنی کو اس کا جو نقصان پہنچا اس سے ہٹلر کے دل میں ان کے خلاف گرہ بیٹھ گئی۔ بعد میں ان کا جو قتل عام ہوا اس کا پس منظر یہی تھا۔ایک صاحب نے کہا کیا دور حاظر میں کوئی ایسی مثال بھی ملتی ہے جس سے پتہ چلتا ہو کہ یہودی عالم انسانی کی خدمت یا تعمیر میں کوئی حصہ لے رہے ہیں؟ کہا نہیں بلکہ اس کے بر عکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جو فتنہ بھی اٹھ رہا ہے اس میں بالعموم یہودی دماغ اور یہودی سرمایہ ہی کام کر رہا ہے۔ سوشلزم اورکمیونزم ایک یہودی دماغ ہی کی تصنیف ہیں۔ فرائڈ کا فلسفہ بھی انہی کے ایک فرد کی اختراع ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی خبر رساں ایجنسیاں اور بہت سے کثیر الاشاعت پرچے یہودیوں کے زیر اثر ہیں یا ان کی ملکیت میں ہیں۔ اور اسی لئے مسلمانوں میں سیکولرازم اور فکری انتشار پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
    ایک نوجوان نے کہا مولانا قرآن مجید میں یہودیوں کے لئے ذلت و مسکنت کے الفاظ آئے ہیں ۔ لیکن آج وہ ایک خطہ زمین پر قابض ہیں۔ مولانا نے جواب دیا اگر لٹیرے کسی بستی پر قبضہ کر یں تو اس سے ان کے لٹیرے ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑ سکتا؟ یہی ایک حقیقت کہ اس وقت کوئی فتنہ ایسا نہیں ہے جس کے پھیلانے میں ان کا ہاتھ نہ ہو ان کی ذلت کو ظاہر کرتا ہے۔ فتنوں اور سازشوں کے بل پر جینا کسی قوم کے لئے باعث عزت نہیں ہو سکتا اور نہ یہ اس کے بقا کی کوئی مستقل ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عبرت کے طور پر دنیا میں باقی رکھ چھوڑا ہے ۔ اس لئے کبھی کبھی انہیں پاؤں جمانے کا موقع بھی دے دیتا ہے۔ لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کس وقت ایسا مرحلہ ختم ہو جائے اور کب سزا کا دوبارہ آغاز ہو جائے۔
    پوچھا گیا اس سلسلے میں عالم اسلام کے بچاؤ کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ مولانا نے کہا ہم قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوں تو کوئی فتنہ ہمارے لئے فتنہ نہیں بن سکتا۔ قرآن حکیم اور رسول ا للہ ﷺ کی سیرت پاک نے ہر دور میں ہماری رہنمائی کی ہے اور ہماری حفاظت بھی۔عیسائی دنیا جس آسانی کے ساتھ صیہونی عزائم کا شکار ہوئی ہے اس سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ اس نعمت سے محروم تھی جو قرآن و سنت کی صورت میں مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ (جولائی 1976)

    ایک صاحب نے ایک کاغذ سامنے رکھا اور فتویٰ مانگا۔ مولانا مودودی نے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میں فتویٰ نہیں دیا کرتا۔ اگر کوئی صاحب کسی مسئلے پر رائے پوچھتے ہیں تو اپنی رائے بیان کر دیتا ہوں لیکن فتویٰ نہیں دیتا۔

    اس دور میں مولانا کی مقبولیت کا اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ عید کے موقع پر لاتعداد خطوط اور عید کارڈز 5۔اے ذیلدار پارک میں موصول ہوئے ان میں ایک عید کارڈ ساتویں جماعت کے بچے کا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسے مولانا کا ایڈریس معلوم نہیں تھا لہذا اس نے اخبار میں سے مولانا کی تصویر کاٹ کر لفافے پر چپکا دی تھی اور وہ کارڈ بخیریت مولانا تک پہنچ گیا تھا۔

    ایک سفید ریش بزرگ نے کہا آپ جب اپنے رب کے حضور حاظر ہوں گے تو خاص طور پر اپنا کون سا کارنامہ اس کے سامنے رکھیں گے؟ مولانا نے کہا ہم تو اس کی رحمت سے امید لگائے بیٹھے ہیں ۔ وہ کسی بات کو قبول فرمالے تو یہ اس کا کرم اور ہماری خوش نصیبی ہو گی۔ ان صاحب نے الفاظ بدل کر اپنا سوال دھرایا تو آپ نے کہا ہمارا تو سارا انحصار اس کی رحمت پر ہے۔ ہم فقط اس کی رحمت کے طلب گار ہیں۔ (جاری ہے)